ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی

اسپیشل فیچر

تحریر :


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اپنی علمی و ادبی استعداد‘ تدریسی‘ تحقیقی اور تنقیدی مقام و مرتبہ اور اقبال شناسی کے حوالے سے ملکی ہی نہیں بین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں۔ انھوں نے تقریباً۵۳ برس کالجوں اورپنجاب یونی ورسٹی میں درس وتدریس کے فرائض انجام دیے۔اس کے ساتھ ساتھ وہ علمی واد بی تحقیق میں بھی مصروف رہے۔ بیرونی ممالک میں اقبال پر کانفرنسوں میں پاکستان کی نمائندگی بھی کی۔ آپ دائتوبنکایونیورسٹی ٹوکیو جاپان میں فروری مارچ 2002ء میں وزیٹنگ سکالر رہے۔ ایچ ای سی ایمی نینٹ پروفیسر کے طور پرشعبہ اقبالیات پنجاب یونیورسٹی لاہور سے منسلک رہے۔ علاوہ ازیں وہ طویل عرصے تک اقبال اکادمی پاکستان سے وابستہ چلے آرہے ہیں۔آپ اقبال اکادمی کے تاحیات رکن اوراس کی گورننگ باڈی اورایگزیکٹوباڈی کے بھی رکن ہیں۔اس کے علمی رسالے’’اقبالیات‘‘کی بلکہ بہت سے دوسرے علمی وتحقیقی مجلوں کی ادارتی اورمشاورتی مجالس میں بھی شامل ہیں۔اس کے علاوہ آپ ادبی کمیٹی بزم اقبال لاہور کے بھی رکن ہیں۔اسی طرح آپ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ اردواورشعبہ اقبالیات اور بورڈ آف ایڈوانس سٹڈیزاینڈ ریسرچ کے ساتھ کئی طرح سے منسلک رہے ہیں۔ آپ کو علمی و ادبی اور تحقیقی خدمات کے اعتراف میں کئی اعزازات کا حق دار قرار دیا گیا جن میںداؤدادبی ایوارڈ1982ء،بیسٹ یونی ورسٹی ٹیچرزایوارڈ2000ء اورقومی صدارتی اقبال ایوارڈ 2005ء اہم ہیں۔ آپ کی چالیس سے اوپرتصنیفات اردوزبان وادب کے حوالے سے تحقیقی وعلمی سطح پر بے حد اہمیت کی حامل ہے۔ ہماری خوش قسمتی کہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے ساتھ ملاقات کا موقع میسر آیا جس کا احوال معزز قارئین کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔س:آپ یونیورسٹی میں آپ اوّل آئے؟ج:جی ہاں،اوّل آیااوراس بناپریونیورسٹی گولڈمیڈل ملا۔اسی طرح انجمن ترقیٔ اردو پاکستان کی طرف سے’’ تمغائے بابائے اردو‘‘بھی ملا۔س:اچھاڈاکٹرصاحب،لکھناکب شروع کیا؟ج: لکھنے لکھانے کاسلسلہ سکول کے زمانے سے شروع ہوا۔ ایف اے کے زمانے میں کچھ افسانے اورانشایے لکھے اور کچھ طنزومزاح بھی۔لیکن جب ایم اے میں پہنچا تو میری توجہ تحقیق اور تنقید کی طرف زیادہ ہوگئی۔ لیکن تخلیق سے بھی تعلق برقراررہااور ابھی تک یہ تعلق قائم ہے۔ دو سفر نامے شائع ہو چکے ہیں۔ ایک اندلس کا ’’پوشیدہ تری خاک میں‘‘ اور دوسرا جاپان کا ’’سورج کو ذرا دیکھ‘‘ اس کے علاوہ بھارت ،برطانیہ اورشمالی علاقہ جات کے اسفارکی رودادیں بھی لکھی ہیں کچھ مزیدسفرنامے لکھنا چاہتاہوں مگرتحقیقی مشاغل مہلت نہیں دیتے۔س:اچھا،کچھ عملی زندگی کے بارے میں بھی…ج:عملی زندگی ،اس میں صحافت میں جانے کے خاصے مواقع تھے مگرمزاجی مناسبت مجھے درس وتدریس سے تھی،اس لیے سوچا کہ پڑھنا پڑھانا بہتررہے گا۔شروع میں مجبوراً کچھ عرصہ اخبار، رسالوں میں کام کیاپھرجونہی موقع ملا،تدریس میں آگیا۔ غزالی کالج جھنگ صدر‘ ایف سی کالج لاہور‘ میونسپل کالج چشتیاں‘ انبالہ مسلم کالج سرگودھامیں پڑھاتا رہا پھر جب گورنمنٹ سروس میں آگیا تو گورنمنٹ کالج مری‘ گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھایا۔ یہاں سے میں 1982ء میں پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج کے شعبہ اردو میں آگیا اور 2002ء میں یہیں سے ریٹائر ہوا۔ مزیددو برس پڑھایا لیکن اب مصروفیت لکھنے پڑھنے اور تحقیق و تصنیف ہی کی ہے۔ویسے یونی ورسٹی سے تعلق کئی طرح کااب بھی قائم ہے۔دائرہ معارف اقبال کے لیے ان دنوں کچھ مقالات زیرتحریرہیں۔س: اقبالیات آپ کا مرغوب موضوع رہا۔ تخصیص کے ساتھ اس سے وابستگی اور اسی میں تحقیق کے کیا محرکات تھے؟ج: ایک تو یہ تھا کہ ایم اے اردو کے نصاب میں علامہ اقبال کے مطالعے کا ایک پورا پرچہ ہے جس میں ان کی شاعری اور ان کے افکار کا تفصیلی مطالعہ ہوتا ہے۔ یہ پنجاب یونیورسٹی کا اعزاز ہے کہ اس کے ایم اے اردواورفارسی کے نصاب میںاقبالیات کا پورا پرچہ شامل ہے۔توایک وابستگی تویہ تھی۔ دوسرے اس سے پہلے میرے گھر کا ماحول اور خاندانی پس منظر بھی اقبال کی جانب رغبت دلانے کے لیے سازگار تھا۔ میں جب پانچویں یا چھٹی جماعت میں تھا‘ ہمارے گھر میں بانگِ درا کا ایک نسخہ ہوتا تھا۔ میں اس کو کبھی کبھی دیکھتا تھا۔ اس میں شروع کی بعض نظمیں مثلاً’’پرندے کی فریاد‘‘یا’’ایک مکڑا ور مکھی‘‘یا’’ہمدردی‘‘وغیرہ دلچسپ محسوس ہوتی تھیں تویہ چیز اقبال سے ابتدائی دلچسپی کا سبب بنی۔ پھر ایف اے کے زمانے میں’’بالِ جبریل‘‘ میرے ہاتھ لگی۔ چھٹیوں کا زمانہ تھا، بار بار پڑھنے سے بہت سا حصہ مجھے یا دہوگیا ۔جب ایم اے میں اقبال کوپڑھا تو سب پچھلی باتیں تازہ ہوگئیں اور اس طرح وہ سلسلہ آگے چلتا رہا۔اس کے بعد میں نے پی ایچ ڈی کیا جس کے لیے میرے مقالے کا موضوع تھا ’’تصانیف اقبال کا تحقیقی اور توضیحی مطالعہ‘‘ وہ مقالہ تین مرتبہ چھپا ہے۔یوںزیادہ تر میری توجہ اقبال پر ہی رہی ہے۔ اقبالیات پرمیری چھوٹی بڑی بیس کتابیں ہیں۔ مثلاً’’ اقبال کی طویل نظمیں‘‘ میری سب سے پہلی کتاب ہے۔ وہ 1974ء میں چھپی تھی اب تک اس کے سات آٹھ ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ س: ڈاکٹر صاحب! آپ نے پی ایچ ڈی کے لیے ’’تصانیف اقبال کا تحقیقی اور توضیحی مطالعہ‘‘ کا موضوع منتخب کیا۔ اس میں اقبال کی تمام کتب اور ان میں شامل نظمیں‘ غزلیں‘ قطعات‘ رباعیات اور فردیات سب کچھ آ جاتا ہے، ان سب کا احاطہ کرنا آپ کے لیے کس قدر مشکل رہا۔ ج: اس میں جو تحقیقی مطالعہ تھا وہ اس طرح تھا کہ اقبال نے اپنی شاعری اور نثر کو کیسے جمع کیا اور کب اور کیسے شائع کیا مثلاً ان کی پہلی کتاب نثر میں چھپی ’’علم الاقتصاد‘‘ 1904ء میں۔ شاعری میں سب سے پہلی کتاب ’’اسرارِ خودی‘‘ پھر ’’رموزِ بے خودی‘‘ پھر ’’پیامِ مشرق‘‘ اُس کے بعد’’بانگِ درا‘‘ چھپی ہے۔ ان سب اورباقی کتب کی بھی اشاعت کی کیا تاریخ وترتیب ہے؟ یہ بھی تھا کہ ایک کتاب ایک بار چھپنے کے بعد جب دوسری مرتبہ چھپتی تھی تو علامہ اقبال اس میں ترمیم کرتے تھے۔ وہ ترامیم کیا تھیں تحقیقی اعتبار سے ان کی نشاندہی اوران کاکھوج لگاناضروری تھا کیونکہ اس سے شاعر کی ذہنی تبدیلی کا پتا چلتا ہے۔ اقبال نے بعدکے ایڈیشنوں سے بعض اشعار نکال دیے اور ان کی جگہ نئے شعر شامل کر یے مثلاً اسرارِ خودی، میں حافظ شیرازی کے بارے میں بڑے سخت شعر تھے لوگوں نے بڑے اعتراض کیے۔ اکبر الٰٰہ آبادی اور خواجہ حسن نظامی بھی ناراض ہوئے تو دوسرے ایڈیشن میں انھوں نے ان اشعار کو نکال دیا۔ جب تیسرا ایڈیشن آیا تو اقبال نے پھر ترامیم کیں تو میں نے اپنے مقالے میں وضاحت کے ساتھ ان سب ترامیم اورتبدیلیوں کی وضاحت کی جومختلف شعری مجموعوںمیںعلامہ اقبال نے کیں۔ مثلاً ’’بانگ درا‘‘ کا تیسرا ایڈیشن حتمی نسخہ ہے۔ اسی طرح’’ پیامِ مشرق‘‘ کا دوسرا ایڈیشن اس کا حتمی نسخہ ہے۔ اس لیے اقبال کی فکر کا مطالعہ کرنے کے لیے ان کی ذہنی تبدیلیوں کے بارے میں تحقیق کرنا ضروری تھا۔ اوریہ کام بہت پھیلا ہوا تھا کیونکہ ان کی چار کتابیں اردو کی ہیں سات فارسی کی ہیںپھر نثر کی کتابیں ہیں۔ اس کے علاوہ علامہ کے انگریزی خطبات ہیں جنھیں خطبات مدراس بھی کہتے ہیں اس کے دوسرے ایڈیشن میں بھی تبدیلیاں کی گئیں، میںنے ان کی بھی نشاندہی کی۔ یہ سارا کام اس لحاظ سے تحقیقی اہمیت کا حامل ہے کہ اب جو لوگ اقبال پر تحقیق کرتے ہیں انھیں اس مقالے سے رہنمائی ملتی ہے ۔ س: ڈاکٹر صاحب! علامہ اقبال اپنے نظریات اور تخلیقی عمل میں کن شخصیات سے متاثر تھے جبکہ ان کا زمانہ برصغیر میں مسلمانوں کے زوال اور آشوب کا تھا؟ج: علامہ اقبال کی فکر اوران کے نظریات دراصل ان کی شخصیت کاعکس ہیں،اوراقبال کی شخصیت کی تشکیل میں تین افراد کا بنیادی عمل دخل ہے۔ ایک تو خود ان کے والد تھے جو بڑے دُرویش منش اور صوفی بزرگ تھے۔ انھوں نے لڑکپن ہی سے اقبال کی تربیت ایک خاص نہج پر کی ،مثلابیٹے کویہ نصیحت کی کہ قرآن پاک کو ایسے پڑھاکرو جیسے یہ تم پرنازل ہورہاہے۔یاجیسے یہ تمھارے جسم و جاں کا حصہ بن رہا ہے۔دوسری شخصیت مولوی سید میر حسن کی ہے۔ان کا بھی اقبال پر بڑا گہرا اثر ہے۔ وہ ان کے استاد تھے اوراقبال کے اندرعلمی وادبی ذوق پروان چڑھانے میں ان کابڑادخل ہے۔تیسرے شخص پروفیسرآرنلڈتھے، جو فلسفے کے استاد تھے۔ ان کا اقبال پراتنا اثر تھا کہ ا قبال نے پروفیسر آرنلڈ کے لیے نظم لکھی ’نالۂ فراق‘ جو بانگِ درا میں شامل ہے۔ وہ جب یہاں سے ریٹائر ہو کر جا رہے تھے تواقبال نے یہ نظم لکھی تھی’’تیرے دم سے تھا ہمارے سر میں بھی سودائے علم‘‘ اور یہ پوری نظم اقبال پرآرنلڈ کے احسانات اور فیوض کااعتراف ہے۔ اس نظم کاایک اورمصرع ہے ’’توڑ کر پہنچوں گا میں پنجاب کی زنجیر کو‘‘۔ 1904ء میں یہ نظم کہی اور 1905ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے اقبال آرنلڈ کے پیچھے پیچھے انگلستان پہنچ گئے اور تین سال میں کیمبرج‘ لنکنز ان اور میونخ سے تین ڈگریاں حاصل کیں۔ تویہ تین ہستیاں ہیںجنھوں نے اقبال کی شخصیت کی تشکیل کی۔ ویسے میں سمجھتاہوں کہ اقبال کو صاحب اقبال اور باکمال بنانے میں ان کی والدہ اورسکاچ مشن کالج اورکیمبرج کے ان کے اساتذہ کابھی خاصا دخل ہے۔س: ڈاکٹر صاحب! علامہ اقبال کے نزدیک مسلمانوں کے لیے الگ ریاست کے کیا خدوخال تھے اور وہ اس کے لیے کیسا نظام پسند کرتے تھے؟ج:اقبال نے جس ریاست کی بات کی ہے،اس کابنیادی نکتہ یہ ہے کہ حاکمیت یاساورنٹی صرف اللہ تعالیٰ کی ہے،یعنی ’’سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتاکوہے‘‘۔اقبال مغربی جمہوریت کے خلاف تھے کیونکہ اس میں حاکمیت عوام کی ہوتی ہے مگر اقبال عوام کو نہیں اللہ تعالیٰ کو حاکم مانتے ہیں۔کہتے ہیں’’حکمراں ہے اک وہی ،باقی بتانِ آزری‘‘۔معاف کیجیے اقبال کی نظر میں تو ہم آج کل بتانِ آزری کو پوج رہے ہیںاور اسی لیے خوار ہورہے ہیں۔…رہی یہ بات کہ اقبال کیسانظام پسند کرتے تھے ؟ قائداعظمؒ سے ان کی خط کتابت دیکھیے ،جس میں انھوں نے کہا کہ ہمارے مسائل کا حل نہرو کی لادینی سوشلزم میں نہیں ہے بلکہ شریعت اسلامیہ کے نفاذ میں ہے۔ لہٰذا یہ بالکل واضح ہے کہ وہ مسلمانوں کی نئی ریاست کے لیے سیکولر یا سوشلسٹ نظام تجویز نہیں کرتے تھے۔ وہ دین اور سیاست کو بھی الگ الگ نہیں سمجھتے تھے۔ س: علامہ اقبال کے نزدیک اجتہاد کی کیا اہمیت ہے؟ج: دیکھیے علامہ اقبال زندگی میں جس انقلاب پر زور دیتے ہیں،مثلاً کہتے ہیں: عجس میں نہ ہو انقلاب ، موت ہے وہ زندگیتوان کے مجوزہ انقلاب میں اجتہادناگزیر ہے اور ایک بنیادی نکتہ ہے۔دورحاضرمیں کسی قوم کو،خاص طورپرمسلم امہ اپنی بقا اورترقی کے لیے اجتہاد کی اشدضرورت ہے،اس لیے اقبال نے نئے زمانے میں نئے صبح وشام پیداکرنے کی تلقین کی ہے۔ان کے نزدیک طرز کہن پراڑنا،جموداور موت کی علامت ہے۔مگر یہ نہ ہو کہ اجتہاداورآئین نو کے شوق میں اپنی تہذیب کی بنیادوں ہی سے منحرف ہو جائیں۔اقبال کے نزدیک ہر ایراغیرا اجتہاد کااہل نہیں۔س: ڈاکٹر صاحب! علامہ اقبال وسیع المطالعہ تھے‘ انھوں نے اردو فارسی میں شاعری بھی کی اور نثر بھی لکھی۔ برصغیر کی سیاست میں بھی ان کا بھرپور کردار رہا۔ وہ ایک فلاسفر بھی تھے۔ا نہوں نے کالج میں اردو‘ فارسی فلسفہ اور انگریزی بھی پڑھائی ان سب صفات کے ہم آہنگ ہونے سے اقبالؒ کی کیا شخصیت نکھر کر سامنے آتی ہے۔ ج: دیکھیے علامہ اقبال کثیر المطالعہ اور جامع الحیثیات شخص تھے۔ وہ استاد بھی تھے‘ شاعر بھی تھے اور سیاست دان بھی مگر ان کی دیگر صفات ان کی شاعری کے تابع ہیں کیونکہ وہ بنیادی طور پر شاعر تھے۔ انھوں نے ہر شعبے میں اپنے نقوش چھوڑے ہیں اور کچھ ہدایات دی ہیں۔ ان کی شاعری پر غور کرنے اورتامل کرنے سے نئے سے نئے نکات سامنے آتے ہیں۔ دنیا کی چالیس زبانوں میں ان کی تخلیقات کے تراجم ہو چکے ہیں۔ اس لیے کہ ان کے کلام میں ایک کشش ،جامعیت اورہمہ گیری پائی جاتی ہے۔ جب ہندوستان آزاد ہوا تو 15 اگست کی رات کوبھارت کی اسمبلی کاافتتاح اقبال کے’’ ترانہ ہندی‘‘ سے ہوا۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اقبال کی شخصیت کی دل نوازی ایک حدتک ان کے کٹر مخالفین کے لیے بھی قابل قبول تھی۔س: ڈاکٹر صاحب! علامہ اقبال نے جہاں حافظ اور مولانا روم کو پڑھا، وہاں مارکس، لینن، گوئٹے اور نٹشے کا بھی مطالعہ کیا اور انھوں نے ان کو اپنی شاعری میں بھی جگہ دی مگر ہر نظام کو اسلام کی کسوٹی پر پرکھا اور اسلام کو ہی بہترین نظام قرار دیا۔ آپ اس سلسلے میں کیا کہیں گے؟ج:کہنا چاہیے کہ جن شخصیات کو انھوں نے پڑھا ان کا ذکر ان کی شاعری میں آیا ہے۔ اقبال نے سب کو پڑھا اور سب سے استفادہ کیا لیکن اقبال کی فکر کا جو سب سے بڑا ماخذ ہے وہ قرآن حکیم ہے۔ اور ان کے نزدیک جو سب سے عظیم شخصیت ہے وہ نبی کریمؐ کی ہے جن سے وہ سب سے زیادہ متاثر تھے۔ اس کے بعد مولانا رومی ہیں‘ اس کے بعد دوسرے لوگ بلاشبہ انھوں نے دوسرے لوگوں سے بھی کچھ نہ کچھ اثر قبول کیااوربعضچیزوںکو انھوں نے سراہا گویا جہاں سے بھی انھیں حکمت ودانش کی کوئی چیز ملی، اسے اپنی فکر کا حصہ بنا لیا۔ س: ڈاکٹر صاحب اقبال کے وسیع مطالعے اور فارسی و عربی زبانوں پر عبور ہونے کے سبب ان کا کلام مفرس اور معرب ہے اور اس میں مشکل پسندی پائی جاتی ہے۔ کیا یہ ابلاغ عامہ کے راستے میں حائل تو نہیں؟ج: ایک تو یہ ہے کہ اقبال کے زمانے میں فارسی زبان کی روایت بہت پختہ تھی۔ فارسی پڑھی اور پڑھائی جاتی تھی ۔دوسری بات یہ کہ ایک بار کچھ دوستوں نے اقبال سے شکوہ کیاکہ آپ فارسی میں سب کچھ کہتے ہیں ،اردو والے منتظر رہتے ہیں۔ علامہ اقبال کا جواب تھا It comes to me in Persian. باقی مشکل کی بات تو یہ ہے کہ اب ہمارامعیار تعلیمبہت نیچے آ گیاہے اورہمیں اقبال کااردو کلام بھی فارسی کی طرح لگتا ہے۔ س: ڈاکٹر صاحب! اقبال کے حوالے سے دنیا کے متعدد ممالک میں کانفرنسیں ہوتی رہیںاور پاکستان میں بھی اقبالیات کے موضوع پر سیمینار ہوتے رہے ہیں آپ کی ان سیمینارز اور کانفرنسوں میں اندرون ملک اور بیرون ملک بھرپور شرکت رہی، کچھ ان کا احوال بیان کیجیے۔ ج: اقبال کے حوالے سے کانفرنسوں کا آغاز اقبال کے زمانے ہی میں ہوگیا تھا۔ یہ روایت پاکستان بننے کے بعد پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ اور کانفرنسوں کا یہ سلسلہ دنیا کے پیشتر ممالک تک پھیلا ہوا ہے مجھے بھی ایسی دس بارہ کانفرنسوں میں شرکت کاموقع ملا۔ دوتین مرتبہ پاکستان میں‘ دو دفعہ بھارت میں‘ ایک دفعہ ترکی میں‘ ایک مرتبہ بلجیم میں‘ ایک ایک دفعہ برطانیہ اوراسپینمیں جانے کا موقع ملا۔ جو کانفرنس دسمبر 1977ء میں لاہور میں ہوئی جب علامہ اقبال کا سو سالہ جشن منایا گیا ،وہ سب سے بڑی کانفرنس تھی۔اس میں ایک دلچسپ بات یہ ہوئی کہ جنرل ضیاء الحق اجلاس کے صدرتھے۔ بشیرحسین ناظم نے کلام اقبال پڑھا اور سماںباندھ دیا۔ جنرل خوش ہوگئے۔ فرمائش کی کہ ایک اورغزل پڑھیں ،بشیرصاحب نے اتفاقاًیا شاید شرارتاًبال جبریل کی وہ غزل شروع کی ’’دل بیدار فاروقی…‘‘ ناظم صاحب غزل پڑھ رہے تھے اورجنرل صاحب سن سن کر جھوم رہے تھے،جب آخری شعرپرپہنچے اور وہ یہ تھا:خدا وندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیںکہ دُرویشی بھی عیاری ہے ، سلطانی بھی عیاریتو یہ شعر پڑھتے ہوئے بشیرحسین ناظم نے معنی خیزطورپر ضیاء الحق کی طرف دیکھا۔٭٭٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
معدنی نمک ،پاکستان نمک کی پیداوار میں دنیا میں بیسویں نمبر پر ہے

