ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی

اسپیشل فیچر

تحریر :


ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اپنی علمی و ادبی استعداد‘ تدریسی‘ تحقیقی اور تنقیدی مقام و مرتبہ اور اقبال شناسی کے حوالے سے ملکی ہی نہیں بین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں۔ انھوں نے تقریباً۵۳ برس کالجوں اورپنجاب یونی ورسٹی میں درس وتدریس کے فرائض انجام دیے۔اس کے ساتھ ساتھ وہ علمی واد بی تحقیق میں بھی مصروف رہے۔ بیرونی ممالک میں اقبال پر کانفرنسوں میں پاکستان کی نمائندگی بھی کی۔ آپ دائتوبنکایونیورسٹی ٹوکیو جاپان میں فروری مارچ 2002ء میں وزیٹنگ سکالر رہے۔ ایچ ای سی ایمی نینٹ پروفیسر کے طور پرشعبہ اقبالیات پنجاب یونیورسٹی لاہور سے منسلک رہے۔ علاوہ ازیں وہ طویل عرصے تک اقبال اکادمی پاکستان سے وابستہ چلے آرہے ہیں۔آپ اقبال اکادمی کے تاحیات رکن اوراس کی گورننگ باڈی اورایگزیکٹوباڈی کے بھی رکن ہیں۔اس کے علمی رسالے’’اقبالیات‘‘کی بلکہ بہت سے دوسرے علمی وتحقیقی مجلوں کی ادارتی اورمشاورتی مجالس میں بھی شامل ہیں۔اس کے علاوہ آپ ادبی کمیٹی بزم اقبال لاہور کے بھی رکن ہیں۔اسی طرح آپ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ اردواورشعبہ اقبالیات اور بورڈ آف ایڈوانس سٹڈیزاینڈ ریسرچ کے ساتھ کئی طرح سے منسلک رہے ہیں۔ آپ کو علمی و ادبی اور تحقیقی خدمات کے اعتراف میں کئی اعزازات کا حق دار قرار دیا گیا جن میںداؤدادبی ایوارڈ1982ء،بیسٹ یونی ورسٹی ٹیچرزایوارڈ2000ء اورقومی صدارتی اقبال ایوارڈ 2005ء اہم ہیں۔ آپ کی چالیس سے اوپرتصنیفات اردوزبان وادب کے حوالے سے تحقیقی وعلمی سطح پر بے حد اہمیت کی حامل ہے۔ ہماری خوش قسمتی کہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے ساتھ ملاقات کا موقع میسر آیا جس کا احوال معزز قارئین کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔س:آپ یونیورسٹی میں آپ اوّل آئے؟ج:جی ہاں،اوّل آیااوراس بناپریونیورسٹی گولڈمیڈل ملا۔اسی طرح انجمن ترقیٔ اردو پاکستان کی طرف سے’’ تمغائے بابائے اردو‘‘بھی ملا۔س:اچھاڈاکٹرصاحب،لکھناکب شروع کیا؟ج: لکھنے لکھانے کاسلسلہ سکول کے زمانے سے شروع ہوا۔ ایف اے کے زمانے میں کچھ افسانے اورانشایے لکھے اور کچھ طنزومزاح بھی۔لیکن جب ایم اے میں پہنچا تو میری توجہ تحقیق اور تنقید کی طرف زیادہ ہوگئی۔ لیکن تخلیق سے بھی تعلق برقراررہااور ابھی تک یہ تعلق قائم ہے۔ دو سفر نامے شائع ہو چکے ہیں۔ ایک اندلس کا ’’پوشیدہ تری خاک میں‘‘ اور دوسرا جاپان کا ’’سورج کو ذرا دیکھ‘‘ اس کے علاوہ بھارت ،برطانیہ اورشمالی علاقہ جات کے اسفارکی رودادیں بھی لکھی ہیں کچھ مزیدسفرنامے لکھنا چاہتاہوں مگرتحقیقی مشاغل مہلت نہیں دیتے۔س:اچھا،کچھ عملی زندگی کے بارے میں بھی…ج:عملی زندگی ،اس میں صحافت میں جانے کے خاصے مواقع تھے مگرمزاجی مناسبت مجھے درس وتدریس سے تھی،اس لیے سوچا کہ پڑھنا پڑھانا بہتررہے گا۔شروع میں مجبوراً کچھ عرصہ اخبار، رسالوں میں کام کیاپھرجونہی موقع ملا،تدریس میں آگیا۔ غزالی کالج جھنگ صدر‘ ایف سی کالج لاہور‘ میونسپل کالج چشتیاں‘ انبالہ مسلم کالج سرگودھامیں پڑھاتا رہا پھر جب گورنمنٹ سروس میں آگیا تو گورنمنٹ کالج مری‘ گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھایا۔ یہاں سے میں 1982ء میں پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج کے شعبہ اردو میں آگیا اور 2002ء میں یہیں سے ریٹائر ہوا۔ مزیددو برس پڑھایا لیکن اب مصروفیت لکھنے پڑھنے اور تحقیق و تصنیف ہی کی ہے۔ویسے یونی ورسٹی سے تعلق کئی طرح کااب بھی قائم ہے۔دائرہ معارف اقبال کے لیے ان دنوں کچھ مقالات زیرتحریرہیں۔س: اقبالیات آپ کا مرغوب موضوع رہا۔ تخصیص کے ساتھ اس سے وابستگی اور اسی میں تحقیق کے کیا محرکات تھے؟ج: ایک تو یہ تھا کہ ایم اے اردو کے نصاب میں علامہ اقبال کے مطالعے کا ایک پورا پرچہ ہے جس میں ان کی شاعری اور ان کے افکار کا تفصیلی مطالعہ ہوتا ہے۔ یہ پنجاب یونیورسٹی کا اعزاز ہے کہ اس کے ایم اے اردواورفارسی کے نصاب میںاقبالیات کا پورا پرچہ شامل ہے۔توایک وابستگی تویہ تھی۔ دوسرے اس سے پہلے میرے گھر کا ماحول اور خاندانی پس منظر بھی اقبال کی جانب رغبت دلانے کے لیے سازگار تھا۔ میں جب پانچویں یا چھٹی جماعت میں تھا‘ ہمارے گھر میں بانگِ درا کا ایک نسخہ ہوتا تھا۔ میں اس کو کبھی کبھی دیکھتا تھا۔ اس میں شروع کی بعض نظمیں مثلاً’’پرندے کی فریاد‘‘یا’’ایک مکڑا ور مکھی‘‘یا’’ہمدردی‘‘وغیرہ دلچسپ محسوس ہوتی تھیں تویہ چیز اقبال سے ابتدائی دلچسپی کا سبب بنی۔ پھر ایف اے کے زمانے میں’’بالِ جبریل‘‘ میرے ہاتھ لگی۔ چھٹیوں کا زمانہ تھا، بار بار پڑھنے سے بہت سا حصہ مجھے یا دہوگیا ۔جب ایم اے میں اقبال کوپڑھا تو سب پچھلی باتیں تازہ ہوگئیں اور اس طرح وہ سلسلہ آگے چلتا رہا۔اس کے بعد میں نے پی ایچ ڈی کیا جس کے لیے میرے مقالے کا موضوع تھا ’’تصانیف اقبال کا تحقیقی اور توضیحی مطالعہ‘‘ وہ مقالہ تین مرتبہ چھپا ہے۔یوںزیادہ تر میری توجہ اقبال پر ہی رہی ہے۔ اقبالیات پرمیری چھوٹی بڑی بیس کتابیں ہیں۔ مثلاً’’ اقبال کی طویل نظمیں‘‘ میری سب سے پہلی کتاب ہے۔ وہ 1974ء میں چھپی تھی اب تک اس کے سات آٹھ ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ س: ڈاکٹر صاحب! آپ نے پی ایچ ڈی کے لیے ’’تصانیف اقبال کا تحقیقی اور توضیحی مطالعہ‘‘ کا موضوع منتخب کیا۔ اس میں اقبال کی تمام کتب اور ان میں شامل نظمیں‘ غزلیں‘ قطعات‘ رباعیات اور فردیات سب کچھ آ جاتا ہے، ان سب کا احاطہ کرنا آپ کے لیے کس قدر مشکل رہا۔ ج: اس میں جو تحقیقی مطالعہ تھا وہ اس طرح تھا کہ اقبال نے اپنی شاعری اور نثر کو کیسے جمع کیا اور کب اور کیسے شائع کیا مثلاً ان کی پہلی کتاب نثر میں چھپی ’’علم الاقتصاد‘‘ 1904ء میں۔ شاعری میں سب سے پہلی کتاب ’’اسرارِ خودی‘‘ پھر ’’رموزِ بے خودی‘‘ پھر ’’پیامِ مشرق‘‘ اُس کے بعد’’بانگِ درا‘‘ چھپی ہے۔ ان سب اورباقی کتب کی بھی اشاعت کی کیا تاریخ وترتیب ہے؟ یہ بھی تھا کہ ایک کتاب ایک بار چھپنے کے بعد جب دوسری مرتبہ چھپتی تھی تو علامہ اقبال اس میں ترمیم کرتے تھے۔ وہ ترامیم کیا تھیں تحقیقی اعتبار سے ان کی نشاندہی اوران کاکھوج لگاناضروری تھا کیونکہ اس سے شاعر کی ذہنی تبدیلی کا پتا چلتا ہے۔ اقبال نے بعدکے ایڈیشنوں سے بعض اشعار نکال دیے اور ان کی جگہ نئے شعر شامل کر یے مثلاً اسرارِ خودی، میں حافظ شیرازی کے بارے میں بڑے سخت شعر تھے لوگوں نے بڑے اعتراض کیے۔ اکبر الٰٰہ آبادی اور خواجہ حسن نظامی بھی ناراض ہوئے تو دوسرے ایڈیشن میں انھوں نے ان اشعار کو نکال دیا۔ جب تیسرا ایڈیشن آیا تو اقبال نے پھر ترامیم کیں تو میں نے اپنے مقالے میں وضاحت کے ساتھ ان سب ترامیم اورتبدیلیوں کی وضاحت کی جومختلف شعری مجموعوںمیںعلامہ اقبال نے کیں۔ مثلاً ’’بانگ درا‘‘ کا تیسرا ایڈیشن حتمی نسخہ ہے۔ اسی طرح’’ پیامِ مشرق‘‘ کا دوسرا ایڈیشن اس کا حتمی نسخہ ہے۔ اس لیے اقبال کی فکر کا مطالعہ کرنے کے لیے ان کی ذہنی تبدیلیوں کے بارے میں تحقیق کرنا ضروری تھا۔ اوریہ کام بہت پھیلا ہوا تھا کیونکہ ان کی چار کتابیں اردو کی ہیں سات فارسی کی ہیںپھر نثر کی کتابیں ہیں۔ اس کے علاوہ علامہ کے انگریزی خطبات ہیں جنھیں خطبات مدراس بھی کہتے ہیں اس کے دوسرے ایڈیشن میں بھی تبدیلیاں کی گئیں، میںنے ان کی بھی نشاندہی کی۔ یہ سارا کام اس لحاظ سے تحقیقی اہمیت کا حامل ہے کہ اب جو لوگ اقبال پر تحقیق کرتے ہیں انھیں اس مقالے سے رہنمائی ملتی ہے ۔ س: ڈاکٹر صاحب! علامہ اقبال اپنے نظریات اور تخلیقی عمل میں کن شخصیات سے متاثر تھے جبکہ ان کا زمانہ برصغیر میں مسلمانوں کے زوال اور آشوب کا تھا؟ج: علامہ اقبال کی فکر اوران کے نظریات دراصل ان کی شخصیت کاعکس ہیں،اوراقبال کی شخصیت کی تشکیل میں تین افراد کا بنیادی عمل دخل ہے۔ ایک تو خود ان کے والد تھے جو بڑے دُرویش منش اور صوفی بزرگ تھے۔ انھوں نے لڑکپن ہی سے اقبال کی تربیت ایک خاص نہج پر کی ،مثلابیٹے کویہ نصیحت کی کہ قرآن پاک کو ایسے پڑھاکرو جیسے یہ تم پرنازل ہورہاہے۔یاجیسے یہ تمھارے جسم و جاں کا حصہ بن رہا ہے۔دوسری شخصیت مولوی سید میر حسن کی ہے۔ان کا بھی اقبال پر بڑا گہرا اثر ہے۔ وہ ان کے استاد تھے اوراقبال کے اندرعلمی وادبی ذوق پروان چڑھانے میں ان کابڑادخل ہے۔تیسرے شخص پروفیسرآرنلڈتھے، جو فلسفے کے استاد تھے۔ ان کا اقبال پراتنا اثر تھا کہ ا قبال نے پروفیسر آرنلڈ کے لیے نظم لکھی ’نالۂ فراق‘ جو بانگِ درا میں شامل ہے۔ وہ جب یہاں سے ریٹائر ہو کر جا رہے تھے تواقبال نے یہ نظم لکھی تھی’’تیرے دم سے تھا ہمارے سر میں بھی سودائے علم‘‘ اور یہ پوری نظم اقبال پرآرنلڈ کے احسانات اور فیوض کااعتراف ہے۔ اس نظم کاایک اورمصرع ہے ’’توڑ کر پہنچوں گا میں پنجاب کی زنجیر کو‘‘۔ 1904ء میں یہ نظم کہی اور 1905ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے اقبال آرنلڈ کے پیچھے پیچھے انگلستان پہنچ گئے اور تین سال میں کیمبرج‘ لنکنز ان اور میونخ سے تین ڈگریاں حاصل کیں۔ تویہ تین ہستیاں ہیںجنھوں نے اقبال کی شخصیت کی تشکیل کی۔ ویسے میں سمجھتاہوں کہ اقبال کو صاحب اقبال اور باکمال بنانے میں ان کی والدہ اورسکاچ مشن کالج اورکیمبرج کے ان کے اساتذہ کابھی خاصا دخل ہے۔س: ڈاکٹر صاحب! علامہ اقبال کے نزدیک مسلمانوں کے لیے الگ ریاست کے کیا خدوخال تھے اور وہ اس کے لیے کیسا نظام پسند کرتے تھے؟ج:اقبال نے جس ریاست کی بات کی ہے،اس کابنیادی نکتہ یہ ہے کہ حاکمیت یاساورنٹی صرف اللہ تعالیٰ کی ہے،یعنی ’’سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتاکوہے‘‘۔اقبال مغربی جمہوریت کے خلاف تھے کیونکہ اس میں حاکمیت عوام کی ہوتی ہے مگر اقبال عوام کو نہیں اللہ تعالیٰ کو حاکم مانتے ہیں۔کہتے ہیں’’حکمراں ہے اک وہی ،باقی بتانِ آزری‘‘۔معاف کیجیے اقبال کی نظر میں تو ہم آج کل بتانِ آزری کو پوج رہے ہیںاور اسی لیے خوار ہورہے ہیں۔…رہی یہ بات کہ اقبال کیسانظام پسند کرتے تھے ؟ قائداعظمؒ سے ان کی خط کتابت دیکھیے ،جس میں انھوں نے کہا کہ ہمارے مسائل کا حل نہرو کی لادینی سوشلزم میں نہیں ہے بلکہ شریعت اسلامیہ کے نفاذ میں ہے۔ لہٰذا یہ بالکل واضح ہے کہ وہ مسلمانوں کی نئی ریاست کے لیے سیکولر یا سوشلسٹ نظام تجویز نہیں کرتے تھے۔ وہ دین اور سیاست کو بھی الگ الگ نہیں سمجھتے تھے۔ س: علامہ اقبال کے نزدیک اجتہاد کی کیا اہمیت ہے؟ج: دیکھیے علامہ اقبال زندگی میں جس انقلاب پر زور دیتے ہیں،مثلاً کہتے ہیں: عجس میں نہ ہو انقلاب ، موت ہے وہ زندگیتوان کے مجوزہ انقلاب میں اجتہادناگزیر ہے اور ایک بنیادی نکتہ ہے۔دورحاضرمیں کسی قوم کو،خاص طورپرمسلم امہ اپنی بقا اورترقی کے لیے اجتہاد کی اشدضرورت ہے،اس لیے اقبال نے نئے زمانے میں نئے صبح وشام پیداکرنے کی تلقین کی ہے۔ان کے نزدیک طرز کہن پراڑنا،جموداور موت کی علامت ہے۔مگر یہ نہ ہو کہ اجتہاداورآئین نو کے شوق میں اپنی تہذیب کی بنیادوں ہی سے منحرف ہو جائیں۔اقبال کے نزدیک ہر ایراغیرا اجتہاد کااہل نہیں۔س: ڈاکٹر صاحب! علامہ اقبال وسیع المطالعہ تھے‘ انھوں نے اردو فارسی میں شاعری بھی کی اور نثر بھی لکھی۔ برصغیر کی سیاست میں بھی ان کا بھرپور کردار رہا۔ وہ ایک فلاسفر بھی تھے۔ا نہوں نے کالج میں اردو‘ فارسی فلسفہ اور انگریزی بھی پڑھائی ان سب صفات کے ہم آہنگ ہونے سے اقبالؒ کی کیا شخصیت نکھر کر سامنے آتی ہے۔ ج: دیکھیے علامہ اقبال کثیر المطالعہ اور جامع الحیثیات شخص تھے۔ وہ استاد بھی تھے‘ شاعر بھی تھے اور سیاست دان بھی مگر ان کی دیگر صفات ان کی شاعری کے تابع ہیں کیونکہ وہ بنیادی طور پر شاعر تھے۔ انھوں نے ہر شعبے میں اپنے نقوش چھوڑے ہیں اور کچھ ہدایات دی ہیں۔ ان کی شاعری پر غور کرنے اورتامل کرنے سے نئے سے نئے نکات سامنے آتے ہیں۔ دنیا کی چالیس زبانوں میں ان کی تخلیقات کے تراجم ہو چکے ہیں۔ اس لیے کہ ان کے کلام میں ایک کشش ،جامعیت اورہمہ گیری پائی جاتی ہے۔ جب ہندوستان آزاد ہوا تو 15 اگست کی رات کوبھارت کی اسمبلی کاافتتاح اقبال کے’’ ترانہ ہندی‘‘ سے ہوا۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اقبال کی شخصیت کی دل نوازی ایک حدتک ان کے کٹر مخالفین کے لیے بھی قابل قبول تھی۔س: ڈاکٹر صاحب! علامہ اقبال نے جہاں حافظ اور مولانا روم کو پڑھا، وہاں مارکس، لینن، گوئٹے اور نٹشے کا بھی مطالعہ کیا اور انھوں نے ان کو اپنی شاعری میں بھی جگہ دی مگر ہر نظام کو اسلام کی کسوٹی پر پرکھا اور اسلام کو ہی بہترین نظام قرار دیا۔ آپ اس سلسلے میں کیا کہیں گے؟ج:کہنا چاہیے کہ جن شخصیات کو انھوں نے پڑھا ان کا ذکر ان کی شاعری میں آیا ہے۔ اقبال نے سب کو پڑھا اور سب سے استفادہ کیا لیکن اقبال کی فکر کا جو سب سے بڑا ماخذ ہے وہ قرآن حکیم ہے۔ اور ان کے نزدیک جو سب سے عظیم شخصیت ہے وہ نبی کریمؐ کی ہے جن سے وہ سب سے زیادہ متاثر تھے۔ اس کے بعد مولانا رومی ہیں‘ اس کے بعد دوسرے لوگ بلاشبہ انھوں نے دوسرے لوگوں سے بھی کچھ نہ کچھ اثر قبول کیااوربعضچیزوںکو انھوں نے سراہا گویا جہاں سے بھی انھیں حکمت ودانش کی کوئی چیز ملی، اسے اپنی فکر کا حصہ بنا لیا۔ س: ڈاکٹر صاحب اقبال کے وسیع مطالعے اور فارسی و عربی زبانوں پر عبور ہونے کے سبب ان کا کلام مفرس اور معرب ہے اور اس میں مشکل پسندی پائی جاتی ہے۔ کیا یہ ابلاغ عامہ کے راستے میں حائل تو نہیں؟ج: ایک تو یہ ہے کہ اقبال کے زمانے میں فارسی زبان کی روایت بہت پختہ تھی۔ فارسی پڑھی اور پڑھائی جاتی تھی ۔دوسری بات یہ کہ ایک بار کچھ دوستوں نے اقبال سے شکوہ کیاکہ آپ فارسی میں سب کچھ کہتے ہیں ،اردو والے منتظر رہتے ہیں۔ علامہ اقبال کا جواب تھا It comes to me in Persian. باقی مشکل کی بات تو یہ ہے کہ اب ہمارامعیار تعلیمبہت نیچے آ گیاہے اورہمیں اقبال کااردو کلام بھی فارسی کی طرح لگتا ہے۔ س: ڈاکٹر صاحب! اقبال کے حوالے سے دنیا کے متعدد ممالک میں کانفرنسیں ہوتی رہیںاور پاکستان میں بھی اقبالیات کے موضوع پر سیمینار ہوتے رہے ہیں آپ کی ان سیمینارز اور کانفرنسوں میں اندرون ملک اور بیرون ملک بھرپور شرکت رہی، کچھ ان کا احوال بیان کیجیے۔ ج: اقبال کے حوالے سے کانفرنسوں کا آغاز اقبال کے زمانے ہی میں ہوگیا تھا۔ یہ روایت پاکستان بننے کے بعد پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ اور کانفرنسوں کا یہ سلسلہ دنیا کے پیشتر ممالک تک پھیلا ہوا ہے مجھے بھی ایسی دس بارہ کانفرنسوں میں شرکت کاموقع ملا۔ دوتین مرتبہ پاکستان میں‘ دو دفعہ بھارت میں‘ ایک دفعہ ترکی میں‘ ایک مرتبہ بلجیم میں‘ ایک ایک دفعہ برطانیہ اوراسپینمیں جانے کا موقع ملا۔ جو کانفرنس دسمبر 1977ء میں لاہور میں ہوئی جب علامہ اقبال کا سو سالہ جشن منایا گیا ،وہ سب سے بڑی کانفرنس تھی۔اس میں ایک دلچسپ بات یہ ہوئی کہ جنرل ضیاء الحق اجلاس کے صدرتھے۔ بشیرحسین ناظم نے کلام اقبال پڑھا اور سماںباندھ دیا۔ جنرل خوش ہوگئے۔ فرمائش کی کہ ایک اورغزل پڑھیں ،بشیرصاحب نے اتفاقاًیا شاید شرارتاًبال جبریل کی وہ غزل شروع کی ’’دل بیدار فاروقی…‘‘ ناظم صاحب غزل پڑھ رہے تھے اورجنرل صاحب سن سن کر جھوم رہے تھے،جب آخری شعرپرپہنچے اور وہ یہ تھا:خدا وندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیںکہ دُرویشی بھی عیاری ہے ، سلطانی بھی عیاریتو یہ شعر پڑھتے ہوئے بشیرحسین ناظم نے معنی خیزطورپر ضیاء الحق کی طرف دیکھا۔٭٭٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
یادرفتگاں: علاؤالدین :عوامی اداکار

