شیخ المشائخ امام ربانی مجددالف ثانی

شیخ المشائخ امام ربانی مجددالف ثانی

اسپیشل فیچر

تحریر : مختار احمد کھوکھر


حضرت مخدوم علامہ شیخ عبدالاحدؒ خواب دیکھتے ہیں کہ تمام جہان میں ظلمت پھیل گئی ہے۔ سور، بندر اور ریچھ لوگوں کو ہلاک کررہے ہیں۔ اسی اثناء میں ان کے سینے سے نور نکلا اور اس میں ایک تخت ظاہر ہوا۔جس پر ایک شخص تکیہ لگائے بیٹھا ہے اور اس کے سامنے تمام ظالموں، زندیقوں اور ملحدوں کوذبح کیاجارہاہے، کوئی شخص بلند آواز میں کہہ رہا ہے،’’اور فرما دیجیے، حق آگیا اور باطل مٹ گیا، بیشک باطل مٹنے والا ہے۔‘‘ اس کے بعد آپ کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ صبح حضرت شیخ شاہ کمال کیتھلی ؒ کی خدمت میں حاضر ہوکر خواب بیان کرتے ہیں اور آپ سے تعبیر پوچھتے ہیں۔ آپؒ نے فرمایا ،تمہارے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوگا جس سے الحاد و بدعت کی تاریکی دور ہوگی۔ وقت نے ثابت کیا کہ یہ تعبیر حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی اور صرف آپ کے لختِ جگر حضرت مخدوم شیخ احمد سرہندی مجدّد الف ثانی ؒنے الحاد ، بدعت ، شرک اور کفر خاتمہ کیا۔ آپ کی ولادت باسعادت شہر سرہند کی پاک سرزمین پر شب جمعۃ المبارک 14 شوال 971ھ ہوئی۔ آپ کا سلسلۂ نسب 32 بتیسویں پشت پر حضرت عمر فاروقؓ سے ملتا ہے۔ اس کا اظہار آپ نے اپنے مکتوب شریف میں فرمایا ہے۔ آپ کا نام مبارک ’’احمد‘‘ رکھا گیا۔ آپ دسویں صدی کے واحد بزرگ ہیں کہ جن کے اِشارے احادیث نبویؐ میں بھی ملتے ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانی ؒ بچپن میں نہایت سرخ و سپید تھے۔ ایک مرتبہ بیمار ہوگئے اور بیماری اس قدر بڑھی کہ آپ نے ماں کا دودھ پینا چھوڑ دیا اور لمبے لمبے سانس لینے لگے۔ سب گھر والے آپ کی زندگی سے مایوس ہوکر مغموم اور پریشان ہوگئے لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ سے ایک عظیم کام لینا تھا، ابھی تو اس سورج کو نصف النہار پر چمکنا تھا۔ اس لیے حضرت خواجہ شاہ کمال کیتھلیؒ آپ کے گھر تشریف لائے، گھر والوں نے آپ کی آمد کو رحمت خداوندی کا باعث جانا اور حضرت کو اٹھاکر اسی حالت میں آپ کی گود میں ڈال دیا۔ حضرت شاہ صاحب نے اپنی زبانِ مبارک بچے کے منہ میں دے دی۔ آپ ؒنے اسے اچھی طرح چوسنا شروع کردیا۔ اس کے بعد حضرت شاہ کمال کیتھلی ؒنے فرمایا کہ ’’مطمئن رہو، اس بچے کی عمر بڑی ہوگی، اللہ تعالیٰ اس سے بہت کام لینا چاہتا ہے۔ میں آج اسے اپنا بیٹا بناتا ہوں۔ یہ میری طرح ہی ہوگا۔‘‘ اسی اثنا میں آپ کو مکمل صحت یابی حاصل ہوگئی۔ حضرت شاہ کمال ؒنے آپ کے والدِ ماجد کو آپ سے متعلق بہت سی بشارتیں دیں۔ آپ کو حج بیت اللہ شریف اور زیارت روضۂ اقدس رسولِ اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کا شوق مُدت سے دامن گیر تھا لیکن والد ماجد کی کبرسنی کے باعث یہ ارادہ ملتوی رکھا لیکن جب 27 جمادی الآخر 1007ھ بمطابق 1598ء میں اَسّی سال کی عمر مبارک میں والد ماجد واصل بحق ہوئے تو دوسرے سال آپ نے قصدِ حج فرمایا اور سرہند شریف سے روانہ ہوئے۔ جب دہلی پہنچے تو مولانا حسن کشمیری نے جو آپ کے دوستوں میں سے تھے حضرت خواجہ باقی باللہؒ کی بہت تعریف و توصیف فرمائی تو آپ کے دل میں اشتیاق پیدا ہوا اور حضرت خواجہ خواجگان محمد باقی باللہؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ خواجہ صاحب کی طبیعت مبارک بڑی غیور تھی۔ وہ خود کسی کو اپنی طرف متوجہ نہیں فرماتے تھے لیکن یہاں معاملہ برعکس تھا کیوں کہ طالب خود مطلوب اور مرید خودمُراد تھا یعنی حضرت خواجہ صاحب نے استخارے میں جس طوطی کو دیکھا تھا اور اس کی وجہ سے آپ نے ہندوستان کا سفر فرمایا تھا، اس وقت حضرت مجدّد کی صورت میں آپ کے سامنے موجود تھا۔ اسی لیے حضرت خواجہ باقی باللہ ؒ کا قول ہے کہ ’’ہم نے پیری مریدی نہیں کی بلکہ ہم تو کھیل کرتے رہے لیکن اللہ تعالیٰ کا بڑا کرم ہے کہ ہمارے کھیل اور دکان داری میں گھاٹا نہیں رہا، ہمیں شیخ احمد جیسا صاحبِ استعداد شخص مل گیا۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ خود مرشد برحق نے بڑھ کر فرمایا کہ آپ کچھ عرصہ ہمارے پاس قیام فرمائیں۔ حضرت مجدّد بخوشی رضامند ہوگئے۔ حضرت مجدّدکی اعلیٰ فطری استعداد اور قوی النسبت مرشد کی خصوصی توجہ سے وہ روحانی احوال و مقامات جو برسوں کے مجاہدے سے حاصل ہوتے ہیں دنوں میں حاصل ہوگئے۔ روحانی منازل میں آپ کی استعداد دیکھ کر مرشد کو یقین ہوگیا کہ یہی وہ طوطی ہے کہ جس کی خوش نوائی سے ہندوستان کیا بلکہ پورے عالمِ اسلام میں تازہ بہار آئے گی۔ دسویں صدی ہجری کے اختتام کا ہندوستان بڑی تیزی سے ایک ہمہ پہلو دینی، تہذیبی اور ذہنی ارتداد کی طرف بڑھ رہا تھا اور اس شیطانی تحریک کی پشت پر مضبوط ترین سلطنت ، فوجی طاقت اور اپنے وقت کے متعدد ذہین افراد کی علمی اور ذہنی کمک بھی موجود تھی۔ ان حالات میں اگر کوئی ذہنی، روحانی اور علمی میدان میں طاقت ور شخصیت راستہ روکنے کے لیے کھڑی نہ ہوتی تو اسلام کی حقیقت ختم ہوجاتی۔ ہندوستان کے اس وقت کے حالات کا اندازہ آپ کے ایک مکتوب سے ہوتا ہے جو آپ نے ایک مرید حضرت سیّد فرید بخاری جو دربارِ اکبری سے وابستہ تھے ،کے نام لکھا ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں کہ’’عہد اکبری میں نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ کفار غالب تھے اور اعلانیہ دار الاسلام میں کفر کے احکامات جاری کرتے تھے اور مسلمان اپنے دین پر عمل کرنے سے عاجز تھے۔ وہ اگر ایسا کرتے تو قتل کردیے جاتے‘‘۔ اس خط سے اکبر کی حکومت کے دور میں اسلام کی زبوں حالی کا نقشہ ابھر کر سامنے آجاتا ہے۔ ہندوستان میں اسلامی معاشرے کی باگ ڈور ہمیشہ تین طبقوں کے ہاتھ رہی ہے، وہ اگر ہدایت پر رہے تو معاشرے میں تعمیر، ترقی ،نیکی اور بھلائی کو فروغ حاصل ہوا، وہ بگڑے تو پورے معاشرے میں فساد پھیل گیا ادارے یہ تھے۔ دار العلوم( مکاتب و مدارس)، خانقاہیںاور حکومت ۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ نے ان تینوں اداروں یا طبقوں کی اصلاح فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے ہندوستان میں اسلامی تشخص بچانے کا کام حضرت شیخ احمد فاروقی سرہندیؒ کی جامع کمالات شخصیت سے لیا۔ یہی آپ کا سب سے بڑا انقلابی کارنامہ ہے جو اس سے قبل کسی مجدّد نے نہیں کیا۔ تجدیدِ دین میں آپ کے طریقۂ کار کا تیسرا پہلو آپ کے مکتوبات شریف ہے جنہوں نے مشعل ِراہ کا کام دیا۔ جو شریعت و طریقت کے اِسرار و رموز کے جامع ہیں۔ ان کے ایک ایک لفظ سے اقامتِ دین، تعظیمِ شریعت، ترویجِ سنّت اور ردِ بدعت کے لیے آپ کی تڑپ اور دل سوزی ظاہر ہوتی ہے۔ آپ کی تعلیمات اور مجدّدانہ طریقہ کار جاننے اور سمجھنے کے لیے مکتوبات شریف قابل اعتماد اور مستند ذریعہ ہیں۔آپ کی تجدیدِ دین کی مساعی کا پیغام نہ صرف پورے ہندوستان بلکہ ہندوستان سے باہر بھی بلادِ اسلامیہ کے ایک ایک خطے میں پہنچا اور آپ کے خلفاء کرام مختلف ممالک گئے اور آپ کی دعوت عام کی۔ آپ اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ اصلاحِ معاشرہ اور تجدیدِ دین کی کوئی کوشش اس وقت تک پوری طرح کام یاب نہیں ہوسکتی جب تک معاشرے کے سب سے زیادہ طاقت ور ادارے یعنی نظام حکومت کی اصلاح نہ ہو۔ اس سلسلے میں آپ کی مساعی جمیلہ انتہائی انقلاب آفریں ہے۔ 1012ھ میں جب آپ نے دعوت و اصلاح کا کام شروع کیا اس وقت مغل بادشاہ اکبر کا دورِ حکومت تھا ،جس کی بے دینی اور اسلام دشمنی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ اس کے درباری علمائے سوء نے اسے دینِ الٰہی کے نام سے نیا مذہب گھڑ دیا تھا کہ جو سراسر گمراہی کی طرف لے جاتا تھا۔ دینِ الٰہی یا دینِ اکبری کی بنیاد اسلام دشمنی پر تھی، جس کے پیروکار نبوت، وحی،روزِ حشر ، جنت اور دوزخ کا مذاق اڑاتے تھے، قرآن کااللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونا مشکوک گردانتے تھے۔ زندگی بعد موت ناممکن اور عقیدہ تناسخ کو عین ممکن سمجھا جانے لگا۔ کلمۂ توحید کو بدل کر ’محمد رسول اللہ‘ (صلّی اللہ علیہ وسلم) کی جگہ ’اکبر خلیفۃ اللہ‘ تجویز کیا گیا۔ اس دین کو قبول کرنے کے لیے دینِ اسلام سے توبہ ضروری تھی۔ سجدۂ تعظیمی کو جائز قرار دیا گیا۔ اسلام کی ضد میں سود، جوا اور شراب نوشی جیسے قبیح افعال حلال قرار پائے اور خنزیر کو مقدس سمجھا جانے لگا۔ گائے کا گوشت حرام قرار پایا۔ مردوں کو دفنانے کے بجائے جلادیا جاتا یا پانی میں بہا دیا جاتا۔ چچازاد اور ماموں زاد سے نکاح ممنوع ، ایک سے زیادہ بیویاں نکاح میں رکھنا قابلِ تعزیر جرم ٹھہرا۔ آتش پرستی اور سورج کی پرستش جائز قرار پائی یعنی یہ دین سراسر اسلام اور مسلمانوںکے خلاف تھا۔ حضرت مجدّد الف ثانیؒ اس بات سے آگاہ تھے کہ دربارِ اکبری میں بعض بااثر حضرات دینِ الٰہی کے خلاف اور اکبر کی غیر اسلامی پالیسیوں سے مطمئن نہیں ہیں۔ ان میں بعض تو حضرت خواجہ باقی باللہؒ کے حلقہ بگوش بھی تھے۔ آپ نے ان افراد کو نظامِ حکومت کی اصلاح کا ذریعہ بنایا۔ اکبر کے انتقال کے بعد جہانگیر کی تخت نشینی کے وقت آپ نے ان افراد سے کام لیا۔ ان افراد نے جہانگیر کی تاج پوشی سے پہلے اس سے عہد لیا کہ حدود ِسلطنت میں شراب اور نشہ آور چیزیں تیار اور فروخت نہ کی جائیں۔ کسی بھی جرم میں آدمی کی ناک اور کان نہ کاٹے جائیں، کوئی سرکاری عہدے دار معاوضہ ادا کیے بغیر رعایا کے کسی مکان میں رہائش اختیار نہ کرے، ہر بڑے شہر میں شفاء خانے بنائے جائیںاور ان کے علاوہ بھی شقیں تھیں۔یہ بارہ نکاتی فارمولا تھاجسے منظورکرایاگیاتھا۔ حضرت مجدّد نے حکومت کے اس دین دار طبقے سے رابطہ بحال رکھا اور مختلف مواقع پر خطوط ارسال فرماتے رہے جو مکتوبات شریف میں موجود ہیں۔ جہانگیر کی طبیعت میں اسلام سے عداوت کے بجائے اس سے خوش عقیدگی کا رجحان تھا۔ اس لیے حضرت مجدد الف ثانی ؒکے حلقے سے تعلق رکھنے والے محبِ اسلام امراء کے بروقت نیک، مفید مشورے بڑی حد تک کارگر ثابت ہوئے اور حکومت کا رُخ اسلام دشمنی سے ہٹ گیا لیکن آپ مسلم حکومت کو اسلام کا مکمل خادم بنانا چاہتے تھے۔ اس کا موقع آپ کو 1028ھ میں مل گیا کیوں کہ اس وقت آپ شہرت کی بلندیوں پر تھے۔ خواص و عوام کا رجوع آپ کی طرف تھا۔ کچھ آپ کی شہرت اور کچھ امراء کی سرگوشیوں نے جہانگیر کو وہم میں مبتلا کردیا اور اس نے آپ کو دربارِ شاہی میں طلب کرلیا۔ آپ دربارِ شاہی تشریف لے گئے اور مسنونہ طریقے پر السلام علیکم کہا اور تشریف فرما ہوگئے۔ جہانگیر کو بداندیشوں نے بہکایا کہ انہوں نے آداب شاہی ادا نہیں کیے۔جہانگیر نے آپ کو آداب شاہی کے مطابق سجدہ ٔ تعظیمی کا حکم دیا لیکن آپ نے ببانگ دہل فرمایا ،میں نے خدائے واحد کے سوا کسی کو سجدہ کیا ہے اور نہ کروں گا۔ آپ کے اسی عمل پر علامہ اقبال نے آپ کی بارگاہ میں ہدیۂ عقیدت پیش کیا ہے کہ گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگےجس کے نفسِ گرم سے ہے گرمیء احرار جہانگیر کو آپ کی یہ بات پسند نہ آئی اور آپ کو قلعہ گوالیار کی جیل میں بھیج دیا۔ آپ نے وہاں پر ہزاروں غیر مسلم قیدیوں کو فیض ِمحمدی کا جام پلایا جو آپ کی تربیت اور نظر کیمیا کے اثر سے مسلمان ہوگئے۔ آپ نے ایک سال اسیری کے ایام کاٹے۔ اس دوران جہانگیر کو نبی پاک صلّی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی، آپؐ نے ارشاد فرمایا، جہانگیر تم نے کتنے بڑے شخص کو قید میں ڈال دیا ہے۔ بیداری کے بعد اس نے فوراً آپ کی رہائی کے احکامات جاری کردیے ۔ آپ رہا ہوکر بادشاہ کے ساتھ ہی رہے اوربادشاہ ولشکریوں کی اصلاح فرمائی۔ جہانگیر نے توبہ کی اور آپ کے دست حق پرست پر بیعت فرمائی ۔اس طرح آپ نے شعار اسلام کو بادشاہ کے ذریعہ زندہ کردیا۔ آپ نے علوم ِشرعیہ کی ترویج و اشاعت کے لیے درس و تدریس کا جو سلسلہ قائم فرمایا وہ اب تک برصغیر میں قائم و دائم ہے اور محبتِ الٰہی و عشق ِرسولؐ کی چنگاریاں روشن کرنے میں مصروف ہے۔ یہی تاریخ ساز کارنامہ آپ کو مجدد الف ثانیؒ بنانے کا باعث بنا اور یہ لقب بارگاہ الٰہی میں قبول ہوا۔ سب سے پہلے حضرت مولانا عبدالحکیم سیالکوٹیؒ نے آپ کو اس لقب سے یاد کیا ۔مکتوبات شریف میں آپ نے خود بھی اپنے لیے مجدد الف ثانی کا لقب تحریر کیا۔ 12 محرم الحرام1034ھ کو آپ نے فرمایا ’’مجھے بتایا گیا ہے پینتالیس دن کے اندر تمہیں اس دنیا سے دوسری دنیا کا سفر کرایا جائے گا اور مجھے قبر کی جگہ بھی دکھائی گئی ہے۔‘‘ آپ شدید بیمار تھے۔ اسی شدید بیماری کی حالت میں اٹھ کر وضو کیا، کھڑے ہوکر تہجد کی نماز پڑھی، پھر فرمایا یہ ہماری تہجد کی آخری نماز ہے۔ 28 صفرالمظفر کو چاشت کے وقت استنجا کرنے کے لیے طشت منگوایا، اس میں ریت نہ تھی، چھینٹوں کے خیال سے واپس کردیا اور فرمایا میں اپنا وضو توڑنا نہیں چاہتا، مجھے بستر پر لٹادو۔ آپ کو لٹادیا گیا۔ آپ مسنون طریقے کے مطابق اپنے دائیں رخسار کے نیچے دایاں ہاتھ رکھ کر ذکراللہ میں مشغول ہوگئے اور اسی حالت میں اس باکمال عاشق کی روح جسدِ اقدس سے پرواز کرکے جلوہ ٔ احدیت میں واصل ہوئی، بعد از وصال بھی آپ کے چہرۂ مبارک پر نورانی مسکراہٹ رہی، سرہند شریف میں آپ کا مزار پُراَنوار مرجع خلائق ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
 سوشل میڈیا پر بچوں کی رسائی:آسٹریلیا ماڈل کیا ہے اور کیوں زیر بحث ہے