معدنی نمک ،پاکستان نمک کی پیداوار میں دنیا میں بیسویں نمبر پر ہے

اگر چہ پاکستان کو قدرت نے نمک کے بہت وسیع ذخائر سے نوازا ہے لیکن بد قسمتی سے ابھی تک پاکستان نمک کے ان ذخائر کوٹھیک طریقے سے استعمال نہیں کر سکا ہے۔ پاکستان نمک کی پیداوار میں بہت سے ملکوں سے پیچھے ہے۔ پاکستان نمک کی پیداوار میں 24 لاکھ ٹن سالانہ کے ساتھ دنیا میں بیسویں نمبر پر ہے۔ اس کے مقابلے میں چین سالانہ 6 لاکھ کروڑ ٹن کی نمک کی پیداوار کے ساتھ دنیا میں پہلے نمبر پر ہے پاکستان میں صنعتی شعبہ کمزور ہونے کے باعث بھی نمک سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھایا جاتا۔نمک کا تکنیکی نام سوڈیم کلورائیڈ (NaCl) ہے۔ بظاہر کم قیمت اور معمولی سمجھا جانے والا نمک در حقیقت قدرت کا انتہائی اہم معدنی تحفہ ہے جو کھانوں کو ذائقہ بخشنے کے علاوہ بہت سے صنعتوں میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستان میں نمک کے 6 ارب سے زائد ذخائر موجود ہیں۔ ضلع جہلم میں کھیوڑہ کی نمک کی کان دنیا کی دوسری بڑی نمک کی کان ہے پاکستان میں کھیوڑہ کے علاوہ نمک کی کانیں واڑچھا ضلع خوشاب، کالا باغ ضلع میانوالی اور بہار خیل ضلع کو ہاٹ میں بھی پائی جاتی ہیں۔ دنیا بھر میں پاکستانی نمک کی شناخت ''ہمالین سالٹ ‘‘کے نام سے ہے۔ اس کو ''پنک سالٹ‘‘ بھی کہا جاتا ہے، پاکستان میں پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں پایا جانے والا نمک 99 فیصد خالص ہے اس میں کیلشیم میگنیشیم ، زنک، آئرن اور کئی دوسرے منرلز پائے جاتے ہیں۔نمک کا سب سے اہم استعمال کھانوں کی تیاری میں ہوتا ہے جو نہ صرف کھانوں کو خوش ذائقہ بناتا ہے بلکہ جسمانی نظام اور صحت کو برقرار رکھنے میں میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ نمک خلیوں کی کارکردگی اور فعالیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ بطور الیکٹرولائٹ بھی بہت ضروری ہے نمک جسمانی توازن اور بلڈ پریشر کو کنٹرول کرتا ہے۔ آئیوڈین والا نمک جسم میں آئیوڈین کی ضرورت کو پورا کرتا ہے، جس سے تھائرائیڈ ہارمون بنتا رہتا ہے اور گلہر کی بیماری سے بچاؤ ممکن ہوتا ہے۔ مجموعی طور پر نمک انسانی جسم کے افعال کے لیے اس قدراہم ہے کہ ڈائیریا کے مرض کی وجہ سے جسم میں نمکیات اور پانی کی کمی ہونے کی وجہ سے انسان کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ نمک کے استعمال میں احتیاط ضروری ہے کیونکہ نمک کی زیادتی ہائی بلڈ پر یشر اور دل کے امراض کی وجہ بن سکتی ہے۔نمک کا استعمال صرف کھانوں کی تیاری تک محدود نہیں۔ نمک بہت کسی کیمیائی صنعتوں میں استعمال ہوتا ہے۔ نمک کو صنعتی پیمانے پر کاسٹک سوڈا بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کاسٹک سوڈا صابن اور سرف بنانے کے لئے انتہائی اہم جزو ہے۔ اس کے علاوہ اس کو کھارے پانی کو میٹھا کرنے اور دیگر صنعتی اشیاء تیار کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کاسٹک سوڈا بنانے کے عمل سے ہی کلورین بھی پیدا ہوتی ہے۔ کلورین کو بڑے پیمانے پر پانی کو جراثیم سے پاک کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کاسٹک سوڈا اور کلورین کے علاوہ بھی نمک کو کیمیکل انڈسٹری میں بہت وسیع پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ تقریباً آدھے سے زائد کیمیکلز کی تیاری میں کسی نہ کسی مرحلے پر نمک لازماً استعمال کرنا پڑتا ہے۔نمک کو پینٹ ، رنگ اور ڈائیاں بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ گلاس، پولی ایسٹر ، ربڑ، پلاسٹک اور کپڑے کی صنعت میں بھی نمک استعمال کیا جاتا ہے۔ چمڑا بنانے کے کارخانوں میں بھی نمک کو جانوروں کی کھالوں کو گلنے سڑنے سے محفوظ رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ صنعتیں جو ملکی معشیت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں، نمک کے بغیر نہیں چل سکتیں۔صنعتوں سے باہر بھی نمک بہت سے اہم کاموں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ نمک کو تیل کے کنویں کی مٹی کو پائیدار بنانے اور کنویں کو گرنے سے بچانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ نمک سٹرکوں پر جمی برف ہٹانے، کھارے پانی کو میٹھا کرنے اور دھاتیں صاف کرنے کے بھی کام آتا ہے۔ نمک کو فارماسیوٹیکل انڈسٹری میں سیلائن سولیوشنز ، گولیاں اور آئنمنٹس بنانے کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت نمک کی پیداوار بڑھانے کے لیے اقدامات کرے۔ صنعتی شعبے کی ترقی کیلئے صنعت کاروں کو مراعات دی جائیں اور جن صنعتوں میں نمک استعمال ہوتا ہے ان کوٹیکس میں خصوصی چھوٹ دی جائے تا کہ پاکستانی اشیاء عالمی مارکیٹ میں مقابلہ کر سکیں اور ملک کو زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ حاصل ہو۔ انہی اقدامات سے ممکن ہو سکے گا کہ پاکستان اللہ کے دیئے گئے نمک کے تحفے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے۔ 

