ازدواجی زندگی کو خوشگوار کیسے بنایا جائے ؟

ازدواجی زندگی کو خوشگوار کیسے بنایا جائے ؟

اسپیشل فیچر

تحریر : غلام حقانی


مرد وعورت اپنا کردار خوش اسلوبی سے نبھائیں تو ازدواجی زندگی باغ وبہار بن جاتی ہےتفریح طبع سے خاندان میں خوشگواری پیدا ہوتی ہے وقتاً فوقتاً مرد کو اس بات کا بھی خیال رکھنا اور اپنی استطاعت کے مطابق اہتمام کرنا چاہیےاپنی بیویوں کی ذات سے سکون میسر آنے کے باوجود جو مرد ان کے ساتھ محبت بھرا، پیار بھرا اور ہمدردانہ برتاؤ نہیں کرتے، کیا وہ اپنے مقصد حیات کو تار تار کرکے نہیں رکھ دیتے؟اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی منشاء سے واقف کروانے اور اپنی منشاء کے مطابق انسان سے عمل کروانے کیلئے ابتدائے آفرینش ہی سے ’’ہدایت‘‘ کا اہتمام فرمایا ہے اور اس مقصد کیلئے ہر زمانے اور ہر قوم میں انبیاء ورسل بھی بھیجے اور ان پر اپنے احکام پر مبنی صحیفے اور کتب بھی نازل فرمائیں۔ ہمارا زمانہ آخری زمانہ ہے۔ اسی لیے ہمارے لیے آخری نبی اور رسول خاتم النبیین اور خاتم المرسلین سیدنا محمد مصطفیﷺ کو مبعوث فرمایا اور ان پر خاتم الکتب قرآن مجید کو نازل فرمایا۔ اگر اس دور کے انسان کو اپنی تخلیق کا مقصد جاننا ہو، اس ارادے کے ساتھ کہ وہ اپنی تخلیق کے مقصد یا اپنے مقصدِ حیات کو ہر حال میں پورا کرے گا تو قرآن مجید اس کے لیے بہترین رہبر، بہترین ہدایت نامہ اور اس کے سفر زندگی کو پوری طرح روشن اور واضح کرنے والی کتاب ثابت ہوگی۔قرآن مجید ایک ایسی شاندار کتاب ہے جس میں دنیاوآخرت کے ہر پہلو کو پوری طرح سے اجاگر اور واضح کردیاگیا ہے۔ ضرورت غوروفکر اور تدبر کی ہے۔ قرآن مجید کے مضامین میں غوروفکر اور تدبر کرنے سے انسان کو اپنے مقصد حیات کے بارے میں سب کچھ معلوم ہوجائے گا۔ مثال کے طور پر شوہر اور بیوی کے تعلقات پر مبنی حسب ذیل آیات: سورۃ النساء کی آیت نمبر 34 میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’مرد عورتوں پر قوام ہیں اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں‘‘۔اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات بنائی اور سجائی انسان کیلئے اور خود انسان کو بنایا اپنے لیے، لیکن انسان کی پیدائش اور دنیا بسانے کا ذریعہ خود انسان ہی کو بنایا جیسا کہ سورۃ النساء کی پہلی ہی آیت میں واضح فرما دیاگیا ہے: ’’لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اْسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد وعورت دنیا میں پھیلا دیے‘‘۔یوں دنیا میں ہر رشتے سے پہلے شوہر اور بیوی کا رشتہ وجود میں آیا۔ اسی لیے یہ رشتہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ شوہر اور بیوی دراصل ایک دوسرے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ احسن الخالقین نے ازدواجی زندگی کا ایک بے حد خوبصورت اور مضبوط ڈھانچا بنایا ہوا ہے جس کے مطابق ازدواجی زندگی میں مرد وعورت دونوں کا اپنا مقام ہے۔ دونوں کی اپنی اپنی ذمے داری اوردونوں کا اپنا اپنا کردار ہے۔ جب مرد وعورت اپنی اپنی ذمے داری اپنا اپنا کردار خوش اسلوبی کے ساتھ نبھاتے ہیں تو ازدواجی زندگی نہایت خوشگوار بلکہ باغ وبہار بن جاتی ہے۔ کیوں کہ دونوں ہی اپنے اپنے مقصد حیات کو پورا کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اگر دونوں یا دونوں میں سے کوئی اپنی ذمے داری نہ نبھائے تو وہ اپنے مقصد حیات کی خلاف ورزی کر رہا ہوتا ہے، جس کا لازمی نتیجہ دو طرح کی تباہی ہے۔ دنیوی بھی اور اخروی بھی۔ اسی لیے یہ جاننا بے حد ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شوہر اور بیوی کے لیے کس کس طرح کا کردار پسند فرمایا ہے اور دونوں کو کیا کیا ذمے داریاں سونپی ہیں۔سورۃ النساء کی آیت نمبر34 میں اللہ تعالیٰ نے شوہروں کے کردار اور ذمے داریوں کو صرف ایک لفظ ’’قوام‘‘ میں سمو دیا ہے۔ شوہر ’’قوام‘‘ ہونے کے ناتے اپنے خاندان کے معاملات کو، جس کا اہم ترین حصہ بیوی ہوتی ہے، درست حالت میں چلانے، خاندان کی حفاظت ونگہبانی کرنے اور خاندان کی ساری ضرورتیں پوری کرنے کا ذمے دار ہوتا ہے۔ مرد کا عورتوں پر قوام ہونا ایک فطری عمل ہے۔ اسی لیے دنیا کے صرف مہذب طبقوں ہی میں نہیں بلکہ جاہل اور جنگلی طبقوں میں بھی مرد ہی کو ہمیشہ قوام کا درجہ ملا ہے۔ نئی تہذیب کے بگڑے ہوئے لوگ اور بعض غیر اہم قبائل اس سے مستثنیٰ ہوسکتے ہیں۔نبوت کا تیرہواں سال تھا۔ ہمارے آقا محمد مصطفی ﷺ ابھی مکہ مکرمہ ہی میں تھے۔ حج کے موقع پر سترہ سے زیادہ افراد کا وفد مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ آیا اور انھوں نے اصرار کیا کہ آپ ﷺمدینہ ہجرت فرمائیں۔ اس ضمن میں اس وفد سے چند اہم امور پر بیعت لی گئی۔ اس بیعت کی آخری دفعہ کے تعلق سے سرورِ عالمﷺنے فرمایا: ’’میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم اس چیز سے میری حفاظت کروگے جس سے اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہو‘‘۔ اس پر حضرت براءؓ بن معرور نے آپ ﷺ کا ہاتھ پکڑا اور کہا: ’’ہاں، اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو نبی برحق بناکر بھیجا ہے ہم یقینا اس چیز سے آپ ﷺ کی حفاظت کریں گے جس سے اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہیں‘‘۔یہاں تو جہ طلب بات یہ ہے کہ مدینہ منورہ کے باشندوں کو جو نئے نئے اسلام کی آغوش میں چلے آئے تھے، یہ بات پہلے ہی سے معلوم تھی کہ مرد اپنی بیوی بچوں کی جان، مال اور ناموس کی حفاظت کے ذمے دار ہوتے ہیں، کسی مذہبی قانون کی بنا پر نہیں بلکہ بالکل فطری طور پر۔ اس ذمے داری کے علاوہ مرد پر، ’’قوام‘‘ ہونے کی حیثیت سے اور بھی ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:(1)گرمی، سردی، بارش اور موسمی اثرات، چوروں، غنڈوں سے حفاظت کیلئے اور اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتے ہوئے سکون واطمینان حاصل کرنے کیلئے اپنی استطاعت کے مطابق وہ ایک مکان فراہم کرے۔(2)اپنی استطاعت کے مطابق کھانے پینے کا بندوبست کرے۔ اکثر یہ ذمے داری دو حصوں میں بانٹی جاتی ہے، کھانے پینے کا سامان فراہم کرنے کی ذمے داری مرد پر اور پکوان کی ذمے داری عورت پر۔(3)اپنی استطاعت کے مطابق بیوی بچوں کے لئے لباس کا بندو بست کرے۔ لباس کا بندوبست کرتے ہوئے نہ مرد بخل سے کام لے اور نہ عورت مرد کی استطاعت سے بڑھ کر فرمائش کرے۔(4)بیماریوں سے بچنے کیلئے جو بھی احتیاطی تدابیر ممکن ہوں، اختیار کرے۔ بیوی بچوں میں سے کوئی بھی بیمار پڑجائے تو علاج معالجے میں کسی طرح کی بے پروائی نہ برتے۔(5) مرد وعورت سماج کا حصہ ہوتے ہیں۔ اسی لیے وہ اپنی بیوی بچوں کو، حسب استطاعت، اس حال میں رکھے کہ انھیں سماج میں شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔(6) تفریح طبع سے خاندان میں خوشگواری پیدا ہوتی ہے۔ وقتاً فوقتاً مرد کو اس بات کا بھی خیال رکھنا اور اپنی استطاعت کے مطابق اہتمام کرنا چاہیے۔(7)بچوں کی تعلیم وتربیت مرد وعورت دونوں کی ذمے داری ہے لیکن تعلیم کے سارے اخراجات کی ذمے داری مرد پر ہوگی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہر وہ ذمے داری جس میں مال خرچ کیا جاتا ہے یہ فرماکر مرد کو سونپ دی کہ ’’اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں‘‘۔ اگر کوئی مرد استطاعت کے باوجود جان بوجھ کر اپنے اس منصب ’’قوام‘‘ کو نہ نبھائے تو وہ اسلامی آئین، اسلامی قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب اوراللہ تعالیٰ کی ناراضی کا مستحق ہوجاتا ہے اور اخلاقی اعتبار سے انسانیت سے خارج بھی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مرد کو خاندان میں ’’قوام‘‘ کا منصب عطا فرمایا اور خاندان کی دیکھ بھال کی ساری ذمے داری اْس کو سونپ دی۔ اسی لیے خاندانی امور کو خوش اسلوبی کے ساتھ چلانے کے لیے مرد کا حکم مانا جائے گا۔ اپنا فرض یا ڈیوٹی نبھانے کے لیے، محکومیت کے طور پر نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کے فرائض کی ادائی کے تعلق سے بھی سورۃ النساء کی اس آیت میں اپنی منشاء اور مرضی کو یوں ظاہر فرمایا ہے:’’پس صالح عورتیں فرماں بردار ہوتی ہیں اور مردوں کے غیاب میں، اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور نگرانی میں اْن کے (شوہروں کے) حقوق کی حفاظت کرتی ہیں‘‘۔یہاں قرآن حکیم کایہ اعجاز توجہ طلب ہے کہ عورتوں کو براہ راست یہ حکم نہیں دیاگیا کہ شوہروں کی فرماں برداری کریں، شوہروں کی اطاعت شعار بن کر رہیں بلکہ یہی بات عورتوں تک پہنچانے کیلئے ایک انتہائی موثرکن اسلوب اختیار کیاگیا، وہ یہ کہ اگر عورتیں صالحات ہوں گی تو یقینا اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ، ربوبیت ،الوہیت اور اللہ تعالیٰ کی ہمہ گیر حاکمیت ان کے دلوں میں جاگزیں ہوگی۔ اللہ کے رسولوں ، اللہ کی کتابوں، اللہ کے فرشتوں، یوم آخرت، دوزخ اور جنت کے تعلق سے ان کاایمان مستحکم ہوگا اوراسی بنا پر وہ اپنی زندگی کے ہر ہر شعبے میں اللہ تعالیٰ کے احکام کو بجا لانے میں کسی بھی قسم کی بے پروائی او رغفلت کو بالکل بھی جگہ نہیں دیں گی۔ بلکہ ہر دم اور ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کی منشاء اور مرضی ہی کو مقدم رکھتی ہوں گی تو ایسی عورتوں کیلئے یہ سمجھ لینا بالکل بھی دشوار نہیں ہوگا کہ شوہر کی فرماں برداری ، شوہر کی اطاعت شعاری بھی اللہ تعالیٰ کی منشاء و مرضی ہی میں شامل ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی اطاعت گزاری سے ایمان کی لذت ، سکون واطمینان کی دولت اور دنیا وآخرت کی کامیابی نصیب ہوتی ہے، اُسی طرح اللہ تعالیٰ کی منشاء اور مرضی کو پورا کرنے کیلئے شرعی حدود کے اندر، اندر شوہر کی اطاعت و فرماں برداری سے بھی ایمان کی لذت، سکون و اطمینان کی دولت اور دنیا وآخرت کی کامیابی نصیب ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ فرماں بردار ی کسی کو حاکم اور کسی کو محکوم کا درجہ دینے کیلئے نہیں بلکہ خاندانی امور کو خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دینے کیلئے ہے اور ایک صحت مند خاندان ، صحت مند سماج کا ضامن ہوتا ہے۔یہ قرآن حکیم کا اعجاز ہے کہ سورۃ النساء کی آیت نمبر34کے صرف چند الفاظ کے ذریعے شوہر اور بیوی کے رشتے کے تعلق سے سارے رہنما نہ خطوط ، شوہر اور بیوی کے رشتے کے سارے مقتضیات اولوالالباب یا عقل مندوں کیلئے روز روشن کی طرح واضح کردیے گئے، جن پر عمل پیرا ہونا انتہائی خوش نصیبی اور دنیوی زندگی کو جنت نشان بنانے کیلئے کافی ہے اور آخرت میں جنت کے حصول کا ذریعہ بھی۔ اور اگر شوہر یا بیوی یا دونوں ہی اس آیت مبارکہ میں دیے ہوئے رہنمایانہ خطوط کو یکسر نظرانداز کردیتے ہیں، شوہر اور بیوی کے رشتے کے مقتضیات پر بالکل بھی عمل پیرا نہیں ہوتے تو وہ حقیقت میں اللہ عزوجل کی ’’عبادت‘‘ سے منھ موڑ رہے ہوتے ہیں، بلکہ انجانے میں شیطان کی ’’عبادت‘‘ کر رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح اپنے مقصدِ حیات کو اپنے ہی ہاتھوں پامال کرتے ہوئے اپنے آپ کو انسانیت کے دائرے اور اولوالالباب یا عقلمندوں کی فہرست سے خارج کر رہے ہوتے ہیں۔(2)خالق کائنات نے شوہر اور بیوی کے رشتے کی جاذبیت اور ایک دوسرے کی جانب فطری میلان، فطری جھکاؤ اور ایک دوسرے کے لیے فطری ہمدردی کے راز پر سے سورۃ الروم کی آیت نمبر21 میں اس طرح پردہ اٹھایا ہے اور اس کو اپنی نشانی کا درجہ عطا فرمایا ہے:’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی‘‘۔ انسان کی تخلیق کے موقع پر ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بات عورت کی فطرت میں رکھ دی کہ اس کی ذات سے مرد یعنی شوہر کو سکون و اطمینان حاصل ہو اور اسی طرح تخلیق ہی کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے مرد وعورت دونوں ہی کے درمیان محبت بھی رکھ دی ، رحمت وہمدردی اورلگائو کے جذبات بھی رکھ دیے۔ حتیٰ کہ کوئی بھی کسی دوسرے کی ذرا سی پریشانی سے خود بھی بے چین اور پریشان ہوجائے۔ اور یہ انسان کے لیے اتنی بڑی نعمتیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی نشانیوں میں شمار فرمایا۔ اگر مرد وعورت ازدواجی زندگی کے ان فطری قواعد کے مطابق اپنی زندگی گزارتے ہیں تو وہ اپنے مقصدِ حیات کی تکمیل کر رہے ہوتے ہیں جس کے باعث ان کی زندگی باغ وبہار بنی رہتی ہے۔ لیکن اس کے برخلاف اگر عورت مرد کے ساتھ کچھ ایسا برتائو اپناتی ہے کہ مرد کو عورت کی ذات سے سکون و اطمینان حاصل ہونے کی بجائے کوفت، جھنجھلاہٹ، تلخی اور کڑواہٹ سے دوچار ہونا پڑتا ہے تو یہ اسی بات کی واضح علامت ہے کہ عورت اپنی فطرت سے روگردانی کر رہی ہے اور اپنے مقصدِ حیات کو اپنے ہی ہاتھوں پامال و تباہ کر رہی ہے۔ اسی طرح مرد و عورت دونوں ہی کے درمیان محبت، رحمت اور ہمدردی کے جذبات نہیں پائے جاتے یا بہت ہی کم پائے جاتے ہیں یا کسی میں پائے جاتے ہیں کسی میں نہیں تو یہ بھی فطرت کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے :’’ہم نے نے انسان کو بہت خوبصورت سانچے میں ڈھالا ہے یا ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے‘‘۔ (سورہ التین:4)یعنی صورت بھی بہترین عطا کی اور سیرت بھی بہترین۔ لیکن مرد وعورت یا دونوں میں سے کوئی ایک اپنی من مانی کرکے، ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے احکامات، اللہ تعالیٰ کی تعلیمات سے روگردانی کرتے ہوئے اپنے آپ کو ’’اسفل سافلین‘‘ یعنی پستی کی انتہا میں پہنچادیتے ہیں اور اپنی زندگی کو دنیا ہی میں جہنم بنادیتے ہیں۔’’وہ خواتین جو اپنے شوہروں کے سکون کا باعث بننے کی بجائے ان کا سکون غارت کرکے رکھ دیتی ہیں اور اسی وجہ سے ان کی باہمی محبت اور رحمت بھی داؤ پر لگ جاتی ہے یا وہ مرد جن کو اپنی بیویوں کی ذات میں سکون میسر آنے کے باوجود بیویوں کے ساتھ محبت بھرا، پیار بھرا اور ہمدردانہ برتاؤ نہیں کرتے، کیا وہ اپنے مقصد حیات کو تار تار کرکے نہیں رکھ دیتے؟ پھر وہ عقلمندوں یا اولوالالباب کے زمرے میں یا انسانیت کی فہرست میں کس طرح شامل رہ سکتے ہیں؟ آئے دن جہیز کیسز میں اضافہ کیا ازدواجی زندگی کو منھ نہیں چڑا رہا ہوتا؟ اسلام نے تو مرد و عورت کو وہ سب کچھ دیا جس سے زندگی میں بہار لائی جاسکتی ہے۔ لیکن مسلم مرد اور مسلم عورت نے اسلام ہی سے منھ موڑ لیا اور اپنے آپ کو طاغوتی طوفان کے حوالے کردیا۔ اسلام پر ایک بڑا دھبا، انسانیت پر ایک بدنما داغ بن کر رہ گئے۔(3)احسن الخالقین نے شوہر او ربیوی کے باہمی رشتے کی اہمیت کو سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر187 کے چند الفاظ : ’’وہ تمھارے لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو‘‘۔کے ذریعے کس خوبصورتی کے ساتھ سمجھایا ہے اس کی مثال ملنی ناممکن ہے۔مرد اپنے لباس کو اپنے لیے باعثِ زینت اور اپنی شخصیت کا نکھار سمجھتے ہیں اسی لیے اپنے لباس کی پوری پوری توجہ کے ساتھ دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ لباس دھول، داغ دھبوں سے محفوظ رہے۔ لباس کو غلطی سے بھی ہلکی کھروچ تک نہ آنے پائے۔ لباس کو پھاڑنے یا تار تار کرنے کا تو تصور تک نہیں کیاجاتا۔ بل کہ لباس کو خوشبو میں بسایاجاتا ہے۔ لباس ہی کی طرح بیوی مرد کے لیے باعث زینت اور اس کی شخصیت کا نکھار ہوتی ہے اور اسی لیے پوری توجہ کے ساتھ دیکھ بھال کی حقدار بھی۔ مرد پر لازم ہے کہ اپنے لباس ہی کی طرح اپنی بیوی کو غیر ضروری شک وشبہ یا الزام تراشی کے داغ دھبوں اور دھول سے محفوظ رکھے۔ اپنی زبان یا اپنے کسی عمل سے بیوی کے دل پر ہلکی سی کھروچ تک نہ آنے دے۔ اپنے ظلم یا اپنی زیادتیوں کے ذریعے بیوی کے دل کو تار تار کرنے کا تصور تک نہ کرے۔ عورت کو ہمیشہ اپنی محبت کی خوشبو میں بسائے رکھے تو یہ عمل مرد ہی کیلئے نشان امتیاز ہوگا اور کامیاب ازدواجی زندگی کی علامت بھی اور اگر کوئی مرد ایسانہیں کرتا تو گویا وہ اپنا لباس خود ہی گندہ میلا کر بیٹھتا ہے ، خود ہی اپنے لباس کو پھاڑ پھاڑ کر تارتار کررہا ہوتا ہے۔ کسی بھی مرد سے پوچھیے کیا وہ ایسی بدحالی کو برداشت کر پائے گا؟ لیکن کتنے ہی مرد ہیں جو ایسی بدحالی کا شکار ہوجاتے ہیں اور انھیں احساس تک نہیں ہوتا۔عورت تو اپنے لباس کو اپنے لیے کچھ زیادہ ہی باعث زینت اور اپنی شخصیت کا نکھار سمجھتی ہے۔اسی لئے کوئی بھی عور ت اپنے لباس پر مرد کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی توجہ دیتی ہے اور اپنے لباس کی دھول داغ دھبوں یا کھروچ وغیرہ سے کچھ زیادہ ہی حفاظت کرتی ہے۔ اپنے لباس کو پھاڑنے یا تارتار کرنے کا تصور ہی اس کے دل کی دنیا کو درہم برہم کرسکتا ہے۔ اگر بیوی اپنے لباس ہی کی طرح اپنے شوہر کی پوری پوری توجہ کے ساتھ دیکھ بھال کرے ، اپنی بدکلامی یا اپنی تلخ کلامی ، اپنی بدتمیزی یا بے رخی کے ذریعے مرد کے دل کو تار تار نہ کرے تو عورت ہی کی زندگی خوشگوار اور محبت کی خوشبو سے معطر ہوجائے گی۔ وہ بیوی کیسی لگتی ہوگی جو خود ہی اپنے لباس کو میلا، گندہ کردے، اپنے لباس کو پھاڑ پھاڑ ڈالے اوراس کے جسم پر بہترین زینت وزیبائش والے لباس کی جگہ چیتھڑے جھول رہے ہوں؟ کیا کوئی بھی عورت اس طرح کی بدحالی کو برداشت کرسکتی ہے ؟ لیکن کتنی ہی عورتیں ہوتی ہیں جنھیں اپنی بدحالی کی خبر ہی نہیں ہوتی۔ کیونکہ وہ حقیقت کے آئینے میں اپنے آپ کو کبھی دیکھتی ہی نہیں اور نہ انھیں کسی طرح کی شرمندگی کا احساس ہی ہوتا ہے۔ صاحبِ قرآن محمد مصطفیﷺکی زوجہ محترمہ اْم المومنین خدیجہؓ کی ازدواجی زندگی میں ہر کسی کیلئے بہترین نمو نہ ہے۔ یہ وہ نمونہ ہے جس کو صاحب عرش نے نہ صرف یہ کہ پسند فرمایا اور شرف قبولیت بخشا بلکہ اپنی پسند اور شرف قبولیت کو دنیا والوں پر ظاہر بھی فرما دیا۔صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام نبی کریمﷺ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: اے اللہ کے رسولﷺ ! یہ خدیجہؓ تشریف لارہی ہیں۔ ان کے پاس ایک برتن ہے جس میں سالن یا کھانا یا کوئی مشروب ہے۔ جب وہ آپ ﷺ کے پاس آپہنچیں تو آپ ﷺ انھیں ان کے رب کی طرف سے سلام کہیں اور جنت میں موتی کے ایک محل کی بشارت دیں جس میں نہ شور وشغب ہوگا نہ درماندگی اور تکان۔یہ درجہ اْم المومنین کو صرف اور صرف اس لیے ملا کہ تبلیغ اسلام کے سلسلے میں آپ ﷺ پر جب مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے، دل پاش پاش ہوجاتا تو آپﷺ کو اْم المومنین حضرت خدیجہ ؓ کی معیت میں سکون واطمینان ملتا، راحت ملتی، چین ملتا اور یہ ’’لِتَسکْنْوا اِلَیہَا‘‘ کی بہترین تفسیر ہوتی۔ اْم المومنین حضرت خدیجہؓ اپنے والہانہ تعلق خاطر کے ذریعے ’’مودۃ ورحمۃ‘‘ کی جیتی جاگتی تصویر بھی تھیں۔ ہر عقد کے موقع پر دعا ہوتی ہے کہ ’’اے اللہ! اس نئے شادی شدہ جوڑے کے درمیان ایسی ہی الفت رکھ دے جیسی الفت سیدنا محمد مصطفیﷺ اور حضرت خدیجہؓ کے درمیان رکھی تھی۔٭٭٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
بیش قیمت اشیائے خورونوش

