جَو کے کثیر فوائد

جَو کے کثیر فوائد

اسپیشل فیچر

تحریر : محمد ریاض


گندم کی طرح جَو بھی ایک جنس ہے۔ خوردنی اجناس میں سے مکئی کے ساتھ ساتھ جو کے آٹے کو خوراک کا اہم جزو سمجھا جاتا ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا جو کے آٹے کی غذائی اہمیت گندم کے آٹے کے برابر ہے اور کیا اسے گندم کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے؟ کیا اسے گندم کے آٹے کے دستیاب نہ ہونے پر ہی استعمال کیا جانا چاہیے یا ساراسال استعمال کرسکتے ہیں؟ طبی ماہرین کہتے ہیں کہ اگر جو کی غذائی اہمیت کے متعلق آگاہی ہو جائے تو ہم نہ صرف جو کی غذاکو اپنی خوراک میں بطور سپلیمنٹ شامل کر لیں بلکہ اس کی افادیت کے پیش نظر جو کو اہم ترین جزو بنا لیں گے۔ جو کے دانے میں پانی، نائٹروجن مرکبات، گوند، چینی اور چکنائی کی معمولی مقدار کے علاوہ 59فیصد سٹارچ ہوتا ہے جو خون کے اندر کولیسٹرول کو کم رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور جو جسم کو فربہ نہیں ہونے دیتا یعنی جسم کو چست و سمارٹ رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ جو میں تانبا موجود ہے جو بڑھتی عمر کے افراد میں جوڑوں کے درد کو ختم کرتا ہے۔ اس میں سیلیئم جیسا ایک ایسا دھاتی عنصر ہے جو انسان کو چھوٹی آنت کے کینسر سے تحفظ دیتا ہے۔ اس میں فاسفورس بھی ہے جو اے ٹی پی یعنی اڈینوٹرائی فاسفیٹ کی صورت توانائی بہم پہنچاتا ہے۔ یہ فائبر کا بنیادی عنصر بھی ہے جو آنتوں میں تیزی سے حرکت کرتا ہے اسی کی مدد سے خون ہر وقت تازہ اور صاف رہتا ہے اور خون کے کلاٹ نہیں بنتے۔ فائبر کے جسم کے اندر ہونے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ جسم سے بائل ایسڈ کا اخراج کم کرنے میں اہم کر دار ادا کرتا ہے جس سے پتے میں پتھری ہونے کے مواقع کم ہو جاتے ہیں۔ جو کے آٹے کی روٹی، دلیہ، جو کا پانی اور ستو وغیرہ کے لیے میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ حل پذیر ریشے یعنی سالوایبل فائبر کے اعلیٰ ترین ذرائع کے ساتھ ساتھ متعدد مینٹی ایسڈز اور امینو ایسڈ موجود ہیں۔ ایک مخصوص امینو ایسڈ لائیسین بھی موجود ہے جو قد بڑھانے میں پیش پیش رہتا ہے یعنی بڑھتے ہوئے بچوں کو جو کا دلیہ یا روٹی کھلائی جائے تو ان کا قد بڑھ سکتا ہے۔ یہ روٹی رنگ گورا کرتی ہے۔ مردانہ وجاہت ابھارتی ہے۔یہ بھوک مٹاتی ہے اور پیاس بجھاتی ہے۔ ذہانت اور غوروفکر کو تحریک دیتی ہے۔ آواز کو دلکش اور سریلا کرتی ہے۔ حس سماعت اور بصارت کو تقویت بخشتی ہے۔ زہریلی رطوبتوں کا اثر زائل کرتی ہے۔ موٹاپا دور کرتی ہے۔ جسم کی چربی کو پگھلاتی اور خون کو شفاف تر رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
آخری برفانی دور کا خاتمہ:سمندر کی گہرائیوں سے ابھرنے والے نئے انکشافات

