بیش قیمت اشیائے خورونوش
![بیش قیمت اشیائے خورونوش](https://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/27586_48655419.jpg)
اسپیشل فیچر
روئے زمین پر قدرت نے جہاں انگنت مخلوقات پیدا کی ہیں، وہیں نباتات کی دنیا میں بھی کروڑوں اربوں پودے پیدا کئے ہیں۔ جیسے موجودہ سائنس ابھی تک اس روئے زمین کی مخلوق جیسے چرند، پرند، حشرات الاارض وغیرہ کے بارے ابھی بہت کم رسائی حاصل کر سکی ہے، اسی طرح ماہرین کا کہنا ہے کہ نباتات کی دنیا بھی اس قدر وسیع ہے کہ ابھی تک صحیح طور پر شاید اس کا دسواں حصہ بھی نہیں کھوجا جا سکا۔
نباتات کی دنیا کا انسان کی زندگی کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ صدیوں سے یوں ہے کہ آکسیجن کے علاوہ یہ انسان کی خوراک اور ادویات کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔ جہاں تک نباتات کی قیمت کا تعلق ہے اس کا تعین بھی ہماری روزمرہ زندگی میں بہت عجیب ہے، مثال کے طور پودینے کی ایک گٹھی جو اپنے اندر بہت سارے امراض کا علاج لئے ہوتی ہے، اس کی بازاری قیمت چند روپوں میں ہے لیکن اس روئے زمین پر بعض ایسی جڑی بوٹیاں بھی ہیں جن کے ایک گرام کی قیمت ہماری کرنسی میں لاکھوں اور کروڑوں روپے ہے۔ ذیل میں ہم چند حیران کر دینے والی قیمتی جڑی بوٹیوں کا ذکر کرتے ہیں۔
ٹرفل
زیر زمیں اُگنے والایہ پھل مشروم کی ایک نایاب نسل سے تعلق رکھتا ہے، اسی لئے اسے دنیا کا نایاب اور مہنگا ترین پھل قرار دیا جاتا ہے۔ یہ دنیا بھر میں کھانوں میں استعمال ہونے کے ساتھ ساتھ متعدد ادویات میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ ٹرفل زیر زمیں چند مخصوص درختوں کی جڑوں میں ہی پرورش پاتا ہے۔ صحراؤں اور جنگلوں میں اُگنے والے اس پھل کو تلاش کرنا بھی ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے کیونکہ سدھائے ہوئے شکاری کتے ہی سونگھ کر اس کو تلاش کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ جس کے بعد شکاری زمین کھود کر ٹرفل کو زمین سے کھود نکالتے ہیں۔ چونکہ یہ قدرتی طور پر اُگنے والا پھل ہے، اس لئے اپنی مخصوص آب و ہوا کے باعث دنیا کے چند ایک ممالک میں پیدا ہوتا ہے۔ حیران کن حد تک اس کی قیمت سونے سے بھی زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بین الاقوامی منڈیوں میں اعلیٰ درجے ٹرفل کی فی کلو گرام قیمت 15 سے 20 لاکھ پاکستانی روپوں کے برابر ہے۔
''کراپ ڈیزیز ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل ایگریکلچر ل ریسرچ سنٹر‘‘ کے سینئر سائنٹیفک آفیسر، ڈاکٹر ظفر اقبال نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ عام طور پر مشروم زمین کے اوپر نامیاتی مادے میں اُگتے ہیں لیکن ''ٹرفل‘‘ نامی یہ منفرد پودا زیر زمین پرورش پاتا ہے۔ عام مشروم نسل کے پودوں کے برعکس ٹرفلز جنگلوں میں جا بجا نہیں اُگتے بلکہ یہ چند مخصوص درختوں، جن میں بلوط ، چنار ، پائن وغیرہ شامل ہیں کی جڑوں کے قریب یا زیر زمین ان کی جڑوں کے ساتھ پرورش پاتے ہیں۔
ٹرفل نامی یہ پودا، اینٹی آکسیڈنٹس کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے اور ایسے مرکبات پر مشتمل ہے جو آزاد ریڈیکلز سے لڑنے اور انسانی جسم کے خلیات کو آکسیڈینٹیو نقصانات سے بچانے میں بہترین مزاحمت کار کا کردار ادا کرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اینٹی آکسیڈنٹس انسانی صحت میں بہت اہم سمجھے جاتے ہیں کیونکہ یہ دائمی طور پر کینسر، ذیابیطس اور دل کی بیماریوں کے خطرات کو ممکنہ حد تک روکتے ہیں۔
''کیویار‘‘ (Caviar)
بحیرہ قزوین سے نکلنے والی اس کیویار کو دنیا کی سب سے مہنگی خوراک کا درجہ حاصل ہے۔ مچھلی کی اووری سے لئے گئے چھوٹے چھوٹے دانوں کی شکل کے ان انڈوں کو فارسی میں ''خاویار‘‘ کہتے ہیں۔ کیویار کی یہ نایاب قسم بیلوگا، سنہری الماس اور سٹرگن نسل کی مچھلیوں کے انڈوں سے ملتی ہے۔انہی نسل کی مچھلیوں کی قیمت سب سے زیادہ ہے جبکہ دیگر نسل کی مچھلیوں کی کیویار کی مانگ نہ ہونے کے برابر ہے۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں اس کی قیمت چالیس لاکھ روپے فی کلو گرام ہے جبکہ دیگر دو اقسام کی قیمت دوسے چار لاکھ روپے فی کلوگرام تک ہے۔تاریخ کے اوراق میں ان کیویار کا ذکر ایران، آسٹریلیا اور روس کے بادشاہوں کی خوراک کے طور پر ملتا ہے۔ جن کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ لذت اور ذائقے کے ساتھ ساتھ کئی بیماریوں کے علاج کے طور پر بھی استعمال ہوا کرتی تھی۔
