ازدواجی زندگی کو خوشگوار کیسے بنایا جائے ؟

ازدواجی زندگی کو خوشگوار کیسے بنایا جائے ؟

اسپیشل فیچر

تحریر : غلام حقانی


مرد وعورت اپنا کردار خوش اسلوبی سے نبھائیں تو ازدواجی زندگی باغ وبہار بن جاتی ہےتفریح طبع سے خاندان میں خوشگواری پیدا ہوتی ہے وقتاً فوقتاً مرد کو اس بات کا بھی خیال رکھنا اور اپنی استطاعت کے مطابق اہتمام کرنا چاہیےاپنی بیویوں کی ذات سے سکون میسر آنے کے باوجود جو مرد ان کے ساتھ محبت بھرا، پیار بھرا اور ہمدردانہ برتاؤ نہیں کرتے، کیا وہ اپنے مقصد حیات کو تار تار کرکے نہیں رکھ دیتے؟اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی منشاء سے واقف کروانے اور اپنی منشاء کے مطابق انسان سے عمل کروانے کیلئے ابتدائے آفرینش ہی سے ’’ہدایت‘‘ کا اہتمام فرمایا ہے اور اس مقصد کیلئے ہر زمانے اور ہر قوم میں انبیاء ورسل بھی بھیجے اور ان پر اپنے احکام پر مبنی صحیفے اور کتب بھی نازل فرمائیں۔ ہمارا زمانہ آخری زمانہ ہے۔ اسی لیے ہمارے لیے آخری نبی اور رسول خاتم النبیین اور خاتم المرسلین سیدنا محمد مصطفیﷺ کو مبعوث فرمایا اور ان پر خاتم الکتب قرآن مجید کو نازل فرمایا۔ اگر اس دور کے انسان کو اپنی تخلیق کا مقصد جاننا ہو، اس ارادے کے ساتھ کہ وہ اپنی تخلیق کے مقصد یا اپنے مقصدِ حیات کو ہر حال میں پورا کرے گا تو قرآن مجید اس کے لیے بہترین رہبر، بہترین ہدایت نامہ اور اس کے سفر زندگی کو پوری طرح روشن اور واضح کرنے والی کتاب ثابت ہوگی۔قرآن مجید ایک ایسی شاندار کتاب ہے جس میں دنیاوآخرت کے ہر پہلو کو پوری طرح سے اجاگر اور واضح کردیاگیا ہے۔ ضرورت غوروفکر اور تدبر کی ہے۔ قرآن مجید کے مضامین میں غوروفکر اور تدبر کرنے سے انسان کو اپنے مقصد حیات کے بارے میں سب کچھ معلوم ہوجائے گا۔ مثال کے طور پر شوہر اور بیوی کے تعلقات پر مبنی حسب ذیل آیات: سورۃ النساء کی آیت نمبر 34 میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’مرد عورتوں پر قوام ہیں اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں‘‘۔اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات بنائی اور سجائی انسان کیلئے اور خود انسان کو بنایا اپنے لیے، لیکن انسان کی پیدائش اور دنیا بسانے کا ذریعہ خود انسان ہی کو بنایا جیسا کہ سورۃ النساء کی پہلی ہی آیت میں واضح فرما دیاگیا ہے: ’’لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اْسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد وعورت دنیا میں پھیلا دیے‘‘۔یوں دنیا میں ہر رشتے سے پہلے شوہر اور بیوی کا رشتہ وجود میں آیا۔ اسی لیے یہ رشتہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ شوہر اور بیوی دراصل ایک دوسرے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ احسن الخالقین نے ازدواجی زندگی کا ایک بے حد خوبصورت اور مضبوط ڈھانچا بنایا ہوا ہے جس کے مطابق ازدواجی زندگی میں مرد وعورت دونوں کا اپنا مقام ہے۔ دونوں کی اپنی اپنی ذمے داری اوردونوں کا اپنا اپنا کردار ہے۔ جب مرد وعورت اپنی اپنی ذمے داری اپنا اپنا کردار خوش اسلوبی کے ساتھ نبھاتے ہیں تو ازدواجی زندگی نہایت خوشگوار بلکہ باغ وبہار بن جاتی ہے۔ کیوں کہ دونوں ہی اپنے اپنے مقصد حیات کو پورا کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اگر دونوں یا دونوں میں سے کوئی اپنی ذمے داری نہ نبھائے تو وہ اپنے مقصد حیات کی خلاف ورزی کر رہا ہوتا ہے، جس کا لازمی نتیجہ دو طرح کی تباہی ہے۔ دنیوی بھی اور اخروی بھی۔ اسی لیے یہ جاننا بے حد ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شوہر اور بیوی کے لیے کس کس طرح کا کردار پسند فرمایا ہے اور دونوں کو کیا کیا ذمے داریاں سونپی ہیں۔سورۃ النساء کی آیت نمبر34 میں اللہ تعالیٰ نے شوہروں کے کردار اور ذمے داریوں کو صرف ایک لفظ ’’قوام‘‘ میں سمو دیا ہے۔ شوہر ’’قوام‘‘ ہونے کے ناتے اپنے خاندان کے معاملات کو، جس کا اہم ترین حصہ بیوی ہوتی ہے، درست حالت میں چلانے، خاندان کی حفاظت ونگہبانی کرنے اور خاندان کی ساری ضرورتیں پوری کرنے کا ذمے دار ہوتا ہے۔ مرد کا عورتوں پر قوام ہونا ایک فطری عمل ہے۔ اسی لیے دنیا کے صرف مہذب طبقوں ہی میں نہیں بلکہ جاہل اور جنگلی طبقوں میں بھی مرد ہی کو ہمیشہ قوام کا درجہ ملا ہے۔ نئی تہذیب کے بگڑے ہوئے لوگ اور بعض غیر اہم قبائل اس سے مستثنیٰ ہوسکتے ہیں۔نبوت کا تیرہواں سال تھا۔ ہمارے آقا محمد مصطفی ﷺ ابھی مکہ مکرمہ ہی میں تھے۔ حج کے موقع پر سترہ سے زیادہ افراد کا وفد مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ آیا اور انھوں نے اصرار کیا کہ آپ ﷺمدینہ ہجرت فرمائیں۔ اس ضمن میں اس وفد سے چند اہم امور پر بیعت لی گئی۔ اس بیعت کی آخری دفعہ کے تعلق سے سرورِ عالمﷺنے فرمایا: ’’میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم اس چیز سے میری حفاظت کروگے جس سے اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہو‘‘۔ اس پر حضرت براءؓ بن معرور نے آپ ﷺ کا ہاتھ پکڑا اور کہا: ’’ہاں، اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو نبی برحق بناکر بھیجا ہے ہم یقینا اس چیز سے آپ ﷺ کی حفاظت کریں گے جس سے اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہیں‘‘۔یہاں تو جہ طلب بات یہ ہے کہ مدینہ منورہ کے باشندوں کو جو نئے نئے اسلام کی آغوش میں چلے آئے تھے، یہ بات پہلے ہی سے معلوم تھی کہ مرد اپنی بیوی بچوں کی جان، مال اور ناموس کی حفاظت کے ذمے دار ہوتے ہیں، کسی مذہبی قانون کی بنا پر نہیں بلکہ بالکل فطری طور پر۔ اس ذمے داری کے علاوہ مرد پر، ’’قوام‘‘ ہونے کی حیثیت سے اور بھی ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:(1)گرمی، سردی، بارش اور موسمی اثرات، چوروں، غنڈوں سے حفاظت کیلئے اور اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتے ہوئے سکون واطمینان حاصل کرنے کیلئے اپنی استطاعت کے مطابق وہ ایک مکان فراہم کرے۔(2)اپنی استطاعت کے مطابق کھانے پینے کا بندوبست کرے۔ اکثر یہ ذمے داری دو حصوں میں بانٹی جاتی ہے، کھانے پینے کا سامان فراہم کرنے کی ذمے داری مرد پر اور پکوان کی ذمے داری عورت پر۔(3)اپنی استطاعت کے مطابق بیوی بچوں کے لئے لباس کا بندو بست کرے۔ لباس کا بندوبست کرتے ہوئے نہ مرد بخل سے کام لے اور نہ عورت مرد کی استطاعت سے بڑھ کر فرمائش کرے۔(4)بیماریوں سے بچنے کیلئے جو بھی احتیاطی تدابیر ممکن ہوں، اختیار کرے۔ بیوی بچوں میں سے کوئی بھی بیمار پڑجائے تو علاج معالجے میں کسی طرح کی بے پروائی نہ برتے۔(5) مرد وعورت سماج کا حصہ ہوتے ہیں۔ اسی لیے وہ اپنی بیوی بچوں کو، حسب استطاعت، اس حال میں رکھے کہ انھیں سماج میں شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔(6) تفریح طبع سے خاندان میں خوشگواری پیدا ہوتی ہے۔ وقتاً فوقتاً مرد کو اس بات کا بھی خیال رکھنا اور اپنی استطاعت کے مطابق اہتمام کرنا چاہیے۔(7)بچوں کی تعلیم وتربیت مرد وعورت دونوں کی ذمے داری ہے لیکن تعلیم کے سارے اخراجات کی ذمے داری مرد پر ہوگی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہر وہ ذمے داری جس میں مال خرچ کیا جاتا ہے یہ فرماکر مرد کو سونپ دی کہ ’’اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں‘‘۔ اگر کوئی مرد استطاعت کے باوجود جان بوجھ کر اپنے اس منصب ’’قوام‘‘ کو نہ نبھائے تو وہ اسلامی آئین، اسلامی قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب اوراللہ تعالیٰ کی ناراضی کا مستحق ہوجاتا ہے اور اخلاقی اعتبار سے انسانیت سے خارج بھی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مرد کو خاندان میں ’’قوام‘‘ کا منصب عطا فرمایا اور خاندان کی دیکھ بھال کی ساری ذمے داری اْس کو سونپ دی۔ اسی لیے خاندانی امور کو خوش اسلوبی کے ساتھ چلانے کے لیے مرد کا حکم مانا جائے گا۔ اپنا فرض یا ڈیوٹی نبھانے کے لیے، محکومیت کے طور پر نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کے فرائض کی ادائی کے تعلق سے بھی سورۃ النساء کی اس آیت میں اپنی منشاء اور مرضی کو یوں ظاہر فرمایا ہے:’’پس صالح عورتیں فرماں بردار ہوتی ہیں اور مردوں کے غیاب میں، اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور نگرانی میں اْن کے (شوہروں کے) حقوق کی حفاظت کرتی ہیں‘‘۔یہاں قرآن حکیم کایہ اعجاز توجہ طلب ہے کہ عورتوں کو براہ راست یہ حکم نہیں دیاگیا کہ شوہروں کی فرماں برداری کریں، شوہروں کی اطاعت شعار بن کر رہیں بلکہ یہی بات عورتوں تک پہنچانے کیلئے ایک انتہائی موثرکن اسلوب اختیار کیاگیا، وہ یہ کہ اگر عورتیں صالحات ہوں گی تو یقینا اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ، ربوبیت ،الوہیت اور اللہ تعالیٰ کی ہمہ گیر حاکمیت ان کے دلوں میں جاگزیں ہوگی۔ اللہ کے رسولوں ، اللہ کی کتابوں، اللہ کے فرشتوں، یوم آخرت، دوزخ اور جنت کے تعلق سے ان کاایمان مستحکم ہوگا اوراسی بنا پر وہ اپنی زندگی کے ہر ہر شعبے میں اللہ تعالیٰ کے احکام کو بجا لانے میں کسی بھی قسم کی بے پروائی او رغفلت کو بالکل بھی جگہ نہیں دیں گی۔ بلکہ ہر دم اور ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کی منشاء اور مرضی ہی کو مقدم رکھتی ہوں گی تو ایسی عورتوں کیلئے یہ سمجھ لینا بالکل بھی دشوار نہیں ہوگا کہ شوہر کی فرماں برداری ، شوہر کی اطاعت شعاری بھی اللہ تعالیٰ کی منشاء و مرضی ہی میں شامل ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی اطاعت گزاری سے ایمان کی لذت ، سکون واطمینان کی دولت اور دنیا وآخرت کی کامیابی نصیب ہوتی ہے، اُسی طرح اللہ تعالیٰ کی منشاء اور مرضی کو پورا کرنے کیلئے شرعی حدود کے اندر، اندر شوہر کی اطاعت و فرماں برداری سے بھی ایمان کی لذت، سکون و اطمینان کی دولت اور دنیا وآخرت کی کامیابی نصیب ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ فرماں بردار ی کسی کو حاکم اور کسی کو محکوم کا درجہ دینے کیلئے نہیں بلکہ خاندانی امور کو خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دینے کیلئے ہے اور ایک صحت مند خاندان ، صحت مند سماج کا ضامن ہوتا ہے۔یہ قرآن حکیم کا اعجاز ہے کہ سورۃ النساء کی آیت نمبر34کے صرف چند الفاظ کے ذریعے شوہر اور بیوی کے رشتے کے تعلق سے سارے رہنما نہ خطوط ، شوہر اور بیوی کے رشتے کے سارے مقتضیات اولوالالباب یا عقل مندوں کیلئے روز روشن کی طرح واضح کردیے گئے، جن پر عمل پیرا ہونا انتہائی خوش نصیبی اور دنیوی زندگی کو جنت نشان بنانے کیلئے کافی ہے اور آخرت میں جنت کے حصول کا ذریعہ بھی۔ اور اگر شوہر یا بیوی یا دونوں ہی اس آیت مبارکہ میں دیے ہوئے رہنمایانہ خطوط کو یکسر نظرانداز کردیتے ہیں، شوہر اور بیوی کے رشتے کے مقتضیات پر بالکل بھی عمل پیرا نہیں ہوتے تو وہ حقیقت میں اللہ عزوجل کی ’’عبادت‘‘ سے منھ موڑ رہے ہوتے ہیں، بلکہ انجانے میں شیطان کی ’’عبادت‘‘ کر رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح اپنے مقصدِ حیات کو اپنے ہی ہاتھوں پامال کرتے ہوئے اپنے آپ کو انسانیت کے دائرے اور اولوالالباب یا عقلمندوں کی فہرست سے خارج کر رہے ہوتے ہیں۔(2)خالق کائنات نے شوہر اور بیوی کے رشتے کی جاذبیت اور ایک دوسرے کی جانب فطری میلان، فطری جھکاؤ اور ایک دوسرے کے لیے فطری ہمدردی کے راز پر سے سورۃ الروم کی آیت نمبر21 میں اس طرح پردہ اٹھایا ہے اور اس کو اپنی نشانی کا درجہ عطا فرمایا ہے:’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی‘‘۔ انسان کی تخلیق کے موقع پر ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بات عورت کی فطرت میں رکھ دی کہ اس کی ذات سے مرد یعنی شوہر کو سکون و اطمینان حاصل ہو اور اسی طرح تخلیق ہی کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے مرد وعورت دونوں ہی کے درمیان محبت بھی رکھ دی ، رحمت وہمدردی اورلگائو کے جذبات بھی رکھ دیے۔ حتیٰ کہ کوئی بھی کسی دوسرے کی ذرا سی پریشانی سے خود بھی بے چین اور پریشان ہوجائے۔ اور یہ انسان کے لیے اتنی بڑی نعمتیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی نشانیوں میں شمار فرمایا۔ اگر مرد وعورت ازدواجی زندگی کے ان فطری قواعد کے مطابق اپنی زندگی گزارتے ہیں تو وہ اپنے مقصدِ حیات کی تکمیل کر رہے ہوتے ہیں جس کے باعث ان کی زندگی باغ وبہار بنی رہتی ہے۔ لیکن اس کے برخلاف اگر عورت مرد کے ساتھ کچھ ایسا برتائو اپناتی ہے کہ مرد کو عورت کی ذات سے سکون و اطمینان حاصل ہونے کی بجائے کوفت، جھنجھلاہٹ، تلخی اور کڑواہٹ سے دوچار ہونا پڑتا ہے تو یہ اسی بات کی واضح علامت ہے کہ عورت اپنی فطرت سے روگردانی کر رہی ہے اور اپنے مقصدِ حیات کو اپنے ہی ہاتھوں پامال و تباہ کر رہی ہے۔ اسی طرح مرد و عورت دونوں ہی کے درمیان محبت، رحمت اور ہمدردی کے جذبات نہیں پائے جاتے یا بہت ہی کم پائے جاتے ہیں یا کسی میں پائے جاتے ہیں کسی میں نہیں تو یہ بھی فطرت کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے :’’ہم نے نے انسان کو بہت خوبصورت سانچے میں ڈھالا ہے یا ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے‘‘۔ (سورہ التین:4)یعنی صورت بھی بہترین عطا کی اور سیرت بھی بہترین۔ لیکن مرد وعورت یا دونوں میں سے کوئی ایک اپنی من مانی کرکے، ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے احکامات، اللہ تعالیٰ کی تعلیمات سے روگردانی کرتے ہوئے اپنے آپ کو ’’اسفل سافلین‘‘ یعنی پستی کی انتہا میں پہنچادیتے ہیں اور اپنی زندگی کو دنیا ہی میں جہنم بنادیتے ہیں۔’’وہ خواتین جو اپنے شوہروں کے سکون کا باعث بننے کی بجائے ان کا سکون غارت کرکے رکھ دیتی ہیں اور اسی وجہ سے ان کی باہمی محبت اور رحمت بھی داؤ پر لگ جاتی ہے یا وہ مرد جن کو اپنی بیویوں کی ذات میں سکون میسر آنے کے باوجود بیویوں کے ساتھ محبت بھرا، پیار بھرا اور ہمدردانہ برتاؤ نہیں کرتے، کیا وہ اپنے مقصد حیات کو تار تار کرکے نہیں رکھ دیتے؟ پھر وہ عقلمندوں یا اولوالالباب کے زمرے میں یا انسانیت کی فہرست میں کس طرح شامل رہ سکتے ہیں؟ آئے دن جہیز کیسز میں اضافہ کیا ازدواجی زندگی کو منھ نہیں چڑا رہا ہوتا؟ اسلام نے تو مرد و عورت کو وہ سب کچھ دیا جس سے زندگی میں بہار لائی جاسکتی ہے۔ لیکن مسلم مرد اور مسلم عورت نے اسلام ہی سے منھ موڑ لیا اور اپنے آپ کو طاغوتی طوفان کے حوالے کردیا۔ اسلام پر ایک بڑا دھبا، انسانیت پر ایک بدنما داغ بن کر رہ گئے۔(3)احسن الخالقین نے شوہر او ربیوی کے باہمی رشتے کی اہمیت کو سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر187 کے چند الفاظ : ’’وہ تمھارے لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو‘‘۔کے ذریعے کس خوبصورتی کے ساتھ سمجھایا ہے اس کی مثال ملنی ناممکن ہے۔مرد اپنے لباس کو اپنے لیے باعثِ زینت اور اپنی شخصیت کا نکھار سمجھتے ہیں اسی لیے اپنے لباس کی پوری پوری توجہ کے ساتھ دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ لباس دھول، داغ دھبوں سے محفوظ رہے۔ لباس کو غلطی سے بھی ہلکی کھروچ تک نہ آنے پائے۔ لباس کو پھاڑنے یا تار تار کرنے کا تو تصور تک نہیں کیاجاتا۔ بل کہ لباس کو خوشبو میں بسایاجاتا ہے۔ لباس ہی کی طرح بیوی مرد کے لیے باعث زینت اور اس کی شخصیت کا نکھار ہوتی ہے اور اسی لیے پوری توجہ کے ساتھ دیکھ بھال کی حقدار بھی۔ مرد پر لازم ہے کہ اپنے لباس ہی کی طرح اپنی بیوی کو غیر ضروری شک وشبہ یا الزام تراشی کے داغ دھبوں اور دھول سے محفوظ رکھے۔ اپنی زبان یا اپنے کسی عمل سے بیوی کے دل پر ہلکی سی کھروچ تک نہ آنے دے۔ اپنے ظلم یا اپنی زیادتیوں کے ذریعے بیوی کے دل کو تار تار کرنے کا تصور تک نہ کرے۔ عورت کو ہمیشہ اپنی محبت کی خوشبو میں بسائے رکھے تو یہ عمل مرد ہی کیلئے نشان امتیاز ہوگا اور کامیاب ازدواجی زندگی کی علامت بھی اور اگر کوئی مرد ایسانہیں کرتا تو گویا وہ اپنا لباس خود ہی گندہ میلا کر بیٹھتا ہے ، خود ہی اپنے لباس کو پھاڑ پھاڑ کر تارتار کررہا ہوتا ہے۔ کسی بھی مرد سے پوچھیے کیا وہ ایسی بدحالی کو برداشت کر پائے گا؟ لیکن کتنے ہی مرد ہیں جو ایسی بدحالی کا شکار ہوجاتے ہیں اور انھیں احساس تک نہیں ہوتا۔عورت تو اپنے لباس کو اپنے لیے کچھ زیادہ ہی باعث زینت اور اپنی شخصیت کا نکھار سمجھتی ہے۔اسی لئے کوئی بھی عور ت اپنے لباس پر مرد کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی توجہ دیتی ہے اور اپنے لباس کی دھول داغ دھبوں یا کھروچ وغیرہ سے کچھ زیادہ ہی حفاظت کرتی ہے۔ اپنے لباس کو پھاڑنے یا تارتار کرنے کا تصور ہی اس کے دل کی دنیا کو درہم برہم کرسکتا ہے۔ اگر بیوی اپنے لباس ہی کی طرح اپنے شوہر کی پوری پوری توجہ کے ساتھ دیکھ بھال کرے ، اپنی بدکلامی یا اپنی تلخ کلامی ، اپنی بدتمیزی یا بے رخی کے ذریعے مرد کے دل کو تار تار نہ کرے تو عورت ہی کی زندگی خوشگوار اور محبت کی خوشبو سے معطر ہوجائے گی۔ وہ بیوی کیسی لگتی ہوگی جو خود ہی اپنے لباس کو میلا، گندہ کردے، اپنے لباس کو پھاڑ پھاڑ ڈالے اوراس کے جسم پر بہترین زینت وزیبائش والے لباس کی جگہ چیتھڑے جھول رہے ہوں؟ کیا کوئی بھی عورت اس طرح کی بدحالی کو برداشت کرسکتی ہے ؟ لیکن کتنی ہی عورتیں ہوتی ہیں جنھیں اپنی بدحالی کی خبر ہی نہیں ہوتی۔ کیونکہ وہ حقیقت کے آئینے میں اپنے آپ کو کبھی دیکھتی ہی نہیں اور نہ انھیں کسی طرح کی شرمندگی کا احساس ہی ہوتا ہے۔ صاحبِ قرآن محمد مصطفیﷺکی زوجہ محترمہ اْم المومنین خدیجہؓ کی ازدواجی زندگی میں ہر کسی کیلئے بہترین نمو نہ ہے۔ یہ وہ نمونہ ہے جس کو صاحب عرش نے نہ صرف یہ کہ پسند فرمایا اور شرف قبولیت بخشا بلکہ اپنی پسند اور شرف قبولیت کو دنیا والوں پر ظاہر بھی فرما دیا۔صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام نبی کریمﷺ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: اے اللہ کے رسولﷺ ! یہ خدیجہؓ تشریف لارہی ہیں۔ ان کے پاس ایک برتن ہے جس میں سالن یا کھانا یا کوئی مشروب ہے۔ جب وہ آپ ﷺ کے پاس آپہنچیں تو آپ ﷺ انھیں ان کے رب کی طرف سے سلام کہیں اور جنت میں موتی کے ایک محل کی بشارت دیں جس میں نہ شور وشغب ہوگا نہ درماندگی اور تکان۔یہ درجہ اْم المومنین کو صرف اور صرف اس لیے ملا کہ تبلیغ اسلام کے سلسلے میں آپ ﷺ پر جب مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے، دل پاش پاش ہوجاتا تو آپﷺ کو اْم المومنین حضرت خدیجہ ؓ کی معیت میں سکون واطمینان ملتا، راحت ملتی، چین ملتا اور یہ ’’لِتَسکْنْوا اِلَیہَا‘‘ کی بہترین تفسیر ہوتی۔ اْم المومنین حضرت خدیجہؓ اپنے والہانہ تعلق خاطر کے ذریعے ’’مودۃ ورحمۃ‘‘ کی جیتی جاگتی تصویر بھی تھیں۔ ہر عقد کے موقع پر دعا ہوتی ہے کہ ’’اے اللہ! اس نئے شادی شدہ جوڑے کے درمیان ایسی ہی الفت رکھ دے جیسی الفت سیدنا محمد مصطفیﷺ اور حضرت خدیجہؓ کے درمیان رکھی تھی۔٭٭٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
مصر کی قدیم یادگار کی بحالی