آخری برفانی دور کا خاتمہ:سمندر کی گہرائیوں سے ابھرنے والے نئے انکشافات

زمین کی تاریخ میں کچھ ایسے موڑ آئے ہیں جنہوں نے موسم، فضا اور انسانی تہذیب کے رخ متعین کیے۔ تقریباً بارہ ہزار سال قبلLast Ice Age یعنی آخری برفانی دور کا خاتمہ بھی ایسا ہی فیصلہ کن لمحہ تھا۔ یہ وہ دور تھا جب زمین تیزی سے گرم ہوئی، برفانی چادریں پگھلنا شروع ہوئیں اور عالمی ماحول ایک نئے دور میں داخل ہوا۔ تازہ تحقیق نے اس تبدیلی کے پس منظر کو مزید واضح کیا ہے اور بتایا ہے کہ اصل معرکہ فضا میں نہیں بلکہ سمندر کی گہرائیوں میں ہوا۔ خصوصاً بحر منجمد جنوبی(Antarctic Ocean) نے اس عالمی موسمی تغیر میں مرکزی کردار ادا کیا۔بحر منجمد جنوبی کیوں اہم ہے؟انٹارکٹکا کے گرد پھیلا ہوایہ سمندر ہمارے سیارے کی آب و ہوا کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ سمندر صرف حرارت کو ہی نہیں بلکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو بھی بڑی مقدار میں جذب کرنے اور محفوظ رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ نئی تحقیق کے مطابق آخری برفانی دور کے اختتام پر اسی سمندر نے سب سے زیادہ سرگرم کردار ادا کیااور اس کی تہہ میں موجود گہرے، ٹھنڈے اور کثیف پانی( Antarctic Bottom Water) میں زبردست تبدیلیاں رونما ہوئیں۔یہ تحقیق جو حال ہی میں Nature Geoscience میں شائع ہوئی یہ بتاتی ہے کہ حرارت میں اضافے کے ساتھ کثیف پانی دو بڑے مرحلوں میں پھیلا جس کے نتیجے میں وہ کاربن جو ہزاروں سال سمندر کی تہہ میں قید تھا دوبارہ فضا تک پہنچ گیا۔ یہی عمل عالمی درجہ حرارت میں تیزی سے اضافے کی بنیادی وجہ بنا۔سائنسدانوں نے اس تحقیق کے لیے بحر منجمد جنوبی کے مختلف حصوں سے مٹی کے قدیم نمونے حاصل کیے۔ ان نمونوں کی گہرائی 2200 سے 5000 میٹر تک تھی اور ان میں محفوظ معلومات تقریباً 32 ہزار سالہ دور کا احاطہ کرتی ہیں۔ان تہوں میں موجود ایک خاص دھات نیوڈیَمیم اور اس کے مختلف آئسوٹوپس نے سمندر کے ماضی کو بے نقاب کیا۔ نیوڈیَمیم کا آئسوٹوپ ایک طرح کا ''سمندری فنگر پرنٹ‘‘ ہے جو بتاتا ہے کہ کس دور میں پانی کہاں سے آ رہا تھا اور کس رفتار سے بہہ رہا تھا۔ محققین نے دیکھا کہ برفانی دور میں بحر منجمد کی گہرائیوں میں پائے جانے والے نشانات آج کہیں بھی نظر نہیں آتے۔ اس سے اندازہ ہوا کہ اُس زمانے میں گہرا پانی تقریباً ساکن تھا جس کے نتیجے میں کاربن سمندر کی تہہ میں بند پڑا رہتا تھا۔تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ آخری برفانی دور کے دوران بحر منجمد کی گہرائیوں میں وہ پانی غالب تھا جسے سائنس میںCircumpolar deep water (CDW) کا پیش رو کہا جاتا ہے۔ یہ پانی نسبتاً آہستہ حرکت کرتا تھا اور سطحی پانی سے کم ملتا تھا جس کے باعث کاربن ڈائی آکسائیڈ سمندر کے اندر قید رہتی تھی اور فضا میں کم جاتی تھی۔ اسی وجہ سے زمین ہزاروں سال تک نسبتاً ٹھنڈی رہی۔لیکن جب زمین گرم ہونے لگی اور انٹارکٹکا کی برف تیزی سے پگھلنے لگی تو ابتدا میں پگھلی ہوئی برف کے پانی نے سمندر کی کثافت بدل دی۔ نمکیات کم ہوئے، پانی ہلکا ہوا اور نتیجتاً نیا پانی وجود میں آیا۔ اس نئے پانی نے رفتہ رفتہ سمندر کی گہرائیوں پر قبضہ جما لیا۔اگلے مرحلے میں سمندر کی ''عمودی آمیزش‘‘ بڑھی‘ یعنی وہ پانی جو ہزاروں سال تک سطح سے کٹا ہوا تھا، دوبارہ اوپر آنے لگا۔ اس آمیزش نے سمندر میں قید کاربن کو سطح تک پہنچنے کا راستہ دیا جہاں سے وہ فضا میں داخل ہوا۔ اس طرح کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح تیزی سے بلند ہوئی اور زمین تقریباً اسی رفتار سے گرم ہونے لگی۔سابقہ نظریات کے مطابق عالمی گہرے پانیوں کی تبدیلی میں شمالی اوقیانوس بڑا کردار ادا کرتا تھا۔ خیال تھا کہ شمالی نصف کرہ سے ہونے والی تبدیلیاں جنوبی سمندر کو متاثر کرتی ہیں۔ مگرنئی تحقیق نے اس نظریے کو کمزور کر دیا ہے۔اس تحقیق سے یہ واضح ہوا کہ آخری برفانی دور کے خاتمے میں بحر منجمد شمالی کا اثر کم تھا اور اصل تبدیلی بحر منجمد جنوبی کے اندرونی وقوع پذیر ہوئی۔ یہ دریافت آج کیوں اہم ہے؟آج جب ہماری زمین دوبارہ تیزی سے گرم ہو رہی ہے، سمندروں کی حرارت بڑھ رہی ہے اور انٹارکٹکا کی برف غیرمعمولی تیزی سے پگھل رہی ہے تو یہ تحقیق ایک تنبیہ بھی ہے اور ایک رہنمائی بھی۔ ماضی میں سمندر نے جو کردار ادا کیا وہ مستقبل کے لیے بھی بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔سمندر نہ صرف کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں بلکہ اس کے اخراج میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر آج AABW یا CDW جیسی گہرائیوں میں پھر وہی تبدیلیاں رونما ہوئیں جو ہزاروں سال پہلے ہوئیں تو دنیا ایک بار پھر شدید ماحولیاتی تغیرات کا سامنا کر سکتی ہے ، جس میں شدید گرمی، سمندری سطح میں اضافہ، برفانی چادروں کا انہدام اور ماحولیاتی نظام کا عدم توازن شامل ہے۔یہ تحقیق ہمیں بتاتی ہے کہ سمندر کی گہرائیاں صرف پانی کا ذخیرہ نہیں بلکہ زمین کے مستقبل کا فیصلہ کن عنصر ہیں۔ 12 ہزار سال پہلے انہی گہرائیوں میں قید کاربن نے انسانی تاریخ کے رخ تبدیل کئے اور آج بھی سمندر وہی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔زمینی ماحولیاتی نظام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم سمندروں کی حرکیات، ان میں آنے والی تبدیلیوں اور برفانی خطوں کے ردعمل کو سنجیدگی سے لیں۔ ماضی کا مطالعہ صرف تاریخ نہیں مستقبل کی کنجی ہے۔ اگر ہم اس کنجی کو درست استعمال کریں تو موسمیاتی بحران کے حل میں نئی راہیں سامنے آ سکتی ہیں۔

