اداکارہ شمّی وہ پہلی ہیروئین تھیں جن کے نام پر فلم بنائی گئی

اداکارہ شمّی  وہ پہلی ہیروئین تھیں جن کے نام پر فلم بنائی گئی

اسپیشل فیچر

تحریر : عبدالحفیظ ظفر


50ء کی دہائی میں پاکستانی فلمی صنعت میں کئی ہیروئنوں نے اپنے نام کا سکہ جمایا۔ یہ بلیک اینڈ وائٹ فلموں کا دور تھا اور اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں فلمیں بن رہی تھیں۔ اس دور میں صبیحہ خانم، سُورن لتا، آشاپوسلے، بہار، شاہینہ، مسرت نذیر، میڈم نورجہاں اور نیلو کی مقبولت کا سورج چمک رہا تھا۔ لیکن ایک اور اداکارہ ایسی تھیں جنہوں نے اپنا ایک الگ مقام بنایا۔ ان کا نام تھا شمّی۔ 1949ء میں فلم ’’شاہدہ‘‘ میں انہوں نے چائلڈ سٹار کی حیثیت سے کام کیا اور پھر 1950ء میںوہ فلم ’’بے قرار‘‘ میں معاون اداکارہ کی حیثیت سے جلوہ گر ہوئیں۔ ان کا اصل نام شمشاد بیگم تھا۔ وہ 1937ء میں دہلی میں پیدا ہوئیں۔ وہ بڑی حسین و جمیل تھیں۔ 1950ء میں انہیں شہرت ملی جب ان کی پنجابی فلم ’’شمّی‘‘ ریلیز ہوئی۔ وہ واحد اداکارہ تھیں جن کے نام پر فلم بنائی گئی۔ ’’شمّی‘‘ کامیاب فلم ثابت ہوئی۔ اس میں شمّی کے ساتھ سنتوش کمار ہیرو تھے۔ اس کے نغمات نے بھی دھوم مچا دی۔ خاص طور پر عنایت حسین بھٹی کا گایا ہوا یہ گیت ’’سُوہے جوڑے والیے‘‘ نے مقبولیت کی تمام حدیں پار کر لیں۔ یہ پنجابی نغمہ بھارت میں بھی بڑا مشہور ہوا۔ ’’شمّی‘‘ کی فلمساز نامور گلوکارہ ملکہ پکھراج تھیں۔ ملکہ پکھراج کا لاہور میں اپنا سٹوڈیو تھا۔ ملکہ پکھراج معروف گلوکارہ طاہرہ سید کی والدہ تھیں۔ شمّی نے 13 فلموں میں کام کیا جن میں 12 اردو اور ایک پنجابی فلم شامل تھی۔ ان کی فلم ’’روحی‘‘ پر 1954ء میں پابندی لگا دی گئی۔ اس کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ اس میں طبقاتی نفرت کو ہوا دی گئی تھی۔ ان کی دیگر فلموں میں ’’غلام، الزام، محبوبہ، تڑپ، خزاں کے بعد، اور پون‘‘ کے نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ فلم ’’غلام‘‘ انور کمال پاشا نے بنائی تھی جن کا اس زمانے میں طوطی بولتا تھا اس فلم میں شمّی کے علاوہ صبیحہ ار سنتوش کمار بھی تھے۔ اس فلم میں شمّی کی اداکاری کو پسند کیا گیا۔ اس میں کوئی شک نیہں کہ وہ ایک عمدہ اداکارہ تھیں جو اپنے چہرے کے تاثرات سے شائقین کو بہت متاثر کرتی تھیں۔ پھر ان کے حسن و جمال نے بھی لوگوںکو دیوانہ بنا رکھا تھا۔ 1953ء میں ہی ان کی فلم ’’الزام‘‘ بھی بہت مشہور ہوئی۔ اس کی ہدایات رفیق انور نے دی تھیں۔ اس فلم کی کہانی نعیم ہاشمی نے لکھی تھی اور اس کے نغمات یزدانی جالندھری اور نعیم ہاشمی کے زورِ قلم کا نتیجہ تھے۔ 1953ء میں ان کی ایک اور قابلِ ذکر فلم ’’محبوبہ‘‘ ریلیز ہوئی جس میں ان کے ساتھ سنتوش کمار اور آشا پوسلے نے کام کیا تھا۔ پھر اسی سال ان کی فلم ’’تڑپ‘‘ ریلیز ہوئی جس میں ان کے ساتھ سدھیر اور علاؤالدین نے اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان کی فلموں ’’سوہنی، خزاں کے بعد، پون، ساحل اور بغاوت‘‘ نے اوسط درجے کا بزنس کیا۔ 1953ء میں فلم ’’تڑپ‘‘ کی شوٹنگ کے دوران شمّی نے اداکار سدھیر سے شاہ کر لی۔ اگرچہ سدھیر نے بعد میں اداکارہ زیبا سے بھی شادی کی لیکن شمّی سے ان کی شادی برقرار رہی۔ یہاں شمّی کی ایک اور فلم ’’پون‘‘ کا ذکر بھی ضروری ہے۔ اس فلم میں ان کی اداکاری کو بہت پسند کیا گیا۔ یہ فلم اسلم ایرانی کی بطور ہدایت کار پہلی فلم تھی اور اس میں ان کے ساتھ سدھیر، آشا پوسلے، نذر، ظریف، نگہت سلطانہ، غلام محمد اور مایا دیوی نے کام کیا تھا۔ اس کے فلمساز چوہدی عید محمد تھے۔ انور بٹالوی کی کہانی تھی اور عرش لکھنوی نے مکالمے تحریر کیے تھے۔ قتیل شفائی اور مشیر کاظمی کے دلکش گیتوں کی موسیقی نذیر جعفری نے مرتب کی۔ فلم کے گلوکاروں نے بھی کمال کیا اور بڑی لگن سے گیت گائے۔ ان گلوکاروں میں کوثر پروین، عنایت حسین بھٹی، سلیم رضا اور ظریف شامل تھے۔ عنایت حسین بھٹی نے ثابت کیا کہ وہ صرف پنجابی ہی نہیں بلکہ اردو زبان میں بھی گیت گا سکتے ہیں۔ ’’بغاوت‘‘ شمّی کی آخری فلم تھی جو ان کے شوہر سدھیر نے بنائی تھی۔ وہ اس سے پہلے ’’ساحل‘‘ بھی بنا چکے تھے۔ ’’شمّی‘‘ فلم کے ہدایت کار منشی دل نے ایک بار کہا تھا کہ شمّی نے صرف ایک پنجابی فلم میں کام کیا اور ان کی باقی تمام فلمیں اردو تھیں، اگر وہ پنجابی فلموں کی طرف توجہ دیتیں تو اردو فلموں سے زیادہ کامیابی حاصل کر سکتی تھیں اور انہیں مزید اچھے کردار مل سکتے تھے۔ شمّی کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کے مکالمے بولنے کا انداز بھی بہت اچھا تھا۔ ان کی فلمیں بھارتی فلموں کے مقابلے پر ریلیز ہوتی تھیں۔ اگرچہ بھارتی فلمیں تکنیکی طور پر زیادہ بہتر ہوتی تھیں لیکن پاکستانی اداکاروں اور دیگر عملے کی محنت نے کام کر دکھایا اور نوزائیدہ فلمی صنعت کو اپنے قدموں پر کھڑا کر دیا۔ شمّی نے دیگر پاکستانی اداکاراؤں کی طرح پاکستانی فلمی صنعت کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالا اور اس دور میں بھی ان کی فلمیں بھارتی فلموں کا مقابلہ کرتی تھیں۔ یہاں ہم اپنے قارئین کو بتاتے چلیں کہ شمّی کی بڑی بہن سلمیٰ ممتاز پاکستانی فلمی صنعت کی شاندار اداکارہ تھیں جنہوں نے کیریکٹر ایکٹریس کے طور پر اپنے آپ کو منوایا تھا۔ لوگ آج بھی ’’ہیر رانجھا‘‘ میں ہیر کی ماں کو نہیں بھولے۔ یہ کردار سلمیٰ ممتاز نے ادا کیا تھا۔ 2001ء میں شمّی کا لاہور میں انتقال ہو گیا۔ انہوں نے جتنا کام کیا اسے اس لحاظ سے یاد رکھا جائے گا کہ انہوں نے بھارتی فلموں کے مقابلے میں پاکستانی فلمی صنعت کو استحکام دینے میں اپنی تمام صلاحیتیں صر ف کر دیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
روبوٹک لیمپ:ٹیکنالوجی کا نیا شاہکار