بیش قیمت اشیائے خورونوش

روئے زمین پر قدرت نے جہاں انگنت مخلوقات پیدا کی ہیں، وہیں نباتات کی دنیا میں بھی کروڑوں اربوں پودے پیدا کئے ہیں۔ جیسے موجودہ سائنس ابھی تک اس روئے زمین کی مخلوق جیسے چرند، پرند، حشرات الاارض وغیرہ کے بارے ابھی بہت کم رسائی حاصل کر سکی ہے، اسی طرح ماہرین کا کہنا ہے کہ نباتات کی دنیا بھی اس قدر وسیع ہے کہ ابھی تک صحیح طور پر شاید اس کا دسواں حصہ بھی نہیں کھوجا جا سکا۔ نباتات کی دنیا کا انسان کی زندگی کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ صدیوں سے یوں ہے کہ آکسیجن کے علاوہ یہ انسان کی خوراک اور ادویات کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔ جہاں تک نباتات کی قیمت کا تعلق ہے اس کا تعین بھی ہماری روزمرہ زندگی میں بہت عجیب ہے، مثال کے طور پودینے کی ایک گٹھی جو اپنے اندر بہت سارے امراض کا علاج لئے ہوتی ہے، اس کی بازاری قیمت چند روپوں میں ہے لیکن اس روئے زمین پر بعض ایسی جڑی بوٹیاں بھی ہیں جن کے ایک گرام کی قیمت ہماری کرنسی میں لاکھوں اور کروڑوں روپے ہے۔ ذیل میں ہم چند حیران کر دینے والی قیمتی جڑی بوٹیوں کا ذکر کرتے ہیں۔ٹرفل زیر زمیں اُگنے والایہ پھل مشروم کی ایک نایاب نسل سے تعلق رکھتا ہے، اسی لئے اسے دنیا کا نایاب اور مہنگا ترین پھل قرار دیا جاتا ہے۔ یہ دنیا بھر میں کھانوں میں استعمال ہونے کے ساتھ ساتھ متعدد ادویات میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ ٹرفل زیر زمیں چند مخصوص درختوں کی جڑوں میں ہی پرورش پاتا ہے۔ صحراؤں اور جنگلوں میں اُگنے والے اس پھل کو تلاش کرنا بھی ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے کیونکہ سدھائے ہوئے شکاری کتے ہی سونگھ کر اس کو تلاش کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ جس کے بعد شکاری زمین کھود کر ٹرفل کو زمین سے کھود نکالتے ہیں۔ چونکہ یہ قدرتی طور پر اُگنے والا پھل ہے، اس لئے اپنی مخصوص آب و ہوا کے باعث دنیا کے چند ایک ممالک میں پیدا ہوتا ہے۔ حیران کن حد تک اس کی قیمت سونے سے بھی زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بین الاقوامی منڈیوں میں اعلیٰ درجے ٹرفل کی فی کلو گرام قیمت 15 سے 20 لاکھ پاکستانی روپوں کے برابر ہے۔''کراپ ڈیزیز ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل ایگریکلچر ل ریسرچ سنٹر‘‘ کے سینئر سائنٹیفک آفیسر، ڈاکٹر ظفر اقبال نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ عام طور پر مشروم زمین کے اوپر نامیاتی مادے میں اُگتے ہیں لیکن ''ٹرفل‘‘ نامی یہ منفرد پودا زیر زمین پرورش پاتا ہے۔ عام مشروم نسل کے پودوں کے برعکس ٹرفلز جنگلوں میں جا بجا نہیں اُگتے بلکہ یہ چند مخصوص درختوں، جن میں بلوط ، چنار ، پائن وغیرہ شامل ہیں کی جڑوں کے قریب یا زیر زمین ان کی جڑوں کے ساتھ پرورش پاتے ہیں۔ٹرفل نامی یہ پودا، اینٹی آکسیڈنٹس کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے اور ایسے مرکبات پر مشتمل ہے جو آزاد ریڈیکلز سے لڑنے اور انسانی جسم کے خلیات کو آکسیڈینٹیو نقصانات سے بچانے میں بہترین مزاحمت کار کا کردار ادا کرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اینٹی آکسیڈنٹس انسانی صحت میں بہت اہم سمجھے جاتے ہیں کیونکہ یہ دائمی طور پر کینسر، ذیابیطس اور دل کی بیماریوں کے خطرات کو ممکنہ حد تک روکتے ہیں۔''کیویار‘‘ (Caviar) بحیرہ قزوین سے نکلنے والی اس کیویار کو دنیا کی سب سے مہنگی خوراک کا درجہ حاصل ہے۔ مچھلی کی اووری سے لئے گئے چھوٹے چھوٹے دانوں کی شکل کے ان انڈوں کو فارسی میں ''خاویار‘‘ کہتے ہیں۔ کیویار کی یہ نایاب قسم بیلوگا، سنہری الماس اور سٹرگن نسل کی مچھلیوں کے انڈوں سے ملتی ہے۔انہی نسل کی مچھلیوں کی قیمت سب سے زیادہ ہے جبکہ دیگر نسل کی مچھلیوں کی کیویار کی مانگ نہ ہونے کے برابر ہے۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں اس کی قیمت چالیس لاکھ روپے فی کلو گرام ہے جبکہ دیگر دو اقسام کی قیمت دوسے چار لاکھ روپے فی کلوگرام تک ہے۔تاریخ کے اوراق میں ان کیویار کا ذکر ایران، آسٹریلیا اور روس کے بادشاہوں کی خوراک کے طور پر ملتا ہے۔ جن کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ لذت اور ذائقے کے ساتھ ساتھ کئی بیماریوں کے علاج کے طور پر بھی استعمال ہوا کرتی تھی۔ بلیو فن ٹونا مچھلییہ دنیا کی نایاب مچھلیوں کی نسل میں سے ایک نسل ہے جو تیزی سے معدومیت کی طرف گامزن ہے۔ یہ دنیا بھر میں کھانے کے شائقین میں بے حد مقبول ہے۔ اس کا سب سے زیادہ استعمال جاپان کی دو مخصوص اور روایتی ڈشوں ''سوشی‘‘ اور ''ساشیمی‘‘ میں ہوتا ہے۔اب رفتہ رفتہ کم پیداوار کی وجہ سے اس کا استعمال صرف انتہائی مالدار طبقے تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ بعض حوالوں سے معلوم ہوا ہے کہ آج سے چند سال پہلے دنیا کی سب سے مہنگی بلیو فن ٹونا، ٹوکیو میں ایک نیلامی کے دوران تقریباً ساڑھے آٹھ کروڑ پاکستانی روپوں میں نیلام ہوئی تھی۔سمندر کے پانیوں میں پرورش پانے والی اس مچھلی کے گوشت کی فی کلو گرام قیمت دس لاکھ روپے کے برابر ہے۔خوردنی گھونسلہآپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ مشرقی ایشیاء کے ممالک کے کچھ پہاڑی علاقوں میں کچھ منفرد قسم کی چڑیاں پہاڑی ڈھلوانوں پر اپنے لعاب سے گھونسلے بناتی ہیں۔یہ گھونسلے ملائشیا ، تھائی لینڈ ، چین ، ہانگ کانگ اور ویت نام میں انتہائی مہنگے داموں فروخت ہوتے ہیں کیونکہ ان ممالک میں ان گھونسلوں سے ایک منفرد قسم کا سوپ پچھلے کئی عشروں سے نہایت رغبت اور چاہت سے استعمال ہوتا آرہا ہے۔ لیکن ان گھونسلوں کو اکٹھا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف اس لئے ہے کہ خطرناک پہاڑی ڈھلوانوں پر چڑھنا ہی مشکل ہوتا ہے۔ان ممالک میں سرخ گھونسلے دس لاکھ پاکستانی روپے اور سفید گھونسلے دو سے تین لاکھ روپے فی کلوگرام کے حساب سے فروخت ہوتے ہیں۔ کوپی لوواک کافی فلپائن اور انڈونیشیا میں پائے جانے والے کافی کے ان بیجوں سے بنی کافی کی دنیا بھر میں بہت مانگ ہے۔ جبکہ یورپ اور امریکہ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک کی اشرافیہ میں اس کی بہت طلب رہتی ہے۔ اس کافی کا حصول بھی انتہائی دلچسپ اور عجیب ہے۔مشرقی ایشیاء میں پایا جانے والے جانور ''لوواک‘‘کو کافی کے درخت کا پھل کھلایا جاتا ہے جس کے بعد اس جانور کے فضلے سے نکلنے والے کافی کے بیجوں کو یکجا کر لیا جاتا ہے۔عالمی مارکیٹ میں ان بیجوں کی فی کلوگرام قیمت تیس ہزار سے لے کر دو لاکھ روپے تک ہے ۔زعفران زعفران کچھ مخصوص پکوانوں کا لازمی جزو تصور ہوتا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ مختلف ادویات میں بھی استعمال ہوتا ہے۔یہ چند مخصوص آب وہوا کے علاقوں میں موسم خزاں میں صرف چند دن کیلئے اگتا ہے۔جس کے بعد یہ ہاتھ سے اکٹھا کیا جاتا ہے۔ایک پھول میں چند باریک تھوڑی سی ڈنڈیاں ہوتی ہیں۔ایک اندازے کے مطابق تین لاکھ پھولوں سے بمشکل ایک کلو گرام زعفران نکلتا ہے۔اس کی کم سے کم قیمت چالیس سے پچاس ہزار روپے فی کلوگرام ہوتی ہے جبکہ اعلی کوالٹی زعفران کی قیمت دو اڑھائی لاکھ روپے فی کلو گرام کے قریب ہوتی ہے۔ موز چیز موز ،بارہ سنگھے کی ماند جنگلوں میں رہنے والا ایک جانور ہے جس کا آبائی علاقہ سویڈن ہے۔ اس کے دودھ سے تیارکردہ سفید چیز (پنیر ) دنیا بھر میں اپنے منفرد ذائقے اور لذت کی وجہ سے بہت مقبول ہے۔دنیا کے بیشتر ممالک میں کھانوں کے رسیا اسکی تلاش میں رہتے ہیں۔ چونکہ اس جانور کی پیدائش کا علاقہ محدود ہے اور پھر اس کے دودھ کا حصول بھی آسان نہیں اسلئے عالمی مارکیٹ میں " موز چیز " کی فی کلو گرام قیمت ایک لاکھ روپے سے دولاکھ روپے کے درمیان رہتی ہے۔مٹسوتی کے مشروم مٹسوتی کے مشروم کی فی کلو قیمت پانچ لاکھ روپوں کے برابر ہے۔یہ مشروم کی ایک نایاب قسم ہے جو جاپان ، امریکہ کے علاوہ چند یورپی ممالک میں پیدا ہوتا ہے۔ بیش قیمت ہونے کے باعث یہ اشرافیہ کے استعمال تک ہی محدود ہے۔  