عالمی دن:انسدادِبد عنوانی، شفافیت کیلئے موثر اقدامات کرنا ہوں گے

عالمی دن:انسدادِبد عنوانی، شفافیت کیلئے موثر اقدامات کرنا ہوں گے

ہر سال 9 دسمبر کو دنیا بھر میں ''انسدادِ بدعنوانی کا عالمی دن‘‘ اس عزم کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ کرپشن کے خاتمے، شفاف طرزِ حکمرانی کے فروغ اور سماجی انصاف کے حصول کے لیے عالمی اور قومی سطح پر ٹھوس کوششیں کی جائیں۔ بدعنوانی محض مالی بے ضابطگی نہیں یہ ریاستی ڈھانچے کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے والا ایک ہمہ گیر بحران ہے جو معاشی ترقی، عوامی خدمات، اعتماد اور قانون کی عملداری ہر چیز کو متاثر کرتا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں یہ چیلنج کہیں زیادہ سنگین ہے جہاں منظم کرپشن نے نہ صرف اداروں کی ساکھ کو مجروح کیا ہے بلکہ پائیدار ترقی کے امکانات کو بھی محدود کر دیا ہے۔ بدعنوانی نے برسوں سے پبلک سروسز، سرمایہ کاری اور معیشت پر سنگین اثرات مرتب کیے ہوئے ہیں۔ مگر اس کے لیے صرف دن منانا کافی نہیں عملی اقدامات اور شفافیت کے لیے مؤثر اقدامات بھی لازم ہیں۔ بدعنوانی، دیرینہ مسئلہپاکستان میں بدعنوانی ایک دیرینہ قومی مسئلہ ہے۔ سرکاری اداروں، پالیسی سازی، سرکاری ٹھیکوں، لین دین اور ترجیحات کے تعین میں ناجائز مفادات پر مبنی تعلقات نے نہ صرف عوامی اعتماد کو زائل کیا ہے بلکہ ملکی معیشت اور عام آدمی کی زندگی کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ ترقیاتی فنڈز کی تقسیم، ٹیکس نظام کی خامیاں اور سرکاری اداروں کی کارکردگی میں شفافیت نہ ہونے کی وجہ سے کرپشن اکٹوپس کی طرح ہمارے سسٹم کے ہر شعبے کو لپیٹ میں لے چکی ہے۔ سرکاری وسائل کے غلط استعمال سے عوام بنیادی خدمات، جیسے صحت، تعلیم، اور انفراسٹرکچر سے محروم رہنے پر مجبور ہیں۔یہی وجہ ہے کہ انٹرنیشنل اینٹی کرپشن ڈے منانا اس وقت نہ صرف علامتی اہمیت رکھتا ہے بلکہ ایک ایسا دن ہے جب عوامی شعور اور اداروں کی کارکردگی دونوں دوبارہ غور کا موضوع بن سکتے ہیں۔حال ہی میں IMFنے پاکستان کے لیے ایک مفصل رپورٹ جاری کی جس کا عنوان Governance and Corruption Diagnostic Report ہے۔ اس رپورٹ میں پاکستان میں بدعنوانی اور گورننس کی کمزوریوں کی جڑوں کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔رپورٹ کی چند اہم نکات میں IMFنے واضح کیا ہے کہ پاکستان میں بدعنوانی مستقل اور کثیر سطحی ہے ، یعنی یہ صرف چھوٹے سرکاری اہلکاروں کی بدعنوانی نہیں بلکہ نظام کی خامیوں کا نتیجہ ہے، جس میں طاقتور اور مراعات یافتہ طبقات کا کردار بہت بڑا ہے۔پورٹ کے مطابق جنوری 2023 ء سے دسمبر2024 ء کے دوران بدعنوانی کے خلاف ریکوری کے نام پر تقریباً 53 ٹریلین روپے وصولی ہوئی، مگر IMF نے واضح کیا ہے کہ یہ صرف ایک پہلوہے اور اصل معاشی نقصان اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ٹیکس نظام، جو ملک کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ ہے ،پر رپورٹ میں شدید تنقید کی گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق ٹیکس نظام پیچیدہ ہے، ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب نچلے درجے پر ہے (تقریباً 10 فیصد) اور داخلی نگرانی اور احتساب کے انتظامات ناکافی ہیں۔ریاستی ملکیت یا ریاستی سرپرستی والے ادارے (جیسے سرکاری ادارے بھی بدعنوانی اور Elite captureکا شکار ہیں۔رپورٹ نے وفاقی اور مرکزی سرکاری معاملات، پبلک سیکٹر پروکیورمنٹ، ٹیکس اور ریونیو سسٹم، سرکاری ٹھیکوں، مالیاتی شفافیت اور عوامی وسائل کی نگرانی سمیت 15 نکاتی ایک اصلاحاتی ایجنڈا پیش کیا ہے۔اگر یہ اصلاحات بروقت اور مکمل طور پر عملی ہوں تو IMF کی پیش گوئی ہے کہ اگلے پانچ سالوں میں پاکستان کی جی ڈی پی میں 5 سے 6.5 فیصد تک اضافہ ممکن ہے۔مجموعی طور پر IMF کی رپورٹ صرف تنقید نہیں بلکہ اس کو ایک wake-up callقرار دیا گیا ہے ، یعنی اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو معاشی امداد اور قرضے وقتی ریلیف ثابت ہوں گے، لیکن بنیادیں ڈگمگا جائیں گی۔انٹرنیشنل اینٹی کرپشن ڈے اور پاکستان انسداد بد۰عنوانی کے عالمی دن کا مقصد صرف شعور بیدار کرنا نہیں بلکہ عملی تبدیلی کی راہ ہموار کرنا ہے۔ پاکستان کے تناظر میں اس دن پر عوامی سطح پر مکالمہ ضروری ہے ۔ کرپشن کے نقصانات، عوامی خدمات کی کمی اور احتساب کے نظام کی خامیوں پر عوام سے بات ہونی چاہیے۔ یوں لوگ صرف تنقید نہیں کریں گے، بلکہ مطالبہ کریں گے۔سرکاری اداروں، پبلک سیکٹر اداروں اور خصوصی ٹھیکے داروں کی سرگرمیوں کو عوامی نظر وں کے سامنے لانا اور ٹھیکوں، بجٹ مختص کرنے اور ریونیو جمع کرنے کے عمل کو شفاف بنایا جائے۔ IMF کی رپورٹ میںElite capture کوبنیادی خطرہ قرار دیا ہے اس لیے سیاستدانوں، بڑے کاروباری گروپس اور سرکاری کرپٹ نیٹ ورکس کی نگرانی لازمی ہے۔کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف سنجیدہ اقدامات سے عام آدمی کا حکومت پر اعتماد بحال کیا جا سکتا ہے، جس سے سرمایہ کاری، خدمتِ عامہ، اور معاشی ترقی کے مواقع بڑھیں گے۔انٹرنیشنل اینٹی کرپشن ڈے صرف ایک دن نہیں ، یہ تحریک کی شروعات ہے۔ پاکستان کی موجودہ معاشی اور سیاسی صورتحال کے پیش نظر اس دن کا استعمال محض علامتی سطح پر نہیں بلکہ ایک حقیقی محاسبہ اور اصلاحات کے عہد کے طور پر ہونا چاہیے۔ IMF کی حالیہ رپورٹ نے واضح کیا ہے کہ بدعنوانی صرف اخلاقی یا سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ معاشی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر ہم واقعی ترقی اور روزگار، سرمایہ کاری، عوامی خدمات اور مستقبل کی بنیادیں مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو اس رپورٹ اور انٹرنیشنل اینٹی کرپشن ڈے کے درس کو سنجیدہ لینا ہوگا۔

