پانی سے بھرے بادل ہوا میں کیسے تیر لیتے ہیں ؟
بادل دراصل پانی کے انتہائی مہین قطروں سے تشکیل پاتے ہیں اور اگر ٹھنڈک زیادہ ہو تو یہ برف کے کرسٹلز کا روپ اختیار کرلیتے ہیں۔اکثر آپ جو بادل دیکھتے ہیں وہ یا تو پانی کے قطروں پر مشتمل ہوتے ہیں یا برف کے کرسٹلز پر، اور یہ اتنے مہین ہوتے ہیں کہ مشکل ہی سے گرنے کی ولاسٹی تک پہنچتے ہیں۔ لہٰذا یہ پارٹیکلز اردگرد کی ہوا میں تیرتے رہتے ہیں۔ اس کو ایک عام مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر کبھی آپ اندھیرے کمرے میں کھڑکی یا دروازے کی کسی درز سے اندر آتی ہوئی سورج کی روشنی کودیکھیں تو روشنی کی اس بیم میں آپ کو گردوغبار کے پارٹیکلز تیرتے دکھائی دیں گے۔ جس طرح یہ زمین پر نہیں گرتے اسی طرح ہوا پانی یابرف کے باریک ذرات سے بنے بادلوں کو سنبھالے رکھتی ہے۔دراصل پانی کے قطروںکے مرکز سے لے کر ان کے کناروں تک-- یعنی ان کے نصف قطر یا رداس--کا فاصلہ چند مائیکرون (ایک ملی میٹر کاہزارواں حصہ)سے لے کر پچاس سو مائیکرون تک ہو سکتا ہے۔ برف کے کرسٹل اکثر قدرے بڑے ہوتے ہیں۔ اور رفتار جس کے ساتھ کوئی آبجیکٹ گرتا ہے اس کا تعلق اس کی کمیت یعنی ماس اور سطح کے رقبہ یا سرفیس ایریا کے ساتھ ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے پرندے کا ایک پر اسی وزن کے کنکر کی نسبت آہستگی سے زمین پر گرتا ہے۔ فضا میں اوپر کی سمت عموداً حرکت بھی بادلوں کو اوپر اٹھائے رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ بادل عام طور پر ایسی ہوا میں خود کو قائم رکھ سکتے اور بڑھتے ہیں جو اوپر کی جانب اٹھ رہی ہو۔ اوپر اٹھتی ہوئی ہوا سے جیسے جیسے دبائو کم ہوتا ہے یہ پھیلتی ہے۔ بلندی پر پہنچ کر ہوا کا یہ پھیلائو ٹھنڈک پیدا کرتا ہے۔ کافی ٹھنڈک ہونے پر آخر کار پانی کے بخارات سکڑ جاتے ہیں اور بادل بننے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تہ در تہ یا سٹریٹیفورم بادل جو لگاتار بارش برساتے ہیں روایتی طور پر ایسے ماحول میں بنتے ہیں جہاں اوپر کی سمت حرکت وسیع علاقے میں لیکن سست رفتاری سے ہو۔ یوں کہہ لیں کہ چند سنٹی میٹر فی سیکنڈ۔ رقیق بادل جن سے گرج چمک کے ساتھ چھینٹے پڑتے ہیں، کو چند میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے اوپر اٹھنے کے ساتھ وابستہ کیا جاتا ہے۔ فضا کی اٹھان بادلوں کے پارٹیکلز کے گرنے کی نسبتاً کم ولاسٹی کے اثرات کو زائل کردیتی ہے۔بادل کیوں اڑتے رہتے ہیں اس کو سمجھنے کا ایک اور بھی طریقہ ہے ، وہ یہ ہے کہ بادلوں کی مجموعی کمیت کا موازنہ اس ہوا کی مجموعی کمیت سے کیا جائے جس کے اندر وہ موجود ہوتے ہیں۔فرض کریں بادل کا ایک روایتی چھوٹا ٹکڑا 10000 فٹ کی بلندی پر ہے۔ اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ بادل کا یہ ٹکڑا ایک مکعب کلومیٹر کے علاقے پر محیط ہے اور اس کے ایک مکعب میٹر کے اندر 1.0 گرام پانی ہے تو بادلوں کے پارٹیکلز کی مجموعی کمیت دس لاکھ کلوگرام ہوگی یعنی تقریباً 500 گاڑیوں کے وزن کے برابر۔ یہ دیکھ کر کوئی بھی سوچ سکتا ہے کہ اتنے وزن کے ساتھ انہیں نیچے گر جانا چاہیے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اسی ایک مکعب کلومیٹر کے اندر ہوا کی مجموعی کمیت کیا ہے۔ ایک مکعب کلومیٹر کے اندر ہوا کی کل کمیت ایک ارب کلوگرام کے لگ بھک ہوگی۔ یعنی اتنے علاقے میں موجود بادلوں کی مجموعی کمیت سے ایک ہزار گنا زیادہ۔اس لئے روایتی طور پر اگرچہ بادلوں میں ہزاروں ٹن پانی موجود ہوتا ہے لیکن یہ پانی کے مہین قطروں یا برف کے چھوٹے چھوٹے کرسٹلز کی صورت میں میلوں طویل و عریض علاقے میں پھیلا ہوا ہوتا ہے۔ یہ پارٹیکل اتنے چھوٹے ہوتے ہیں زمین کی کشش کا ان پر اثر نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زمین سے دیکھنے پر بادل ہمیں ہوا میں تیرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔٭٭٭