ڈاونچی کوڈ کے مصنف ڈین براؤن کے تازہ ناول Inferno کا شہرہ

ڈاونچی کوڈ کے مصنف ڈین براؤن کے تازہ ناول Inferno کا شہرہ

اسپیشل فیچر

تحریر : سید ابوالہاشم


امریکی ادیب ڈین براؤن کا لکھا ہوا تازہ ناول(انفیرنوInferno) آج کل جرمن جریدے ڈیئر اشپیگل کی تفریحی ادب کی بیسٹ سیلر فہرست میں سب سے اُوپر جا رہا ہے۔ اس میں اُنھوں نے عالمی آبادی میں ہونے والے خطرناک اضافے کو موضوع بنایا ہے۔اس ناول کی تشہیر کے سلسلے میں ڈین براؤن نے گزشتہ دنوں جرمنی بھی گئے ہوئے تھے، جہاں اُنھوں نے کولون میں منعقدہ ایک خصوصی تقریب میں اپنے اس ناول میں سے اقتباسات بھی پڑھ کر سنائے۔ یاد رہے کہ ڈین براؤن کا شمار دنیا بھر میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ادیبوں میں ہوتا ہے۔ ڈین براؤن کا تازہ ناولInferno مئی کے وسط میں منظر عام پر آیا تھا جب کہ وہ مئی کے اواخر میں کولون گئے۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ ڈین براؤن کسی عوامی اجتماع میں شریک ہوں۔ کولون میں منعقدہ تقریب جرمنی بھر میں واحد تقریب تھی، جس میں وہ شریک ہوئے۔اس موقع پر اُنھوں نے بتایا کہ آج کل ہر روز عالمی آبادی میں دو لاکھ انسانوں کا اضافہ ہو رہا ہے اور یہ کہ اُن کی نظر میں آج کل دنیا کا سب سے بڑا اور خطرناک مسئلہ آبادی میں تیزی سے ہوتا ہوا یہی اضافہ ہے۔ ڈین براؤن نے اپنے اس تازہ سنسنی خیز ناول میں اسی موضوع پر قلم اُ ٹھایا ہے۔اپنے اس ناول میں ڈین براؤن نے اس عالمی مسئلے کو دانتے کی ’ڈیوائن کامیڈی‘ میں بیان کیے گئے دوزخ کے منظر نامے سے مربوط کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’عالمی آبادی میں حد سے زیادہ اضافے کے بارے میں پڑھتے پڑھتے اچانک مجھے محسوس ہوا کہ دانتے نے دوزخ کا جو نقشہ کھینچا ہے، وہ ہمارے مستقبل سے کافی ملتا جلتا ہے چناں چہ مجھے ایک ایسا ولن تخلیق کرنے کا خیال آیا، جو دانتے کے تصورات کو محض ایک کہانی کے طور پر نہیں بل کہ ایک پیش گوئی کے طور پر لیتا ہے‘‘۔ ناولInferno کے واقعات زیادہ تر اطالوی شہر فلورینس میں پیش آتے ہیں، جو کہ دانتے کا شہر رہا۔ اسی شہر میں ڈین براؤن اپنے اس ناول کے سلسلے میں تحقیق بھی کرتے رہے ہیں۔ڈین براؤن خود کو ایک محتاط اور ہجوم سے گریزاں شخص قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اُن کی کتابوں کا اولین مقصد قاری کو تفریح فراہم کرنا ہوتا ہے، لیکن اُن کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے ناولوں کے لیے کسی اہم موضوع کا انتخاب کریں۔ ڈین براؤن کے مطابق ’’جب لوگ ناولوں میں بیان کیے گئے مقامات اور فنی شاہکاروں میں دلچسپی لیتے ہیں ،تو اُنھیں اور بھی زیادہ خوشی ملتی ہے‘‘۔ امریکی ادیب ڈین براؤن کا کہنا ہے ’’اُن کی کتابوں کو ملنے والی بے پناہ کامیابی سے اُن کی زندگی میں کوئی زیادہ تبدیلی نہیں آئی ہے، ہاں اتنا ضرور ہوا ہے کہ اُنھوں نے اپنی اہلیہ کے ساتھ مل کر شہر سے دُور دیہی علاقے میں ایک خوبصورت گھر ضرور بنایا ہے‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ اپنی کتاب ’’ ڈا ونچی کوڈ‘‘ کی اشاعت کے برسوں بعد بھی وہ اپنی پرانی کار ہی استعمال کر رہے ہیں: ’’مَیں اور میری بیوی، ہم دو ایسے انسان ہیں، جنھیں آرٹ اور فن تعمیر سے دلچسپی ہے، ہمیں کاروں، زیورات اور اس طرح کی چیزوں کا کوئی شوق نہیں‘‘۔واضح رہے کہ ڈین براؤن کی کتاب ’’ ڈا ونچی کوڈ‘‘ نے پوری دنیا میں زبردست شہرت حاصل کی ہے، اس ناول پر فلم بھی بنائی گئی ہے۔ کولون میں اپنے تازہ ناول کے حوالے سے ڈین براؤن کا کہنا تھا: ’’اس کتاب کو تحریر کرنے میں تین سال سے کچھ زیادہ عرصہ لگا ہے تاہم ’ ڈاونچی کوڈ‘ کی کامیابی کے بعد مجھے ایسے بہت سے خفیہ مقامات کا پتا چلا ہے، جن کا مجھے پہلے علم نہیں تھا‘‘۔اپنی کتابوں میں ڈین براؤن نے جس انداز سے مسیحیت کو پیش کیا ہے، اُس پر ویٹی کن کے نمایندے اُن سے کافی ناراض ہیں۔ خود براؤن ہرگز نہیں سمجھتے کہ مذہب اور سائنس کے درمیان کوئی تضاد پایا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جتنا زیادہ اُنھوں نے الجبرا یا طبیعیات پر غور کیا ہے، اتنا زیادہ اُن پر مذہبی جہات کے دَر وَا ہوتے چلے گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’ آج کل اُنھیں اس بات کا یقین ہے کہ سائنس اور مذہب در حقیقت دو مختلف زبانیں ہیں، جو ایک ہی کہانی بیان کرتی ہیں، یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں، دشمن نہیں‘‘۔ڈین براؤن 1964ء میں امریکی ریاست نیو ہیمپشائر میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد الجبرا کے پروفیسر تھے جب کہ والدہ موسیقار تھیں۔ ہنگامہ خیز ناولوں سے شہرت پانے سے پہلے اُنھوں نے انگریزی زبان کے اُستاد کے طور پر کام کیا۔ اپنے سنسنی خیزی، سائنسی اور تاریخی موضوعات اور سازشی نظریات سے عبارت ناولوں کی وجہ سے وہ پوری دنیا میں گزشتہ چند عشروں کے کامیاب ترین ادیبوں میں شمار ہوتے ہیں۔٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
یادرفتگاں: قاضی واجد چھوٹی سکرین کا بڑا اداکار

