ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی

اسپیشل فیچر

تحریر :


ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اپنی علمی و ادبی استعداد‘ تدریسی‘ تحقیقی اور تنقیدی مقام و مرتبہ اور اقبال شناسی کے حوالے سے ملکی ہی نہیں بین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں۔ انھوں نے تقریباً۵۳ برس کالجوں اورپنجاب یونی ورسٹی میں درس وتدریس کے فرائض انجام دیے۔اس کے ساتھ ساتھ وہ علمی واد بی تحقیق میں بھی مصروف رہے۔ بیرونی ممالک میں اقبال پر کانفرنسوں میں پاکستان کی نمائندگی بھی کی۔ آپ دائتوبنکایونیورسٹی ٹوکیو جاپان میں فروری مارچ 2002ء میں وزیٹنگ سکالر رہے۔ ایچ ای سی ایمی نینٹ پروفیسر کے طور پرشعبہ اقبالیات پنجاب یونیورسٹی لاہور سے منسلک رہے۔ علاوہ ازیں وہ طویل عرصے تک اقبال اکادمی پاکستان سے وابستہ چلے آرہے ہیں۔آپ اقبال اکادمی کے تاحیات رکن اوراس کی گورننگ باڈی اورایگزیکٹوباڈی کے بھی رکن ہیں۔اس کے علمی رسالے’’اقبالیات‘‘کی بلکہ بہت سے دوسرے علمی وتحقیقی مجلوں کی ادارتی اورمشاورتی مجالس میں بھی شامل ہیں۔اس کے علاوہ آپ ادبی کمیٹی بزم اقبال لاہور کے بھی رکن ہیں۔اسی طرح آپ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ اردواورشعبہ اقبالیات اور بورڈ آف ایڈوانس سٹڈیزاینڈ ریسرچ کے ساتھ کئی طرح سے منسلک رہے ہیں۔ آپ کو علمی و ادبی اور تحقیقی خدمات کے اعتراف میں کئی اعزازات کا حق دار قرار دیا گیا جن میںداؤدادبی ایوارڈ1982ء،بیسٹ یونی ورسٹی ٹیچرزایوارڈ2000ء اورقومی صدارتی اقبال ایوارڈ 2005ء اہم ہیں۔ آپ کی چالیس سے اوپرتصنیفات اردوزبان وادب کے حوالے سے تحقیقی وعلمی سطح پر بے حد اہمیت کی حامل ہے۔ ہماری خوش قسمتی کہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے ساتھ ملاقات کا موقع میسر آیا جس کا احوال معزز قارئین کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔س:آپ یونیورسٹی میں آپ اوّل آئے؟ج:جی ہاں،اوّل آیااوراس بناپریونیورسٹی گولڈمیڈل ملا۔اسی طرح انجمن ترقیٔ اردو پاکستان کی طرف سے’’ تمغائے بابائے اردو‘‘بھی ملا۔س:اچھاڈاکٹرصاحب،لکھناکب شروع کیا؟ج: لکھنے لکھانے کاسلسلہ سکول کے زمانے سے شروع ہوا۔ ایف اے کے زمانے میں کچھ افسانے اورانشایے لکھے اور کچھ طنزومزاح بھی۔لیکن جب ایم اے میں پہنچا تو میری توجہ تحقیق اور تنقید کی طرف زیادہ ہوگئی۔ لیکن تخلیق سے بھی تعلق برقراررہااور ابھی تک یہ تعلق قائم ہے۔ دو سفر نامے شائع ہو چکے ہیں۔ ایک اندلس کا ’’پوشیدہ تری خاک میں‘‘ اور دوسرا جاپان کا ’’سورج کو ذرا دیکھ‘‘ اس کے علاوہ بھارت ،برطانیہ اورشمالی علاقہ جات کے اسفارکی رودادیں بھی لکھی ہیں کچھ مزیدسفرنامے لکھنا چاہتاہوں مگرتحقیقی مشاغل مہلت نہیں دیتے۔س:اچھا،کچھ عملی زندگی کے بارے میں بھی…ج:عملی زندگی ،اس میں صحافت میں جانے کے خاصے مواقع تھے مگرمزاجی مناسبت مجھے درس وتدریس سے تھی،اس لیے سوچا کہ پڑھنا پڑھانا بہتررہے گا۔شروع میں مجبوراً کچھ عرصہ اخبار، رسالوں میں کام کیاپھرجونہی موقع ملا،تدریس میں آگیا۔ غزالی کالج جھنگ صدر‘ ایف سی کالج لاہور‘ میونسپل کالج چشتیاں‘ انبالہ مسلم کالج سرگودھامیں پڑھاتا رہا پھر جب گورنمنٹ سروس میں آگیا تو گورنمنٹ کالج مری‘ گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھایا۔ یہاں سے میں 1982ء میں پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج کے شعبہ اردو میں آگیا اور 2002ء میں یہیں سے ریٹائر ہوا۔ مزیددو برس پڑھایا لیکن اب مصروفیت لکھنے پڑھنے اور تحقیق و تصنیف ہی کی ہے۔ویسے یونی ورسٹی سے تعلق کئی طرح کااب بھی قائم ہے۔دائرہ معارف اقبال کے لیے ان دنوں کچھ مقالات زیرتحریرہیں۔س: اقبالیات آپ کا مرغوب موضوع رہا۔ تخصیص کے ساتھ اس سے وابستگی اور اسی میں تحقیق کے کیا محرکات تھے؟ج: ایک تو یہ تھا کہ ایم اے اردو کے نصاب میں علامہ اقبال کے مطالعے کا ایک پورا پرچہ ہے جس میں ان کی شاعری اور ان کے افکار کا تفصیلی مطالعہ ہوتا ہے۔ یہ پنجاب یونیورسٹی کا اعزاز ہے کہ اس کے ایم اے اردواورفارسی کے نصاب میںاقبالیات کا پورا پرچہ شامل ہے۔توایک وابستگی تویہ تھی۔ دوسرے اس سے پہلے میرے گھر کا ماحول اور خاندانی پس منظر بھی اقبال کی جانب رغبت دلانے کے لیے سازگار تھا۔ میں جب پانچویں یا چھٹی جماعت میں تھا‘ ہمارے گھر میں بانگِ درا کا ایک نسخہ ہوتا تھا۔ میں اس کو کبھی کبھی دیکھتا تھا۔ اس میں شروع کی بعض نظمیں مثلاً’’پرندے کی فریاد‘‘یا’’ایک مکڑا ور مکھی‘‘یا’’ہمدردی‘‘وغیرہ دلچسپ محسوس ہوتی تھیں تویہ چیز اقبال سے ابتدائی دلچسپی کا سبب بنی۔ پھر ایف اے کے زمانے میں’’بالِ جبریل‘‘ میرے ہاتھ لگی۔ چھٹیوں کا زمانہ تھا، بار بار پڑھنے سے بہت سا حصہ مجھے یا دہوگیا ۔جب ایم اے میں اقبال کوپڑھا تو سب پچھلی باتیں تازہ ہوگئیں اور اس طرح وہ سلسلہ آگے چلتا رہا۔اس کے بعد میں نے پی ایچ ڈی کیا جس کے لیے میرے مقالے کا موضوع تھا ’’تصانیف اقبال کا تحقیقی اور توضیحی مطالعہ‘‘ وہ مقالہ تین مرتبہ چھپا ہے۔یوںزیادہ تر میری توجہ اقبال پر ہی رہی ہے۔ اقبالیات پرمیری چھوٹی بڑی بیس کتابیں ہیں۔ مثلاً’’ اقبال کی طویل نظمیں‘‘ میری سب سے پہلی کتاب ہے۔ وہ 1974ء میں چھپی تھی اب تک اس کے سات آٹھ ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ س: ڈاکٹر صاحب! آپ نے پی ایچ ڈی کے لیے ’’تصانیف اقبال کا تحقیقی اور توضیحی مطالعہ‘‘ کا موضوع منتخب کیا۔ اس میں اقبال کی تمام کتب اور ان میں شامل نظمیں‘ غزلیں‘ قطعات‘ رباعیات اور فردیات سب کچھ آ جاتا ہے، ان سب کا احاطہ کرنا آپ کے لیے کس قدر مشکل رہا۔ ج: اس میں جو تحقیقی مطالعہ تھا وہ اس طرح تھا کہ اقبال نے اپنی شاعری اور نثر کو کیسے جمع کیا اور کب اور کیسے شائع کیا مثلاً ان کی پہلی کتاب نثر میں چھپی ’’علم الاقتصاد‘‘ 1904ء میں۔ شاعری میں سب سے پہلی کتاب ’’اسرارِ خودی‘‘ پھر ’’رموزِ بے خودی‘‘ پھر ’’پیامِ مشرق‘‘ اُس کے بعد’’بانگِ درا‘‘ چھپی ہے۔ ان سب اورباقی کتب کی بھی اشاعت کی کیا تاریخ وترتیب ہے؟ یہ بھی تھا کہ ایک کتاب ایک بار چھپنے کے بعد جب دوسری مرتبہ چھپتی تھی تو علامہ اقبال اس میں ترمیم کرتے تھے۔ وہ ترامیم کیا تھیں تحقیقی اعتبار سے ان کی نشاندہی اوران کاکھوج لگاناضروری تھا کیونکہ اس سے شاعر کی ذہنی تبدیلی کا پتا چلتا ہے۔ اقبال نے بعدکے ایڈیشنوں سے بعض اشعار نکال دیے اور ان کی جگہ نئے شعر شامل کر یے مثلاً اسرارِ خودی، میں حافظ شیرازی کے بارے میں بڑے سخت شعر تھے لوگوں نے بڑے اعتراض کیے۔ اکبر الٰٰہ آبادی اور خواجہ حسن نظامی بھی ناراض ہوئے تو دوسرے ایڈیشن میں انھوں نے ان اشعار کو نکال دیا۔ جب تیسرا ایڈیشن آیا تو اقبال نے پھر ترامیم کیں تو میں نے اپنے مقالے میں وضاحت کے ساتھ ان سب ترامیم اورتبدیلیوں کی وضاحت کی جومختلف شعری مجموعوںمیںعلامہ اقبال نے کیں۔ مثلاً ’’بانگ درا‘‘ کا تیسرا ایڈیشن حتمی نسخہ ہے۔ اسی طرح’’ پیامِ مشرق‘‘ کا دوسرا ایڈیشن اس کا حتمی نسخہ ہے۔ اس لیے اقبال کی فکر کا مطالعہ کرنے کے لیے ان کی ذہنی تبدیلیوں کے بارے میں تحقیق کرنا ضروری تھا۔ اوریہ کام بہت پھیلا ہوا تھا کیونکہ ان کی چار کتابیں اردو کی ہیں سات فارسی کی ہیںپھر نثر کی کتابیں ہیں۔ اس کے علاوہ علامہ کے انگریزی خطبات ہیں جنھیں خطبات مدراس بھی کہتے ہیں اس کے دوسرے ایڈیشن میں بھی تبدیلیاں کی گئیں، میںنے ان کی بھی نشاندہی کی۔ یہ سارا کام اس لحاظ سے تحقیقی اہمیت کا حامل ہے کہ اب جو لوگ اقبال پر تحقیق کرتے ہیں انھیں اس مقالے سے رہنمائی ملتی ہے ۔ س: ڈاکٹر صاحب! علامہ اقبال اپنے نظریات اور تخلیقی عمل میں کن شخصیات سے متاثر تھے جبکہ ان کا زمانہ برصغیر میں مسلمانوں کے زوال اور آشوب کا تھا؟ج: علامہ اقبال کی فکر اوران کے نظریات دراصل ان کی شخصیت کاعکس ہیں،اوراقبال کی شخصیت کی تشکیل میں تین افراد کا بنیادی عمل دخل ہے۔ ایک تو خود ان کے والد تھے جو بڑے دُرویش منش اور صوفی بزرگ تھے۔ انھوں نے لڑکپن ہی سے اقبال کی تربیت ایک خاص نہج پر کی ،مثلابیٹے کویہ نصیحت کی کہ قرآن پاک کو ایسے پڑھاکرو جیسے یہ تم پرنازل ہورہاہے۔یاجیسے یہ تمھارے جسم و جاں کا حصہ بن رہا ہے۔دوسری شخصیت مولوی سید میر حسن کی ہے۔ان کا بھی اقبال پر بڑا گہرا اثر ہے۔ وہ ان کے استاد تھے اوراقبال کے اندرعلمی وادبی ذوق پروان چڑھانے میں ان کابڑادخل ہے۔تیسرے شخص پروفیسرآرنلڈتھے، جو فلسفے کے استاد تھے۔ ان کا اقبال پراتنا اثر تھا کہ ا قبال نے پروفیسر آرنلڈ کے لیے نظم لکھی ’نالۂ فراق‘ جو بانگِ درا میں شامل ہے۔ وہ جب یہاں سے ریٹائر ہو کر جا رہے تھے تواقبال نے یہ نظم لکھی تھی’’تیرے دم سے تھا ہمارے سر میں بھی سودائے علم‘‘ اور یہ پوری نظم اقبال پرآرنلڈ کے احسانات اور فیوض کااعتراف ہے۔ اس نظم کاایک اورمصرع ہے ’’توڑ کر پہنچوں گا میں پنجاب کی زنجیر کو‘‘۔ 1904ء میں یہ نظم کہی اور 1905ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے اقبال آرنلڈ کے پیچھے پیچھے انگلستان پہنچ گئے اور تین سال میں کیمبرج‘ لنکنز ان اور میونخ سے تین ڈگریاں حاصل کیں۔ تویہ تین ہستیاں ہیںجنھوں نے اقبال کی شخصیت کی تشکیل کی۔ ویسے میں سمجھتاہوں کہ اقبال کو صاحب اقبال اور باکمال بنانے میں ان کی والدہ اورسکاچ مشن کالج اورکیمبرج کے ان کے اساتذہ کابھی خاصا دخل ہے۔س: ڈاکٹر صاحب! علامہ اقبال کے نزدیک مسلمانوں کے لیے الگ ریاست کے کیا خدوخال تھے اور وہ اس کے لیے کیسا نظام پسند کرتے تھے؟ج:اقبال نے جس ریاست کی بات کی ہے،اس کابنیادی نکتہ یہ ہے کہ حاکمیت یاساورنٹی صرف اللہ تعالیٰ کی ہے،یعنی ’’سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتاکوہے‘‘۔اقبال مغربی جمہوریت کے خلاف تھے کیونکہ اس میں حاکمیت عوام کی ہوتی ہے مگر اقبال عوام کو نہیں اللہ تعالیٰ کو حاکم مانتے ہیں۔کہتے ہیں’’حکمراں ہے اک وہی ،باقی بتانِ آزری‘‘۔معاف کیجیے اقبال کی نظر میں تو ہم آج کل بتانِ آزری کو پوج رہے ہیںاور اسی لیے خوار ہورہے ہیں۔…رہی یہ بات کہ اقبال کیسانظام پسند کرتے تھے ؟ قائداعظمؒ سے ان کی خط کتابت دیکھیے ،جس میں انھوں نے کہا کہ ہمارے مسائل کا حل نہرو کی لادینی سوشلزم میں نہیں ہے بلکہ شریعت اسلامیہ کے نفاذ میں ہے۔ لہٰذا یہ بالکل واضح ہے کہ وہ مسلمانوں کی نئی ریاست کے لیے سیکولر یا سوشلسٹ نظام تجویز نہیں کرتے تھے۔ وہ دین اور سیاست کو بھی الگ الگ نہیں سمجھتے تھے۔ س: علامہ اقبال کے نزدیک اجتہاد کی کیا اہمیت ہے؟ج: دیکھیے علامہ اقبال زندگی میں جس انقلاب پر زور دیتے ہیں،مثلاً کہتے ہیں: عجس میں نہ ہو انقلاب ، موت ہے وہ زندگیتوان کے مجوزہ انقلاب میں اجتہادناگزیر ہے اور ایک بنیادی نکتہ ہے۔دورحاضرمیں کسی قوم کو،خاص طورپرمسلم امہ اپنی بقا اورترقی کے لیے اجتہاد کی اشدضرورت ہے،اس لیے اقبال نے نئے زمانے میں نئے صبح وشام پیداکرنے کی تلقین کی ہے۔ان کے نزدیک طرز کہن پراڑنا،جموداور موت کی علامت ہے۔مگر یہ نہ ہو کہ اجتہاداورآئین نو کے شوق میں اپنی تہذیب کی بنیادوں ہی سے منحرف ہو جائیں۔اقبال کے نزدیک ہر ایراغیرا اجتہاد کااہل نہیں۔س: ڈاکٹر صاحب! علامہ اقبال وسیع المطالعہ تھے‘ انھوں نے اردو فارسی میں شاعری بھی کی اور نثر بھی لکھی۔ برصغیر کی سیاست میں بھی ان کا بھرپور کردار رہا۔ وہ ایک فلاسفر بھی تھے۔ا نہوں نے کالج میں اردو‘ فارسی فلسفہ اور انگریزی بھی پڑھائی ان سب صفات کے ہم آہنگ ہونے سے اقبالؒ کی کیا شخصیت نکھر کر سامنے آتی ہے۔ ج: دیکھیے علامہ اقبال کثیر المطالعہ اور جامع الحیثیات شخص تھے۔ وہ استاد بھی تھے‘ شاعر بھی تھے اور سیاست دان بھی مگر ان کی دیگر صفات ان کی شاعری کے تابع ہیں کیونکہ وہ بنیادی طور پر شاعر تھے۔ انھوں نے ہر شعبے میں اپنے نقوش چھوڑے ہیں اور کچھ ہدایات دی ہیں۔ ان کی شاعری پر غور کرنے اورتامل کرنے سے نئے سے نئے نکات سامنے آتے ہیں۔ دنیا کی چالیس زبانوں میں ان کی تخلیقات کے تراجم ہو چکے ہیں۔ اس لیے کہ ان کے کلام میں ایک کشش ،جامعیت اورہمہ گیری پائی جاتی ہے۔ جب ہندوستان آزاد ہوا تو 15 اگست کی رات کوبھارت کی اسمبلی کاافتتاح اقبال کے’’ ترانہ ہندی‘‘ سے ہوا۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اقبال کی شخصیت کی دل نوازی ایک حدتک ان کے کٹر مخالفین کے لیے بھی قابل قبول تھی۔س: ڈاکٹر صاحب! علامہ اقبال نے جہاں حافظ اور مولانا روم کو پڑھا، وہاں مارکس، لینن، گوئٹے اور نٹشے کا بھی مطالعہ کیا اور انھوں نے ان کو اپنی شاعری میں بھی جگہ دی مگر ہر نظام کو اسلام کی کسوٹی پر پرکھا اور اسلام کو ہی بہترین نظام قرار دیا۔ آپ اس سلسلے میں کیا کہیں گے؟ج:کہنا چاہیے کہ جن شخصیات کو انھوں نے پڑھا ان کا ذکر ان کی شاعری میں آیا ہے۔ اقبال نے سب کو پڑھا اور سب سے استفادہ کیا لیکن اقبال کی فکر کا جو سب سے بڑا ماخذ ہے وہ قرآن حکیم ہے۔ اور ان کے نزدیک جو سب سے عظیم شخصیت ہے وہ نبی کریمؐ کی ہے جن سے وہ سب سے زیادہ متاثر تھے۔ اس کے بعد مولانا رومی ہیں‘ اس کے بعد دوسرے لوگ بلاشبہ انھوں نے دوسرے لوگوں سے بھی کچھ نہ کچھ اثر قبول کیااوربعضچیزوںکو انھوں نے سراہا گویا جہاں سے بھی انھیں حکمت ودانش کی کوئی چیز ملی، اسے اپنی فکر کا حصہ بنا لیا۔ س: ڈاکٹر صاحب اقبال کے وسیع مطالعے اور فارسی و عربی زبانوں پر عبور ہونے کے سبب ان کا کلام مفرس اور معرب ہے اور اس میں مشکل پسندی پائی جاتی ہے۔ کیا یہ ابلاغ عامہ کے راستے میں حائل تو نہیں؟ج: ایک تو یہ ہے کہ اقبال کے زمانے میں فارسی زبان کی روایت بہت پختہ تھی۔ فارسی پڑھی اور پڑھائی جاتی تھی ۔دوسری بات یہ کہ ایک بار کچھ دوستوں نے اقبال سے شکوہ کیاکہ آپ فارسی میں سب کچھ کہتے ہیں ،اردو والے منتظر رہتے ہیں۔ علامہ اقبال کا جواب تھا It comes to me in Persian. باقی مشکل کی بات تو یہ ہے کہ اب ہمارامعیار تعلیمبہت نیچے آ گیاہے اورہمیں اقبال کااردو کلام بھی فارسی کی طرح لگتا ہے۔ س: ڈاکٹر صاحب! اقبال کے حوالے سے دنیا کے متعدد ممالک میں کانفرنسیں ہوتی رہیںاور پاکستان میں بھی اقبالیات کے موضوع پر سیمینار ہوتے رہے ہیں آپ کی ان سیمینارز اور کانفرنسوں میں اندرون ملک اور بیرون ملک بھرپور شرکت رہی، کچھ ان کا احوال بیان کیجیے۔ ج: اقبال کے حوالے سے کانفرنسوں کا آغاز اقبال کے زمانے ہی میں ہوگیا تھا۔ یہ روایت پاکستان بننے کے بعد پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ اور کانفرنسوں کا یہ سلسلہ دنیا کے پیشتر ممالک تک پھیلا ہوا ہے مجھے بھی ایسی دس بارہ کانفرنسوں میں شرکت کاموقع ملا۔ دوتین مرتبہ پاکستان میں‘ دو دفعہ بھارت میں‘ ایک دفعہ ترکی میں‘ ایک مرتبہ بلجیم میں‘ ایک ایک دفعہ برطانیہ اوراسپینمیں جانے کا موقع ملا۔ جو کانفرنس دسمبر 1977ء میں لاہور میں ہوئی جب علامہ اقبال کا سو سالہ جشن منایا گیا ،وہ سب سے بڑی کانفرنس تھی۔اس میں ایک دلچسپ بات یہ ہوئی کہ جنرل ضیاء الحق اجلاس کے صدرتھے۔ بشیرحسین ناظم نے کلام اقبال پڑھا اور سماںباندھ دیا۔ جنرل خوش ہوگئے۔ فرمائش کی کہ ایک اورغزل پڑھیں ،بشیرصاحب نے اتفاقاًیا شاید شرارتاًبال جبریل کی وہ غزل شروع کی ’’دل بیدار فاروقی…‘‘ ناظم صاحب غزل پڑھ رہے تھے اورجنرل صاحب سن سن کر جھوم رہے تھے،جب آخری شعرپرپہنچے اور وہ یہ تھا:خدا وندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیںکہ دُرویشی بھی عیاری ہے ، سلطانی بھی عیاریتو یہ شعر پڑھتے ہوئے بشیرحسین ناظم نے معنی خیزطورپر ضیاء الحق کی طرف دیکھا۔٭٭٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
ماحول دوست بجلی پیدا کرنے والے مثالی ممالک