قرطاجنہ خوبصورت قدیم شہر

قرطاجنہ خوبصورت قدیم شہر

شمالی افریقہ میں خلیج تیونس کے کنارے ایک تکونی جزیرہ نما واقع ہے۔ اس پر قدیم زمانے میں فونیقی قوم نے ایک خوبصورت شہر تعمیر کیا تھا۔ اس کا نام قرطاجنہ (Carthage) تھا۔ یہ شہر ترقی کر کے ایک شہری ریاست بن گیا تھا۔ قرطاجنہ کے ابتدائی آبادکار جو فونیقی شہر صور (Tyre) سے تعلق رکھتے تھے، پہلے پہل بارہویں صدی قبل مسیح میں یہاں پہنچے تھے۔ ان کا مقصد ایک نوآبادی قائم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اسباب تجارت کے لیے ایک منڈی تلاش کرنا بھی تھا۔ تعمیر روم کے افسانے کی طرح قرطاجنہ کی تعمیر بھی افسانوی طور پر 814 قبل مسیح میں ہوئی تھی۔ اس افسانوی روایت کے مطابق صور کی شہزادی ڈیڈو (Dido) جب اپنے بھائی شاہ پگمالیون (صور کی تاریخ میں اس نام کا ایک بادشاہ گزرا ہے) کے مظالم سے بھاگ کر شمالی افریقہ پہنچی تو اس نے خلیج تیونس کے کنارے اس مقام پر ایک شہر کی تعمیر کے لیے مقامی لوگوں سے ایک کھال کے برابر جگہ حاصل کی، پھر شہزادی نے چالاکی سے کھال کو باریک اور پتلی پٹیوں میں کاٹنے کا حکم دیا۔ بعدازاں ان باریک پٹیوں کی مدد سے ایک بڑے رقبے پر قبضہ کر لیا۔ اسی رقبے پر قرطاجنہ کی تعمیر ہوئی۔ قرطاجنہ شہر کے عین درمیان میں ایک چٹان پر ایک قلعہ تھا جو بیرصہ (Byrsa) کہلاتا تھا۔ اسی قلعے کے اردگرد قرطاجنہ کا پورا شہر آباد تھا۔ یہ شہر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قدیم دنیا کا ایک اہم شہر بن گیا اور روم کے ہمسر کے طور پر ابھرا۔ رومی اس شہر کے باشندوں کو پیونی (Poeni) کہتے تھے، جو فونیقی (Phoenician)کی ایک بدلی ہوئی شکل تھی۔ اسی لفظ کی وجہ سے بعدازاں روم اور قرطاجنہ کے درمیان تیسری اور دوسری صدی قبل مسیح میں لڑی جانے والی جنگیں پیونک جنگیں کہلاتی ہیں۔ قرطاجنہ کے سنگ بنیاد رکھے جانے کی مذکورہ تاریخ غالباً خود قرطاجنی باشندوں نے اپنی مبالغہ آرائی سے قائم کی تھی۔ جدید آثار قدیمہ کی تحقیق کی روشنی میں جو ثبوت دستیاب ہوئے ہیں وہ اس تاریخ سے موافقت نہیں رکھتے۔ اثریاتی کھدائیوں سے کوئی چیز ایسی دستیاب نہیں ہوئی جس کا تعلق آٹھویں صدی قبل مسیح کے آخر سے پہلے کے زمانہ سے بنتا ہو۔ قرطاجنہ کے بارے میں سب سے قدیم حوالہ ہمیں 509 قبل مسیح میں ملتا ہے، جب روم اور قرطاجنہ میں تجارتی مراعات کے بارے میں ایک معاہدہ طے پایا تھا۔ پانچویں صدی قبل مسیح میں اہل قرطاجنہ نے سسلی فتح کرنے کی ناکام کوشش کی جس کی وجہ سے اہل روم سے مخاصمت کا آغاز ہوا۔ بعد میں سسلی ہی پر اہل قرطاجنہ کی یورشوں سے پیونک یا قرطاجنی جنگیں پیش آئیں۔ ان کے آخر میں 146 قبل مسیح میں رومی جنرل سیپیوایفرایکٹس اصغر نے قرطاجنہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور شہر کو جلا کر مسمار کرایا۔ 122 قبل مسیح میں رومی سینیٹ نے دو رومی امیروں گایوس گریکس (Gaius Gracchus) اور مارکوس فلویس فلیکس کو قرطاجنہ کے کھنڈرات پر ایک رومی نوآبادی قائم کرنے کی ذمہ داری سونپی لیکن کوشش بارآور نہ ہو سکی۔ اس کے بعد جولیس سیزر نے روم کے ایسے شہریوں کو یہاں آباد کیا جن کے پاس زمینیں نہ تھیں۔ 29 قبل مسیح میں شہنشاہ آگسٹس نے افریقہ میں رومی مقبوضات کے انتظامی امور کے لیے قرطاجنہ کا انتخاب کیا۔ اس کا آباد کردہ قرطاجنہ (Colonia Julia Carthago) کہلاتا تھا۔ جلد ہی یہ قرطاجنہ سکندریہ اور دوسرے کئی رومی نوآبادیاتی شہروں سے زیادہ ترقی کر گیا اور ان کا ہم پلہ قرار پایا۔ اگرچہ کسی بھی رومی شہنشاہ نے یہاں قیام نہیں کیا مگر بیشتر رومی شہنشاہ اسے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اس کے بعد روم کی سلطنت کے زوال تک قرطاجنہ کی تاریخ پر تاریکی کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ البتہ دوسری صدی عیسوی کے آخر تک یہاں عیسائیت اتنی پھل پھول چکی تھی کہ یہاں کی کلیسائی شخصیات میں فادر ترتولین (Father Tertullian) اور سینٹ سائپرین کے نام نمایاں ہیں۔ 439ء میں ونڈال حکمران گائیسرک بغیر کسی مزاحمت کے فاتحانہ طور پر قرطاجنہ میں داخل ہو گیا اور یہاں ونڈال سلطنت قائم ہو گئی، جو تقریباً سو سال تک قائم رہی۔ گیلمیر یہاں کا آخری ونڈال حکمران تھا۔ اسے 533ء میں بازنطینی جنرل بیلیساریوس (Belisarius) نے شکست دی۔ 705ء تک یہاں بازنطینی حکومت قائم رہی اور اس سال اس تاریخی شہر کو مسلم عربوں نے فتح کیا جس کے بعد اس کے ایک قریبی شہر تیونس کو عروج حاصل ہوا اور یہ شہر گہناتا چلا گیا۔ رومی قرطاجنہ بھی قدیم شہر کی طرح بالآخر تباہ ہو گیا مگر اس کے آثار اب تک موجود ہیں۔ ان آثاروں میں رومی آبراہ اور کئی قلعوں کے آثار نمایاں ہیں۔ سابقہ قلعہ بیرصہ کے مقام پر رومی عہد میں جو پیٹر اور مزوا دیوی کا مندر تعمیر ہوا، اس کے علاوہ یہاں ایک غلام گردش بھی تعمیر کی گئی تھی۔ اس غلام گردش کے آثار سے رومی عہد کی سنگ تراشی کے بہترین نمونے دریافت ہوئے ہیں۔ قرطاجنہ کے بازنطینی عہد میں یہاں کئی خوبصورت کلیسا بھی تعمیر ہوئے تھے، مگر اب ان کے آثار مفقود ہیں۔   

