یادرفتگاں:اے حمید:باکمال موسیقار
![یادرفتگاں:اے حمید:باکمال موسیقار](https://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/27584_18403614.jpg)
اسپیشل فیچر
30 سالہ فلمی کریئر میں 70 سے زائد فلموں کی موسیقی ترتیب دینے اور تقریباً 450 گیت کمپوز کرنے والے اے حمید پاکستانی فلمی موسیقی کا ایک بہت بڑا نام تھے۔ وہ کمال کے موسیقار تھے کہ ان کے بہت کم گیت ایسے ہیں جو مقبول نہ ہوئے ہوں، ان کے سپرہٹ گیتوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔مادری زبان پنجابی ہونے کے باوجود اردو فلموں کے سکہ بند موسیقار تھے اور پورے فلمی کریئر میں صرف 8 پنجابی فلموں کی موسیقی ترتیب دی تھی۔
اے حمید 1933ء میں امرتسر (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ پورا نام شیخ عبدالحمید تھا۔ انہوں نے پاکستان میں اپنا فلمی کریئر 1957ء میں فلم ''انجام‘‘ سے شروع کیا۔ 1960ء میں انہوں نے فلم ''رات کے راہی‘‘ کیلئے شاندار موسیقی مرتب کی۔ اس فلم میں زبیدہ خانم کا گایا ہوا ایک گیت ''کیا ہوا دل پہ ستم، تم نہ سمجھو گے بلم‘‘، انتہائی مقبول ہوا۔ اس گیت کو فیاض ہاشمی جیسے بے بدل گیت نگار نے لکھا تھا۔ ''رات کے راہی‘‘ کی کامیابی میں بلاشبہ اے حمید کی موسیقی نے کلیدی کردار ادا کیا۔
1960ء میں ان کی مشہور زمانہ فلم ''سہیلی‘‘ نمائش کیلئے پیش ہوئی۔ ایس ایم یوسف کی اس فلم نے ہر طرف دھوم مچا دی۔ اس فلم میں اے حمید کا فن اوج کمال کو پہنچ گیا۔ یہ گیت تو بہت زیادہ مقبول ہوا ''کہیں دو دل جو مل جاتے‘‘ پھر 1962ء میں ''اولاد‘‘ کے گیتوں نے بھی ان کے فنی قدو قامت میں اضافہ کیا۔ اس کے بعد ان کی یکے بعد دیگرے ریلیز ہونے والی فلموں کے نغمات مقبولیت کی آخری حدوں کو چھونے لگے۔ آشیانہ (1964ء)، توبہ (1965ء) اور بہن بھائی (1968ء) کے نغمات بھی زبان زد عام ہوئے۔ ''توبہ‘‘ میں منیر حسین اور ان کے ساتھیوں کی آواز میں گائی ہوئی یہ قوالی آج بھی کانوں میں رس گھولتی ہے ''نہ ملتا گر یہ توبہ کا سہارا ہم کہاں جاتے‘‘۔
اس کے بعد 1971ء میں ریاض شاہد کی فلم ''یہ امن‘‘ نمائش کیلئے پیش ہوئی۔ اس فلم کے بارے میں کہا جاتا تھاکہ اس کا خاصا حصہ سنسر کی نذر ہو گیا تھا۔ یہ یحییٰ خان کا دور تھا۔ ریاض شاہد کو اپنی فلم کے سنسر ہونے کا بے پناہ دکھ تھا۔ ان کی فلم ''امن‘‘ کا نام بھی بدل کر ''یہ امن‘‘ رکھ دیا گیا۔ ریاض شاہد کے قریبی حلقوں کے مطابق یہ دکھ ریاض شاہد کو موت کی وادی میں لے گیا۔''یہ امن‘‘ اس کے باوجود سپرہٹ ثابت ہوئی۔ حیرت کی بات ہے کہ 1969ء میں ریاض شاہد نے اپنی شاہکار فلم ''زرقا‘‘ کی موسیقی کیلئے رشید عطرے کو منتخب کیا تھا لیکن ''یہ امن‘‘ کی موسیقی کیلئے انہوں نے اے حمید کو ترجیح دی۔ یہ فلم کشمیر کی جنگِ آزادی پر بنائی گئی تھی۔ اے حمید نے اس فلم کے گیتوں کو لازوال دھنیں عطا کیں۔ مہدی حسن اور نورجہاں کا یہ گیت تو آج بھی لاثانی گیت کہلایا جاتا ہے ''ظلم رہے اور امن بھی ہو‘ کیا ممکن ہے تم ہی کہو‘‘۔
1972ء میں شریف نیئر کی فلم ''دوستی‘‘ نے باکس آفس پر دھوم مچا دی۔ اس فلم کے گیت قتیل شفائی، کلیم عثمانی اور تنویر نقوی کے زور قلم کا نتیجہ تھے۔ اس فلم کے یہ گیت آج بھی اپنی شہرت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ''یہ وادیاں، یہ پربتوں کی شاہ زادیاں‘‘ اور ''چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے‘‘۔ اے حمید نے اس فلم کا جو سنگیت دیا اسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