سوشل میڈیا پر بچوں کی رسائی:آسٹریلیا ماڈل کیا ہے اور کیوں زیر بحث ہے

رواں ماہ کی ایک صبح جب آسٹریلوی نوجوانوں نے اپنے انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور فیس بک کے نوٹیفیکیشن کھولے تو انہیں ایک عجیب سا احساس ہوا کہ شاید آن لائن زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔ حقیقت یہی ہے ۔آسٹریلیا نے 16 سال سے کم عمر بچوں کو سوشل میڈیا اکاؤنٹس رکھنے اور نئے اکاؤنٹس بنانے پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ قانون جسےThe Online Safety Amendment (Social Media Minimum Age) Act 2024 کہا جاتا ہے، نومبر 2024ء میں پارلیمنٹ سے منظور ہوا اور اس سال 10 دسمبرسے نافذ العمل ہو گیا۔ اس کے تحت میٹا، ٹک ٹاک، یوٹیوب، سنیپ چیٹ، ریڈیٹ، ٹویچ اور دیگر بڑی سوشل میڈیا کمپنیوں کو حکم دیا گیاہے کہ وہ 16 سال سے کم عمر صارفین کے اکاؤنٹس بلاک کریں یا انہیں حذف کردیں ورنہ بھاری جرمانے کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہیں۔ آسٹریلوی حکومت کا دعویٰ ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے الگورتھم بچوں کی کمزور نفسیات، خود اعتمادی اور ذہنی صحت کو نشانہ بناتے ہیں، اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ بجائے والدین کے کمپنیوں کو اس نقصان دہ ماحول سے بچوں کو بچانے کا حکم دیا جائے۔ سوشل میڈیا سکرین ایڈکشن، تنقیدی سوچ میں کمی اور آن لائن ہراسانی جیسی مشکلات کا باعث بن رہا ہے۔چھوٹے بچے غلط معلومات، غیر اخلاقی مواد اور پرائیویسی خطرات کے سامنے بے بس ہوتے ہیں جبکہ والدین تکنیکی اور ثقافتی دباؤ کے سامنے اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے میں ناکام رہتے ہیں۔لگتا ہے کہ یہ قانون سوشل میڈیا کی دنیا کے پیٹرن تبدیل کردے گا۔ آسٹریلیا کا یہ اقدام دنیا بھر میں سنگ میل ثابت ہو رہا ہے۔ مختلف ممالک نے اس کے متوازی یا مختلف ماڈل پر غور شروع کر دیا ہے جیسا کہ یورپی پارلیمنٹ نے 16 سال سے کم عمر بچوں کے لیے سوشل میڈیا پابندی کی حمایت کی ہے، کیو نکہ کمپنیاں الگورتھمز کے ذریعے بچوں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔ نیوزی لینڈ نے ایک پارلیمانی کمیٹی رپورٹ بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو جلد اسی موضوع پر قانون سازی کے لیے سفارشات دے گی۔ ملائیشیا 2026ء میں اسی طرح کی پابندی نافذ کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ سپین نے سوشل میڈیا کے لیے عمر کی حد 14 سے بڑھا کر 16 کرنے یا والدین کی رضا مندی کے ساتھ رسائی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ فرانس اور ناروے بھی مختلف مدتوں اور حدود کے ساتھ اسی معاملے پر غور کر رہے ہیں۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک عالمی تحریک اب بچوں کی ڈیجیٹل حفاظت کے لیے شروع ہو چکی ہے۔ جیسے جیسے حکومتیں اس موضوع پر غور کریں گی ہر ملک کے اپنے ثقافتی اور سیاسی پیمانے سامنے آئیں گے۔تاہم سوشل میڈیا کے حوالے سے کچھ ملک نرم رویہ اختیار کر رہے ہیں جیسا کہ جنوبی کوریا، جہاں سوشل میڈیا بلیک آؤٹ کی بجائے کلاس رومز میں موبائل فونز کی پابندی نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ تعلیم میں خلل نہ آئے اور جاپان کے ایک شہر نے سب کے لیے دن میں دو گھنٹے انٹر نٹ استعمال کی حد متعارف کرائی ہے، جسے ڈیجیٹل وقت کا متوازن استعمالکہا جارہاہے۔ ڈنمارک نے سب سے مختلف حکمت عملی اپنائی ہے ، وہاں 15 سال سے کم عمر صارفین کو سوشل میڈیا تک محدود رسائی دینے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے، مگر والدین کو 13،14 سال کے بچوں کو اجازت دینے کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔ یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ ہر ملک اور سماج کے لیے ایک ہی حل نہیں ہے۔ بعض جگہوں پر سختی ہے، بعض جگہوں پر لچک اور بعض میں تعلیمی انداز اپنایا جا رہا ہے۔آسٹریلیا کی پابندی نے شدید ردعمل بھی پیدا کیا ہے۔ سوشل میڈیا کمپنیوں، حقوقِ اظہار کے حامیوں اور نوجوانوں نے حکومت کی اس حد تک مداخلت پر سوالات اٹھائے ہیں مثال کے طور پر،یہ آزادی اظہار کا حق چھیننے جیسا تو نہیں؟ بچے دیگر انٹرنیٹ پلیٹ فارمز یا وی پی این کے ذریعے پابندی کو توڑ سکتے ہیں؟ کیا اس سے نوجوانوں کی سماجی تعاملات اور تعلیمی صلاحیتوں کو نقصان نہیں ہوگا؟انہی نکات کو لے کر آسٹریلیا کی اعلیٰ عدالت میں اس قانون کو چیلنج بھی کیا گیا ہے جس میں 15 سال کے دو بچوں نے کہا ہے کہ ان کا آزادانہ اظہار اور سیاسی معلومات تک رسائی کا حق محدود ہوا ہے۔ آج کا ڈیجیٹل منظرنامہ وہ نہیں رہا جو پانچ سال پہلے تھا۔ سوشل میڈیا صرف تفریح نہیں بلکہ تعلیم، معلومات اور معاشرتی رابطے کا ذریعہ بھی ہے، اسی لیے کوئی بھی پابندی اپنے آپ میں اچھی بری نہیں ہے ۔آسٹریلیا نے اپنی پالیسی کے ذریعے دنیا کو ایک چیلنج دیا ہے کہ بچوں کے تحفظ اور آزادی کے درمیان توازن کہاں ہے؟یہ سوال نہ صرف قانون سازوں کو درپیش ہے بلکہ والدین، اساتذہ اور خود نوجوانوں کے لیے بھی ایک آئینہ ہے۔ کیا دنیا آسٹریلیا کے نقش قدم پر چلتی ہے؟ کیا ہم ایک نئے ڈیجیٹل سماجی معاہدے کی طرف بڑھیں گے؟وقت ہی بتائے گا کہ یہ قدم محفوظ مستقبل کی بنیاد بنتا ہے یا نئی حدود کی کنجی۔