یادرفتگاں: قاضی واجد چھوٹی سکرین کا بڑا اداکار

انہوں نے خود کو مثبت اور سنجیدہ کرداروں تک محدود نہیں کیا، منفی اور مزاحیہ کردار بھی عمدگی سے نبھائے شائد ہی کوئی ہو گاجو اداکار قاضی واجد کے چہرے سے شناسانہ ہو۔ نو عمر،جوان اور بزرگ تمام عمروں کے افراد ان سے کم یا زیادہ واقف ضرور ہیں۔ وہ اس پرانی نسل کی حسین یادوں کا حصہ ہیں جس نے پاکستانی ڈرامے کی شہرت کا عروج دیکھا۔ وہ وقت جب ایک چینل اور محلے کے چند گھروں میں بلیک اینڈ وائٹ ٹیلی ویژن ہوا کرتا تھا اور ڈرامے کی شروعات کے ساتھ گھروں کے اندر اور باہر سناٹا چھا جایا کرتا تھا۔ قاضی واجد ایک شاندار فنکار ہی نہیں تھے بلکہ تہذیب، شائستگی، احترام، عاجزی اور نرم دلی بھی ان کے تشخص کی پہچان تھی۔ وہ ہر کسی سے ایسے ملتے جیسے برسوں کی شناسائی ہو۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن، قلم اور تھیڑ سے ان کا یارانہ بہت پرانا تھا۔قاضی واجد 1930ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔قاضی واجد کا اصل نام قاضی عبدالواجد انصاری تھا،ابتدائی تعلیم لاہور سے ہی مکمل کی۔ بعدازاں کراچی منتقل ہو گئے۔ انہوں نے 10 برس کی عمر میں اپنے فنی کریئر کا آغاز کیا اور پہلی مرتبہ بچوں کے پروگرام ''نونہال‘‘ میں صدانگاری کے جوہر دکھائے۔ دوسرا پروگرام ''قاضی جی کا قاعدہ‘‘ کیا۔ جب انہوں نے رتن کمار کی بچوں کی فلم ''بیداری‘‘ کی تو ٹائٹل کیلئے ان کے طویل نام کو مختصر کیا گیا اور اس طرح وہ قاضی واجد کے نام سے پہچانے جانے لگے۔قاضی واجد کو 1967ء میں ٹی وی سے وابستہ ہوئے اور اس کے بعد سکرین سے ان کا رشتہ تاحیات قائم رہا۔ یہیں سے ان کے کریئر کو صحیح معنوں میں عروج ملا۔ ان کا ٹی وی کیلئے پہلا ڈرامہ پروڈیوسر عشرت انصاری کا'' ایک ہی راستہ ‘‘تھا، جس میں انہوں نے منفی کردار نبھایا۔ 1969ء میں نشر ہونے والے ڈرامہ سیریل ''خدا کی بستی‘‘ نے قاضی واجد کو کامیابی اور شہرت کی نئی بلندیوں تک پہنچایا اور ''راجا‘‘ کے کردار نے انہیں ایک نئی پہچان دی۔ ٹیلی ویژن پر قاضی واجد کے نبھائے گئے کرداروں میں بہت تنوع تھا اور ان کا شمار کرنا خاصا مشکل ہے۔ بعض ڈراموں میں ان کے کرداروں نے بے مثال شہرت پائی اور انہیں آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ان ڈراموں میں ''دھوپ کنارے، تنہائیاں، حوا کی بیٹی، خدا کی بستی، کرن کہانی، آنگن ٹیڑھا، تعلیم بالغاں، پل دو پل اور انار کلی‘‘ قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے خود کو مثبت اور سنجیدہ کرداروں تک محدود نہیں کیا، بلکہ منفی کردار بھی ادا کئے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ قاضی واجد نے اپنے پورے فنی کرریئر میں کبھی ہیرو کا کردار ادا نہیں کیا، وہ ہمیشہ اپنے لیے معاون کردار کو ترجیح دیتے تھے اور انہی کرداروں کو اپنی جاندار اداکاری کے ذریعے امر کردیتے تھے۔ نجی ٹی وی چینلز کی آمد کے بعد ان کا شمار ان فنکاروں میں ہوتا تھا جنہوں نے نئے ماحول کے ساتھ مطابقت پیدا کی اور ساتھ ہی فن کے معیار پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے کریئر میں جو بھی کام کیا اس سے انصاف کرتے دکھائی دیے۔ وہ مثبت کرداروں میں بھی اسی طرح ڈوب کر اداکاری کرتے جس طرح منفی میں۔ ان کے منفی کرداروں میں حقیقت کا گمان ہوتا۔ حکومت پاکستان کی جانب سے 1988ء میں قاضی واجد کو ''صدارتی تمغہ برائے حسن‘‘ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔ ان کی صاحبزادی فضیلہ قیصر بھی اداکاری کے شعبے سے وابستہ ہوئیں۔ قاضی واجد ادبی محفلوں میں بھی شرکت کیا کرتے تھے کیونکہ انہیں اُردو ادب سے خاصا لگائو تھا۔ وہ الفاظ اور جملوں کو بہت خوبی سے ادا کرتے تھے۔ قاضی واجد ذیابیطس اور بلڈپریشر کے مرض میں مبتلا تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے خود کو چاک و چوبند رکھا ہوا تھا اور ہشاش بشاش دکھائی دیتے تھے۔قاضی واجد کے ساتھی اداکاروں کا کہنا ہے کہ وہ عکس بندی کے دوران ہمیشہ نرمی سے پیش آتے اور ہر کردار کو تیزی سے سمجھ لیا کرتے تھے۔ قاضی واجد اپنے کام سمیت دوستوں اور احباب کے ساتھ بڑے مخلص تھے اور کہتے تھے کہ میرے کامیاب ڈراموں کی بنیاد 'میں‘ پر نہیں بلکہ 'ہم‘ پر ہے۔ایک مرتبہ ان سے ایک ساتھی نے پوچھا کہ آپ تو ٹیلی ویژن کے خوش شکل آدمی ہیں تو پھر خواتین آپ کی طرف متوجہ کیوں نہیں ہوتیں جس پر انہوں نے بے باکی سے جواب دیا کہ اس میں ایک تو خواتین کا قصور ہے اور دوسرا میں نے کبھی ایسا کوئی کردار نہیں کیا، جس سے وہ متوجہ ہوجائیں۔ اگر ان کی محنت کا احاطہ کیا جائے تو یہ آدھی صدی سے زیادہ کی ریاضت بنتی ہے۔فروری 2018ء کی 11 تاریخ کو قاضی واجد ہم سے بچھڑ گئے، ان کی وفات سے پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کا ایک عہد اختتام پذیر ہوگیا لیکن ان کی بے مثال شخصیت، جاندار اداکاری اور خدادادصلاحیتیں کبھی فراموش نہیں کی جاسکتیں۔ وہ ایک شاندار انسان اور ایک بے مثال فنکار تھے، ایسی شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں، جن کا خلاء کبھی پر نہیں ہوسکتا۔ مقبول ڈرامے''دھوپ کنارے‘‘، '' تنہائیاں‘‘، '' حوا کی بیٹی‘‘'' خدا کی بستی‘‘، '' کرن کہانی‘‘، ''آنگن ٹیڑھا‘‘ ''تعلیم بالغاں‘‘، ''پل دو پل‘‘ ، 'انار کلی‘‘   

