اداکارہ شمّی وہ پہلی ہیروئین تھیں جن کے نام پر فلم بنائی گئی

اداکارہ شمّی  وہ پہلی ہیروئین تھیں جن کے نام پر فلم بنائی گئی

اسپیشل فیچر

تحریر : عبدالحفیظ ظفر


50ء کی دہائی میں پاکستانی فلمی صنعت میں کئی ہیروئنوں نے اپنے نام کا سکہ جمایا۔ یہ بلیک اینڈ وائٹ فلموں کا دور تھا اور اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں فلمیں بن رہی تھیں۔ اس دور میں صبیحہ خانم، سُورن لتا، آشاپوسلے، بہار، شاہینہ، مسرت نذیر، میڈم نورجہاں اور نیلو کی مقبولت کا سورج چمک رہا تھا۔ لیکن ایک اور اداکارہ ایسی تھیں جنہوں نے اپنا ایک الگ مقام بنایا۔ ان کا نام تھا شمّی۔ 1949ء میں فلم ’’شاہدہ‘‘ میں انہوں نے چائلڈ سٹار کی حیثیت سے کام کیا اور پھر 1950ء میںوہ فلم ’’بے قرار‘‘ میں معاون اداکارہ کی حیثیت سے جلوہ گر ہوئیں۔ ان کا اصل نام شمشاد بیگم تھا۔ وہ 1937ء میں دہلی میں پیدا ہوئیں۔ وہ بڑی حسین و جمیل تھیں۔ 1950ء میں انہیں شہرت ملی جب ان کی پنجابی فلم ’’شمّی‘‘ ریلیز ہوئی۔ وہ واحد اداکارہ تھیں جن کے نام پر فلم بنائی گئی۔ ’’شمّی‘‘ کامیاب فلم ثابت ہوئی۔ اس میں شمّی کے ساتھ سنتوش کمار ہیرو تھے۔ اس کے نغمات نے بھی دھوم مچا دی۔ خاص طور پر عنایت حسین بھٹی کا گایا ہوا یہ گیت ’’سُوہے جوڑے والیے‘‘ نے مقبولیت کی تمام حدیں پار کر لیں۔ یہ پنجابی نغمہ بھارت میں بھی بڑا مشہور ہوا۔ ’’شمّی‘‘ کی فلمساز نامور گلوکارہ ملکہ پکھراج تھیں۔ ملکہ پکھراج کا لاہور میں اپنا سٹوڈیو تھا۔ ملکہ پکھراج معروف گلوکارہ طاہرہ سید کی والدہ تھیں۔ شمّی نے 13 فلموں میں کام کیا جن میں 12 اردو اور ایک پنجابی فلم شامل تھی۔ ان کی فلم ’’روحی‘‘ پر 1954ء میں پابندی لگا دی گئی۔ اس کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ اس میں طبقاتی نفرت کو ہوا دی گئی تھی۔ ان کی دیگر فلموں میں ’’غلام، الزام، محبوبہ، تڑپ، خزاں کے بعد، اور پون‘‘ کے نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ فلم ’’غلام‘‘ انور کمال پاشا نے بنائی تھی جن کا اس زمانے میں طوطی بولتا تھا اس فلم میں شمّی کے علاوہ صبیحہ ار سنتوش کمار بھی تھے۔ اس فلم میں شمّی کی اداکاری کو پسند کیا گیا۔ اس میں کوئی شک نیہں کہ وہ ایک عمدہ اداکارہ تھیں جو اپنے چہرے کے تاثرات سے شائقین کو بہت متاثر کرتی تھیں۔ پھر ان کے حسن و جمال نے بھی لوگوںکو دیوانہ بنا رکھا تھا۔ 1953ء میں ہی ان کی فلم ’’الزام‘‘ بھی بہت مشہور ہوئی۔ اس کی ہدایات رفیق انور نے دی تھیں۔ اس فلم کی کہانی نعیم ہاشمی نے لکھی تھی اور اس کے نغمات یزدانی جالندھری اور نعیم ہاشمی کے زورِ قلم کا نتیجہ تھے۔ 1953ء میں ان کی ایک اور قابلِ ذکر فلم ’’محبوبہ‘‘ ریلیز ہوئی جس میں ان کے ساتھ سنتوش کمار اور آشا پوسلے نے کام کیا تھا۔ پھر اسی سال ان کی فلم ’’تڑپ‘‘ ریلیز ہوئی جس میں ان کے ساتھ سدھیر اور علاؤالدین نے اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان کی فلموں ’’سوہنی، خزاں کے بعد، پون، ساحل اور بغاوت‘‘ نے اوسط درجے کا بزنس کیا۔ 1953ء میں فلم ’’تڑپ‘‘ کی شوٹنگ کے دوران شمّی نے اداکار سدھیر سے شاہ کر لی۔ اگرچہ سدھیر نے بعد میں اداکارہ زیبا سے بھی شادی کی لیکن شمّی سے ان کی شادی برقرار رہی۔ یہاں شمّی کی ایک اور فلم ’’پون‘‘ کا ذکر بھی ضروری ہے۔ اس فلم میں ان کی اداکاری کو بہت پسند کیا گیا۔ یہ فلم اسلم ایرانی کی بطور ہدایت کار پہلی فلم تھی اور اس میں ان کے ساتھ سدھیر، آشا پوسلے، نذر، ظریف، نگہت سلطانہ، غلام محمد اور مایا دیوی نے کام کیا تھا۔ اس کے فلمساز چوہدی عید محمد تھے۔ انور بٹالوی کی کہانی تھی اور عرش لکھنوی نے مکالمے تحریر کیے تھے۔ قتیل شفائی اور مشیر کاظمی کے دلکش گیتوں کی موسیقی نذیر جعفری نے مرتب کی۔ فلم کے گلوکاروں نے بھی کمال کیا اور بڑی لگن سے گیت گائے۔ ان گلوکاروں میں کوثر پروین، عنایت حسین بھٹی، سلیم رضا اور ظریف شامل تھے۔ عنایت حسین بھٹی نے ثابت کیا کہ وہ صرف پنجابی ہی نہیں بلکہ اردو زبان میں بھی گیت گا سکتے ہیں۔ ’’بغاوت‘‘ شمّی کی آخری فلم تھی جو ان کے شوہر سدھیر نے بنائی تھی۔ وہ اس سے پہلے ’’ساحل‘‘ بھی بنا چکے تھے۔ ’’شمّی‘‘ فلم کے ہدایت کار منشی دل نے ایک بار کہا تھا کہ شمّی نے صرف ایک پنجابی فلم میں کام کیا اور ان کی باقی تمام فلمیں اردو تھیں، اگر وہ پنجابی فلموں کی طرف توجہ دیتیں تو اردو فلموں سے زیادہ کامیابی حاصل کر سکتی تھیں اور انہیں مزید اچھے کردار مل سکتے تھے۔ شمّی کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کے مکالمے بولنے کا انداز بھی بہت اچھا تھا۔ ان کی فلمیں بھارتی فلموں کے مقابلے پر ریلیز ہوتی تھیں۔ اگرچہ بھارتی فلمیں تکنیکی طور پر زیادہ بہتر ہوتی تھیں لیکن پاکستانی اداکاروں اور دیگر عملے کی محنت نے کام کر دکھایا اور نوزائیدہ فلمی صنعت کو اپنے قدموں پر کھڑا کر دیا۔ شمّی نے دیگر پاکستانی اداکاراؤں کی طرح پاکستانی فلمی صنعت کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالا اور اس دور میں بھی ان کی فلمیں بھارتی فلموں کا مقابلہ کرتی تھیں۔ یہاں ہم اپنے قارئین کو بتاتے چلیں کہ شمّی کی بڑی بہن سلمیٰ ممتاز پاکستانی فلمی صنعت کی شاندار اداکارہ تھیں جنہوں نے کیریکٹر ایکٹریس کے طور پر اپنے آپ کو منوایا تھا۔ لوگ آج بھی ’’ہیر رانجھا‘‘ میں ہیر کی ماں کو نہیں بھولے۔ یہ کردار سلمیٰ ممتاز نے ادا کیا تھا۔ 2001ء میں شمّی کا لاہور میں انتقال ہو گیا۔ انہوں نے جتنا کام کیا اسے اس لحاظ سے یاد رکھا جائے گا کہ انہوں نے بھارتی فلموں کے مقابلے میں پاکستانی فلمی صنعت کو استحکام دینے میں اپنی تمام صلاحیتیں صر ف کر دیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
عظیم مسلم ریاضی دان:البغدادی

