یونان:دنیا کا پہلا جمہوری ملک

یونان:دنیا کا پہلا جمہوری ملک

اسپیشل فیچر

تحریر : خاور نیازی


یونان، یورپ کا جنوبی حصہ ہے جو تین اطراف سے بحیرہ روم میں گھرا ہوا ہے۔اسے عرف عام میں '' جزیرہ بلقان‘‘ کانام دیا جاتا ہے۔ یورپ میں یونان کو عام طور پر ''گریس‘‘ اور اس کے باشندوں کو ''گریک‘‘ کہتے ہیں۔جہاں تک اس نام کی ابتدا کا تعلق ہے ، بنیادی طور پر اہل روما (رومنز ) کو سب سے پہلے یونان کے جس قبیلے سے واسطہ پڑا وہ ''گرائیہ‘‘ ( Grecians) تھے۔ رومیوں نے انہیں اور پھر یہاں کے تمام باشندوں کو ''گریسی‘‘(Graeci)کہنا شروع کر دیا۔ حالانکہ یونانی اس وقت بھی خود کو'' ہیلنز‘‘ (Hellen`s) اور اپنے ملک کو'' ہیلاس‘‘ (Hellas)کہتے تھے۔
یونان اپنے دور کا ایک طلسماتی ملک تھا۔ قدیم دور کی اس سحر انگیز سرزمین نے مختلف ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے اپنے سب سے عظیم شہر میں اگر ایک طرف فاتح عالم سکندر اعظم کو جنم دیا تو دوسری طرف معروف فلسفی افلاطون ، ارسطو، سقراط، معروف شاعر ہومر اور نہ جانے کتنے ہی نابغہ روزگار شخصیات کو جنم دیا تھا۔ دراصل یونان ایک شہر یا ریاست کا نام نہیں تھا بلکہ یہ وسیع و عریض خطے پر پھیلی ایک تہذیب کا نام تھا۔
یونانی تہذیب عظیم فکری، ثقافتی اور فنکارانہ کامیابیوں کا دور تھا۔ قدیم یونانیوں نے فلسفہ، جمہوریت اور فنون لطیفہ کی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑھے ہیں۔ وہ اولمپک گیمز جیسے اچھوتے تصور کے بھی بانی ہیں۔یونانی فن تعمیر، مجسمہ سازی، مصوری ، ادب ، فلسفہ اور فنون لطیفہ کے دیگر شعبوں کو پروان چڑھانے اور جدت کا رنگ دینے میں تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
محققین کے مطابق معروف فلسفی افلاطون، سقراط کا شاگرد تھا جبکہ ارسطو،افلاطون کا شاگرد تھا۔ سقراط نے یونان کے شہر ایتھنز میں اپنے زمانے کی سب سے بڑی علمی درسگاہ کی بنیاد رکھی جس سے بعد میں ارسطو جیسے دانشور اور فلسفی نے تحصیل علم کیا۔ یونان کو یہ انفرادیت بھی حاصل ہے کہ یہی وہ ریاست تھی جہاں جمہوریت کا تصور سب سے پہلے دیا گیا جو رفتہ رفتہ پوری دنیا میں پھیلتی چلی گئی۔
موجودہ یونان کے دارالحکومت ایتھنز کواقتصادی، تجارتی،صنعتی ثقافتی اور سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے مرکزیت حاصل ہے۔ چوتھی اور پانچویں صدی قبل مسیح میں یورپ کی ریاستوں پر یونان کے گہرے ثقافتی اور علمی اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے تھے جو رفتہ رفتہ پوری دنیا میں پھیلتے چلے گئے اور یورپ سمیت دیگر تہذیبوں میں رچ بس گئے۔ یونان کی ثقافت نے کئی ادوار دیکھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین یونان کی ثقافت کو صدیوں کے اعتبار سے مختلف ادوار میں تقسیم کرتے ہیں۔ یونان نے سب سے زیادہ ترقی ''کلاسیکی دور‘‘ میں کی ۔یہ وہ دور تھا جب یونانی ثقافت نے تہذیبی ارتقا کے ساتھ ساتھ تعلیم، فلسفہ،سائنس ، ریاضی ، فنون لطیفہ اور دیگر علوم میں غیر معمولی ترقی کی۔
یونانی تہذیب کا ارتقا
تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ پہلی یونانی تہذیب بحیرہ روم کے جزیرے کریٹ میں لگ بھگ2200قبل مسیح میں پھیلی۔ اس تہذیب کو ''مینو‘‘ نامی ایک مشہور حکمران کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔منوین افراد کاشتکاری ، ماہی گیری کے پیشوں سے وابستہ تھے جبکہ ان کے حکمران عالیشان ، وسیع و عریض محلات میں شان و شوکت سے رہتے تھے۔ اس زمانے کے ایک محل ''شاہ مینوس محل‘‘ کا تاریخی اوراق میں بڑا تذکرہ ملتا ہے جو شاہ مینوس نے انتہائی چاہت سے تعمیر کرایا تھا۔یہ تہذیب لگ بھگ سات سو سال تک جاری رہی،1500قبل مسیح کے بعد اس تہذیب کے آثار نہیں ملتے۔
