مصنوعی ذہانت کی دنیا میں ایک انقلابی قدمموجودہ صدی کو اگر ''مصنوعی ذہانت‘‘کی صدی قرار دیا جائے تو یہ مبالغہ نہ ہوگا۔ دنیا بھر کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں جیسے گوگل، مائیکروسافٹ، اوپن اے آئی اور ایمازون، گزشتہ کئی برسوں سے اس میدان میں بھرپور سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ اب اس دوڑ میں میٹا (Meta) نے بھی ایک بڑا قدم اٹھایا ہے اور حال ہی میں کمپنی نے ایک نیا جنریٹیو آرٹیفیشل انٹیلی جنس (AI) ماڈل جاری کیا ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ ماڈل ''حقیقی دنیا کو سمجھنے کی صلاحیت‘‘ رکھتا ہے۔یہ محض ایک نیا سافٹ ویئر نہیں بلکہ ایک ایسا نظام ہے جو زبان، تصویر، ویڈیو اور انسانی رویوں کو ایک جامع انداز میں سمجھنے اور اس پر ردعمل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس مضمون میں ہم میٹا کے اس ماڈل کی خصوصیات، ساخت، ممکنہ فوائد، استعمال اور چیلنجز کا تفصیل سے جائزہ لیں گے۔'' جنریٹیو اے آئی‘‘ کیا ہے؟سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ''جنریٹیو اے آئی‘‘ (Generative AI)کیا ہوتا ہے؟ یہ ایسی مصنوعی ذہانت ہوتی ہے جو نئی معلومات یا مواد تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ ماڈلز صرف موجودہ ڈیٹا کو پڑھ کر فیصلے نہیں کرتے بلکہ وہ خود سے نیا مواد تخلیق کر سکتے ہیں، جیسے کہ خودکار تحریر یا مضمون نویسی، تصاویر اور آرٹ ورک بنانا، موسیقی ترتیب دینا، ویڈیو یا اینی میشنز کی تخلیق، چیٹ یا مکالمہ کرنا (مثلاً چیٹ بوٹس)۔اوپن اے آئی کا ماڈل ''جی پی ٹی 4‘‘(GPT-4) یا گوگل کا Gemini اسی طرز کی ٹیکنالوجی کی مثالیں ہیں۔ اب میٹا نے بھی اپنی خاص شناخت کے ساتھ میدان میں قدم رکھا ہے۔میٹا کا ماڈل: منفرد پہلومیٹا کے اس نئے اے آئی ماڈل کی سب سے اہم اور منفرد خوبی اس کی ''حقیقی دنیا کی تفہیم‘‘ ہے۔ کمپنی کے مطابق یہ ماڈل صرف الفاظ کا تجزیہ نہیں کرتا بلکہ یہ سیاق و سباق، انسانی رویہ، تصویری مناظر، آوازوں حتیٰ کہ حرکات و سکنات کو بھی سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اسے ''ملٹی ماڈل‘‘ بھی کہا جا رہا ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ مختلف ذرائع (متن، تصویر، آڈیو، ویڈیو) سے معلومات لے کر ایک جامع فہم پیدا کرتا ہے۔ مثلاً اگر کسی ویڈیو میں ایک شخص کسی مخصوص جذباتی لہجے میں بات کر رہا ہو، تو یہ ماڈل صرف الفاظ ہی نہیں بلکہ اس کے لہجے، چہرے کے تاثرات اور پس منظر کے حالات کو بھی مدنظر رکھتا ہے۔تربیت اور ڈیٹامیٹا نے اس ماڈل کو لاکھوں گھنٹوں پر مشتمل آڈیو ویژول ڈیٹا، اربوں الفاظ پر مبنی ٹیکسٹ ڈیٹا اور لاکھوں تصاویر کے ذریعے تربیت دی ہے۔ اس ماڈل کی خاص بات یہ ہے کہ اسے مشاہداتی ماحول میں تربیت دی گئی ہے، یعنی یہ صرف ڈیٹا کو حفظ نہیں کرتا بلکہ اسے ''دیکھنے، سننے اور سمجھنے‘‘ کی مشق دی گئی ہے۔ اس ماڈل کی تربیت میں مختلف انسانی سرگرمیوں، روزمرہ کے مشاہدات، طبی صورتحال، تعلیمی مواد، سائنسی ڈیٹا اور معاشرتی مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے۔ممکنہ استعمالمیٹا کے اس اے آئی ماڈل کا استعمال نہایت وسیع ہے، چند اہم شعبے درج ذیل ہیں۔ تعلیم : اساتذہ کیلئے خودکار تدریسی مواد تیار کیا جا سکتا ہے۔ طلباء کو ان کی ذہنی سطح اور دلچسپی کے مطابق سبق دیا جا سکتا ہے۔ صوتی اور بصری مواد کی مدد سے سیکھنے کا عمل مزید مؤثر ہو سکتا ہے۔ صحت کا شعبہ: ڈاکٹروں کو مریض کے مرض کا اندازہ لگانے میں معاونت، ایکسرے اور ایم آر آئی اسکین کی خودکار تشریح، ادویات کی تجاویز اور مریض کے سوالات کے فوری جوابات جیسی سہولیات فراہم کی جا سکتی ہیں۔ذرائع ابلاغ : اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں خودکار خبریں لکھنے، ویڈیوز کی تحریری خلاصہ بندی اور تجزیاتی رپورٹس کی تخلیق میں اس ماڈل سے مدد لی جا سکتی ہے۔ ورچوئل رئیلٹی اور گیمنگ :ایسا مصنوعی کردار تخلیق کیا جا سکتا ہے جو نہ صرف بات کرے بلکہ انسانی رویے کو محسوس کر کے جواب بھی دے۔ گیمز میں زیادہ فطری اور جذباتی کردار متعارف کرائے جا سکتے ہیں۔ ترجمہ اور زبان دانی : مختلف زبانوں کے بیچ درست اور معنوی ترجمہ ممکن ہو گا۔ علاقائی محاوروں، لہجوں اور ثقافتی انداز کو بہتر سمجھ کر ترجمہ کیا جا سکتا ہے۔ماہرین کی آرا : ماہرین کا کہنا ہے کہ میٹا کا نیا ماڈل مصنوعی ذہانت کے میدان میں ایک نئی نسل کی شروعات ہے۔ ڈاکٹر ارمغان سلیم، جنہیں مصنوعی ذہانت میں عالمی سطح پر تحقیق کا تجربہ ہے، کہتے ہیں: ''یہ ماڈل نہ صرف مشین کی ذہانت کو انسان کے قریب لاتا ہے بلکہ اسے انسانی معاشرت میں ضم کرنے کی بنیاد بھی رکھتا ہے‘‘۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ''ایسی ٹیکنالوجی کے ساتھ اخلاقی، سماجی اور قانونی پہلوؤں پر سنجیدہ توجہ دینا ضروری ہے۔ بصورت دیگر یہ طاقت نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتی ہے‘‘۔خدشات اور چیلنجزجہاں یہ ٹیکنالوجی بے پناہ فوائد رکھتی ہے، وہیں اس کے کچھ سنجیدہ چیلنجز بھی ہیں۔ڈیپ فیک مواد: جعلی ویڈیوز، تصاویر یا آوازیں بنا کر گمراہ کن پروپیگنڈا پھیلایا جا سکتا ہے۔پرائیویسی کا مسئلہ: اگر یہ ماڈل مشاہداتی ڈیٹا سے تربیت پاتا ہے تو اس میں ذاتی معلومات شامل ہو سکتی ہیں۔روزگار کا خاتمہ: اگر انسانی کام اے آئی کرے تو لاکھوں افراد بے روزگار ہو سکتے ہیں۔سماجی تفریق: اگر یہ ٹیکنالوجی صرف چند طاقتور اداروں کے ہاتھ میں ہو تو غریب یا پسماندہ معاشروں کا استحصال بڑھ سکتا ہے۔حکومت اور پالیسی سازوں کی ذمہ داریضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتیں، تعلیمی ادارے اور پالیسی ساز ادارے اس ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کے منفی اثرات سے بچاؤ کیلئے قوانین، اخلاقی ضابطے اور تربیتی پروگرام متعارف کروائیں۔ ورنہ یہ ٹیکنالوجی ایک آفت بھی بن سکتی ہے۔نتیجہمیٹا کا نیا جنریٹیو اے آئی ماڈل مصنوعی ذہانت کے میدان میں ایک تاریخی قدم ہے۔ یہ صرف ایک نیا سافٹ ویئر نہیں بلکہ مستقبل کی شکل بدلنے والا ایک انقلابی آلہ ہے۔ اگر اسے دانشمندی سے استعمال کیا جائے تو یہ تعلیم، صحت، میڈیا اور دیگر شعبوں میں ایک مثبت انقلاب برپا کر سکتا ہے۔ تاہم اگر اس کی نگرانی اور قانون سازی نہ کی گئی، تو یہ معاشرتی توازن کو بگاڑنے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اس ٹیکنالوجی کو صرف حیرت انگیز ایجادات کے طور پر نہ دیکھیں، بلکہ اس کی فکری، اخلاقی، اور سماجی اثرات پر بھی سنجیدگی سے غور کریں۔