روبوٹک لیمپ:ٹیکنالوجی کا نیا شاہکار

دنیا کی تیزی سے بدلتی ہوئی ٹیکنالوجی میں اب ایک اور حیران کن ایجاد شامل ہو گئی ہے۔ پکسر کے مشہور اچھلتے لیمپ سے متاثر ہو کر تیار کیا گیا ایک دلچسپ روبوٹک ڈیسک لیمپ حقیقت کا روپ دھار چکا ہے، جو نہ صرف حرکت کرتا ہے بلکہ دیکھنے، سننے اور بات کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ کیلیفورنیا کی کمپنی ''Interaction Labs‘‘ کی جانب سے تیار کردہ ''اونگو‘‘(Ongo) نامی یہ سمارٹ لیمپ گھروں اور دفاتر کیلئے ایک نئے طرز کی ڈیجیٹل رفاقت پیش کرتا ہے۔ پرومو ویڈیو میں یہ روبوٹ اشیاء اور انسانوں کو تجسس بھری نظروں سے دیکھتا، مدد فراہم کرتا اور ماحول سے تعامل کرتا نظر آتا ہے، جبکہ اس کی رازداری کے تحفظ کیلئے سن گلاسز تک مہیا کیے گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے شوقین افراد اس جدت کو روبوٹکس کے مستقبل کی ایک دلکش جھلک قرار دے رہے ہیں۔کمپنی کے شریک بانی اور سی ای او کریم رخا چاہم (Karim Rkha Chaham) نے بتایا کہ یہ ''جذبات کا اظہارِ کرنے والا‘‘ روبوٹ صارفین کو یاد بھی رکھ سکتا ہے اور ان کی ضروریات کا اندازہ بھی لگا لیتا ہے۔ اسے یوں سمجھیں جیسے کسی بلی کو ایک ڈیسک لیمپ کے جسم میں قید کر دیا گیا ہو‘‘۔سماجی پلیٹ فارم ''ایکس‘‘ پر تبصرہ کرنے والوں نے اس ڈیزائن کو ناقابلِ یقین، شاندار، بہت زبردست اور حیرت انگیز ٹیکنالوجی کا نمونہ قرار دیا ہے۔ ایک صارف نے کہا کہ ''یہ یقینی طور پر وہ چیز ہے جو میں گھر میں رکھ سکتا ہوں، کسی خوفناک انسانی نما روبوٹ کے مقابلے میں‘‘۔ جبکہ ایک اور نے لکھا کہ ''یہ شاید مارکیٹ کا سب سے پیارا روبوٹ ہو سکتا ہے‘‘۔''اونگو‘‘ کی حرکات ایلیک سوکولو نے ڈیزائن کی ہیں، جو پکسر کی فلم ''ٹوائے سٹوری‘‘، ''گارفیلڈ: دی مووی‘‘ اور ''ایون المائٹی‘‘ کے آسکر کیلئے نامزد سکرین رائٹر ہیں۔ پرومو ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ ''اونگو‘‘ اپنے بیس پر گھومتا ہے اور اپنی محور کو خودبخود ایڈجسٹ کرتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے Pixar کا مشہور کردار کرتا تھا۔صارف کی ضرورت کے مطابق ''اونگو‘‘ اپنی آنکھوں سے نکلنے والی روشنی کی شدت کو کم یا زیادہ کرسکتا ہے اور انہیں قریب بھی لا سکتا ہے، مثلاً رات کے وقت کتاب پڑھنے کیلئے۔یہ خوشگوار انداز میں سلام کرتا ہے، مفید مشورے دیتا ہے اور ہدایات بھی دیتا ہے جیسے: ''ارے! اپنی چابیاں بھولنا مت‘‘۔ایک اور دلکش منظر میں دکھایا گیا ہے کہ جب گھر میں پارٹی ہو رہی ہوتی ہے تو ''اونگو‘‘ پاس والے کمرے میں چلنے والی موسیقی کی دھن پر جھومتا ہے۔کمپنی کے مطابق، یہ ڈیسک لیمپ آپ کے ڈیسک اور آپ کے دن کو روشن کرتا ہے اور آپ کے گھر میں ''جادو جیسی مانوس موجودگی‘‘ لے کر آتا ہے۔کمپنی اپنی ویب سائٹ پر کہتی ہے: ''یہ آپ کی جگہ کو حرکت، شخصیت اور جذباتی ذہانت کے ساتھ زندہ بناتا ہے۔یہ اُن باتوں کو یاد رکھتا ہے جو آپ کیلئے اہم ہیں، آپ کے احساسات کو محسوس کرتا ہے اور دن بھر چھوٹی چھوٹی، خیال رکھنے والی حرکات کے ذریعے آپ کا ساتھ دیتا ہے۔ اونگو آپ کے دن کی رفتار کو محسوس کرتا ہے اور ماحول میں آنے والی لطیف تبدیلیوں کو خاموشی سے سمجھتے ہوئے ان کا جواب دیتا ہے۔ سمارٹ مصنوعات کی طرح جن میں کیمرے شامل ہوتے ہیں، اونگو بھی اپنے اردگرد کے ماحول کا ادراک رکھتا ہے، لیکن وہ ویژول ڈیٹا کو اپنی ڈیوائس ہی پر پروسیس کرتا ہے اور کسی بھی قسم کی ویڈیو کلپس کلاؤڈ پر نہیں بھیجتا، تاکہ کمپنی کا کوئی فرد انہیں نہ دیکھ سکے۔ جب صارفین مکمل پرائیویسی چاہتے ہوں اور نہیں چاہتے کہ اونگو ان پر نظر رکھے، تو وہ اس کی آنکھوں پر غیر شفاف چشمے لگا سکتے ہیں، جو مقناطیس کی مدد سے فوری طور پر چپک جاتے ہیں۔ایکس (X) پر کئی صارفین نے کہا کہ انہیں اونگو کی آواز ''پریشان کن‘‘ اور ''چبھن بھری‘‘ لگتی ہے، لیکن چہام (Chaham) کا کہنا ہے کہ اس کی آواز کے ساتھ ساتھ اس کی شخصیت بھی حسبِ ضرورت کسٹمائز کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ پرومو ویڈیو کمپیوٹر جنریٹڈ ہے، لیکن یہ صارفین کو ایک واضح اندازہ دیتی ہے کہ وہ کیا توقع رکھ سکتے ہیں، کیونکہ فی الحال پروٹوٹائپ پر کام جاری ہے، یعنی یہ ابھی مکمل طور پر تیار نہیں۔اونگو کو کمپنی کی ویب سائٹ پر پری آرڈر کیا جا سکتا ہے، جس کیلئے 49 ڈالر یا 38.38 پاؤنڈ کی مکمل طور پر قابلِ واپسی ''پرائیویٹی ایکسس ڈپازٹ‘‘ درکار ہے۔ یہ ڈپازٹ صارف کیلئے پہلے بیچ سے ایک یونٹ محفوظ کر دیتا ہے اور یہ رقم پروڈکٹ کی آخری قیمت میں سے منہا ہوجائے گی،جس کے بارے میں چہام نے بتایا کہ یہ تقریباً 300 ڈالر (225 پاؤنڈ) ہوگی۔ جو صارفین ابھی ادائیگی کریں گے انہیں اونگو کی ترسیل اگلے سال موسمِ گرما میں شروع ہونے پر پہلے فراہم کی جائے گی۔اونگو بلاشبہ پکسر کے اصل لیمپ ''لکسو جونیئر‘‘ (Luxo.Jr) کی طرف ایک واضح اشارہ ہے، جو 1995ء میں ''ٹوائے سٹوری‘‘ سے لے کر اب تک ہر پکسر فلم کے پروڈکشن لوگو میں دکھائی دیتا ہے۔