آج کا دن

آج کا دن

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا پہلا اجلاس9 دسمبر 1946 ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا پہلا باقاعدہ اجلاس منعقد ہوا جو دنیا میں ایک نئے عالمی نظام کی بنیاد کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس اجلاس میں 51 رکن ممالک نے شرکت کی جو عالمی جنگ کے فوراً بعد دنیا کے سیاسی نقشے کی تشکیلِ نو میں مصروف تھے۔ اجلاس میں عالمی امن کے تحفظ، ایٹمی ہتھیاروں کی روک تھام، پناہ گزینوں کے مسائل، عالمی معیشت کی بحالی اور نئے بننے والے اداروں کا فریم ورک طے کرنے کے اہم فیصلے کیے گئے۔ اسی اجلاس نے بعد ازاں انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے، سلامتی کونسل کی ساخت اور جنیوا کنونشن کی شکل میں کئی عالمی اصولوں کی بنیاد رکھنے میں کردار ادا کیا۔مدر آف آل ڈیموز 9دسمبر 1968 ء کو سان فرانسسکو میں امریکی انجینئر ڈگلس اینجل بارٹ نے ایک ایسی تاریخی ٹیکنالوجی ڈیمو پیش کی جسے ''مدر آف آل ڈیموز‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس ایک گھنٹے سے زائد طویل پریزنٹیشن میں اینجل بارٹ نے پہلی بار کمپیوٹر ماؤس، گرافیکل یوزر انٹرفیس (GUI)، ہائپر لنکس، ونڈوز، لائیو ویڈیو کانفرنسنگ، ای میل اور ریئل ٹائم کولیبریشن جیسے کئی جدید کمپیوٹر تصورات کا عملی مظاہرہ کیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جب انہوں نے یہ چیزیں دکھائیں اُس دور میں دنیا کے اکثر کمپیوٹر صرف پیچیدہ حسابات یا ڈیٹا ریکارڈنگ کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ عام صارف کے لیے کمپیوٹر کا تصور تقریباً موجود نہیں تھا۔ چیچک کے خاتمے کااعلان9 دسمبر 1979ء وہ تاریخی دن ہے جب عالمی ادارہ صحت کی جانب سے باضابطہ طور پر اعلان کیا گیا کہ چیچک جیسی مہلک بیماری دنیا سے ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکی ہے۔ چیچک کا مرض ہزاروں برس سے انسانیت کے لیے تباہ کن ثابت ہوا تھا۔ اس بیماری سے کروڑوں افراد ہلاک ہوئے، شہروں کے شہر اجڑ گئے اور کئی قومیں سماجی و معاشی بحرانوں کا شکار ہوئیں۔ 20ویں صدی میں ویکسین کی تیاری کے بعد اس کے خاتمے کی منظم کوششوں کا آغاز ہوا۔ عالمی ادارہ صحت نے 1967 ء میں عالمی سطح پر چیچک کے خلاف بڑے پیمانے کی مہم شروع کی جس میں 80 سے زیادہ ممالک نے حصہ لیا۔ پہلیِ انتفاضہ کا آغاز9 دسمبر 1987ء کو فلسطین میں پہلی انتفاضہ کا آغاز ہوا جو مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ کا ایک اہم موڑ تھا۔ اس تحریک کا آغاز غزہ میں پیش آنے والے ایک واقعے سے ہوا جب ایک اسرائیلی فوجی گاڑی سے چار فلسطینی شہید ہوگئے۔ فلسطینی نوجوانوں، مزدوروں، طلبہ اور عام شہریوں نے بڑی تعداد میں اسرائیلی قبضے کے خلاف مظاہرے شروع کیے جنہوں نے جلد ہی مغربی کنارے اور غزہ میں عوامی مزاحمت کی شکل اختیار کر لی۔ اس تحریک نے عالمی سطح پر مسئلہ فلسطین کو نمایاں کرنے میں بھی بنیادی کردار ادا کیا۔ اسی انتفاضہ نے بعد میں اسرائیل فلسطین مذاکرات، اوسلو معاہدوں اور عالمی رویوں میں تبدیلی کی بنیاد رکھی۔ لیخ ویونسا کا پولینڈ کے صدر کے طور پر انتخاب9 دسمبر 1990 ء کو پولینڈ میں کمیونسٹ دور کے خاتمے کے بعد پہلی مرتبہ براہِ راست صدارتی انتخابات منعقد ہوئے، جن میں مشہور مزدور رہنما اور سولڈیرٹی تحریک کے بانی لیخ ویونسا بھاری اکثریت سے ملک کے صدر منتخب ہوئے۔ ان کا انتخاب مشرقی یورپ میں سیاسی تبدیلیوں اور کمیونزم کے خاتمے کے سلسلے میں ایک بڑی پیش رفت تھا۔ سولڈیرٹی تحریک نے پولینڈ میں 1980 کی دہائی کے دوران آمریت، سنسرشپ، معاشی مسائل اور ریاستی جبر کے خلاف ایک پْرامن مگر مؤثر جدوجہد کی جس نے نہ صرف پولینڈ بلکہ پورے مشرقی یورپ کے سیاسی منظرنامے کو بدل کر رکھ دیا۔

