وارث لدھیانوی …پنجابی گیتوں کوعظمت بخشنے والا نغمہ نگار انہوں نے بے شمار پنجابی فلموں کے لیے یادگار نغمات لکھے…نام آج بھی زندہ ہے

وارث لدھیانوی …پنجابی گیتوں کوعظمت بخشنے والا نغمہ نگار انہوں نے بے شمار پنجابی فلموں کے لیے یادگار نغمات لکھے…نام آج بھی زندہ ہے

اسپیشل فیچر

تحریر : عبدالحفیظ ظفر


پاکستان میں بڑی شاندار پنجابی فلمیں بنائی گئیں اور ان فلموں کی موسیقی بھی بڑی لاجواب تھی۔ 1950ء سے بننے والی پنجابی فلموں نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ان فلموں کی کامیابی میں پوری ٹیم اہم کردار ادا کرتی تھی۔ سکرپٹ، ہدایت کاری اور اداکاری کے علاوہ فلم کی موسیقی پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی تھی۔ اس دور میں بابا جی اے چشتی، صفدر حسین، سلیم اقبال، رشید عطرے اور اختر حسین کا طوطی بولتا تھا۔ بعد میں جن موسیقاروںنے پنجابی فلموں کے ذریعے مقبولیت حاصل کی ان میں وجاہت عطرے، وزیر افضل، طافو، بخشی وزیر اور ماسٹر عبداللہ کے نام لئے جا سکتے ہیں۔ مذکورہ بالا موسیقاروں میں کئی ایسے تھے جو نہ صرف پنجابی بلکہ اُردو فلموں کا سنگیت بھی دیتے تھے اور اس میدان میں بھی انہوں نے کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ پھر ہمارے پنجابی گیت نگاروں نے بھی کمال کر دکھایا۔ انہوں نے ایسے ایسے باکمال گیت تخلیق کیے کہ آج بھی ان کو سُن کر دِل کے تار بجنے لگتے ہیں۔ ان میں سرِفہرست تو احمد راہی اور حزیں قادری ہیں۔ اِن دونوں نے اتنا شاندار کام کیا کہ انہیں جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔ ان دونوں نے ایک تو بے مثال کام کیا اور دوسری بات یہ ہے کہ بہت کام کیا۔ انہوں نے گیت نگاری کے علاوہ پنجابی فلموں کے سکرپٹ اور مکالمے بھی لکھے۔ پنجابی فلموں کے نغمات کے حوالے سے ایک ا ور نام بڑا اہم ہے اور وہ ہے وارث لدھیانوی۔ وارث لدھیانوی کے گیتوں نے بھی احمد راہی اور حزیں قادری کی طرح بہت مقبولیت حاصل کی۔ وارث لدھیانوی 11 اپریل 1928ء کو لدھیانہ (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام چودھری محمد اسماعیل تھا۔ وہ ابتداء میں عاجز تخلص کرتے تھے۔ جب وہ اُستاد دامن کے شاگرد ہوئے تو وارث تخلص کر لیا۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ انہوں نے پنجابی گیت نگاری کو نئی عظمتوں سے روشناس کیا۔ ان کی گیت نگاری دیگر نغمہ نگاروں سے کچھ الگ تھی۔ وہ پنجابی لوک گیتوں کو بھی اپنے تخلیق کردہ نغمات کا تڑکہ لگاتے تھے۔ ان کی زبان بڑی سادہ اور پُراثر تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے گیتوں نے بہت شہرت حاصل کی اور وہ زبان زدِعام ہوئے۔ حزیں قادری اور احمد راہی کے علاوہ ایک اور بڑے شاعر بھی پنجابی گیت نگاری کے میدان میں آ گئے اور اُن کا نام تھا تنویر نقوی۔ تنویر نقوی بھارت سے پاکستان آئے تھے اور ان کی نغمہ نگاری کا ڈنکا پورے بھارت میں بجتا تھا۔ پھر جب وہ پاکستان آئے تو انہوں نے بہت عرصے تک اُردو فلموں کے نغمات لکھے لکھے اور بہت مقبولیت حاصل کی۔ لیکن جب وہ پنجابی فلموں کی گیت نگاری کی طرف آئے تو انہوں نے یہاں بھی کمال کر دکھایا۔ جب اُن کے ابتدائی گیت مقبول ہوئے تو پھر تنویر نقوی نے تسلسل سے پنجابی گیت لکھنے شروع کر دئیے۔ اس طرح ایک مسابقت کا عمل شروع ہوگیا۔ ان جیسے گیت نگاروں کی موجودگی میں رہنا اور ایک الگ مقام بنانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ لیکن وارث لدھیانوی نے یہ کام کر دکھایا۔ انہوں نے اپنی ایک الگ شناخت بنائی۔ وارث لدھیانوی نے اُستاد دامن سے بہت کچھ سیکھا اور انہوں نے بارہا اِس کا اعتراف بھی کیا، ایک بار انہوں نے یہ کہا تھا کہ یہ اُن کی خوش بختی ہے کہ انہیں اُستاد دامن کی شاگردی نصیب ہوئی۔ وارث لدھیانوی کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ انہوں نے و قت کے ساتھ اپنے آپ کو تبدیل کیا۔ ان کا سفر ایک جگہ کبھی ختم نہیں ہوا۔ وہ زمانے کے ساتھ چلتے رہے۔ 50 اور 60 کی دہائی میں ان کی گیت نگاری کا انداز کچھ اور تھا لیکن 70 اور 80 کی دہائی میں ہمیں ان کی نغمہ نگاری کی نئی پرتیں دیکھنے کوملتی ہیں۔ یہی خوبی احمد راہی، حزیں قادری اور تنویر نقوی کی تھی۔ اس حوالے سے موسیقی کار رشید عطرے کا نام بھی لیا جا سکتا ہے۔ لیکن انہوں نے پنجابی فلموں کا زیادہ میوزک نہیں دیا۔ وہ بہرحال ایک بڑے موسیقار تھے۔ وارث لدھیانوی نے اپنے فن کے چراغ کو ہمیشہ روشن رکھا اور جب تک وہ فلمی گیت لکھتے رہے ان کا انداز سب سے جُدا رہا۔ وہ ایسے نغمہ نگار تھے جو فلم کے موسیقاروں سے بھی مشورے لیتے تھے اور فلمی مناظر کی سچویشن کے عین مطابق نغمات تخلیق کرتے تھے۔ فلمی اداکاروں اور اداکارائوںسے بھی اس حوالے سے وہ گفت و شنید کرتے رہتے تھے۔ وارث لدھیانوی ایک بہت اچھے انسان بھی تھے۔ وہ بڑے عالی ظرف اور وسیع القلب آدمی تھے۔ کہتے ہیں وہ کسی کی برائی نہ کرتے تھے اور نہ سنتے تھے۔ انہوں نے دوسرے گیت نگاروں کا ہمیشہ احترام کیا اور وہ ان کی فنی عظمت کا ببانگِ دہل اعتراف کرتے تھے۔ وہ تنگ نظر نہیں تھے اور نہ ہی انہوں نے کبھی تعصب سے کام لیا۔ دوسرے نغمہ نگاروں کی طرح وارث لدھیانوی بھی اس حوالے سے خوش قسمت تھے کہ انہیںاعلیٰ پائے کے سنگیت کار ملے جنہوں نے ان کے گیتوں کو امر کر دیا۔وارث لدھیانوی کو سب سے پہلے ’’کرتار سنگھ‘‘ کے ایک گیت سے شہرت ملی۔ یہ گیت آج بھی اپنی مقبولیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اس کے بول تھے ’’دیساں دا راجا میرے بابل دا پیارا، امبڑی دے دِل دا سہارا وے ویر میرا گھوڑی چڑھیا‘‘۔ یہ فلم 1959ء میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم کو پاکستان کی سب سے بڑی پنجابی فلم قرار دیا جاتا ہے۔ اسی طرح اس گیت کو بھی لازوال کہا جا سکتا ہے۔ بعد میں انہوں نے بے شمار پنجابی فلموں کیلئے گیت لکھے۔ ان فلموں میں ’’ماہی منڈا، جٹی، مکھڑا، ناجی، مٹی دیاں مورتاں، ہیر سیال، لچھی، یاردیس پنجاب دے، میلے سجناں دے، ضدی، خوشیا، نوکر ووہٹی دا، وحشی جٹ الٹی میٹم، شیر خان، شعلے، انگارہ، اور جانباز‘‘ خاص طور پر شامل ہیں۔ ذیل میں ہم اپنے قارئین کی خدمت میں ان کے چند شاہکار پنجابی گیت پیش کر رہے ہیں۔ -1گوری گوری چاندنی دی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاں نیں -2 دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا -3 بن دلدار ہانیاں -4 جھانجھر دی پانواں چھنکار -5 جے میں ہوندی ڈھولنا سونے دی تویتری -6 میں چڑھی چوبارے عشق دے -7 پانویں مینوں کملی کہہ لے پانویں کہہ لے جھلّی-8 مینوںتیرے جیا سوہنا دلدار ملیا-9 پاگل نیں اوجیڑے سچا پیار کسے نل کردے نیں -10 دلا ٹھہرجا یار دا -11ایناں کولوں چنگیاں نیں مٹی دیاں مورتاں 5 ستمبر 1992ء کو وارث لدھیانوی لاہور میں انتقال کر گئے۔ ان کی وفات سے پنجابی گیت نگاری کا ایک اہم باب بند ہو گیا۔ ٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
یونان:دنیا کا پہلا جمہوری ملک