پلاسٹک کی بوتلوں سے محل تعمیر

پلاسٹک کی بوتلوں سے محل تعمیر

کینیڈین فنکارکا کارنامہ گنیز گیئربک میں شامل کر لیا گیاپلاسٹک آلودگی کے بڑھتے ہوئے بحران کے اس دور میں، دنیا بھر میں جب ماحولیاتی ماہرین سر پکڑے بیٹھے ہیں، ایک شخص نے تخلیقی سوچ اور عزم کے ساتھ وہ کام کر دکھایا جس کا تصور بھی مشکل ہے۔ ''پلاسٹک کنگ‘‘ کے نام سے مشہور اس باہمت فرد نے 40 ہزار استعمال شدہ پلاسٹک کی بوتلوں کو ضائع ہونے نہیں دیا، بلکہ انہیں جوڑ کر ایک شاندار چار منزلہ محل تعمیر کر ڈالا۔ یہ منفرد منصوبہ نہ صرف ماحول دوستی کی ایک روشن مثال ہے بلکہ یہ ثابت کرتا ہے کہ تخلیق اور جدت انسان کو ناممکن کو بھی ممکن بنانے کی طاقت عطا کرتی ہیں۔ دنیا بھر میں ماحولیاتی تحفظ کی کوششوں کے تناظر میں یہ کارنامہ اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ اگر ارادہ مضبوط ہو تو ایک پھینکی ہوئی پلاسٹک کی بوتل بھی تعمیر وطن اور خدمت انسانیت کا ذریعہ بن سکتی ہے۔یہ چند سال پہلے کی بات ہے کہ دنیا کو بے کار کچرے سے پاک کرنے کے خواہش مند ایک کینیڈین شخص نے پاناما کے لوگوں میں حیرت انگیز جوش پیدا کر دیا۔ اس نے ساحلوں اور شاہراہوں پر بکھری ہزاروں پلاسٹک کی بوتلیں اکٹھی کروائیں اور اسی ''کچرے‘‘ کو استعمال کر کے ایک ایسا شاندار محل تعمیر کر ڈالا جو کیریبین سورج کی روشنی میں جگمگاتا ہے۔ یہ کوئی کہانی نہیں ہے بلکہ مونٹریال سے تعلق رکھنے والے رابرٹ بیزو کی حقیقی زندگی کا وہ کارنامہ ہے جس نے انہیں درست طور پر ''پلاسٹک کنگ‘‘ کا لقب دلایا۔ 2012ء میں رابرٹ پاناما کے علاقے بوکاس ڈیل ٹورو کے ایسلا کولون میں رہائش پذیر تھے اور اپنا وقت بوکاس ری سائیکلنگ پروگرام کے ساتھ گزار رہے تھے، جو ملک کے ساحلوں اور بستیوں سے کچرا صاف کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ مگر کینیڈین شہری اس بات پر سخت حیران ہوا کہ صرف ڈیڑھ سال کے دوران انہوں نے دس لاکھ سے زائد پلاسٹک کی بوتلیں جمع کیں جو ری سائیکل ہونے والے کچرے کے بڑے بڑے ڈھیر کی صورت جمع ہو رہی تھیں۔ اس آلودگی کو کم کرنے کیلئے رابرٹ کے ذہن میں ایک بہت ہی غیر معمولی خیال آیا۔ کیا ہو اگر ان بوتلوں کو ری سائیکل کرنے کے بجائے براہ راست استعمال کر کے کوئی بڑا ڈھانچہ بنایا جائے، ایسا جو رہائش بھی فراہم کرے اور انسانی فضلے اور ماحول دوست حل کی ایک علامت بھی بن جائے۔اسی خیال کے بیج سے دنیا کا سب سے بڑا پلاسٹک بوتلوں سے بنا قلعہ وجود میں آیا۔ چار منزلہ، 46 فٹ (14 میٹر) بلند کاسٹیلو اِن اسپیریسیون، جو تقریباً 40 ہزار بوتلوں سے تیار کیا گیا۔