سنٹرل لائبریری بہاولپور
سنٹرل لائبریری بہاولپور پنجاب کے قدیم کتب خانوں میں ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ کتب خانہ کی عمارت قطعی طور پر عوام کے عطیات سے عوام نے تعمیر کرائی۔ اس کی تعمیر 1924ء میں شروع ہوئی اور 1932ء میں مکمل ہوئی۔ یہ عمارت سفید گنبد والی پر شکوہ اطالوی فن کا خوبصورت نمونہ ہے۔ 1924ء میں بہاولپور کے عوام نے بذریعہ قرار داد فیصلہ کیا کہ سابق امیر آف بہاولپور سر صادق محمد خان عباسی مرحوم کی رسم تاجپوشی کی خوشی میں بطور یادگار ایک پبلک لائبریری قائم کی جائے۔ اس مقصد کے لیے سابق ریاست بہاولپور کے عوام اور سرکاری ملازمین نے ایک لاکھ روپے کی خطیر رقم جمع کر کے دی۔ عمارت کے لیے سابق امیر آف بہاولپور نے اٹھاسی کنال تیرہ مرلے قطعہ اراضی بطور عطیہ مرحمت فرمایا۔ چنانچہ 8 مارچ 1924ء کو اس وقت کے وائسرائے ہند ’’سررونس ڈینیل ارل آف ریڈنگ‘‘ نے لائبریری کا سنگ بنیاد رکھا۔ رقم کی کمی کے باعث بلدیہ بہاولپور نے 1934ء میں عمارت کو مکمل کیا اور اپنے دفاتر اس عمارت میں قائم کر لیے اور ایک چوٹے سے حصے میں ایک کتب خانہ قائم کر دیا۔قیام پاکستان سے چند ماہ پیشتر بلدیہ بہاولپور سے عمارت بذریعہ عدالتی فیصلہ خالی کروائی گئی اور عمارت میں سرکاری سطح پر ایک خوبصورت کتب خانہ قائم کیا گیا جس کا نام سنٹرل لائبریری بہاولپور رکھا گیا۔ کتب خانہ کا نظم و نسق مختلف انتظامی کمیٹیوں کے زیر نگرانی کیا جاتا رہا۔ اس کی دیکھ بھال کے فرائض حکومت پنجاب کے ذمہ ہیں۔لائبریری مں ایک لاکھ کے قریب کتب کا ذخیرہ موجود ہے۔ اس طرح علاقہ کے لیے سنٹرل لائبریری کی افادیت لا محدود ہے۔ گویا علم کا سر چشمہ ہے جو تشنگان علم و ادب کی پیاس بجھا رہا ہے۔ ماحول انتہائی پر سکون ہے۔ قارئین مکمل یکسوئی اور انہماک کے ساتھ کتب بینی میں مصروف رہتے ہیں۔ عمارت اس طرح بنائی گئی ہے کہ گرمیوں میں ریگستانی گرمی کمروں کی ٹھنڈک کو متاثر نہیں کر پاتی۔ پھر بھی بجلی کے پنکھوں اور قارئین کے لیے ٹھنڈے پانی کا انتظام موجود ہے۔ کتب مختلف الماریوں اور ریکس میں آراستہ کی گئی ہیں۔ رسائل و جرائد کی تعداد 34 بتائی جاتی ہے جن میں 24 اردو، 6 سرائیکی، دو عربی اور ایک فارسی میں ہیں۔ اخبارات کی تعداد 27 ہے۔ ان میں اُردو کے 19، انگریزی کے 6 اور دیگر زبانوں کے 2 اخبار وصول کیے جاتے ہیں۔ لائبریری کا وہ حصہ قابل دید ہے جہاں قدیم مخطوطات اور مطبوعہ کتب موجود ہیں۔قدیم رسائل و جرائد کا جتنا اچھا ذخیرہ راقم نے اس کتب خانہ میں دیکھا، شاید ہی کسی اور ریاستی کتب خانہ میں اب موجود ہو۔ برصغیر سے شائع ہونے والے اخبارات کے مکمل فائنل یہاں مجلد صورت میں محفوظ کر لیے گئے ہیں۔ خطاطی اور آرٹ کے نادر نمونے تصاویر، نقشے اور چارٹ بھی اس کتب خانہ کا طرۂ امتیاز ہیں۔ ہرن کی کھال پر قرآن مجید کی آیات بھی جس خوبصورتی سے محفوظ کی گئی ہیں، اس کی جھلک راقم نے اوچ شریف کے جیلانی اور بخاری نوادرات میں دیکھی ہے۔(کتب اور کتب خانوں کی تاریخ،از اشرف علی)