یونان:دنیا کا پہلا جمہوری ملک

یونان، یورپ کا جنوبی حصہ ہے جو تین اطراف سے بحیرہ روم میں گھرا ہوا ہے۔اسے عرف عام میں '' جزیرہ بلقان‘‘ کانام دیا جاتا ہے۔ یورپ میں یونان کو عام طور پر ''گریس‘‘ اور اس کے باشندوں کو ''گریک‘‘ کہتے ہیں۔جہاں تک اس نام کی ابتدا کا تعلق ہے ، بنیادی طور پر اہل روما (رومنز ) کو سب سے پہلے یونان کے جس قبیلے سے واسطہ پڑا وہ ''گرائیہ‘‘ ( Grecians) تھے۔ رومیوں نے انہیں اور پھر یہاں کے تمام باشندوں کو ''گریسی‘‘(Graeci)کہنا شروع کر دیا۔ حالانکہ یونانی اس وقت بھی خود کو'' ہیلنز‘‘ (Hellen`s) اور اپنے ملک کو'' ہیلاس‘‘ (Hellas)کہتے تھے۔ یونان اپنے دور کا ایک طلسماتی ملک تھا۔ قدیم دور کی اس سحر انگیز سرزمین نے مختلف ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے اپنے سب سے عظیم شہر میں اگر ایک طرف فاتح عالم سکندر اعظم کو جنم دیا تو دوسری طرف معروف فلسفی افلاطون ، ارسطو، سقراط، معروف شاعر ہومر اور نہ جانے کتنے ہی نابغہ روزگار شخصیات کو جنم دیا تھا۔ دراصل یونان ایک شہر یا ریاست کا نام نہیں تھا بلکہ یہ وسیع و عریض خطے پر پھیلی ایک تہذیب کا نام تھا۔ یونانی تہذیب عظیم فکری، ثقافتی اور فنکارانہ کامیابیوں کا دور تھا۔ قدیم یونانیوں نے فلسفہ، جمہوریت اور فنون لطیفہ کی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑھے ہیں۔ وہ اولمپک گیمز جیسے اچھوتے تصور کے بھی بانی ہیں۔یونانی فن تعمیر، مجسمہ سازی، مصوری ، ادب ، فلسفہ اور فنون لطیفہ کے دیگر شعبوں کو پروان چڑھانے اور جدت کا رنگ دینے میں تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ محققین کے مطابق معروف فلسفی افلاطون، سقراط کا شاگرد تھا جبکہ ارسطو،افلاطون کا شاگرد تھا۔ سقراط نے یونان کے شہر ایتھنز میں اپنے زمانے کی سب سے بڑی علمی درسگاہ کی بنیاد رکھی جس سے بعد میں ارسطو جیسے دانشور اور فلسفی نے تحصیل علم کیا۔ یونان کو یہ انفرادیت بھی حاصل ہے کہ یہی وہ ریاست تھی جہاں جمہوریت کا تصور سب سے پہلے دیا گیا جو رفتہ رفتہ پوری دنیا میں پھیلتی چلی گئی۔موجودہ یونان کے دارالحکومت ایتھنز کواقتصادی، تجارتی،صنعتی ثقافتی اور سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے مرکزیت حاصل ہے۔ چوتھی اور پانچویں صدی قبل مسیح میں یورپ کی ریاستوں پر یونان کے گہرے ثقافتی اور علمی اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے تھے جو رفتہ رفتہ پوری دنیا میں پھیلتے چلے گئے اور یورپ سمیت دیگر تہذیبوں میں رچ بس گئے۔ یونان کی ثقافت نے کئی ادوار دیکھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین یونان کی ثقافت کو صدیوں کے اعتبار سے مختلف ادوار میں تقسیم کرتے ہیں۔ یونان نے سب سے زیادہ ترقی ''کلاسیکی دور‘‘ میں کی ۔یہ وہ دور تھا جب یونانی ثقافت نے تہذیبی ارتقا کے ساتھ ساتھ تعلیم، فلسفہ،سائنس ، ریاضی ، فنون لطیفہ اور دیگر علوم میں غیر معمولی ترقی کی۔ یونانی تہذیب کا ارتقا تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ پہلی یونانی تہذیب بحیرہ روم کے جزیرے کریٹ میں لگ بھگ2200قبل مسیح میں پھیلی۔ اس تہذیب کو ''مینو‘‘ نامی ایک مشہور حکمران کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔منوین افراد کاشتکاری ، ماہی گیری کے پیشوں سے وابستہ تھے جبکہ ان کے حکمران عالیشان ، وسیع و عریض محلات میں شان و شوکت سے رہتے تھے۔ اس زمانے کے ایک محل ''شاہ مینوس محل‘‘ کا تاریخی اوراق میں بڑا تذکرہ ملتا ہے جو شاہ مینوس نے انتہائی چاہت سے تعمیر کرایا تھا۔یہ تہذیب لگ بھگ سات سو سال تک جاری رہی،1500قبل مسیح کے بعد اس تہذیب کے آثار نہیں ملتے۔ اس کے بعد یہاں کے ایک قدیم شہر میسینی کے آثار ملے تھے ۔ میسینیوں کی اس تہذیب کے آثار کی شروعات ''منوینوں‘‘ کے بعد ہوئی تھی۔ میسینئین لوگ بڑے مالداراور جنگجو تھے جو لگ بھگ پانچ صدیوں تک شریک اقتدار بھی رہے۔ انہوں نے نہ صرف شاندار محلات تعمیر کرائے بلکہ سلاطین کی قبروں سے سونے اور جواہرات کے آثار بھی ملے ہیں۔ یہ پیدائشی جنگجو تھے اس لئے یہ اکثر و پیشتر نہ صرف دست و گریباں رہتے بلکہ دور دراز بھی جا کر جنگیں لڑا کرتے تھے۔نئے دور کا آغاز اپنے اسلاف کے ورثے دیکھتے ہوئے نئی یونانی نسل کو اس امر کا شدت سے ادراک ہونے لگا تھا کہ وہ ایک بہت بڑی تہذیب اور ورثے کے امین ہیں۔ چنانچہ رفتہ رفتہ یونان ایک مرتبہ پھر کامیاب ریاست کے طور پر ابھرنا شروع ہوا۔ یہ وہ دور تھا جب یونا ن میں شہری سطح پر حکومتوں کا، رواج شروع ہوا جسے یہاں کے عوام نے سراہا۔ وقت کے ساتھ ساتھ شہری ریاستیں سکڑتی گئیں اور 500 قبل مسیح کے آس پاس یونان دو ریاستوں تک محدود ہو گیا۔ ایک سپارٹا کے نام کی شناخت اور دوسرا ایتھنز کے نام سے پہچانا جانے لگا۔سپارٹا کے لوگ بنیادی طور پر جنگجوانہ فطرت کے مالک تھے ان کے پاس ایک طاقتور حکمران کونسل،خفیہ پولیس اور طاقتور خفیہ نیٹ ورک تھا ۔ان کی خواتین سمیت بچوں کو جنگی تربیت سے بھی گزرنا پڑتا تھا۔اس کے برعکس ایتھنز کے لوگ جمہوریت پسند اور ترقی یافتہ سوچ کے مالک تھے۔ یہاں بالغ حق رائے دہی کا قانون تھا۔عوام جمہوری طریقے سے اپنے نمائندوں کا انتخاب کرتے تھے۔ان کی ترجیحات تعلیم اور فنون کی ترویج و ترقی تھا۔ انہوں نے دنیا بھر کے اعلیٰ دماغ معلموں، دانشوروں، فلاسفروں، معماروں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کو ایتھنز میں کام کرنے کی دعوت دی۔404 قبل مسیح تک ایتھنز اور سپارٹا نے مل کر فارس کے حملہ آوروں سے مقابلہ کیا۔اس کے بعد دونوں ریاستیں ایک دوسرے کے خلاف ہو گئیں۔ 490 قبل مسیح سے 431 قبل مسیح تک دونوں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوتی رہیں، نتیجتاًدونوں ریاستیں کمزور ہوتی چلی گئیں جسے 338 قبل مسیح میں مقدونیہ نے فتح کر لیا۔ یہاں مثبت بات یہ تھی کہ یونانی فلاسفروں، ریاضی دانوں اور سائنس دانوں نے مقدونیائی حکمرانوں کی زیر نگرانی اپنے تحقیقاتی عمل جاری رکھے جن کے دوررس نتائج برآمد ہوئے۔ 146 قبل مسیح میں رومن فوج نے یونان پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا۔ لیکن یہاں بھی خوش آئند بات یہ تھی کہ رومن سلاطین یونان کی ترقی دیکھ کر اس کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے اور انہوں نے یونانی نظریات ، یونانی فنون لطیفہ اور یہاں کی سائنسی کاوشوں کو مزید آگے بڑھایا۔395 ہجری میں یونان ، بازنطینی سلطنت کا حصہ بن گیا۔اس پر قسطنطنیہ (جو اب استنبول کے نام سے جانا جاتا ہے ) کی حکومت قائم ہو گئی۔ 1453 ہجری میں جب یونانی بازنطینیوں اور فرانسیسی و اطالوی صلیبیوں کے درمیان جنگ ہوئی جس سے یونان کی سرزمین کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا۔ 1458 عیسوی میں سلطنت عثمانیہ کے سلطان محمد فاتح نے شہر کو فتح کر لیا۔ 1821ء اور 1831ء کے دوران یونان نے جنگ آزادی میں عثمانیوں کو کمزور کیا اور 1834ء میں ایتھنز کو آزاد یونان کا دارالحکومت قرار دے دیا۔ اگلی چند دہائیوں کے دوران اس شہر کی جدید بنیادوں پر تعمیر اور مرمت کا کام شروع کر کے اس تاریخی ورثے کی بحالی کا کام ہنگامی بنیادوں پر شروع ہوا۔ 1896 میں اس شہر نے پہلے گرمائی اولمپک گیمز کی میزبانی کا شرف حاصل کیا۔آج کا ایتھنز جدید اور قدیم تعمیراتی ورثے کا ایک ایسا شاہکار ہے جو سارا سال دنیا کے کونے کونے سے آئے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے۔