شکرگزار بنیں!

شکرگزار بنیں!

انسان کو اللہ تعالیٰ نے بیشمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ ان میں سے کئی نعمتیں تو اتنی عظیم ہیں کہ اگر کوئی ایک نعمت ہم سے واپس لے لی جائے تو ہم اس نعمت کا نعم البدل کہیں سے نہیں لا سکتے۔ ہم اپنے اعضاء پہ ہی غور کر لیں کہ یہ ا للہ تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمت ہیں۔ خدا نخواستہ کسی حادثے میں کوئی ایک نعمت بھی واپس لے لی جائے تو اس وقت انسان کو یہ سوچ آتی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمت تھی۔ میں زندگی بھر استعمال کرتا رہا، اس نعمت کے حوالے سے تو کبھی اپنے رب کا شکر ادا کیا ہی نہیں تھا۔اللہ جل شانہ کی جس قدر نعمتیں ہر آن اور ہر دم انسان پر ہوتی ہیں، ان کا شکر ادا کرنا اور ان کا حق بجا لانا بھی انسان کے ذمے ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ شکر انسان کیسے ادا کرے؟ کیا ہم دن میں ''شکر الحمد للہ‘‘ کی تسبیح پڑھ لیں، اگر تسبیح پڑھ رہے ہیں تو یہ بھی اچھی بات ہے لیکن حقیقی شکر تب ہی ہو گا جب آپ دل کی گہرائیوں سے شکر ادا کریں گے، ہر نعمت کے قدر دان بن جائیں گے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ''اگر تم نے شکر کیا تو میں تمہیں زیادہ عطا کروں گا‘‘۔ نبی کریم ﷺفرماتے ہیں:کہ قیامت کے دن کہا جائے گا، حمد کرنے والے کھڑے ہو جائیں، لوگوں کا ایک گروہ کھڑا ہو جائے گا، ان کیلئے جھنڈا لگایا جائے گا اور وہ تمام لوگ جنت میں جائیں گے۔ پوچھا گیا یا رسول اللہ ﷺ! حمد کرنے والے کون ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جو لوگ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جو ہر دکھ سکھ میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ ہر حال میں اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا بہت بڑی بات ہے، ظاہر ہے انسان کے حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے انسان کی زندگی میں غم بھی آتے ہیں، امتحان اور آزمائشوں کے طوفان بھی آتے ہیں۔ ہر حالت میں جو اپنے رب تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے وہ ہی حقیقی قدردان ہوتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے نوازا ہے تو شکر ادا کرنے والا خرچ کرتا ہے، بانٹا شروع کرتا ہے، دوسروں کا احساس کرتا ہے اور وہ اپنے عمل سے انسانیت کیلئے آسانیاں پیدا کرتا ہے۔ مال جمع کرنے والا کبھی شکر گزار بندہ نہیں بن سکتا، کیونکہ شکر گزاری مال کو اکٹھا کرنے میں نہیں بلکہ سخاوت میں ہے۔ جب بھی انسان رب تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے تو اس کو ایک روحانی طاقت محسوس ہوتی ہے۔ زندگی کے روزمرہ کاموں میں، اپنے گھر، محلے،آفس میں ہر انسان کا شکریہ ادا کریں۔ ہم بڑے بڑے کام کروا لیتے ہیں لیکن شکریہ ادا کرنا بھول جاتے ہیں، آپ دو دن مسلسل ایک ہی بندے سے اُجرت کے ساتھ کوئی چھوٹا سا کام کروائیں، ایک دن شکریہ ادا نہ کریں اور دوسرے دن شکریہ ادا کریں تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کے الفاظ سے سامنے والے شخص کا چہرہ جگمگا اٹھے گا اور آپ کو دیر تک ایسا سکون محسوس ہو گا کہ آپ کا دل و دماغ روشن ہو جائے گا۔ یاد رکھیں اگر آپ میں لوگوں کا شکریہ ادا کرنے کی عادت نہیں تو آپ اپنے مالک کا شکر بھی ادا نہیں کر سکتے،کیونکہ حدیث رسول ﷺ ہے ''جو لوگوں کاشکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا‘‘ اس لئے ہمیں ہر وقت، ہر حال میں، ہر نعمت کا ہر شخص کا، شکر ادا کرتے رہنا چاہیے تاکہ ہم اللہ کا شکر ادا کرنے کے قابل ہو سکیں۔ شکر گزاری، شکر ادا کرنا اور اس کا اظہار کرنا بظاہر چھوٹا سا عمل ہے لیکن یہ روح کے ساتھ ساتھ انسان کی جسمانی اور ذہنی صحت پر بھی بہت گہرا اثر ڈالتا ہے۔ بارہا ریسرچ سے یہ بات ثابت کی جاچکی ہے کہ شکر گزار ہونا: آپ کی خوشیوں کے ذائقے کو بڑھاتا ہے، بہتر اور پرسکون نیند کی وجہ بنتا ہے، جسم کو طاقت اور اعتماد فراہم کرتا ہے۔آج عہد کر کے شکر گزاری کی زندگی شروع کیجیے، مندرجہ بالا فوائد کے علاوہ آپ خالق اور مخلوق دونوں میں محبوب ہو جائیں گے۔ آپ کے ساتھ ہر شخص تعلق بنانے کی کوشش کرے گا۔ ہر شخص آپ کی قدر کریگا۔ دنیا و آخرت کی تمام کامیابیوں کی راہ آپ کیلئے ہموار ہو جائے گی۔