1974ء میں انہوں نے فلم ''سماج‘‘ کیلئے شاندار موسیقی دی۔ اس فلم کے یہ گیت شاہکار قرار پائے ''چلو کہیں دور یہ سماج چھوڑ دیں‘‘ اور ''یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا‘‘۔ 1976ء میں حسن طارق کی فلم ''ثریا بھوپالی‘‘ کی بے مثال موسیقی بھی اے حمید کی تھی۔ اس میں ناہید اختر کے گائے ہوئے گیت آج بھی دل کے تاروں کو چھو لیتے ہیں۔
1977ء میں انہوں نے فلم ''بھروسہ‘‘ کی موسیقی ترتیب دی اور اس فلم کے نغمات بھی اپنی مثال آپ تھے۔ 1976ء میں انہوں نے پنجابی فلم ''سوہنی مہینوال‘‘ کیلئے دلکش موسیقی مرتب کی۔ سیف الدین سیف کے لکھے ہوئے پنجابی نغمات کو اے حمید نے اپنی سحر انگیز موسیقی کا جو لباس پہنایا وہ آج بھی فلمی موسیقی کی تاریخ کا زریں باب ہے۔ اے حمید پیانو بجانے میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔ اے حمید نے پونا فلم انسٹی ٹیوٹ میں موسیقی کے شعبے میں داخلہ لیا جہاں نامور موسیقار سی رام چندر اور استاد محمد علی نے انہیں تربیت دی تھی۔ اے حمید کی خوش قسمتی یہ تھی کہ انہیں فیاض ہاشمی، قتیل شفائی، سیف الدین سیف اور حبیب جالب جسے نغمہ نگار ملے۔ ان کی یادگار فلموں میں ''رات کے راہی، اولاد، سہیلی، پیغام، یہ امن، دوستی، سوہنی مہینوال، شریک حیات، ثریا بھوپالی، آواز، انگارے، بھروسہ، توبہ، بہن بھائی‘‘ اور دوسری کئی فلمیں شامل ہیں۔
اے حمید کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے پاکستانی فلموں کی سب سے مقبول فلمی قوالی ''نہ ملتا گر یہ توبہ کا سہارا ، ہم کہاں جاتے‘‘کمپوز کی تھی۔ اس سے قبل ہدایتکار ایس ایم یوسف کی اردو فلم ''اولاد‘‘ میں بھی اسی ٹیم کی گائی ہوئی قوالی ''حق ، لا الہ لا اللہ ، فرما دیا کملی والے ؐ نے‘‘بڑی مقبول ہوئی تھی۔اس کے علاوہ ہدایتکار اقبال یوسف کی اردو فلم ''عیدمبارک‘‘ کی محفل میلاد کو بھلا کون بھلا سکتا ہے۔ اے حمید کی بیشتر فلموں میں ایسے روحانی گیت ، قوالیاں وغیرہ عام ہوتی تھیں۔20 مئی 1991ء کو اے حمید کا راولپنڈی میں انتقال ہو گیا۔
چند دلچسپ حقائق
٭... پہلی فلم کی طرح موسیقار اے حمید کی آخری فلم ''ڈسکو دیوانے‘‘ کے ہدایتکار بھی جعفربخاری ہی تھے۔
٭...اے حمید نے ہدایتکار ایس ایم یوسف کی بیشتر فلموں کی موسیقی ترتیب دی تھی۔
٭...ایک سو سے زائد گیت نغمہ نگار فیاض ہاشمی سے لکھوائے۔
٭...زیادہ تر گیت میڈم نورجہاں ، مالا بیگم، مہدی حسن اور منیر حسین سے گوائے۔
٭...گلوکار اے نیئر کو دریافت کیا اور اردو فلم ''بہشت ‘‘(1974ء) میں روبینہ بدر کے ساتھ پہلا دوگانا ''یونہی دن کٹ جائیں ، یونہی شام ڈھل جائے‘‘گوایا تھا۔
٭...پاپ سنگر نازیہ حسن کو پہلی بار ہدایتکار حسن طارق کی اردو فلم ''سنگدل‘‘ (1982ء) میں گوایا تھا۔
مقبول عام گیت
٭کیا ہوا دل پہ ستم ، تم نہ سمجھو گے بلم(رات کے راہی)
٭ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے(سہیلی)
٭مکھڑے پہ سہرا ڈالے ، آجا او آنے والے (سہیلی)
٭کہیں دو دل جو مل جاتے، بگڑتا کیا زمانے کا (سہیلی)
٭نام لے لے کے تیرا ہم تو جئیں جائیں گے (فلم اولاد)
٭نہ ملتا گر یہ توبہ کا سہارا، ہم کہاں جاتے(توبہ)
٭چٹھی جرا سیاں جی کے نام لکھ دے(دوستی)
٭یہ وادیاں، یہ پربتوں کی شاہ زادیاں (دوستی)
٭کس نام سے پکاروں، کیا نام ہے تمہارا(غرناطہ)
٭ظلم رہے اور امن بھی ہو ، کیا ممکن ہے(یہ امن)
٭اب کہ ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں(انگارے)