اس کے بعد یہاں کے ایک قدیم شہر میسینی کے آثار ملے تھے ۔ میسینیوں کی اس تہذیب کے آثار کی شروعات ''منوینوں‘‘ کے بعد ہوئی تھی۔ میسینئین لوگ بڑے مالداراور جنگجو تھے جو لگ بھگ پانچ صدیوں تک شریک اقتدار بھی رہے۔ انہوں نے نہ صرف شاندار محلات تعمیر کرائے بلکہ سلاطین کی قبروں سے سونے اور جواہرات کے آثار بھی ملے ہیں۔ یہ پیدائشی جنگجو تھے اس لئے یہ اکثر و پیشتر نہ صرف دست و گریباں رہتے بلکہ دور دراز بھی جا کر جنگیں لڑا کرتے تھے۔
نئے دور کا آغاز
اپنے اسلاف کے ورثے دیکھتے ہوئے نئی یونانی نسل کو اس امر کا شدت سے ادراک ہونے لگا تھا کہ وہ ایک بہت بڑی تہذیب اور ورثے کے امین ہیں۔ چنانچہ رفتہ رفتہ یونان ایک مرتبہ پھر کامیاب ریاست کے طور پر ابھرنا شروع ہوا۔ یہ وہ دور تھا جب یونا ن میں شہری سطح پر حکومتوں کا، رواج شروع ہوا جسے یہاں کے عوام نے سراہا۔ وقت کے ساتھ ساتھ شہری ریاستیں سکڑتی گئیں اور 500 قبل مسیح کے آس پاس یونان دو ریاستوں تک محدود ہو گیا۔ ایک سپارٹا کے نام کی شناخت اور دوسرا ایتھنز کے نام سے پہچانا جانے لگا۔سپارٹا کے لوگ بنیادی طور پر جنگجوانہ فطرت کے مالک تھے ان کے پاس ایک طاقتور حکمران کونسل،خفیہ پولیس اور طاقتور خفیہ نیٹ ورک تھا ۔ان کی خواتین سمیت بچوں کو جنگی تربیت سے بھی گزرنا پڑتا تھا۔اس کے برعکس ایتھنز کے لوگ جمہوریت پسند اور ترقی یافتہ سوچ کے مالک تھے۔ یہاں بالغ حق رائے دہی کا قانون تھا۔عوام جمہوری طریقے سے اپنے نمائندوں کا انتخاب کرتے تھے۔ان کی ترجیحات تعلیم اور فنون کی ترویج و ترقی تھا۔ انہوں نے دنیا بھر کے اعلیٰ دماغ معلموں، دانشوروں، فلاسفروں، معماروں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کو ایتھنز میں کام کرنے کی دعوت دی۔
404 قبل مسیح تک ایتھنز اور سپارٹا نے مل کر فارس کے حملہ آوروں سے مقابلہ کیا۔اس کے بعد دونوں ریاستیں ایک دوسرے کے خلاف ہو گئیں۔ 490 قبل مسیح سے 431 قبل مسیح تک دونوں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوتی رہیں، نتیجتاًدونوں ریاستیں کمزور ہوتی چلی گئیں جسے 338 قبل مسیح میں مقدونیہ نے فتح کر لیا۔ یہاں مثبت بات یہ تھی کہ یونانی فلاسفروں، ریاضی دانوں اور سائنس دانوں نے مقدونیائی حکمرانوں کی زیر نگرانی اپنے تحقیقاتی عمل جاری رکھے جن کے دوررس نتائج برآمد ہوئے۔
146 قبل مسیح میں رومن فوج نے یونان پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا۔ لیکن یہاں بھی خوش آئند بات یہ تھی کہ رومن سلاطین یونان کی ترقی دیکھ کر اس کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے اور انہوں نے یونانی نظریات ، یونانی فنون لطیفہ اور یہاں کی سائنسی کاوشوں کو مزید آگے بڑھایا۔395 ہجری میں یونان ، بازنطینی سلطنت کا حصہ بن گیا۔اس پر قسطنطنیہ (جو اب استنبول کے نام سے جانا جاتا ہے ) کی حکومت قائم ہو گئی۔
1453 ہجری میں جب یونانی بازنطینیوں اور فرانسیسی و اطالوی صلیبیوں کے درمیان جنگ ہوئی جس سے یونان کی سرزمین کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا۔ 1458 عیسوی میں سلطنت عثمانیہ کے سلطان محمد فاتح نے شہر کو فتح کر لیا۔
1821ء اور 1831ء کے دوران یونان نے جنگ آزادی میں عثمانیوں کو کمزور کیا اور 1834ء میں ایتھنز کو آزاد یونان کا دارالحکومت قرار دے دیا۔ اگلی چند دہائیوں کے دوران اس شہر کی جدید بنیادوں پر تعمیر اور مرمت کا کام شروع کر کے اس تاریخی ورثے کی بحالی کا کام ہنگامی بنیادوں پر شروع ہوا۔ 1896 میں اس شہر نے پہلے گرمائی اولمپک گیمز کی میزبانی کا شرف حاصل کیا۔آج کا ایتھنز جدید اور قدیم تعمیراتی ورثے کا ایک ایسا شاہکار ہے جو سارا سال دنیا کے کونے کونے سے آئے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
گیت، پانی اور سرمستی (تھائی لینڈ کا منفرد تہوار)