ماحول دوست بجلی پیدا کرنے والے مثالی ممالک

دور حاضر میں تیزی سے بڑھتی فضائی آلودگی دنیا بھر کی اقوام کیلئے ایک چیلنج بن چکا ہے۔ ماہرین بیشتر بیماریوں کا ذمہ دار جن میں معمول کی موسمی بیماریوں کے علاوہ پھیپھڑوں اور چھاتی کا کینسر ، نمونیا ، امراض قلب اور فالج سمیت دیگر متعدد بیماریاں شامل ہیں، فضائی آلودگی کو قرار دیتے ہیں۔ اس حقیقت سے اب انکار ممکن نہیں کہ آلودگی کا بڑا سبب فضا میں گرین ہاوس گیسوں کا بے جا اخراج ہے اور ان گیسوں کے اخراج کی سب سے بڑی وجہ فوسل فیول کا اندھا دھند استعمال ہے۔ اگرچہ دنیا بھر میں بڑی تیزی سے ماحول دوست توانائی کے استعمال کی حقیقت کو تسلیم کیا جانے لگا ہے ، تاہم اب بھی دنیا کے تین چوتھائی سے زیادہ ممالک روایتی ایندھن کے استعمال کو چھوڑنے پر تیار نظر نہیں آتے۔ آج ہم دنیا کے جن تین ممالک کا ذکر کرنے جارہے ہیں وہ پانی، ہوا اور سورج کی روشنی سے بجلی بنا کر نہ صرف خود کفیل ہو چکے ہیں بلکہ زائد بجلی فروخت کر کے زرمبادلہ بھی کما رہے ہیں۔ کوڑا کرکٹ سے بجلی پیدا کرنے والا منفرد ملک یونان کے جنوب مشرقی سمندر ایگین میں واقع بیشتر دوسرے جزائر کی طرح ''تیلاس‘‘ کا جزیرہ بھی ان دور افتادہ جزائر میں شامل ہے جن کے زیادہ تر ساحلی علاقے ویران پڑے ہیں۔ شواہد کے مطابق اس جزیرے پر گزشتہ 500سالوں سے آبادی کے آثار ملتے ہیں۔ تیلاس کے اردگرد 200 کے لگ بھگ چھوٹے چھوٹے جزیرے ایسے بھی ہیں جہاں پر آبادی موجود ہے۔ تیلاس تک پہنچنے کا واحد ذریعہ سمندری راستہ ہے۔ اس دور دراز علاقے تک پہنچنے کیلئے یونان سے 15 گھنٹوں کی مسافت طے کرنا پڑتی ہے۔ اس دوردراز علاقے کو سال کے بیشتر حصے میں متعدد مسائل سے بھی نمٹنا پڑتا ہے جس میں سرفہرست سردیوں میں پانی اور بجلی کی پیداوار میں کمی ہے۔ جس کا حل انہوں نے کوڑا کرکٹ سے بجلی پیدا کر کے نکالا ہے کیونکہ یہاں ہر سال اوسطاً تیس ہزار اور پڑوسی جزیرے رہوڈیس میں 20 لاکھ سیاح متوقع ہوتے ہیں ، جبکہ بجلی سپلائی کا دارومدار جزیرہ تیلاس پر ہی منحصر ہوتا ہے۔ تیلاس جزیرہ پر اس وقت پانچ سو سے چھ سو خاندان بستے ہیں۔تیلاس باقی دنیا کے برعکس اپنا کوڑا کرکٹ زمین میں دفن کرنے کی بجائے اسے ری سائیکل کر رہا ہے اور اس سے بجلی بھی بنا رہا ہے ۔اس کے علاوہ ہوائی چکیوں ( ونڈ ٹربائین ) اور شمسی توانائی کے ذریعے نہ صرف اپنی ضرورت کی بجلی پیدا کررہا ہے بلکہ زائد بجلی کو پڑوسی ملکوں میں فروخت بھی کررہا ہے۔ تیلاس کی بندرگاہ سے اترتے ہی آپ کو باربرداری اور آمدورفت کیلئے بجلی سے چلتی گاڑیاں نظر آتی ہیں جبکہ سڑکوں کنارے نصب رہنمائی کرتے بورڈ شمسی توانائی پر چلتے نظر آتے ہیں۔تیلاس جزیرہ خود انحصاری کی ایک خوبصورت مثال کے طور دنیا بھر میں اپنی شناخت بنا چکا ہے۔ کیونکہ 90 کے عشرے میں اس جزیرے کیلئے اس وقت بڑے مسائل کھڑے ہو گئے تھے جب یہاں وسائل اور ضروریات زندگی کی عدم دستیابی کے باعث یہاں کی کثیر آبادی نے یہاں سے انحلا کرنا شروع کر دیا تھا اور گھٹتے گھٹتے یہاں کی آبادی محض 270 افراد رہ گئی۔یہاں پیدائش کی شرح بھی بہت کم تھی جس کے سبب یہاں کاواحد سکول بھی بند ہونے لگا اور ایسے لگ رہا تھا جیسے یہ جزیرہ بہت جلد ویران ہو جائے گا۔یہاں کے باسیوں نے رضاکارانہ طور پر اس جزیرے کو تباہی سے بچانے کیلئے خود انحصاری کو تقویت دی اور آج تیلاس میں بجلی سے لے کر ہر اشیا ء ضروریہ تک ان کی رسائی ہے۔ہوا کے ذریعے وسیع پیمانے پر بجلی پیداوار ڈنمارک کے حکام نے تین سال قبل اعلان کیا تھا کہ ڈنمارک خشکی پر ہوا کی ذریعے بجلی پیدا کرنے والا پہلا ملک ہے ۔ اس کے بعد ہم ساحل سمندر پر بھی ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے ابتدائی چند ممالک میں شامل ہیں اور اب ہم سمندر کے اندر اپنا الگ ایک ''توانائی جزیرہ‘‘ قائم کرنے جا رہے ہیں جو ڈنمارک کے مشرق میں بورہولم کے قریب بحیرہ بالٹک میں ہو گا۔ جو نہ صرف ڈنمارک کی بجلی کی ضروریات پوری کرے گا بلکہ وافر بجلی ایکسپورٹ بھی کرے گا۔ اس جزیرے سے جرمنی ، بلجئیم اور ہالینڈ کو بجلی برآمد کرنے کے معاہدے کئے جائیں گے۔ یہ منصوبہ بنیادی طور پر ڈنمارک کے 30لاکھ خاندانوں کو بجلی فراہم کرنے کا ایک منصوبہ ہے جو ایک وسیع و عریض مصنوعی جزیرے پر قائم کیا جا رہا ہے جو ساحل سمندر سے 80 کلومیٹر سمندر کے اندر تعمیر کیا جارہا ہے ۔یہ اپنی نوعیت کا دنیا کا پہلا ''توانائی جزیرہ‘‘ ہے۔ یہ ڈنمارک کی تاریخ کاسب سے بڑا منصوبہ ہے جس پر 34ارب ڈالر تخمینہ متوقع ہے۔ اس جزیرے کا ابتدائی رقبہ ایک لاکھ 20 ہزار مربع میٹر ہو گا جو بتدریج بڑھا کر 4لاکھ 60ہزار مربع میٹر کر دیا جائے گا۔ اس منصوبے کے ذریعے ایک مصنوعی جزیرے پر 200 کے لگ بھگ دیو ہیکل ہوا سے چلنے والے ٹربائن لگائے جائیں گے۔ سمندری لہروں سے بجلی کی پیداوار دنیا بھر کے سائنسدان ایک عرصہ سے اس نظرئیے پر کام کر رہے تھے کہ یہ کرۂ ارض جو 70فیصد پانی پر مشتمل ہے ، جب ہوا ، روشنی ، تیل اور دیگر ذرائع سے بجلی بنائی جا سکتی ہے تو سمندری لہروں اور موجوں سے کیوں نہیں بنائی جا سکتی۔ ویسے تو موجوں اور لہروں سے توانائی پیدا کرنے والا آلہ دوسو سال سے بھی زیادہ پہلے تیار کر لیا گیا تھا لیکن باقاعدہ طور پر اس آلے کی افادیت کو بروئے کار لانے میں پہل یورپ میں یورپی یونین کی مدد سے 2003ء میں سکاٹ لینڈ کے گرد و نواح کے پانیوں سے ہوئی۔ سکاٹ لینڈ کے مغربی ساحل سے بحیرہ اوقیانوس کی لہریں پوری طاقت کے ساتھ ٹکراتی ہیں۔ اس مقام پر '' اکوا میرین پاور اوئسٹر 800‘‘ نامی ایک آلہ دو دو میٹر بلند لہروں کے ساتھ حرکت کرتا نظر آتا ہے۔پانی سے باہر اس آلے کا صرف اوپر کا حصہ نظر آتا ہے۔پانی پیدا کرنے والا اصل نظام سمندر میں پندرہ میٹر کی گہرائی میں ایک پلیٹ فارم کے ساتھ منسلک ہے۔ لہروں اور موجوں کی حرکت کے نتیجے میں پانی بہت زیادہ پریشر کے ساتھ جا کر ان ٹربائنز کو چلاتا ہے جو ساحل پر بنی ایک عمارت میں موجود ہیں۔ یہ ایک چھوٹا سا پاور سٹیشن ہے جس کے ڈھانچے کے اندر ہی لہروں کی طاقت سے بجلی پیدا کرنے کا نظام موجود ہے جس کے ذریعے یہاں پیدا ہونے والی بجلی کو خشکی پر بھیجا جاتا ہے۔