عظیم مسلم ریاضی دان:البغدادی

البغدادی کا پورا نام ابو منصور عبدالقاہرا بن طاہر ابن محمد ابن عبداللہ التمیمی الشافعی البغدادی ہے۔ وہ بغداد میں پیدا ہوئے اور 1037ء میں وفات پائی۔ البغدادی کے نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا تعلق قبیلہ تمیم سے تھا اور وہ شافعی مسلک کے پیرو کار تھے۔البغدادی جب سن شعور کو پہنچے تو اپنے والد کے ہمراہ ایران کے شہر نیشا پور چلے آئے۔ خراسان کے بہت سے علماء نے اس سے کسب فیض کیا اور وہ ان کے حلقہ تلامذہ میں شامل ہو گئے۔ وہ سترہ علوم کا درس دیتے تھے، لیکن انہیں فقہ، جبر و مقابلہ، قانون وراثت اور دینیات جیسے علوم پر کامل دستگاہ حاصل تھی۔ وہ بہت مالدار آدمی تھے۔ انہوں نے اپنی دولت علم اور علماء کیلئے وقف کر رکھی تھی۔ جب ترکمانوں نے نیشاپور میں فتنہ فساد برپا کیا تو البغدادی نیشا پور کو چھوڑ کر نسبتاً ایک پرسکون شہر اسفرائین منتقل ہو گئے۔ یہاں بھی انہوں نے علم کے حصول اور اس کے فروغ کا سلسلہ جاری رکھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ کئی برس تک مسجد میں مختلف موضوعات پر خطبات دیتے رہے اور اس خدمت کے بدلے میں کبھی معاوضہ قبول نہیں کیا۔ البغدادی سے بہت سی تصانیف منسوب کی جاتی ہیں لیکن تاحال ان پر تحقیق کا عمل جاری ہے۔ ان کتابوں میں ان کی معروف ترین کتاب ''الفرق بین الفرق‘‘ ہے، جو اسلامی فرقوں اور بعض غیر اسلامی مذاہب پر ایک مفید کتاب ہے۔البغدادی کو حساب میں بھی خاصا ورک حاصل تھا۔ یہاں اس موضوع سے متعلق ان کی دو کتابوں کے حوالے سے بات کی جائے گی۔ البغدادی کی ان دو تصانیف میں سے ایک ''کتاب فی المساح'‘‘ اور دوسری التکمیل فی الحساب‘‘ ہے۔ اوّل الذکر میں عام پیمائشی اصول بیان کئے گئے میں اور لمبائی، رقبے اور حجم کی اکائیوں سے متعلق بحث کی گئی ہے۔ دوسری تصنیف''التکمیل فی الحساب‘‘ بھی خاصی اہم ہے۔ ان کے تعارف میں بیان کیا گیا ہے کہ اس سے قبل کی ریاضیاتی تحریریں یا تو بہت زیادہ مختصر ہیں اور یا پھر یہ حساب کے صرف کسی ایک خاص نظام سے متعلق ہیں۔ اسی چیز کے پیش نظر انہوں نے اپنی کتاب میں حساب کی مروجہ تمام ''قسموں‘‘ سے بحث کی ہے اور ریاضی کے علم کو زیادہ جامع انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔اس دور میں اسلامی دنیا تین حسابی نظاموں سے متعارف تھی۔ یہ تین نظام انگشت شماری، ستنی پیمانہ اور ہندی حساب تھے۔ ہندی حساب کے کچھ عرصہ بعد یونانی ریاضیاتی تحریریں بھی مسلم حساب دانوں تک پہنچ گئیں اور ان تحریروں کے ذریعے وہ اقلیدس، نکوماچس اور دوسرے یونانی ریاض دانوں سے بھی متعارف ہو گئے۔ یہ تمام ریاضیاتی نظام آہستہ آہستہ اسلامی روایت کے تحت یکجا ہو گئے۔ البغدادی نے ان نظاموں کو ایسے وقت میں پیش کیا، جب یہ ایک نئی روایت میں ڈھل رہے تھے لیکن ابھی تک اپنے مخصوص خدو خال برقرار رکھے ہوئے تھے۔ تاہم یہ نظام دوسرے ریاضیاتی نظاموں سے مختلف تصورات اور طریقے ضم کرکے انفرادی طور پر بھی خاصے توانا ہو چکے تھے۔البغدادی نے اپنی تصنیف میں سات ریاضیاتی نظاموں سے بحث کی ہے ان میں سے پہلے دو نظام ہندسوں اور کسروں کے ہندی حساب سے متعلق ہیں۔ تیسرے نمبر پر سنتی پیمانے سے بحث کی گئی ہے، جسے ہندی اعداد میں بیان کیا گیا ہے اور ہندی طریق سے پیش کیا گیا ہے۔