گیت، پانی اور سرمستی (تھائی لینڈ کا منفرد تہوار)

تھائی لینڈ کی سرزمین ایک ایسی جادو کی نگری ہے جو اپنی ثقافت، تہذیب اور خوبصورتی میں قدرت کی فیاضی سے مالا مال ہے۔ ندیوں، دریائوں اور سمندر میں گھرا یہ ملک اپنے اندر جنگلوں کی صورت میں سبزے کے کئی قطعات رکھتا ہے، جہاں ہر نسل کے جنگلی حیوانات پائے جاتے ہیں۔ اپنی روایات کے حوالے سے بھی تھائی لینڈ منفرد ہے، یہاں کے لوگ زندہ دل اور ہنس مکھ ہیں۔ وہ اپنے سال نو کا آغاز اپریل، مئی کے درمیان کرتے ہیں اور اس کو ایک انوکھے انداز سے مناتے ہیں۔ تمام لوگ نئے کپڑے پہنے مقامی مندروں کا رخ کرتے ہیں اور مذہبی رسومات کی ادائیگی کے بعد اپنے بڑوں سے مل کر ان کی دعائیں حاصل کرتے ہیں۔ اس کے بعدتمام نوجوان اپنا رخ گلیوں اور سڑکوں کی جانب موڑتے ہیں، جہاں وہ دنیا کی سب سے بڑی پانی کی لڑائی میں حصہ لیتے ہیں۔ اس رسم کو ''سونگ کران‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان دنوں میں لوگ گاڑیوں پر سوار یا پیدل چلتے ہوئے بھی ایک دوسرے پر پانی کی برسات کرتے نظر آتے ہیں۔ اس دن کوئی شخص گیلا ہوئے بغیر گھر واپس نہیں آ سکتا۔ بڑوں پر پانی پھینکنے کیلئے ان سے پہلے اجازت طلب کی جاتی ہے اور پھر ان کو بھی پانی میں نہلا دیا جاتا ہے۔چھوٹے بچے اپنی رنگ برنگی پانی کی بندوقیں پکڑے ہوئے ایک دوسرے پر پانی برساتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کئی جگہ پر ہاتھی بھی اپنی سونڈ کے ذریعے پانی کی بوچھاڑ سے گزرنے والوں کو گیلا کر رہے ہوتے ہیں۔ہر طرف خوشی اور شادمانی کی ایک کیفیت ہوتی ہے جو ہر بشر کے چہرے پر نظر آتی ہے، ایک طمانیت اور سرخوشی کے عالم میں منایا جانے والا یہ میلہ لوگوں کو ان کی روز مرہ زندگی کے مسائل سے دور لے جاتا ہے اور ایک دوسرے کے قریب لا کر برداشت اور محبت کا مادہ پیدا کرتا ہے۔ برف ملا پانی جب کسی پر پھینکا جاتا ہے تو ساتھ ہی اس کے چہرے پر سفید رنگ کا ایک پائوڈر بھی مل دیا جاتا ہے، نعروں اور چیخوں کے ساتھ سال نو کی مبارک باد دی جاتی ہے۔ گلیوں اور چوکوں پر کھانے پینے کا وافر انتظام ہوتا ہے جبکہ رات ہوتے ہی مشعل بردار جلوس گلیوں کا رخ کرتا ہے، جس کے ساتھ لوگوں کی ایک بڑی تعداد گانے بجاتے شامل ہوتی چلی جاتی ہے۔ ہر برس سیاحوں کی ایک بڑی تعداد یہ میلہ دیکھنے کیلئے تھائی لینڈ کا رخ کرتی ہے اور خوشی و شادمانی کے اس تہوار سے لطف اندوز ہوتی ہے۔ 

روشنی کی کہکشاں اور موسیقی (گلاسٹون بری فیسٹیول)

روشنی کی کہکشاں اور موسیقی (گلاسٹون بری فیسٹیول)

''گلاسٹون بری فیسٹیول‘‘ برطانیہ کا ایک اہم پرفارمنگ آرٹس میلہ ہے جس میں پیش کئے جانے والے گانے، رقص، کامیڈی، تھیڑاور سرکس اس کی مقبولیت کا باعث ہیں۔ ہر برس جون کے آخری ویک اینڈ پر پانچ روز کیلئے منعقد ہونے والا یہ میلہ برطانیہ کی معیشت کو سالانہ سوملین پائونڈ کا فائدہ پہنچاتا ہے۔ گزشتہ برس پیش کئے جانے والے اس میلے میں ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ اسی ہزار افراد کا اجتماع دیکھنے میں آیا جس میں پرفارمنگ آرٹس سے متعلق365ایونٹس پیش کئے گئے۔ اس میلے میں80اسٹیج تیار کئے گئے تھے تاکہ لوگوں کی ایک کثیر تعداد بیک وقت منعقد ہونے والے پروگرامز کا مزا اٹھا سکے۔ اس میلے میں سب سے زیادہ انتظار میوزک کنسرٹس کا ہوتا ہے اور گزشتہ برس یوٹو، کولڈ، پلے، بیونسے اور بی بی کنگ جیسے سپر اسٹارز کی پرفارمنس موسیقی کے شعبے میں رکھی گئی تھیں۔ خوبصورتی سے سجائے گئے اسٹیج پر روشنیوں کی کہکشاں میں جب موسیقاروں نے اپنے ساز چھیڑے اور گلوکاروں نے اپنے فن کا سحر بکھیرا تو شائقین فرط مسرت سے ان کے ساتھ جھومنے اور ناچنے لگے۔ میڈیا نے ان کنسرٹس کو ٹی وی چینلز پر براہ راست پیش کیا، جن کو گھر بیٹھے کروڑوں شائقین نے بھی دیکھا۔موسیقی کے علاوہ گلاسٹون بری فیسٹول میں رقص بھی شامل تھا جو لوگوں کی بھرپور توجہ کا مرکز بنا۔ اس میلہ میں باقاعدہ مقابلوں کا انعقاد کیا گیا، جن میں پروفیشنل ڈانسرز کے علاوہ عام لوگوں نے بھی حصہ لیا۔ اس میلے کی مقبولیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب گزشتہ برس اس کی ایک لاکھ اسی ہزار ٹکٹوں کی فروخت انٹرنیٹ کے ذریعے شروع کی گئی تو محض تین گھنٹوں کے اندر یہ تمام ٹکٹس بک ہو چکی تھیں۔ پانچ دہائیوں سے منعقد ہونے والے اس میلے نے جس خوبی سے آرٹ کی خدمت کی ہے، اس کے معترف اقوام متحدہ کے علاوہ دنیا بھر میں پرفارمنگ آرٹ کے شائقین بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ گلاسٹون بری فیسٹیول کو دنیا کے مختلف ممالک میں بھی منعقد کیا جائے تاکہ اس سے زیادہ وہ لوگ فیض یاب ہو سکیں۔ 