ہالیجی جھیل :مہمان پرندوں کا مسکن

ہالیجی جھیل :مہمان پرندوں کا مسکن

ایشیا میں پرندوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ، ہالیجی جھیل کراچی سے 82 کلومیٹر اور ٹھٹھہ سے شمال مغرب میں 24 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ہالیجی جھیل نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی ماحولیاتی اہمیت کی حامل ہے اور اپنی قدرتی خوبصورتی، میٹھے پانی کے ذخیرے اور بالخصوص آبی پرندوں کے مسکن کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔یہاں تقریباً 200 سے زائد اقسام کے پرندے آتے ہیں ۔کسی زمانے میں مہمان پرندوں کی 500 سے زائد اقسام ہوتی تھی تاہم وقت کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں پرندوں کی تعداد اور اقسام کم ہوتی چلی گئیں۔اس کی ایک بڑی وجہ جھیل کے پانی کی آلودگی بھی ہے۔ اس جھیل سے کراچی شہر کو پانی فراہم کیا جاتا تھا لیکن جب پانی کی یہ سپلائی یہاں سے بند کر کے کینجھرجھیل سے شروع ہوئی تو ہالیجی جھیل کا پانی آلودہ ہونے لگا اور آبی حیات کے لیے یہ مسکن ناقابلِ رہائش ہو گیا اور افزائش نسل کے لیے بھی مناسب نہ رہا۔ہالیجی جھیل کے قیام کا تاریخی پس منظر یوں ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران اتحادی افواج کی کثیر تعداد کراچی میں قیام پذیر ہوئی اور پانی کی ضرورت کے پیشِ نظر ہالیجی جھیل بنانے کا فیصلہ کیا گیا، یوں ایک مصنوعی جھیل وجود میں آئی جو کہ 1943ء میں مکمل ہوئی۔ جھیل کے انسپکٹر کی رہائش گاہ پر آج بھی 1943ء کی تختی لگی ہوئی ہے۔جھیل تقریباً 18 مربع کلومیٹر پر محیط ہے جس کی گہرائی مختلف مقامات پر 17 سے 30 فٹ تک ہے۔ اس جھیل کے دلدلی حصے میں مگر مچھوں کی ایک کثیر تعداد ہوا کرتی تھی جوبتدریج کم ہوتے جارہے ہیں ۔ہالیجی جھیل کو رامسر کنونشن کے تحت عالمی اہمیت کی حامل آب گاہ (Wetlands of International Importance) قرار دیا گیا، جو اس کی ماحولیاتی قدر و قیمت کا واضح ثبوت ہے۔رامسر کنونشن عالمی معاہدہ ہے جو دو فروری 1971 ء کو ایران کے شہر رامسر میں آب گاہوں کے تحفظ کے اجلاس دوران طے پایااور 76-1975ء میں مکمل طور پر نافذ کیاگیا ۔ اُس وقت پاکستان میں آٹھ رامسر آب گاہیں تھیں اور اس وقت ان کی تعداد 19 ہوگئی ہے۔ہالیجی بنیادی طور پر بارشوں اور قریبی ندی نالوں کے پانی سے وجود میں آئی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ جھیل ایک متوازن ماحولیاتی نظام میں تبدیل ہو گئی جہاں پانی، نباتات، مچھلیاں اور پرندے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جھیل کے اردگرد پائے جانے والے آبی پودے، سرکنڈے اور گھاس پرندوں کے لیے قدرتی پناہ گاہ اور افزائشِ نسل کا ذریعہ فراہم کرتے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہالیجی جھیل کو آبی اورمہاجر پرندوں کے لیے ایک محفوظ مسکن سمجھا جاتا ہے۔ہالیجی جھیل انڈس فلائی وے زون کے راستے میں ہونے کے باعث ہر سال سردیوں کے موسم میں سائبیریا، وسطی ایشیا اور یورپ کے مختلف علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں نقل مکانی کرنے والے پرندوں کا مسکن بنتی ہے ۔ ان میں فلیمنگو، پیلیکن، بطخوں کی مختلف اقسام، ہیرون، ایگریٹ اور کوٹ شامل ہوتے ہیں۔ یہ پرندے یہاں نہ صرف قیام کرتے ہیں بلکہ خوراک حاصل کرتے اور بعض اقسام افزائشِ نسل بھی کرتی ہیں۔ ہالیجی جھیل کا پرامن ماحول اور وافر خوراک ان پرندوں کے لیے ایک مثالی پناہ گاہ بناتا ہے۔رامسر کنونشن کا بنیادی مقصد دنیا بھر میں آب گاہوں کا تحفظ، ان کا دانشمندانہ استعمال اور حیاتیاتی تنوع کی بقا کو یقینی بنانا ہے۔ ہالیجی جھیل اس کنونشن کے اصولوں کی عملی مثال ہے کیونکہ یہ جھیل پرندوں کے مسکن کے ساتھ ساتھ مقامی ماہی گیروں، نباتات اور آبی حیات کے لیے بھی ناگزیر اہمیت رکھتی ہے۔ تاہم ہالیجی جھیل کو درپیش خطرات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی، صنعتی آلودگی، غیر قانونی شکار، پانی کی کمی اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے عوامل اس جھیل کے قدرتی توازن کو متاثر کر رہے ہیں۔ خاص طور پر پرندوں کے غیر قانونی شکار نے ماضی میں اس مسکن کو شدید نقصان پہنچایا۔ اگرچہ حکومت اور محکمہ جنگلی حیات نے تحفظ کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں لیکن مؤثر عمل درآمد اور عوامی آگاہی کی اب بھی شدید ضرورت ہے۔ہالیجی جھیل کی حفاظت دراصل پرندوں ہی نہیں بلکہ پورے ماحولیاتی نظام کی حفاظت ہے۔ یہ جھیل ہمیں یاد دلاتی ہے کہ آب گاہیں قدرت کا وہ نازک تحفہ ہیں جو انسانی غفلت کی صورت میں تیزی سے تباہ ہو سکتی ہیں۔ رامسر کنونشن کے تحت ہالیجی جھیل کی حیثیت ہمیں یہ ذمہ داری سونپتی ہے کہ ہم اس قدرتی ورثے کو آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ بنائیں۔ ہالیجی جھیل پاکستان کے ماحولیاتی خزانے کا ایک قیمتی حصہ ہے۔ پرندوں کی چہچہاہٹ، پانی کی سطح پر تیرتے رنگ برنگے پرندے اور قدرتی خاموشی اس جھیل کو ایک منفرد مقام عطا کرتی ہے۔ اگر ہالیجی جھیل کا تحفظ سنجیدگی سے کیا جائے تو یہ نہ صرف پرندوں کا محفوظ مسکن بنی رہے گی بلکہ رامسر کنونشن کے مقاصد کی تکمیل میں بھی پاکستان کے مثبت کردار کو اجاگر کرے گی۔

آج کا دن

آج کا دن

پہلی کامیاب پرواز 17 دسمبر 1903ء کو امریکی ریاست نارتھ کیرولائنا کے مقام کِٹی ہاک پر اورول رائٹ اور ولبر رائٹ نے پہلی مرتبہ ایک ایسا ہوائی جہاز کامیابی سے اڑایا جو انجن سے چلتا تھا، کنٹرول کیا جاتا تھا اور انسان کو فضا میں لے جانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اس طیارے کا نام فلائر ون تھا جس نے تقریباً 12 سیکنڈ تک پرواز کی اور 120 فٹ کا فاصلہ طے کیا۔یہ کارنامہ محض ایک سائنسی تجربہ نہیں تھا بلکہ انسانی تہذیب میں ایک انقلابی قدم تھا۔ رائٹ برادران کی اس کامیابی نے بعد میں ہوابازی، جنگی طیاروں، مسافر بردار جہازوں اور عالمی رابطوں کے پورے نظام کی بنیاد رکھی۔ سیمون بولیوار کا انتقال 17 دسمبر 1830ء کو لاطینی امریکا کے عظیم انقلابی رہنما سیمون بولیوار کا انتقال ہوا۔ بولیوار کو'' لبریٹر‘‘یعنی آزادی دلانے والا کہا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے سپین کی نوآبادیاتی حکمرانی کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے وینزویلا، کولمبیا، ایکواڈور، پیرو اور بولیویا کو آزادی دلوانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔بولیوار نہ صرف ایک فوجی کمانڈر تھے بلکہ ایک ویژنری سیاسی رہنما بھی تھے۔ ان کا خواب تھا کہ آزاد ہونے والے لاطینی امریکی ممالک ایک مضبوط وفاق کی صورت میں متحد رہیں مگر اندرونی اختلافات، علاقائی سیاست اور اقتدار کی کشمکش نے ان کے خواب کو پورا نہ ہونے دیا۔ زندگی کے آخری ایام میں وہ مایوسی، بیماری اور تنہائی کا شکار رہے۔ مالمدی قتلِ عام دوسری عالمی جنگ کے دوران 17 دسمبر 1944ء کو یورپ میں ایک انتہائی ہولناک واقعہ پیش آیا جسے مالمدی قتلِ عام کہا جاتا ہے۔ یہ واقعہ بلجیم کے علاقے مالمدی کے قریب پیش آیا جہاں نازی جرمن فوج کے ایس ایس دستوں نے امریکی فوج کے تقریباً 84 جنگی قیدیوں کو گولی مار کر قتل کر دیا۔یہ واقعہBattle of the Bulge کے دوران پیش آیا۔ بعد ازاں یہ واقعہ جنگی جرائم کی ایک نمایاں مثال کے طور پر سامنے آیا۔جنگ کے بعد نیورمبرگ طرز کے مقدمات میں اس قتلِ عام میں ملوث جرمن افسران پر مقدمات چلائے گئے اور کئی کو سزائیں سنائی گئیں۔عرب بہار کا آغاز17 دسمبر 2010ء کو تیونس کے ایک نوجوان پھل فروش محمد بوعزیزی نے پولیس کی بدسلوکی، بے روزگاری اور حکومتی ناانصافی کے خلاف احتجاجاً خود سوزی کرلی۔ یہ واقعہ بظاہر ایک فرد کی ذاتی اذیت کا اظہار تھا مگر اس نے پوری عرب دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔بوعزیزی کی خودسوزی کے بعد تیونس میں عوامی احتجاج شروع ہوا جو جلد ہی ایک عوامی انقلاب میں تبدیل ہو گیا۔ چند ہفتوں میں صدر زین العابدین بن علی اقتدار چھوڑ کر ملک سے فرار ہو گئے۔ یہی تحریک آگے چل کر عرب بہار کہلائی جس نے مصر، لیبیا، یمن اور شام سمیت کئی ممالک میں سیاسی ہلچل پیدا کی۔