چکنائی جسم کیلئے مفید یا نقصان دہ!

چکنائی جسم کیلئے مفید یا نقصان دہ!

ہم اکثر یہ سنتے ہیں کہ کھانے میں چکنائی کا استعمال کم کر دو، چکنائی کھانا چھوڑ دو، کولیسٹرول بڑھ گیا ہے، موٹاپا آ گیا ہے، خون میں چربی بڑھ گئی ہے۔ کبھی کبھی تو یہ چربی دماغ پر بھی چڑھ جاتی ہے۔ یہ غذا میں شامل چکنائی یا چربی آخر ہوتی کیا ہے؟ کتنی اقسام کی ہوتی ہے اور کیا اتنی ہی بری ہوتی ہے جتنا کہ سمجھی جاتی ہے؟چکنائی یا چربی جسے انگریزی میں فیٹ اور سائنسی اصطلاح میں لیپیڈ یا فیٹی ایسڈز کہا جاتا ہے، یہ ہماری روزمرہ کی غذا کا ایک اہم حصہ ہے اور ہمیں اس کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ یہ ہمارے جسم کیلئے فیول یا توانائی فراہم کرتی ہے، جسمانی خلیات کی تعمیر کرتی ہے اور ہماری جلد کو صحت مند رکھنے کیلئے بھی ضروری ہے۔ یہ خون کے پٹھوں کی تحریک اور سوزش کیلئے بھی فائدہ مند ہے۔ انسانی جسم کو صحت مند اور دماغ اور عضلات کے افعال کو درست رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ وٹامنز اور مختلف نمکیات کو جذب کرنے میں مدد دیتی ہے۔ ہمارے جسم کی حرارت کو قابو کرنے اور اسے گرم رکھنے میں بھی مدد دیتی ہے۔ چکنائی ہمیں حیواناتی اور نباتاتی دونوں ذرائع سے حاصل ہوتی ہے۔ حیواناتی ذرائع میں گوشت کی چربی، مکھن، دیسی گھی، بالائی پنیر، انڈے کی زردی اور مچھلی کے جگر کا تیل وغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ نباتاتی ذرائع میں اناجوں، سبزیوں اور بیجوں سے حاصل ہونے والے تمام قسم کے تیل مثلاً مکئی، سرسوں، ناریل، سویا بین، سورج مکھی کے بیج، بنولے، مونگ پھلی اورتلوں کے تیل کے علاوہ بادام روغن اور روغن زیتون وغیرہ شامل ہیں۔ ہمارے جسم میں روغنیات کے مندرجہ ذیل افعال ہیں۔قوت اور حرارت کی فراہمیروغنیات کا سب سے پہلا اوراہم کام جسم کو خوراک کے عام سے ذرائع سے قوت اور حرارت کی کثیر مقدار فراہم کرنا ہے، تاکہ اس میں تمام ارادی اور غیرارادی افعال کی انجام دہی کی صلاحیت پیدا ہو سکے۔ خوراک کے تمام اجزاء میں سے چکنائی ہی ایک ایسا جزو ہے، جس کی تھوڑی سی مقدار بھی نہایت فراوانی سے قوت اور حرارت عطا کرتی ہے۔ مثلاً روغن کا ایک گرام جسم کو توانائی کے نو حرارے فراہم کرتا ہے، جو کاربوہائیڈریٹ اور پروٹین کے ایک گرام کے مقابلے میں دگنا سے بھی زیادہ ہے۔ چوٹوں سے تحفظ چکنائی ہمارے جسم میں دو کام کرتی ہے۔ ایک تو یہ جسم کو قوت اور حرارت کا ذخیرہ فراہم کرتی ہے۔ جس سے خوراک میں کمی کی صورت میں بھی جسمانی افعال میں قوت اور حرارت کی ترسیل بحال رہتی ہے اور دوسرے اندرونی اعضا کے گرد چربی کی تہہ جسم کو متعدد قسم کے صدمات اور چوٹوں سے محفوظ رکھنے کا کام بھی کرتی ہے۔ چہرے کو خوبصورت و دلکش بنائےچکنائی چربی کی تہہ کی صورت میں ہڈیوں اور گوشت کو غلاف مہیا کرتی ہے۔ اس طرح چہرے اور جسم کو گداز ، سڈول اور خوبصورت و دلکش بنانے کے ساتھ وزن بڑھانے کا کام بھی کرتی ہے۔ شکم سیریجلدی ہضم نہ ہونے کی وجہ سے خوراک کو دیر تک معدے میں رکھتی ہے اور شکم سیری کرتی ہے، جس سے معدے کو تسکین ملتی ہے اور بھوک جلدی نہیں لگتی۔ مثلاً سوکھی روٹی کی بجائے پراٹھا کھانے سے دیر سے بھوک لگتی ہے۔ اس لیے کھیلنے کودنے اور سکول یا کالج جانے والوں کو ناشتے میں پراٹھا کھانا چاہیے۔ وٹامنز کا خزانہچکنائیوں میں چونکہ حیاتین ''الف‘‘ (وٹامن اے)، حیاتین ''د‘‘ (وٹامن ڈی)، حیاتین ''ی‘‘ (وٹامن ای) اور حیاتین ''ک‘‘ (وٹامن K ) موجود ہوتے ہیں، جو ناخن، جلد، دانتوں اور ہڈیوں کیلئے لازمی ہیں۔ اس لیے یہ نہ صرف ذائقے بلکہ غذائیت کے اعتبار سے بھی نہایت اہم ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ان میں ہی کولیسٹرول نامی مادہ پایا جاتا ہے جو ہمارے جسم کے ہر خلیے، حتیٰ کہ دماغی خلیات کیلئے بھی لازمی ہوتا ہے۔لبریکیشن کا کام یہ ہمارے ناخنوں، بالوں، جلد اور دانتوں میں چمک پیدا کرنے کے لیے لازمی ہے۔ اس کے علاوہ اندرونی اعضا اور بیرونی جلد پر ایک باریک سی جھلی نما تہہ پیدا کر کے اندرونی اعضا کو رگڑ سے محفوظ رکھنے (لبریکیشن) کا کام کرتی ہے۔ انہیں مرطوب رکھتی ہے اور چہرے اور بدن کو سردی میں خشک ہوکر پھٹنے سے بھی بچاتی ہے۔ خوراک کو خوش ذائقہ بنائےچکنائی ہمارے روزمرہ کے کھانوں کو خوش ذائقہ بنانے کے ساتھ ساتھ اس میں خوشبو بھی پیدا کرتی ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کونسی چربی یا چکنائی اچھی ہے اور کونسی بری؟میڈیکل سائنس نے چکنائی کو چار اقسام میں تقسیم کیا ہے۔سچورییٹد فیٹس: مرغی، انڈے، مکھن، گھی، چیز، دودھ، کریم، گوشت اور گری دار میوے۔ یہ زیادہ مقدار میں اچھے نہیں ہوتے۔ مونو ان سیچورییٹد فیٹس: یہ وہ چکنائیاں ہیں جو کولیسٹرول میں براہ راست اضافہ نہیں کرتیں مثلاً زیتون کا تیل ، کینولا، مونگ پھلی ، تل کا تیل، گری دار میوہ، پی نٹ بٹر ، خشک میوہ جات اور بیج۔ یہ مناسب مقدار میں لیں تو صحت کیلئے محفوظ ہیں۔پولی ان سیچو رییٹد فیٹس: یہ سب سے زیادہ فائدہ مند فیٹس ہوتے ہیں اور اگر مناسب مقدار میں لئے جائیں تو برے کولیسٹرول میں براہ راست اضافہ نہیں کرتے بلکہ اچھے کولیسٹرول کو بڑھاتے ہیں اور اومیگا فیٹی ایسڈز بھی ان ہی میں شامل ہیں جیسے اخروٹ، سورج مکھی کے بیج۔ مچھلی، مکئی کا تیل۔ زیتون کا تیل اور سویا بین وغیرہ۔ٹرانس فیٹس: یہ دو طرح کی ہوتی ہے۔ قدرتی ٹرانس فیٹ جو دودھ، پنیر اور گوشت میں ہوتی ہے برے کولیسٹرول میں اضافہ نہیں کرتی ہے۔ تاہم مصنوعی ٹرانس فیٹ انسانی صحت کیلئے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