قابلِ تجدید توانائی   عالمی مستقبل کی ضامن

قابلِ تجدید توانائی عالمی مستقبل کی ضامن

قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع ہم مستقبل کو محفوظ بنا سکتے ہیں، توانائی کی کمی کو دور کر سکتے ہیں ، توانائی کی قیمتیں مستحکم رکھ سکتے ہیں اور توانائی کا تحفظ یقینی بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔قابل تجدید توانائی کا سب سے اہم فائدہ ماحولیات پر اُن منفی اثرات سے بچاؤ ہے جو توانائی کے دیگر وسائل خاص طور پر فوسل فیول سے توانائی کی پیداوار سے ماحول پر مرتب ہوتے ہیں۔ تاہم توانائی کے قابل تجدید وسائل کیلئے حکومتوں اور سوسائٹی کا تعاون بے حد اہم ہے، جیسا کہ قابل تجدید توانائی کیلئے بین الاقوامی ادارے (IRENA) کے ڈائریکٹر جنرل فرانسسکو نے کہا ہے کہ اگر حکومتوں کا تعاون حاصل ہو تو قابل تجدید توانائی کے سستے اور ماحول دوست ذرائع تک عام اور مساوی رسائی یقینی بنائی جا سکتی ہے۔ قابل تجدید توانائی سے مراد ایسی توانائی ہے جس کو استعمال کرنے سے اس میں ہونے والی کمی متواتر پوری ہوتی رہے۔ مثال کے طور پر شمسی، ہوائی اور پن بجلی۔یہ سستی، قابل بھروسا، پائیدار اور توانائی کے جدید وسائل تمام لوگوں کیلئے رسائی یقینی بناتے ہیں اور اقوام متحدہ کا پائیدار ترقی کا ساتواں ہدف بھی ہے۔ قابل تجدید توانائی کے بین الاقوامی ادارے (IRENA) کے مطابق حکومتوں کو توانائی کے قابل تجدید ذرائع کی جانب منتقلی کی جانب راغب کرنے میں کوئی مشکلات پیش نہیں آئیں لیکن حکومتیں اس معاملے میں عزائم اور دعوؤں کو عملی جامہ پہنانے میں ابھی بہت پیچھے ہیں۔اس کیلئے ضروری ہے کہ بین الاقوامی تعاون کا کوئی طریقہ کار اختیار کیا جائے۔ گزشتہ سال COP28میں شریک ممالک نے اس حوالے سے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا تھا جس کا توانائی تک رسائی، اس کے تحفظ اور توانائی کے ماحول دوست ذرائع کی ترقی کے لیے سٹریٹیجک حل ڈھونڈنا تھا۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اس حوالے سے منظرنامہ تبدیل کرنے کی خواہش پائی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں بہت سے ممالک خود منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور دیگر ممالک کو بھی قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو تیزی سے ترقی دینے کے منصوبوں کی تیاری میں مدد فراہم کر رہے ہیں‘ اس طرح باہم مل کر قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کو حقیقت کا روپ دینے کیلئے بین الاقوامی تعاون کا ایک نیا طریقہ کار اختیار کر رہے ہیں۔ قابل تجدید توانائی کیلئے بین الاقوامی ادارے (IRENA) کے ڈائریکٹر جنرل فرانسسکو لا کیمیرا کے مطابق ترقی یافتہ دنیا کو نظام تبدیل کرنا ہو گا تاہم ترقی پذیر ممالک بھی اس معاملے میں بڑا قدم اٹھا سکتے ہیں اور توانائی کے نئے نظام کی جانب پیشرفت کر سکتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کے پاس توانائی کے شعبے میں تبدیلیاں لانے کیلئے درکار ذرائع اور مالی وسائل موجود ہیں لیکن ترقی پذیر دنیا کو کئی طرح سے مدد کی ضرورت ہے۔ ان ممالک کو اپنے تجربات، مالی وسائل اور ٹیکنالوجی کے تبادلے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں تبدیلی کی رفتار تیز کرنے میں حائل رکاوٹوں پر بھی قابو پانا ہو گا۔ ماہرین کے مطابق افریقہ غالباً دنیا میں قابل تجدید توانائی اور ماحول دوست ہائیڈروجن (صاف اور قابل تجدید توانائی کی حامل) کی پیداوار کے اعتبار سے اہم ترین خطہ ہے تاہم اس کے پاس اپنی اس صلاحیت سے اپنے لوگوں اور دنیا بھر کو فائدہ پہنچانے کیلئے درکار بنیادی ڈھانچے کا فقدان ہے جبکہ بندرگاہوں، پائپ لائنوں اور شہری بنیادی ڈھانچے کا اس میں فیصلہ کن اور اہم کردار ہوتا ہے۔ ایشیائی ممالک بھی اس میں قابل ذکر ہیں جہاں سورج کی روشنی اور دریاؤں کا پانی ایسے وسائل ہیں کہ جو بہت سے ممالک کیلئے ضرورت کی توانائی پیدا کرنے کیلئے کافی ہیں، تاہم وسائل تک رسائی میں رکاوٹوں کی وجہ سے ان وسائل سے استفادہ نہیں کیا جارہا۔ پاکستان کی مثال ہی کافی ہونی چاہیے جہاں پچھلے کچھ سالو ں کے دوران شمسی توانائی کے وسائل تک نسبتاً آسان رسائی کی وجہ سے گھروں اور نجی و سرکاری عمارتوں میں شمسی توانائی کے حصول کا نظام نصب کرنے سے کافی بڑی تبدیلی آنا شروع ہوئی ہے۔ قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی کی رفتار تیز کرنے کیلئے ہمیں بعض بنیادی رکاوٹوں پر قابو پانا ہو گا۔ اس ضمن میں بنیادی ڈھانچے کی کمی پہلی رکاوٹ ہے۔جہاں ضرورت ہو وہاں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور پہلے سے موجود نظام کو جدت دینا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔اس حوالے سے موجودہ قانونی نظام کے معاملے میں بھی مسائل درپیش ہیں، چنانچہ ایسا نظر آنے لگا ہے کہ توانائی کی منڈی کی موجودہ شکل قابل تجدید توانائی کے لیے سازگار نہیں۔حال ہی میں پاکستان میں شمسی توانائی کے حوالے سے حکومتی سطح پر زیر بحث آنے والی نئی پالیسی اس کی ایک مثال ہے کہ اب بھی معدنی ایندھن کے منصوبوں کو بڑے پیمانے پر حمایت ملتی ہے، جس کا فوری خاتمہ ہونا چاہیے۔ علاوہ ازیں بجلی کی خریداری کے معاہدے اس طرح ترتیب دیے جاتے ہیں جس سے قابل تجدید توانائی کے شعبے میں ترقی کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے، مثال کے طور پر پاکستان میں کپیسٹی پیمنٹ ، جس نے شمسی توانائی کی حوصلہ شکنی کا جواز پید اکیا ہے۔مگرتوانائی کی قیمتوں کا یہ طریقہ کار قابل تجدید توانائی کے لیے ہر گز موزوں نہیں ہے کیونکہ اسے مہیا کردہ بجلی اور اس کی قیمت کے معاملے میں استحکام اور تحفظ کے حصول کے لیے طویل مدتی معاہدے درکار ہیں۔ ہمیں قابل تجدید توانائی کو ترقی دینے کے لیے باصلاحیت پیشہ ور افراد اور ہنرمند افرادی قوت کی بھی ضرورت ہے۔اگر ہم دبئی میں ہونے والی COP28 میں کیے گئے وعدوں کے مطابق معدنی ایندھن کا استعمال واقعتاً ترک کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان تین رکاوٹوں پر قابو پانا ہو گا۔قابل تجدید توانائی کے حق میں ہمارے تمام فیصلوں کا مقصد توانائی کے معاملے میں مزید بہتر استعداد کا حصول ہونا چاہیے، لیکن اس حوالے سے ایسا قانونی ماحول سب سے زیادہ اہم ہے جہاں ہم محض اسے اخلاقی ذمہ داری قرار دے کر اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے بلکہ ضروری ہے کہ ہر کوئی یہ سمجھے کہ قابل تجدید توانائی کی جانب مراجعت اس کی ذمہ داری ہے۔

دنیا کے دو منفرد تہوار

دنیا کے دو منفرد تہوار

دنیا بھر میں عجیب و غریب تفریحی میلے اور تہواور منعقد کئے جاتے ہیں۔ ان میں عوام کی تفریح و طبع کا پہلو تو ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی ان میں بہت سے دلچسپ پہلو بھی نمایاں ہیں جو اس مقام کی تاریخ کو بھی بیان کرتے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک میں صدیوں سے لوگ مختلف تہواروں کا حصہ بنتے آئے ہیں۔ سنسنی خیزی اور جوش وجذبہ ان قدیم تہواروں کا بنیادی وصف ہوتا ہے۔ اکثر ان میں مذہبی تہوار بھی ہیں جو نسل در نسل منتقل ہوتے رہے۔ دنیا کے چند دلچسپ اور حیرت انگیز تہواروں میں سے دو کا تذکرہ پیش ہے جن میں لاکھوں افراد شرکت کرتے اور بھرپور طریقہ سے انہیں مناتے ہیں۔ 