روبوٹک لیمپ:ٹیکنالوجی کا نیا شاہکار

روبوٹک لیمپ:ٹیکنالوجی کا نیا شاہکار

دنیا کی تیزی سے بدلتی ہوئی ٹیکنالوجی میں اب ایک اور حیران کن ایجاد شامل ہو گئی ہے۔ پکسر کے مشہور اچھلتے لیمپ سے متاثر ہو کر تیار کیا گیا ایک دلچسپ روبوٹک ڈیسک لیمپ حقیقت کا روپ دھار چکا ہے، جو نہ صرف حرکت کرتا ہے بلکہ دیکھنے، سننے اور بات کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ کیلیفورنیا کی کمپنی ''Interaction Labs‘‘ کی جانب سے تیار کردہ ''اونگو‘‘(Ongo) نامی یہ سمارٹ لیمپ گھروں اور دفاتر کیلئے ایک نئے طرز کی ڈیجیٹل رفاقت پیش کرتا ہے۔ پرومو ویڈیو میں یہ روبوٹ اشیاء اور انسانوں کو تجسس بھری نظروں سے دیکھتا، مدد فراہم کرتا اور ماحول سے تعامل کرتا نظر آتا ہے، جبکہ اس کی رازداری کے تحفظ کیلئے سن گلاسز تک مہیا کیے گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے شوقین افراد اس جدت کو روبوٹکس کے مستقبل کی ایک دلکش جھلک قرار دے رہے ہیں۔کمپنی کے شریک بانی اور سی ای او کریم رخا چاہم (Karim Rkha Chaham) نے بتایا کہ یہ ''جذبات کا اظہارِ کرنے والا‘‘ روبوٹ صارفین کو یاد بھی رکھ سکتا ہے اور ان کی ضروریات کا اندازہ بھی لگا لیتا ہے۔ اسے یوں سمجھیں جیسے کسی بلی کو ایک ڈیسک لیمپ کے جسم میں قید کر دیا گیا ہو‘‘۔سماجی پلیٹ فارم ''ایکس‘‘ پر تبصرہ کرنے والوں نے اس ڈیزائن کو ناقابلِ یقین، شاندار، بہت زبردست اور حیرت انگیز ٹیکنالوجی کا نمونہ قرار دیا ہے۔ ایک صارف نے کہا کہ ''یہ یقینی طور پر وہ چیز ہے جو میں گھر میں رکھ سکتا ہوں، کسی خوفناک انسانی نما روبوٹ کے مقابلے میں‘‘۔ جبکہ ایک اور نے لکھا کہ ''یہ شاید مارکیٹ کا سب سے پیارا روبوٹ ہو سکتا ہے‘‘۔''اونگو‘‘ کی حرکات ایلیک سوکولو نے ڈیزائن کی ہیں، جو پکسر کی فلم ''ٹوائے سٹوری‘‘، ''گارفیلڈ: دی مووی‘‘ اور ''ایون المائٹی‘‘ کے آسکر کیلئے نامزد سکرین رائٹر ہیں۔ پرومو ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ ''اونگو‘‘ اپنے بیس پر گھومتا ہے اور اپنی محور کو خودبخود ایڈجسٹ کرتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے Pixar کا مشہور کردار کرتا تھا۔صارف کی ضرورت کے مطابق ''اونگو‘‘ اپنی آنکھوں سے نکلنے والی روشنی کی شدت کو کم یا زیادہ کرسکتا ہے اور انہیں قریب بھی لا سکتا ہے، مثلاً رات کے وقت کتاب پڑھنے کیلئے۔یہ خوشگوار انداز میں سلام کرتا ہے، مفید مشورے دیتا ہے اور ہدایات بھی دیتا ہے جیسے: ''ارے! اپنی چابیاں بھولنا مت‘‘۔ایک اور دلکش منظر میں دکھایا گیا ہے کہ جب گھر میں پارٹی ہو رہی ہوتی ہے تو ''اونگو‘‘ پاس والے کمرے میں چلنے والی موسیقی کی دھن پر جھومتا ہے۔کمپنی کے مطابق، یہ ڈیسک لیمپ آپ کے ڈیسک اور آپ کے دن کو روشن کرتا ہے اور آپ کے گھر میں ''جادو جیسی مانوس موجودگی‘‘ لے کر آتا ہے۔کمپنی اپنی ویب سائٹ پر کہتی ہے: ''یہ آپ کی جگہ کو حرکت، شخصیت اور جذباتی ذہانت کے ساتھ زندہ بناتا ہے۔یہ اُن باتوں کو یاد رکھتا ہے جو آپ کیلئے اہم ہیں، آپ کے احساسات کو محسوس کرتا ہے اور دن بھر چھوٹی چھوٹی، خیال رکھنے والی حرکات کے ذریعے آپ کا ساتھ دیتا ہے۔ اونگو آپ کے دن کی رفتار کو محسوس کرتا ہے اور ماحول میں آنے والی لطیف تبدیلیوں کو خاموشی سے سمجھتے ہوئے ان کا جواب دیتا ہے۔ سمارٹ مصنوعات کی طرح جن میں کیمرے شامل ہوتے ہیں، اونگو بھی اپنے اردگرد کے ماحول کا ادراک رکھتا ہے، لیکن وہ ویژول ڈیٹا کو اپنی ڈیوائس ہی پر پروسیس کرتا ہے اور کسی بھی قسم کی ویڈیو کلپس کلاؤڈ پر نہیں بھیجتا، تاکہ کمپنی کا کوئی فرد انہیں نہ دیکھ سکے۔ جب صارفین مکمل پرائیویسی چاہتے ہوں اور نہیں چاہتے کہ اونگو ان پر نظر رکھے، تو وہ اس کی آنکھوں پر غیر شفاف چشمے لگا سکتے ہیں، جو مقناطیس کی مدد سے فوری طور پر چپک جاتے ہیں۔ایکس (X) پر کئی صارفین نے کہا کہ انہیں اونگو کی آواز ''پریشان کن‘‘ اور ''چبھن بھری‘‘ لگتی ہے، لیکن چہام (Chaham) کا کہنا ہے کہ اس کی آواز کے ساتھ ساتھ اس کی شخصیت بھی حسبِ ضرورت کسٹمائز کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ پرومو ویڈیو کمپیوٹر جنریٹڈ ہے، لیکن یہ صارفین کو ایک واضح اندازہ دیتی ہے کہ وہ کیا توقع رکھ سکتے ہیں، کیونکہ فی الحال پروٹوٹائپ پر کام جاری ہے، یعنی یہ ابھی مکمل طور پر تیار نہیں۔اونگو کو کمپنی کی ویب سائٹ پر پری آرڈر کیا جا سکتا ہے، جس کیلئے 49 ڈالر یا 38.38 پاؤنڈ کی مکمل طور پر قابلِ واپسی ''پرائیویٹی ایکسس ڈپازٹ‘‘ درکار ہے۔ یہ ڈپازٹ صارف کیلئے پہلے بیچ سے ایک یونٹ محفوظ کر دیتا ہے اور یہ رقم پروڈکٹ کی آخری قیمت میں سے منہا ہوجائے گی،جس کے بارے میں چہام نے بتایا کہ یہ تقریباً 300 ڈالر (225 پاؤنڈ) ہوگی۔ جو صارفین ابھی ادائیگی کریں گے انہیں اونگو کی ترسیل اگلے سال موسمِ گرما میں شروع ہونے پر پہلے فراہم کی جائے گی۔اونگو بلاشبہ پکسر کے اصل لیمپ ''لکسو جونیئر‘‘ (Luxo.Jr) کی طرف ایک واضح اشارہ ہے، جو 1995ء میں ''ٹوائے سٹوری‘‘ سے لے کر اب تک ہر پکسر فلم کے پروڈکشن لوگو میں دکھائی دیتا ہے۔