یادرفتگاں: علاؤالدین :عوامی اداکار

پاکستان میں جن فنکاروں کے فلمی کریئر انتہائی قابل رشک رہے، ان میں ایک بہت بڑا نام اداکار علاؤالدین کا تھا۔ایک ایکسٹرا اور معاون اداکار سے چوٹی کے ولن شمار ہوئے۔ پھر مرکزی کرداروں سے ہوتے ہوئے ہیرو بننے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ تاریخی ، سماجی اور اصلاحی فلموں میں بھاری بھر کم سے ہلکے پھلکے کامیڈی رول تک کئے۔ بیک وقت ہیرو، ولن، کیریکٹرایکٹر اور کامیڈین کے روپ میں نظر آنے والے پہلے فنکار تھے۔ ساٹھ کا عشرہ تو علاؤالدین کے نام تھا وہ جس فلم میں ہوتے ، اس میں باقی اداکاروں کی حیثیت ثانوی ہوتی تھی۔ لیجنڈ کی حیثیت رکھنے والے علائوالدین 2فروری 1920ء کو راولپنڈی کے ایک کشمیری گھرانے میں پیدا ہوئے، ان کا پورا نام علائوالدین بٹ تھا۔ ان کے والد فیروز الدین بٹ راولپنڈی کی ایک معزز شخصیت تھے۔ علائوالدین نے ابتدائی تعلیم راولپنڈی کے گورنمنٹ سکول سے حاصل کی۔ 1940ء میں وہ راولپنڈی سے گلوکار بننے کیلئے ممبئی پہنچے۔ ان کی گلوکار بننے کی کوششیں تو کامیاب نہ ہو سکیں لیکن اس دوران اس کی ملاقات نامور ہدایتکار اے آر کاردار سے ہوئی جن کا تعلق لاہور سے تھا۔انہوں نے انہیں اداکار بننے کا مشورہ دیا۔ انہیں 1940ء میں سب سے پہلے فلم پریم نگر‘‘ میں کاسٹ کیا گیا۔ پھر 1941ء میں پنجابی فلم کزماتی‘‘ میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ 1942ء میں نئی دنیا‘‘ اور 1943ء میں سنجوگ ‘‘ میں کام کیا۔ اس کے بعد انہوں نے 1948ء میں دلیپ کمار اور نرگس کی مشہور زمانہ فلم ''میلہ‘‘ میں اداکاری کی۔اس فلم میں وہ صرف 28 برس کی عمر میں نرگس کے باپ کے کردار میں جلوہ گر ہوئے تھے۔ان کی اداکاری کو بہت پسند کیا گیا۔ پھر وہ پاکستان آ گئے اور یہاں کئی عشروں تک اپنے آپ کو ایک ورسٹائل اداکار کے طور پر منوایا۔ انہیں فلمی صنعت میں ''پا جی‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔انہوں نے اردو اور پنجابی، دونوں زبانوں کی فلموں میں صلاحیتوں کو منوایا۔ ان کی مقبولیت کی وجہ سے انہیں عوامی اداکار‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ پاکستان میں سب سے پہلے علاؤالدین نے نذیر کی پنجابی فلم ''پھیرے‘‘ میں ولن کے طور پر کام کیا۔ یہ پاکستان کی نہ صرف پہلی پنجابی فلم تھی بلکہ کامیاب ترین فلم تھی۔سورن لتا اور نذیر نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ سورن لتا اور نذیر کی دوسری پنجابی فلم ''لارے‘‘ میں بھی علاؤالدین نے ولن کا کردار ادا کیا۔ ولن کے طور پر انہوں نے محبوبہ، محفل، انوکھی، وعدہ، مجرم، مکھڑا، چھومنتر، پینگاں، پلکاں، دربار اور آخری نشان میں بھی کام کیا۔''باغی‘‘ فلم کا تذکرہ بہت ضروری ہے۔ یہ فلم خالصتاً ویسٹرن سٹائل میں بنائی گئی اور اس میں سدھیر، مسرت نذیر اور یاسمین نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ یہ سلطان راہی کی بھی پہلی فلم تھی جس میں وہ ایکسٹرا کے طور پر سامنے آئے تھے۔ بعد میں پھر یہی سلطان راہی عروج کے آسمان تک جا پہنچے۔'' پتن‘‘ ان کی بڑی فلم تھی جس میں انہوں نے ولن کا نیم مزاحیہ کردار انتہائی مہارت سے نبھایا اس میں وہ استاد روح کھچ بنے تھے جو بے تکی شاعری کرتا ہے۔ ان پر فلمائے گئے ایک گیت کو بے بدل موسیقار بابا جی اے چشتی نے مختلف دھنوں میں پیش کیا۔ ''پتن‘‘ وہ فلم ہے جس پر پاکستانی پنجابی سینما ہمیشہ ناز کرتا رہے گا۔ 1953میں ''شہری بابو‘‘ ریلیز ہوئی یہ بھی نذیر کی فلم تھی زبیدہ خانم کو اسی فلم سے بریک ملا۔ یہ فلم سپرہٹ ثابت ہوئی اور اس میں بھی علائوالدین نے خوبصورت اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ عنایت حسین بھٹی کا گایا ہوا یہ گیت ''بھاگاں والیو نام جپو مولانا نام نام‘‘انتہائی مقبول ہوا۔ اس کے بعد علائوالدین نے پاٹے خان، دلا بھٹی اور حمیدہ میں بھی بہت شاندار اداکاری کی۔ حمیدہ میں انہوں نے ایک افیمی کا مزاحیہ اور منفی کردار نہایت خوبصورتی سے نبھایا۔یہ فلم اپنی کمزور موسیقی کے باوجود کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔1959میں ''کرتار سنگھ‘‘ ریلیز ہوئی جس نے ہر طرف دھوم مچا دی۔ ''کرتار سنگھ ‘‘کو پنجابی فلموں کی سرتاج فلم قرار دیا جاتا ہے۔ سیف الدین سیف کی اس فلم میں علائوالدین نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا کردار ادا کیا ۔کہا جاتا ہے کہ بھارتی پنجاب میں یہ فلم تین سال تک نمائش پذیر رہی۔فلم ''سلمیٰ ‘‘ میں بھی ان کی اداکاری بہت پسند کی گئی۔ریاض شاہد کی فلم ''سسرال‘‘ علائوالدین کی ناقابل فراموش فلم ہے۔ انہوں نے اس فلم میں لازوال اداکاری کی۔'' سسرال‘‘ کو پاکستان کی بہترین آرٹ فلم بھی قرار دیا جاتا ہے۔اس فلم کے ایک گیت ''جس نے میرے دل کو درد دیا‘‘ کی پکچرائزیشن علائوالدین نے اتنی خوبصورتی سے کرائی کہ لوگ عش عش کر اٹھے۔ پھر ''شہید ‘‘نے بھی علائوالدین کے قد میں اضافہ کیا۔1963ء میں شباب کیرانوی کی مشہور زمانہ فلم ''تیس مار خان‘‘ ریلیزہوئی۔ اس فلم کے بارے میں شباب صاحب کو خدشات لاحق تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس فلم کا باکس آفس پر کامیاب ہونا مشکل تھا علائوالدین کے ساتھ ایک نئی ہیروئن تھی جس کا نام شیریں تھا۔سب فلمیں توقعات کے برعکس سپرہٹ ثابت ہوئی۔ علائوالدین کی اداکاری کو بہت پذیرائی ملی۔ولن سے ہیرو بننا پھر کامیڈی ہیرو اور پھر کریکٹر ایکٹر کی حیثیت سے کام کرنا ایک بالکل انوکھی بات تھی۔علاؤالدین نے تاریخی کرداروں میں بھی بڑا متاثر کیا۔ فلم ''شہید ‘‘(1962ء) میں ایک عرب شیخ ، فلم ''فرنگی‘‘ (1964ء) میں ایک باغی درویش ، فلم ''نظام لوہار‘‘ (1966ء) میں ایک ڈاکو ، فلم ''زرقا‘‘ (1969ء) میں ایک فلسطینی مجاہد لیڈر اور فلم ''یہ امن‘‘ (1971ء) میں ایک کشمیری حریت پسند کے روپ میں زبردست کردارنگاری کی۔ علائوالدین کی دیگر مشہور فلموں میں ''یتیم، جگری یار، بائوجی ،لاڈو ،مہندی، گناہگار، ایک سی چور ،غیرت تے قانون، بدنام ، خلش، انمول ،تلاش ،امرائو جان ادا اوربے مثال‘‘ شامل ہیں۔''پھنے خان، لاڈو، زرقا، بے مثال اور بدنام‘‘ میں بھی ان کی اداکاری قابل دید تھی۔ اردو فلموں میں اگر کسی فلم کے مکالمے عوامی سطح پر مقبول ہوئے تھے تو وہ اس فلم کے تھے جنھیں ریاض شاہد نے لکھا تھا ۔''بدنام‘‘ کا ان کا یہ مکالمہ تو ابھی تک لوگوں کو یاد ہے ''کہاں سے آئے ہیں یہ جھمکے ،کون لایا ہے یہ جھمکے‘‘۔ اس فلم میںعلاؤالدین پر مسعودرانا کا سب سے یادگار ترین گیت ''کوئی ساتھ دے کہ نہ ساتھ دے ‘‘ فلمایا گیا تھا۔اس فلم میں علاؤالدین کی کردارنگاری ضرب المثل بن گئی تھی جس نے انھیں ایک لیجنڈ کا مقام دے دیا تھا۔ یاد رہے کہ فلم ''بدنام ‘‘ کو روس کی 17 مختلف زبانوں میں ڈب کر کے نمائش کیلئے پیش کیا گیا تھا اور وہاں یہ فلم بے حد پسند کی گئی تھی۔چالیس سالہ فلمی کریئر میں انہوں نے مجموعی طور پر 319فلموں میں کام کیا جن میں 194فلمیں اردو زبان میں تھیں جبکہ 125 فلمیں پنجابی تھیں۔ فی الحقیقت علائوالدین ایک بڑے ہی باکمال اداکار تھے جنہوں نے اردو اور پنجابی دونوں زبان کی فلموں میں اپنے بے مثال فن کا ڈنکابجایا۔13مئی 1983ء کو یہ عدیم النظیر اداکار عالم جاودواں کو سدھار گیا ان کی موت کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کا نوجوان بیٹا ایک حادثے میں جاں بحق ہو گیا تھا۔جوان بیٹے کی موت کا صدمہ علائوالدین کیلئے جان لیوا ثابت ہوا برصغیر پاک و ہند کی فلمی تاریخ کے آسمان پر وہ ہمیشہ ایک روشن ستارے کی طرح جگمگاتے رہیں گے۔

