خود کشی کا بڑھتا ہوا رجحان
مالی پریشانیوں اور گھریلو جھگڑوں کے باعث خود کشی کا رجحان تو تھا ہی‘ اب ملک میں جاری معاشی بحرانوں کے باعث بے روز گاری اور لوڈشیڈنگ کی شرح میں تشویش ناک اضافے کے باعث قوت برداشت ختم ہونے کے باعث مذکورہ رجحان میں تین گنا اضافہ ہو گیا ہے۔صوبہ پنجاب میں ہر برس ساڑھے 6 ہزار سے زائد افراد اقدامِ خودکشی کرتے ہیں۔رواں سال کے پہلے 7ماہ کے دوران پنجاب بھر میں2458سے زائدمردو خواتین نے موت کو گلے لگایا جب کہ آٹھ سے زائد مردو خواتین کو بروقت طبی امداد دیکر بچا لیا گیا۔صوبائی دارالحکومت میں گزشتہ7ماہ کے دوران خود کشی کے412جبکہ اقدام خود کشی کے1800سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے ۔ ذرائع کے مطابق خود کشی اور اقدام خود کشی کے متعدد واقعات رپورٹ نہیں ہوئے یا شہریوں نے بدنامی کے ڈر اور بعض دیگر وجوہات کی بنا پر یہ واقعات منظر عام پر نہیں آنے دیے۔پاکستان میں خود کشیوں کے رجحان کے حوالے سے کراچی پہلے اور لا ہور دوسرے نمبر پر ہے۔صوبائی دارالحکومت میں محبت میں ناکامی پر لڑکی اور لڑکے کی اجتماعی خود کشی کے 3واقعات رپورٹ ہوئے ۔پولیس حکام کا کہنا ہے کہ خود کشی کی کوشش کرنے والے مردوخواتین کیخلاف مقدمہ درج ہونا چاہئے‘ تاکہ اقدام خود کشی کرنے والوں کو نہ صرف سزا ملے بلکہ اس عمل کی بھی حوصلہ شکنی ہو۔ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ انسان کے ذہن میں خود کشی کرنے کا خیال صرف چند لمحوں کیلئے آتا ہے۔اگر ان چند لمحوں پر قابو پا لیا جائے تو خود کشی کے رجحان سے بچا جا سکتا ہے جبکہ علمائے کرام کا کہنا ہے کہ قرآن میں خود کشی کو حرام قرار دیا گیا ہے۔خود کشی کے رجحان میں اضافے کا سبب دین سے دوری ہے۔ رواں سال کے پہلے7ماہ کے دوران پنجاب میں2458سے زائدمردوخواتین نے نہر میں چھلانگ لگا کر‘ زہریلی گولیاں کھا کر‘ خود کو گولی مار کر‘ پھندے سے جھول کر یا ٹرین کے آگے کود کر خود کشی کی ہے جب کہ اقدام خود کشی کے آٹھ ہزارسے زائد واقعات ریکارڈ کئے گئے ہیں ۔گزشتہ 7ماہ کے دوران صرف لاہور شہر میں54لڑکیوں اور43خواتین سمیت412افراد نے مختلف وجوہات کی بنا پر موت کو گلے لگا لیا ، یوں اوسطاً روزانہ دو افراد نے خودکشی کی۔صوبائی دارالحکومت کے پوش علاقے ماڈل ٹاؤن میں رہائش پذیر سابق آئی جی پنجاب کے قریبی رشتہ دار نے گھریلو حالات سے دلبرداشتہ ہو کر پنکھے سے لٹک کر خود کشی کر لی تھی ۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ جب کوئی بھی انسان فرسٹریشن یا شدید ترین مایوسی کا شکار ہو جائے تو اس وقت اس کے ذہن میں3صورتیں بنتی ہیں۔وہ حالات سے سمجھوتہ کرلے یا ان کو تبدیل کرنے کی کوشش کرے یا تیسری صورت زندگی سے راہِ فرار کی ہے جو خودکشی ہی ہے۔معاشرے میں منشیات کے استعمال میں اضافے کی وجہ بھی یہی ہے جو ذہنی فرار کی ایک صورت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں سب سے زیادہ خودکشیاں زہر کھانے سے ہوتی ہیں۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے چوں کہ پاکستان میں زہر آسانی سے دستیاب ہے ،اس لئے زہر سے خودکشیاں کرنے کے رجحان میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ اگر حکومت زہر کی کھلے عام خریدوفروخت پر پابندی لگا دے تو اس سے بھی خود کشی کے رجحان میں کمی ہو سکتی ہے۔ماہرینِ نفسیات کے مطابق: ’’موسمِ گرمامیں خودکشیوں کے رجحان میں اضافہ ہوجاتا ہے کیوں کہ لوڈ شیڈنگ کے باعث طبیعت پر چڑچڑا پن غالب آجاتا ہے اور قوت برداشت کم ہو جاتی ہے۔