الفارابی: عظیم مسلمان فلسفی

الفارابی: عظیم مسلمان فلسفی

الفارابی کا پورا نام ابو نصر محمد بن محمد بن طرخان بن اوزلغ ہے۔ لاطینی میں اس کے نام کی بہت سی صورتیں ہیں، لیکن عام طور پر اسے Alphapabius اور Abunazarکے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہ ترکی النسل تھا۔ علاقہ فاراب کے ایک شہر وسیج میں 870ء کے لگ بھگ پیدا ہوا اور وہ تقریباً 80 سال کی عمر میں بمقام دمش 950ء میں انتقال کر گیا۔ الفارابی کی فاراب کے جس علاقے میں ولادت ہوئی۔ وہ سیر دریا کے وسطی حصے میںاس کے معاون دریا ایرس کے دہان کے قریب دریا کے دونوں جانب واقع ہے۔ یہ علاقے840ء میں سامانیوں نے فتح کیا اور اسے اپنی مملکت میں شامل کر لیا۔ اس کا والد فوجی افسر تھا اور اسے ایرانی النسل امراء میں شمار کیا جاتا تھا۔ بظاہر وہ ان سامانی امیروں کی ملازمت میں تھا جو ایران کے قدیم ساسانی بادشاہوں کی اولاد میں سے ہونے کے دعویدار تھے اور جدید فارسی ادب کی بڑی سرپرستی کرتے تھے۔ ایران سے اپنے ان دیرینہ روابط کے باوجود الفارابی کے گھرانے میں سغدی یا کوئی ترکی بولی رائج تھی اور آداب مجلس اور ملبوسات میں بھی وہ ترکوں ہی کا تتبع کرتے تھے۔ الفارابی نے اپنی تعلیم کا آغاز علوم متداولہ سے کیا اور اس دوران میں اس نے اسلامی فقہ پر خصوصی توجہ دی۔ الفارابی نے بخارا میں علم موسیقی کا مطالعہ شروع کیا اور اس فن میں مہارت حاصل کی۔معتضد کے دور خلافت (892ء تا 902ء) میں الفارابی بغداد چلے گئے۔ الفارابی نے اپنی تعلیم سریانی یا یونانی یا ان دونوں زبانوں میں حاصل کی۔جب الفارابی بغداد پہنچا تو وہ ترکی زبان اور بعض دوسری زبانیں تو جانتا تھا لیکن عربی سے نابلد تھا۔ اس لئے وہ فلسفہ کی تعلیم اس زبان میں حاصل نہ کر سکتا تھا۔ اس بات کا امکان بھی نہیں کہ اس نے ذریعہ تعلیم ترکستانی یا سعدی یا جدید فارسی زبانوں کی مدد سے مختلف اسلامی علوم سیکھے ہوںبعد میں الفارابی نے عربی زبان سیکھی اور یہ زبان سکھانے میں مصروف زبان دان السراج نے اس کی بڑی مدد کی۔ چند ہی سالوں میں الفارابی نے عربی میں اتنی مہارت حاصل کر لی کہ اس کی تحریریں عربی فلسفیانہ نثر کا نمونہ قرار پائیں۔المکتفی کے دور خلافت (902ء۔908ء) میں یا ملقتدر کے دور خلافت(908ء۔932ء) کے آغاز میں الفارابی بغداد چھوڑ کر بغرض تحصیل علم قسطنطنیہ چلا گیا۔ اس کے بعد الفارابی نے یونان کا رخ کیا اور وہاں آٹھ سال رہا۔ اس عرصہ میں اس نے علوم کی تکمیل کی اور فلسفہ میں اپنی تعلیم کو مکمل کیا۔زبان دانی میں الفارابی کی دلچسپی، بغداد میں قیام کے دوران سریانی اور یونانی اساتذہ سے اس کے رابطے اور اس عہد میں اس بات کی آسانی کہ کوئی بھی مسلمان عالم اپنی علمی پیاس بجھانے قسطنطنیہ جا سکتا تھا، ایسے شواہد ہیں جن کی بنا پر الفارابی کی فکر اور تصانیف کے کئی نئے پہلو سامنے آتے ہیں۔910ء اور 920ء کے درمیان کسی وقت الفارابی قسطنطنیہ واپس لوٹ آیا اور یہاں بیس برس سے زائد عرصہ تصنیف و تالیف اور تدریس میں گزارا۔ اسی زمانے میں چار دانگ عالم میں اس کی شہرت بطور ایک فلسفی پھیل گئی اور یہ کہا جانے لگا کہ ارسطو کے بعد اگر اس پائے کا کوئی فلسفی اس دنیا میں آیا ہے تو وہ الفارابی ہی ہے۔ اس کے استاد ابن حیلان کا انتقال 932ء سے قبل بغداد میں ہو چکا تھا۔ اس کے شاگردوں میں یوں تو بڑی معروف ہستیوں کے نام ملتے ہیں، لیکن ان میں دو شاگردوں کا نام قابل ذکر ہے۔ ایک معروف یعقوبی عیسائی عالم دین اور فلسفی یحییٰ بن عدی ہے جو بغداد میں اپنی وفات 975ء تک اپنے فلسفیانہ مدرسہ فکر کا سربراہ رہا اور دوسرا اس کا بھائی ابراہیم جو الفارابی کی وفات سے ذرا پہلے تک حلب میں اس کے ساتھ تھا۔ہمدرس اصحاب کے علاوہ الفارابی کے فلسفیانہ افکار کے حقیقی وارث ابن سینا، ابن رشد اور ابن میمون جیسی قدر آور شخصیتیں ہیں۔ الفارابی کا اثر ارسطو اور افلاطون کے مطالعات اور ان شروح سے عیاں ہے، جو عربی، عبرانی اور لاطینی میں لکھی گئیں۔فلسفہ اور فلسفیانہ طرز زندگی کا دفاع کرتے ہوئے الفارابی نے اپنے آپ کو ان مذہبی فرقہ وارانہ اور سیاسی مناقشات سے دور رکھا، جو اس وقت بغداد میں زوروں پر تھے ۔وہ کسی مخصوص مذہبی فرقے یا مسلک سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔ الفاربی نے موسیقی پر اپنی اہم ترین کتاب ابو جعفر الکرخی کے ایماء پر لکھی، جس نے 936ء میں قلمدان وزارت سنبھالا۔ یہ کتاب موسیقی کی تاریخ اور فن میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔الفارابی ستر برس کی عمر میں بغداد چھوڑ گیا۔ یہ بات کچھ عجیب سی لگتی ہے کہ وہ اپنے بڑھاپے میں محض نام کمانے کیلئے وہ شہر چھوڑ جاتا، جہاں اس نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ بسر کیا تھا۔ اصل میں اس نقل مکانی کی وجوہ سیاسی حالات تھے جن کی وجہ سے اس کا بغداد میں رہنا مشکل ہو گیا۔942ء تک داخلی، سیاسی ابتری اور بغداد شہر کی آبادی کی حفاظت اور بہبود کا معاملہ نہایت سنگین شکل اختیار کر چکا تھا۔ خلیفہ، اس کا محافظ دستہ اور وزراء جنوبی علاقے سے تعلق رکھنے والے سابق محصل کی بغاوت سے اس قدر عاجز آ چکے تھے کہ خلیفہ نے راہ فرار اختیار کی اور موصل کے حمدانی شہزادے کے ہاں پناہ لے لی۔حالات کی اس خرابی اور بے یقینی کی وجہ سے الفارابی بھی ایک ایسے علاقے میں منتقل ہو گیا جو 942ء میں قدرے پرامن تھا اور جہاں ایک ایسے خاندان کی حکومت تھی جو موصل کے حمدانیوں سے بھی بڑھ کر اس کا قدر دان تھا۔الفارابی دو سال دمشق میں رہا، اس دوران میں اس نے حلب کا سفر بھی کیا، پھر وہ مصر روانہ ہوا۔ اسی عرصے میں حمدانی شہزادہ سیف الدولہ نے حلب اور دمشق پر قبضہ کر لیا اس نے اپنے گرد اصحاب علم و فضل کا ایک حلقہ قائم کر لیا، جس کی وہ ہر طرح سے اعانت اور سرپرستی کرتا تھا۔ وفات سے ایک سال قبل الفارابی مصر چھوڑ کر سیف الدولہ کے اس حلقہ میں شامل ہو گیا۔950ء میں اس کے انتقال پر شاہ اور اس کے درباریوں نے اس کی نماز جنازہ پڑھی اور اس کو شہر کے جنوبی دروازے کے باہر دفن کیا گیا۔