نیلسن منڈیلا کی 27سال بعد رہائینیلسن روہیلا منڈیلا18جولائی 1918ء کو جنوبی افریقہ میں پیداہوئے۔ وہ جنوبی افریقہ کے پہلے جمہوری صدر بھی تھے۔ نیلسن منڈیلا1994ء سے1999تک برسر اقتدار رہے۔جنوبی افریقہ میں سیاہ فام لوگوں سے برتے جانے والے نسلی امتیار اور نامناسب سلوک کے خلاف انہوں نے تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔ تحریک میں حصہ لینے کی وجہ سے جنوبی افریقہ کی عدالتوں میں نیلسن منڈیلا کے خلاف متعدد مقدمات دائر کردئیے گئے جس کے بعد انہیں قید با مشقت کی سزا سنائی گئی۔نیلسن منڈیلا 11فروری 1990ء کو 27سال قید کاٹنے کے بعد رہا ہوئے۔رہائی کے بعد انہوں نے تحریک کو خیرباد کہتے ہوئے مذاکرات کا راستہ اپنانے کا فیصلہ کیا۔سزائے موت کی معطلی11فروری2014ء کو ریاستہائے متحدہ امریکہ کی ریاست واشنگٹن میں سزائے موت کے اطلاق کو معطل کر دیا گیا۔یہ فیصلہ ریاست واشنگٹن کے ڈیموکریٹک گورنر جے انسلی کی جانب سے کیا گیا۔انسلی نے سزائے موت معطل کرنے کے فیصلے کی وجہ یہ بتائی کہ میرے مطابق سزائے موت کا استعمال غیر منصفانہ اور متضاد طریقے سے کیا جاتا ہے اور وہ ہر اس کیس میں مہلت اور رعایت دیں گے جس میں سزائے موت کا مطالبہ کیا جائے گا۔کمپیوٹر وائرساینا کورنیکووا جسےVBS Kalamarکے نام سے بھی جاناجا تا ہے ایک کمپیوٹر وائرس تھا۔جسے11فروری2001ء میں انٹرنیٹ کے ذریعے پوری دنیا میں پھیلا دیا گیا۔وائرس پروگرام ایک ای میل میں موجود ہوتا تھا جس میں ٹینس کھلاڑی ایناکورنیکووا کی تصویر بھی لگائی جاتی تھی۔یہ وائر س 20سالہ ڈچ طالب علم جان ڈی وٹ نے بنایا تھا۔11فروری2001ء کو اسےOn The Flyکا نام دیا گیا۔اس پروگرام کا ای میل استعمال کرنے والے صارفین کو دھوکہ دینے کیلئے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ ای میل استعمال کرنے والا شخص جیسے ہی اٹیچمنٹ پر کلک کرتا تھا تو وائرس اس کے کمپیوٹر یا ای میل میں موجود ڈیٹا بک میں منتقل ہو جاتا تھا۔ جاپان خلائی طاقت بنا11فروری1970ء میں جاپان نے اپنا پہلا سیٹلائٹ اورشومی لانچ کیا جسے دنیا بھر انقلابی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔اس کامیاب تجربے کے بعد جاپان دنیا کی چوتھی خلائی طاقت بن کر ابھرا۔ اس سے قبل سوویت یونین1957ء میں ، ریاستہائے متحدہ امریکہ1958ء میں اور فرانس1965ء میں خلاء تک رسائی کے کامیاب تجربات کر کے خلائی تحقیق کی دنیا میں اپنا مقام بنا چکے تھے۔   