روم میں قتل عام

روم میں قتل عام

1527ء وہ سال ہے، جب اٹلی کے شہر روم میں خونریزی ہوئی اور پورے شہر کو تاخت و تاراج کردیا گیا۔ اسے ''سیک آف روم‘‘ (Sack of Rome) کہا جاتا ہے ۔ یہ واقعہ کیو ں پیش آیا اور اس کے محرکات کیا تھے؟ تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو جنگوں کا مقصد علاقوں پر قبضہ کرنا ، نوآبادیاں بنانا ، وسائل پر قبضہ اور طاقت میں اضافہ کرنا تھا۔ یہی کچھ روم میں ہوا۔ ظاہر ہے جنگ میں ایک فریق فتح سے ہمکنار ہوتا ہے جبکہ دوسرا شکست کے اندھیروں میں گم ہوجاتا ہے۔ اس جنگ میں دوسری طرف پوپ اور اس کے اتحادی شامل تھے ۔ پوپ کلیمنٹ ہفتم کے اتحادیوں میں فرانس شامل تھا۔ دراصل پوپ نے غیر دانش مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے ایک اتحاد بنایا جس کا نام ''دی لیگ آف کوگینک‘‘ تھا۔اس کا مقصد چارلس کی اٹلی میں برتری کو چیلنج کرنا تھا۔ روم پر شہنشاہ کے احکامات پر حملہ نہیں کیا گیا بلکہ یہ قدم شاہی فوجی دستوں نے خود اٹھایا تھا۔ ان فوجیوں میں جرمنی کے کرائے کے فوجی اور سپین کے فوجی شامل تھے جنہوں نے بغاوت کا علم بلند کیا۔ ان کی کمانڈ فرانسیسی اشرافیہ کا باغی رکن ڈیوک آف بوربن کررہا تھا۔ روم کی دیواروں کا اچھی طرح دفاع نہیں کیا گیا۔ شہر کی فوج صرف آٹھ ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھی۔ ان میں دو ہزار سوئس گارڈ بھی شامل تھے جو پوپ کی بڑی فوجی طاقت تھے۔ 6 مئی 1527ء کو شاہی فوج نے بھرپور حملہ کیا۔ انہیں توپوں کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن یہ فوج بڑی بے جگری سے لڑی۔ ڈیوک آف بوربن کو گولی مارکر ہلاک کردیا گیا لیکن جن افراد کی اس نے قیادت کی انہوں نے شہر کو تاخت و تاراج کردیا۔ انہیں جو نظر آیا اسے موت کی وادی میں اتار دیا۔ سوئس گارڈز سینٹ پیٹر چرچ کے تحفظ کیلئے بڑی بہادری سے لڑے اور پوپ کلیمنٹ کے فرار کیلئے ایک سرنگ کھودی لیکن آخر اسے پکڑ لیا گیا۔ 6جون کو کلیمنٹ نے ہتھیار ڈال دیئے اور وہ اپنی زندگی کے بدلے بھاری تاوان دینے پر آمادہ ہوگیا۔ شرائط میں کئی دوسرے علاقے بھی رومن سلطنت کے حوالے کرنا تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب وینس نے صورت حال کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور سرویا اور ریونیا پر قبضہ کرلیا۔ اس جنگ کے بعد اٹلی کا نشاۃ ثانیہ کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ اس جنگ میں قتل عام کیا گیا اور پورا شہر تباہ کردیا گیا۔ تقریباََ پنتالیس ہزار شہری موت کے گھاٹ اتار ے گئے۔ کئی زخمی ہوئے اور کئی ہزار جلاوطن بھی ہوئے۔ بے شمار لوگ بیماریوں کی وجہ سے بھی ہلاک ہوئے۔ طاعون پھیل گیا جس نے ان گنت لوگوں کی جان لے لی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ جس بہادری اور پامردی سے سوئس گارڈز نے روم میں پوپ کا تحفظ کیا اس کی یاد میں ہر سال 6مئی کو سوئس گارڈز میں تازہ دم نوجوان بھرتی کئے جاتے ہیں ۔ اس طرح ان سوئس گارڈز کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے ۔ آج بھی اس بات پر اتفاق رائے کیا جاتا ہے کہ روم پر حملے کی اصل وجہ پوپ کلیمنٹ کا وہ غلط فیصلہ تھا جس کی وجہ سے اتحاد معرض وجود میں آیا تھا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پوپ چارلس پنجم کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے پر کیوں تلا ہوا تھا؟ بات پھر اقتدار کے استحکام اور غلبے کی آرزو پر ختم ہوتی ہے ۔ شاید انسان اپنی جبلت کے ہاتھوں مجبور ہے لیکن وہ اپنے انجام سے بے خبر کیوں ہوتا ہے ۔ آخر کیوں؟ 

