اداکارہ شمّی وہ پہلی ہیروئین تھیں جن کے نام پر فلم بنائی گئی

اسپیشل فیچر
50ء کی دہائی میں پاکستانی فلمی صنعت میں کئی ہیروئنوں نے اپنے نام کا سکہ جمایا۔ یہ بلیک اینڈ وائٹ فلموں کا دور تھا اور اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں فلمیں بن رہی تھیں۔ اس دور میں صبیحہ خانم، سُورن لتا، آشاپوسلے، بہار، شاہینہ، مسرت نذیر، میڈم نورجہاں اور نیلو کی مقبولت کا سورج چمک رہا تھا۔ لیکن ایک اور اداکارہ ایسی تھیں جنہوں نے اپنا ایک الگ مقام بنایا۔ ان کا نام تھا شمّی۔ 1949ء میں فلم ’’شاہدہ‘‘ میں انہوں نے چائلڈ سٹار کی حیثیت سے کام کیا اور پھر 1950ء میںوہ فلم ’’بے قرار‘‘ میں معاون اداکارہ کی حیثیت سے جلوہ گر ہوئیں۔ ان کا اصل نام شمشاد بیگم تھا۔ وہ 1937ء میں دہلی میں پیدا ہوئیں۔ وہ بڑی حسین و جمیل تھیں۔ 1950ء میں انہیں شہرت ملی جب ان کی پنجابی فلم ’’شمّی‘‘ ریلیز ہوئی۔ وہ واحد اداکارہ تھیں جن کے نام پر فلم بنائی گئی۔ ’’شمّی‘‘ کامیاب فلم ثابت ہوئی۔ اس میں شمّی کے ساتھ سنتوش کمار ہیرو تھے۔ اس کے نغمات نے بھی دھوم مچا دی۔ خاص طور پر عنایت حسین بھٹی کا گایا ہوا یہ گیت ’’سُوہے جوڑے والیے‘‘ نے مقبولیت کی تمام حدیں پار کر لیں۔ یہ پنجابی نغمہ بھارت میں بھی بڑا مشہور ہوا۔ ’’شمّی‘‘ کی فلمساز نامور گلوکارہ ملکہ پکھراج تھیں۔ ملکہ پکھراج کا لاہور میں اپنا سٹوڈیو تھا۔ ملکہ پکھراج معروف گلوکارہ طاہرہ سید کی والدہ تھیں۔ شمّی نے 13 فلموں میں کام کیا جن میں 12 اردو اور ایک پنجابی فلم شامل تھی۔ ان کی فلم ’’روحی‘‘ پر 1954ء میں پابندی لگا دی گئی۔ اس کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ اس میں طبقاتی نفرت کو ہوا دی گئی تھی۔ ان کی دیگر فلموں میں ’’غلام، الزام، محبوبہ، تڑپ، خزاں کے بعد، اور پون‘‘ کے نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ فلم ’’غلام‘‘ انور کمال پاشا نے بنائی تھی جن کا اس زمانے میں طوطی بولتا تھا اس فلم میں شمّی کے علاوہ صبیحہ ار سنتوش کمار بھی تھے۔ اس فلم میں شمّی کی اداکاری کو پسند کیا گیا۔ اس میں کوئی شک نیہں کہ وہ ایک عمدہ اداکارہ تھیں جو اپنے چہرے کے تاثرات سے شائقین کو بہت متاثر کرتی تھیں۔ پھر ان کے حسن و جمال نے بھی لوگوںکو دیوانہ بنا رکھا تھا۔ 1953ء میں ہی ان کی فلم ’’الزام‘‘ بھی بہت مشہور ہوئی۔ اس کی ہدایات رفیق انور نے دی تھیں۔ اس فلم کی کہانی نعیم ہاشمی نے لکھی تھی اور اس کے نغمات یزدانی جالندھری اور نعیم ہاشمی کے زورِ قلم کا نتیجہ تھے۔ 1953ء میں ان کی ایک اور قابلِ ذکر فلم ’’محبوبہ‘‘ ریلیز ہوئی جس میں ان کے ساتھ سنتوش کمار اور آشا پوسلے نے کام کیا تھا۔ پھر اسی سال ان کی فلم ’’تڑپ‘‘ ریلیز ہوئی جس میں ان کے ساتھ سدھیر اور علاؤالدین نے اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان کی فلموں ’’سوہنی، خزاں کے بعد، پون، ساحل اور بغاوت‘‘ نے اوسط درجے کا بزنس کیا۔ 1953ء میں فلم ’’تڑپ‘‘ کی شوٹنگ کے دوران شمّی نے اداکار سدھیر سے شاہ کر لی۔ اگرچہ سدھیر نے بعد میں اداکارہ زیبا سے بھی شادی کی لیکن شمّی سے ان کی شادی برقرار رہی۔ یہاں شمّی کی ایک اور فلم ’’پون‘‘ کا ذکر بھی ضروری ہے۔ اس فلم میں ان کی اداکاری کو بہت پسند کیا گیا۔ یہ فلم اسلم ایرانی کی بطور ہدایت کار پہلی فلم تھی اور اس میں ان کے ساتھ سدھیر، آشا پوسلے، نذر، ظریف، نگہت سلطانہ، غلام محمد اور مایا دیوی نے کام کیا تھا۔ اس کے فلمساز چوہدی عید محمد تھے۔ انور بٹالوی کی کہانی تھی اور عرش لکھنوی نے مکالمے تحریر کیے تھے۔ قتیل شفائی اور مشیر کاظمی کے دلکش گیتوں کی موسیقی نذیر جعفری نے مرتب کی۔ فلم کے گلوکاروں نے بھی کمال کیا اور بڑی لگن سے گیت گائے۔ ان گلوکاروں میں کوثر پروین، عنایت حسین بھٹی، سلیم رضا اور ظریف شامل تھے۔ عنایت حسین بھٹی نے ثابت کیا کہ وہ صرف پنجابی ہی نہیں بلکہ اردو زبان میں بھی گیت گا سکتے ہیں۔ ’’بغاوت‘‘ شمّی کی آخری فلم تھی جو ان کے شوہر سدھیر نے بنائی تھی۔ وہ اس سے پہلے ’’ساحل‘‘ بھی بنا چکے تھے۔ ’’شمّی‘‘ فلم کے ہدایت کار منشی دل نے ایک بار کہا تھا کہ شمّی نے صرف ایک پنجابی فلم میں کام کیا اور ان کی باقی تمام فلمیں اردو تھیں، اگر وہ پنجابی فلموں کی طرف توجہ دیتیں تو اردو فلموں سے زیادہ کامیابی حاصل کر سکتی تھیں اور انہیں مزید اچھے کردار مل سکتے تھے۔ شمّی کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کے مکالمے بولنے کا انداز بھی بہت اچھا تھا۔ ان کی فلمیں بھارتی فلموں کے مقابلے پر ریلیز ہوتی تھیں۔ اگرچہ بھارتی فلمیں تکنیکی طور پر زیادہ بہتر ہوتی تھیں لیکن پاکستانی اداکاروں اور دیگر عملے کی محنت نے کام کر دکھایا اور نوزائیدہ فلمی صنعت کو اپنے قدموں پر کھڑا کر دیا۔ شمّی نے دیگر پاکستانی اداکاراؤں کی طرح پاکستانی فلمی صنعت کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالا اور اس دور میں بھی ان کی فلمیں بھارتی فلموں کا مقابلہ کرتی تھیں۔ یہاں ہم اپنے قارئین کو بتاتے چلیں کہ شمّی کی بڑی بہن سلمیٰ ممتاز پاکستانی فلمی صنعت کی شاندار اداکارہ تھیں جنہوں نے کیریکٹر ایکٹریس کے طور پر اپنے آپ کو منوایا تھا۔ لوگ آج بھی ’’ہیر رانجھا‘‘ میں ہیر کی ماں کو نہیں بھولے۔ یہ کردار سلمیٰ ممتاز نے ادا کیا تھا۔ 2001ء میں شمّی کا لاہور میں انتقال ہو گیا۔ انہوں نے جتنا کام کیا اسے اس لحاظ سے یاد رکھا جائے گا کہ انہوں نے بھارتی فلموں کے مقابلے میں پاکستانی فلمی صنعت کو استحکام دینے میں اپنی تمام صلاحیتیں صر ف کر دیں۔