رابرٹ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ شروع میں جزیرے کے رہائشیوں اور حکام کو لگا کہ میں پاگل ہوں حتیٰ کہ میری بیوی اور میرا بیٹا بھی یہی سمجھتے تھے۔ پھر انہیں تجسس ہوا اور انہوں نے مجھے یہ دیکھنے کیلئے کام جاری رکھنے دیا کہ آخر میں کیا کرنے والا ہوں۔ جیسے جیسے عمارت بڑھتی گئی، ان کی دلچسپی بھی بڑھتی گئی۔ کچھ ہی عرصے میں عمارت نے واضح شکل اختیار کرنا شروع کر دی۔ کنکریٹ اور اسٹیل کے مضبوط ڈھانچے کے گرد بنائی گئی اس تعمیر میں رابرٹ اور ان کی ٹیم نے پلاسٹک کی بوتلوں کو ''ماحول دوست تعمیراتی مواد‘‘ یا انسولیشن کے طور پر استعمال کیا۔ بوتلوں کی ساخت نے قلعے کو موسمی اثرات سے محفوظ رکھا اور اسے ایک منفرد حسن بخشا جس کی جھلک کسی پلاسٹک گلاس جیسی دکھائی دیتی ہے۔انہوں نے کہا کہ چیلنج یہ تھا کہ ہمارے پاس کوئی منصوبہ نہیں تھا، ہم روزانہ کی بنیاد پر کام میں جدت لاتے تھے۔ یہ ایک دن، ایک منزل کر کے اوپر اٹھتا گیا، یہاں تک کہ ہم چار منزلوں تک پہنچ گئے! مجموعی طور پر قلعے میں چار مہمان کمرے، ضیافت کیلئے ایک بڑا ہال اور چھت پر ایک دیدہ زیب مشاہدہ گاہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ وہاں آنے والے زائرین کیلئے متعدد تعلیمی مواد بھی رکھا گیا ہے، تاکہ لوگ پلاسٹک کے کچرے کے اثرات اور رابرٹ کی اس منفرد تخلیق کے بارے میں آگاہی حاصل کر سکیں۔اس تمام عمل کے دوران، رابرٹ ری سائیکلنگ کے بجائے اپ سائیکلنگ کی اہمیت کو اجاگر کرتے رہے۔ اپ سائیکلنگ سے مراد یہ ہے کہ پلاسٹک کی بوتلوں کو ان کی کیمیائی ساخت بدلے بغیر کسی نئے مقصد کیلئے دوبارہ استعمال کیا جائے۔ جبکہ روایتی ری سائیکلنگ کے نتیجے میں عموماً پلاسٹک کے ذرات ماحول کے نظام میں داخل ہو جاتے ہیں، اپ سائیکلنگ کو کچرے کے زیادہ ماحول دوست استعمال کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ رابرٹ نے ایک بار کہا تھا: ''ایک شخص کا کچرا، دوسرے انسان کا محل بن سکتا ہے۔ ڈائنوسار ایک شہابِ ثاقب سے ختم ہوئے تھے، اور انسانیت پلاسٹک سے ختم ہوگی‘‘۔ چند سال بعد جب رابرٹ نے یہ محل تعمیر کیا، انہیں '' انرجی گلوب ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا، جو ان کے پائیدار منصوبوں کے اعتراف کے طور پر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایوارڈ انہیں ''ناقابل یقین احساس‘‘ دلانے والا تھا۔مگر اس اعزاز کے باوجود، وہ یہاں رکنے والے نہیں تھے۔ 2021ء میں، انہوں نے اپنے منصوبے کو وسعت دیتے ہوئے پورا پلاسٹک بوتلوں کا گاؤں تعمیر کیا، جس میں کئی دیگر عمارتیں بھی شامل ہیں۔ ان گھروں میں بوتلیں انسولیشن کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں اور ان کے باہر کنکریٹ کی تہہ دی گئی ہے۔