چوتھے نمبر پر انگشت شماری کا نظام پیش کیا گیا ہے۔ البغدادی سے قبل عربی انگشت شماری سے متعلق دو تصانیف دستیاب ہیں۔ ان میں سے ایک تصنیف ابو الوفا اور دوسرے الکرجی(یا الکرخی) کی ہے۔ دونوں تصانیف میں زیادہ تر طویل اور پیچیدہ کسری نظام کی وضاحت کی گئی ہے، جس میں غیر محدود مشترک کسر کا تصور پیش نہیں کیا گیا۔ البغدادی کی تصنیف میں یہ نظام دکھائی نہیں دیتا اور وہ ہندی نظام کو ترجیح دیتے محسوس ہوتے ہیں۔ اس کی انگشت شماری آسان حلوں(شارٹ کٹس) اور محدود سلسلوں کے میزان کی طرح کے یونانی ریاضی سے لئے گئے موضوعات تک محدود ہے اور یہ ہندی حساب میں نہیں ہیں۔ بابل کے ریاضی دان ڈایوفانٹس کی کتابوں میں بھی یہی انداز اپنایا گیاہے۔ البغدادی کے بیان کردہ اگلے دو نظام غیر ناطق اعداد کے حساب اور اعداد کے خواص سے متعلق ہیں۔ اوّل الذکر نظام میں اقلیدس کی تصنیف ''اولیات‘‘ کی فصل ہم میں بیان کئے گئے غیر ناطق اعداد کے قوانین عددی بنیادوں پر پیش کئے گئے ہیں۔ دوسرے میں نکوماچس کی اصلاح کے ساتھ فیثا غورث کا نظریہ اعداد پیش کیا گیا ہے۔البغدادی کی کتاب کا یہ حصہ دس باب پر مشتمل ہے، لیکن مسودے کے کچھ حصے غائب ہو چکے ہیں۔ صرف پہلے تین باب اور اصغری باب کی چند سطریں باقی ہیں۔ البغدادی کے بیان کردہ سات نظاموں میں سے آخری نظام یعنی کاروباری حساب کاروباری مسئلوں سے شروع ہوتا ہے اور عجیب معموں سے متعلق دو بابوں پر ختم ہوتا ہے۔ یہ عجوبے تفریحی مسئلوں یا اصول مقیاس کی کسی بھی جدید کتاب میں جگہ پا سکتے ہیں۔ یہاں ایک مثال دی گئی ہے جو یونانی، ہندی اور چینی ماخذ میں بھی پائی جاتی ہے۔البغدادی کی تصنیف میں غالباً ایک ایسا مسئلہ حل کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے جسے ازمنہ وسطیٰ کی ریاضیات کے مورخین نے بھی حل کرنے کی کوشش کی۔ انشاۃ ثانیہ کے ابتدائی دور کے لاطینی حساب دان دو گروہوں میں منقسم تھے۔ ایک گروہ ''Algorists‘‘کا تھا، جبکہ دوسر گروہ ''Abacists‘‘کا تھا۔ ان دونوں ناموں کی صحیح حقیت اس وقت معلوم نہیں تھی، لیکن اب معلوم ہو گئی ہے اور وہ یہ کہ ہندو عربی حساب میں ''Abacus‘‘(تختہ شمار) استعمال کیا جاتا تھا۔ لہٰذا Abacists ایسے ریاضی دان ہو سکتے ہیں جو تختہ شمار کو استعمال میں لاتے تھے جبکہ Algorists لازمی طور پر پرانے نظام سے وابستہ ہوں گے۔ اس رائے کی تصدیق پروس ڈوسی موڈی بیلڈامانڈی کی ایک تصنیف سے بھی ہوتی ہے۔ اس تصنیف میں، جس کا نام Algorithmus ہے، تختہ شمار کو واضح طور پر مسترد کیا گیا ہے۔ جدید تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ ''Algorist‘‘اور ''Algorithms‘‘کے لفظ مشہور مسلمان ریاضی دان الخوارزمی کے نام کا بگاڑ ہیں۔ الخوارزمی ہندی حساب پر کام کرنے والا پہلا مسلم سائنسدان تھا۔البغدادی نے اپنی تصنیف ''التکمیلہ‘‘ میں اس کتاب کا حوالہ دیا ہے اور ایک مقام پر اس کتاب میں بیان کردہ بعض طریقوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ ان طریقوں کے بعد انگشت شماری کے طریقے بیان کئے گئے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ الخوارزمی کی یہ کتاب انگشت شماری سے متعلق تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ جو ریاضی دان الخوارزمی کی اس کتاب کے معترف تھے انہیں Algorists کہا جاتا تھا  Abacists کہا جاتا تھا۔