عظیم مسلم سائنسدان عباس بن سعید الجوہری اور خالد بن عبدالملک المروزی

عظیم مسلم سائنسدان عباس بن سعید الجوہری اور خالد بن عبدالملک المروزی

عباس بن سعید الجوہری مامون الرشید کا غلام تھا۔ مامون اس کو بہت چاہتا تھا اور اپنے پاس اسے رکھتا تھا۔ الجوہری نے علم ہیئت میں مہارت پیدا کر لی تھی۔ اس نے اپنے مالک کو ایک رصد گاہ کی تعمیر پر آمادہ کیا، مامون نے اس کی خواہش کے مطابق دو رصد گاہیں تعمیر کرا دیں جس کے منتظم حکیم یحییٰ منصور تھے۔مامون نے عباس کو آزاد کردیا تھا مگر اس نے مامون کے قریب ہی زندگی گزار دی۔ابتدائی زندگی، تعلیم و تربیتعباس بن سعید الجوہری علم ہیئت کا ماہر اور باکمال ریاضی دان تھا۔ عباس الجوہری مامون الرشید کا غلام تھا۔ مامون الرشید اس کو بہت چاہتا تھا اس نے اسے آزاد کردیا، لیکن الجوہری نے مامون سے الگ ہونا پسند نہ کیا اور پوری عمر شاہی محل میں گزاری۔ مامون کے قریب ترین مصاحبوں میں سے تھا۔الجوہری کی صلاحیتوں اور علمی قابلیت سے مامون متاثر تھا اور اسے ہمیشہ قریب رکھتا تھا۔ عباس الجوہری آرام پسند نہ بنا بلکہ اس نے فرصت کے اوقات سے پورا پورا فائدہ اٹھایا وہ شاہی محل میں مطالعہ میں مصروف رہتا تھا۔علمی خدمات اور کارنامےعباس الجوہری علم ہیئت کا ماہر تھا۔ دربار میں بہت سے قابل لوگ جمع تھے۔ الجوہری نے مامون کو رضد گاہ کے قیام کیلئے مشورہ دیا، مامون خود بھی چاہتا تھا اس لئے فوراً آمادہ ہو گیا۔ الجوہری نے رصد گاہ کیلئے آلات کی صنعت پر توجہ کی کئی آلات اس نے تیار کئے اور آلات رصدیہ کی صفت میں اس نے کمال پیدا کیا۔مامون الرشید کے حکم سے دور صدگاہیں تعمیر ہوئیں، ایک بغداد میں شماسہ کے مقام پر دوسری ملک شام میں دمشق کے قریب قاسیون میں، دونوں رصد گاہوں کے لئے آلات صدیہ کو نصب کرنا اور ان کی دیکھ بھال الجوہری کے ذمے تھی۔ الجوہری تعمیرات کا نگران بھی تھا۔عباس الجوہری نے اپنے تجربات اور مشاہدات ایک کتاب کی صورت میں مرتب کئے۔خالد بن عبدالملک المروزی خالد بن عبدالملک ہیئت دانوں میں مشہور تھا۔ وہ تحقیق اور ریسرچ کے کاموں میں مصروف رہتا تھا اور اس حیثیت سے وہ دربار مامونی میں پہنچا۔ رصد گاہ جب بغداد میں تعمیر ہوئی تو وہ اس کا انچارج تھا۔ پھر جب قاسیون میں ایک اور رصد گاہ تعمیر ہوئی تو اسے انچارج بنا کر قاسیون بھیجا گیا۔ اس نے سورج سے متعلق نئی نئی تحقیقاتی کیں۔ اس نے زیچ مامونی مرتب کیا۔ اس دور میں بیک وقت چار سائنسدان ماہرین کی جماعت موجود تھی، جن کو سائنس کے عناصر اربعہ کہا گیا۔ اس نے 849ء میں وفات پائی۔ابتدائی زندگی، تعلیم و تربیتخالد بن عبدالملک بھی ہیئت دانوں میں مشہور تھا۔ اس کا خاندان بغداد میں پہلے سے علمی حیثیت کا مالک تھا۔ خالد نے اپنے علمی ذوق و شوق نیز محنت اور مستعدی کے سبب اس فن میں کمال پیدا کیا اور کامیاب علمی زندگی گزاری، جب اس کی رسائی دربار میں ہوئی تو اپنی اعلیٰ قابلیت اور عمدہ صلاحیتوں کے سبب وہ ترقی کرکے سائنس دانوں کی جماعت میں شامل ہو گیا۔رصد گاہ جب تعمیر ہو گئی تو سائنس دانوں کی جماعت میں خالد بھی شامل تھا۔ وہ بھی تحقیق اور ریسرچ کے کاموں میں مصروف اور مشغول رہا۔ خالد بڑا خوش قسمت ہے کہ اس نے مامون الرشید المعتصم بن الرشید، الواثق بن العستصم اور آخر میں المتوکل ان سب کا زمانہ دیکھا اور ان سب کے دربار میں وہ عزت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔خالد کو قاسیون(ملک شام) کی رصدگاہ میں انچارج بنا کر بھیجا گیا اور کچھ روز بعد وہ انتقال کر گیا۔علمی خدمات اور کارنامےخالد کو علم ہیئت خصوصاً اجرام فلکی سے بڑی دلچسپی تھی۔ وہ تحقیق و ریسرچ کے کاموں میں ہمیشہ مصروف رہتا تھا۔ اس نے سورج سے متعلق نئی نئی تحقیقات کیں۔حکیم یحییٰ منصور نے جب زیچ مامونی مرتب کی تو خالد کے تجربات سے بھی فائدہ اٹھایا۔خالد اس دور میں سائنس کے عناصر اربعہ میں شامل تھا۔ 

انسانی خوبصورتی ظاہر سے باطن تک !

انسانی خوبصورتی ظاہر سے باطن تک !

اللہ تعالیٰ نے انسان کو نہایت خوبصورت تخلیق کیا۔ کسی کو مرد اور کسی کو عورت بنایا اور دونوں کو اپنے اپنے انداز میں حسین بنایا۔ عورت سے کائنات کا حسن ہے تو مرد سے زندگی کی روانی۔ لیکن اصل خوبصورتی صرف جسمانی یا ظاہری نہیں بلکہ انسان کے باطن، اس کے کردار، اور اس کی اخلاقیات میں پوشیدہ ہے۔انسان کی تخلیق میں جو سب سے بڑی نعمت ہے وہ اختیار ہے۔ یہ اختیار کہ وہ اپنے ظاہر اور باطن کو کیسا رکھتا ہے۔ ظاہری خوبصورتی کا پسند کیا جانا ایک فطری امر ہے، لیکن اگر اس کے ساتھ باطن کی خوبصورتی نہ ہو تو ظاہری حسن بھی کھوکھلا محسوس ہوتا ہے۔ اصل خوبصورتی یہ ہے کہ انسان اپنا دل پاکیزہ رکھے، اپنے ارادے مضبوط کرے اور اپنے عمل کو نیک اور پرخلوص بنائے۔آج کے دور میں سوشل میڈیا کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے۔ لوگ اپنی خوبصورت تصاویر، عمدہ کھانوں، مہنگے لباسوں اور خوشحال زندگی کی جھلکیاں شیئر کرتے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر لگتا ہے کہ دنیا بہت حسین ہے اور لوگ مثالی زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن جب حقیقت میں ایسے لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے تو بعض اوقات ان کی اصل شخصیت اس چمکتی دمکتی تصویر سے مختلف نکلتی ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کی اصل خوبصورتی کا امتحان ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص سوشل میڈیا پر تو خوش اخلاق اور مہذب دکھائی دے، لیکن اپنے گھر والوں، دوستوں یا دفتر میں بداخلاقی کا مظاہرہ کرے تو وہ خوبصورت نہیں کہلایا جا سکتا۔ خوبصورتی صرف چہرے یا الفاظ میں نہیں بلکہ انسان کے کردار میں ہوتی ہے۔ایک خوبصورت انسان وہ ہے جو اپنی حقیقی زندگی میں بھی اتنا ہی خوبصورت ہو جتنا وہ سوشل میڈیا پر نظر آتا ہے۔ وہ اپنے والدین کے ساتھ محبت اور احترام سے پیش آئے، اپنے شریکِ حیات کو عزت دے، اپنے بچوں کی تربیت میں دلچسپی لے اور اپنے دوستوں اور پڑوسیوں کے لیے ایک اچھا انسان ثابت ہو۔یہی حقیقی کامیابی اور خوبصورتی ہے کہ انسان نہ صرف اپنے ظاہری وجود کو نکھارے بلکہ اپنے باطن کو بھی بہتر بنائے۔ اپنی زندگی میں ایسے اصول اپنائے جو نہ صرف دنیاوی فائدے کے لیے ہوں بلکہ آخرت میں بھی کامیابی کی ضمانت بنیں۔ اس طرح ایک انسان دنیا اور آخرت دونوں میں خوبصورت اور کامیاب کہلائے گا۔یاد رکھیں، سوشل میڈیا پر تو کوئی بھی خوبصورت نظر آ سکتا ہے، لیکن حقیقی زندگی میں خوبصورت بننا اور رہنا ہی اصل کامیابی ہے۔ اپنا کردار ایسا بنائیں کہ لوگ آپ کو نہ صرف ظاہری طور پر پسند کریں بلکہ آپ کے باطن، آپ کی اخلاقیات، اور آپ کی انسانیت کو بھی سراہیں۔ یہی حقیقی خوبصورتی ہے۔