کیا آپ یادداشت بڑھانا چاہتے ہیں؟

کیا آپ یادداشت بڑھانا چاہتے ہیں؟

انسان کی عمر جیسے جیسے بڑھے، اس کی یادداشت کمزور ہو جاتی ہے، لیکن ہر شخص احتیاطی تدابیر اپنا کر اپنی یادداشت کو طویل عرصہ تک برقرار رکھ سکتا ہے۔ ان تدابیر کو اختیار کرنا چنداں مشکل نہیں جو درج ذیل ہیں:دماغ مضبوط کرنیوالی غذائیں:ان غذائوں میں وہ سرفہرست ہیں جن میں اومیگا3فیٹس، گلوکوز (ثابت اناج) اور اینٹی آکسیڈنٹس پائے جاتے ہیں۔ مزیدبراں دن میں پانچ چھ بار کھانا کھائیے۔ وجہ یہ ہے کہ وقفے وقفے سے تھوڑا کھانا کھانے سے خون میں گلوکوز کی سطح برقرار رہتی ہے اور دماغ بنیادی طور پر گلوکوز ہی سے توانائی حاصل کرتا ہے۔دماغ کو مصروف رکھیے:ایسی سرگرمیاں اپنائیے جن سے دماغ کی ورزش ہومثلاً معمے حل کیجیے اور کراس ورڈ پزل کھیلیں۔ ان سرگرمیوں سے دماغ کی ورزش ہوتی ہے اور وہ چاق چوبند رہتا ہے۔ جسم کو فٹ رکھیے:روزانہ صبح سویرے یا شام کو تیز چہل قدمی کیجیے اور بدن پھیلانے والی ورزش کیجیے۔ ان ورزشوں کے ذریعے نہ صرف دماغ کا سفید مادہ بڑھتا ہے بلکہ مزید نیورون کنکشن بھی جنم لیتے ہیں۔ دبائو نہ بڑھنے دیں: ورزش سے ذہنی و جسمانی دبائو کم کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ دراصل اس دبائو کے باعث جسم میں کورٹیسول کیمیائی مادہ پیدا ہوتا ہے جو دماغ کے مراکز یادداشت کو سکیڑ دیتا ہے۔ مزیدبراںعبادت اور مراقبہ بھی یادداشت بڑھانے میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔ فولاد کی سطح چیک کریں:ہمارے دماغ کے خصوصی خلیے نیوروٹرانسمیٹر ہماری یادداشت عمدہ حالت میں رکھتے ہیں۔ اور یہ خود فولاد کے ذریعے توانا رہتے ہیں۔ لہٰذا اپنے بدن میں اس اہم معدن کی کمی نہ ہونے دیجیے۔ جن مرد و زن میں فولاد کی کمی ہو، وہ عموماً بھلکڑ بن جاتے ہیں۔ایک وقت میں ایک کام:کئی مرد و زن ٹی وی پر خبریں سنتے ہوئے کھانا کھاتے اور کبھی کبھی تو اخبار بھی پڑھنے لگتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ یوں انہیں سنی گئی خبریں یاد رہتی ہیں اور نہ ہی پڑھا گیا مواد۔ یہ کھانے کا صحت بخش طریقہ بھی نہیں۔دراصل جب ہم ایک وقت میں دو یا زائد کام کریں، تو دماغ پروسیسنگ کا عمل ایسے علاقوں میں منتقل کر دیتا ہے جو تفصیل سے یادیں محفوظ نہیں کرتے۔ لیکن ایک وقت میں ایک کام کیا جائے، تو دماغ اس کی جزئیات تک محفوظ رکھتا ہے۔ کولیسٹرول پر قابو پائیے:انسانی جسم میں کولیسٹرول کی زیادتی بڑا خطرناک عمل ہے۔ اس کے ذریعے نہ صرف دل کی شریانوں میں چربی جمتی ہے۔ بلکہ دماغ میں بھی خون کی نسوں میں لوتھڑے جنم لیتے ہیں۔ ان کی وجہ سے دماغ کو قیمتی غذائیت نہیں ملتی اور بتدریج یادداشت جاتی رہتی ہے۔ واضح رہے، دماغ میں تھوڑی سی چربی بھی نسیں بند کر ڈالتی ہے۔ لہٰذا اپنا کولیسٹرول اعتدال پر رکھیے۔ ادویہ پر نظر رکھیں:کئی ادویہ انسانی یادداشت پر منفی اثرات ڈالتی ہیں اور ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ انسان جتنا بوڑھا ہو، دوا اتنی ہی دیر تک اس کے بدن میں رہتی ہے۔ نظام یادداشت پر اثرانداز ہونے والی ادویہ میں اینٹی ڈیپریسنٹ، بیٹابلاکرز، کیموتھراپی، پارکنسن مرض کی دوائیں، نیند آور، دردکش، اینٹی ہسٹامائنز اور سٹاٹینس شامل ہیں۔ ایک سیب روزانہ کھائیے:سیب میں شامل ضد تکسیدی مادوں کی بلند مقدار زیادہ ایسیٹلکولین (Acetylcholine) کیمیائی مادہ پیدا کرتی ہے۔ دماغ میں ملنے والا یہ نیورو ٹرانسمیٹر عمدہ یادداشت کے لیے لازمی ہے۔ مزیدبرأں درج بالا ضد تکسیدی مادے دماغ کو مضرصحت آزاد اصلیوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔ 