مصر کی قدیم یادگار کی بحالی

عظیم الجثہ مجسمے قدیم مصری فن تعمیر کی عکاسی کرتے ہیںمصر نے حال ہی میں اپنی قدیم تہذیب کی ایک نہایت اہم یادگار کی بحالی کا کام مکمل کیا ہے۔ یہ یادگار فرعون امنحوتپ (Amenhotep) سوم کے عظیم الجثہ مجسموں پر مشتمل ہے، جو ان کی شان و شوکت اور قدیم مصری فن تعمیر کی اعلیٰ مہارت کی عکاسی کرتے ہیں۔ صدیوں پر محیط مٹی اور موسمی اثرات کے بعد یہ مجسمے اب دوبارہ اپنی اصل صورت میں عوام کے سامنے پیش کیے گئے ہیں، جس سے نہ صرف مصر کی تاریخی وراثت زندہ ہوئی ہے بلکہ عالمی ثقافتی منظرنامے میں بھی اس کا مقام مستحکم ہوا ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق یہ بحالی منصوبہ نہ صرف تاریخی اہمیت رکھتا ہے بلکہ سیاحتی شعبے کو فروغ دینے اور قدیم مصر کے فن تعمیر کی یادگار کو محفوظ رکھنے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔زلزلے سے متاثر ہونے کے تین ہزار سال سے زائد عرصہ بعد، مصر کے دو شاندار اور دلکش آثار قدیمہ کو دوبارہ خوبصورتی کے ساتھ بحال کر دیا گیا ہے۔ میمنون کے عظیم مجسمے دریائے نیل کے اس کنارے پر واقع ہیں جو قدیم شہر لقصور (Luxor) کے سامنے ہے، جو مصر کا تاریخی شہر ہے۔ یہ دونوں عظیم الجثہ مجسمے تقریباً 50 فٹ بلند ہیں اور یہ امنحوتپ سوم کی نمائندگی کرتے ہیں، جو قدیم مصر پر 1391 تا 1353 قبل مسیح تک حکمرانی کرنے والا طاقتور فرعون تھا۔چند روز قبل حکام نے ان مرمت شدہ مجسموں پر سے پردہ اٹھایا، جنہیں مصر کی تہذیب کی سب سے اہم یادگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔یہ مجسمے دوبارہ بحال کر کے اپنی اصل جگہ پر نصب کیے گئے ہیں۔ امنحوتپ سوم کو قدیم مصر پوجا جاتا تھا اور وہ توت عنخ آمون کے دادا تھے۔آسٹریلیا کی فلنڈرز یونیورسٹی کے آثار قدیمہ کے ماہر مائیکل ہیبِچٹ (Michael Habicht)کے مطابق انہوں نے امن کو فروغ دیا اور اقتصادی خوشحالی کے عظیم دور میں زندگی گزاری۔ممکن ہے کہ وہ اپنے دور میں دنیا کے سب سے امیر افراد میں شامل ہوں‘‘۔میمنون کے عظیم مجسمے اصل میں 1350 قبل مسیح میں تعمیر کیے گئے تھے۔ یہ مجسمے بڑے پتھریلے بلاکس سے بنائے گئے، جو موجودہ قاہرہ کے قریب کانوں سے نکالے گئے اور تقریباً 420 میل کا طویل فاصلہ طے کر کے یہاں پہنچائے گئے۔دونوں مجسموں میں فرعون امنحو تپ سوم کو بیٹھے ہوئے دکھایا گیا ہے، جن کے ہاتھ رانوں پر رکھے ہیں، جبکہ ان کے چہرے مشرق کی سمت دریائے نیل اور طلوعِ آفتاب کی طرف رخ کیے ہوئے ہیں۔ان کے سر پر دھاری دارشاہی تاج ہے جبکہ انہوں نے شاہی لباس پہن رکھا ہے، جو فرعون کی حکمرانی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔فرعون کے پیروں کے پاس موجود دو چھوٹے مجسمے ان کی اہلیہ ملکہ تِیے کی نمائندگی کرتے ہیں، جبکہ ان عظیم مجسموں پر یونانی اور لاطینی زبانوں میں کندہ ایک سو سے زائد تحریریں موجود ہیں۔تقریباً 1200 قبل مسیح میں ایک شدید زلزلے نے ان مجسموں کو نقصان پہنچایا، جس کے نتیجے میں امنحوتپ سوم کا مندر بھی تباہ ہو گیا۔ زلزلے کے بعد یہ مجسمے ٹکڑوں میں بٹ گئے اور ان کے چبوترے بکھر گئے، جبکہ بعض پتھریلے حصے نکال کر لے جائے گئے۔ آثارِ قدیمہ کی وزارت کے مطابق ان کے کچھ بلاکس لقصور کے کرناک مندر میں دوبارہ استعمال کیے گئے، تاہم بعد میں ماہرین آثار قدیمہ نے انہیں واپس لا کر مجسموں کی ازسرِنو تعمیر کی۔یہ عظیم مجسمے شہر لقصور کیلئے غیرمعمولی اہمیت رکھتے ہیں، جو قدیم مندروں اور آثارِ قدیمہ کی وجہ سے مشہور ہیں اور دنیا کے قدیم ترین آباد شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ بحالی اس کوشش کا بھی حصہ ہے کہ ''یہ دکھایا جا سکے کہ بادشاہ امنحوتپ سوم کا تدفینی مندر قدیم زمانے میں کیسا دکھائی دیتا تھا ‘‘، یہ بات محمد اسماعیل نے کہی جو سپریم کونسل آف اینٹی کوئٹیز کے سیکریٹری جنرل ہیں۔ امنحوتپ سوم، جو قدیم مصر کے نمایاں ترین فرعونوں میں شمار ہوتے ہیں، نیو کنگڈم کے تقریباً 500 سالہ دور میں حکمران رہے، جو قدیم مصر کا سب سے خوشحال زمانہ سمجھا جاتا ہے۔یہ فرعون، جن کی ممی قاہرہ کے ایک عجائب گھر میں نمائش کیلئے رکھی ہوئی ہے کا دور امن، خوشحالی اور شان و شوکت کیلئے مشہور تھا۔ ڈاکٹر ہیبِچٹ (Habicht)کے مطابق غیر ملکی حکمرانوں کی سفارتی تحریروں میں ان سے تحفے کے طور پر سونا بھیجنے کی درخواستیں کی جاتی تھیں، یہاں تک کہ کہا جاتا تھا کہ مصر میں سونا ریت کی طرح وافر ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ اس قسم کے خطوط میں عام مبالغہ آرائی ہوتی ہے، لیکن اس کے باوجود یہ بے پناہ دولت کی طرف اشارہ ضرور کرتی ہے۔ماہر تعلیم کے مطابق، یہ فرعون کسی حد تک عورتوں میں دلچسپی رکھنے والا بھی تھا، جس نے سیکڑوں غیر ملکی خواتین کو اپنے حرم میں شامل کرنے کیلئے مصر منگوایا۔انہوں نے کہاکہ بظاہر وہ خواتین میں بہت دلچسپی رکھتا تھا، اس نے سینکڑوں غیر ملکی خواتین اپنے گر دجمع کیں، بالکل اسی طرح جیسے بعض لوگ ڈاک ٹکٹ جمع کرتے ہیں۔امنحوتپ سوم کا دورِ حکومت عظیم تعمیرات کیلئے بھی جانا جاتا ہے، جن میں ان کا مندر بھی شامل ہے۔ جہاں میمنون کے عظیم مجسمے واقع ہیں۔اس کے علاوہ نوبیا میں واقع سولیب کا مندر بھی ان کی تعمیری عظمت کی ایک نمایاں مثال ہے۔خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی وفات 40 سے 50 برس کی عمر کے درمیان ہوئی، اور وہ اپنے جانشین (بیٹے امنحوتپ چہارم ) کیلئے ایک ایسی سلطنت چھوڑ گئے جو طاقت اور دولت کے عروج پر تھی۔

