زمین کی تاریخ میں کچھ ایسے موڑ آئے ہیں جنہوں نے موسم، فضا اور انسانی تہذیب کے رخ متعین کیے۔ تقریباً بارہ ہزار سال قبلLast Ice Age یعنی آخری برفانی دور کا خاتمہ بھی ایسا ہی فیصلہ کن لمحہ تھا۔ یہ وہ دور تھا جب زمین تیزی سے گرم ہوئی، برفانی چادریں پگھلنا شروع ہوئیں اور عالمی ماحول ایک نئے دور میں داخل ہوا۔ تازہ تحقیق نے اس تبدیلی کے پس منظر کو مزید واضح کیا ہے اور بتایا ہے کہ اصل معرکہ فضا میں نہیں بلکہ سمندر کی گہرائیوں میں ہوا۔ خصوصاً بحر منجمد جنوبی(Antarctic Ocean) نے اس عالمی موسمی تغیر میں مرکزی کردار ادا کیا۔بحر منجمد جنوبی کیوں اہم ہے؟انٹارکٹکا کے گرد پھیلا ہوایہ سمندر ہمارے سیارے کی آب و ہوا کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ سمندر صرف حرارت کو ہی نہیں بلکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو بھی بڑی مقدار میں جذب کرنے اور محفوظ رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ نئی تحقیق کے مطابق آخری برفانی دور کے اختتام پر اسی سمندر نے سب سے زیادہ سرگرم کردار ادا کیااور اس کی تہہ میں موجود گہرے، ٹھنڈے اور کثیف پانی( Antarctic Bottom Water) میں زبردست تبدیلیاں رونما ہوئیں۔یہ تحقیق جو حال ہی میں Nature Geoscience میں شائع ہوئی یہ بتاتی ہے کہ حرارت میں اضافے کے ساتھ کثیف پانی دو بڑے مرحلوں میں پھیلا جس کے نتیجے میں وہ کاربن جو ہزاروں سال سمندر کی تہہ میں قید تھا دوبارہ فضا تک پہنچ گیا۔ یہی عمل عالمی درجہ حرارت میں تیزی سے اضافے کی بنیادی وجہ بنا۔سائنسدانوں نے اس تحقیق کے لیے بحر منجمد جنوبی کے مختلف حصوں سے مٹی کے قدیم نمونے حاصل کیے۔ ان نمونوں کی گہرائی 2200 سے 5000 میٹر تک تھی اور ان میں محفوظ معلومات تقریباً 32 ہزار سالہ دور کا احاطہ کرتی ہیں۔ان تہوں میں موجود ایک خاص دھات نیوڈیَمیم اور اس کے مختلف آئسوٹوپس نے سمندر کے ماضی کو بے نقاب کیا۔ نیوڈیَمیم کا آئسوٹوپ ایک طرح کا ''سمندری فنگر پرنٹ‘‘ ہے جو بتاتا ہے کہ کس دور میں پانی کہاں سے آ رہا تھا اور کس رفتار سے بہہ رہا تھا۔ محققین نے دیکھا کہ برفانی دور میں بحر منجمد کی گہرائیوں میں پائے جانے والے نشانات آج کہیں بھی نظر نہیں آتے۔ اس سے اندازہ ہوا کہ اُس زمانے میں گہرا پانی تقریباً ساکن تھا جس کے نتیجے میں کاربن سمندر کی تہہ میں بند پڑا رہتا تھا۔تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ آخری برفانی دور کے دوران بحر منجمد کی گہرائیوں میں وہ پانی غالب تھا جسے سائنس میںCircumpolar deep water (CDW) کا پیش رو کہا جاتا ہے۔ یہ پانی نسبتاً آہستہ حرکت کرتا تھا اور سطحی پانی سے کم ملتا تھا جس کے باعث کاربن ڈائی آکسائیڈ سمندر کے اندر قید رہتی تھی اور فضا میں کم جاتی تھی۔ اسی وجہ سے زمین ہزاروں سال تک نسبتاً ٹھنڈی رہی۔لیکن جب زمین گرم ہونے لگی اور انٹارکٹکا کی برف تیزی سے پگھلنے لگی تو ابتدا میں پگھلی ہوئی برف کے پانی نے سمندر کی کثافت بدل دی۔ نمکیات کم ہوئے، پانی ہلکا ہوا اور نتیجتاً نیا پانی وجود میں آیا۔ اس نئے پانی نے رفتہ رفتہ سمندر کی گہرائیوں پر قبضہ جما لیا۔اگلے مرحلے میں سمندر کی ''عمودی آمیزش‘‘ بڑھی‘ یعنی وہ پانی جو ہزاروں سال تک سطح سے کٹا ہوا تھا، دوبارہ اوپر آنے لگا۔ اس آمیزش نے سمندر میں قید کاربن کو سطح تک پہنچنے کا راستہ دیا جہاں سے وہ فضا میں داخل ہوا۔ اس طرح کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح تیزی سے بلند ہوئی اور زمین تقریباً اسی رفتار سے گرم ہونے لگی۔سابقہ نظریات کے مطابق عالمی گہرے پانیوں کی تبدیلی میں شمالی اوقیانوس بڑا کردار ادا کرتا تھا۔ خیال تھا کہ شمالی نصف کرہ سے ہونے والی تبدیلیاں جنوبی سمندر کو متاثر کرتی ہیں۔ مگرنئی تحقیق نے اس نظریے کو کمزور کر دیا ہے۔اس تحقیق سے یہ واضح ہوا کہ آخری برفانی دور کے خاتمے میں بحر منجمد شمالی کا اثر کم تھا اور اصل تبدیلی بحر منجمد جنوبی کے اندرونی وقوع پذیر ہوئی۔ یہ دریافت آج کیوں اہم ہے؟آج جب ہماری زمین دوبارہ تیزی سے گرم ہو رہی ہے، سمندروں کی حرارت بڑھ رہی ہے اور انٹارکٹکا کی برف غیرمعمولی تیزی سے پگھل رہی ہے تو یہ تحقیق ایک تنبیہ بھی ہے اور ایک رہنمائی بھی۔ ماضی میں سمندر نے جو کردار ادا کیا وہ مستقبل کے لیے بھی بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔سمندر نہ صرف کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں بلکہ اس کے اخراج میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر آج AABW یا CDW جیسی گہرائیوں میں پھر وہی تبدیلیاں رونما ہوئیں جو ہزاروں سال پہلے ہوئیں تو دنیا ایک بار پھر شدید ماحولیاتی تغیرات کا سامنا کر سکتی ہے ، جس میں شدید گرمی، سمندری سطح میں اضافہ، برفانی چادروں کا انہدام اور ماحولیاتی نظام کا عدم توازن شامل ہے۔یہ تحقیق ہمیں بتاتی ہے کہ سمندر کی گہرائیاں صرف پانی کا ذخیرہ نہیں بلکہ زمین کے مستقبل کا فیصلہ کن عنصر ہیں۔ 12 ہزار سال پہلے انہی گہرائیوں میں قید کاربن نے انسانی تاریخ کے رخ تبدیل کئے اور آج بھی سمندر وہی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔زمینی ماحولیاتی نظام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم سمندروں کی حرکیات، ان میں آنے والی تبدیلیوں اور برفانی خطوں کے ردعمل کو سنجیدگی سے لیں۔ ماضی کا مطالعہ صرف تاریخ نہیں مستقبل کی کنجی ہے۔ اگر ہم اس کنجی کو درست استعمال کریں تو موسمیاتی بحران کے حل میں نئی راہیں سامنے آ سکتی ہیں۔