آج کا دن

آج کا دن

باکسرمحمد علی ٹائٹل اور لائسنس سے محروم28اپریل 1967ء کو عظیم امریکی باکسر محمد علی نے ویتنام جنگ کی مخالفت کرتے ہوئے امریکی فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کر دیا، جس کی پاداش میں ان سے چیمپئن شپ کا ٹائٹل اور لڑنے کا لائسنس چھین لیا گیا۔ 1971ء میں سپریم کورٹ کی طرف سے ان کی سزا کو کالعدم کر دیا گیا۔ اپنے عروج کے دور میں انہوں نے تقریباً چار سال تک کسی مقابلے میں حصہ نہیں لیا۔ سیریگنولا کی جنگسیریگنولا (Cerignola) کی جنگ 28 اپریل 1503ء کو ہسپانوی اور فرانسیسی فوجوں کے درمیان سیریگنولا (موجودہ اٹلی) کے مقام پر لڑی گئی۔ ہسپانوی فوج نے خود سے بڑی اور جدید جنگی آلات سے لیس فرانسیسی فوج کو شکست دی۔ اسے تاریخ کی پہلی یورپی لڑائیوں میں سے ایک کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جو گن پائوڈر والے چھوٹے ہتھیاروں سے جیتی گئی تھی۔ آذربائیجان روس کا حصہ بنا1920ء میں آج کے روز آذربائیجان کو روس کا حصہ بنایا گیا۔ یہ1991ء تک سوویت یونین کا حصہ رہا۔ اس ملک کی تاریخ بہت پرانی ہے، چار سو سال قبل مسیح یہ البانیہ کا علاقہ تھا تب آذربائیجان کے شمال میں قفقاز البانیہ اور جنوب میں فارس موجودہ ایران واقع تھے۔ ساتویں صدی عیسوی میں عہد معاویہ کی حکومت میں اس علاقہ کو عربوں نے فتح کیا اور اسلام اس خطے میں پھیلا۔ دسویں صدی عیسوی میں بادشاہ نوشیرواں نے اس پر اپنی گرفت مضبوط کی نوشیرواں کی داستانوں کے متعدد قصے فارسی اور اردو لٹریچر میں موجود ہیں۔ پھانسی کیلئے گیس چیمبرز کا استعمال 1945ء میں آج کے روز نازی جرمنی نے ماوتھاؤسن حراستی کیمپ میں 33 سوشلسٹ اور کمیونسٹ رہنماؤں کو پھانسی دینے کیلئے گیس چیمبرز کا استعمال کیا گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران یورپی یہودیوں کی نسل کشی کی گئی جسے ''ہولو کاسٹ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ 1941ء اور 1945ء کے درمیان تقریباً 60 لاکھ یہودیوں کو منظم طریقے سے قتل کیا، جو یورپ کی یہودی آبادی کا تقریباً دو تہائی ہیں۔ یہ قتل عام کیمپوں میں بڑے پیمانے پر فائرنگ اور زہریلی گیس کے ذریعے کیا گیا۔