بلیو فن ٹونا مچھلی
یہ دنیا کی نایاب مچھلیوں کی نسل میں سے ایک نسل ہے جو تیزی سے معدومیت کی طرف گامزن ہے۔ یہ دنیا بھر میں کھانے کے شائقین میں بے حد مقبول ہے۔ اس کا سب سے زیادہ استعمال جاپان کی دو مخصوص اور روایتی ڈشوں ''سوشی‘‘ اور ''ساشیمی‘‘ میں ہوتا ہے۔اب رفتہ رفتہ کم پیداوار کی وجہ سے اس کا استعمال صرف انتہائی مالدار طبقے تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ بعض حوالوں سے معلوم ہوا ہے کہ آج سے چند سال پہلے دنیا کی سب سے مہنگی بلیو فن ٹونا، ٹوکیو میں ایک نیلامی کے دوران تقریباً ساڑھے آٹھ کروڑ پاکستانی روپوں میں نیلام ہوئی تھی۔سمندر کے پانیوں میں پرورش پانے والی اس مچھلی کے گوشت کی فی کلو گرام قیمت دس لاکھ روپے کے برابر ہے۔
خوردنی گھونسلہ
آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ مشرقی ایشیاء کے ممالک کے کچھ پہاڑی علاقوں میں کچھ منفرد قسم کی چڑیاں پہاڑی ڈھلوانوں پر اپنے لعاب سے گھونسلے بناتی ہیں۔یہ گھونسلے ملائشیا ، تھائی لینڈ ، چین ، ہانگ کانگ اور ویت نام میں انتہائی مہنگے داموں فروخت ہوتے ہیں کیونکہ ان ممالک میں ان گھونسلوں سے ایک منفرد قسم کا سوپ پچھلے کئی عشروں سے نہایت رغبت اور چاہت سے استعمال ہوتا آرہا ہے۔ لیکن ان گھونسلوں کو اکٹھا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف اس لئے ہے کہ خطرناک پہاڑی ڈھلوانوں پر چڑھنا ہی مشکل ہوتا ہے۔ان ممالک میں سرخ گھونسلے دس لاکھ پاکستانی روپے اور سفید گھونسلے دو سے تین لاکھ روپے فی کلوگرام کے حساب سے فروخت ہوتے ہیں۔
کوپی لوواک کافی
فلپائن اور انڈونیشیا میں پائے جانے والے کافی کے ان بیجوں سے بنی کافی کی دنیا بھر میں بہت مانگ ہے۔ جبکہ یورپ اور امریکہ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک کی اشرافیہ میں اس کی بہت طلب رہتی ہے۔ اس کافی کا حصول بھی انتہائی دلچسپ اور عجیب ہے۔مشرقی ایشیاء میں پایا جانے والے جانور ''لوواک‘‘کو کافی کے درخت کا پھل کھلایا جاتا ہے جس کے بعد اس جانور کے فضلے سے نکلنے والے کافی کے بیجوں کو یکجا کر لیا جاتا ہے۔عالمی مارکیٹ میں ان بیجوں کی فی کلوگرام قیمت تیس ہزار سے لے کر دو لاکھ روپے تک ہے ۔
زعفران
زعفران کچھ مخصوص پکوانوں کا لازمی جزو تصور ہوتا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ مختلف ادویات میں بھی استعمال ہوتا ہے۔یہ چند مخصوص آب وہوا کے علاقوں میں موسم خزاں میں صرف چند دن کیلئے اگتا ہے۔جس کے بعد یہ ہاتھ سے اکٹھا کیا جاتا ہے۔ایک پھول میں چند باریک تھوڑی سی ڈنڈیاں ہوتی ہیں۔ایک اندازے کے مطابق تین لاکھ پھولوں سے بمشکل ایک کلو گرام زعفران نکلتا ہے۔اس کی کم سے کم قیمت چالیس سے پچاس ہزار روپے فی کلوگرام ہوتی ہے جبکہ اعلی کوالٹی زعفران کی قیمت دو اڑھائی لاکھ روپے فی کلو گرام کے قریب ہوتی ہے۔
موز چیز
موز ،بارہ سنگھے کی ماند جنگلوں میں رہنے والا ایک جانور ہے جس کا آبائی علاقہ سویڈن ہے۔ اس کے دودھ سے تیارکردہ سفید چیز (پنیر ) دنیا بھر میں اپنے منفرد ذائقے اور لذت کی وجہ سے بہت مقبول ہے۔دنیا کے بیشتر ممالک میں کھانوں کے رسیا اسکی تلاش میں رہتے ہیں۔ چونکہ اس جانور کی پیدائش کا علاقہ محدود ہے اور پھر اس کے دودھ کا حصول بھی آسان نہیں اسلئے عالمی مارکیٹ میں " موز چیز " کی فی کلو گرام قیمت ایک لاکھ روپے سے دولاکھ روپے کے درمیان رہتی ہے۔
مٹسوتی کے مشروم
مٹسوتی کے مشروم کی فی کلو قیمت پانچ لاکھ روپوں کے برابر ہے۔یہ مشروم کی ایک نایاب قسم ہے جو جاپان ، امریکہ کے علاوہ چند یورپی ممالک میں پیدا ہوتا ہے۔ بیش قیمت ہونے کے باعث یہ اشرافیہ کے استعمال تک ہی محدود ہے۔