الفارابی: عظیم مسلمان فلسفی
الفارابی کا پورا نام ابو نصر محمد بن محمد بن طرخان بن اوزلغ ہے۔ لاطینی میں اس کے نام کی بہت سی صورتیں ہیں، لیکن عام طور پر اسے Alphapabius اور Abunazarکے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہ ترکی النسل تھا۔ علاقہ فاراب کے ایک شہر وسیج میں 870ء کے لگ بھگ پیدا ہوا اور وہ تقریباً 80 سال کی عمر میں بمقام دمش 950ء میں انتقال کر گیا۔
الفارابی کی فاراب کے جس علاقے میں ولادت ہوئی۔ وہ سیر دریا کے وسطی حصے میںاس کے معاون دریا ایرس کے دہان کے قریب دریا کے دونوں جانب واقع ہے۔ یہ علاقے840ء میں سامانیوں نے فتح کیا اور اسے اپنی مملکت میں شامل کر لیا۔ اس کا والد فوجی افسر تھا اور اسے ایرانی النسل امراء میں شمار کیا جاتا تھا۔ بظاہر وہ ان سامانی امیروں کی ملازمت میں تھا جو ایران کے قدیم ساسانی بادشاہوں کی اولاد میں سے ہونے کے دعویدار تھے اور جدید فارسی ادب کی بڑی سرپرستی کرتے تھے۔ ایران سے اپنے ان دیرینہ روابط کے باوجود الفارابی کے گھرانے میں سغدی یا کوئی ترکی بولی رائج تھی اور آداب مجلس اور ملبوسات میں بھی وہ ترکوں ہی کا تتبع کرتے تھے۔ الفارابی نے اپنی تعلیم کا آغاز علوم متداولہ سے کیا اور اس دوران میں اس نے اسلامی فقہ پر خصوصی توجہ دی۔ الفارابی نے بخارا میں علم موسیقی کا مطالعہ شروع کیا اور اس فن میں مہارت حاصل کی۔
معتضد کے دور خلافت (892ء تا 902ء) میں الفارابی بغداد چلے گئے۔ الفارابی نے اپنی تعلیم سریانی یا یونانی یا ان دونوں زبانوں میں حاصل کی۔جب الفارابی بغداد پہنچا تو وہ ترکی زبان اور بعض دوسری زبانیں تو جانتا تھا لیکن عربی سے نابلد تھا۔ اس لئے وہ فلسفہ کی تعلیم اس زبان میں حاصل نہ کر سکتا تھا۔ اس بات کا امکان بھی نہیں کہ اس نے ذریعہ تعلیم ترکستانی یا سعدی یا جدید فارسی زبانوں کی مدد سے مختلف اسلامی علوم سیکھے ہوںبعد میں الفارابی نے عربی زبان سیکھی اور یہ زبان سکھانے میں مصروف زبان دان السراج نے اس کی بڑی مدد کی۔ چند ہی سالوں میں الفارابی نے عربی میں اتنی مہارت حاصل کر لی کہ اس کی تحریریں عربی فلسفیانہ نثر کا نمونہ قرار پائیں۔
المکتفی کے دور خلافت (902ء۔908ء) میں یا ملقتدر کے دور خلافت(908ء۔932ء) کے آغاز میں الفارابی بغداد چھوڑ کر بغرض تحصیل علم قسطنطنیہ چلا گیا۔ اس کے بعد الفارابی نے یونان کا رخ کیا اور وہاں آٹھ سال رہا۔ اس عرصہ میں اس نے علوم کی تکمیل کی اور فلسفہ میں اپنی تعلیم کو مکمل کیا۔
زبان دانی میں الفارابی کی دلچسپی، بغداد میں قیام کے دوران سریانی اور یونانی اساتذہ سے اس کے رابطے اور اس عہد میں اس بات کی آسانی کہ کوئی بھی مسلمان عالم اپنی علمی پیاس بجھانے قسطنطنیہ جا سکتا تھا، ایسے شواہد ہیں جن کی بنا پر الفارابی کی فکر اور تصانیف کے کئی نئے پہلو سامنے آتے ہیں۔