یادرفتگاں: امجد اسلام امجدایک ہمہ جہت شخصیت

یادرفتگاں: امجد اسلام امجدایک ہمہ جہت شخصیت

بطور شاعر، ادیب،ڈرامہ نویس اور کالم نگار خدمات ناقابل فراموش اردو شاعری ہو یا نثر، تدریس کا شعبہ ہو یا ہو کالمز لکھنے کی بات ،امجد اسلام امجد اپنے فن میں ماہر اور ایک عہد کی حیثیت رکھتے تھے۔ان کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ وہ ان معدودے چند ادیبوں میں شامل تھے جو دنیا بھرمیں پاکستان کی شناخت ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ امجد اسلام امجد 4اگست 1944ء کو لاہور میں پیدا ہوئے، وہ سات بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ ان کی فیملی دستکاری کے کاروبار سے وابستہ تھی اور ان کی فیملی میں پڑھنے لکھنے کا زیادہ رواج نہیں تھا، میٹرک کے بعد مرد حضرات کاروبار سے وابستہ ہو جاتے تھے۔وہ اپنے خاندان کے پہلے فرد تھے جس نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔امجد اسلام امجد نے میٹرک مسلم ماڈل ہائی سکول لاہور سے کیا۔ بی اے کی ڈگری اسلامیہ کالج لاہور سے حاصل کی۔ ایم اے اُردو 1967ء میںاورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی سے کیا۔انہوں نے اپنے پروفیشنل کریئر کا آغاز 1968ء میںشعبہ تدریس سے کیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ دو مختلف ادوار میں ایم اے او کالج لاہور کے شعبہ اردو سے وابستہ رہے۔ 1975ء سے 1979ء تک چار سال بطور ڈائریکٹر پنجاب آرٹس کونسل کام کیا۔ اُردو سائنس بورڈ، چلڈرن لائبریری کمپلیکس اور ٹیکسٹ بک بورڈ کے ڈائریکٹر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ ان کا پڑھنے کی طرف رجحان بچپن سے ہی تھا۔ لاہور کے علاقے فلیمنگ روڈ پر جہاں وہ رہتے تھے یہ لوئر مڈل کلاس کا علاقہ تھا۔ یہاں عالم دین فاضل آقا محمد بیدار بخت کا ایک ادارہ ہوا کرتا تھاجس میں وہ عالم فاضل کا کورس کراتے تھے۔ امجد اسلام امجد کو پڑھنے کا شوق ان کے گھر سے ہی بیدار ہوا۔ اس وقت ان کی عمر 8 یا 9سال تھی۔ اس زمانے میں ان کی پڑھنے کی اتنی رفتار تھی کہ ابنِ صفی کا 112صفحے کا ناول سڑک پر چلتے ہوئے مکمل پڑھ لیتے تھے۔انہوںنے اپنی زندگی کے اوّلین سالوں یعنی میٹرک سے بی اے تک کبھی کرکٹر کے علاوہ کچھ اور بننے کا سوچا بھی نہیں تھا لیکن قسمت نے ایسا پلٹا کھایا کہ ایک ایسا نوجوان جو اسلامیہ کالج کا کلر ہولڈر رہا تھا اور جس نے 12 سال بعد گورنمنٹ کالج کو شکست دی تھی، وہ کرکٹ سے دور ہو گیا۔بی اے کا امتحان ہوا تواُردو میں انہیں سکالر شپ مل گیا۔ ان کی فیملی کے چونکہ معاشی حالات اچھے نہیں تھے اور وہ فیملی میں سب سے بڑے تھے اس لئے انہوں نے کرکٹ کو خیرباد کہہ کر اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی جانے کو ترجیح دی، ففتھ ایئر میں ''لٹریری سوسائٹی‘‘ پنجاب یونیورسٹی کے چیئرمین بنے اور یہیں سے ان کا ادبی سفر شروع ہوا۔6thایئر میں پنجاب یونیورسٹی کے میگزین ''محور‘‘ کے ایڈیٹر بن گئے۔ایم اے اردو میں انہوں نے ٹاپ کیا، اور ایم اے کرنے کے ٹھیک پندرہ دن بعد انہیں بحیثیت لیکچرر نوکری بھی مل گئی۔ان کاپہلا مجموعہ کلام'' برزخ‘‘ 1974ء میں شائع ہوا۔ ان کی کم و بیش 70 کتب اشاعت پذیر ہو چکی ہیں۔ ''ریشم ریشم‘‘ ان کے سفر چین کی روداد ہے۔ اس سے پہلے امریکہ، برطانیہ اور ہندوستان کا سفر نامہ ''شہر در شہر‘‘ کے نام سے چھپ چکا ہے۔اردو طنز و مزاح میں امجد اسلام امجد کے ڈراموں کی کتاب ''یانصیب کلینک‘‘ خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ ڈرامہ لکھنے کا کریئر انہوں ریڈیو سے شروع کیا۔ ریڈیو سے چونکہ وابستگی ہو چکی تھی اس لئے ڈرامے سے معمولی سی شد بد ضرور تھی۔ جب ٹی وی کی طرف آنے کی کوشش کی تو اس دور میں نئے آدمی کیلئے وہاں جگہ بنانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ ٹیلی ویژن سے اتنے سینئر اور قابل لوگ وابستہ تھے کہ سارا وقت انہی میں پورا ہو جاتا تھا۔ اشفاق احمد اور منّو بھائی جیسے لوگوں کی موجودگی کی وجہ سے ٹی وی کے انتظامی لوگ بھی ان جیسے نئے لکھنے والوں کو زیادہ لفٹ نہیں کراتے تھے۔ اس لئے ٹی وی پر شروع شروع میں انہیں اچھے خاصے دھکے کھانے پڑے۔پانچ سال تک انہوں نے ٹی وی کیلئے بہت کچھ لکھا جس میں سے ان کے لکھے ہوئے چھوٹے موٹے گیت وغیرہ تو چل جاتے تھے مگر ڈرامہ کسی نے نہیں لکھوایا۔ان کا لکھا ہوا پہلا ڈرامہ 73 19ء میں ٹی وی سے نشر ہوا۔1974ء میں ساحرہ کاظمی جو اُس دور میں ساحرہ انصاری ہوتی تھیں بطور گیسٹ پروڈیوسر کراچی سے لاہور آئیں۔ ''انٹرنیشنل ویمن ایئر‘‘ کی مناسبت سے انہوں نے ٹیلی ویژن کیلئے ''حوا‘‘ کے نام سے ایک سیریز شروع کی جس کے ایگزیکٹو پروڈیوسر غفران امتیازی تھے۔ پروڈیوسر ساحرہ نے ان سے سیریزکیلئے ''برزخ‘‘ کے نام سے ایک ڈرامہ لکھوایا۔ اسی سلسلے میں ''موم کی گڑیا‘‘ کے نام سے دوسرا ڈرامہ بھی ان کا ہی لکھاہوا تھا۔ انہوں نے 1980ء اور 1990ء کی دہائی میں سرکاری ٹی وی کیلئے متعدد ایسے ڈرامے تحریر کیے جنہوں نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کئے۔ یہ وہ ڈرامے ہیں جو شاید ہی کبھی ناطرین کے ذہنوں سے محو ہو سکیں۔ ان میں وارث، دہلیز، سمندر، وقت، رات، فشار، دن، ایندھن نمایاں ہیں۔امجد صاحب کی آ زاد نظم میں ایک خاص نغمگی ہے، انہوں نے آ زاد نظم میں وہی راستہ اختیار کیا جو ن م راشد،مجید امجد،احمد ندیم قاسمی اور منیر نیازی کا راستہ ہے۔ ان کی نظمیں اپنی موسیقیت ہی کی وجہ سے مقبول ہوئیں۔شاعری اور ڈرامہ نگاری میں منفرد پہچان رکھنے والے امجد اسلام امجد مختلف اخبارات میں کالم نگاری بھی کرتے تھے۔ 10فروری کو ان کا انتقال رات سوتے ہوئے ہوا، صبح جب انہیں جگانے کی کوشش کی گئی تو ان کا انتقال ہو چکا تھا۔تصانیفاسباب (حمد، نعت، سلام)، عکس(جدید عربی نظموں کے تراجم)، کالے لوگوں کی روشن نظمیں (افریقی شعراء کے کلام کا ترجمہ)، خواب سمندر (منتخب کالم)، ہر دن نیا دن (کالموں کا مجموعہ)، تیسرے پہر کی دھوپ(کالموں کا مجموعہ)، کوئی دن اور(کالموں کا مجموعہ)شہر در شہر(سفر نامہ)، گیت ہمارے (2014ء)، میرے بھی کچھ خواب ہیں ، نئے پرانے (1991ء)، وارث (1980ء)، ہم اس کے ہیں۔شعری مجموعےبرزخ(1974)، فشار(1982ء)، ساتواں در(1982ء) ،بارش کی آواز، شام سرائے، اتنے خواب کہاں رکھوں، نزدیک، یہیں کہیں، سحر آثار، ساحلوں کی ہوا، محبت ایسا دریا ہے، اُس پار، رات سمندر میں، زندگی کے میلے میں، پھر یوں ہوا، باتیں کرتے دن۔اعزازاتاردو ادب میں نئی جہتوں کے کے موجد امجد اسلام امجد کو ان کی ادبی خدمات پر بہت سے نیشنل اور انٹرنیشنل ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا گیا۔ حکومت پاکستان نے انہیں 1987ء میں ''صدارتی تمغہ حسنِ کارکردگی‘‘ اور 1998ء میں ''ستارہ امتیاز‘‘ سے نوازا تھا۔2019ء میں ترکیہ کی حکومت نے انہیں اپنا اعلیٰ ثقافتی ایوارڈ دیا۔ ترکیہ کا اعلیٰ ثقافتی ایوارڈ انہیں ایک پروقار تقریب میں دیا گیا جس میں میں ترک صدر رجب طیب اردوان سمیت اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ شعری مجموعوں میں سے'' فشار‘‘ (1983ء) کو ''قومی ہجرہ ایوارڈ‘‘ اور ''عکس‘‘ (1976ء) کو بہترین شعری تراجم کا ''رائٹرز گلڈ ایوارڈ‘‘ ملا۔ تنقید کی کتاب ''نئے پرانے‘‘ پر بھی ایوارڈ دیا گیا۔1975ء میں انہیں ٹی وی ڈرامہ ''خواب جاگتے ہیں‘‘ پر ''گریجویٹ ایوارڈ‘‘ ملا۔دو دفعہ بہترین ڈرامہ نگار کا ٹی وی ایوارڈ اور دو بار بیسٹ فلم رائٹر کا ''نگار ایوارڈ‘‘ حاصل کرنے کے علاوہ پچاس سے زیادہ دیگر ایوارڈز دیئے گئے۔منتخب اشعار ملے کیسے صدیوں کی پیاس اور پانی، ذرا پھر سے کہنابڑی دلربا ہے یہ ساری کہانی، ذرا پھر سے کہناکہاں سے چلا تھا جدائی کا سایا، نہیں دیکھ پایاکہ رستے میں تھی آنسوئوں کی روانی، ذرا پھر سے کہنا............گزرے ہیں ترے بعد بھی کچھ لوگ اِدھر سےلیکن تری خوشبو نہ گئی، راہ گزر سے.........سینکڑوں ہی رہنما ہیں راستہ کوئی نہیں آئنے چاروں طرف ہیں دیکھتا کوئی نہیں سب کے سب ہیں اپنے اپنے دائرے کی قید میں دائروں کی حد سے باہر سوچتا کوئی نہیں ٭٭٭جو اتر کے زینۂِ شام سے تیری چشم ِخوش میں سما گئےوہی جلتے بجھتے سے مہر و ماہ میرے بام و در کو سجا گئےیہ عجیب کھیل ہے عشق کا میں نے آپ دیکھا یہ معجزہوہ جو لفظ میرے گماں میں تھے وہ تیری زبان پر آگئے٭٭٭دل کے دریا کو کسی روز اُتر جانا ہےاتنا بے سمت نہ چل، لوٹ کے گھر جانا ہےاُس تک آتی ہے تو ہر چیز ٹھہر جاتی ہےجیسے پانا ہی اسے، اصل میں مر جانا ہے٭٭٭کسی کی آنکھ جو پرُ نم نہیں ہےنہ سمجھو یہ کہ اس کو غم نہیں ہےسوادِ درد میں تنہا کھڑا ہوںپلٹ جائوں مگر موسم نہیں ہےسمجھ میں کچھ نہیں آتا کسی کی!اگرچہ گفتگو مبہم نہیں ہے٭٭٭چاند کے ساتھ کئی درد پرانے نکلےکتنے غم تھے جو ترے غم کے بہانے نکلےفصل گل آئی، پھر اک بار اسیران وفااپنے ہی خون کے دریا میں نہانے نکلے٭٭٭یہی بہت ہے کہ دل اس کو ڈھونڈ لایا ہےکسی کے ساتھ سہی، وہ نظر تو آیا ہےکروں شکایتیں، تکتا رہوں کہ پیار کروںگئی بہار کی صورت وہ لوٹ آیا ہے٭٭٭وہ سامنے تھا مگر یہ یقیں نہ آتا تھاوہ آپ ہے کہ میری خواہشوں کا سایا ہےعذاب دھوپ کے کیسے ہیں، بارشیں کیا ہیں!فصیل جسم گری جب تو ہوش آیا ہےمیں کیا کروں گا اگر وہ نہ مل سکا امجدؔابھی ابھی مرے دل میں خیال آیا ہے............ 