آج کا دن

آج کا دن

ڈیپ بلیو کمپیوٹرڈیپ بلیو ایک شطرنج کھیلنے کا ماہر کمپیوٹر تھا جسے ایک منفرد مقصد کیلئے بنایا گیا تھا۔اس کمپیوٹر کو IBMکی جانب سے بنایا گیا تھا۔ یہ واحد کمپیوٹر تھا جسے دنیا کے بہترین پلیئر اور شطرنج کے عالمی چیمپئن کو گیم ہرانے کا اعزاز حاصل ہوا۔ کارنیگی میلن یونیورسٹی میں 1985 ء کو اس کا آغازChip Testکے نام سے کیا گیااس کے بعد اسے IBMنے خرید لیا اور اسے ڈیپ تھاٹ کا نام دیا گیا۔1989ء کو اس کانام تبدیل کر کے ڈیپ بلیو رکھ دیا گیا۔ اس کمپیوٹر نے پہلی مرتبہ 1996 میں چھ گیمز کے میچ میں عالمی چیمپئن گیری کاسپاروف سے کھیلا جہاں اسے شکست ہوئی۔11مئی 1997 میں اسے اپ گریڈ کیا گیا اور، چھ گیمز کے دوبارہ میچ میں، اس نے تین گیمز جیت کر اور ایک ڈرا کر کے کاسپاروف کو شکست دی۔ ڈیپ بلیو کی فتح کو مصنوعی ذہانت کی تاریخ میں ایک سنگ میل سمجھا جاتا تھا اور کئی کتابوں اور فلموں کا موضوع رہا ہے۔کانگو میں بھگدڑ11 مئی 2014ء کو کانگو کے فٹ بال کلبوں کے درمیان میچ جاری تھا، شائقین میں ہنگامہ آرائی کی وجہ سے ریفری نے میچ کو فوری طور پر روک دیا۔پولیس نے سٹینڈز میں آنسو گیس کا استعمال کیا جس کے بعد وہاں بھگدڑ مچ گئی۔ جس کے نتیجے میں 15افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ گورنر کا کہنا تھا کہ ہنگامہ آرائی میں کم از کم25افراد زخمی بھی ہوئے ۔کچھ لوگ گیس کی وجہ سے اندھے بھی ہو گئے ۔ شائقین کی بھگدڑ کی وجہ سے سٹیڈیم کی ایک دیوار بھی گر گئی۔زیادہ تر لوگوں کی موت دم گھٹنے کی وجہ سے ہوئی۔ترکی میں کار بم دھماکے11مئی 2013ء میں ترکی میں کار بم دھماکے ہوئے۔یہ دھماکے صوبہ حاتے میں ہوئے جو شام کی سرحد کے قریب اور مصروف ترین علاقہ ہے۔ سرحدی چوکی سے5کلومیٹر دور64افراد پر مشتمل علاقے ریہانلی میںد و کار دھمکے ہوئے،اس حملے میں تقریباً52افراد ہلاک اور140زخمی ہوئے۔ترک حکومت نے الزام لگایا کہ ان حملوں میں شامی حکوت ملوث ہے۔حملے کے بعد دو ہفتوں کے اندر اندر12ترک شہریوں پر فرد جرم عائد کی گئی۔ شامی حکومت نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا۔ بم دھماکوں کے بعد، سیکڑوں شامی ریہانلی سے فرار ہو گئے۔سعادت حسن منٹواردو کے عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو 11 مئی1912ء کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ سعادت حسن منٹو کا تعلیمی کریئر قابل ذکر نہیں تاہم منٹو نے زمانے کے ایک نبض شناس کی حیثیت سے انسانی نفسیات کو اس خوبصورت انداز میں اپنا موضوع بنایا کہ ہر مکتبہ فکر داد دیئے بغیر نہ رہ سکا۔ سعادت حسن منٹو اردو کے واحد افسانہ نگار ہیں جن کی تلخ مگر سچی تحریریں آج بھی شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ منٹو کے افسانے، مضامین اور خاکے اردو ادب میں بے مثال حیثیت رکھتے ہیں۔ منٹو ایک معمار افسانہ نویس تھے جنہوں نے اردو افسانہ کو ایک نئی راہ دکھائی۔ ان کے مقبول افسانوں میں ''ٹوبہ ٹیک سنگھ، کھول دو، ٹھنڈا گوشت ‘‘نمایاں ہیں۔ 18جنوری 1955ء کو ان کا انتقال ہوا۔