910ء اور 920ء کے درمیان کسی وقت الفارابی قسطنطنیہ واپس لوٹ آیا اور یہاں بیس برس سے زائد عرصہ تصنیف و تالیف اور تدریس میں گزارا۔ اسی زمانے میں چار دانگ عالم میں اس کی شہرت بطور ایک فلسفی پھیل گئی اور یہ کہا جانے لگا کہ ارسطو کے بعد اگر اس پائے کا کوئی فلسفی اس دنیا میں آیا ہے تو وہ الفارابی ہی ہے۔ اس کے استاد ابن حیلان کا انتقال 932ء سے قبل بغداد میں ہو چکا تھا۔ اس کے شاگردوں میں یوں تو بڑی معروف ہستیوں کے نام ملتے ہیں، لیکن ان میں دو شاگردوں کا نام قابل ذکر ہے۔ ایک معروف یعقوبی عیسائی عالم دین اور فلسفی یحییٰ بن عدی ہے جو بغداد میں اپنی وفات 975ء تک اپنے فلسفیانہ مدرسہ فکر کا سربراہ رہا اور دوسرا اس کا بھائی ابراہیم جو الفارابی کی وفات سے ذرا پہلے تک حلب میں اس کے ساتھ تھا۔ہمدرس اصحاب کے علاوہ الفارابی کے فلسفیانہ افکار کے حقیقی وارث ابن سینا، ابن رشد اور ابن میمون جیسی قدر آور شخصیتیں ہیں۔ الفارابی کا اثر ارسطو اور افلاطون کے مطالعات اور ان شروح سے عیاں ہے، جو عربی، عبرانی اور لاطینی میں لکھی گئیں۔
فلسفہ اور فلسفیانہ طرز زندگی کا دفاع کرتے ہوئے الفارابی نے اپنے آپ کو ان مذہبی فرقہ وارانہ اور سیاسی مناقشات سے دور رکھا، جو اس وقت بغداد میں زوروں پر تھے ۔وہ کسی مخصوص مذہبی فرقے یا مسلک سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔ الفاربی نے موسیقی پر اپنی اہم ترین کتاب ابو جعفر الکرخی کے ایماء پر لکھی، جس نے 936ء میں قلمدان وزارت سنبھالا۔ یہ کتاب موسیقی کی تاریخ اور فن میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔
الفارابی ستر برس کی عمر میں بغداد چھوڑ گیا۔ یہ بات کچھ عجیب سی لگتی ہے کہ وہ اپنے بڑھاپے میں محض نام کمانے کیلئے وہ شہر چھوڑ جاتا، جہاں اس نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ بسر کیا تھا۔ اصل میں اس نقل مکانی کی وجوہ سیاسی حالات تھے جن کی وجہ سے اس کا بغداد میں رہنا مشکل ہو گیا۔
942ء تک داخلی، سیاسی ابتری اور بغداد شہر کی آبادی کی حفاظت اور بہبود کا معاملہ نہایت سنگین شکل اختیار کر چکا تھا۔ خلیفہ، اس کا محافظ دستہ اور وزراء جنوبی علاقے سے تعلق رکھنے والے سابق محصل کی بغاوت سے اس قدر عاجز آ چکے تھے کہ خلیفہ نے راہ فرار اختیار کی اور موصل کے حمدانی شہزادے کے ہاں پناہ لے لی۔حالات کی اس خرابی اور بے یقینی کی وجہ سے الفارابی بھی ایک ایسے علاقے میں منتقل ہو گیا جو 942ء میں قدرے پرامن تھا اور جہاں ایک ایسے خاندان کی حکومت تھی جو موصل کے حمدانیوں سے بھی بڑھ کر اس کا قدر دان تھا۔الفارابی دو سال دمشق میں رہا، اس دوران میں اس نے حلب کا سفر بھی کیا، پھر وہ مصر روانہ ہوا۔ اسی عرصے میں حمدانی شہزادہ سیف الدولہ نے حلب اور دمشق پر قبضہ کر لیا اس نے اپنے گرد اصحاب علم و فضل کا ایک حلقہ قائم کر لیا، جس کی وہ ہر طرح سے اعانت اور سرپرستی کرتا تھا۔ وفات سے ایک سال قبل الفارابی مصر چھوڑ کر سیف الدولہ کے اس حلقہ میں شامل ہو گیا۔950ء میں اس کے انتقال پر شاہ اور اس کے درباریوں نے اس کی نماز جنازہ پڑھی اور اس کو شہر کے جنوبی دروازے کے باہر دفن کیا گیا۔