‘‘ایک دوسری رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں گزشتہ 14 برس کے دوران 34 ہزار 8 سو سے زائد افراد اپنے ہاتھوں اپنی زندگی ختم کرچکے ہیں۔ ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں خود کشی کرنے والوں کی تعداد دس لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔ اس حوالے سے مختلف ماہرین نفسیات اور نجی تنظیموں و این جی اوز کے کارکنوں نے’’دنیا‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گھریلو مسائل خودکشی کی سب سے بڑی وجہ ہیں جب کہ غربت، بے روزگاری، ذہنی دباؤ،خاندانی تنازعات بھی بڑی وجہ ہیں۔نوجوانوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموںکے مطابق پاکستان میں گزشتہ دو برسوں میں خود کشی کرنے والوں میں زیادہ تعداد14سے27 برس تک کی عمر کے نوجوانوں کی ہے جن میں سے اکثریت طالب علموں کی تھی جو والدین،اساتذہ کی ڈانٹ ڈپٹ اور امتحانات میں ناکامی پر اپنے ہاتھوں ہی اپنی موت کا سامان کرلیتے ہیں۔ذہنی انتشار،ذہنی دبائو یا ڈپریشن اور نا مناسب ذہنی حالت میں انسان اپنے اعصاب پر کنٹرول کھو دیتا ہے جس کے باعث وہ خودکشی کی جانب راغب ہوتا ہے۔ حکومت پاکستان نے 2001ء میں مینٹل ہیلتھ آرڈیننس جاری کیا لیکن آج تک اس آرڈیننس کو صحیح معنوں میں نافذ نہیں کیا گیا۔اگرہم اس بات کا جائزہ لیں کہ ایسے کتنے افراد ہیں جو اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کی شمع گل کر لیتے ہیں تو حقیقی اعدادو شمار ملنا شاید ناممکن ہو کیوں کہ اس طرح کے تمام واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے اور جو ہوتے ہیں‘ان کی شرح انتہائی کم ہے ۔عالمی غیر سرکاری اداروں کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹوں کے مطابق دنیا بھر میں خودکشی کرنے والوں میں نوجوانوں کی تعدادایک چو تھائی سے زیادہ ہے جبکہ پاکستان میں خودکشی کرنے والے افراد میں نوجوانوں کی شرح میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ قانون کے مطابق خود کشی کی کوشش کرنا جرم ہے اور اس سلسلے میں فوری طور پر ضابطہ فوجداری کی دفعہ 325کے تحت مزیدقانونی کارروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے لیکن پولیس کی عدم دلچسپی کے باعث نہ ہی ایف آئی آر در ج ہو پاتی ہے اور نہ ہی ضابطہ کی باقی کارروائی پر عمل درآمد ممکن ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کے سماجی ،اقتصادی اور صحت سے متعلق بڑھتے ہوئے مسائل کے پیش نظر خود کشی کے واقعات میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔بیروزگاری اور غربت کی ابتر صورتحال کے باعث حالات اس حدپر پہنچ گئے ہیں کہ اگر فوری طور پران واقعات کی روک تھام کے لئے عملی طور پر کوئی موثر حکمت عملی اختیار نہ کی گئی تو حالات کی سنگینی کو کنٹرول کرنا مشکل ہی نہیں‘ ناممکن ہو گا۔ ایدھی فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے بڑے اور چھوٹے شہروں سمیت اب دیہاتوں میں بھی خودکشی کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے، جب کہ خودکشی کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جنہیں پولیس کو مطلع کیے بغیر خاموشی سے دفن کر دیا جاتا ہے اور اگر انھیں رپورٹ شدہ کیسوں میں شامل کر لیا جائے تو پاکستان میں ہر سال چھ ہزار سے زائد افراد خود کشی کرتے ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سندھ اور پنجاب میں اجتماعی خودکشی کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔٭…٭…٭