کلیم عثمانی . . . شاندار فلمی نغمات اور ملی گیتوں کا شاعر
برصغیر کی فلمی تاریخ میں کچھ نغمہ نگار ایسے بھی تھے جنہیں صرف گیت نگاری کی وجہ سے ہی شہرت نہیں ملی بلکہ انہیں ایک عمدہ غزل گو کی حیثیت سے بھی جانا جاتا تھا۔ جیسے قتیل شفائی، مجروح سلطانپوری، شکیل بدایونی، سیف الدین سیف، تنویر نقوی، جانثار اختر اور کئی دوسرے، ان میں ایک نام کلیم عثمانی کا بھی تھا۔ جنہوں نے بے مثال فلمی گیت تخلیق کئے اور اس کے علاوہ ایک خوبصورت غزل گو کی حیثیت سے بھی اپنے آپ کو منوایا۔28فروری1932ء کو دیو بند ضلع سہارنپور (بھارت) میں پیدا ہونے والے کلیم عثمانی کا اصل نام احتشام الٰہی تھا۔ جبکہ کلیم تخلص تھا۔ ان کے خاندان کا تعلق مولانا شبیر احمد عثمانی سے جا ملتا ہے۔ کلیم عثمانی کو بچپن سے ہی شاعری کا شوق تھا۔ والد فضل الٰہی بیگل بھی اپنے زمانے کے اچھے شاعر تھے۔ شروع میں والد سے شاعری میں اصلاح لی۔1947ء میں ان کا خاندان ہجرت کر کے لاہور آ گیا۔ کلیم عثمانی نے یہاں احسان دانش کی شاگردی اختیار کی۔ ان کی آواز میں ترنم تھا اس لیے مشاعروں میں انہیں خوب داد ملتی تھی۔ ابتدا میں انہوں نے صحافت بھی کی یہی وجہ تھی کہ انہیں مشاعروں میں خوب داد ملتی تھی۔ پھر انہوں نے فلمی شاعری کے میدان میں قدم رکھا۔ سب سے پہلے انہوں نے 1955میں فلم ’’انتخاب‘‘ کے گیت تحریر کئے اس فلم کی موسیقی فیروز نظامی نے مرتب کی تھی۔ فلم ناکام ہو گئی لیکن کلیم عثمانی ناکام نہیں ہوئے۔1957ء میں انہوں نے فلم ’’بڑا آدمی‘‘ کے گیت تحریر کئے ۔ مبارک بیگم اور احمد رشدی کی آواز میں یہ دوگانا ’’کاہے جلانا دل کو چھوڑو جی غم کے خیال کو‘‘ بہت مقبول ہوا پھر1959ئمیں ان کے لکھے ہوئے فلم’’راز‘‘ کے گیتوں نے بھی بہت مقبولیت حاصل کی۔ اس فلم کی موسیقی بھی فیروز نظامی کی تھی۔ زبیدہ خانم کی آواز میں گایا ہوا یہ گیت’’میٹھی میٹھی بتیوں سے جیا نہ جلا‘‘ اس کے بعد وہ ایک مسلمہ نغمہ نگار بن گئے۔ یہاں اس امر کا تذکرہ ضروری ہے کہ مذکورہ بالا تمام فلموں کے ہدایت کار ہمایوں مرزا تھے ۔ 1966ء میں کلیم عثمانی نے ’’ہم دونوں‘‘ اور ’’جلوہ‘‘ کے گیت تخلیق کئے جس سے ان کی شہرت کو پر لگ گئے۔’’جلوہ‘‘ کے یہ دو گیت انتہائی اعلیٰ درجے کے تھے۔1۔ کوئی جا کے ان سے کہہ دے ہمیں یوں نہ آزمائیں(مجیب عالم)2۔ لاگی رے لاگی لگن یہی دل میں(مہدی حسن)’’ہم دونوں‘‘ میں ان کی گائی ہوئی اس غزل نے رونا لیلیٰ کو بے مثال شہرت سے نوازا۔ اس غزل کے مطلع کا پہلا مصرع کچھ یوں تھا’’ان کی نظروں سے محبت کا جو پیغام ملا‘‘ اس کے بعد کلیم عثمانی نے ’’عصمت، جوش انتقام اور ایک مسافر ایک حسینہ‘‘ کے گیت لکھے جو بہت ہٹ ہوئے 1969ء میں انہوں نے ’’نازنین‘‘ اور ’’عندلیب‘‘ کے جو نغمات تحریر کئے انہیں بہت شہرت ملی۔یہاں ان فلموں کے صرف دو گیتوں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے:1۔ مستی میں جھومے فضا۔نازنین2۔ پیار کر کے ہم بہت پچھتائے۔ عندلیب1971ء میں فلم ’’دوستی‘‘ میں انہوں نے قتیل شفائی اور تنویر نقوی کے ہمراہ گیت لکھے اور ان کے گیت بھی بہت پسند کئے گئے۔ ایک گانا تو بہت پسند کیا گیا۔’’روٹھے سیاں کو میں تو اپنے خود ہی منانے چلی آئی‘‘ پھر فلم ’’بندگی‘‘ میں ان کا لکھا ہوا یہ گیت تو دل کے تاروں کو چھو لیتا ہے۔’’خاموش ہیں نظارے، اک بار مسکرا دو‘‘ 1973ء میں ایک فلم ریلیز ہوئی جس کا نام تھا ’’گھرانہ‘‘ کے خورشید کی یہ فلم بھارتی فلم ’’دو راستے ‘‘ کا چربہ تھی۔ بہرحال ’’گھرانہ‘‘ بہت کامیاب رہی۔ اس فلم میں نیرہ نور نے پہلی بار فلمی نغمہ گایا۔ جس نے نیرہ نور کو شہرت کے آسمان پر پہنچا دیا۔ اس گانے کے بول تھے ’’تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا، پلکیں بچھا دوں‘‘ اس بے مثل گیت کو کلیم عثمانی نے تحریر کیا تھا۔1974ئمیں فلم ’’شرافت‘‘ ریلیزہوئی اس میں کلیم عثمانی کے لکھے ہوئے ایک گیت کو وہ شہرت نصیب ہوئی جس کی مثال ملنا مشکل ہے، اس گیت کی موسیقی بے بدل موسیقار روبن گھوش نے ترتیب دی تھی۔اس گیت کے بول تھے:’’تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے لہریں بھی ہوئیں مستانی سی‘‘اگر یہ کہا جائے کہ کلیم عثمانی کو بطور ایک نغمہ نگار زندہ رکھنے کے لیے یہی ایک گیت کافی ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ اس کے بعد1978ء میں انہوں نے فلم ’’زندگی‘‘ کے جو گیت لکھے انہیں بھی بہت پذیرائی ملی۔ خاص طور پر فلم ’’زندگی‘‘ کا یہ نغمہ بہت مقبول ہوا’’تیرے سنگ دوستی ہم نہ توڑیں کبھی‘‘کلیم عثمانی نے ملی نغمات بھی تحریر کیے اور اس میدان میں بھی انہوں نے اپنے فن کا سکہ جمایا۔ مندرجہ ذیل ملی نغمہ تو ان کی پہچان بن چکا: یہ وطن تمہارا ہے ،تم ہو پاسباں اس کےاس شعری مجموعے کے شروع میں ہی ان کا یہ شعر ان کی فنی عظمت کی گواہی دیتا ہوا نظر آتا ہے۔چنتا رہوں میں حرفوں کی دیوار کب تلکاے کرب ذات سامنے آ کر دکھا مجھے98غزلیات کے اس مجموعے کے شروع میں انہوں نے تحریر کیا ہے کہ یہ 1950ء سے 1958 ء تک کے کلام کا بے رحمانہ انتخاب ہے۔کلیم عثمانی کی غزلوں میں ہمیں رومانویت کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں اور عصری صداقتوں کی گونج بھی سنائی دیتی ہے ۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک صاف گو اور اصول پسند شخص تھے جنہوں نے زندگی بھر سچائی سے محبت کی اور منافقت سے نفرت۔ ذیل میں ان کی غزلوں کے کچھ اشعار کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔میں نے سمجھا تھا ملے گی مجھ کو ہمدردی کی بھیکلوگ تو میرے غموں سے دل کو بہلانے لگےروز مصلوب ہوئے اپنی انا کے ہاتھوںہم نے دنیا میں بہت کم ہی قلندر دیکھےکیا شخص تھا کیا اس کے خدوخال بتائیںکلیاں بھی اسے دیکھ کے ملتی رہیں آنکھیںجب سے وہ شخص میری نگاہوں میں بس گیااپنی طرف بھی دیکھنے کو میں ترس گیادور ہوں میں منافقت سے کلیمجیسا اندر ہے ویسا باہر ہےکلیم عثمانی آج اس دنیا میں موجود نہیں لیکن ان کا شعری خزانہ موجود ہے۔ ان کے فلمی گیت اور غزلیں ہمیشہ ان کی یاد دلاتے رہیں گے۔٭…٭…٭