بحیرہ کیسپین زمین پر پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ

بحیرہ کیسپین زمین پر پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ

بحیرہ کیسپین جو یورپ اور ایشیا کے درمیان واقع ہے، اس زمین پر پانی کا سب سے بڑا اندرونی حصہ ہے۔ اس کی سرحدیں روس، ایران، قازقستان، آذربائیجان اور ترکمانستان سے ملتی ہیں۔ اس بحیرہ کو ایران میں ''بحیرہ قزوین‘‘ بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ نام ایران کے شہر قزوین کے نام سے موسوم ہے جو اس کے جنوبی ساحل کے قریب واقع ہے۔ انگریزی میں اس بحیرہ کو ''بحیرہ کیسپین‘‘ کہتے ہیں۔ یہ بحیرہ دراصل رقبے اور حجم کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی جھیل ہے جس کا رقبہ 3 لاکھ 71 ہزار مربع کلومیٹر ہے جبکہ حجم 78 ہزار 200 مکعب کلومیٹر ہے۔ یہ ایشیا اور یورپ کے درمیان چاروں طرف خشکی سے گھرا خطہ آب ہے۔ اس کی زیادہ سے زیادہ گہرائی 3363 فٹ ہے۔ کیسپین سمندر یا جھیل؟جہاں تک اس بحیرہ کی ساخت اور قانونی حیثیت کا تعلق ہے، وہ انتہائی دلچسپ ہے۔ قانونی طور پر اس بحیرہ کو مکمل طور پر نہ تو جھیل کے طور پرجانا جاتا ہے اور نہ ہی ایک سمندر کے طور پر۔ بعض ماہرین ارضیات کے مطابق یہ ایک سمندر ہے جبکہ کچھ ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ بحیرہ کیسپین میں جھیل اور سمندر دونوں کے خواص پائے جاتے ہیں۔ اکثر اسے دنیا کی سب سے بڑی نمکین جھیل بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بحث شاید کبھی اتنی اہمیت اختیار نہ کرتی اگر عالمی قوانین میں سمندروں اور جھیلوں کے متعلق الگ الگ قوانین نہ ہوتے۔ اقوام متحدہ میں سمندروں سے متعلق قوانین میں ساحل، سمندر، جزائر، آبی حیات اور قدرتی وسائل پر حقوق و حدود کی تقسیم الگ الگ ہے جبکہ جھیلوں کے قوانین اور اصول الگ ہیں۔ بحیرہ کیسپین دراصل رقبے اور حجم کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی جھیل ہے۔ اسے سمندر تصور کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ پیش کی جاتی ہے کہ جب رومی اس خطے میں پہلی مرتبہ آئے اور انہوں نے یہاں کا پانی چکھا تو انہوں نے کہا کہ یہ ایک سمندر ہے کیونکہ عام طور پر سمندر کے پانی کی یہ پہچان ہوتی ہے کہ اس کا پانی نمکین ہوتا ہے۔ اس وقت سے یہ خیال زور پکڑ گیا کہ یہ ایک سمندر ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اکثر و بیشتر ہر دور میں یہ بحث سر اٹھاتی رہی کہ کیا واقعی یہ ایک سمندر ہے یا بہت بڑی جھیل؟ ''بحیرہ کیسپین‘‘ کی قانونی حیثیت اس کی سرحد سے ملحقہ پانچوں ممالک کے درمیان ایک لمبے عرصہ تک متنازعہ بنی رہی ہے۔ 12اگست 2019ء میں مذکورہ پانچوں ممالک کے مابین ایک طویل بحث کے بعد یہ طے پایا کہ اسے ایک سمندر قرار دیا جائے جس کے بعد اس کی سطح بین الاقوامی پانی کہلائے گی چنانچہ اس کا نچلا حصہ ہر ایک ملک کو اس کی علاقائی حدود کے مطابق دے دیا جائے جس سے وہ بھر پور استفادہ حاصل کر سکیں گے۔ پانچوں مذکورہ ملکوں کے درمیان اس معاہدے کو ''بحیرہ کیسپین کی قانونی دستاویز‘‘ کا نام دیا گیا، جو بنیادی طور پر اس سمندر سے متصل ممالک کے حقوق اور ذمہ داریوں کا تعین کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ معاہدہ باہمی سلامتی، وسائل اور ماحولیاتی تحفظ سمیت دیگر مشترکہ مسائل بارے ایک دوسرے سے تعاون کا احاطہ بھی کرتا ہے۔ خطے کی تاریخ اور جغرافیہبحیرہ کیسپین ہزاروں سالوں سے انسانی معاشرت میں اہم کردار ادا کرتا آرہا ہے۔ یہ قدیم شاہراہ ریشم کے دور میں تجارت کا ایک بڑا مرکز رہا ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ تاریخی اعتبار سے یہ کئی اہم جنگوں اور سیاسی واقعات کا مرکز بھی رہا ہے۔ آئیے بحیرۂ کیسپین کی تاریخ اور جغرافیہ پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔ بحیرہ کیسپین کے خطے کو مورخین تاریخی اور جغرافیائی لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔پہلا حصہ '' مائیوسین ‘‘کہلاتا ہے، جو دو کروڑ تیس لاکھ سال قبل شروع ہوتا ہے اور 53 لاکھ سال پہلے تک موجود پایا گیا تھا ۔ دوسرا دور وسط حیاتی یعنی ''پلیئسٹوسین‘‘ دور کہلاتا ہے جو 25 لاکھ 80ہزارسال قبل سے 11700سال پہلے تک موجود پایا جاتا تھا جسے عرف عام میں برفانی دور کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ مورخین اور محققین کے مطابق بحیرہ کیسپین کے علاقے میں انسان نما مخلوق ، جنہیں بن مانس کہا جاتا ہے، کی 18 لاکھ سال قبل کی آبادیوں کے شواہد سامنے آئے ہیں۔ اس کے بعد آثار قدیمہ کے ماہرین کو جارجیا اور آذربائیجان کے غاروں سے جو ڈھانچے ملے تھے وہ موجودہ انسانی نسل سے مشابہت رکھتے تھے۔یہ دور بنیادی طور پر اوّلین انسانی آبادکاری کا دور تھا۔جارجیا کے غاروں سے ''نینڈر تھل‘‘ کی جو باقیات ملی تھیں ان سے یہ اندازہ لگایا گیا کہ دراصل آج سے 11ہزار سال قبل یہاں انسانی آبادکاری کا عمل شروع ہو گیا تھا۔بحیرہ کیسپین اتنا اہم کیوں؟بحیرہ کیسپین نایاب آبی پودوں، آبی مخلوق کے ساتھ ساتھ فاسل ایندھن اور انواع و اقسام کی معدنیات سے مالا مال بہت بڑا ایک ذخیرہ آب ہے۔ بحیرہ کیسپین دنیا بھر میں خام تیل کی پیداوار اور فراہمی میں اہم سمجھا جاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ حال فاسل ایندھن کا بھی ہے جبکہ یہاں 10 ویں صدی عیسوی سے ہی خام تیل کے کنوئیں کھودے جا رہے ہیں۔ کیسپین ممالک بالخصوض قازقستان، ترکمانستان اور آذربائیجان کی معیشتیں قدرتی وسائل جن میں تیل اور قدرتی گیس سرفہرست ہے پر انحصار کرتی ہیں۔ اس کا اندازہ ان اعداد وشمار سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ مذکورہ تینوں ممالک کی جی ڈی پی کا 10فیصد اور برآمدات کا 40فیصد حصہ تیل اور گیس پر مشتمل ہے۔ ایران معدنی ایندھن سے مالا مال ملک ہے۔ اس کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایران کے پاس 137 ارب بیرل سے زیادہ خام تیل کے ذخائر ہیں جو دنیا بھر کے ذخائر میں چوتھے نمبر پر ہیں جبکہ ایران روزانہ 40 لاکھ بیرل خام تیل نکالتا ہے۔اس کیساتھ ساتھ ایران کے پاس 988 کھرب مکعب فٹ سے زیادہ قدرتی گیس کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔روس معدنیات اور توانائی جیسے قدرتی وسائل سے ایک مالامال ملک ہے بلکہ ماہرین کے مطابق روس معدنیات اور قدرتی وسائل کے لحاظ سے دنیا بھر میں سرفہرست ہے۔ روس خام تیل کی پیداوار میں دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔اس کا اندازہ ان اعداد و شمار سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ روسی معیشت دنیا بھر میں جی ڈی پی کے لحاظ سے 12 ویں نمبر پر جبکہ قوت خرید کے اعتبار سے چھٹے نمبر پر ہے۔ بحیرہ کیسپین شمالاً جنوباً 1200 کلومیٹر لمبا جبکہ اس کی چوڑائی 320 کلو میٹر پر محیط ہے۔ اس کی سطح، سطح سمندر سے 27 فٹ نیچے ہے۔ اس میں میٹھے پانی کا بڑا ذریعہ یورپ کا سب سے طویل دریا، دریائے وولگا ہے، جس کا 80 فیصد پانی اسی بحیرہ میں گرتا ہے۔بحیرہ کیسپین نایاب نباتات، آبی اور جنگلی حیات کے اعتبار سے بھی ایک مالا مال ملک ہے۔ کیسپین کچھوے، زیبرا، گھونگے بحیرہ کیسپین اور بحر اسود میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سمندری بگلے، مرغابی اور متعدد نایاب پرندوں کا یہ علاقہ گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ ان سب سے نایاب واحد پستانیہ جانور ''کیسپین سیل‘‘ ہے جسے عرف عام میں سمندری بچھڑا بھی کہتے ہیں پایا جاتا ہے۔ سمندری علوم کے ماہرین کے مطابق ایک صدی قبل اس نایاب نسل کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہوا کرتی تھی جو اب موسمیاتی تبدیلیوں اور آبی آلودگی کے سبب کم ہو کر دس فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے۔بحیرہ کیسپین اور اس کے معاون دریاوں میں 160 اقسام کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔جن میں سٹرگن، سنہری الماس اور بیلوگا نامی نایاب مچھلیاں بھی انہی پانیوں میں ملتی ہیں، جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ ان کے قیمتی انڈے جنہیں ''خاویار‘‘ کہا جاتا ہے کی اشرفیہ میں بہت مانگ ہے۔ ماہرین کے مطابق ''سنہری الماس‘‘ کے انڈوں کی عالمی مارکیٹ میں فی کلو گرام قیمت چالیس لاکھ روپے فی کلوگرام تک ہوتی ہے۔مسائل اور چیلنجز4800 کلومیٹر طویل ساحل کے حامل اس خطے میں قازقستان 1422 کلومیٹر، ترکمانستان 1035 کلومیٹر، آذربائیجان 813 کلومیٹر، روس 747 کلومیٹر جبکہ ایران 728 کلومیٹر کا دعویدار ہے۔2000ء سے جوں جوں یہاں قدرتی وسائل کی دریافتیں زور پکڑتی گئیں، ان پانچوں ممالک کے درمیان مختلف سرحدی، ماحولیاتی اور تزویراتی اختلافات بھی بڑھتے چلے گئے جس کی وجہ سے یہاں علاقائی ترقی رکی ہوئی ہے۔