امریکہ :مہاجروں کی سرزمین

امریکہ :مہاجروں کی سرزمین

'' کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘امریکہ دراصل مہاجروں کی سرزمین ہے۔ ایسے ملک کے متعلق عام فہم الفاظ میں اگر یہ کہا جائے کہ '' کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘ تو بے جا نہ ہوگا۔ امریکہ کے اصل مکین اس وقت آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ باقی سارے لوگ کوئی کہیں سے آیا تو کوئی کہیں سے۔ گوروں نے تین چار صدی قبل اپنی سہولت اور خدمت کیلئے افریقہ کے کالے لوگوں کو یہاں بسایا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج وہی کالے انہی کے حاکم بنے بیٹھے ہیں۔ ان میں سابق صدر بارک اوباما، سابق وزرائے خارجہ بیڈن پاول اور کونڈالیزا رائیس نمایاں شخصیات میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ راقم نے دیکھا کہ امریکہ کے بڑے بڑے شہروں میں کئی اہم عہدوں پر کالے براجمان ہیں۔ پولیس چیف، شہروں کے میئر، عالمی شہرت کی حامل یونیورسٹیوں کے سربراہ اور کئی محکموں میں کالے بلاتفریق اپنا اپنا رول ادا کر رہے ہیں، گو یہ مقام انہیں بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل ہوا۔ کالوں(سیاہ فام) کو یہ شہری آزادی اور عزت دلوانے کی خاطر امریکہ کے نامور صدور کو بھی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ لیکن آج کل امریکہ میں تعصب کے بادل چھٹ چکے ہیں۔ امریکہ اور اہل امریکہ نے خندہ پیشانی سے باہر سے آئے ہوئے لوگوں کو خوش آمدید کہا ہے۔ یقیناً یہ فراخ دلی کا ثبوت ہے۔ باہر کی دنیا سے آئے ہوئے ایسے ایسے دانشور اور انٹلیکچوئل اکٹھے ہو گئے ہیں کہ آج انہوں نے ساری دنیا کو آگے لگا لیا ہے۔ حکومت نے تھنک ٹینکوں کا ایک بریگیڈ تشکیل دے دیا ہے جس کے نتیجہ میں امریکہ نے ساری دنیا کو ایک شہر کی حیثیت دے کر خود کو کوتوال شہر بنا لیا ہے۔ یہ امریکہ کی خوش قسمتی ہے کہ شمال اور جنوب میں صرف دو معصوم سے ممالک کی اسے قربت حاصل ہے۔امریکہ بذات خود اتنا بڑا ملک ہے کہ اس کی 50 ریاستوں میں سے کئی ریاستیں دنیا کے کئی ممالک سے بھی بڑی ہیں۔ قدرت نے دو بڑے سمندروں کے ہزار ہا میل لمبے کنارے دیئے ہیں۔ امریکہ میں ہر طرح کا موسم موجود ہے۔ اتنی نسلوں اور قسموں کے لوگ وہاں آباد ہیں جس کی نظیر دنیا کے کسی اور ملک میں ملنی مشکل ہے۔ گویا امریکہ ایک طرح سے چوں چوں کا مربہ ہے۔ دنیا کی ہر زبان کے لوگ امریکہ میں موجود ہیں۔ دنیا کی ہر زبان کا اخبار امریکہ سے شائع ہو رہا ہے۔ اور پھر جمہوریت کی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ عالمی سطح پر کشتی لڑنے والا پہلوان بھی اپنی ریاست کا گورنر منتخب ہو جاتا ہے۔ کبھی وقت تھا کہ برطانیہ کی نو آبادیات میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، اب یہ اعزاز امریکہ کو حاصل ہے۔ آج امریکہ کا دائرہ اختیار آٹھ ٹائم زونوں پر محیط ہے۔ اس ملک کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے جیسے ہمارے ملک کی سرحدوں سے شروع ہو کر فلپائن تک ایک ہی ملک ہو۔اگر آپ سابقہ سوویت یونین کی کسی ریاست یا کسی عرب ملک میں چلے جائیں تو ہر وقت آپ کو اپنی شناخت کیلئے پاسپورٹ رکھنا لازمی ہوتا ہے۔ اس کے برعکس امریکہ میں اگر آپ ایک دفعہ داخل ہو گئے تو آپ اپنا پاسپورٹ اپنے اٹیچی میں سنبھال کر رکھ لیں، کہیں کوئی پوچھے گا بھی نہیں۔ یہاں تک کہ ایئرپورٹ سے اپنے ملک واپس جا رہے ہوں آپ سے پاسپورٹ طلب نہیں کیا جائے گا۔خیر یہ تو امریکہ کا ایک رخ ہے، امریکہ میں ایسے ایسے جرائم جنم لیتے ہیں جن کی مثال دنیا میں ملنی مشکل ہے۔ پولیس والوں کو مجرموں کے ہاتھوں پٹتے دیکھا ہے۔ پولیس سے اسلحہ چھین کر پولیس پر ہی استعمال ہونے کے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں۔ سوفٹ چوڑی سڑک کے ایک طرف سے سرنگ کھود کر بنکوں کی تجوریاں خالی کرنے کے واقعات بھی امریکہ میں ہی ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ چھ سالہ بچے کو باپ کی کار کی چابیاں Ignitionمیں ڈال کر کار کو شہر کی سڑکوں پر گھماتے ہوئے دیکھا گیا۔ اور تو اور ایک 13سالہ بچے نے ایئرپورٹ سے سیسنا طیارہ نہ صرف اڑایا بلکہ بحفاظت قریبی شہر کے ایئرپورٹ پر اتار بھی لیا۔ خیر جتنا بڑا ملک اتنی بڑی باتیں۔مذہب کی اتنی آزادی ہے کہ کئی چرچوں کے ماتھے پر برائے فروخت کے بورڈ آویزاں ہیں۔ بلکہ کئی چرچ تو مساجد میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ کہیں مذہبی تعصب نظر نہیں آتا، ہاں کہیں ایک آدھ مثال ہے تو وہ کسی کا ذاتی جنون ہو سکتا ہے۔ امریکہ میں ایسی ایسی قدرتی آفات آتی ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ اگر کہیں آگ بھڑک اٹھتی ہے تو کیلیفورنیا کے وسیع جنگل میل ہا میل تک شعلوں کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ سمندری طوفان آتا ہے تو پورے کے پورے مکانات سڑکوں پر دھرے نظر آتے ہیں۔ اگر بجلی چلی جائے تو پورے امریکہ کا 1/4(ایک چوتھائی) تاریکی میں ڈوب جاتا ہے اور اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ یہ ہمارے ساتھ ہوا کیسے؟ مگر پھر بھی امریکہ کی صحت پر کوئی اثر پڑتا ہے نہ اس کی تھانیداری پر۔ امریکہ ہر طور اپنا جھنڈا بلند کئے ہوئے ہے۔  