آج کا دن

آج کا دن

جرمنی کاڈنمارک پر قبضہ9 اپریل 1940ء کو جرمنی نے ڈنمارک اور ناروے پر حملہ کرتے ہوئے ڈنمارک پر قبضہ کر لیا۔ بظاہر یہ حملہ ایک منصوبہ بندی کے مطابق کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ جرمنی نے ناروے پر فرانس اور برطانیہ کے قبضے کو دیکھتے ہوئے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے حملہ کیا ہے۔اس منصوبے کو ''پلان4R‘‘کا نام دیا گیا۔ ان دونوں ممالک کے درمیان جغرافیہ، محل وقوع اور آب و ہوا میں نمایاں فرق نے فوجی کارروائیوں کو بھی بہت مختلف بنا دیا۔اس حملے کے دوران جرمنی کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔امریکی اٹامک انرجی کمیشن کا قیام1945ء میںآج کے دن امریکی اٹامک انرجی کمیشن کا قیام عمل میں آیا۔اسے عام طور پر ''AEC‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے جو ریاستہائے متحدہ امریکہ کی ایک ایجنسی تھی جسے دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی کانگریس نے ایٹمی سائنس اور ٹیکنالوجی اور امن کو فروغ دینے اور کنٹرول کرنے کیلئے قائم کیا تھا۔ صدر ہیری ایس ٹرومین نے 1946ء میںاٹامک انرجی ایکٹ پر دستخط کیے اور جوہری توانائی کا کنٹرول فوج سے سویلین حکومت کو منتقل کردیا۔یہ حکم یکم جنوری 1947 سے نافذ العمل ہے۔''بوئنگ 737‘‘نے پہلی اڑان بھری 9اپریل 1967ء کوبوئنگ 737 نے اپنی پہلی اڑان بھری۔ یہ ایک تنگ جسامت والا ہوائی جہاز تھا، جسے بوئنگ کمپنی کی جانب سے واشنگٹن میں تیار کیا گیا۔ فروری 1968ء میں Lufthansa کی طرف سے اسے کمرشل سروس میں شامل کیا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب لمبی جسامت والا 737 کمرشل سروس میں شامل ہوا۔ یہ چار مختلف اقسام میں تیار کیا گیا۔ جس میں 85 سے 215 مسافروں تک کو لے جانے والی مختلف اقسام مارکیٹ میں پیش کی گئیں۔جارجیا نے آزادی کا اعلان کیا9 اپریل 1991ء کو جارجیا نے سوویت یونین سے آزادی کا اعلان کیا۔ یہ اعلان سوویت یونین کے ٹوٹنے سے کچھ دیر پہلے کیا گیا۔ جارجیا کی سپریم کونسل نے 31 مارچ 1991ء کو منعقدہ ریفرنڈم کے بعد پوری دنیا کے سامنے خود کو ایک آزاد ملک کی حیثیت سے پیش کیا۔26 مئی 1991 ء کو '' زویاد گامسخردیا‘‘ آزاد جارجیا کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ واضح رہے کہ سوویت فوج کی مداخلت کے باعث جارجیا اپنی آزادی کھو بیٹھا تھا اور سوویت یونین کا حصہ بن گیا تھا۔ 