دلچسپ معلومات سی ٹی سکین کیا ہے؟

دلچسپ معلومات سی ٹی سکین کیا ہے؟

سی ٹی (کمپیوٹرائزڈ ٹوموگرافی) سکین میں ایکس رے اور کمپیوٹر کی مدد سے جسم کے اندرونی حصے کی تفصیلی تصویر حاصل کی جاتی ہے۔ اس عمل کو ہسپتالوں وغیرہ میں تربیت یافتہ افراد سرانجام دیتے ہیں جنہیں ریڈیو گرافر کہا جاتا ہے۔ ضرورت: سی ٹی سکین سے جسم کے اندرونی ڈھانچوں جن میں داخلی اعضا، خون کی شریانیں اور ہڈیاں شامل ہیں، کی تفصیلی تصویر حاصل کی جاتی ہے۔ انہیں مندرجہ ذیل صورتوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ تشخیص: اس میں ہڈیوں کو پہنچنے والا نقصان، داخلی اعضا کے زخم، خون کی روانی کے مسائل، سٹروک (دماغ کے کسی حصے کو خون کی فراہمی بند ہونا) اور سرطان شامل ہیں۔ مزید ٹیسٹوں یا علاج کیلئے رہنمائی: مثلاً سی ٹی سکین کو ریڈیوتھراپی سے قبل کسی گلٹی یا ٹیومر کے مقام، حجم اور شکل کے بارے میں جاننے، یا نیڈل سے بائیوپسی (جس میں بافت کے چھوٹے حصے کو نکالا جاتا ہے) میں ڈاکٹر کی مدد کرنے کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ حالت کی نگرانی: مثلاً کینسر کے علاج کے دوران یا اس کے بعد کسی گلٹی کے حجم میں ہونے والے اضافے کی نگرانی کرنا۔ اگر علامات نہ ہوں تو عموماً سی ٹی سکین نہیں کیا جاتا، دوسرے لفظوں میں یہ ''سکریننگ‘‘ کی طرح نہیں۔ تیاری: ماہر آپ کو بتا دے گا کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔ سی ٹی سکین سے اچھی تصویر حاصل کرنے کیلئے آپ کو کئی گھنٹوں تک کھانا نہ کھانے کا مشورہ دیا جائے۔ اگر آپ کو کسی قسم کی الرجی ہے یا گردوں کا کوئی مسئلہ ہے، یا آپ ذیابیطس کیلئے کوئی دوا لے رہے ہیں تو ہسپتال میں متعلقہ افراد کو ضرور بتائیں تاکہ اسی مناسبت سے اہتمام کیا جا سکے۔ ناگزیر حالات کے علاوہ حاملہ خواتین کا سی ٹی سکین نہیں ہوتا۔ ایسی خواتین کو اپنی حالت کے بارے لازماً مطلع کرنا چاہیے۔ سی ٹی سکین کیلئے کھلے اور آرام دہ کپڑے پہننا مناسب رہتا ہے۔ زیورات اور دھات کی کوئی شے نہ پہنیں۔ پہننے کی صورت میں انہیں اتارنا پڑے گا۔ سکین سے قبل آپ کو بہتر تصویر کیلئے کوئی مادہ دیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ کو سکین کرانے سے خوف آتا ہے یا تشویش ہوتی ہے تو ریڈیوگرافر کو بتائیں۔ وہ آپ کو پرسکون کرنے کیلئے مشورہ دے گا۔ ہو سکتا ہے کہ دوا دینے کی ضرورت پیش آئے۔ سکین کیلئے خصوصی کپڑے پہننے کا کہا جا سکتا ہے۔ سکین کے دوران آپ ایک سیدھے بستر پر لیٹ جاتے ہیں جو سی ٹی سکینر کے اندر جاتا ہے۔ اس دوران آپ کو ایک ہی حالت میں رہنا چاہیے اور نارمل سانس لینا چاہیے۔ کسی لمحے آپ کو سانس لینے، نکالنے یا روکنے کا کہا جا سکتا ہے۔ سکین میں عموماً 10 سے 20 منٹ لگتے ہیں۔ اس کے بعد آپ گھر اور کام پر جا سکتے ہیں، کھا اور پی سکتے ہیں۔ ڈرائیونگ بھی کر سکتے ہیں۔ سکین کے بعد نتائج میں کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔ کمپیوٹر معلومات کو پراسس کرتا ہے۔ ریڈیالوجسٹ ان کا تجزیہ کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ ایک رپورٹ لکھتا ہے جو ڈاکٹر کے پاس جاتی ہے۔ عام طور پر سی ٹی سکین مختصر، تکلیف کے بغیر اور محفوظ ہوتے ہیں۔ تاہم بعض اوقات سکین سے قبل دیے گئے مادے سے الرجی کا امکان ہوتا ہے۔ سی ٹی سکینر اس طرح ڈیزائن کیے جاتے ہیں کہ تابکاری کی سطح زیادہ نہ ہو۔ عموماً سی ٹی سکین سے اتنی ہی تابکاری جسم پر ڈالی جاتی ہے جتنی قدرتی ماحول میں چند ماہ یا سالوں کے دوران پڑتی ہے۔٭...٭...٭  

حکایت سعدیؒ :زخمی درویش

حکایت سعدیؒ :زخمی درویش

بیان کیا جاتا ہے، ایک درویش سمندر کے کنارے اس حالت میں زندگی گزار رہا تھا کہ اس کے جسم پر چیتے کے ناخنوں کا لگا ہوا ایک زخم ناسور بن چکا تھا۔ اس ناسور کی وجہ سے درویش بہت تکلیف میں مبتلا تھا۔ مگر اس حالت میں بھی وہ اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا۔اس سے سوال کیا گیا کہ اے مرد خدا! یہ شکر کرنے کا کونسا موقع ہے؟ درویش نے جواب دیا، میں اس بات کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مصیبت میں مبتلا ہوں معصیت میں نہیں۔ تو نے سنا نہیں کہ اللہ والے گناہ کے مقابلے میں مصائب کو پسند کرتے ہیں۔ جب عزیز مصر کی بیوی زلیخا نے حضرت یوسف علیہ السلام کو جیل خانے میں ڈلوا دینے کی دھمکی دی تو انھوں نے فرمایا تھا کہ اے اللہ، مجھے قید کی مصیبت اس گناہ کے مقابلے میں قبول ہے جس کی طرف مجھے بلایا جا رہا ہے۔ درویش نے مزید کہاکہ اللہ والوں کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر حالت میں اپنے رب کو راضی رکھنے کی تمنا کرتے ہیں۔مجھے قتل کرنے کا دیں حکم اگر نہ ہو گا مجھے اپنی جاں کا ملالمیں سوچوں گا کیوں مجھ سے ناراض ہیں ستائے گا ہر وقت بس یہ خیالاس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے انسان کے اس بلند مرتبے کا حال بیان کیا ہے جب وہ ہر بات کو من جانب اللہ خیال کرتا ہے اور ہر وقت اس خیال میں رہتا ہے کہ میرا خدا مجھ سے کس طرح راضی ہو گا، یہی وہ روحانی منزل ہے جب انسان کو سچااطمینان اور سچی راحت حاصل ہوتی ہے۔ اور وہ خوف اور غم سے پاک ہو جاتا ہے۔