’’میں چڑیا گھر میں ہوں‘‘

’’میں چڑیا گھر میں ہوں‘‘

یوٹیوب پر اپ لوڈ ہونے والی سب سے پہلی ویڈیوآپ روزانہ یوٹیوب پر بہت سی ویڈیو دیکھتے ہیں جن میں سے کچھ ویڈیو محفوظ (سیو) کر لیتے ہیں اور بعض کو شیئر بھی کرتے ہیں۔ اس طرح ہمارے ذہنوں میں ایک سوال آتا ہے کہ سب سے پہلے یو ٹیوب پر کونسی ویڈیو اپ لوڈ کی گئی تھی؟۔ تو آئیے ہم کو آپ کوبتاتے ہیںکہ وہ کونسی ویڈیو تھی جو یو ٹیوب پر اپ لوڈ کی گئی، اس کا تخلیق کار کون تھااور اس نے یہ ویڈیوکہاں پر جا کر شوٹ کی تھی۔ 2005ء کے آغاز میں انٹرنیٹ کا جال دنیا بھر میں پھیل چکا تھا اور تقریباً ہر کوئی انٹرنیٹ تک رسائی رکھتا تھا۔ 14 فروری 2005ء میں پے پال کمپنی کے تین سابق ملازمین جاوید کریم، سٹیوچن اور چاڈ لی نے انٹرنیٹ پر ویڈیو شیئرنگ کا سب سے بڑا پلیٹ فارم ''یو ٹیوب‘‘ کا آغاز کیا۔ یو ٹیوب کی تخلیق نے ویڈیو دیکھنے، ویڈیو بنانے اور ویڈیو شیئر کرنے میں انقلاب برپا کر دیا۔یو ٹیوب کے آنے سے دنیا میں ایک نئی صنعت قائم ہوئی اورآج یوٹیوبرز اپنی ویڈیوز اپ لوڈ کر کے اشتہارات کی مد میں اچھی خاصی آمدنی حاصل کرتے ہیں۔ یہ 7 اپریل 2005ء کی بات ہے جب جاوید کریم نے ''می ایٹ دی زو‘‘نامی پہلی یوٹیوب ویڈیو پوسٹ کی۔ 18 سیکنڈ کی ویڈیو، جس کا عنوان ہے ''میںچڑیا گھر میں ہوں‘‘ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جاوید، کریم، یو ٹیوب کے شریک بانی، سین ڈیاگو چڑیا گھر میں ہاتھیوں کے ایک جھنڈ کے سامنے کھڑے ہیںاور کہہ رہے ہیں کہ ''ٹھیک ہے، تو یہاں ہم ہاتھیوں کے سامنے ہیں، وہ ویڈیو کلپ میں مزید کہتے ہیں ''ان لڑکوں کے بارے میں اچھی بات یہ ہے کہ ان کے پاس واقعی، واقعی، واقعی لمبے تنے ہیں، اور یہ بہت اچھا ہے اور بس اتنا ہی کہنا ہے‘‘۔''می ایٹ دی چڑیا گھر‘‘ کو جاوید کریم نے اپ لوڈ کیا تھا، جو یوٹیوب کے تین بانیوں میں سے ایک ہیں، اور اسے سین ڈیاگو چڑیا گھر میں کچھ ہاتھیوں کے ساتھ ایک لمحے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔آج، ''Me At the Zoo ‘‘کو پانچ کروڑ چالیس لاکھ (54,000,000) سے زیادہ بار دیکھا جا چکا ہے اور تقریباً دس لاکھ اس پر تبصرے ہیں۔ جاوید کریم کی اس ویڈیو نے انیرنیٹ کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کیا اور یوٹیوب کو ویڈیو شیئرنگ کا سب سے بڑا پلیٹ فارم بنانے میں مدد کی۔ اس ویڈیو نے کئی نئی آن لائن صنعتیں شروع کیں اور لوگوں کے میڈیا استعمال کرنے کا طریقہ بدل دیا۔آج کل یوٹیوب پر ویڈیوز اپ لوڈ کرنے والے یوٹیوبرزنے زیادہ تر روایتی طریقہ اپنا رکھا ہے جیسا کہ ''میرے چینل کو سبسکرائب کریں،لائک کریں اور کمنٹ ضرور کریں۔ جاوید کریم کی ویوڈیو بہت ہی سادہ ہے اور انہوں نے صرف اتنا ہی کہہ کر ویڈیو ختم کردی کہ ''بس اتنا ہی کہنا ہے ‘‘۔''می ایٹ دی زو‘‘ ویڈیو اپ لوٹ ہونے کے ایک سال بعد جاوید کریم اوران کے ساتھی شریک بانی نے یہ پلیٹ فارم گوگل کو 1.65 بلین ڈالرمیں فروخت کردیا تھااور اس وقت یوٹیوب کے مطابق یوٹیوب پلیٹ فارم پر ہر ماہ 2 ارب سے زیادہ صارفین وزٹ کرتے ہیں اور ویڈیوز دیکھتے ہیں۔پچھلے کئی سالوں سے یوٹیوب انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ استعمال ہونے والا پلیٹ فارم ہے۔ اس وقت ٹی وی شوز، فلموں اور لائیو سٹریمنگ سروس کے ساتھ یو ٹیوب انٹرنیٹ کا سب مقبول پلیٹ فارم بن چکا ہے۔ یوٹیوب انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں روزانہ ایک ارب گھنٹے کا مواد دیکھا جاتا ہے اور یہ سب جاوید کریم کی ویڈیو''می ایٹ دی زو‘‘ کے اپ لوڈ ہونے کے ساتھ شروع ہوا۔ یوٹیوب کے ماہانہ 2.5 ارب سے زیادہ صارفین ہیں جو اجتماعی طور پر روزانہ ایک ارب گھنٹے سے زیادہ ویڈیوز دیکھتے ہیں۔ مئی 2019ء تک، ویڈیوز کو پلیٹ فارم پر 500 گھنٹے سے زیادہ مواد فی منٹ کی شرح سے اپ لوڈ کیا جا رہا تھا اور 2021ء تک، مجموعی طور پر تقریباً 14 ارب ویڈیوزیو ٹیوب پر اپ لوڈ ہو چکی تھیں ۔اکتوبر 2006ء میں، یوٹیوب کو گوگل نے 1.65 بلین ڈالرمیں خریدا تھا ۔ گوگل نے صرف اشتہارات سے آمدنی سے یوٹیوب کے کاروباری ماڈل کو بڑھایا، بامعاوضہ مواد جیسے فلمیں اور یوٹیوب کے ذریعہ تیار کردہ خصوصی مواد کی پیشکش تک۔ یوٹیوب نے گوگل کے ایڈسینس پروگرام میں شامل کیا، جس سے یوٹیوب کے صارفین کی آمدن میں اضافہ ہوا اور 2022ء میں یوٹیوب کی سالانہ اشتہاری آمدنی بڑھ کر 29.2 بلین ڈالر ہوگئی جو کہ 2020ء کے مقابلے میں 9 بلین ڈالر زیادہ بنتی ہے۔گوگل نے خریدار ی کے بعد یوٹیوب کی ویب سائٹ کو مزید بہتر بنایا اور موبائل ایپس ، نیٹ ورک ٹیلی ویژن اور دوسرے پلیٹ فارمز کے ساتھ لنک کر کے یوٹیوب کے صارفین میں اضافہ کیا۔ اس کے علاوہ یوٹیوب پر ویڈیو کیٹیگریز میں میوزک ویڈیوز، ویڈیو کلپس، خبریں، مختصر اور فیچر فلمیں، گانے، دستاویزی فلمیں، مووی اور ٹیزر ٹریلرز، لائیو سٹریمز، وی لاگز اور بہت کچھ شامل کیا۔ یوٹیوب پلیٹ فارم پر زیادہ تر موادصارفین یعنی یوٹیوبرز کے ذریعہ تیار کیا جاتا ہے۔YouTube نے انٹر نیٹ کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر رکھا ہے۔ اپنی ترقی اور کامیابی کے باوجود یوٹیوب کے پلیٹ فارم پر بعض اوقات مبینہ طور پر غلط معلومات پھیلانے، کاپی رائٹ شدہ مواد کے اشتراک، اپنے صارفین کی رازداری کی خلاف ورزی، سنسرشپ کو فعال کرنے، بچوں کی حفاظت اور فلاح و بہبود کو خطرے میں ڈالنے، اور پلیٹ فارم کے متضاد یا غلط نفاذ کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔   