ویٹ لفٹنگ ذہانت بھی بڑھائے: نئی تحقیق میں ماہرین کا حیران کن انکشاف

ویٹ لفٹنگ ذہانت بھی بڑھائے: نئی تحقیق میں ماہرین کا حیران کن انکشاف

جدید سائنسی تحقیق نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ جسمانی ورزش نہ صرف ہمارے جسم بلکہ دماغ پر بھی حیران کن اثرات مرتب کرتی ہے۔ امریکی ماہرین کی نئی تحقیق کے مطابق صرف ایک سیشن ویٹ لفٹنگ یا مزاحمتی ورزش صحت مند بالغ افراد کی دماغی کارکردگی میں قابلِ ذکر اضافہ کر دیتی ہے۔ محض چالیس سے زائد منٹ کی مشقیں نہ صرف ورکنگ میموری کو بہتر بناتی ہیں بلکہ فیصلہ سازی، توجہ اور دماغ کے برقیاتی نظام کی رفتار میں بھی فوری بہتری لاتی ہیں۔ ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں ذہنی صحت اور ادراک سے متعلق مسائل تیزی سے بڑھ رہے ہیں، یہ تحقیق اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ چھوٹی، باقاعدہ اور سادہ ورزشیں بھی ذہانت بڑھانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔امریکی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ صرف 40 منٹ سے کچھ زیادہ وزن اٹھانے کی ورزش (ویٹ ٹریننگ) صحت مند بالغ افراد کی طویل مدتی یادداشت میں اضافہ کر سکتی ہے۔ تحقیق میں ویٹ ایکسرسائز کو مزاحمتی ورزش (resistance training)کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، لیکن محققین کا کہنا ہے کہ اس قسم کی مزاحمتی سرگرمیاں (resistance activities) جیسے اسکواٹس (squats) یا گھٹنے موڑنے کی مشقیں بھی یہی نتائج پیدا کر سکتی ہیں۔ انڈیانا کی پراڈیو یونیورسٹی کے سائنس دانوں کے مطابق نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ مختصر مزاحمتی ورزش ایگزیکٹو فنکشنز پر مثبت اثر ڈالتی ہے، پروسیسنگ اسپیڈ اور ورکنگ میموری کو بہتر بناتی ہے اور دماغ کی برقی کارکردگی میں اضافہ کرتی ہے۔تحقیق میں، انہوں نے 18 سے 50 سال کی عمر کے 121 بالغ افراد کا مشاہدہ کیا اور انہیں دو گروپوں میں تقسیم کیا۔ تمام شرکاء کا کارڈیو ویسکیولر فٹنس ٹیسٹ لیا گیا اور ان سے طرزِ زندگی سے متعلق سوالات پوچھے گئے۔ دو دن بعد تمام شرکاء کے خون کے نمونے لیے گئے اور دماغ کی برقی سرگرمی ریکارڈ کرنے کیلئے الیکٹرو اینسیفلوگرافک (EEG) اسکین کیا گیا۔ پہلے گروپ نے درمیانی سطح کی مشکل والے ویٹ ایکسرسائز کے سیٹس کیے جبکہ دوسرے گروپ سے بالغ افراد کی مزاحمتی ورزش (resistance exercises)کرتے ہوئے ویڈیو دیکھنے کو کہا گیا۔مزاحمتی ورزشیں کل 42 منٹ تک جاری رہیں۔ ان کا آغاز دو منٹ کی وارم اپ سے ہوا، جس کے بعد ہر مشق کے دو سیٹ کروائے گئے، ہر سیٹ میں دس ریپیٹیشنز شامل تھے۔ ان مشقوں میں چیسٹ پریس، پل ڈاؤنز، بائی سیپ کرلز، لیگ پریس، کیبل ٹرائی سیپس ایکسٹینشنز اور لیگ ایکسٹینشنز شامل تھیں۔ ورزش مکمل ہونے کے بعد، رضا کاروں سے دوبارہ خون کے نمونے لیے گئے اور دوسرا EEG ٹیسٹ کیا گیا۔ سائنس دانوں نے دیکھا کہ جس گروپ نے مزاحمتی ورزشیں کی تھیں، اس کے ورکنگ میموری کے ردِ عمل کا وقت ویڈیو دیکھنے والے گروپ کے مقابلے میں قدرے بہتر ہو گیا تھا۔ محققین نے کہا کہ وہ یہ ثابت نہیں کر سکے کہ وزن اٹھانے کی ورزش نے کس طرح ورکنگ میموری کو بہتر بنایا تاہم انہوں نے یہ مفروضہ پیش کیا کہ ورزش کے بعد خون میں 'لیکٹیٹ‘ کی مقدار میں اضافہ جو عضلات کی تھکن کی علامت ہے اور بلڈ پریشر میں اضافہ ایگزیکٹو فنکشنز کی رفتار کو بہتر بنا سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں مجموعی طور پر دماغی کارکردگی میں بہتری آ سکتی ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ چونکہ ذہنی صلاحیت کے ٹیسٹ ورزش کے فوراً بعد کروائے گئے تھے، اس لیے یہ معلوم کرنا ممکن نہیں کہ ان اثرات کا دورانیہ کتنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ طبی نقطہ نظر سے، یہ نتائج اس بات کی حمایت کرتے ہیں کہ مزاحمتی ورزش کو ورزش کے ایسے پروگراموں کا حصہ بنایا جائے جو ایگزیکٹو فنکشنز میں فوری فائدہ پہنچا سکیں۔ پچھلی تحقیق بھی اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ درمیانی عمر میں ورزش کیلئے وقت بڑھانے سے ذہنی صلاحیتیں برقرار رہ سکتی ہیں اور بعد کی زندگی میں ڈیمنشیا کے آغاز میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ہسپانوی سائنس دانوں نے 300 سے زائد بالغ افراد کا جائزہ لیا اور معلوم کیا کہ جن لوگوں نے اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کرتے ہوئے ہفتے میں تقریباً ڈھائی گھنٹے ورزش جاری رکھی45 سے 65 سال کی عمر کے درمیان وہ دماغ میں 'امائلائڈ‘ نامی زہریلے پروٹین کے پھیلاؤ سے کم متاثر ہوئے۔ یہ پروٹین الزائمر کی علامات کے پیچھے اہم وجہ سمجھا جاتا ہے۔مزید یہ کہ وزن اٹھانے کی ورزش ہفتے میں صرف تین بار کرنا بھی ایک شخص کی ''حیاتیاتی عمر‘‘ (Biological Age) کو تقریباً آٹھ سال تک کم کرنے میں مددگار ثابت ہوا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) تجویز کرتی ہے کہ بالغ افراد ہفتے میں کم از کم 150 منٹ کی درمیانی شدت کی ورزش کریں یا 75 منٹ کی تیز شدت کی ورزش کریں۔ ہفتے میں کم از کم دو دن ایسی ورزشیں کی جائیں جو بڑے عضلاتی گروپس جیسے ٹانگیں، کمر اور پیٹ کو مضبوط بنائیں۔

