باسکٹ بال

اسپیشل فیچر
باسکٹ بال، ٹینس جیسے کورٹ پر دنیا بھر کے دراز قامت کھلاڑیوں کا من پسند اور دل چسپ کھیل ہے۔ اس کھیل میں، پانچ پانچ کھلاڑیوں پر مشتمل دو ٹیمیں ہوتی ہیں اور ہر ٹیم کے کورٹ میں آخری کنارے پر کھمبے کے سہارے رسی کے پھندوں سے بنی ایک کُھلی ٹوکری لٹک رہی ہوتی ہے، جس میں مخالف ٹیم کے کھلاڑی، فٹ بال جتنی گیند کو ہاتھوں کی مدد سے اُچھال کر ٹوکری میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ٹوکری اوپر نیچے سے کُھلی ہوتی ہے، اس لیے اوپر کی طرف سے ڈالی گئی گیند فوراً نیچے آجاتی ہے اور یوں یہ کھیل بلا روک ٹوک جاری رہتا ہے۔ باسکٹ بال کی تاریخ زیادہ پُرانی نہیں۔1891ء میں نیو انگلینڈ (امریکا) کے ایک فزیکل ٹرینر جیمز نائی اسمتھ نے ایک روز لگاتار بارش ہونے پر اپنی جم کی کلاس جاری رکھنے کے لیے اس کھیل کا نقشہ بنایا تھا۔ نقشے کی تیاری میں اس کے شاگردوں نے اسے بہت سے مشورے دیے، مگر ان کا دیا ہوا کوئی بھی مشورہ اس قابل نہیں تھا کہ اس کھیل کو جمنازیم کی چار دیواری تک محدود رکھ سکتا۔ آخر اس نے آمنے سامنے کی دو دیواروں پر 10 فٹ کی اونچائی سے ایک ایک ٹوکری لٹکائی اور یوں ایک نیا کھیل ایجاد ہوگیا۔ دو ٹیمیں بناکر کھلاڑیوں سے کہا گیا کہ وہ گیند اُچھال کر ٹوکری میں ڈالنے کی کوشش کریں۔ جس ٹیم کی ٹوکری میں گیند ایک دفع پہنچ جاتی، اس پر ایک پوائنٹ اسکور ہوجاتا، اس طرح باسکٹ بال کا کھیل وجود میں آیا اور تھوڑی سی تبدیلیوں کے بعد اس نے باقاعدہ ایک کھیل کی شکل اختیار کرلی۔ بعد میں اسے کُھلے مقام پر کھیلا جانے لگا اور باسکٹ، دونوں طرف گاڑے گئے کھمبوں سے لٹکائی جانے لگی۔ باسکٹ پہلے ایک چھینکے کی شکل میں ہوتی تھی، گیند اس میں پہنچ جاتی تو ایک کھلاڑی پول پر چڑھ کر اسے باسکٹ میں سے نکالتا تھا، اس سے کھیل میں نہ صرف اچھا خاصا وقت برباد ہوتا بلکہ کبھی کبھی کھمبا بھی ٹوٹ جاتا۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ باسکٹ کا پیندا کاٹ دیا گیا، چناں چہ گیند باسکٹ میں پہنچنے کے بعد خود بخود نیچے آنے لگی۔ باسکٹ بال کو یہ نام اس کے موجد ڈاکٹر جیمز نے ہی دیا تھا، اس کے پہلا باقاعدہ میچ، 20 جنوری 1892ء میں نیو یا)رک کے شہر کے وائی ایم سی جمنازیم البینی میں 9 کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلا گیا۔ تقریباً 5 سال بعد یہ تعداد 10 کردی گئی، یعنی 9 کھلاڑیوں کی قید ہٹاکر وہی پانچ پانچ کھلاڑیوں والا فارمولہ اختیار کیا گیا۔ وائی ایم سی سے نکل کر بعد میں یہ کھیل کالجز اور یونی و رسٹی کی سطح پر کھیلا جانے لگا، اس طرح یہ کھیل پورے امریکا میں مقبول ہوگیا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں یہ کھیل امریکا سے نکل کر آٹھ ممالک، ارجنٹائن، چیکو سلواکیہ، یونان، اٹلی، لٹویا، پرتگال، رومانیہ اور سوئٹزرلینڈ تک جاپہنچا، جب ان آٹھوں ممالک نے 1932ء میں انٹرنیشنل باسکٹ بال فیڈریشن کی بنیاد رکھی۔ 1936ء کے برلن اولمپک (مرد کھلاڑیوں) کے باسکٹ بال کو اولمپک میں داخلہ ملا اور پہلے فائنل میں امریکا نے کینیڈا کو شکست فاش دی۔ 1950ء میں فیبا (FIBA) یعنی انٹرنیشنل فیڈریشن آف فٹ بال ایسوسی ایشن کا پہلا عالمی مقابلہ، ارجنٹائن میں منعقد ہوا اور تین سال بعد فیبا ہی کے تحت چلی میں عورتوں کے عالمی باسکٹ بال مقابلوں کا آغاز ہوا۔ اولمپک میں خواتین کی باسکٹ بال کو 1976ء کے مانٹریال اولمپک میں داخلہ ملا اور 1989 میں فیبا نے امیچر یعنی شوقیہ اور پروفیشنل یعنی پیشہ ور کھلاڑیوں میں فرق کرنا چھوڑدیا اور یوں 1992ء سے پروفیشنل کھلاڑی بھی اولمپک کے مقابلوں میں حصّہ لینے لگے۔ اس وقت باسکٹ بال کے اچھے کھلاڑیوں میں امریکا سر فہرست ہے۔ ولٹر نارمن چیمبرلین، لیری جوبرڈ، ایرون جانسن جونیئر اور مائیکل جیفری جارڈن مشہور امریکی کھلاڑی ہیں جب کہ کروشیا کے ڈریزن پیترووک بھی مانے ہوئے کھلاڑی ہیں۔ باسکٹ بال میں امریکا کی ٹیم بہت اچھی ہے، لیکن سربیا (سابقہ یوگو سلاویہ) کی ٹیم نمبر ون ہے، جو پانچ بار گولڈ میڈل، تین بار سلور میڈل اور دوبار کانسی کا میڈل جیت چکی ہے۔ دوسرے نمبر پر امریکا کی ٹیم ہے، جس نے 11 میڈل حاصل کر رکھے ہیں، لیکن سربیا کے مقابلے میں اس کے گولڈ میڈلز کی تعداد چار ہے۔ سوویت یونین کی ٹیم کا تیسرا نمبر ہے۔ اس کے بعد برازیل، ارجنٹائن، اسپین، یونان، ترکی، چلی، کروشیا، جرمنی، لٹوانیا اور فلپائن کا نمبر آتا ہے۔ امریکا کے باسکٹ بال کھلا ڑی لبرن جیمز اس وقت ٹاپ پر ہیں۔ وہ امریکی باسکٹ بال کلب این بی اے کی جانب سے کھیلتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے سال کے بہترین کھلاڑی کاانعام جیتا ، جب انہیں سال13۔2012 ء کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ لبرن جیمز پچھلے پانچ برسوں کے دوران مسلسل چوتھی دفعہ بہترین کھلاڑی کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں۔