بگ بین:جس نے سات بادشاہتوں کا دور دیکھا

بگ بین:جس نے سات بادشاہتوں کا دور دیکھا

دریائے ٹیمز کے کنارے ہائوس آف پارلیمنٹ کے شمالی جانب جو گھنٹہ گھر بنا ہوا ہے، ہے تو وہ کلاک ٹاور لیکن عرف عام میں اس کو ''بگ بین‘‘ کہا جاتا ہے۔ دراصل''بگ بین‘‘ اس گھنٹی کا نام ہے جو اس کلاک ٹاور کے اندر نصب ہے اور ہر گھنٹہ کے مکمل ہونے پر جس کی ٹن ٹن سنائی دیتی ہے۔2012ء سے قبل اس گھنٹہ گھر کا نام کلاک ٹاور ہی تھا لیکن 2012ء میں سابقہ ملک الزبتھ کی تاج پوشی کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر پارلیمنٹ کے دارالعوام نے اس کلاک ٹاور کا نام تبدیل کر کے الزبتھ ٹاور رکھ دیا لیکن اس کے باوجود نہ صرف برطانیہ بلکہ تمام دنیا میں یہ کلاک ٹاور ''بگ بین‘‘ کے نام سے ہی جانا اور پہچانا جاتا ہے۔اس کلاک ٹاور کی بلندی316 فٹ ہے۔ اس کی گیارہ منزلیں اور زینے کے 334 سٹپ ہیں۔ چاروں اطراف ٹاور کی دیواریں چالیس، چالیس فٹ چوڑی ہیں۔ کلاک کے ڈائل کا قطر 22.5فٹ ہے۔ کلاک کی گھنٹے والی سوئی9.2فٹ اور منٹوں والی بڑی سوئی 14 فٹ لمبی ہے۔ سب سے بڑی گھنٹی کا وزن13.76ٹن ہے۔ گھنٹہ کے وقت ضرب لگانے والے ہتھوڑے کا وزن 441پائونڈ ہے جبکہ گھنٹی کا قطر8.9فٹ ہے۔ کلاک کا وزن 5ٹن ہے۔کلاک ٹاور وکٹوریہ دور کے نامور ماہر تعمیرات آگسٹسن پیوگن نے ڈیزائن کیا اور اس کی تعمیر مئی1859ء میں مکمل ہوئی۔ 2009ء میں کلاک ٹاور کی 150ویں سالگرہ منائی گئی۔ کلاک کے چاروں اطراف متحدہ برطانیہ(یونائیڈ کنگڈم) میں شامل چاروں اقوام برطانیہ، سکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ کلاک ٹاور آج تک سات بادشاہتوں کا دور دیکھ چکا ہے۔ (1)ملکہ وکٹوریہ، (2)شاہ ایڈورڈ ہفتم، (3)شاہ جارج پنجم، (4) شاہ ایڈورڈ ہشتم، (5)شاہ جارج ششم، (6) ملکہ الزبتھ دوم، (7)شاہ چارلس سوم۔اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے 1970ء میں اس کلاک ٹاور کو بین الاقوامی ورثہ قرار دے کر عالمی ورثہ کی فہرست میں شامل کیا۔ اس کلاک ٹاور کی تعمیر پر 69ملین پائونڈ خرچ ہوئے تھے۔ہائوس آف پارلیمنٹ میں اگر اجلاس جاری ہو تو کلاک کے اوپر ایک خاص سبز لائٹ جلائی جاتی ہے۔جنگ عظیم دوم کے دوران بلیک آئوٹ کی وجہ سے ڈائل پر جلنے والی لائٹس 1939ء سے اپریل 1945ء تک بند رکھی گئیں۔ جنگ کے دوران ہر گھنٹہ بعد بجنے والی ٹن ٹن بھی بند رکھی گئی تاکہ دشمن کے بمبار جہازوں کو کسی طرح کوئی مدد نہ مل سکے۔ اس طرح جنگ کے ہوائی حملوں سے ''بگ بین‘‘ کو کوئی خاص نقصان نہ پہنچ سکا۔چند دلچسپ حقائق(1)ڈائل پر لگے ہوئے ہندسے 23انچ لمبے ہیں۔(2)ڈائل کی چمک پیدا کرنے کیلئے شیشے کے 312ٹکڑے چسپاں کئے گئے ہیں۔( 3)بی بی سی ریڈیو نے سب سے پہلے کلاک ٹاور کے ٹن ٹن کی آواز 31دسمبر1923ء کو براہ راست نشر کی۔(4) بگ بین کلاک ٹاور کی ٹن ٹن کی گونج 9میل تک بخوبی سنی جا سکتی ہے۔(5) اس کلاک ٹاور کا نام ''بگ بین‘‘ اس طرح پڑا کہ لندن شہر کے پہلے کمشنر آف ورکس کا نام سربنجامن ہال تھا لیکن شفقت اور محبت سے اسے بگ بین کے نک نیم سے پکارا جاتا تھا۔ اس لئے اس کلاک ٹاور کو بھی اسی نام سے پکارا جانے لگا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کلاک ٹاور کی تجویز بنجامن ہال ہی کی تھی۔(6) اس کلاک ٹاور کو 2017ء میں مرمت کی غرض سے چار سال کیلئے بند کردیا گیا، مرمت کا کام 2022ء میں مکمل ہوا۔(7) ٹاور کی تعمیر سرخ اینٹوں سے کی گئی ہے۔(8)کلاک ٹاور کے ڈائل کی سوئیاں زمین کی سطح سے 180 فٹ بلند ہیں۔(9)30جنوری 1965ء کو سابق وزیراعظم ونسٹن چرچل کی آخری رسومات کی ادائیگی کے موقع پر کلاک کی گھنٹیاں خاموش کر دی گئی تھیں۔(10) اسی طرح 16اپریل 2013ء کو بھی سابقہ وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کی تدفین کے موقع پر بھی کلاک کی گھنٹیاں خاموش کر دی گئی تھیں۔(11) 2008ء میں ایک سروے کے مطابق کلاک ٹاور لندن کی سیاحت کا ایک سنگ میل نشان ہے جو ہر ایک کے دل میں یکساں مقبولیت رکھتا ہے۔(12) کلاک ٹاور کی بہت سی مشہور فلموں میں عکس بندی کی گئی ہے۔(13) کلاک ٹاور کے ڈیزائنر کا یہ زندگی کا آخری ڈیزائن تھا، کیونکہ اس ڈیزائن کے بعد آگسٹس پیوگن بیماری کی وجہ سے 1852ء میں انتقال کر گیا۔(14) سابق ملکہ الزبتھ دوم کی تدفین کے موقع پر بھی کلاک کی گھنٹیاں احتراماً بند کردی گئی تھیں۔