یادرفتگاں:اے حمید:باکمال موسیقار

یادرفتگاں:اے حمید:باکمال موسیقار

30 سالہ فلمی کریئر میں 70 سے زائد فلموں کی موسیقی ترتیب دینے اور تقریباً 450 گیت کمپوز کرنے والے اے حمید پاکستانی فلمی موسیقی کا ایک بہت بڑا نام تھے۔ وہ کمال کے موسیقار تھے کہ ان کے بہت کم گیت ایسے ہیں جو مقبول نہ ہوئے ہوں، ان کے سپرہٹ گیتوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔مادری زبان پنجابی ہونے کے باوجود اردو فلموں کے سکہ بند موسیقار تھے اور پورے فلمی کریئر میں صرف 8 پنجابی فلموں کی موسیقی ترتیب دی تھی۔اے حمید 1933ء میں امرتسر (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ پورا نام شیخ عبدالحمید تھا۔ انہوں نے پاکستان میں اپنا فلمی کریئر 1957ء میں فلم ''انجام‘‘ سے شروع کیا۔ 1960ء میں انہوں نے فلم ''رات کے راہی‘‘ کیلئے شاندار موسیقی مرتب کی۔ اس فلم میں زبیدہ خانم کا گایا ہوا ایک گیت ''کیا ہوا دل پہ ستم، تم نہ سمجھو گے بلم‘‘، انتہائی مقبول ہوا۔ اس گیت کو فیاض ہاشمی جیسے بے بدل گیت نگار نے لکھا تھا۔ ''رات کے راہی‘‘ کی کامیابی میں بلاشبہ اے حمید کی موسیقی نے کلیدی کردار ادا کیا۔ 1960ء میں ان کی مشہور زمانہ فلم ''سہیلی‘‘ نمائش کیلئے پیش ہوئی۔ ایس ایم یوسف کی اس فلم نے ہر طرف دھوم مچا دی۔ اس فلم میں اے حمید کا فن اوج کمال کو پہنچ گیا۔ یہ گیت تو بہت زیادہ مقبول ہوا ''کہیں دو دل جو مل جاتے‘‘ پھر 1962ء میں ''اولاد‘‘ کے گیتوں نے بھی ان کے فنی قدو قامت میں اضافہ کیا۔ اس کے بعد ان کی یکے بعد دیگرے ریلیز ہونے والی فلموں کے نغمات مقبولیت کی آخری حدوں کو چھونے لگے۔ آشیانہ (1964ء)، توبہ (1965ء) اور بہن بھائی (1968ء) کے نغمات بھی زبان زد عام ہوئے۔ ''توبہ‘‘ میں منیر حسین اور ان کے ساتھیوں کی آواز میں گائی ہوئی یہ قوالی آج بھی کانوں میں رس گھولتی ہے ''نہ ملتا گر یہ توبہ کا سہارا ہم کہاں جاتے‘‘۔ اس کے بعد 1971ء میں ریاض شاہد کی فلم ''یہ امن‘‘ نمائش کیلئے پیش ہوئی۔ اس فلم کے بارے میں کہا جاتا تھاکہ اس کا خاصا حصہ سنسر کی نذر ہو گیا تھا۔ یہ یحییٰ خان کا دور تھا۔ ریاض شاہد کو اپنی فلم کے سنسر ہونے کا بے پناہ دکھ تھا۔ ان کی فلم ''امن‘‘ کا نام بھی بدل کر ''یہ امن‘‘ رکھ دیا گیا۔ ریاض شاہد کے قریبی حلقوں کے مطابق یہ دکھ ریاض شاہد کو موت کی وادی میں لے گیا۔''یہ امن‘‘ اس کے باوجود سپرہٹ ثابت ہوئی۔ حیرت کی بات ہے کہ 1969ء میں ریاض شاہد نے اپنی شاہکار فلم ''زرقا‘‘ کی موسیقی کیلئے رشید عطرے کو منتخب کیا تھا لیکن ''یہ امن‘‘ کی موسیقی کیلئے انہوں نے اے حمید کو ترجیح دی۔ یہ فلم کشمیر کی جنگِ آزادی پر بنائی گئی تھی۔ اے حمید نے اس فلم کے گیتوں کو لازوال دھنیں عطا کیں۔ مہدی حسن اور نورجہاں کا یہ گیت تو آج بھی لاثانی گیت کہلایا جاتا ہے ''ظلم رہے اور امن بھی ہو‘ کیا ممکن ہے تم ہی کہو‘‘۔ 1972ء میں شریف نیئر کی فلم ''دوستی‘‘ نے باکس آفس پر دھوم مچا دی۔ اس فلم کے گیت قتیل شفائی، کلیم عثمانی اور تنویر نقوی کے زور قلم کا نتیجہ تھے۔ اس فلم کے یہ گیت آج بھی اپنی شہرت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ''یہ وادیاں، یہ پربتوں کی شاہ زادیاں‘‘ اور ''چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے‘‘۔ اے حمید نے اس فلم کا جو سنگیت دیا اسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ 1974ء میں انہوں نے فلم ''سماج‘‘ کیلئے شاندار موسیقی دی۔ اس فلم کے یہ گیت شاہکار قرار پائے ''چلو کہیں دور یہ سماج چھوڑ دیں‘‘ اور ''یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا‘‘۔ 1976ء میں حسن طارق کی فلم ''ثریا بھوپالی‘‘ کی بے مثال موسیقی بھی اے حمید کی تھی۔ اس میں ناہید اختر کے گائے ہوئے گیت آج بھی دل کے تاروں کو چھو لیتے ہیں۔ 1977ء میں انہوں نے فلم ''بھروسہ‘‘ کی موسیقی ترتیب دی اور اس فلم کے نغمات بھی اپنی مثال آپ تھے۔ 1976ء میں انہوں نے پنجابی فلم ''سوہنی مہینوال‘‘ کیلئے دلکش موسیقی مرتب کی۔ سیف الدین سیف کے لکھے ہوئے پنجابی نغمات کو اے حمید نے اپنی سحر انگیز موسیقی کا جو لباس پہنایا وہ آج بھی فلمی موسیقی کی تاریخ کا زریں باب ہے۔ اے حمید پیانو بجانے میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔ اے حمید نے پونا فلم انسٹی ٹیوٹ میں موسیقی کے شعبے میں داخلہ لیا جہاں نامور موسیقار سی رام چندر اور استاد محمد علی نے انہیں تربیت دی تھی۔ اے حمید کی خوش قسمتی یہ تھی کہ انہیں فیاض ہاشمی، قتیل شفائی، سیف الدین سیف اور حبیب جالب جسے نغمہ نگار ملے۔ ان کی یادگار فلموں میں ''رات کے راہی، اولاد، سہیلی، پیغام، یہ امن، دوستی، سوہنی مہینوال، شریک حیات، ثریا بھوپالی، آواز، انگارے، بھروسہ، توبہ، بہن بھائی‘‘ اور دوسری کئی فلمیں شامل ہیں۔ اے حمید کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے پاکستانی فلموں کی سب سے مقبول فلمی قوالی ''نہ ملتا گر یہ توبہ کا سہارا ، ہم کہاں جاتے‘‘کمپوز کی تھی۔ اس سے قبل ہدایتکار ایس ایم یوسف کی اردو فلم ''اولاد‘‘ میں بھی اسی ٹیم کی گائی ہوئی قوالی ''حق ، لا الہ لا اللہ ، فرما دیا کملی والے ؐ نے‘‘بڑی مقبول ہوئی تھی۔اس کے علاوہ ہدایتکار اقبال یوسف کی اردو فلم ''عیدمبارک‘‘ کی محفل میلاد کو بھلا کون بھلا سکتا ہے۔ اے حمید کی بیشتر فلموں میں ایسے روحانی گیت ، قوالیاں وغیرہ عام ہوتی تھیں۔20 مئی 1991ء کو اے حمید کا راولپنڈی میں انتقال ہو گیا۔چند دلچسپ حقائق٭... پہلی فلم کی طرح موسیقار اے حمید کی آخری فلم ''ڈسکو دیوانے‘‘ کے ہدایتکار بھی جعفربخاری ہی تھے۔٭...اے حمید نے ہدایتکار ایس ایم یوسف کی بیشتر فلموں کی موسیقی ترتیب دی تھی۔٭...ایک سو سے زائد گیت نغمہ نگار فیاض ہاشمی سے لکھوائے۔٭...زیادہ تر گیت میڈم نورجہاں ، مالا بیگم، مہدی حسن اور منیر حسین سے گوائے۔٭...گلوکار اے نیئر کو دریافت کیا اور اردو فلم ''بہشت ‘‘(1974ء) میں روبینہ بدر کے ساتھ پہلا دوگانا ''یونہی دن کٹ جائیں ، یونہی شام ڈھل جائے‘‘گوایا تھا۔٭...پاپ سنگر نازیہ حسن کو پہلی بار ہدایتکار حسن طارق کی اردو فلم ''سنگدل‘‘ (1982ء) میں گوایا تھا۔ مقبول عام گیت٭کیا ہوا دل پہ ستم ، تم نہ سمجھو گے بلم(رات کے راہی)٭ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے(سہیلی)٭مکھڑے پہ سہرا ڈالے ، آجا او آنے والے (سہیلی)٭کہیں دو دل جو مل جاتے، بگڑتا کیا زمانے کا (سہیلی)٭نام لے لے کے تیرا ہم تو جئیں جائیں گے (فلم اولاد)٭نہ ملتا گر یہ توبہ کا سہارا، ہم کہاں جاتے(توبہ)٭چٹھی جرا سیاں جی کے نام لکھ دے(دوستی)٭یہ وادیاں، یہ پربتوں کی شاہ زادیاں (دوستی)٭کس نام سے پکاروں، کیا نام ہے تمہارا(غرناطہ)٭ظلم رہے اور امن بھی ہو ، کیا ممکن ہے(یہ امن)٭اب کہ ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں(انگارے)  