ٹیراکوٹا آرمی : زمین کے نیچے دفن ایک تہذیبی کرشمہ

ٹیراکوٹا آرمی : زمین کے نیچے دفن ایک تہذیبی کرشمہ

چین کے شہرژیان (Xi'an)کے مضافات میں زمین کے تہہ در تہہ پردوں کے نیچے چھپی وہ دنیا موجود ہے جسے دیکھ کر انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ دو ہزار سال قدیم ''ٹیراکوٹا آرمی ‘‘مٹی کے سپاہیوں، رتھوں اور گھوڑوں کی وہ عظیم الشان فوج آج بھی چین کے پہلے شہنشاہ چِن شی ہوانگ (Qin Shi Huang)کی طاقت، انتظامی بصیرت اور اس دور کی فنی مہارت کا بے مثال ثبوت پیش کرتی ہے۔ 1974ء میں کسانوں کی ایک معمولی کھدائی سے دریافت ہونے والی یہ فوج نہ صرف چین کی تاریخ کا حیرت انگیز راز بنی بلکہ دنیا بھر کے ماہرین آثارِ قدیمہ کیلئے تحقیق کا ایک نہ ختم ہونے والا دروازہ کھول گئی۔ ہر مجسمہ اپنی انفرادیت اور باریک کاریگری کے ساتھ اس عظیم تہذیب کے اس دور کی جھلک دکھاتا ہے جب حکمران اپنی قبر تک کی حفاظت کیلئے فکر مند رہتے تھے۔1974 میں صوبہ شان شی(Shaanxi) کے ایک گاؤں کے کسان کنویں کی تلاش میں زمین کھود رہے تھے کہ اچانک ان کے اوزار سخت مٹی کے مجسمے سے ٹکرائے۔ یہ وہ لمحہ تھا جس نے دنیا کے سب سے بڑے آثارِ قدیمہ کے راز سے پردہ اٹھایا۔ چند ہی دنوں میں ماہرین نے معلوم کر لیا کہ یہ کوئی معمولی مجسمہ نہیں بلکہ مٹی سے تیار کیے گئے ایک مکمل لشکر کی موجودگی کا اشارہ ہے۔ وقت کے ساتھ کی جانے والی کھدائی میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ یہاں آٹھ ہزار سے زیادہ سپاہی، 130 رتھ اور 670 گھوڑے دفن تھے، جو نہایت ترتیب سے تین بڑے حصوں میں تقسیم تھے۔ٹیراکوٹا آرمی کی سب سے بڑی خصوصیت اس کی حقیقت پسندی ہے۔ ہر سپاہی کا چہرہ منفرد ہے۔ کسی کے چہرے پر عزم کی جھلک، کسی پر فکر کی لکیریں، کسی کے ہونٹوں پر سختی تو کسی کے تاثرات میں نرمی۔ ہاتھوں کے اشارے، زرہ بکتر، جوتے، بالوں کے انداز اور وردیاں سب کچھ اس دور کے عسکری نظام کی منظم تصویر کشی کرتے ہیں۔ گھوڑے اور رتھ نہایت باریک بینی سے تیار کیے گئے، جن میں اس زمانے کے فوجی ساز و سامان کی جھلک نمایاں ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ لشکر ابھی حرکت میں آ جائے۔یہ آثارِ قدیمہ اس قدر وسیع اور پیچیدہ ہیں کہ انہیں روایتی عجائب گھروں میں منتقل کرنا ممکن نہیں تھا چنانچہ اس جگہ کو انڈر گراؤنڈ میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا۔ سالانہ لاکھوں افراد شیان کا رخ کرتے ہیں تاکہ وہ چینی تاریخ کے اس عظیم معجزے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔1987ء میں یونیسکو نے ٹیراکوٹا آرمی کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا۔ آج بھی وہاں کھدائی اور تحقیق کا عمل جاری ہے اور ہر برس نئے حقائق سامنے آ رہے ہیں۔ جدید لیزر اسکیننگ، کیمیائی تجزیے اور تھری ڈی ماڈلنگ کے ذریعے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اس عظیم منصوبے پر کس قسم کے رنگ، مواد اور انجینئرنگ تکنیک استعمال کی گئی تھیں۔ٹیراکوٹا آرمی صرف مجسموں کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک پوری تہذیب کا عکس ہے۔ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ وقتی حکمرانوں کی طاقت مٹی میں مل جاتی ہے، مگر قومیں اپنے فنون اور تاریخ کے ذریعے ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔چِن شی ہوانگ :طاقت اور بقا کے وسوسوں میں جکڑا حکمرانچین کا پہلا شہنشاہ چن شی ہوانگ (221 قبل مسیح) اپنی زندگی میں ہی اپنے مزار اور موت کے بعد کی دنیا کے بارے میں غیر معمولی حد تک فکر مند تھا۔ اسے یقین تھا کہ مرنے کے بعد بھی اسے حفاظت درکار ہوگی، لہٰذا اُس نے حکم دیا کہ اس کی قبر کی حفاظت کیلئے ایک فوج تیار کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں مزدوروں، فن کاروں اور سپاہیوں نے کئی دہائیوں تک اس عظیم منصوبے پر کام کیا۔ ہر سپاہی کا چہرہ، قد، لباس اور انداز ایک دوسرے سے مختلف ہے، گویا یہ کوئی فرضی فوج نہیں بلکہ وقت کی حقیقی اور جیتی جاگتی تصویریں ہیں۔

صنفِ لاغر!

صنفِ لاغر!