اے آئی ایپس میں اینیمیشن کا فیچر

اے آئی ایپس میں اینیمیشن کا فیچر

کسی کی تصویر کو بغیر اجازت متحرک کر کے شیئر کرنااخلاقاً درست نہیںجدید دور میں ٹیکنالوجی نے انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کو نئی جہت دی ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس (AI) یعنی مصنوعی ذہانت اب صرف سادہ ٹاسکس کے لیے ہی نہیں بلکہ تصویری تخلیقات، اینی میشن، اور ویژول آرٹ کے میدان میں بھی نمایاں کردار ادا کر رہی ہے۔ خاص طور پر اے آئی پر مبنی ایپس میں اینی میٹڈ تصاویر بنانے کا فیچر تخلیقی دنیا میں انقلاب برپا کر چکا ہے۔اینی میٹڈ تصاویر ایسی تصاویر ہوتی ہیں جو حرکت کرتی ہیں یا جن میں مخصوص جزو (مثلاً آنکھیں، ہونٹ، بال، یا پس منظر) متحرک ہوتے ہیں۔ یہ عام طور پر GIF، ویڈیو کلپ یا شارٹ اینی میشن کی شکل میں دکھائی دیتی ہیں۔ اب تک یہ کام پروفیشنل اینی میشن سافٹ ویئر کے ذریعے ماہرین انجام دیتے تھے، مگر اب یہ سب اے آئی ایپس کے ذریعے عام صارفین کیلئے ممکن ہو گیا ہے۔حال ہی میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) پلیٹ فارم چیٹ جی پی ٹی اور گروک سمیت متعدد اے آئی اور دوسرے تصاویر بنانے والے پلیٹ فارمز نے اینی میٹڈ تصاویر بنانے کے فیچرز پیش کئے گئے ہیں۔چیٹ جی پی ٹی نے حال ہی میں جاپان کے معروف اینی میٹڈ اسٹوڈیو 'غیبلی اسٹوڈیو‘ (Studio Ghibli) کے انداز کی تصاویر بنانے کے مفت فیچر تک صارفین کو محدود رسائی دی ہے۔چیٹ جی پی ٹی کے صارفین یومیہ تین تصاویر کو مفت میں غیبلی اسٹوڈیو انداز کی اینیمیشن میں بنا سکتے ہیں۔اے آئی ایپس کا کردارمصنوعی ذہانت سے چلنے والی کئی ایپس نے اینی میٹڈ تصویروں کیلئے حیرت انگیز فیچرز متعارف کروائے ہیں۔ کچھ مشہور اے آئی ایپس درج ذیل ہیں:''مائی ہیرٹیج ‘‘(MyHeritage ): یہ ایپ پرانی تصاویر کو اینیمیٹ کر کے ایسے بناتی ہے جیسے تصویر میں موجود شخص مسکرا رہا ہو، آنکھیں جھپک رہا ہو یا سر ہلا رہا ہو۔''اے آئی وومبو‘‘ (Wombo AI): صارفین اپنی تصویر اپ لوڈ کر کے مختلف گانوں پر لب ہلاتی ہوئی اینی میشن بنا سکتے ہیں۔''ٹاکنگ ہیڈز‘‘ (Tokking Heads): یہ ایپ کسی بھی پورٹریٹ کو متحرک کر کے اسے گفتگو یا تاثرات دینے کے قابل بناتی ہے۔''ری فیس‘‘ او ر ''اے آئی لینزا‘‘: چہروں کو مختلف انداز سے متحرک کر کے تفریحی اور دلکش شارٹ ویڈیوز بناتی ہیں۔یہ فیچر کیسے کام کرتا ہے؟اے آئی اینی میشن فیچر دراصل مشین لرننگ، ڈیپ فیک ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر وژن کے امتزاج سے کام کرتا ہے۔ یہ تصاویر میں انسانی چہرے کی شناخت کر کے اس کے مختلف پہلوؤں کو متحرک کرتا ہے، جیسے چہرے کے تاثرات میں تبدیلی، آنکھوں، ہونٹوں، اور بھنوؤں کی حرکت، پس منظر کو متحرک بنانا، آواز یا موسیقی کے مطابق ہونٹوں کو ہلانا، یہ تمام مراحل چند سیکنڈز میں مکمل ہو جاتے ہیں اور نتیجہ حیرت انگیز طور پر حقیقت سے قریب تر ہوتا ہے۔تخلیقی دنیا کیلئے فوائد٭...اینی میٹڈ تصاویر سے سوشل میڈیا پوسٹس کو جاندار بنایا جا سکتا ہے۔ لوگ اپنی ساکن تصویروں کو دلچسپ اور مزاحیہ ویڈیوز میں تبدیل کر کے شیئر کرتے ہیں۔٭... برانڈ یا پروڈکٹس کی ترویج کیلئے اینیمیٹڈ بصری مواد استعمال کر سکتے ہیں جو ناظرین کی توجہ کھینچتا ہے۔٭...تاریخی شخصیات یا ادب کی مشہور ہستیوں کی متحرک تصاویر تعلیم کو دلچسپ بنانے میں مدد دیتی ہیں۔٭...آرٹسٹ اپنے کام کو متحرک کر کے نئی جہت دے سکتے ہیں۔ ساکن فن پاروں میں زندگی ڈالنے کا تصور حقیقت بن چکا ہے۔چیلنجز اور خدشاتاگرچہ یہ ٹیکنالوجی حیرت انگیز ہے، لیکن اس کے ساتھ کچھ چیلنجز اور اخلاقی پہلو بھی جڑے ہیں۔تصاویر یا ویڈیوز کو جعلسازی کیلئے استعمال کرنا ممکن ہو گیا ہے، جس سے غلط فہمی یا بدنامی کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ کسی کی تصویر کو بغیر اجازت متحرک کر کے شیئر کرنا قانوناً اور اخلاقاً درست نہیں۔ حقیقت اور تخیل کے درمیان فرق مٹنے لگا ہے، جو بعض اوقات ذہنی الجھن یا اعتماد کے فقدان کا باعث بنتا ہے۔مستقبل کا منظرنامہاے آئی اینی میشن ٹیکنالوجی ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، لیکن مستقبل میں اس کی ایپلی کیشنز مزید بہتر، حقیقت پسندانہ اور اخلاقی لحاظ سے ذمہ دار بننے کی امید ہے۔ ہم ایک ایسے دور کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں ہر شخص چند کلکس میں اپنی خیالات کو اینی میشن کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کر سکے گا۔اے آئی ایپس میں اینی میٹڈ تصاویر بنانے کا فیچر محض تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ تخلیقی اظہار، ڈیجیٹل آرٹ، اور کمیونیکیشن کا نیا باب ہے۔ یہ ٹیکنالوجی ہمیں اپنی یادوں، خیالات، اور جذبات کو ایک نئے انداز سے دیکھنے، سمجھنے اور پیش کرنے کی طاقت دیتی ہے، لیکن اس کا استعمال شعور اور ذمے داری کے ساتھ کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔  