پلاسٹک کی بوتلوں سے محل تعمیر

پلاسٹک کی بوتلوں سے محل تعمیر

کینیڈین فنکارکا کارنامہ گنیز گیئربک میں شامل کر لیا گیاپلاسٹک آلودگی کے بڑھتے ہوئے بحران کے اس دور میں، دنیا بھر میں جب ماحولیاتی ماہرین سر پکڑے بیٹھے ہیں، ایک شخص نے تخلیقی سوچ اور عزم کے ساتھ وہ کام کر دکھایا جس کا تصور بھی مشکل ہے۔ ''پلاسٹک کنگ‘‘ کے نام سے مشہور اس باہمت فرد نے 40 ہزار استعمال شدہ پلاسٹک کی بوتلوں کو ضائع ہونے نہیں دیا، بلکہ انہیں جوڑ کر ایک شاندار چار منزلہ محل تعمیر کر ڈالا۔ یہ منفرد منصوبہ نہ صرف ماحول دوستی کی ایک روشن مثال ہے بلکہ یہ ثابت کرتا ہے کہ تخلیق اور جدت انسان کو ناممکن کو بھی ممکن بنانے کی طاقت عطا کرتی ہیں۔ دنیا بھر میں ماحولیاتی تحفظ کی کوششوں کے تناظر میں یہ کارنامہ اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ اگر ارادہ مضبوط ہو تو ایک پھینکی ہوئی پلاسٹک کی بوتل بھی تعمیر وطن اور خدمت انسانیت کا ذریعہ بن سکتی ہے۔یہ چند سال پہلے کی بات ہے کہ دنیا کو بے کار کچرے سے پاک کرنے کے خواہش مند ایک کینیڈین شخص نے پاناما کے لوگوں میں حیرت انگیز جوش پیدا کر دیا۔ اس نے ساحلوں اور شاہراہوں پر بکھری ہزاروں پلاسٹک کی بوتلیں اکٹھی کروائیں اور اسی ''کچرے‘‘ کو استعمال کر کے ایک ایسا شاندار محل تعمیر کر ڈالا جو کیریبین سورج کی روشنی میں جگمگاتا ہے۔ یہ کوئی کہانی نہیں ہے بلکہ مونٹریال سے تعلق رکھنے والے رابرٹ بیزو کی حقیقی زندگی کا وہ کارنامہ ہے جس نے انہیں درست طور پر ''پلاسٹک کنگ‘‘ کا لقب دلایا۔ 2012ء میں رابرٹ پاناما کے علاقے بوکاس ڈیل ٹورو کے ایسلا کولون میں رہائش پذیر تھے اور اپنا وقت بوکاس ری سائیکلنگ پروگرام کے ساتھ گزار رہے تھے، جو ملک کے ساحلوں اور بستیوں سے کچرا صاف کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ مگر کینیڈین شہری اس بات پر سخت حیران ہوا کہ صرف ڈیڑھ سال کے دوران انہوں نے دس لاکھ سے زائد پلاسٹک کی بوتلیں جمع کیں جو ری سائیکل ہونے والے کچرے کے بڑے بڑے ڈھیر کی صورت جمع ہو رہی تھیں۔ اس آلودگی کو کم کرنے کیلئے رابرٹ کے ذہن میں ایک بہت ہی غیر معمولی خیال آیا۔ کیا ہو اگر ان بوتلوں کو ری سائیکل کرنے کے بجائے براہ راست استعمال کر کے کوئی بڑا ڈھانچہ بنایا جائے، ایسا جو رہائش بھی فراہم کرے اور انسانی فضلے اور ماحول دوست حل کی ایک علامت بھی بن جائے۔اسی خیال کے بیج سے دنیا کا سب سے بڑا پلاسٹک بوتلوں سے بنا قلعہ وجود میں آیا۔ چار منزلہ، 46 فٹ (14 میٹر) بلند کاسٹیلو اِن اسپیریسیون، جو تقریباً 40 ہزار بوتلوں سے تیار کیا گیا۔رابرٹ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ شروع میں جزیرے کے رہائشیوں اور حکام کو لگا کہ میں پاگل ہوں حتیٰ کہ میری بیوی اور میرا بیٹا بھی یہی سمجھتے تھے۔ پھر انہیں تجسس ہوا اور انہوں نے مجھے یہ دیکھنے کیلئے کام جاری رکھنے دیا کہ آخر میں کیا کرنے والا ہوں۔ جیسے جیسے عمارت بڑھتی گئی، ان کی دلچسپی بھی بڑھتی گئی۔ کچھ ہی عرصے میں عمارت نے واضح شکل اختیار کرنا شروع کر دی۔ کنکریٹ اور اسٹیل کے مضبوط ڈھانچے کے گرد بنائی گئی اس تعمیر میں رابرٹ اور ان کی ٹیم نے پلاسٹک کی بوتلوں کو ''ماحول دوست تعمیراتی مواد‘‘ یا انسولیشن کے طور پر استعمال کیا۔ بوتلوں کی ساخت نے قلعے کو موسمی اثرات سے محفوظ رکھا اور اسے ایک منفرد حسن بخشا جس کی جھلک کسی پلاسٹک گلاس جیسی دکھائی دیتی ہے۔انہوں نے کہا کہ چیلنج یہ تھا کہ ہمارے پاس کوئی منصوبہ نہیں تھا، ہم روزانہ کی بنیاد پر کام میں جدت لاتے تھے۔ یہ ایک دن، ایک منزل کر کے اوپر اٹھتا گیا، یہاں تک کہ ہم چار منزلوں تک پہنچ گئے! مجموعی طور پر قلعے میں چار مہمان کمرے، ضیافت کیلئے ایک بڑا ہال اور چھت پر ایک دیدہ زیب مشاہدہ گاہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ وہاں آنے والے زائرین کیلئے متعدد تعلیمی مواد بھی رکھا گیا ہے، تاکہ لوگ پلاسٹک کے کچرے کے اثرات اور رابرٹ کی اس منفرد تخلیق کے بارے میں آگاہی حاصل کر سکیں۔اس تمام عمل کے دوران، رابرٹ ری سائیکلنگ کے بجائے اپ سائیکلنگ کی اہمیت کو اجاگر کرتے رہے۔ اپ سائیکلنگ سے مراد یہ ہے کہ پلاسٹک کی بوتلوں کو ان کی کیمیائی ساخت بدلے بغیر کسی نئے مقصد کیلئے دوبارہ استعمال کیا جائے۔ جبکہ روایتی ری سائیکلنگ کے نتیجے میں عموماً پلاسٹک کے ذرات ماحول کے نظام میں داخل ہو جاتے ہیں، اپ سائیکلنگ کو کچرے کے زیادہ ماحول دوست استعمال کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ رابرٹ نے ایک بار کہا تھا: ''ایک شخص کا کچرا، دوسرے انسان کا محل بن سکتا ہے۔ ڈائنوسار ایک شہابِ ثاقب سے ختم ہوئے تھے، اور انسانیت پلاسٹک سے ختم ہوگی‘‘۔ چند سال بعد جب رابرٹ نے یہ محل تعمیر کیا، انہیں '' انرجی گلوب ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا، جو ان کے پائیدار منصوبوں کے اعتراف کے طور پر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایوارڈ انہیں ''ناقابل یقین احساس‘‘ دلانے والا تھا۔مگر اس اعزاز کے باوجود، وہ یہاں رکنے والے نہیں تھے۔ 2021ء میں، انہوں نے اپنے منصوبے کو وسعت دیتے ہوئے پورا پلاسٹک بوتلوں کا گاؤں تعمیر کیا، جس میں کئی دیگر عمارتیں بھی شامل ہیں۔ ان گھروں میں بوتلیں انسولیشن کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں اور ان کے باہر کنکریٹ کی تہہ دی گئی ہے۔