تاریخی حادثہ: لندن سمندر کے گہرے پانیوں میں ڈوب گیا

تاریخی حادثہ: لندن سمندر کے گہرے پانیوں میں ڈوب گیا

29دسمبر1865ء کو برطانیہ کا ''لندن‘‘ نامی مشہور بحری جہاز مشرقی ہند سے آسٹریلیا کیلئے روانہ ہوا۔ یہ دوخانی جہاز حال ہی میں تعمیر کیا گیا تھا اور اس سے پہلے اس نے دو مرتبہ آسٹریلیا کا سفر کیا تھا۔ جہاز کے یہ دونوں سفر نہایت کامیاب رہے تھے اور جہاز نے خاصی نیک شہرت کمائی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس مرتبہ روانگی سے ایک ماہ پہلے ہی جہاز کی تمام نشستیں ریز رو ہو چکی تھیں۔353افراد کو لے کر جب جہازاپنے جان لیوا سفر پر روانہ ہوا تھاتو موسم تقریباً پر سکون تھا لیکن جب جہاز کھلے سمندر میں پہنچا تو موسم کے تیور بدلنے لگے۔ جلد ہی جہاز کو تیز ہوا اور ہر لحظہ بلند ہوتی ہوئی لہروں نے گھیر لیا۔ بہرحال حالات کچھ ایسے خراب نہیں تھے کہ جہاز کی واپسی کے بارے میں سوچا جاتا۔ جہاز مخصوص رفتار سے ''منزل‘‘ کی طرف رواں دواں رہا۔ اگلے روز ہوا کا زور قدرے کم ہو گیا۔ اس دن شام کے وقت مسافر اپنے کیبنوں سے نکلے اور مختلف تفریحات میں حصہ لیا۔ اتوار کی شام سے موسم پھر خراب ہونا شروع ہو گیا، تیز ہوا کے ساتھ بارش کی بوچھاڑ بھی شروع ہو گئی۔ اس روز مسافر جہاز کے بڑے کمرے میں جمع ہوئے اور وہاں انہوں نے عبادت میں حصہ لیا۔ منگل کے روز تک ہوا کی شدت میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ جہاز کے کپتان مارٹن نے حکم دیا کہ جہاز پر سے تمام بادبان اتار لئے جائیں اور جہاز کو انجنوں کی طاقت سے صرف دو ناٹ کی رفتار سے چلایا جائے۔ بادبانوں کے اتارے جانے کے بعد سمندری لہروں نے جہاز کو اور بھی شدت سے اچھالنا شروع کردیا۔ ہر ہچکولے کے ساتھ لہریں جہاز کے اوپر سے ہو کر گزر جاتیں۔ صبح تقریباً سات بجے کے قریب ایک بہت بڑی لہر آئی اور اس نے جہاز پر بندھی ہوئی حفاظتی کشتیوں کو زبردست نقصان پہنچایا۔ اس لہر کی وجہ سے جہاز کا سامنے والا نوکدار حصہ اتنی قوت سے پانی کے ساتھ ٹکرایا کہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ بے پناہ سردی اور گھمبیر تاریکی میں سمندر کی وحشی لہریں سارا دن جہاز کی آہنی چادروں سے ٹکراتی رہیں۔ سہ پہر کے وقت جب جہاز کے مسافر چائے پی رہے تھے ایک خوفناک لہر عرشے کے اوپر سے ہوتی ہوئی ہال کمرے میں گھس آئی۔ ہال کمرہ عورتوں اور بچوں سے بھرا ہوا تھا۔ وہ اس ناگہانی آفت سے گھبرا کر چیخ و پکار کرنے لگے اتنے میں ایک اور لہر آئی اور اس نے ہال کمرے کی ہر شے کو تہہ وبالا کر کے رکھ دیا۔انتظامیہ نے ملاحوں کو حکم دیا کہ وہ ہال کمرے سے بالٹیوں کے ذریعے پانی نکالنے کی کوشش کریں۔اسی اثناء میں نہایت کمزور سی ہلکی ہلکی دھوپ بھی نکل آئی، مسافروں کے چہروں پر اطمینان کے آثار نظر آنے لگے لیکن یہ اطمینان وقتی تھا۔ جوں جوں دن ڈھلتا گیا موسم بتدریج خراب ہوتا چلا گیا۔ آثار بتا رہے تھے کہ جہاز کو اب ایک اور طوفانی رات کا سامنا کرنا ہوگا۔ جہاز کے سہمے ہوئے مسافر دیکھ رہے تھے کہ جنوب مغرب سے سیاہ بادلوں کا لشکر تیزی سے بڑھا چلا آ رہا ہے۔ تقریباً رات نو بجے تک طوفان میں بے پناہ شدت پیدا ہو چکی تھی۔ مسافروں میں زبردست اضطراب پایا جاتا تھا کچھ مسافر تو اپنے اپنے کیبنوں میں بند ہو کر عبادت میں مصروف ہو گئے تھے۔ کیپٹن مارٹن نے اندازہ لگایا کہ اگر جہاز کے انجن اسی طرح طوفانی لہروں میں جہاز کو کھینچتے رہے تو بہت جلد وہ گرم ہو کر کام کرنا چھوڑ دیں گے۔ کپٹن نے عملے کو حکم دیا کہ جہاز کے انجن بند کر دیئے جائیں۔ہوا کے منہ زور تھپیڑوں نے چند ہی لمحوں میں بادبان کو چیتھڑوں میں تبدیل کرکے رکھ دیا۔ مجبوراً ایک بار پھر جہاز کے انجنوں کو سٹارٹ کیا گیا لیکن اب جہاز کے انجنوں کی کارکردگی بادبان کے بغیر بہت کم رہ گئی تھی۔ چنانچہ فیصلہ کیا گیا کہ آج کی رات جہاز کو انجنوں اور بادبانوں کے بغیر سمندر کی لہروں پر کھلا چھوڑ دیا جائے لیکن بہت جلد افسروں کو اپنا یہ فیصلہ بھی واپس لینا پڑا۔رات کے 10بجے تک جہاز کے ہال کمروں میں تقریباً دو دو فٹ پانی جمع ہو چکا تھا۔ تقریباً ساڑھے دس بجے ایک دیو قامت لہر درمیانی دروازے کو توڑتی ہوئی انجن روم میں گھس آئی۔ سیکڑوں ٹن برفیلا پانی انجن روم میں داخل ہو گیا۔ انجنوں نے فوراً کام کرنا چھوڑ دیا اور انجن روم کا عملہ بمشکل تمام اپنی جانیں بچا کر نکل سکا۔اب جہاز کے انجن لوہے کے بیکار ٹکڑوں کی مانند تھے۔ عملے کے ارکان بالٹیوں اور دستی نلکوں کے ذریعے پانی کو مسلسل جہاز میں سے باہر نکال رہے تھے۔ جہاز کا ہر مسافر جی جان سے عملے کے ارکان کا ہاتھ بٹا رہا تھا۔طوفان کی شدت بڑھتی چلی گئی۔ رات کے پچھلے پہر چار بجے کے قریب پانی کا ایک اور زبردست ریلہ جہاز کے اندر داخل ہو گیا۔ کیپٹن مارٹن جہاز کے چیف انجینئر کے ساتھ انجن روم کا معائنہ کرنے کیلئے گیا۔ وہاں انہوں نے دیکھا کہ تقریباً پندرہ فٹ پانی جمع ہو چکا تھا۔ جب کیپٹن مارٹن معائنے کے بعد واپس آیا تو لوگوں نے اس کو گھیر لیا اس نے نہایت گھمبیر لہجے میں کہا '' میں آپ کو مایوس کرنا نہیں چاہتا لیکن ہمارے بچنے کی کوئی امید نہیں رہی۔ اب کوئی معجزہ ہی ہم کو بچا سکتا ہے۔ جہاز پر اس وقت صرف ایک بڑی کشتی اور تین چھوٹی حفاظتی کشتیاں قابل استعمال تھیں۔ کیپٹن مارٹن کے حکم پر ایک چھوٹی کشتی کو تجرباتی طور پر سمندر میں اتارا گیا۔کشتی کے مسافروں میں تین انجینئر ایک کیڈٹ اور عملے کے بارہ ارکان تھے۔ مسافروں کی تعداد صرف تین تھی۔ کیپٹن مارٹن نے کشتی کو الوداع کہتے ہوئے کہا: ''جائو، خدا تمہاری مدد کرے‘‘ اور پھر چند ہی لمحے بعد عظیم الشان جہاز ''لندن‘‘ سمندر میں غائب ہونا شروع ہو گیا۔پہلا ناخوشگوار واقعہخراب موسم کے پیش نظر''بلائی مائوتھ‘‘ کی بندرگاہ پر جہاز کو روک لیا گیا جہاںجہاز کے مسافروں کو پہلے ناخوشگوار واقعہ کا سامنا کرنا پڑا۔ ہوا یوں کہ ایک ماہی گیر کشتی لہروں پر ہچکولے کھاتی ہوئی آئی اور قریب پہنچ کر الٹ گئی۔ کشتی میں دو افراد سوار تھے جو سمندر کے یخ بستہ پانی میں غوطے کھانے لگے۔ جہاز کے عرشے پر سے سیکڑوں افراد اندوہناک منظر دیکھ رہے تھے۔ جہاز کے عملے نے فوری طور پر امدادی کشتی سمندر میں اتارنا چاہی لیکن بعض تکنیکی وجوہ کی بناء پر کشتی کو بروقت سمندر میں نہ اتارا جا سکا۔ اس تاخیر کی وجہ سے ایک شخص لہروں کی نذر ہو گیا۔جسے اللہ رکھے۔۔۔۔۔۔! جہاز پر سفر کرنے والے ایک سیاح کے دل میں نہ جانے کیا خیال آیا کہ اس نے فوری طور پر اپنا سفر ملتوی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اپنے ہمراہیوں کے بہت سمجھانے کے باوجود وہ نہ مانا اور واپس چلا گیا۔ جہاز پر سوار ایک اور نوجوان کو بھی زندگی نے موت کے مسافرں میں سے الگ کر لیا۔ یہ نوجوان اپنے والدین سے ناراض ہو کر آسٹریلیا جا رہا تھا۔ اس کے والدین نے اس کی گمشدگی کے ''دی ٹائمز‘‘ میں اشتہارات دیئے اور اپنے بیٹے سے گھر واپس آنے کی درخواست کی۔ ان اشتہارات کی وجہ سے جہاز کے مسافروں کو لڑکے کے بارے میں پتہ چلا۔ انہوں نے اسے سمجھایا بجھایا اور منت سماجت کرکے اسے سفر ترک کرنے پر رضا مند کر لیا۔ بعد میں ایک ذمے دار شخص کی وساطت سے اس نوجوان کو اس کے گھر روانہ کر دیا گیا۔ 

