بہاولپور کے مشہورقلعے
بہاولپور جو کبھی ’’سوڑھا کی جھوک‘‘ کے نام سے مشہور تھا اور جسے امیر بہائول خان نے 1748ء میں آباد کیا، ہزاروں برس قبل یہاں سرسوتی اور ہاکڑہ نامی دریا بہتے تھے۔ انگریز مورخ ڈاکٹر موبرٹ کے مطابق ایک ہزار سال قبل از مسیح دریائے سرسوتی سوکھ گیا۔ جبکہ 150ء میں دریائے ہاکڑہ کے سوتے بھی خشک ہوگئے، امیر بہائول خان کو اپنی سلطنت کے لیے ایک ایسے دارالحکومت کی ضرورت تھی جو ریاست کے وسط میں ہو۔ اس خیال کے پیش نظر بہاولپور میں دکانیں اور مکان بنا کر عوام میں مفت تقسیم کیے گئے اور یوں یہ شہر آباد ہوتا گیا۔ بہاولپور ایک فصیل بند شہر تھا۔ امیر محمد مبارک نے شہر کے گرد فصیل تعمیر کروائی تھی۔ شہر کے گرد نو دروازے بنائے گئے جن میں فرید گیٹ، موری گیٹ، لاہوری گیٹ، ملتانی گیٹ، بوہری گیٹ، شکار پوری گیٹ، احمد پور گیٹ، دلاوری گیٹ اور دوآوڑی گیٹ تھے جن کے آثار آج بھی قائم ہیں۔ ان گیٹوں پر دائیں بائیں محرابیں تھیں جن میں محکمہ کمیٹی کے دفاتر تھے جہاں شہر میں سامان لانے والوں سے محصول لیا جاتا تھا، کہتے ہیں ہندوستان میں سب سے زیادہ قلعے ریاست بہاولپور میں ہیں۔ ہزاروں برس سے یہاں قلعے تعمیر ہوتے رہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں سے اکثریت کا نام و نشان مٹ گیا۔ تاہم چولستان میں اب بھی متعدد قلعے موجود ہیں۔ چولستان، بہاولپور کے تین اضلاع بہاولنگر، بہاولپور اور رحیم یار خان تک پھیلا ہوا ہے۔ قلعہ پھلڑہ: قدیم قلعہ جسے بیکانیر کے راجہ نے تعمیر کرایا تھا‘ 1751ء تک یہ قلعہ بالکل کھنڈر بن گیا تھا لیکن قائم پور تحصیل حاصل پور کے بانی قائم خان نے اسے ازسرنو تعمیر کیا۔ قلعہ کے چاروں کونوں پر مینار ہیں، جنوبی حصے میں ایک تین منزلہ عمارت بھی ہے جو کبھی رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ قلعہ کے باہر تین کنوئیں ہیں جن کا پانی پینے کے قابل نہیں ہے۔ حفاظت کے لیے قلعہ کے اوپر تین توپیں بھی موجود ہیں۔قلعہ مہروٹ بہاولنگر: یہ قلعہ 1491ء میں تعمیر ہوا ‘اصل نام مہروٹ ہی تھا لیکن بگڑ کر مروٹ بن گیا۔ قلعہ کے اندر ایک محل کے آثار آج بھی باقی ہیں۔ ملتان اور دہلی کی معروف شاہراہ پر واقع ہونے کے باعث اپنے زمانے کا بہت مصروف قلعہ تھا۔ قلعہ جام گڑھ:1788ء میں تعمیر ہوا۔ بیرونی فصیل کے سوا تمام چنائی مٹی کی تھی۔ قلعہ کے اندر کچھ رہائشی مکانات بھی تھے جو تعمیر و مرمت نہ ہونے کے باعث اپنی چھتوں سے محروم ہو چکے ہیں۔ مرکزی گیٹ بھی شکست وریخت کا شکار ہے لہٰذا اب فقط آثار ہی رہ گئے ہیں۔قلعہ موج گڑھ: ضلع بہاولنگر میں قلعہ مروٹ سے 15 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع قلعہ موج گڑھ اس اعتبار سے منفرد ہے کہ یہاں پہنچنا دیگر قلعوں کی نسبت انتہائی دشوار ہے۔ قلعہ کے ساتھ ایک خوبصورت مسجد اور قلعہ کے بانی معروف خان کا مقبرہ بھی ہے۔ معروف خان نے یہ مقبرہ اپنی زندگی ہی میں تعمیر کرالیا تھا۔ قلعے کے مشرقی حصے میں ایک تالاب بھی ہے جو اب خشک ہو چکا ہے۔ قلعہ مبارک پور: چشتیاں میں واقع اس قلعے کو نواب مبارک نے 1157ء میں تعمیر کرایا۔ اس کی تمام چنائی مٹی سے کی گئی ہے۔ یہ قلعہ خاص طور پر کسی ممکنہ شورش کا مقابلہ کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ قلعہ فتح گڑھ نواب بہاول خان دوم نے اس قلعے کو 1799ء میں اموکہ ریلوے سٹیشن سے 15 کلو میٹر کے فاصلے پر تعمیر کرایا۔ قلعے کی تمام تعمیر مٹی کی تھی اس کے اندر ایک گہرا کنواں تھا جبکہ قلعے کے باہر بھی دو کنوئیں تھے۔ بارشیں ہوتیں تو یہ کنوئیں پانی سے بھر جاتے پھر اس پانی کو بعدازاں ضروریات زندگی کے لیے استعمال کیا جاتا۔ قلعہ جیجل: ضلع بہاولنگر میں حاصل سوڑھو کے مقام پر مٹی کا ایک بلند ٹیلہ ہے ماضی میں یہاں قلعہ جیجل ہوا کرتا تھا۔ قلعہ میرتھ: 1803ء میں تعمیر ہونے والے اس قلعے میں رہائشی مکانات اور پانی کے دو کنوائیں ہوا کرتے تھے ‘اس وقت قلعے کی برائے نام فصیل باقی ہے۔قلعہ بہاول گڑھ: 1791ء میں نواب بہاول خان دوم نے اسے دفاعی قلعے کے طور پر تعمیر کرایا قلعے کے نزدیک5 ایکڑ پر مشتمل باغ بھی تھا۔قلعہ سردار گڑھ: یہ قلعہ نواب مبارک خان نے 1763ء میں تعمیر کرایا تھا۔قلعہ مچھکی: 1779ء میں صوبے دار لال خان نے تعمیر کرایا تھا۔ یہ قلعہ دراوڑ کی مشرقی جانب تین میل کے فاصلے پر تھا ‘اب یہ بھی مٹی کے ایک ٹیلے میں تبدیل ہوگیا ہے۔قلعہ قائم پور: 1747ء میں قائم خان ربانی کے دور میں قائم ہوا۔ اب یہ قلعہ تو منہدم ہو چکا ہے البتہ کچھ کچھ آثار باقی ہیں۔قلعہ مرید والا:1777ء میں حاجی خان نے یہ قلعہ چولستان میں تعمیر کرایا تھا‘ قلعہ دراوڑ کی جنوب میں 25 میل کے فاصلے پر تھا۔ قلعہ خان گڑھ: 1783ء میں بہاول خان دوم نے تعمیر کرایا۔ خراسان، ایران اور کابل کے راستے پر واقع ہونے کے باعث یہ کبھی تجارتی مسکن ہوا کرتا تھا۔ قلعہ رکن پور: 1776ء میں معروف خان کے دور میں تعمیر ہوا تھا۔ قلعہ کنڈیرا: 1746ء میں فضل خان جانی کے دور میں تعمیر ہوا۔ قلعہ صاحب گڑھ: 1777ء میں یہ قلعہ رحیم یار خان میں تعمیر ہوا۔ قلعہ رنجھروٹ: 1778ء میں تعمیر کرایا گیا۔ شہاب الدین نے اسے مسمار کرا دیا لیکن 1787ء میں اس کی تعمیر نو کی گئی۔قلعہ دین گڑھ: 1757ء میں بہادر خان بدانی نے تحصیل صادق آباد میں تعمیر کرایا‘ اب صرف فصیلیں ہی باقی رہ گئی ہیں۔قلعہ اوچ شریف: اس قلعے کی تاریخ بھی صدیوں پرانی ہے۔ قلعہ اسلام گڑھ: 1665ء میں تعمیر ہوا۔ پرانا نام قلعہ بھیم در تھا۔ 1766ء میں اس کی تعمیر نو ہوئی ۔آج بھی اس قلعے کے چند آثار موجود ہیں۔قلعہ مٹو مبارک: سینکڑوں سال قبل تعمیر کیے گئے اس قلعے کو سلطان محمود غزنوی کے سترہ حملوں نے تباہ کر دیا تھا‘ بعدازاں اس کی تعمیر نو ہوئی۔ قلعے میں حضرت شیخ حمید الدین حاکمؒ کا مزار ہے۔قلعہ دراوڑ: 1834ء میں تعمیر کیے گئے اس قلعے کا قدیم نام دیو راول تھا۔ اسے ایک ہندوراجہ دیور اول نے تعمیر کرایا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس قلعے کا نام بگڑ کر دراوڑ بن گیا۔ قلعے میں ایک عالیشان مسجد ہے جس کی تعمیر مسلمانوں کے طرز تعمیر کا منہ بولتا ثبوت ہے‘ اس کے علاوہ شاہی قبرستان بھی موجود ہے جس میں نواب بہاول اول کے علاوہ تمام شاہی افراد کی قبریں موجود ہیں۔ دفاع کے لیے استعمال کی جانے والی توپیں اور ان میں استعمال ہونے والے گولے دیکھنے والے کو فوراً ماضی میں لے جاتے ہیں۔(پاکستان کے آثارِ قدیمہ)٭…٭…٭