آج کا دن:چاکلیٹ ڈے

آج کا دن:چاکلیٹ ڈے

ہر سال7 جولائی کو ''چاکلیٹ ڈے‘‘ منایا جاتا ہے۔یہ دن1550ء میں یورپ میں چاکلیٹ کی پہلی بار آمد کی یادگار کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اسے منانے کا آغاز 2009ء میں ہوا تھا۔یہ دن چاکلیٹ سے بنی ہر قسم کی اشیاکیلئے بھی مختص ہے جن میں چاکلیٹ مِلک، ہاٹ چاکلیٹ، چاکلیٹ کینڈی،چاکلیٹ کیک اور براؤنیز وغیرہ شامل ہیں۔چاکلیٹ کی مشہور اقسام: چاکلیٹ کی کئی اقسام دنیا بھر میں مشہور ہیں جن میں خالص، غیر میٹھی چاکلیٹ(بیکنگ چاکلیٹ) اور آج کل استعمال ہونے والی زیادہ تر چاکلیٹ میٹھی چاکلیٹ کی شکل میں ہے ۔ چاکلیٹ کی دوسری قسمیں بیکنگ اور کنفیکشنری میں استعمال ہوتی ہیں۔ ان میں بیکنگ چاکلیٹ ، کوورچر چاکلیٹ (کوٹنگ کیلئے استعمال ہوتی ہے)، کمپاؤنڈ چاکلیٹ (ایک کم قیمت والا متبادل) اور ماڈلنگ چاکلیٹ شامل ہیں۔ ماڈلنگ چاکلیٹ ایک چاکلیٹ پیسٹ ہے جو چاکلیٹ کو پگھلا کر اسے مکئی اور گلوکوز یا گولڈن سیرپ کے ساتھ ملا کر بنایا جاتا ہے۔چاکلیٹ کیسے حاصل کیا جاتا ہے؟: چاکلیٹ اصل میں ایک پودے' کوکوا ‘کے بیجوں کو بھون اور پھر پیس کر حاصل کیا جاتا ہے۔ کوکو اکا ہر درخت تقریباً 2500پھلیاں پیدا کرتا ہے۔ ایک پونڈ(تقریباً 500 گرام) چاکلیٹ بنانے میں 400 کوکوا پھلیوں کا استعمال ہوتا ہے۔اس کا اصل وطن وسطی امریکہ ہے لیکن پیداوار کے لحاظ سے مغربی افریقہ اس کا اہم خطہ ہے۔چاکلیٹ ڈے، کب کہاں؟: عالمی سطح پر7 جولائی کو چاکلیٹ ڈے منایاجاتا ہے مگر بعض ممالک اپنے طور پر اس کا انعقاد کرتے ہیںجیسے کہ ریاستہائے متحدہ میں 28 اکتوبر کو نیشنل چاکلیٹ ڈے منایا جاتا ہے۔ یو ایس نیشنل کنفیکشنرز ایسوسی ایشن نے13 ستمبر کو بین الاقوامی چاکلیٹ ڈے کے طور پر درج کیا ہے۔ گھانا، کوکوا کا دوسرا سب سے بڑا پروڈیوسر ہے،جو14 فروری کو چاکلیٹ ڈے مناتا ہے۔ لٹویا میں چاکلیٹ کا عالمی دن11 جولائی کو منایا جاتا ہے۔اس کے علاوہ نیشنل ملک چاکلیٹ ڈے، نیشنل وہائٹ چاکلیٹ ڈے اور نیشنل کوکوا ڈے کا بھی اہتمام مختلف تاریخوں میں کیا جاتا ہے۔ چاکلیٹ کھانے کے فوائد: امریکی طبی جریدے میں چھپنے والی ایک تحقیق کے مطابق باقاعدگی سے چاکلیٹ کھانا دماغی کارکردگی میں اضافہ کرتا ہے۔چاکلیٹ کھانے والوں کی یادداشت ان افراد سے بہتر ہوتی ہے جو چاکلیٹ نہیں کھاتے یا بہت کم کھاتے ہیں۔دراصل چاکلیٹ دماغ میں خون کی روانی بہتر کرتی ہے جس سے یادداشت اور سیکھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ایک تحقیق کے مطابق ناشتے میں چاکلیٹ کھانے والے افراد دن بھر چاک و چوبند رہتے ہیں اور وہ اپنے کاموں میں زیادہ صلاحیت اور مستعدی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔براؤن چاکلیٹ جسم کو نقصان پہنچانے والے کولیسٹرول میں کمی کر کے مفید کولیسٹرول کو بڑھاتی ہے۔یہی چاکلیٹ بلڈ پریشر کو معمول کی سطح پر رکھنے میں بھی مددگار ہے۔براؤن چاکلیٹ دماغ میں سیروٹونین نامی مادہ پیدا کرتی ہے جس سے ذہنی دباؤ سے نجات ملتی ہے۔ چاکلیٹ ہمارے جسم کی بے چینی اور ذہنی تناؤ میں بھی 70 فیصد تک کمی کرسکتی ہے۔یہ جسم میں موجود پولی فینول کو بھی بڑھاتی ہے جس سے خون میں ا?کسیجن کی روانی بہتر ہوتی ہے۔چاکلیٹ میں موجود فلیونولز دل کی شریانوں کو ا?رام پہنچا کر انہیں سوزش سے بچاتے ہیں اور دوران خون میں بہتری پیدا کرتے ہیں جس سے امراض قلب کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔یہ پٹھوں کے خلیات کی کارکردگی میں بھی اضافہ کرتی ہے اور وہ زیادہ ا?کسیجن کو خون میں پمپ کرتے ہیں۔چاکلیٹ قوت مدافعت میں بھی اضافہ کرتی ہے۔سیاہ چاکلیٹ کھانسی کے لیے نہایت مفید ہے اور یہ دائمی یا موسمی کھانسی کو ختم کرسکتی ہے۔