خشک میوہ جات

خشک میوہ جات

خشک میوہ جات موسم سرما کا ایک انمول تحفہ ہیں۔ یہ خوش ذائقہ اور صحت بخش ہوتے ہیں۔ یہ مختلف بیماریوں کے خلاف ایک مضبوط ڈھال کا کام سر انجام دیتے ہیں۔یہ نہ صرف جسمانی صحت کیلئے مفید ہوتے ہیں بلکہ بہت سے طبی امراض کو بھی دور کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ خشک میوہ جات موسم سرما میں جسم کے درجہ حرارت میں توازن قائم کرتے ہیں۔ اگرچہ ان میوہ جات میں تیل وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے لیکن پھر بھی یہ جسم کو توانائی مہیا کرتے ہیں۔ یہ صحت بحال کرنے اور جسم کو طاقتور بنانے کیلئے اہم ہیںالبتہ ان کا اعتدال سے استعمال نہایت ضروری ہے۔ خشک میوہ جات غذائیت اور لذت سے بھرپور ہونے کی وجہ سے بچوں، بوڑھوں سب کی من پسند سوغات ہیں۔بادامبادام صدیوں سے قوتِ حافظہ اور بینائی کیلئے مفید قرار دیا جاتا رہا ہے۔اس میں وٹامن اے،بی کے علاوہ روغن اور نشاستہ بھی موجود ہوتا ہے۔یہ اعصاب کو طاقتور بناتا ہے۔دماغی کام کرنے والوں کیلئے اس کا استعمال ضروری قرار دیا جاتا ہے۔ماہرین غذائیت کے مطابق ایک سو گرام بادام کی کیلشیئم کی مقدار میں254ملی گرام، فولاد2.4ملی گرام،فاسفورس475ملی گرام اور حرارے 597ہوتے ہیں۔ یہ خشک پھلوں میں بے پناہ مقبولیت کاحامل ہے۔ یہ صحت مند چکنائی سے بھرپور ہونے کے سبب خون میں کولیسٹرول کی سطح کم کرتا ہے اور یوں اس کا استعمال دل کی تکلیف میں فائدے مند ثابت ہو سکتا ہے نیز اس کی بدولت عارضہ قبل میں مبتلا ہونے کے امکانات بھی کم ہو جاتے ہیں۔اس حوالے سے ایک تحقیق کے مطابق تین اونس بادام کا روزانہ استعمال انسانی جسم میں کولیسٹرول کی سطح کو 14فیصد تک کم کرتا ہے۔ بادام ایک خشک بیج والا پھل ہے۔ بادام کی نو یا گیارہ گریاں رات کو پانی میں بھگو دیں اور صبح نہار منہ ان کا چھلکا اُتار کر کھائیں تو دماغی قوت میں بہت اضافہ ہوتا ہے۔یہ رگوں کی خشکی اور دماغی گرمی کو زائل کرتا ہے۔اس کا حلوہ نزلہ ،زکام اور سر درد کیلئے مفید ہے۔پستہسردیوں کے موسم میں نمک لگے ہوئے پستے کھانے کا مزہ ہی کچھ اور ہے،لیکن ہائی بلڈ پریشر کے مریض ان سے اجتناب برتیں کیونکہ نمک کا ضرورت سے زیادہ استعمال ان کی صحت کیلئے مناسب نہیں۔پستے میں وٹامن بی پایا جاتا ہے، اس کے علاوہ کیلشیئم اور پوٹاشیم بھی اچھی خاصی مقدار میں ہوتے ہیں۔خوش ذائقہ ہونے کے باعث پستے کو مٹھائیوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ پستہ حافظے اور دماغ کو طاقت دیتا ہے،جسم کو فربہ کرتا ہے ،معدے اور گردوں کو تقویت بخشتا ہے۔اس کے علاوہ جسمانی قوت کو بڑھاتا ہے، خون صاف کرتا ہے،کھانسی دور کرنے اور بلغم صاف کرنے میں بھی مفید ہے۔مٹھی بھر پستہ روزانہ کھانے سے امراضِ قلب کے خطرے سے کافی حد تک محفوظ رہا جا سکتا ہے۔تحقیق کیلئے ماہرین نے ایک گروہ کو روزانہ تقریباً نوے گرام پستے کھلائے۔ ایک ماہ کے بعد معلو م ہوا کہ ا ن کے مجموعی کولیسٹرول میں8.4فیصد کمی واقع ہوئی ہے،جبکہ مضر صحت کولیسٹرول بھی کم ہوا۔جن غذائوں میں پستہ شامل کیا جاتا ہے ان غذائوں کو استعمال کرنے والوں میں مفید صحت کولیسٹرول کے مقابلے میں مضر صحت کولیسٹرول کی مقدار کم رہتی ہے۔پستے میں کیلشیئم، پوٹاشیم او ر حیاتین بھی اچھی خاصی مقدار میں موجود ہوتے ہیں۔وہ لوگ جو باقاعدگی سے گری دار میوے مثلاً پستہ کھاتے ہیں ان کا جسمانی وزن کم رہتا ہے اور ان میں خطر ناک قسم کے امراض میں مبتلا ہونے کا اندیشہ بھی کم رہتا ہے۔پستے جسم میں حرارت بھی پیدا کرتے ہیں،جبکہ قوتِ حافظہ،دل،معدے اور دماغ کیلئے بھی مفید ہیں۔اخروٹاخروٹ کی شکل بالکل انسانی دماغ کی طرح ہوتی ہے۔یہ وہ غذائی جزو ہے جو دماغ کو صحت مند طور پر کام کرنے کے قابل رکھنے کیلئے بہت ضروری خیال کیا جاتا ہے۔اخروٹ کھانے سے حراروں میں اضافہ ہوتا ہے۔اس کے تیل کی مالش فالج اور لقوہ میں مفید ہے۔سردیوں کے موسم میں اکثر جوڑوں کے درد کی تکلیف رہتی ہے۔دل اور دورانِ خون کے نطام میں بھی فائدے مند ہے۔معالج کے مشورے سے اخروٹ کھانے سے کولیسٹرول نارمل رہتا ہے۔اس کے علاوہ کینسر کے ممکنہ حملے کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔بڑی آنت کے کینسر، چھاتی کے کینسر کے خطرے کو کم کرتا ہے۔اخرو ٹ اومیگا تھری فیٹی ایسڈ کے حصول کا اہم ذریعہ ہے۔