پومپیئی:ایک قدیم شہر جو لمحوں میں تاریخ بن گیا

پومپیئی:ایک قدیم شہر جو لمحوں میں تاریخ بن گیا

دنیا کی قدیم تہذیبوں میں اگر کوئی شہر عبرت، حیرت اور تاریخ کے سنگم کے طور پر یاد کیا جاتا ہے تو وہ پومپیئی ہے۔ اٹلی کے جنوب میں واقع یہ رومن شہر 79ء میں آتش فشاں ماؤنٹ ویسوویس کے اچانک پھٹنے سے لمحوں میں مٹ گیا۔ مگر اس شہر کی حیران کن بات یہ ہے کہ یہ مٹی نہیں بلکہ راکھ میں محفوظ ہوگیا۔ ایسے جیسے وقت رک گیا ہو اور زندگی ایک ٹھہرے ہوئے منظر کی صورت ہمیشہ کیلئے نقش ہو گئی ہو۔تاریخی پس منظرپومپیئی بحیرہ روم کے کنارے واقع ایک خوشحال رومن شہر تھا جس کی بنیاد غالباً چھٹی یا ساتویں صدی قبل مسیح میں رکھی گئی۔ یہ شہر ایک اہم تجارتی مرکز تھا جہاں رومی طرزِ زندگی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری تھی۔ پتھروں کی پختہ گلیاں، شاندار گھروں کے صحن، حمام، تھیٹر، بازار اور شراب خانے سب پومپیئی کی بھرپور تہذیب اور سماجی زندگی کی عکاسی کرتے تھے۔24 اگست 79ء کی صبح اچانک ماؤنٹ ویسوویس نے زبردست دھماکے کے ساتھ آگ اگلی۔ آسمان سیاہ ہو گیا، زہریلی گیسوں اور راکھ نے فضا بھر دی۔ چند ہی گھنٹوں میں گرم لاوے کا سیلاب، راکھ اور پتھروں کی بارش اور زہریلی گیسوں کے بادل نے پورے شہر کو ڈھانپ لیا۔ پومپیئی کے تقریباً 20 ہزار باشندوں میں سے بہت سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے، مگر ہزاروں لوگ وہیں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ شہر 6 سے 7 میٹر موٹی آتش فشانی راکھ کے نیچے دفن ہوگیا۔پومپیئی 17 صدیوں تک زمین کے نیچے چھپا رہا۔ 1748ء میں جب کھدائی شروع ہوئی تو آثارِ قدیمہ کے ماہرین ششدر رہ گئے کیونکہ شہر کے گھر، فرنیچر، برتن، دیواروں پر بنے رنگین نقش و نگار، فریسکوز، حتیٰ کہ انسانوں اور جانوروں کے آخری لمحات تک حیرت انگیز طور پر محفوظ تھے۔راکھ میں دبے جسم وقت کے ساتھ گل گئے، مگر ان کے خالی خول برقرار رہے۔ ماہرین نے ان میں پلاسٹر بھر کر انسانوں کے آخری لمحات کو شکل دے دی۔کوئی بھاگ رہا تھا،کوئی اپنے بچے کو تھامے ہوئے تھا اور کوئی گھٹنوں کے بل جھکا امداد کا منتظر تھا۔ یہ مناظر آج بھی دیکھنے والوں کے دل دہلا دیتے ہیں۔پومپیئی کی گلیاں، پتھریلے فٹ پاتھ، دوکانوں کے کاؤنٹر، شہریوں کے گھر اور شاہی ولا آج بھی اسی طرح موجود ہیں جیسے 79ء کی صبح تھے۔رنگین دیواری تصویریں رومی آرٹ کی بہترین مثال ہیں جن میں اساطیری مناظر، رقص، کھانے پینے کی محفلیں اور روزمرہ زندگی کی جھلکیاں شامل ہیں۔رومی تہذیب کا آئینہپومپیئی آج روم کی قدیم تہذیب کا سب سے بڑا کھلا میوزیم ہے۔ یہاں سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ لوگ کیسے رہتے تھے، کیا کھاتے تھے، تفریح کیسے کرتے تھے، تجارت کیسے ہوتی تھی اور مذہبی رسومات کیا تھیں۔ گھروں میں ملنے والے فرنیچر کے نشانات، بیکریوں کے تنور، حمام کے کمرے، اسٹیڈیم، تھیٹر اور مندر سب کچھ اس قدیم شہر کے سماجی ڈھانچے کو زندہ کر دیتے ہیں۔آج کا پومپیئیآج پومپیئی دنیا کے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے آثارِ قدیمہ مقامات میں شمار ہوتا ہے۔ یہ مقام نہ صرف سیاحوں کیلئے پرکشش ہے بلکہ ماہرین آثارِ قدیمہ کیلئے بھی ایک زریں خزانہ ہے جہاں نئی دریافتیں آج بھی جاری ہیں۔ جدید تحقیق آتش فشانی تباہی، قدیم فنون اور رومی طرزِ زندگی کے بارے میں نئی روشنی ڈال رہی ہے۔اطالوی حکومت اور یونیسکو مل کر اس تاریخی مقام کے تحفظ کیلئے بڑے پیمانے پر کام کر رہے ہیں تاکہ یہ ورثہ آئندہ نسلوں تک محفوظ رہے۔پومپیئی صرف ایک تباہ شدہ شہر نہیں، بلکہ وقت کے رُک جانے کی داستان ہے۔ یہ ہمیں انسان کی طاقت، کمزوری، فخر، خوشیوں، غموں اور قدرت کی بے رحم قوتوں کے بارے میں سبق دیتا ہے۔ یہاں کے کھنڈرات بتاتے ہیں کہ تہذیبیں کیسے بستی ہیں اور لمحوں میں کیسے مٹ سکتی ہیں لیکن ان کے نقوش صدیوں بعد بھی انسان کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