ڈیلاس:اہم امریکی شہر

ڈیلاس:اہم امریکی شہر

ڈیلاس کا شہر ریاست ٹیکساس میں تیسرا اور پورے امریکہ میں 9واں بڑا شہر ہے۔ 1841ء میں یہ شہر معرض وجود میں آیا اورفروری 1856ء میں اسے شہر کا درجہ دیا گیا۔ اس وقت ڈیلاس کی معیشت کا انحصار تجارت، بنکنگ، ٹیلی کمیونیکیشن، کمپیوٹر ٹیکنالوجی، توانائی، کپاس اور ذرائع رسل و رسائل پر ہے کیونکہ یہ شہرٹیکساس کے شمالی حصے میں آباد ہے۔ اس شہرکی سمندر تک رسائی نہیں، ریاستی بندر گاہ کے شہرہیوسٹن سے زمینی فاصلہ 241 میل ہے اور دونوں شہروں کے درمیان فضائی راستہ کے علاوہ زمینی رابطہ کیلئے ایک بڑی قومی شاہراہ ''آئی فور ٹی فائیو‘‘ (I-45) نہایت اہم رول ادا کرتی ہے۔ڈیلاس کا شہرہموار سطح پر واقع ہے اور اس کی سطح سمندر سے بلندی 550 فٹ ہے۔ دنیا کے کئی دوسرے شہروں کی طرح ڈیلاس بھی دریائے ٹرینیٹی (Trinity) کے کنارے آباد ہے، گرمیوں میں ٹمپریچر زیادہ سے زیادہ 32/33ڈگری سینٹی گریڈ اور سردیوں میں کم سے کم 1/3سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔ بارش کا تناسب35انچ سالانہ ہے۔ٹرانسپورٹامریکہ کے تقریباً درمیان میں واقع ہونے کی وجہ سے ڈیلاس ایک اہم شہر ہے۔ ریل، سڑک اور فضائی راستوں کے ذریعے ملک کے ہر خطہ سے منسلک ہے۔ ڈیلاس شہر سے ملک کی سات اہم بین الریاستی شاہراہیں اور درجن سے زیادہ دوسری سڑکیں گزرتی ہیں۔ جن پر امریکہ کے ہر شہرسے Greyhound Busکمپنی کی لگژری اور تیز رفتار بسیں دن رات رواں دواں رہتی ہیں۔ گرے ہاونڈ ٹرانسپورٹ کمپنی کی سروس امریکہ کے ہر شہر میں موجود ہے اورواقعی یہ ایک لاجواب سروس ہے۔ گرے ہانڈ کا ہیڈ کوارٹر اسی شہر ڈیلاس میں ہے اور اس کی سروس کا دائرہ کار امریکہ کے علاوہ میکسیکو اور کینیڈا تک پھیلا ہوا ہے۔DART (Dallas Area Rapid Transit)Dartایک ادارہ ہے۔ جو ڈیلاس شہر اور مضافات میں مقامی طور پر شہریوں کوٹرانسپورٹ کی سہولتیں مہیا کرتا ہے۔ یہ ادارہ 1983ء سے عوامی ذمہ داریاں نہایت خوش اسلوبی سے نبھا رہا ہے۔ اور اس کا دائرہ کار شہر اور قرب وجوار کے مضافات میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ 72میل کا ٹریک تین لائنوں، ٹریڈ لائن، بلیو لائن اور گرین لائن پر مشتمل ہے۔ اس Light Railمیں روزانہ تقریباً 58ہزار مسافر سفر کرتے ہیں جبکہ چوتھی اورنج لائن بھی زیر تعمیر ہے جس کے مکمل ہونے سے موجود ریلوے ٹریک93میل تک وسیع ہو جائے گا۔ری یونین ٹاورڈیلاس شہر کے مرکز میں تعمیر کیا ہوا یہ ٹاور 561فٹ بلند ہے۔ اس ٹاور کو 1978ء میں مکمل کیا گیا۔ اس ٹاورکے اوپر کے حصہ میں تین فلور ہیں۔ جنہیں ریسٹورانٹ، کنونشن سینٹر اور خصوصی تقریبات کیلئے مختص کیا گیا ہے۔ یہ تینوں فلور چاروں طرف گھومتے ہیں۔ اور 55منٹ میں ایک چکر مکمل ہوتا ہے۔ یعنی آپ اپنی کھانے کی میز پر بیٹھے بٹھائے کھانے سے لطف اندوز ہونے کے علاوہ شہرکے ارد گرد نظارہ کر سکتے ہیں۔ بلکہ قریبی شہر فورٹ ورتھ کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ مقامی لوگ عرفو عام میں اس ٹاور کو فائیو سکسٹی(560)ٹاور بھی کہتے ہیں۔ اس کے ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر آپ اپنی شام کو رومانٹک بنا سکتے ہیں۔ بلکہ بزنس ڈنر اور سالگرہ کی تقریبات کو بھی یاد گار بنا سکتے ہیں۔ کھانے میں Tunaفش کے علاوہ ایشین طرز کا چٹ پٹا کھانا بھی دستیاب ہے۔ کھانے کا بل عموماً 30سے 50ڈالر فی کس ہوتا ہے۔ یہ ری یونین ٹاور کئی ایوارڈ بھی حاصل کر چکا ہے۔ اس ٹاور پر رات کے وقت سیکڑوں رنگ برنگے قمقمے جلتے بجھتے رہتے ہیں جس سے ٹاور کے خوبصورتی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ ٹاور کے پاس ہی ڈیلاس کا سٹی ہال واقع ہے۔بنک آف امریکہ اس کے علاوہ ڈیلاس میں بنک آف امریکہ کی عمارت 921 فٹ بلند ہے۔ یہ عمارت 1985ء میں مکمل ہوئی۔ اس کی 72منزلیں ہیں یہ عمارت ریاست ٹیکساس میں تیسری اور امریکہ میں 21ویںفلک بوس عمارت ہے۔ جب کہ دنیا کی بلند عمارتوں میں اس کا شمار58نمبر پر ہے۔کائوبوائز سٹیڈیمکائوبوائز سٹیڈیم کی چھت کو باوقت ضرورت اوپر سے کھولا اور بند کیا جا سکتا ہے۔ اس سٹیڈیم کا رقبہ135ایکڑ ہے اور چھت کی بلندی 292فٹ ہے۔ اور اس سٹیڈیم کو پانچ میل دور سے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ سٹیڈیم نہ صرف ریاست ٹیکساس بلکہ پورے امریکہ کی پسندیدہ فٹ بال ٹیم ''Cowhoys‘‘کا ایک طرح کا گھر ہے اور یہ عظیم سٹیڈیم اسی ٹیم کے نام سے منسوب ہے۔ پورے امریکہ میں چوٹی کے تین کھیل فٹ بال ، بیس بال اور باسکٹ بال ایسے کھیل ہیں جن کو امریکی عوام دل وجان کی طرح پسند کرتے ہیں۔یہ کائوبوائز سٹیڈیم عرصہ تین سال کی تعمیر کے بعد مئی 2009ء میں مکمل ہوا۔ یہ سٹیڈیم دو جڑواں شہر ڈیلاس اور فورٹ ورتھ کے درمیان قدرت ایک چھوٹے شہر آرلنگٹن میں واقع ہے اس سٹیڈیم میں نشستوں کی تعداد ایک لاکھ 10ہزار ہے جو کہ ایک ریکارڈ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ریکارڈ کے مطابق یہ دنیا کا سب سے بڑا مسقت سٹیڈیم ہے، جس کی چھت درمیان میں بغیر کسی ستون کے بنائی گئی ہے۔ اس سٹیڈیم میں ایک بہت بڑی ٹی وی سکرین بھی نصب کی گئی ہے جس کی لمبائی چوڑائی160X72فٹ ہے جو کہ دنیا میں سب سے بڑی ٹی وی سکرین شمار ہوتی ہے۔ ٹیکساس والوں کو یہ فخر ہے کہ ان کی ریاست کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ''The biggest Thing Always come Fron Texas‘‘واقعی جب یہ سٹیڈیم مکمل ہوا تو یہ جملہ بالکل سچ ثابت ہوا۔ٹاور آف امریکہریاست ٹیکساس کے دوسرے بڑے شہر سین انٹوینو میں ایک خوبصورت ٹاور تعمیر کیا گیا ہے جس کا نام ہی ٹاور آف امریکہ ہے یہ ٹاور پورے شہر کی رنگینیوں کو جذب کئے ہوئے ہے۔ عرف عام میں ٹاور آف امریکہ کو صرف ''ٹاور‘‘ ہی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ ٹاور ڈیلاس میں تعمیر شدہ ری یونین ٹاور سے 61فٹ بلند ہے جبکہ ٹاور آف امریکہ کی بلندی 622 فٹ ہے اور اس کی کل 952سیڑھیاں ہیں۔ اوپر کے حصہ میں ریسٹورنٹ کے عرشہ پر 350لوگ ایک وقت میں ارد گرد کا نظارہ کر سکتے ہیں جبکہ ریسٹورنٹ میں 500لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ اس ٹاور کی بلندی کے پیش نظر اس کو '' چشم ٹیکساس‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ پورے ٹیکساس میں بلند ترین ٹاور ہے۔ 1968ء میں ایک بین الاقوامی نمائش کے سلسلہ میں یہ ٹاور تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ نمائش سین انٹونیو شہر کی ڈھائی صد سالہ (250)تقریبات کے سلسلہ میں منعقد کی گئی تھی۔ لیکن اس ٹاور کو بنے ہوئے بھی اب 43سال ہو چکے ہیں اس ٹاور کے برقی زینے 800فٹ فی منٹ کی رفتار سے گرائونڈ سے اوپر تک 43سیکنڈ میں پہنچ جاتے ہیں۔ اوپر ریسٹورنٹ کی جگہ کا رقبہ 10150مربع فٹ ہے جب کہ ریسٹورنٹ کے اوپر صد گاہ کا رقبہ 8800مربع فٹ ہے اور وہ شافٹ جس کے گرد یہ ریسٹورنٹ گھومتا ہے اس کا قطر45فٹ ہے۔ 