آج کا دن

آج کا دن

'' اپالو 16‘‘ کی چاند سے زمین پر واپسی 27 اپریل 1972ء کو امریکہ کی طرف سے خلا میں بھیجا جانے والا خلائی جہاز ''اپالو 16‘‘ چاند سے واپس زمین پر اترا۔ ''اپالو 16‘‘ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے اپالو خلائی پروگرام کا دسویں مشن تھا، جو ''ناسا‘‘ کے زیر انتظام تھا اور چاند پر اترنے والا یہ پانچواں اور اختتامی مشن تھا۔ اس مشن کے دوران خلاء بازوں نے 71گھنٹے چاند پر گزارے اس دوران انہوں نے 20 گھنٹے 14 منٹ پر مشتمل تین بار چاند پر چہل قدمی بھی کی۔یونان پر قبضہ1941ء میں آج کے دن یونان پر اس وقت قبضہ شروع ہوا جب نازی جرمنی نے اپنے اتحادی اٹلی کی مدد کیلئے سلطنت یونان پر حملہ کیا۔ جون 1941ء تک تمام یونان پر قبضہ کر لیا گیا۔ یہ قبضہ جرمنی اور اس کے اتحادی بلغاریہ کو اکتوبر 1944ء میں اتحادیوں کی جانب سے دباؤ پر دستبردار ہونے تک جاری رہا۔ ڈنیپروپیٹروسک دھماکے27اپریل 2012ء میں یوکرین میں ڈنیپرو پیٹروسک کے چار ٹرام سٹیشنز پر دھماکوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ یہ بم دھماکے دو گھنٹے کے اندر ہوئے۔ چار گھریلو ساختہ بم چار ٹرام اسٹیشنوں کے قریب کوڑے دان میں رکھے گئے تھے۔ پہلا بم اس وقت پھٹا جب ٹرام مسافروں کو لینے کیلئے سست ہو رہی تھی۔ دوسرا بم 30 منٹ بعد پھٹا۔ تیسرا بم دوسرے کے فوراً بعد پھٹا۔ چوتھے دھماکے کے بعد ہر طرف خوف و ہراس پھیل گیا۔شمالی و جنوبی کوریا کے درمیان معاہدہ27 اپریل 2018ء کو شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کم جونگ اور جنوبی کوریا کے صدر مون جے اِن کے درمیان کوریا کے امن، خوشحالی اور دوبارہ اتحاد کیلئے پانمونجوم اعلامیہ پر کوریائی سربراہی اجلاس جوائنٹ سکیورٹی ایریا میں پیس ہاؤس کی جانب سے دستخط کئے گئے۔ اعلامیے کے مطابق شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کی حکومتوں نے کوریائی جنگ اور کوریائی تنازعے کو باضابطہ طور پر ختم کرنے کیلئے تعاون کرنے پر اتفاق کیا۔یہ اعلامیہ 6 ستمبر 2018 ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا۔وِلو(willow) جزیرہ کی تباہی 27 اپریل 1978ء کو وِلو (willow) آئی لینڈ، ویسٹ ورجینیا میں پلیزنٹس پاور اسٹیشن پر زیر تعمیر کولنگ ٹاور گر کر تباہ ہو گیا۔اس خوفناک حادثے میں تعمیراتی سائٹ پر موجود 51 کارکن جاں بحق ہوئے۔ اسے امریکی تاریخ کا سب سے مہلک تعمیراتی حادثہ سمجھا جاتا ہے۔ 1970ء کی دہائی کے دوران، دریائے اوہائیو کے کنارے وادی میں کوئلے سے چلنے والے بہت سے پاور پلانٹس بنائے جا رہے تھے۔ الیگینی پاور سسٹم ولو آئی لینڈ پر ایک اور بڑا پلانٹ بنا رہا تھا، جس میں دو الیکٹرک جنریٹر موجود تھے ۔