شیخ المشائخ امام ربانی مجددالف ثانی
اسپیشل فیچر
حضرت مخدوم علامہ شیخ عبدالاحدؒ خواب دیکھتے ہیں کہ تمام جہان میں ظلمت پھیل گئی ہے۔ سور، بندر اور ریچھ لوگوں کو ہلاک کررہے ہیں۔ اسی اثناء میں ان کے سینے سے نور نکلا اور اس میں ایک تخت ظاہر ہوا۔جس پر ایک شخص تکیہ لگائے بیٹھا ہے اور اس کے سامنے تمام ظالموں، زندیقوں اور ملحدوں کوذبح کیاجارہاہے، کوئی شخص بلند آواز میں کہہ رہا ہے،’’اور فرما دیجیے، حق آگیا اور باطل مٹ گیا، بیشک باطل مٹنے والا ہے۔‘‘ اس کے بعد آپ کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ صبح حضرت شیخ شاہ کمال کیتھلی ؒ کی خدمت میں حاضر ہوکر خواب بیان کرتے ہیں اور آپ سے تعبیر پوچھتے ہیں۔ آپؒ نے فرمایا ،تمہارے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوگا جس سے الحاد و بدعت کی تاریکی دور ہوگی۔ وقت نے ثابت کیا کہ یہ تعبیر حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی اور صرف آپ کے لختِ جگر حضرت مخدوم شیخ احمد سرہندی مجدّد الف ثانی ؒنے الحاد ، بدعت ، شرک اور کفر خاتمہ کیا۔ آپ کی ولادت باسعادت شہر سرہند کی پاک سرزمین پر شب جمعۃ المبارک 14 شوال 971ھ ہوئی۔ آپ کا سلسلۂ نسب 32 بتیسویں پشت پر حضرت عمر فاروقؓ سے ملتا ہے۔ اس کا اظہار آپ نے اپنے مکتوب شریف میں فرمایا ہے۔ آپ کا نام مبارک ’’احمد‘‘ رکھا گیا۔ آپ دسویں صدی کے واحد بزرگ ہیں کہ جن کے اِشارے احادیث نبویؐ میں بھی ملتے ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانی ؒ بچپن میں نہایت سرخ و سپید تھے۔ ایک مرتبہ بیمار ہوگئے اور بیماری اس قدر بڑھی کہ آپ نے ماں کا دودھ پینا چھوڑ دیا اور لمبے لمبے سانس لینے لگے۔ سب گھر والے آپ کی زندگی سے مایوس ہوکر مغموم اور پریشان ہوگئے لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ سے ایک عظیم کام لینا تھا، ابھی تو اس سورج کو نصف النہار پر چمکنا تھا۔ اس لیے حضرت خواجہ شاہ کمال کیتھلیؒ آپ کے گھر تشریف لائے، گھر والوں نے آپ کی آمد کو رحمت خداوندی کا باعث جانا اور حضرت کو اٹھاکر اسی حالت میں آپ کی گود میں ڈال دیا۔ حضرت شاہ صاحب نے اپنی زبانِ مبارک بچے کے منہ میں دے دی۔ آپ ؒنے اسے اچھی طرح چوسنا شروع کردیا۔ اس کے بعد حضرت شاہ کمال کیتھلی ؒنے فرمایا کہ ’’مطمئن رہو، اس بچے کی عمر بڑی ہوگی، اللہ تعالیٰ اس سے بہت کام لینا چاہتا ہے۔ میں آج اسے اپنا بیٹا بناتا ہوں۔ یہ میری طرح ہی ہوگا۔‘‘ اسی اثنا میں آپ کو مکمل صحت یابی حاصل ہوگئی۔ حضرت شاہ کمال ؒنے آپ کے والدِ ماجد کو آپ سے متعلق بہت سی بشارتیں دیں۔ آپ کو حج بیت اللہ شریف اور زیارت روضۂ اقدس رسولِ اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کا شوق مُدت سے دامن گیر تھا لیکن والد ماجد کی کبرسنی کے باعث یہ ارادہ ملتوی رکھا لیکن جب 27 جمادی الآخر 1007ھ بمطابق 1598ء میں اَسّی سال کی عمر مبارک میں والد ماجد واصل بحق ہوئے تو دوسرے سال آپ نے قصدِ حج فرمایا اور سرہند شریف سے روانہ ہوئے۔ جب دہلی پہنچے تو مولانا حسن کشمیری نے جو آپ کے دوستوں میں سے تھے حضرت خواجہ باقی باللہؒ کی بہت تعریف و توصیف فرمائی تو آپ کے دل میں اشتیاق پیدا ہوا اور حضرت خواجہ خواجگان محمد باقی باللہؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ خواجہ صاحب کی طبیعت مبارک بڑی غیور تھی۔ وہ خود کسی کو اپنی طرف متوجہ نہیں فرماتے تھے لیکن یہاں معاملہ برعکس تھا کیوں کہ طالب خود مطلوب اور مرید خودمُراد تھا یعنی حضرت خواجہ صاحب نے استخارے میں جس طوطی کو دیکھا تھا اور اس کی وجہ سے آپ نے ہندوستان کا سفر فرمایا تھا، اس وقت حضرت مجدّد کی صورت میں آپ کے سامنے موجود تھا۔ اسی لیے حضرت خواجہ باقی باللہ ؒ کا قول ہے کہ ’’ہم نے پیری مریدی نہیں کی بلکہ ہم تو کھیل کرتے رہے لیکن اللہ تعالیٰ کا بڑا کرم ہے کہ ہمارے کھیل اور دکان داری میں گھاٹا نہیں رہا، ہمیں شیخ احمد جیسا صاحبِ استعداد شخص مل گیا۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ خود مرشد برحق نے بڑھ کر فرمایا کہ آپ کچھ عرصہ ہمارے پاس قیام فرمائیں۔ حضرت مجدّد بخوشی رضامند ہوگئے۔ حضرت مجدّدکی اعلیٰ فطری استعداد اور قوی النسبت مرشد کی خصوصی توجہ سے وہ روحانی احوال و مقامات جو برسوں کے مجاہدے سے حاصل ہوتے ہیں دنوں میں حاصل ہوگئے۔ روحانی منازل میں آپ کی استعداد دیکھ کر مرشد کو یقین ہوگیا کہ یہی وہ طوطی ہے کہ جس کی خوش نوائی سے ہندوستان کیا بلکہ پورے عالمِ اسلام میں تازہ بہار آئے گی۔ دسویں صدی ہجری کے اختتام کا ہندوستان بڑی تیزی سے ایک ہمہ پہلو دینی، تہذیبی اور ذہنی ارتداد کی طرف بڑھ رہا تھا اور اس شیطانی تحریک کی پشت پر مضبوط ترین سلطنت ، فوجی طاقت اور اپنے وقت کے متعدد ذہین افراد کی علمی اور ذہنی کمک بھی موجود تھی۔ ان حالات میں اگر کوئی ذہنی، روحانی اور علمی میدان میں طاقت ور شخصیت راستہ روکنے کے لیے کھڑی نہ ہوتی تو اسلام کی حقیقت ختم ہوجاتی۔ ہندوستان کے اس وقت کے حالات کا اندازہ آپ کے ایک مکتوب سے ہوتا ہے جو آپ نے ایک مرید حضرت سیّد فرید بخاری جو دربارِ اکبری سے وابستہ تھے ،کے نام لکھا ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں کہ’’عہد اکبری میں نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ کفار غالب تھے اور اعلانیہ دار الاسلام میں کفر کے احکامات جاری کرتے تھے اور مسلمان اپنے دین پر عمل کرنے سے عاجز تھے۔ وہ اگر ایسا کرتے تو قتل کردیے جاتے‘‘۔ اس خط سے اکبر کی حکومت کے دور میں اسلام کی زبوں حالی کا نقشہ ابھر کر سامنے آجاتا ہے۔ ہندوستان میں اسلامی معاشرے کی باگ ڈور ہمیشہ تین طبقوں کے ہاتھ رہی ہے، وہ اگر ہدایت پر رہے تو معاشرے میں تعمیر، ترقی ،نیکی اور بھلائی کو فروغ حاصل ہوا، وہ بگڑے تو پورے معاشرے میں فساد پھیل گیا ادارے یہ تھے۔ دار العلوم( مکاتب و مدارس)، خانقاہیںاور حکومت ۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ نے ان تینوں اداروں یا طبقوں کی اصلاح فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے ہندوستان میں اسلامی تشخص بچانے کا کام حضرت شیخ احمد فاروقی سرہندیؒ کی جامع کمالات شخصیت سے لیا۔ یہی آپ کا سب سے بڑا انقلابی کارنامہ ہے جو اس سے قبل کسی مجدّد نے نہیں کیا۔ تجدیدِ دین میں آپ کے طریقۂ کار کا تیسرا پہلو آپ کے مکتوبات شریف ہے جنہوں نے مشعل ِراہ کا کام دیا۔ جو شریعت و طریقت کے اِسرار و رموز کے جامع ہیں۔ ان کے ایک ایک لفظ سے اقامتِ دین، تعظیمِ شریعت، ترویجِ سنّت اور ردِ بدعت کے لیے آپ کی تڑپ اور دل سوزی ظاہر ہوتی ہے۔ آپ کی تعلیمات اور مجدّدانہ طریقہ کار جاننے اور سمجھنے کے لیے مکتوبات شریف قابل اعتماد اور مستند ذریعہ ہیں۔آپ کی تجدیدِ دین کی مساعی کا پیغام نہ صرف پورے ہندوستان بلکہ ہندوستان سے باہر بھی بلادِ اسلامیہ کے ایک ایک خطے میں پہنچا اور آپ کے خلفاء کرام مختلف ممالک گئے اور آپ کی دعوت عام کی۔ آپ اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ اصلاحِ معاشرہ اور تجدیدِ دین کی کوئی کوشش اس وقت تک پوری طرح کام یاب نہیں ہوسکتی جب تک معاشرے کے سب سے زیادہ طاقت ور ادارے یعنی نظام حکومت کی اصلاح نہ ہو۔ اس سلسلے میں آپ کی مساعی جمیلہ انتہائی انقلاب آفریں ہے۔ 1012ھ میں جب آپ نے دعوت و اصلاح کا کام شروع کیا اس وقت مغل بادشاہ اکبر کا دورِ حکومت تھا ،جس کی بے دینی اور اسلام دشمنی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ اس کے درباری علمائے سوء نے اسے دینِ الٰہی کے نام سے نیا مذہب گھڑ دیا تھا کہ جو سراسر گمراہی کی طرف لے جاتا تھا۔ دینِ الٰہی یا دینِ اکبری کی بنیاد اسلام دشمنی پر تھی، جس کے پیروکار نبوت، وحی،روزِ حشر ، جنت اور دوزخ کا مذاق اڑاتے تھے، قرآن کااللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونا مشکوک گردانتے تھے۔ زندگی بعد موت ناممکن اور عقیدہ تناسخ کو عین ممکن سمجھا جانے لگا۔ کلمۂ توحید کو بدل کر ’محمد رسول اللہ‘ (صلّی اللہ علیہ وسلم) کی جگہ ’اکبر خلیفۃ اللہ‘ تجویز کیا گیا۔ اس دین کو قبول کرنے کے لیے دینِ اسلام سے توبہ ضروری تھی۔ سجدۂ تعظیمی کو جائز قرار دیا گیا۔ اسلام کی ضد میں سود، جوا اور شراب نوشی جیسے قبیح افعال حلال قرار پائے اور خنزیر کو مقدس سمجھا جانے لگا۔ گائے کا گوشت حرام قرار پایا۔ مردوں کو دفنانے کے بجائے جلادیا جاتا یا پانی میں بہا دیا جاتا۔ چچازاد اور ماموں زاد سے نکاح ممنوع ، ایک سے زیادہ بیویاں نکاح میں رکھنا قابلِ تعزیر جرم ٹھہرا۔ آتش پرستی اور سورج کی پرستش جائز قرار پائی یعنی یہ دین سراسر اسلام اور مسلمانوںکے خلاف تھا۔ حضرت مجدّد الف ثانیؒ اس بات سے آگاہ تھے کہ دربارِ اکبری میں بعض بااثر حضرات دینِ الٰہی کے خلاف اور اکبر کی غیر اسلامی پالیسیوں سے مطمئن نہیں ہیں۔ ان میں بعض تو حضرت خواجہ باقی باللہؒ کے حلقہ بگوش بھی تھے۔ آپ نے ان افراد کو نظامِ حکومت کی اصلاح کا ذریعہ بنایا۔ اکبر کے انتقال کے بعد جہانگیر کی تخت نشینی کے وقت آپ نے ان افراد سے کام لیا۔ ان افراد نے جہانگیر کی تاج پوشی سے پہلے اس سے عہد لیا کہ حدود ِسلطنت میں شراب اور نشہ آور چیزیں تیار اور فروخت نہ کی جائیں۔ کسی بھی جرم میں آدمی کی ناک اور کان نہ کاٹے جائیں، کوئی سرکاری عہدے دار معاوضہ ادا کیے بغیر رعایا کے کسی مکان میں رہائش اختیار نہ کرے، ہر بڑے شہر میں شفاء خانے بنائے جائیںاور ان کے علاوہ بھی شقیں تھیں۔یہ بارہ نکاتی فارمولا تھاجسے منظورکرایاگیاتھا۔ حضرت مجدّد نے حکومت کے اس دین دار طبقے سے رابطہ بحال رکھا اور مختلف مواقع پر خطوط ارسال فرماتے رہے جو مکتوبات شریف میں موجود ہیں۔ جہانگیر کی طبیعت میں اسلام سے عداوت کے بجائے اس سے خوش عقیدگی کا رجحان تھا۔ اس لیے حضرت مجدد الف ثانی ؒکے حلقے سے تعلق رکھنے والے محبِ اسلام امراء کے بروقت نیک، مفید مشورے بڑی حد تک کارگر ثابت ہوئے اور حکومت کا رُخ اسلام دشمنی سے ہٹ گیا لیکن آپ مسلم حکومت کو اسلام کا مکمل خادم بنانا چاہتے تھے۔ اس کا موقع آپ کو 1028ھ میں مل گیا کیوں کہ اس وقت آپ شہرت کی بلندیوں پر تھے۔ خواص و عوام کا رجوع آپ کی طرف تھا۔ کچھ آپ کی شہرت اور کچھ امراء کی سرگوشیوں نے جہانگیر کو وہم میں مبتلا کردیا اور اس نے آپ کو دربارِ شاہی میں طلب کرلیا۔ آپ دربارِ شاہی تشریف لے گئے اور مسنونہ طریقے پر السلام علیکم کہا اور تشریف فرما ہوگئے۔ جہانگیر کو بداندیشوں نے بہکایا کہ انہوں نے آداب شاہی ادا نہیں کیے۔جہانگیر نے آپ کو آداب شاہی کے مطابق سجدہ ٔ تعظیمی کا حکم دیا لیکن آپ نے ببانگ دہل فرمایا ،میں نے خدائے واحد کے سوا کسی کو سجدہ کیا ہے اور نہ کروں گا۔ آپ کے اسی عمل پر علامہ اقبال نے آپ کی بارگاہ میں ہدیۂ عقیدت پیش کیا ہے کہ گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگےجس کے نفسِ گرم سے ہے گرمیء احرار جہانگیر کو آپ کی یہ بات پسند نہ آئی اور آپ کو قلعہ گوالیار کی جیل میں بھیج دیا۔ آپ نے وہاں پر ہزاروں غیر مسلم قیدیوں کو فیض ِمحمدی کا جام پلایا جو آپ کی تربیت اور نظر کیمیا کے اثر سے مسلمان ہوگئے۔ آپ نے ایک سال اسیری کے ایام کاٹے۔ اس دوران جہانگیر کو نبی پاک صلّی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی، آپؐ نے ارشاد فرمایا، جہانگیر تم نے کتنے بڑے شخص کو قید میں ڈال دیا ہے۔ بیداری کے بعد اس نے فوراً آپ کی رہائی کے احکامات جاری کردیے ۔ آپ رہا ہوکر بادشاہ کے ساتھ ہی رہے اوربادشاہ ولشکریوں کی اصلاح فرمائی۔ جہانگیر نے توبہ کی اور آپ کے دست حق پرست پر بیعت فرمائی ۔اس طرح آپ نے شعار اسلام کو بادشاہ کے ذریعہ زندہ کردیا۔ آپ نے علوم ِشرعیہ کی ترویج و اشاعت کے لیے درس و تدریس کا جو سلسلہ قائم فرمایا وہ اب تک برصغیر میں قائم و دائم ہے اور محبتِ الٰہی و عشق ِرسولؐ کی چنگاریاں روشن کرنے میں مصروف ہے۔ یہی تاریخ ساز کارنامہ آپ کو مجدد الف ثانیؒ بنانے کا باعث بنا اور یہ لقب بارگاہ الٰہی میں قبول ہوا۔ سب سے پہلے حضرت مولانا عبدالحکیم سیالکوٹیؒ نے آپ کو اس لقب سے یاد کیا ۔مکتوبات شریف میں آپ نے خود بھی اپنے لیے مجدد الف ثانی کا لقب تحریر کیا۔ 12 محرم الحرام1034ھ کو آپ نے فرمایا ’’مجھے بتایا گیا ہے پینتالیس دن کے اندر تمہیں اس دنیا سے دوسری دنیا کا سفر کرایا جائے گا اور مجھے قبر کی جگہ بھی دکھائی گئی ہے۔‘‘ آپ شدید بیمار تھے۔ اسی شدید بیماری کی حالت میں اٹھ کر وضو کیا، کھڑے ہوکر تہجد کی نماز پڑھی، پھر فرمایا یہ ہماری تہجد کی آخری نماز ہے۔ 28 صفرالمظفر کو چاشت کے وقت استنجا کرنے کے لیے طشت منگوایا، اس میں ریت نہ تھی، چھینٹوں کے خیال سے واپس کردیا اور فرمایا میں اپنا وضو توڑنا نہیں چاہتا، مجھے بستر پر لٹادو۔ آپ کو لٹادیا گیا۔ آپ مسنون طریقے کے مطابق اپنے دائیں رخسار کے نیچے دایاں ہاتھ رکھ کر ذکراللہ میں مشغول ہوگئے اور اسی حالت میں اس باکمال عاشق کی روح جسدِ اقدس سے پرواز کرکے جلوہ ٔ احدیت میں واصل ہوئی، بعد از وصال بھی آپ کے چہرۂ مبارک پر نورانی مسکراہٹ رہی، سرہند شریف میں آپ کا مزار پُراَنوار مرجع خلائق ہے۔