WORLD MEDITATION DAY:ذہنی دبائو کے دور میں مراقبہ کی اہمیت

WORLD MEDITATION DAY:ذہنی دبائو کے دور میں مراقبہ کی اہمیت

دنیا بھر میں آج ''مراقبہ کا عالمی دن‘‘ منایا جا رہا ہےہر سال 21 دسمبر کو دنیا بھر میں مراقبہ کاعالمی دن (world Meditation Day) منایا جاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جانب سے اس دن کے منانے کا مقصد انسانوں کو ذہنی سکون، باطنی توازن، روحانی ہم آہنگی اور پرامن طرزِ زندگی کی طرف راغب کرنا ہے۔ موجودہ دور میں جہاں مادّی ترقی نے زندگی کو تیز رفتار بنا دیا ہے، وہیں ذہنی دباؤ، بے چینی، اضطراب اور نفسیاتی مسائل میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ ایسے میں مراقبہ ایک ایسا مؤثر ذریعہ بن کر ابھرا ہے جو انسان کو خود سے جوڑتا اور اندرونی سکون عطا کرتا ہے۔مراقبہ دراصل توجہ، یکسوئی اور شعوری آگہی کی ایک قدیم مشق ہے جس کی جڑیں مختلف تہذیبوں اور مذاہب میں ملتی ہیں۔ بدھ مت، ہندو مت، تصوف، یوگا اور دیگر روحانی روایات میں مراقبہ کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ اگرچہ اس کی شکلیں اور طریقے مختلف ہو سکتے ہیں، لیکن مقصد ایک ہی ہے، ذہن کو پرسکون کرنا، خیالات کی بے ترتیبی کو کم کرنا اور انسان کو حال سے جوڑنا۔اقوامِ متحدہ نے عالمی مراقبہ دن کے اعلان کے ذریعے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ ذہنی صحت، عالمی امن اور سماجی ہم آہنگی ایک دوسرے سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ جب فرد ذہنی طور پر پرسکون اور متوازن ہو تو وہ نہ صرف بہتر فیصلے کرتا ہے بلکہ معاشرے میں برداشت، رواداری اور باہمی احترام کو بھی فروغ دیتا ہے۔ اسی لیے مراقبہ کو صرف ایک ذاتی مشق نہیں بلکہ ایک اجتماعی فلاح کا ذریعہ بھی سمجھا جاتا ہے۔سائنسی تحقیق بھی مراقبہ کے فوائد کی تصدیق کرتی ہے۔ ماہرین کے مطابق باقاعدہ مراقبہ ذہنی دباؤ کو کم کرتا ہے، یادداشت اور توجہ میں اضافہ کرتا ہے، نیند کو بہتر بناتا ہے اور ڈپریشن و اینگزائٹی جیسے مسائل میں نمایاں کمی لاتا ہے۔ اس کے علاوہ مراقبہ دل کی صحت، بلڈ پریشر کے اعتدال اور قوتِ مدافعت میں بہتری کا سبب بھی بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر کے تعلیمی اداروں، دفاتر، ہسپتالوں حتیٰ کہ فوجی تربیتی مراکز میں بھی مراقبہ کو اپنایا جا رہا ہے۔عالمی مراقبہ دن کے موقع پر مختلف ممالک میں سیمینارز، ورکشاپس، اجتماعی مراقبہ نشستیں اور آگاہی پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔ ان تقریبات کا مقصد لوگوں کو مراقبہ کے سادہ طریقوں سے متعارف کروانا اور انہیں روزمرہ زندگی میں شامل کرنے کی ترغیب دینا ہوتا ہے۔ یہ دن اس بات کی یاد دہانی بھی ہے کہ حقیقی خوشی اور سکون بیرونی وسائل میں نہیں بلکہ انسان کے اندر پوشیدہ ہوتا ہے۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں عالمی مراقبہ دن کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے، جہاں معاشی دباؤ، سماجی مسائل اور عدمِ استحکام نے عوام کو ذہنی طور پر تھکا دیا ہے۔ اگر تعلیمی نصاب، دفتری ماحول اور معاشرتی سطح پر مراقبہ جیسی مثبت عادات کو فروغ دیا جائے تو نہ صرف انفرادی سطح پر بہتری آئے گی بلکہ مجموعی قومی مزاج بھی اعتدال اور برداشت کی طرف مائل ہو گا۔ تصوف اور روحانیت کی ہماری مقامی روایات بھی مراقبہ اور ذکر و فکر کی اہمیت پر زور دیتی ہیں، جو ہمارے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہیں۔عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے تنازعات، جنگوں اور نفرت انگیز رویّوں کے تناظر میں مراقبہ کا پیغام مزید اہم ہو جاتا ہے۔ جب افراد اپنے اندر امن پیدا کرتے ہیں تو وہ دوسروں کے ساتھ بھی امن کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ اسی سوچ کو فروغ دینا چاہتی ہے کہ عالمی امن کا آغاز فرد کے دل و دماغ سے ہوتا ہے۔آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ عالمی مراقبہ دن محض ایک علامتی دن نہیں بلکہ ایک فکری دعوت ہے۔ یہ دعوت ہے رک کر خود کو سننے کی، اپنی سانسوں کو محسوس کرنے کی اور زندگی کی دوڑ میں اپنے باطن کو نظرانداز نہ کرنے کی۔ اگر ہم روزانہ چند منٹ بھی مراقبہ کیلئے وقف کر لیں تو ہماری زندگی میں سکون، توازن اور مثبت تبدیلی آ سکتی ہے۔ ایک پرسکون فرد ہی ایک پرامن معاشرے کی بنیاد رکھ سکتا ہے اور یہی عالمی مراقبہ دن کا اصل پیغام ہے۔

آج تم یاد بے حساب آئے!بلقیس خانم:راگوں کی ملکہ (1948-2022ء)

آج تم یاد بے حساب آئے!بلقیس خانم:راگوں کی ملکہ (1948-2022ء)

٭... 25 دسمبر 1948ء کو لاہور کے ایک نیم متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ٭...وہ پانچ بہنوں، دو بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں۔٭... کلاسیکی موسیقی میں ان کے استاد محمد شریف تھے۔٭...1964ء میں ریڈیو پاکستان کا رخ کیا، ابتدا میں کورس میں گایا۔٭...سولو پرفارمنس کا آغاز ناصر کاظمی کی غزل ''تیری زلفوں کے بکھرنے کا سبب ہے کوئی‘‘ سے کیا۔پی ٹی وی پر پنجابی گیت سے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ ٭...65ء کی جنگ میں کئی ملی نغمے گائے۔٭...فلم انڈسٹری میں آمد موسیقار خلیل احمد کی وجہ سے ہوئی ، جن کی فلم ''تصویر‘‘ کیلئے اْنھوں نے گانا ''بلما اناڑی‘‘ ریکارڈ کروایا، جو سینسر کی نظر ہو گیا۔٭...موسیقار خواجہ خورشید انور، نثار بزمی اور نوشاد صاحب کے ساتھ بھی کام کیا۔٭...70ء کی دہائی میں کراچی شفٹ ہو گئیں۔جہاں جلد ہی پی ٹی وی سے جڑ گئیں، مشہور زمانہ گیت ''انوکھا لاڈلہ‘‘ وہیں ریکارڈ کروایا۔ پروڈیوسر امیر امام کے پروگرام ''سرگم‘‘ میں یہ گیت پہلی بار پیش کیا گیا۔٭... 1980ء میں ستار نواز استاد رئیس خان سے شادی کے بعد بھارت چلی گئیں۔٭...1986ء میں خاندان کے ساتھ پاکستان واپس آئیں اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔٭...معروف موسیقار محسن رضا ان کے بھی ہیں۔٭... 21دسمبر2022ء کو ان کا انتقال ہوا۔مقبول غزلیں٭...وہ تو خوشبو ہے، ہواؤں میں بکھر جائے گا(پروین شاکر)٭...کچھ دن تو بسو میری آنکھوں میں( عبید اللہ علیم)٭...مت سمجھو ہم نے بھلا دیا٭...انوکھا لاڈلہ

