آدم خیل سے نکلے ،درہ گومل میں داخل ہوئے...!
12مارچ کی صبح نو بجے ہم شہر ’’ ہفت زباں‘‘ کو خیر آباد کہہ چکے تھے۔ ہماری اگلی منزل اب بنوں تھی۔ راستے میں آزاد علاقہ درہ آدم خیل او ر کوہاٹ پڑتے تھے۔ درہ آدم خیل تک کبھی سرسبز، کبھی خشک پہاڑ اور کبھی میدانی علاقوں سے واسطہ رہا۔ ابھی درہ آدم خیل کے قبائلی علاقے میں داخل نہیں ہوئے تھے کہ راستے میں ’’فورٹ میکسن‘‘پر نظر پڑی ۔1850ء میں جب انگریز پشاورسے کوہاٹ تک سٹرک کی از سرنو تعمیر کرنا چاہتے تھے تو درہ آ دم خیل کے آفریدیوں کے ساتھ ان کا لین دین پرجھگڑا ہو گیا تھا ۔اسی دوران انگریز وںنے آفریدیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے فورٹ میکسن کی تعمیر کی تھی__فورٹ میکسن کو پیچھے دھکیلتی ہوئی ہماری گاڑی کچھ ہی منٹوں بعد درہ آدم خیل کے آزاد علاقے میں داخل ہو چکی تھی۔ آزاد علاقوںکے بارے میں میرے ذہن میں شروع سے ہی عجب قسم کے شکوک موجود چلے آرہے تھے ۔کہ یہاں کوئی قانون نہیں ہوتا ، لوگوں کو اغوا کر لیا جاتا ہے،پھر تاوان ادا کرنے کے بعد چھوڑ ا جاتا ہے ، وغیرہ وغیرہ _____ ! یہی خیال ابھی میرے ذہن میں اُبھرآ یا تھا ۔ اتنے میں ہماری گاڑی آدم خیل کے ایک کھلے میدان میں کھڑی ہوگئی تھی ۔ اس میدان کو چاروں طرف سے خشک پہاڑوں نے گھیررکھا تھا۔ ابھی گاڑی سے اُترنے کی تیا ریوں میں مصروف تھے کہ یسٰین صاحب اپنی نشست سے اُ ٹھے اور ہدایا ت دینے لگے !’’دیکھوصاحبو! یہ آزادقبائلی علاقہ ہے ۔مگر آپ یہاں آزادانہ پھر نہیں سکتے ۔تمام ارکان اکٹھے ہی گھومیں پھریں گے ۔ یہاں کی اپنی روایات اور رواج ہیں۔ ان کا ضرور خیال رکھیے گا۔‘‘یہاں تک ہماری معلومات پہلے ہی سے تھیں مگر جب یسٰین صاحب نے یہ کہا کہ‘‘جو صاحب پتلونیں پہنے ہوئے ہیں وہ بس میں ہی سوار رہیں گے اور نیچے نہیں اُتریں گے ۔کیونکہ یہ قبائلی پتلون والوں کو پسند نہیں کرتے ۔‘‘پنجاب کے دیہاتی کُتوں کے بارے میں تو ہمارا مشاہدہ تھا کہ وہ کسی پتلون والے کو یکھ کر کا ٹنے کو دوڑتے ہیں،مگر قبائلیوں کی پتلون والوں سے اتنی نفرت کی وجہ سمجھ میں نہ آسکی ۔ کراچی کے دوتین شُرکاء اُردو اسپیکنگ تھے مگر اُٹھتے بیٹھتے ،چلتے پھرتے حتیٰ کہ رات کو سوتے وقت بھی انگریزی لباس میں ہوتے ۔ شلوار قمیض سے تو جیسے ان کو چِڑ تھی ۔ ان تینوں اردواسپیکنگزکو بس میں ہی نظر بند رہنا پڑا ۔البتہ ان کو اتنی اجازت تھی کہ وہ بس کی کھڑ کیوں سے اپنے اپنے منہ نکال کر آدم خیل کا دُور دُور سے نظارہ کر لیں _ان تین نظر بندوں کو چھوڑ کر باقی سب درہ آدم خیل کے بازار میں داخل ہوگئے ۔ہر طرف اسلحہ ہی اسلحہ تھا،ریوالور ، پستول ،کلاشنکوف ،میزائل اور ہر قسم کا جدید ہتھیار جن کو ہماری ان امن پسند اور ڈرپوک آنکھوں نے کبھی دیکھا تک نہ تھا دکانوں کی اس طرح زینت بنایا گیا تھا جیسے ہمارے شہروں میں کا سمیٹکس یا کھانے پینے کی اشیاء سجائی جاتی ہیں۔پورے بازار میں ایک بنک اور کریانہ کی دکان اور ایک سبزی اور فروٹ کی دکان تھی ،باقی سب کی سب اسلحہ سے ہی بھری پڑی تھیں ۔ اکثر دکانوں کے پیچھے جو مکا ن تھے ان میں نصب مشینوں سے اسلحہ تیار ہوکر نکل رہا تھااور ان کی آزمائش کے لیے ہر منٹ دومنٹ بعد ہوائی فائرنگ کی جارہی تھی۔ اسلحہ سازوں کے اس انبوہ میں گھومتے گھومتے ہم ایک بڑے اسلحہ اسٹور پر جا کھڑے ہوئے ۔ جہاں روسی ساخت کی پاکستانی نقل کلاشنکوف کی لائنیں لگی ہوئی تھیں ۔ میں نے ایک کلاشنکوف اُٹھائی اور اس کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ دکان کے ایک تھڑے پر بیٹھے باریش قبائلی بزرگ نے میری اسلحہ سے نا واقفیت کو شاید بھانپ لیا تھا۔بولے!’’اندر آجائو بھئی،کہاں سے آیاہے ؟‘‘ میں نے جھٹ سے کلاشنکوف رکھی اور ڈرتے ڈرتے ان کے قریب تھڑے پر جا بیٹھا۔میں نے مختصر اََ اپنے اوروفد کے بارے میں انہیںبتایا۔ اتنے میں انہوں نے کشمش اور بادام کی گریوں کی پلیٹ اپنے دائیں طرف پڑ ے کائونٹر سے نکالی اور میرے سامنے رکھ دی !’’کائو(کھائو)‘‘اس پلیٹ نے آزاد علاقوں کے متعلق میری جھجھک اور خوف کو کافی حد تک زائل کردیا۔ اب میں اس بزرگ سے بیس پچیس منٹ تک آدم خیل کے بارے میں پوچھتا رہا۔ یہاں کے لوگوں کا اُٹھنا بیٹھنا سوچنا کیسا ہے؟ (سفرنامہ پاکستان ’’کچھ سفر بھولتے نہیں‘‘ سے مقتبس)٭…٭…٭