کاجوکاجو ایک خوش ذائقہ میوہ ہے۔ اس کی بو تیز اور مغز میٹھا ہوتا ہے۔ شوگر کے مریضوں کیلئے اس کا باقاعدہ استعمال ضروری ہے۔ اس کو فرائی کرکے بھی کھایا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کاجو کے بیج میں ایسے قدرتی اجزا پائے جاتے ہیں جو خون میں موجود انسولین کو عضلات کے خلیوں میں جذب کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کے مغز کا مربہ دل و دماغ کو طاقتور بناتا ہے اور دانتوں کے درد میں کمی پیدا کرتا ہے۔ اس کا تیل پھوڑے پھنسی پر لگایا جاتا ہے۔ کاجو میں موجود معدنیات سے جسمانی نشوونما میں مدد ملتی ہے۔ بچوں کی ہڈیاں مضبوط بنانے کیلئے کاجو بہت مفید ہے اگر اس کو اعتدال کے ساتھ کھایا جائے تو یہ بہت فائدہ دیتا ہے۔خشک میوہ جات کھانے میں احتیاط ضروری٭...بادام بغیر بھگوئے کھانے سے قبض کی شکایت ہوتی ہے، ،کڑوے بادام کھانے سے آنکھوں کی بیماری میں مبتلا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جبکہ کڑوے بادام کھانے سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔٭...اخروٹ مقدار میں کم کھانے چاہئیں کیونکہ یہ گلے میں خراش اور منہ میں چھالے بننے کا سبب بن سکتے ہیں۔ اخروٹ دن کے بجائے رات سونے سے قبل کھائیں، اخروٹ کھانے کے بعد چائے پینا نقصان دہ ہے ثابت ہو سکتا ہے۔٭...چلغوزہ ہمیشہ کھانے کے بعد استعمال کریں ورنہ بھوک ختم ہوجائے گی۔ 20 گرام سے زائد چلغوزے سر اور جسم کے مختلف حصوں میں درد کی شکایت پیدا کر سکتے ہیں۔٭...کھجور نہایت میٹھا پھل ہے اسی لیے شوگر کے مریضوں کو اس سے دور رہنا چاہیے، ایک وقت میں تین سے زیادہ کھجوریں کھانا شوگر لیول بڑھا سکتا ہے جبکہ اس سے پیٹ بھی خراب ہو سکتا ہے۔٭...کشمش کا استعمال دانتوں کو مضبوط بناتا ہے مگر گرم تاثیر رکھنے کے سبب اس کے زیادہ استعمال سے پیٹ خراب، متلی، نکسیر کا پھوٹنا اور چہرے پر دانوں کا ہونا شامل ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی کابینہ23 دسمبر 1971ء کو صدر اور سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی کابینہ نے حلف اٹھایا۔ یہ پاکستان کی پہلی منتخب کابینہ تھی جس کے تمام ممبران الیکشن جیت کر آئے تھے۔ اس کابینہ میں بزرگ سیاستدان نورالامین اور راجہ تری دیو رائے بھی شامل تھے جنہوں سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان میں رہنا پسند کیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ان دونوں کی حب الوطنی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اپنی کابینہ میں شامل کیا۔ نور الامین کو پاکستان کی تاریخ میں واحد نائب صدر کا عہدہ دیا گیا تھا جو محض ایک علامتی اور اعزازی عہدہ تھا۔ راجہ تری دیو رائے کو اقلیتی امور کی وزارت دی گئی تھی۔جنگ عظیم دوئم: امریکی فوج کی پسپائیویک آئی لینڈ کی جنگ دوسری جنگ عظیم کی بحرالکاہل مہم کی ایک جنگ تھی، جو ویک آئی لینڈ پر لڑی گئی۔ لڑائی کا آغاز8 دسمبر 1941ء کو پرل ہاربر پر حملے سے ہوا اور 23 دسمبر کو جاپان کی سلطنت کے سامنے امریکی افواج کے ہتھیار ڈالنے پر ختم ہوئی۔ یہ جاپانی سلطنت کی فضائی، زمینی اور بحری افواج کے ذریعے امریکہ کے خلاف ایک بڑی کارروائی تھی۔ ٹرانسیسٹر کی رونمائی1947ء میں آج کے روز ''بیل لیبارٹریز‘‘ میں پہلی بار ٹرانسسٹر کو نمائش کیلئے پیش کیا گیا۔ ٹرانزسٹر ایک سیمی کنڈکٹر ڈیوائس ہے جو برقی سگنلز اور پاور کو بڑھانے یا تبدیل کرنے کیلئے استعمال ہوتی ہے۔ یہ جدید الیکٹرانکس کی بنیادی چیزوں میں سے ایک ہے۔ یہ سیمی کنڈکٹر مواد پر مشتمل ہوتا ہے۔ بیشتر ماہرین اسے 20ویں صدی کی عظیم ترین ایجادات میں سے ایک سمجھتے ہیں۔گردے کا پہلا کامیاب ٹرانسپلانٹ1954ء میں آج کے روز گردے کا پہلا کامیاب ٹرانسپلانٹ کیا گیا۔ یہ آپریشن امریکن ماہر یورالوجسٹ ڈاکٹر جے ہارٹ ویل ہیریسن اور ماہر پلاسٹک سرجن جوزف مرے کی مشترکہ کاوش تھا۔گردے کی پیوند کاری کو عام طور پر مردہ عطیہ دہندہ یا زندہ عطیہ کنندہ ٹرانسپلانٹیشن کے طور پر عطیہ کرنے والے عضو کے ماخذ کی بنیاد پر درجہ بندی کی جاتی ہے۔ زندہ عطیہ کرنے والے گردے کی پیوند کاری کو مزید جینیاتی طور پر متعلقہ یا غیر متعلقہ ٹرانسپلانٹس کی خصوصیت دی جاتی ہے۔ اس بات پر منحصر ہے کہ عطیہ دہندہ اور وصول کنندہ کے درمیان حیاتیاتی تعلق موجود ہے یا نہیں۔