پومپیئی:ایک قدیم شہر جو لمحوں میں تاریخ بن گیا

پومپیئی:ایک قدیم شہر جو لمحوں میں تاریخ بن گیا

دنیا کی قدیم تہذیبوں میں اگر کوئی شہر عبرت، حیرت اور تاریخ کے سنگم کے طور پر یاد کیا جاتا ہے تو وہ پومپیئی ہے۔ اٹلی کے جنوب میں واقع یہ رومن شہر 79ء میں آتش فشاں ماؤنٹ ویسوویس کے اچانک پھٹنے سے لمحوں میں مٹ گیا۔ مگر اس شہر کی حیران کن بات یہ ہے کہ یہ مٹی نہیں بلکہ راکھ میں محفوظ ہوگیا۔ ایسے جیسے وقت رک گیا ہو اور زندگی ایک ٹھہرے ہوئے منظر کی صورت ہمیشہ کیلئے نقش ہو گئی ہو۔تاریخی پس منظرپومپیئی بحیرہ روم کے کنارے واقع ایک خوشحال رومن شہر تھا جس کی بنیاد غالباً چھٹی یا ساتویں صدی قبل مسیح میں رکھی گئی۔ یہ شہر ایک اہم تجارتی مرکز تھا جہاں رومی طرزِ زندگی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری تھی۔ پتھروں کی پختہ گلیاں، شاندار گھروں کے صحن، حمام، تھیٹر، بازار اور شراب خانے سب پومپیئی کی بھرپور تہذیب اور سماجی زندگی کی عکاسی کرتے تھے۔24 اگست 79ء کی صبح اچانک ماؤنٹ ویسوویس نے زبردست دھماکے کے ساتھ آگ اگلی۔ آسمان سیاہ ہو گیا، زہریلی گیسوں اور راکھ نے فضا بھر دی۔ چند ہی گھنٹوں میں گرم لاوے کا سیلاب، راکھ اور پتھروں کی بارش اور زہریلی گیسوں کے بادل نے پورے شہر کو ڈھانپ لیا۔ پومپیئی کے تقریباً 20 ہزار باشندوں میں سے بہت سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے، مگر ہزاروں لوگ وہیں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ شہر 6 سے 7 میٹر موٹی آتش فشانی راکھ کے نیچے دفن ہوگیا۔پومپیئی 17 صدیوں تک زمین کے نیچے چھپا رہا۔ 1748ء میں جب کھدائی شروع ہوئی تو آثارِ قدیمہ کے ماہرین ششدر رہ گئے کیونکہ شہر کے گھر، فرنیچر، برتن، دیواروں پر بنے رنگین نقش و نگار، فریسکوز، حتیٰ کہ انسانوں اور جانوروں کے آخری لمحات تک حیرت انگیز طور پر محفوظ تھے۔راکھ میں دبے جسم وقت کے ساتھ گل گئے، مگر ان کے خالی خول برقرار رہے۔ ماہرین نے ان میں پلاسٹر بھر کر انسانوں کے آخری لمحات کو شکل دے دی۔کوئی بھاگ رہا تھا،کوئی اپنے بچے کو تھامے ہوئے تھا اور کوئی گھٹنوں کے بل جھکا امداد کا منتظر تھا۔ یہ مناظر آج بھی دیکھنے والوں کے دل دہلا دیتے ہیں۔پومپیئی کی گلیاں، پتھریلے فٹ پاتھ، دوکانوں کے کاؤنٹر، شہریوں کے گھر اور شاہی ولا آج بھی اسی طرح موجود ہیں جیسے 79ء کی صبح تھے۔رنگین دیواری تصویریں رومی آرٹ کی بہترین مثال ہیں جن میں اساطیری مناظر، رقص، کھانے پینے کی محفلیں اور روزمرہ زندگی کی جھلکیاں شامل ہیں۔رومی تہذیب کا آئینہپومپیئی آج روم کی قدیم تہذیب کا سب سے بڑا کھلا میوزیم ہے۔ یہاں سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ لوگ کیسے رہتے تھے، کیا کھاتے تھے، تفریح کیسے کرتے تھے، تجارت کیسے ہوتی تھی اور مذہبی رسومات کیا تھیں۔ گھروں میں ملنے والے فرنیچر کے نشانات، بیکریوں کے تنور، حمام کے کمرے، اسٹیڈیم، تھیٹر اور مندر سب کچھ اس قدیم شہر کے سماجی ڈھانچے کو زندہ کر دیتے ہیں۔آج کا پومپیئیآج پومپیئی دنیا کے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے آثارِ قدیمہ مقامات میں شمار ہوتا ہے۔ یہ مقام نہ صرف سیاحوں کیلئے پرکشش ہے بلکہ ماہرین آثارِ قدیمہ کیلئے بھی ایک زریں خزانہ ہے جہاں نئی دریافتیں آج بھی جاری ہیں۔ جدید تحقیق آتش فشانی تباہی، قدیم فنون اور رومی طرزِ زندگی کے بارے میں نئی روشنی ڈال رہی ہے۔اطالوی حکومت اور یونیسکو مل کر اس تاریخی مقام کے تحفظ کیلئے بڑے پیمانے پر کام کر رہے ہیں تاکہ یہ ورثہ آئندہ نسلوں تک محفوظ رہے۔پومپیئی صرف ایک تباہ شدہ شہر نہیں، بلکہ وقت کے رُک جانے کی داستان ہے۔ یہ ہمیں انسان کی طاقت، کمزوری، فخر، خوشیوں، غموں اور قدرت کی بے رحم قوتوں کے بارے میں سبق دیتا ہے۔ یہاں کے کھنڈرات بتاتے ہیں کہ تہذیبیں کیسے بستی ہیں اور لمحوں میں کیسے مٹ سکتی ہیں لیکن ان کے نقوش صدیوں بعد بھی انسان کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔

داخلے جاری ہیں!

داخلے جاری ہیں!