حکایت سعدیؒ : بزدل غلام

حکایت سعدیؒ : بزدل غلام

بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بادشاہ کشتی میں بیٹھ کر دریا کی سیر کر رہا تھا۔ کچھ درباری اور چند غلام بھی ساتھ تھے۔ ان میں ایک غلام ایسا تھا جو پہلے کبھی کشتی میں نہ بیٹھا تھا اس لیے وہ بہت خوفزدہ تھا اور ڈوب جانے کے خوف سے رو رہا تھا۔ بادشاہ کو اس کا اس طرح رونا اور خوفزدہ ہونا بہت ناگوار گزر رہا تھا لیکن غلام پر منع کرنے اور ڈانٹنے ڈپٹنے کا بالکل اثر نہ ہوتا تھا۔کشتی میں ایک جہاندیدہ اور دانا شخص بھی سوار تھا۔ اس نے غلام کی یہ حالت دیکھی تو بادشاہ سے کہا کہ اگر حضور اجازت دیں تو یہ خادم اس خوفزدہ غلام کا ڈر دور کر دے؟ بادشاہ نے فوراً اجازت دے دی اور دانشمند شخص نے غلاموں کو حکم دیا کہ اس شخص کو اٹھا کر دریا میں پھینک دو۔غلاموں نے حکم کی تعمیل کی اور رونے والے غلام کو اٹھا کر دریا کے اندر پھینک دیا۔ جب وہ تین چار غوطے کھا چکا تو دانا شخص نے غلاموں سے کہا کہ اب اسے دریا سے نکال کر کشتی میں سوار کر لوَ چنانچہ غلاموں نے اس کے سر کے بال پکڑ کر کشتی میں گھسیٹ لیا اور وہ غلام جو ذرا دیر پہلے ڈوب جانے کے خوف سے بڑی طرح رو رہا تھا بالکل خاموش اور پر سکون ہو کر ایک طرف بیٹھ گیا۔بادشاہ نے حیران ہو کر سوال کیا کہ آخر اس بات میں کیا بھلائی تھی کہ تم نے ایک ڈرے ہوئے شخص کو دریا میں پھنکوا دیا تھا اور مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ اب خاموش بھی ہو گیا ہے؟دانا شخص نے جواب دیا حضور والا! اصل بات یہ تھی کہ اس نے کبھی دریا میں غوطے کھانے کی تکلیف نہ اٹھائی تھی۔ اس طرح اس کے دل میں اس آرام کی کوئی قدر نہ تھی جو اسے کشتی کے اندر حاصل تھا۔ اب ان دونوں کی حقیقت اس پر روشن ہو گئی اور خاموش ہو گیا۔جس نے دیکھی نہ ہو کو ئی تکلیف قدر آرام کی وہ کیا جانےنعمتوں سے بھرا ہو جس کا پیٹ جو کی روٹی کو کب غذا مانےحضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں انسان کی یہ نفساتی کیفیت بیان فرمائی ہے کہ جس شخص نے کبھی تکلیف دیکھی ہی نہ ہو وہ اس کی قدر و قیمت سے آگاہ نہیں ہوتا جو اسے حاصل ہے۔ اس کے علاوہ ایساشخص جسارت اور قوت برداشت سے بھی محروم ہوتا ہے۔ مسرت اور کامیاب زندگی وہی شخص گزار سکتا ہے جو رنج و راحت دونوں سے آگاہ ہو۔ 

آج کا دن

آج کا دن

سینما کا آغاز20مئی 1891ء کو جدید دور کے سنیما کا آغاز ہوا جب تھامس ایڈیسن کی جانب سے بنایا گیا ایک پروٹو ٹائپ منظر عام پر آیا۔ اس پروٹو ٹائپ کو ''کینیٹو سکوپ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ابتدائی موشن پکچر کا نمائشی آلہ بھی تھا جو فلموں کیلئے ڈیزائن کیا گیا تھا تاکہ ایک سے زیادہ افراد ایک ہی جگہ پر موجود ہوتے ہوئے فلم کسی بڑی سکرین پر فلم دیکھ سکیں۔ کینیٹو سکوپ پروجیکٹر تو نہیں لیکن اس نے آگے چل کر پروجیکٹر کی ایجاد میںاہم کردار ادا کیا۔مورخین کینیٹو کے ڈیزائن کو جدید سنیما کا نقطہ آغاز تصور کرتے ہیں۔کاسمک مائیکروتابکاری کی دریافتکاسمک مائیکرو بیک گرائونڈ تابکاری کی دریافت کو جدید طبعی کاسمولوجی میں ایک اہم پیش رفت سمجھا جاتاہے۔ اس کی دریافت امریکی ماہر طبیعیات آرنو ایلن اور ریڈیو فلکیات دان رابرٹ ووڈ روولسن کی جانب سے20مئی 1964ء کو کی گئی۔کاسمک تابکاری کی دریافت پر ان ماہرین کو فزکس کے نوبل انعام سے بھی نوازا گیا۔ ان کی اس دریافت کو جدید فزکس کا نقطہ آغاز بھی سمجھا جاتا ہے۔جاپان میں بدترین زلزلہ20مئی 1293ء کو جاپان میں تاریخ کے بدترین زلزلوں میں سے ایک زلزلہ آیا۔ اس زلزلے میں 30 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بنے۔ جاپان چونکہ بہت سی فالٹ لائنز پر موجو ہے، اس لئے اس کو زلزلوں کی سرزمین بھی کہا جاتاہے کیونکہ دنیا میں سب سے زیادہ زلزلے جاپان میں ہی آتے ہیں۔ 1293ء کو آنے والے زلزلے کو جاپان کی تاریخ کے بدترین زلزلوں میں شمار کیاجاتا ہے۔ اس زلزلے کی وجہ سے جاپان میںبے گھر ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں تھی۔کیوباآزاد ہواکیوبا جسے جمہوریہ کیوبا بھی کہا جاتا ہے نے 20مئی1902ء کو ریاستہائے متحدہ سے آزادی حاصل کی۔کیوبا دراصل ایک جزیزہ نما ملک ہے بلکہ کئی چھوٹے چھوٹے جزیروں پر مشتمل ہے۔ کیوبا یوکاٹن جزیرہ کے مشرق میں امریکی ریاست فلوریڈا اور بہاماس دونوں کے جنوب میں جبکہ ہسپانیولا کے مغرب میں اور جمیکا اور کیمن جزائر کے شمال میں واقع ہے۔ ہوانا اس کا سب سے بڑا شہر اور دارالحکومت ہے۔ دوسرے بڑے شہروں میں سینٹیاگو ڈی کیوبا اور کیماگوئی شامل ہیں۔