سی این ٹاور

سی این ٹاور

دنیا کے بلند ترین مقام پر بنی ہوئی گیلری سے زمین کا نظارہ نہ صرف انسانی دل کو فرط جذبات سے لبریز کر دیتا ہے بلکہ وہ ترقی کے اس شاہکار پر حیران و ششدر بھی رہ جاتا ہے۔کینیڈا کے شہر ٹورنٹو کی بلند و بالا خوبصورت عمارتوں کے درمیان پروقار انداز میں کھڑا کینیڈین نیشنل ٹاور بھی دور جدید کے عجائبات میں شمار ہوتا ہے۔ اس کی بلندی 534میٹر تک ہے۔ملکی و غیر ملکی سیاحوں کیلئے سی این ٹاور بہت کشش رکھتا ہے۔ہر سال یہاں مختلف ممالک سے 20لاکھ افراد آتے ہیں خصوصاً مشاہداتی گیلری میں جہاں طاقتور دوربینوں سے دیکھنے والے مناظر کسی حسین خواب کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں جدید سہولتوں سے مزین کشادہ گھومنے والے ہوٹل اور کمپلیکس بھی اپنی مثال آپ ہیں۔فروری 1973ء میں جب سی این ٹاور کی تعمیر شروع ہوئی تو کینیڈا کی حکومت نے اس کام کیلئے کسی انفرادی ادارے کی بجائے تعمیراتی شعبے کے ماہرین کی ایک کمیٹی قائم کی جنہوں نے مختلف ممالک میں بنی ہوئی بلند ترین عمارتوں خصوصاً فرانس کے ایفل ٹاور اور امریکہ کی ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ کے علاوہ روس کے اوٹینکو ٹاور کا معائنہ کیا اور فن تعمیر کے ان عظیم شاہکاروں پر تکنیکی اعتبار سے ایک رپورٹ مرتب کی ۔ جس کے بعد سی این ٹاور کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا کہ یہ نہ صرف اپنے وقت کا بلند ترین ٹاور ہو بلکہ یہاں آنے والے سیاحوں کی سہولتوں، گنجائش اور تفریح و طبع کا بھی انتظام ہو۔سی این ٹاور کی سب سے زیادہ پر تجسس جگہ یہاں کی مشاہداتی گیلری ہے جسے ''Sky pod‘‘کہا جاتا ہے۔ اس کی زمین سے اونچائی 447میٹر(1465فٹ) ہے۔ یہ گیلری جہاں طاقتور دوربینیں جو وقفے وقفے سے گھوم کر اپنے مناظر تبدیل کرتی ہیں دیکھنے والوں کو ایک بالکل انوکھا تجربہ فراہم کرتی ہیں۔ یہاں سے نہ صرف ٹورنٹو شہر کا نظارہ کیا جاتا ہے بلکہ اس سے ملحق 100میل تک پھیلا ہوا علاقہ بھی بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے نیچے بنا ہوا خوبصورت ہوٹل 351میٹر (1151فٹ) بلندی پر واقع ہے۔ کھانے کی ہر میز کو کچھ اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ شیشے کی بڑی دیواروں سے بدلتے مناظر دیکھ کر انسانی عقل ورطہ حیرت میں کھو جاتی ہے۔ کمزور دل والے سیاحوں کو یہاں آنے سے قبل خصوصی بریفنگ دی جاتی ہے۔دنیا کی ہر بلند عمارت کی طرح جب اسے بنایا گیا تو ابتداء میں اس کے ڈیزائنر، آرکیٹکٹ، انجینئروں اور دیگر متعلقہ شعبہ سے تعلق رکھنے والے ماہرین کو بہت سی مشکلات پیش آئیں۔ کسی ایک کمپنی یا شخصیت کی بجائے حکومت نے ہر شعبے کیلئے ماہرین کی ٹیم کو اسے تعمیر کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ اس طرح سی این ٹاور کا کریڈٹ کسی فرد واحد کی بجائے پوری ٹیم ورک کا نتیجہ ہے۔سی این ٹاور میں 6لفٹیں لگائی گئیں جن کی رفتار 6میٹر (20فٹ) فی سیکنڈ ہے۔اس طرح ٹاور کی انتہائی بلندی تک پہنچنے کیلئے صرف58سیکنڈ درکار ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً ایک گھنٹے میں 1200افراد ایک لفٹ سے چڑھتے اور اترتے ہیں۔ 

طنزو مزاح اور آنا گھر میں مرغیوں کا

طنزو مزاح اور آنا گھر میں مرغیوں کا

عرض کیا، ''کچھ بھی ہو، میں گھر میں مرغیاں پالنے کا روادار نہیں۔ میرا راسخ عقیدہ ہے کہ ان کا صحیح مقام پیٹ اور پلیٹ ہے اور شاید‘‘ ۔''اس راسخ عقیدے میں میری طرف سے پتیلی کا اور اضافہ کرلیجیے‘‘۔ انہوں نے بات کاٹی۔ پھر عرض کیا، ''اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں کوئی مرغی عمر طبعی کو نہیں پہنچ پاتی۔ آپ نے خود دیکھا ہوگا کہ ہماری ضیافتوں میں میزبان کے اخلاص و ایثار کا اندازہ مرغیوں اور مہمانوں کی تعداد اور ان کے تناسب سے لگایا جاتا ہے‘‘ ۔فرمایا، ''یہ صحیح ہے کہ انسان روٹی پر ہی زندہ نہیں رہتا۔ اسے مرغ مسلّم کی بھی خواہش ہوتی ہے۔ اگر آپ کا عقیدہ ہے کہ خدا نے مرغی کو محض انسان کے کھانے کیلئے پیدا کیا تو مجھے اس پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ صاحب! مرغی تو درکنار۔ میں تو انڈے کو بھی دنیا کی سب سے بڑی نعمت سمجھتا ہوں۔ تازے خود کھائیے۔ گندے ہو جائیں تو ہوٹلوں اور سیاسی جلسوں کیلئے دگنے داموں بیچئے۔ یوں تو اس میں، میرا مطلب ہے تازے انڈے میں!''ہزاروں خوبیاں ایسی کہ ہر خوبی پہ دم نکلے ‘‘مگر سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ پھوہڑ سے پھوہڑ عورت کسی طرح بھی پکائے یقینا مزے دار پکے گا۔ آملیٹ، نیم برشت، تلا ہوا، خاگینہ، حلوا‘‘۔اس کے بعد انہوں نے ایک نہایت پیچیدہ اور گنجلک تقریر کی جس کا ماحصل یہ تھا کہ آملیٹ اور خاگینہ وغیرہ بگاڑنے کیلئے غیر معمولی سلیقہ اور صلاحیت درکار ہے جو فی زمانہ مفقود ہے۔ اختلاف کی گنجائش نظر نہ آئی تو میں نے پہلو بچا کر وار کیا، ''یہ سب درست! لیکن اگر مرغیاں کھانے پر اتر آئیں تو ایک ہی ماہ میں ڈربے کے ڈربے صاف ہو جائیں گے۔‘‘ کہنے لگے، ''یہ نسل مٹائے نہیں مٹتی۔ جہاں تک اس جنس کا تعلق ہے دو اور دو چار نہیں بلکہ چالیس ہوتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو خود حساب کرکے دیکھ لیجیے۔ فرض کیجیے کہ آپ دس مرغیوں سے مرغبانی کی ابتدا کرتے ہیں۔ ایک اعلیٰ نسل کی مرغی سال میں اوسطاً دو سو سے ڈھائی سو تک انڈے دیتی ہے۔ لیکن آپ چونکہ فطرتاً قنوطی واقع ہوئے ہیں۔ اس لیے یہ مانے لیتے ہیں کہ آپ کی مرغی ڈیڑھ سو انڈے دے گی‘‘ ۔میں نے ٹوکا، ''مگر میری قنوطیت کا مرغی کی انڈے دینے کی صلاحیت سے کیا تعلق؟‘‘ بولے، ''بھئی آپ تو قدم قدم پر الجھتے ہیں۔ قنوطی سے ایسا شخص مراد ہے جس کا یہ عقیدہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے آنکھیں رونے کیلئے بنائی ہیں۔ خیر، اس کو جانے دیجیے۔ مطلب یہ ہے کہ اس حساب سے پہلے سال میں ڈیڑھ ہزار انڈے ہوں گے اور دوسرے سال ان انڈوں سے جو مرغیاں نکلیں گی وہ دو لاکھ پچیس ہزار انڈے دیں گی۔ جن سے تیسرے سال اسی محتاط اندازے کے مطابق، تین کروڑ سینتیس لاکھ پچاس ہزار چوزے نکلیں گے۔ بالکل سیدھا سا حساب ہے‘‘۔ ''مگر یہ سب کھائیں گے کیا؟‘‘ میں نے بے صبری سے پوچھا۔ ارشاد ہوا، ان کی خوبی یہی ہے کہ اپنا رزق آپ تلاش کرتے ہیں۔ آپ پال کر تو دیکھئے۔ دانہ دنکّا، کیڑے مکوڑے، کنکر، پتھر چگ کر اپنا پیٹ بھرلیں گے‘‘ ۔