پہلے بریلی کو بانس بھیجا کرتے تھے۔ یہ کاروبار کسی وجہ سے نہ چلا تو کوئلوں کی دلالی کرنے لگے۔ چونکہ صورت ان کی محاورے کے عین مصداق تھی، ہمارا خیال تھا اس کاروبار میں سرخ روہوں گے۔ لیکن آخری بار ملے تو معلوم ہوا نرسری کھول رکھی ہے۔ پودے اور کھاد بیچتے ہیں۔ پھولوں کے علاوہ سبزیوں کے بیج بھی ان کے ہاں سے بارعایت مل سکتے ہیں۔ آتے ہی کہنے لگے، ''دس روپے ہوں گے؟‘‘ہم نے نہ دینے کے بہانے سوچتے ہوئے استفسار کیا، ''کیا ضرورت آن پڑی ہے؟‘‘ فرمایا، ''اپن ادبی ذوق کے آدمی ہیں، اپن سے اب گھاس نہیں کھودی جاتی۔ کھاد اور پود نہیں بیچی جاتی۔ اب ہم ایسا کام کرنا چاہتے ہیں جس سے قوم کی خدمت بھی ہو‘‘۔ ہم نے کہا، ''دس روپے میں اسکول کھولیے گا؟‘‘ بہت ہنسے اور بولے، ''اچھی رہی۔ بھلا دس روپے میں بھی اسکول کھولا جا سکتا ہے۔ دس روپے میرے اپنے پاس بھی تو ہیں۔ دیکھیے سیدھا سیدھا حساب ہے۔ ایک دس روپے کا تو بورڈ لکھوایا جائے گا۔ بورڈ کیا کپڑے پہ نام لکھوانا ہی کافی ہوگا اور دوسرے دس روپے سے جو آپ مجھے دیں گے، میں شہر کی دیواروں، پلیوں، بس اسٹینڈوں وغیرہ کے چہرے پر کالک پھیروں گا۔ یعنی اپنا اشتہار لکھواؤں گا کہ اے عقل کے اندھو۔ گانٹھ کے پورو آؤ کہ داخلے جاری ہیں‘‘۔ہم نے کہا، ''یہ جو تم لوگوں کیلئے پتے گھروں کی دیواروں کو کالی کوچی پھیر کر خراب کروگے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے تمہیں۔ کارپوریشن نہیں روکتی، پولیس نہیں ٹوکتی؟‘‘ بولے، ''پہلے یہ لوگ ملاوٹ کو تو روک لیں۔ عطائیوں اور گداگروں کو تو ٹوک لیں۔ شہر سے گندگی کے ڈھیر تو اٹھوا لیں۔ کتے تو پکڑوا لیں اور مچھروں مکھیوں کے منہ تو آلیں‘‘۔ ہم نے کہا، ''آپ بھی سچے ہیں۔ ان لوگوں کی مصروفیت کا ہمیں خیال ہی نہ رہا تھا۔ اچھا اگر یونین کمیٹیوں کو خیال آگیا کہ ان کا محلہ اجلا ہونا چاہیے۔‘‘ ٹھٹھا مار کر بولے، ''یونین کمیٹیاں؟ یہ کون لوگ ہوتے ہیں، کیا کام کرتے ہیں؟‘‘ہم نے کھسیانے ہوکر پوچھا، ''آپ کے پاس اسکول کیلئے عمارت بھی ہے۔ خاصی جگہ درکار ہوتی ہے۔ آپ کاگھر تو جہاں تک ہمیں معلوم ہے 133 گز پر ہے‘‘۔ فرمایا، ''وہ ساتھ والا پلاٹ خالی ہے نا؟ جس میں ایک زمانے میں بھینسیں بندھا کرتی تھیں۔ بچوں سے تین تین ماہ کی پیشگی فیس لے کر اس پر ٹین کی چادریں ڈلوالیں گے۔ فی الحال تو اس کی بھی ضروت نہیں۔ گرمیوں کے دن ہیں۔ اوپن ایئر ٹھیک رہے گا۔ سنا ہے شانتی نکیتن میں بھی کھلے میں کلاسیں لگتی تھیں‘‘۔ہم نے کہا۔ ''آپ کی بات کچھ ہمارے جی نہیں لگتی۔ بارشیں آنے والی ہیں۔ ان میں اسکول بہہ گیا تو‘‘۔ سوچ کر بولے، ''ہاں یہ تو ہے۔ جگہ تو اپنی نرسری کے سائبان میں بھی ہے بلکہ اسکول کھولنے کا خیال ہی اس لیے آیاکہ کئی والدین نرسری کا بورڈ دیکھ کر آئے اور کہنے لگے۔ ہمارے بچوں کو اپنی نرسری میں داخل کرلو۔ بڑی مشکل سے سمجھایا کہ یہ وہ نرسری نہیں بلکہ پھولوں پودوں والی نرسری ہے۔ لیکن وہ یہی زور دیتے رہے کہ اسکولوں میں تو داخلہ ملتا نہیں، یہیں داخل کر لو ہمارے بچوں کو، کم از کم مالی کا کام سیکھ جائیں گے‘‘۔ہم نے کہا، ''کس درجے تک تعلیم ہوگی؟‘‘ فرمایا، ''میٹرک تک تو ہونی ہی چاہیے۔ اس کے ساتھ کے۔ جی اور منٹگمری اور نہ جانے کیا کیا ہوتا ہے‘‘۔ ہم نے کہا، ''مانٹیسوری سے مطلب ہے غالباً‘‘۔ فرمایا، ''ہاں ہاں مانٹیسوری۔ میرے منہ سے ہمیشہ منٹگمری ہی نکلتا ہے‘‘۔''پڑھائے گا کون؟‘‘ ہم نے دریافت کیا۔ بولے، ''میں جو ہوں اور کون پڑھائے گا۔ اب مشق چھٹی ہوئی ہے، ورنہ مڈل تو بندے نے بھی اچھے نمبروں میں پاس کر رکھا ہے۔ اے بی، سی تو اب بھی پوری آتی ہے۔ سناؤں آپ کو؟‘‘''اے بی سی ڈی ای‘‘ہم نے کہا، ''نہیں، اس کی ضرورت نہیں۔ آپ کی اہلیت میں کسے شک ہے۔ لیکن آپ تو پرنسپل ہوں گے پھر آپ کی دوسری مصروفیات بھی ہیں۔ یہ پھول پودے کا کاروبار بھی خاصا نفع بخش ہے۔ یہ بھی جاری رہنا چاہیے‘‘۔ بولے، ''ہاں یہ تو ٹھیک ہے۔ خیر ساٹھ ستر روپے میں کوئی بی اے، ایم اے پاس ماسٹر یا ماسٹرنی رکھ لیں گے۔ جب تک چاہا کام لیا۔ چھٹیاں آئیں نکال باہر کیا۔ بلکہ ہمارے اسکول میں تو تین کے بجائے چھ ماہ کی چھٹیاں ہوا کریں گی تاکہ بچوں کی صحت پر پڑھائی کا کوئی برا اثر نہ پڑے‘‘''نام کیا رکھا ہے اسکول کا؟‘‘ ہم نے پوچھا، ''مدرسہ تعلیم الاسلام اقبال ہائی اسکول وغیرہ‘‘۔ بولے، ''جی نہیں۔ نام تو انگریزی چاہئے۔ فرسٹ کلاس کا ہو جس سے معلوم ہو کہ ابھی ابھی انگریزوں نے آکر کھولا ہے۔ کسی سینٹ کا نام تو اب خالی نہیں سینٹ جوزف، سینٹ پیٹرک، سینٹ یہ سینٹ وہ، سب ختم ہوئے۔‘‘