2025ء کے بڑے ماحولیاتی چیلنجز

2025ء کے بڑے ماحولیاتی چیلنجز

دنیا متعدد سنگین ماحولیاتی چیلنجوں سے نبرد آزما ہے، جو فوری توجہ اور عملی اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والی آفات، حیاتیاتی تنوع کے نقصان اور پلاسٹک کی آلودگی سمیت، 2025 ء کے بڑے ماحولیاتی مسائل ایک سنگین تصویر پیش کرتے ہیں، جو موسمیاتی تبدیلیوں کی روک تھام اور ان کے مطابق ڈھلنے کی فوری ضرورت کو اجاگر کرتی ہے۔2025ء میں درج ذیل ماحولیاتی مسائل سب سے زیادہ توجہ اور فوری اقدامات کے متقاضی ہیں۔ عالمی حدت اور موسمیاتی تبدیلیفوسل ایندھن کے استعمال اور گرین ہاؤس گیسوں کے بڑھتے اخراج کی وجہ سے عالمی درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے، جس کے نتیجے میں شدید موسمی واقعات جیسے کہ گرمی کی لہریں، سمندری طوفان اور سیلاب زیادہ تواتر سے آ رہے ہیں۔ کاربن کے اخراج میں اضافہموجودہ پالیسیوں کے باوجود کاربن ڈائی آکسائیڈ ، میتھین، اور دیگر گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس سے درجہ حرارت میں مزید اضافہ یقینی نظر آتا ہے۔ جنگلات کی کٹائیدنیا بھر میں زرعی توسیع، شہری ترقی اور صنعتوں کی ضروریات کے باعث جنگلات تیزی سے ختم ہو رہے ہیں، جس سے حیاتیاتی تنوع کو خطرہ لاحق ہے اور کاربن جذب کرنے کی قدرتی صلاحیت کم ہو رہی ہے۔ حیاتیاتی تنوع کا نقصانماحولیاتی تباہی، جنگلات کی کٹائی اور غیر مستحکم زرعی پالیسیوں کی وجہ سے جانوروں اور پودوں کی کئی اقسام معدوم ہونے کے قریب پہنچ چکی ہیں، جس سے قدرتی ماحولیاتی نظام بگڑ رہا ہے۔ پلاسٹک آلودگیپلاسٹک کی پیداوار اور اس کے فضلہ کی وجہ سے سمندری حیات اور زمینی ماحولیاتی نظام پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ پانی کی قلت اور آلودگیدنیا کے کئی خطوں میں پانی کی دستیابی ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے، جب کہ صنعتی فضلہ، کیمیائی مادے اور غیر مناسب نکاسی کے باعث آبی ذخائر آلودہ ہو رہے ہیں۔زمینی انحطاطزرعی کیمیکلز کے زیادہ استعمال اور غیر مستحکم کھیتی باڑی کے طریقوں کی وجہ سے زمین کی زرخیزی میں کمی ہو رہی ہے، جس سے خوراک کی پیداوار کو خطرہ لاحق ہے۔تیزابیت میں اضافہسمندری پانی میں بڑھتی ہوئی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار سمندری حیات، خاص طور پر مرجان کی چٹانوں (Coral Reefs) کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ اوزون کی تہہ میں کمیاگرچہ اوزون کی تہہ کی بحالی کے کچھ آثار نظر آئے ہیں، لیکن مضر کیمیکلز اور صنعتی سرگرمیاں اب بھی اس پر دباؤ ڈال رہی ہیں۔ الیکٹرانک ویسٹ (E-Waste) میں اضافہڈیجیٹل ترقی کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک فضلہ بھی بڑھ رہا ہے، جو صحت اور ماحولیاتی آلودگی کے بڑے مسائل پیدا کر رہا ہے۔ فوسل ایندھن پر انحصارقابل تجدید توانائی کی ترقی کے باوجود، دنیا اب بھی فوسل ایندھن جیسے کوئلہ، تیل، اور گیس پر انحصار کر رہی ہے، جو ماحول کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ خوراک کا ضیاع (Food Waste)دنیا میں خوراک کی پیداوار بڑھ رہی ہے، لیکن ساتھ ہی ضیاع بھی بڑھ رہا ہے، جو وسائل کے غلط استعمال اور گلوبل وارمنگ میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ شہری آلودگی (Urban Pollution)بڑھتی ہوئی شہری آبادی، ٹریفک، اور صنعتی اخراج کے باعث فضائی آلودگی میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے، جو انسانی صحت پر منفی اثر ڈال رہا ہے۔ مائیکرو پلاسٹک آلودگیمائیکرو پلاسٹک ذرات پانی، خوراک اور ہوا میں شامل ہو چکے ہیں، جو انسانی صحت اور آبی حیات کے لیے ایک نیا خطرہ بن چکے ہیں۔ ماحولیاتی نقل مکانی (Climate Migration)موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے لاکھوں لوگ سیلاب، خشک سالی، اور دیگر ماحولیاتی مسائل کی بنا پر اپنے گھروں سے ہجرت پر مجبور ہو رہے ہیں۔نتیجہ2025 میں ان ماحولیاتی مسائل کا حل نکالنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ کاربن کے اخراج میں کمی، قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی، پلاسٹک کے استعمال میں کمی، اور پائیدار ترقی کے اصولوں کو اپنانا ہی زمین کو محفوظ بنانے کا واحد راستہ ہے۔