یادرفتگاں: ساون پاکستان فلم انڈسٹری کا مقبول ویلن

یادرفتگاں: ساون پاکستان فلم انڈسٹری کا مقبول ویلن

پاکستان کی فلمی تاریخ میں بعض فنکاروں نے بڑی حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کی تھیں۔ ان میں ایک بڑا نام اداکار ساون کا تھا جو ایک ایکسٹرا سے چوٹی کے ولن بنے اور پھر کریکٹر ایکٹر کرداروں میں صف اوّل کے اداکار ثابت ہوئے تھے۔ایک وقت ایسا بھی تھا کہ اس دراز قد، تنومند، گرجدار آواز کے مالک پہلوان نما اداکار کو سامنے رکھ کر فلموں کی کہانیاں لکھی جاتی تھیں۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ چوٹی کے اس اداکار کو نظر انداز کر دیا گیا اور وہ زندہ رہنے کیلئے چھوٹے موٹے فلمی کردار قبول کرنے پر مجبور ہوگئے۔ہماری فلمی صنعت کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ عروج کے وقت وہ آرٹسٹ کا بھرپور ساتھ دیتی ہے لیکن جونہی وہ آرٹسٹ زوال پذیر ہوتا ہے، یہ اْس سے منہ پھیر لیتی ہے۔60ء اور 70ء کے عشرے میں پاکستان کی فلم انڈسٹری میں ساون کا نام ایک بہترین اداکار اور مقبول ویلن کے طور پر لیا جاتا تھا جنھوں نے کئی کامیاب فلمیں کیں۔ ساون اپریل 1920ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور ان کا اصل نام ظفر احمد بٹ تھا۔ ان کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔ اسی لئے وہ اپنی تعلیم مکمل نہ کر سکے۔ جنگ عظیم دوئم میں وہ برٹش انڈین آرمی میں شامل ہو گئے۔ ملازمت کے دوران انہیں مختلف علاقوں میں بھیج دیا گیا۔ ان میں مشرقِ وسطیٰ بھی شامل تھا۔ انہیں جہاں کہیں بھیجا گیا، انہوں بڑی جانفشانی سے اپنے فرائض سرانجام دیئے۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد ساون کو فوج سے سبکدوش کر دیا گیا۔ وہ سیالکوٹ واپس چلے گئے۔ روزی کمانے کیلئے انہوں نے ٹانگہ چلانا شروع کر دیاجوان دنوں بڑی کمائی والا کام سمجھا جاتا تھا۔ساون کی شخصیت اور ان کا ڈیل ڈول کچھ ایسا تھا کہ وہ سب کے درمیان الگ ہی دکھائی دیتے تھے۔ ان کے گھنے سیاہ اور گھنگھریالے بالوں بھی ان کی خاص پہچان تھے۔ کہتے ہیں کہ گورے چٹے اور کسرتی جسم کے مالک ساون اپنے طرزِ زندگی سے مطمئن نہیں تھے۔ انھوں نے 1950ء میں کراچی جانے کا فیصلہ کیا جہاں ایک معمار کی حیثیت سے کام کرنا شروع کر دیا اور اس کے ساتھ ساتھ وہ پینٹر بھی بن گئے۔ انہوں نے چھوٹے موٹے کام کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی۔ ان کا مقصد روزی کمانا تھا۔ اس دوران ان کی ایک سینما کے عملے کے ساتھ دوستی ہوگئی۔ اپنی شخصیت کی وجہ سے وہ سینما والوں میں بھی مقبول ہو گئے۔ ان لوگوں نے ساون کو مشورہ دیا کہ وہ فلموں میں کام کریں۔ ساون بٹ کو یہ بات پسند آئی۔ انہوں نے فلم سٹوڈیوز کے چکر لگانے شروع کر دیئے۔ آخر کار انہیں فلم ''کارنامہ‘‘ میں اداکار کی حیثیت سے شامل کر لیا گیا اور یہیں سے ظفر احمد بٹ کا نام ساون رکھ دیا گیا۔ کچھ صحافیوں نے ساون سے کہا کہ وہ لاہور چلے جائیں اور پنجابی فلموں میں اپنی قسمت آزمائیں کیونکہ اپنی گرجدار آواز اور ڈیل ڈول کی وجہ سے وہ پنجابی فلموں میں زیادہ کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ساون لاہور آگئے اور انہیں آغا حسینی کی فلم ''سولہ آنے‘‘ میں ایک چھوٹا سا کردار دے دیا گیا۔ ''سولہ آنے‘‘ کی ریلیز کے بعد انہیں فلم ''سورج مکھی‘‘ کیلئے کاسٹ کر لیا گیا۔ اس فلم نے ساون کو اداکار بنا دیا اور پھر انہوں نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ اس فلم نے انھیں مقبولیت کی سیڑھی پر چڑھا دیا۔ساون نے کئی پنجابی فلموں میں مرکزی کردار ادا کیے جن میں ''بابا دینا، مالی، خزانچی، ذیلدار، ہاشو خان، خان چاچا، جگری یار، گونگا، پہلوان جی ان لندن‘‘ شامل ہیں۔ ان کی دیگر مشہور فلموں میں ''شیراں دے پتر شیر، جانی دشمن، ملنگی، ڈولی، چن مکھناں، سجن پیارا، بھریا میلہ، اور پنج دریا‘‘ سرفہرست ہیں۔ساون نے مقبولیت اور کامیابی کا زینہ طے کرتے ہوئے فلم سازوں سے بھاری معاوضے کا مطالبہ شروع کردیا تھا جس نے انھیں عروج سے زوال کی طرف دھکیل دیا۔کہا جاتا ہے کہ ہدایت کار اسلم ڈار نے اپنی نئی فلم ''بشیرا‘‘ میں مرکزی کردار کیلئے ساون کا انتخاب کیا۔ ساون نے بھاری معاوضہ طلب کیا لیکن اسلم ڈار نے انکار کر دیا اور ان کی جگہ سلطان راہی کو ''بشیرا‘‘ کے لیے کاسٹ کر لیا۔ اس سے پہلے سلطان راہی کی فلم ''بابل‘‘ سپر ہٹ ہو چکی تھی۔''بشیرا‘‘ باکس آفس پر بے حد کامیاب رہی اور سلطان راہی نے عروج کی سیڑھیوں پر پہلا قدم رکھ دیا۔ اس کے ساتھ ساون کا زوال شروع ہوگیا۔ ساون نے خود کہا تھا کہ میں بہت متکبر ہو گیا تھا اور انسان کو انسان نہیں سمجھتا تھا۔ اس کے علاوہ میں نے فلم ''ہاشو خان‘‘ میں مرکزی کردار ادا کیا جو مجھے نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ اس فلم میں ہاشو خان ایک سفاک اور ملحد حاکم تھا۔ بہرحال یہ سب قدرت کے کھیل ہیں۔ بعد میں ساون فلموں میں چھوٹے موٹے کردار ادا کرتے رہے۔ زندگی کے آخری دور میں ان کے پاس کوئی کام نہیں تھا اور وہ گھر میں بیمار پڑے رہے۔ 6 جولائی 1998ء کو فرشتہ اجل آن پہنچا اور ساون اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ 