حکایت سعدیؒ:دو امیر زادے

حکایت سعدیؒ:دو امیر زادے

شیخ سعدی رحمہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ مصر میں دو امیر زادے ر ہتے تھے۔ ایک نے علم حاصل کیا اور دوسرے نے مال و دولت جمع کیا۔ آخر کار ایک زمانے کا بہت بڑا عالم بن گیا اور دوسرے کو مصر کی بادشاہت مل گئی۔ بادشاہ بننے کے بعد اس نے اس عالم کو حقارت کی نظر سے دیکھا اور کہا : ''میں حکومت تک پہنچ گیا اور تیری قسمت میں غربت و مسکینی آئی ‘‘۔عالم نے کہا : '' اے بھائی! مجھے اللہ تعالیٰ کا شکر تجھ سے زیا دہ ادا کرنا چاہیے کیونکہ میں نے پیغمبروں کا ورثہ یعنی علم پایا اور تو نے فرعون و ہامان کی میراث یعنی مصر کی حکومت پائی ہے۔

آج کا دن

آج کا دن

خلائی مشن ''ونیرہ 7‘‘ کی زہرہ پر لینڈنگ1970ء میں آج کے روز سوویت خلائی مشن ''ونیرہ 7‘‘ نے سیارہ زہرہ پر کامیابی کے ساتھ لینڈنگ کی۔ یہ کسی دوسرے سیارے پر پہلی کامیاب لینڈنگ تھی۔ یہ مشن سوویت خلائی ایجنسی کے ''ونیرہ پروگرام کا حصہ تھا، جو زہرہ کی خصوصیات کو سمجھنے کیلئے بھیجا گیا تھا۔ ''ونیرہ 7‘‘ کا مقصد سیارہ زہرہ کی فضائی خصوصیات، سطح کی بناوٹ اور موسمی حالات کا مطالعہ کرنا تھا۔ اس کی بھیجی گئی معلومات کے مطابق زہرہ کی سطح کا درجہ حرارت تقریباً 475 ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔پیسا ٹاور 11سال بعد دوبارہ کھولا گیا15دسمبر 2001ء کو پیسا ٹاور کو مرمت کے بعد 11 سال بعد دوبارہ عوام کیلئے کھولا گیا۔ مینار کو مستحکم کرنے پر 2 کروڑ 70لاکھ ڈالر خرچ کیے گئے، لیکن اس کے جھکاؤ کو درست نہیں کیا جا سکا۔ پیسا ٹاور، جسے ''لیننگ ٹاور آف پیسا‘‘ بھی کہا جاتا ہے، اٹلی میں واقع ایک تاریخی مینار ہے۔ یہ اپنی منفرد جھکی ہوئی ساخت کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اس کی تعمیر 1173ء میں شروع ہوئی تھی۔ یہ اصل میں ایک گرجا گھر کے گھنٹی ٹاور کے طور پر بنایا گیا تھا۔ امریکی پیٹنٹ آفس میں آتشزدگی1836ء میں آج کے دن واشنگٹن، ڈی سی میں امریکی پیٹنٹ آفس کی عمارت تقریباً جل کر خاکستر ہو گئی، جس میں حکومت کی جانب سے اس وقت تک جاری کیے گئے تمام 9957 پیٹنٹ اور 7ہزار متعلقہ ماڈلز تباہ ہو گئے۔ امریکی پیٹنٹ آفس ایک وفاقی ایجنسی ہے جو اختراعات، ایجادات اور ٹریڈ مارکس کے تحفظ کو یقینی بناتی ہے۔ یہ آفس امریکہ کے محکمہ تجارت کے تحت کام کرتا ہے۔امریکی کانگریس نے پیٹنٹ سسٹم 1790ء میں قائم کیا ۔یو اے ای فضائی حادثہ 1997ء میں آج کے دن تاجکستان ایئرلائنز کی پرواز 3183 متحدہ عرب امارات میں شارجہ کے قریب گر کر تباہ ہو گئی۔ جس کے نتیجے میں 85 افراد جاں بحق ہو گئے۔ معجزاتی طور پر مسافروں میں سے صرف ایک شخص زندہ بچ گیا۔ تفتیش کاروں نے حادثے کا ذمہ دار پائلٹ کو قرار دیا، جس کی معمولی سی غلطی کے نتیجے میں طیارہ کنٹرول سے باہر ہو گیا اور زمین سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا۔عراق سے امریکی افواج کی واپسی2011 میں آج کے روز عراق سے تمام امریکی فوجی دستوں کی واپسی مکمل ہوئی۔ 15 دسمبر 2011ء کو آخری امریکی فوجی دستہ کویت میں داخل ہوا، جس کے ساتھ ہی عراق میں امریکی مشن کا باقاعدہ اختتام ہوا۔ یہ واپسی عراق میں امریکی مداخلت کے اختتام اور ملکی خودمختاری کی بحالی کی طرف ایک اہم قدم تھی۔