سنتے چلے آئے ہیں کہ آم، گلاب اور سانپ کی طرح عورتوں کی بھی بے شمار قسمیں ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آم اور گلاب کی قسم صحیح اندازہ کاٹنے اور سونگھنے کے بعد ہوتا ہے اور اگر مارگزیدہ مرجائے تو سانپ کی قسم کا پتہ چلانابھی چنداں دشوار نہیں۔ لیکن آخر الذکر خالص مشک کی طرح، اپنی قسم کا خود اعلان کر دیتی ہیں۔بات قسموں کی ہورہی تھی اورہم کہنا یہ چاہتے تھے کہ آجکل عورتوں کو دوقسموں میں بانٹا جا سکتا ہے۔ ایک وہ جوموٹی ہیں، دوسرے وہ جو دبلی نہیں ہیں۔ آپ کہیں گے ''آخر ان دونوں میں فرق کیا ہوا؟ یہ تو وہی الف دو زبراً اور الف نون زبران والی بات ہوئی‘‘۔ مگر آپ یقین جانئے کہ دونوں قسموں میں دبلے ہونے کی خواہش کے علاوہ اور کوئی بات مشترک نہیں۔ ان کے حدود اربعہ، خط و خال اور نقوش جدا جدا ہیں اور اس میں کاتب تقدیر کی کسی املا کی غلطی کا قطعاً کوئی شائبہ نہیں۔ اصل فرق یہ ہے کہ اوّل الذکر طبقہ (جو صحیح معنوں میں ایک فرقہ کی حیثیت رکھتا ہے) کھانے کیلئے زندہ رہنا چاہتا ہے۔ دوسرا طبقہ زندہ رہنے کیلئے کھاتا ہے۔ پہلا طبقہ دوا کو بھی غذا سمجھ کر کھاتا ہے اور دوسراطبقہ غذا کو بقدر دوا استعمال کرتا ہے۔ ایک کھانے پر جان دیتا ہے اور دوسرا کھانے کو دوڑ تا ہے۔ فرق باریک ضرور ہے، لیکن اگر آپ نے کبھی فن برائے فن، زندگی برائے فن، فن برائے زندگی اور زندگی برائے بندگی وغیرہ بحث سنی ہے تو یہ فرق بخوبی سمجھ میں آ جائے گا۔ اس مضمون میں روئے سخن دوسرے طبقہ سے ہے جو دبلانہیں ہے مگر ہونا چاہتا ہے۔زمانہ قدیم میں ایران میں نسوانی حسن کا معیار چالیس صفات تھیں (اگرچہ ایک عورت میں ان کا یکجا ہونا ہمیشہ نقض امن کا باعث ہوا) اور یہ مشہور ہے کہ شیریں ان میں سے انتالیس صفات رکھتی تھی۔ چالیسویں صفت کے بارے میں مورخین متفقہ طور پر خاموش ہیں۔ لہٰذا گمان غالب ہے کہ اس کاتعلق چال چلن سے ہوگا۔ اس زمانے میں ایک عورت میں عموماً ایک ہی صفت پائی جاتی تھی۔ اس لئے بعض بادشاہوں کو بدرجہ مجبوری اپنے حرم میں عورتوں کی تعداد بڑھانی پڑی۔ ہر زمانے میں یہ صفات زنانہ لباس کی طرح سکڑتی، سمٹتی اورگھٹتی رہیں۔ بالآخر صفات تو غائب ہو گئیں، صرف ذات باقی رہ گئی۔ یہ بھی غنیمت ہے کیونکہ ذات و صفات کی بحث سے قطع نظر یہی کیا کم ہے کہ عورت صرف عورت ہے۔ ورنہ وہ بھی رد ہو جاتی تو ہم اس کا کیا بگاڑ لیتے۔آج کل کھاتے پیتے گھرانوں میں دبلے ہونے کی خواہش ہی ایک ایسی صفت ہے جو سب خوبصورت لڑکیوں میں مشترک ہے۔ اس خواہش کی محرک دور جدید کی ایک جمالیاتی دریافت ہے، جس نے تندرستی کوایک مرض قرار دے کر بدصورتی اور بدہیئتی سے تعبیر کیا۔ مردوں کی اتنی بڑی اکثریت کو اس رائے سے اتفاق ہے کہ اس کی صحت پر شبہ ہونے لگتا ہے جہاں یرقان حسن کے اجزائے ترکیبی میں شامل ہو جائے اور جسم بیمار و تن لاغر حسن کامعیار بن جائیں، وہاں لڑکیاں اپنے تندرست و توانا جسم سے شرمانے اور بدن چرا کر چلنے لگیں تو تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ یوںسمجھئے کہ حوا کی جیت کا راز آدم کی کمزوری میں نہیں بلکہ خود اس کی اپنی کمزوری میں مضمر ہے۔ اگر آپ کو یہ نچڑے ہوئے دھان پان بدن، ستے ہوئے چہرے اور سوکھی بانہیں پسند نہیں تو آپ یقیناً ڈاکٹر ہوں گے۔ ورنہ اہل نظر تو اب چہرے کی شادا بی کو ورم، فربہی کو جلندھر اور پنڈلی کے سڈول پن کو ''فیل پا‘‘ گردانتے ہیں۔وزن حسن کا دشمن ہے (یاد رکھیئے رائے کے علاوہ ہر وزنی چیز گھٹیا ہوتی ہے) اسی لئے ہر سمجھ دار عورت کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اپنی چربی کی دبیز تہوں کے خول کو سانپ کی کینچلی کی طرح اتار کراپنی عزیز سہیلیوں کو پہنا دے۔ عقد نا گہنانی کے بعد کہ جس سے کسی کو مفر نہیں، ہر لڑکی کا بیشتر وقت اپنے وزن اور شوہر سے جنگ کرنے میں گزرتا ہے۔ جہاں تک زن و شوہر کی جنگ کا تعلق ہے، ہم نہیں کہہ سکتے کہ شہید کون ہوتا ہے اور غازی کون لیکن زن اور وزن کی جنگ میں پلہ فریق اوّل ہی کا بھاری رہتا ہے، اس لئے جیت فریق ثانی کی ہوتی ہے۔ مٹاپے میں ایک خرابی یہ ہے کہ تمام عمر کو گلے کا ہار ہو جاتا ہے اور بعض خواتین گھر کے اندیشوں اور ہمسایوں کی خوش حالی سے بھی دبلی نہیں ہوتیں۔ ''تن‘‘ کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں،دراصل گرہستی زندگی کی آب و ہوا ہی ایسی معتدل ہے کہ مولسری کا پھول دو تین سال میں گوبھی کا پھول بن جائے تو عجب نہیں۔ مٹاپا عام ہویا نہ ہو، مگر دبلے ہونے کی خواہش جتنی عام ہے اتنی ہی شدید بھی۔ آئینے کی جگہ اب وزن کم کرنے کی مشین نے لے لی ہے۔ بعض نئی مشینیں تو ٹکٹ پر وزن کے ساتھ قسمت کا حال بھی بتاتی ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ کچھ عورتوں کی قسمت کے خانے میں صرف ان کا وزن لکھا ہوتا ہے۔ عورتوں کو وزن کم کرنے کی دوائوں سے اتنی ہی دلچسپی ہے جتنی ادھیڑ مردوں کو یونانی دواؤں کے اشتہاروں سے۔ اگر یہ دلچسپی ختم ہو جائے تو دواؤں کے کارخانوں کے ساتھ ساتھ بلکہ ان سے کچھ پہلے وہ اخبارات بھی بند ہو جائیں جن میں یہ اشتہارات نکلتے ہیں۔ اگر آپ کو آسکر وائلڈ کی رائے سے اتفاق ہے کہ آرٹ کا اصل مقصد قدرت کی خام کاریوں کی اصلاح اور فطرت سے فی سبیل اللہ جہاد ہے، تو لازمی طور پر یہ مانناپڑے گاکہ ہر بدصورت عورت آرٹسٹ ہے۔ اس لئے کہ ہوش سنبھالنے کے بعد اس کی ساری تگ و دو کا منشا سیاہ کو سفیدکر دکھانا، وزن گھٹانا اور ہر سالگرہ پر ایک موم بتی کم کرنا ہے۔