جنگ عظیم اول آرڈیننس کی لڑائی

جنگ عظیم اول آرڈیننس کی لڑائی

جنگ عظیم اوّل 1914ء سے 1918ء تک جاری رہی، اس دوران جنگ میں شریک ممالک کیلئے ہر لمحہ حالت جنگ کا لمحہ تھاتاہم مختلف محاذوں پر مختلف لڑائیاں ہوتی رہیں۔ جن میں سے کچھ کی شہرت اور اہمیت اپنی مثال آپ ہے۔ ان ہی لڑائیوں میں سے ایک آرڈیننس کے محاذ پر لڑی گئی۔ جنرل جوفر کی عمومی ہدایات کے مطابق فرانس کی پہلی اور دوسری آرمی کے لورین پر حملے کے دوران تیسری، چوتھی اور پانچویں آرمی کو شمال کی جانب آرڈیننس سے ہوتے ہوئے پیش قدمی کرنا تھی۔ اس منصوبے کی بنیاد جنرل فوش کا یہ مفروضہ تھا کہ جرمنی کے پاس دریائے میوز کے مشرقی علاقوں میں پیش قدمی کرنے کیلئے فوج میسر نہیں ہوگی۔ پانچویں آرمی کا سالار جنرل چارلس اس امر سے بخوبی واقف تھا کہ جرمنی کے پاس اچھے خاصے محفوظ دستے موجود ہیں جوتربیت یافتہ بھی ہیں اسی لئے وہ جنرل جوفر سے پوری فوج کو دریائے میوز کے جنوب اور شمال میں بیلجئم کے راستے فرانس میں داخل ہونے والی جرمنی افواج جو ایک دائرے کی شکل میں فرانس کی افواج کو گھیرنا چاہتی تھیں، کو روکنے کیلئے زور دے رہا تھا۔15اگست کو جرمن افواج نے ڈیشٹ پر ایک زور دار حملہ کرکے وہاں سے ذرائع ابلاغ و ترسیل منقطع کرنے کی کوشش کی تو جنرل جوفر کو جنرل چارلس کے نقطہ نظر سے اتفاق کرتے ہی بنی اور اس نے جنرل چارلس کو دریائے میوز اور سیمبر کے درمیان بننے والے زاویے میں پیش قدمی کرنے کا حکم دیا جبکہ چوتھی آرمی تیسری آرمی کے بائیں جانب متحرک کی گئی جہاں پہلے پانچویں آرمی صف آرا تھی۔اس طرح نئی صف بندی سے فرانس کی فوج کے آرڈیننس پر حملے کیلئے قوت میں کمی واقع ہو گئی اور حملہ آور افواج تین کی بجائے دورہ گئیں۔ اس نئی صورتحال میں جوفر نے تیسری آرمی کو دائیں جانب کی قلعہ بندیوں کے علاقے میٹز سے حملے کے پیش نظر محفوظ دستوں پر مشتمل نئی تشکیل شدہ لورین کی آرمی سے مدد دی جس کے تمام فوجی غیر مشاق اور غیر تربیت یافتہ تھے۔جرمنی افواج ایک پہیے کی طرح فرانس کی افواج پر حملہ آور ہو رہی تھیں۔ جس کے بیرونی محیط پر جرمنی جبکہ مرکز میں فرانس کی افواج کو لینے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ ان کی پیش قدمی کی رفتار انتہائی مناسب تھی جس میں وہ پہلی اور دوسری آرمی کے ذریعے فرانس کی افواج کو کچلنے اور چوتھی اور پانچویں آرمی کے ذریعے جملہ ذرائع کو قبضہ میں لیتے جا رہے تھے۔ لورین کی عظیم لڑائی کے صرف دودن بعد 22اگست کو جنگلوں میں گھرے ہوئے علاقے میں آخر کار یہ آمنا سامنا ہو گیا۔ تین دن تک گھمسان کارن پڑتا رہا۔ فرانس کی افواج بھرپور جارحانہ انداز سے حملے کرتی رہیں۔ اس وجہ سے انہیں بھاری جانی و مالی نقصان بھی اٹھانے پڑے۔ تیسرے دن جرمن افواج کے زور دار حملے کے نتیجے میں فرانس کی افواج کو پسپا ہو کر اپنی اپنی پہلی جگہوں تک واپس آنا پڑا۔اگلے ہی روز نئی تشکیل شدہ لورین کی آرمی ختم کردی گئی۔ جرمنی ہیڈ کوارٹر میں فرانس کی تیسری اور چوتھی آرمی کی شکست اور بھاری جانی و مالی نقصان کی خبر پر خوشیاں منائی گئیں۔ جرمنی حکام نے یہ محسوس کر لیا کہ اب و فاتح کی حیثیت سے پیرس میں داخل ہو جائیں گے۔