آج کا دن

آج کا دن

پہلا باسکٹ بال میچ 21 دسمبر 1891ء کو امریکی ماہرِ تعلیم جیمز نائس سمتھ نے باسکٹ بال کے کھیل کا پہلا باضابطہ میچ منعقد کروایا۔ نائس سمتھ نے یہ کھیل سردیوں میں طلبہ کو جسمانی طور پر متحرک رکھنے کیلئے ایجاد کیا تھا۔ ابتدا میں کھیل میں فٹ بال استعمال ہوتا تھا۔ وقت کے ساتھ قواعد میں تبدیلیاں آئیں اور آج یہ دنیا کے مقبول ترین کھیلوں میں شامل ہو چکا ہے۔اپالو 8 خلائی مشناپالو 8 ناسا کا تاریخی اور انقلابی خلائی مشن تھا جو 21 دسمبر 1968ء کو لانچ کیا گیا۔ یہ پہلا انسانی خلائی مشن تھا جس نے زمین کے مدار سے باہر نکل کر چاند کے گرد گردش کی اور اس دوران زمین کے طلوع ہونے والی مشہور تصویر ''ارتھ رائز‘‘ لی گئی۔ اپالو 8 کی کامیابی نے بعد میں اپالو 11 کے ذریعے انسان کے چاند پر قدم رکھنے کی راہ ہموار کی اور خلائی تحقیق کی تاریخ میں ایک سنہری باب رقم کیا۔ سانتا ماریا قتل عامچلی کی فوج نے 21 دسمبر1907ء کو کان کنوں کا قتل عام کیا۔رپورٹس کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد 2ہزار سے بھی زیادہ تھی۔قتل عام کا مقام ڈمنگو سانتا ماریا سکول تھا جہاں دوردراز علاقوں سے آئے ہزاروں کان کن ایک ہفتے سے ٹھہرے ہوئے تھے۔اس قتل عام کے نتیجے میں نہ صرف ہڑتال ٹوٹ گئی بلکہ مزدوروں کی تحریک ایک دہائی سے زائد عرصے تک معطل رہی۔پین ایم فلائٹ103حادثہ21دسمبر1988ء کو فرینکفرٹ سے نیویارک جانے والی پرواز ''پین ایم فلائٹ 103‘‘ میں اس وقت بم دھماکہ ہوا جب جہاز سکاٹ لینڈ کے اوپر سے گزر رہا تھا۔ جہاز میں سوار 243مسافر اور عملے کے 16 افرادسمیت 11افراد زمین پر بھی ہلاک ہوئے۔کل 270ہلاکتوں کے ساتھ یہ اُس وقت برطانیہ کا سب سے مہلک دہشت گردحملہ تھا۔نیپال ،برطانیہ معاہدہنیپال اور برطانیہ کے درمیان پہلے معاہدے پر دستخط21دسمبر1923ء کو سنگھار دربار میں کئے گئے۔یہ معاہدہ برطانیہ کا پہلا باضابطہ اعتراف تھا کہ نیپال ایک آزاد ملک کے طور پر اپنی خارجہ پالیسی کو کسی بھی طرح سے چلانے کا حق رکھتا ہے۔ اس معاہدے کو سفارتکاری کی ایک بہت بڑی کامیابی سمجھا جاتا تھا۔ معاہدہ 1925ء میں لیگ آف نیشنز میں بھی درج کیا گیا۔ اینٹونوو این225 کی پروازاینٹونوو این 225 ایک سٹریٹجک ائیرلفٹ کارگو ہوائی جہازجسے سوویت یونین میں اینٹونوو ڈیزائن بیورو نے ڈیزائن اور تیار کیا تھا۔یہ اصل میں 1980ء کی دہائی کے دوران اینٹونو و این124ائیر لفٹر کے ایک وسیع مشق کیلئے تیار کیا گیا تھا جس کا مقصد فضا میں ہونے والی نقل و حمل پر نظر رکھنا تھا۔21دسمبر1988ء کو اینٹونوواین225نے اپنی پہلی پرواز کی۔اسے دنیا کا سب سے بڑا ہوائی جہاز ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