دو متضاد جیلیں

دو متضاد جیلیں

لفظ جیل کے ساتھ ہی ذہن میںناپسندیدہ اور گھٹن والی جگہ کا تاثر ذہن میں آتا ہے۔ آج ہم جن دو متضاد جیلوں کا ذکر کرنے جا رہے ہیں ان میں سے ایک کو دنیا کی خوفناک ترین اور خطرناک ترین قراردیا جاتا ہے جبکہ دوسری ایسی جیل ہے جو ایک پرتعیش جیل کی شہرت رکھتی ہے۔ خطرناک ترین جیل ایل سلواڈور، وسطی امریکہ کا سب سے چھوٹا اور سب سے زیادہ گنجان آباد ملک ہے۔یہ بحرالکاہل کے ساحل پر گوئٹے مالا اور ہنڈوراس کے درمیان خلیج فونسیکا پر واقع ہے۔ 65لاکھ آبادی کا حامل یہ ملک ان ممالک میں شامل ہے جہاں جرائم (قتل وغارت ،منشیات سمگلنگ ، اغوا برائے تاوان اور بھتہ) کی شرح بہت زیادہ ہے۔ اس کا اندازہ ان اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج سے دو عشرے پہلے یہاں قتل عمد کی شرح 41فیصد یعنی ایک لاکھ افراد تھی۔جن میں 60 فیصد قتل جرائم پیشہ گروہوں نے کئے تھے ۔چھوٹے موٹے جرائم پیشہ گروہوں کو چھوڑ کر اس ملک میں رفتہ رفتہ دو بڑے جرائم پیشہ حریف گروہوں یعنی ''مارا سلواٹروچا‘‘ (MS-13)اور '' بیریو18‘‘کو جرائم کی دنیا کے ''بے تاج بادشاہ‘‘ کہا جانے لگا ، جن کا نعرہ تھا '' دیکھو ، سنو مگر منہ بند رکھو‘‘۔ان دونوں جرائم پیشہ گروہوں کے درمیان جاری جنگ کی وجہ سے ایل سلواڈور میں گزشتہ کئی دہائیوں سے دہشتگردی اور خون ریزی کا بازار گرم تھا۔ ایل سلواڈور کے صدر بوکیلے ہیں جو حال ہی میں اس وجہ سے بھاری اکثریت سے ملک کے صدر منتخب ہوئے ہیں ،جن کا انتخابی نعرہ ہی ملک سے ان گینگز کا فوری خاتمہ تھا۔ چنانچہ صدر بوکیلے نے عنان اقتدار سنبھالتے ہی ملک میں ہنگامی حالات کا اعلان کرتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر ایک ایسی جیل تعمیر کرائی جس پر یہ محاورہ صادق آتا ہے کہ یہاں تو ''چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی‘‘۔اس جیل کی سخت سکیورٹی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ برطانیہ کے بہت بڑے ایک میڈیا گروپ کے نمائندوں کو طویل انتظار کے بعد بالآخر صدر بوکیلے کی خصوصی اجازت کے بعد کڑی نگرانی میں اس جیل کے دورے کی اجازت ان شرائط پر دی گئی کہ نہ تو وہ کسی قیدی سے ہم کلام ہوں گے اور نہ ہی کسی قیدی سے آنکھ ملانے کی کوشش کریں گے۔ عام حالات میں اس جیل کے قیدیوں کو نہ تو اپنے ساتھیوں سے بات کرنے کی اجازت ہوتی ہے اور نہ ہی نظریں اوپر اٹھانے کی۔ یہی وجہ ہے کہ اس جیل کو دنیا کی ''ظالم ترین جیل ‘‘ کی شناخت بھی حاصل ہے۔یہاں جیل کے سیل سے باہر نکالنے کے دوران قیدیوں کے پائوں میں لوہے کے کڑے ڈال دئیے جاتے ہیں جن سے وہ گھٹنوں کے بل چلنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ''سینٹر فار دی کنفائنمنٹ آف ٹیررازم‘‘ (سیکوٹ) نامی یہ میگا جیل، ایل سلوا ڈور کے دارالحکومت شان سلواڈور سے بجانب جنوب مشرق 74 کلومیٹر دور ایک ویران اور بیاباں علاقے میں واقع ہے۔گزشتہ سال جنوری میں صدر بوکیلے نے ہی اس جیل کا افتتاح کیا تھا۔ انہوں نے اپنے خطاب کے دوران کہا تھا '' یہ جیل ایل سلواڈور کے خطرناک گینگز کیخلاف جنگ کی علامت ہے‘‘۔ پہلے مرحلے میں یہاں 2ہزارخطرناک ترین قیدیوں کو منتقل کیا گیا۔ 456 کنال پر مشتمل یہ جیل 8 بلاکوں پر مشتمل ہے۔ ہر بلاک میں 32 قید خانے ہیں جہاں مجموعی طور پر 40ہزارقیدیوں کو رکھنے کی گنجائش ہے۔جنہیں 24 گھنٹے بلا تعطل جدید ترین کیمروں اور اسلحہ سے لیس تازہ دم سکیورٹی اہلکاروں کی زیر نگرانی رکھا جاتا ہے۔ جیل کے اندر داخل ہونے کیلئے جدید سکیننگ سسٹم کے علاوہ ایک وسیع سکیورٹی نیٹ ورک سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے۔ اس کی سخت سکیورٹی پر تبصرہ کرتے ہوئے ''تشدد کی روک تھام‘‘سے متعلق اقوم متحدہ کی ذیلی کمیٹی کے ایک سابق رکن مسٹرمیگوئل ایک ٹی وی انٹرویو میں کہہ رہے تھے کہ یہ جیل کنکریٹ اور فولاد کا ایک ایسا گڑھا ہے جو سزائے موت کے بغیر لوگوں کو مارنے کی کوشش ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ جیل کے گرد دو باڑیں بھی ہیں جن پر نصب تاروں میں ہائی وولٹیج بجلی گزرتی ہے۔