انسانی یکجہتی کا عالمی دن! بکھرتی دنیا کو جوڑنے کی ضرورت

انسانی یکجہتی کا عالمی دن! بکھرتی دنیا کو جوڑنے کی ضرورت

دنیا جس تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہی ہے، اسی رفتار سے انسان ایک دوسرے سے دور بھی ہوتا جا رہا ہے۔ مفادات، تعصبات اور خود غرضی نے انسانی رشتوں کو کمزور کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں نفرت، بے حسی اور ناانصافی فروغ پا رہی ہے۔ ایسے پُرآشوب دور میں انسانی یکجہتی کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ انسانی یکجہتی وہ احساس ہے جو انسان کو انسان کے قریب لاتا ہے، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے کا حوصلہ دیتا ہے اور معاشرے میں امن، برداشت اور باہمی احترام کی فضا قائم کرتا ہے۔ یہی وہ قوت ہے جو بکھرتی ہوئی انسانیت کو ایک مضبوط رشتے میں پرو سکتی ہے اور دنیا کو ایک بہتر اور محفوظ مقام بنا سکتی ہے۔انسانی یکجہتی کا مطلب یہ ہے کہ انسان ایک دوسرے کے دکھ درد کو محسوس کرے، مشکلات میں ساتھ دے اور اپنے مفادات سے بالاتر ہو کر اجتماعی بھلائی کیلئے کام کرے۔ یہ تصور ہمیں سکھاتا ہے کہ دنیا میں امن، ترقی اور خوشحالی اسی وقت ممکن ہے جب مضبوط افراد کمزوروںکا سہارا بنیں اور خوشحال اقوام پسماندہ معاشروں کیلئے تعاون کا ہاتھ بڑھائیں۔انسانی یکجہتی کا عالمی دن ہر سال 20 دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد دنیا بھر کے انسانوں میں باہمی ہمدردی، تعاون، مساوات اور مشترکہ ذمہ داری کے شعور کو فروغ دینا ہے۔ یہ دن دسمبر 2002ء سے منایا جا رہا ہے، جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عالمی یکجہتی فنڈ قائم کیا۔ یہ فنڈ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کو فنڈ دینے کیلئے فروری 2003ء میں قائم کیا گیا تھا ، جس نے غربت کے خاتمے کیلئے کام کیا۔ 22 دسمبر 2005ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عالمی یکجہتی کے طور پر یکجہتی کی نشاندہی کی۔اقوام متحدہ کے اعلامیے کے مطابق یکجہتی ان بنیادی اقدار میں سے ایک ہے جو صحت مند بین الاقوامی تعلقات کیلئے ضروری ہے۔ اس طرح، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس کی یقین دہانی کرائی کہ غربت کا مقابلہ کرنے کیلئے یکجہتی کی ثقافت اور مشترکہ جذبے کو فروغ دینا ضروری ہے ۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ عالمی یوم یکجہتی ایک ایسا دن ہے جو حکومتوں کو بین الاقوامی معاہدوں کو یاد دلا نے اور ان کا احترام کرنے کی حوصلہ افزائی کراتا ہے۔ انسانی یکجہتی کا عالمی دن ایک ایسا دن ہے جو غربت کے خاتمے اور دنیا کے مختلف ممالک میں رہنے والی عوام کے درپیش مسائل کا مل کر مقابلہ کے اور ان مسائل کیخلاف اقدامات اٹھانے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔آج کی دنیا جنگوں، غربت، بھوک، ماحولیاتی تبدیلی، مہاجرین کے بحران اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں جیسے سنگین مسائل سے دوچار ہے۔ ایسے حالات میں انسانی یکجہتی کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ عالمی وبائیں ہوں یا قدرتی آفات، یہ حقیقت بارہا ثابت ہو چکی ہے کہ اگر قومیں مل کر کام کریں تو بڑے سے بڑا بحران بھی قابو میں لایا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوامِ متحدہ نے اس دن کو عالمی سطح پر منانے کا اعلان کیا تاکہ دنیا بھر میں تعاون اور اشتراکِ عمل کو فروغ دیا جا سکے۔دنیا کی تمام اقوام و مذاہب میں سب سے پہلے یکجہتی کا درس دین اسلام نے دیا ہے ۔اسلام انسانی یکجہتی کا سب سے مضبوط درس دیتا ہے۔ قرآن و سنت میں بارہا انسانوں کے درمیان بھائی چارے، عدل، ہمدردی اور ایک دوسرے کی مدد پر زور دیا گیا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ''تمام انسان ایک جسم کی مانند ہیں، اگر جسم کا ایک حصہ تکلیف میں ہو تو سارا جسم بے چین ہو جاتا ہے‘‘۔ یہ تعلیمات ہمیں عملی طور پر انسانی یکجہتی اپنانے کی ترغیب دیتی ہیں۔پاکستانی معاشرہ فطری طور پر ہمدردی اور ایثار کی مثالوں سے بھرا ہوا ہے۔ قدرتی آفات، سیلاب، زلزلے یا کسی قومی سانحے کے موقع پر عوام کا ایک دوسرے کیلئے کھڑا ہونا انسانی یکجہتی کی بہترین مثال ہے۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ جذبہ صرف ہنگامی حالات تک محدود نہ رہے بلکہ روزمرہ زندگی میں بھی انصاف، برداشت اور تعاون کی صورت میں نظر آئے۔انسانی یکجہتی کا عالمی دن محض ایک علامتی دن نہیں بلکہ ایک فکری پیغام ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر دنیا کو پرامن، محفوظ اور خوشحال بنانا ہے تو ہمیں ایک دوسرے کیلئے جینا سیکھنا ہوگا۔ جب تک انسان انسان کا درد نہیں سمجھے گا، ترقی کے تمام دعوے کھوکھلے رہیں گے۔ حقیقی کامیابی اسی میں ہے کہ ہم اختلافات کے باوجود متحد رہیں اور ایک بہتر عالمی معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں۔ اسلام نے بلا تفریق مذہب وملت انسانی برادری کا وہ نقشہ کھینچا ہے جس پر سچائی سے عمل کیا جائے تو شر و فساد ،ظلم و جبر اور بے پناہ انارکی سے بھری دنیاجنت کا منظر پیش کرنے لگے۔ محض انسانیت کی بنیاد پر تعلق و محبت کی جو مثال اسلام نے قائم کی ہے د نیا کی کسی تعلیم،کسی مذہب اور کسی مفکر کی وہاں تک رسائی نہیں۔ نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ''ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، حسد نہ کرو،ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو،سب مل کر خدا کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن جائواور صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ ایک دوسرے کو دھوکہ نہ دو۔ ایک دوسری جگہ ارشاد ہے ''جورحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ تم زمین والوں پہ رحم کرو تم پر آسمان والا رحم کریگا‘‘انسانی یکجہتی کو فروغ دینے کیلئے عملی تقاضےانسانی یکجہتی کو فروغ دینے کیلئے ضروری ہے کہ:٭...غربت اور ناانصافی کے خاتمے کیلئے مشترکہ کوششیں کی جائیں۔٭...تعلیم اور صحت کو ہر انسان کا بنیادی حق تسلیم کیا جائے۔٭...نفرت، تعصب اور انتہا پسندی کے خلاف اجتماعی شعور اجاگر کیا جائے۔٭...انسان دوستی اور خدمت خلق کو قومی و سماجی اقدار کا حصہ بنایا جائے۔  

آج تم یاد بے حساب آئے ! فخری احمد:ایک ورسٹائل اداکار (1948-1995ء)

آج تم یاد بے حساب آئے ! فخری احمد:ایک ورسٹائل اداکار (1948-1995ء)

٭... یکم جنوری 1948ء کو وادی ہنزہ میں پیدا ہوئے، گوجرانوالہ میں پلے بڑھے،اصل نام فخر الدین حیدر راٹھورتھا۔٭...گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ سے ایف اے کرنے کے بعد ٹی اینڈ ٹی میں ملازم ہوئے۔ اداکاری کے میدان میں داخل ہونے سے قبل پہلوانی بھی کی۔٭... فنی کریئر کا آغاز تھیڑ سے کیا اور بعدازاں انہوں نے ریڈیو، ٹی وی اور فلم میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ہر قسم کے کردار کو بخوبی نبھایا تاہم ہیجڑے، بوڑھے اور مجذوب شخص کے کرداروں پر انہیں دسترس تھی۔ ٭... کریئرکے پہلے ٹی وی ڈرامہ ''آپ بیتی‘‘ میں عبدالشکور کریک کا کردار نبھایا اور ''پاکستانی کوجک‘‘ کے طور پر مشہور ہوئے۔دوسرا کھیل ''لازوال‘‘ بھی بہت مقبول ہوا، جس میں ان کا ڈائیلاگ''میں کھویا کھائوںگا‘‘ زبان زدعام ہوا۔٭...ان کے شہرہ آفاق ڈرامہ ''بشیرا ان ٹربل‘‘کوپاکستان کے پہلے سپرہٹ کمرشل ڈرامہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ دیگر مشہور ٹی وی ڈراموں میں ''شب دیگ‘‘، ''سونا چاندی‘‘، ''ریزہ‘‘ اور'' ایندھن‘‘ شامل تھے۔٭...فخری احمد نے فلموں میں بھی لازوال اداکاری کی۔ وہ تقریباً ڈیڑھ سو سے زائد فلموں میں بطور کریکٹر ایکٹر اور ولن جلوہ ہوئے۔ یاد گار فلموں میں '' مس قلو پطرہ‘‘،'' مہربانی‘‘ اور ''شکرا‘‘شامل ہیں۔ ٭...اپنے کریئر میں سب سے زیادہ تھیڑ میں خدمات پیش کیں، ان کے کریڈٹ میں پانچ سو کے قریب ڈرامے ہیں۔ جن میں ''کتکتاڑیاں، سلوک سوکناں دا، تماشا ہائوس، گھر گھر بشیرا، بول نی گڈو، نہ چھیڑ ملنگا نوں، گنجے فرشتے، سسرال چلو، چاندنی راتیں، منڈا آیا سسرال، منڈا پٹواری دا، منڈا آیا ولائتوں، ٹبر ویلیاں دا، ساڈی وی سنو، کمبل نہیں چھڈدا‘‘ شامل ہیں۔٭...انہیں ان کے جونیئر اور سینئر ''تایا‘‘ کہا کرتے تھے اور یوں وہ لاہور کے ثقافتی حلقوں میں تایا فخری احمد کے نام سے مشہور ہوئے۔٭... 20دسمبر 1995ء کو تماثیل تھیڑ میں ڈرامہ ''جنم جنم کی میلی چادر‘‘ میں پرفارم کرتے ہوئے انہیں دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا اور وہ عالم جاودانی کو سدھار گئے۔