اس کے علاوہ ایسے 19 واچ ٹاورز بھی اس جیل کے اردگرد پھیلے ہوئے ہیں جن پر 24 گھنٹے اسلحہ بردار محافظ اسلحہ تانے نظر آتے ہیں۔ اس قید خانے میں ہر قیدی کیلئے کتنی جگہ دی گئی ہے ؟ برطانوی میڈیا گروپ کے نمائندے کے مطابق حکام اس سوال کا جواب دینے پر خاموش تھے۔تاہم نمائندے نے جیل کے تعمیراتی نقشے سے اندازہ لگایا ہے کہ ہر قیدی کے حصے میں فقط 0.58 مربع میٹر جگہ آتی ہے جبکہ اقوام متحدہ کے معیار کے مطابق، اس طرح کے مشترکہ قید خانوں میں ہر قیدی کو کم از کم 3.4 مربع میٹر جگہ مہیا کرنا لازم ہوتا ہے۔ یہاں پر قیدیوں کو دھات کے بنے چار منزلہ بیڈ پر سلایا جاتا ہے جس پر کسی قسم کا گدا یا چادر نہیں ہوتی۔قیدیوں کے سیل فولادی جالیوں سے بنے ہوئے ہیں جن پر محافظ اسلحہ تانے چوبیس گھنٹے نظر رکھے ہوتے ہیں تاکہ کوئی قیدی ان سے جھول نہ جائے۔انہیں کھانے کیلئے چاول، دالیں ، پاستا یا ابلا انڈہ دیا جاتا ہے۔انہیں یہ سب کچھ بغیر چمچ یا کانٹا کے کھانا ہوتا ہے کیونکہ دھاتی اشیاء جان لیوا بھی ہو سکتی ہیں۔ ایل سلواڈور میں سارا سال موسم گرم اور حبس والا ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود قید خانے میں نہ تو کوئی کھڑکی اور نہ ہی کوئی پنکھا۔ہر سیل میں قیدیوں کیلئے دو بیت الخلاء بغیر کسی پردے کے مہیا کئے گئے ہیں۔پرتعیش سہولتوں والی جیل : جیلوں بارے عام طور پر سننے میں آتاہے کہ کسی گروہ نے اپنے ساتھی چھڑانے کیلئے جیل پر حملہ کر دیا۔ آپ کو یہ سن کر یقینا حیرت ہو گی کہ وینزویلا ایک ایسا ملک ہے جہاں ایک جرائم پیشہ گروہ سے جیل کا قبضہ چھڑانے کیلئے حکومت کو فوج کے 11ہزار سکیورٹی اہلکاروں کی خدمات حاصل کرنا پڑیں۔یہ صرف ایک جیل نہیں بلکہ جیل کے اندر ایک شہر تھا جہاں قیدیوں کے اہلخانہ اور عزیز و اقارب بھی رہتے تھے۔'' ٹوکورون‘‘ نامی ملک کی سب بڑی یہ جیل ، وینزویلا کے شمال میں کارکاس کے جنوب مغرب میں لگ بھگ 140 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ جس پر کئی سالوں تک وینزویلا کے سب سے طاقتور جرائم پیشہ گروہ ''ٹیرن ڈی آرگوا‘‘کا قبضہ رہا ہے۔ جرائم کی دنیا میں اس جیل کو ٹیرن ڈی آرگوا کا '' ہیڈ آفس‘‘ بھی تصور کیا جاتا تھا۔جہاں سے اس تنظیم کے سربراہ دنیا بھر میں پھیلے اپنے نیٹ ورک کے اہلکاروں کو ہدایات دیا کرتے تھے۔سچی بات تو یہ ہے کہ اس جیل کے اندر پہنچ کر یہ تصور ختم ہو جاتا ہے کہ آپ کسی جیل کے اندر ہیں۔ گزشتہ سال ستمبر میں چھ گھنٹے کے میگا آپریشن کے بعد حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے اس جیل کا قبضہ حاصل کر لیا ہے۔جو تفصیلات سامنے آئیں ان کے مطابق، اس جیل میں جرائم پیشہ گروہ ''ٹیرن ڈی آرگوا‘‘ کاسرغنہ ہیکٹر گیریرو فلورس قتل اور منشیات سمگلنگ کے جرم میں 17 سال کی قید کاٹ رہا تھا۔ ملک کی وزارت داخلہ کے ایک ترجمان کے مطابق اس جیل میں عملاً جرم کا راج تھا۔ آپریشن کے دوران جیل سے باہر نکلنے والی سرنگوں کا سراغ بھی ملا ہے۔یہ گروہ اتنا طاقتور تھا کہ جیل کے اندر باہر آزادانہ نقل و حرکت ان کیلئے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔مقامی میڈیا نے اس جیل بارے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ '' یہ وہ جگہ ہے جہاں سے یہاں قید اس گینگ کے سرغنہ ، چلی ، پیرو ،ایکواڈور اور کولمبیا میں موجود اپنے ساتھیوں کو ہدایات دیتے تھے۔ اس گینگ کے ارکان جیل کے اندر باہر ایسے گھومتے تھے جیسے ایک آزاد شخص پھرتا ہے۔ اس جیل میں کسی بھی ہوٹل کی طرح پرتعیش سہولیات موجود تھیں، جن میں سوئمنگ پول ، نائٹ کلب ، ایک چھوٹا سا چڑیا گھر اور اشیاء خور ونوش کی متعدد دکانیں شامل ہیں۔اس کامیاب آپریشن کے بعد وینیزویلا کے صدر نکولس مادورو نے سیکیورٹی اہلکاروں کو مبارک دی اور کہا کہ اب ہمیں وینیزویلا کو مکمل طور پر جرائم سے پاک ملک کی شناخت دلانا ہوگی۔