خانہ بدوش پرندہ فلیمنگو

خانہ بدوش پرندہ فلیمنگو

فلیمنگو جسے اردو میں لم ڈھینگ کہا جاتا ہے ایک لمبا استوائی خانہ بدوش پرندہ ہے۔ اس پرندے کی نسل کا تعلق ''فو ئنی کوپٹیریڈا‘‘ (Phoenicopteridae )نسل سے ہے۔اس کی چونچ لمبی، چپٹی اور درمیان میں خمدار ہوتی ہے۔اس کی گردن لمبی،پتلی اور ٹانگیں بھی پتلی ہوتی ہیں۔ اس کے بال اور پروں کا رنگ گلابی ہوتا ہے۔یہ پرندہ غول کی شکل میں رہنا پسند کرتا ہے۔عمومی طور پر یہ پرندہ کم گہری جھیلوں اور مرجانیہ ساحلوں پر رہنا زیادہ پسند کرتا ہے اسی لئے اس کی زیادہ افزائش اس طرح کی جھیلوں اور ساحلوں پر ہوتی ہے۔دنیا میں پائے جانے والے مختلف نسل کے سب سے زیادہ فلیمنگو افریقہ میں پائے جاتے ہیں۔فلیمنگو یا لم ڈھینگ کی چھ اقسام ہیں جن میں بڑا لم ڈھینگ، چھوٹا لم ڈھینگ، امریکی لم ڈھینگ اور چلی لم ڈھینگ قابل ذکر ہیں۔ جیمز لم ڈھینگ اور اینڈئین لم ڈھینگ دنیا میں اب بہت کم نظر آنے والی نسل ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ پائی جانے والی نسل ''بڑا لم ڈھینگ‘‘ کی ہے جسے انگریزی زبان میں ''گریٹر فیلمنگو‘‘کہتے ہیں۔ بڑا لم ڈھینگ زیادہ تر افریقی ممالک بشمول جنوبی ایشیاء پاکستان اور جنوبی یورپ کے ممالک سپین، فرانس، پرتگال اور البانیہ میں پایا جاتا ہے۔بڑا لم ڈھینگ بڑے لم ڈھینگ کا قد عمومی طور پر 5 فٹ ہوتا ہے جبکہ اس کا وزن چار کلو تک ہو سکتا ہے۔اس کا رنگ سفیدی مائل گلابی ہوتا ہے جس کی مناسبت سے اس کی عمومی پہچان ''گلابی لم ڈھینگ ‘‘ سے ہوتی ہے۔پیدائش کے وقت اس کے بچے سفید ہوتے ہیں جو رفتہ رفتہ گلابی ہو جاتے ہیں۔ بڑے لم ڈھینگ کی عمر 60 سال تک نوٹ کی گئی ہے۔ سب سے بڑے لم ڈھینگ کی اونچائی 1.87 میٹر نوٹ کی گئی ہے۔بڑے لم ڈھینگ کو سب سے پہلے 1811ء میں پیٹر سمن پلاس نے متعارف کرایا تھا۔شروع میں یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ بڑا لم ڈھینگ اور امریکی لم ڈھینگ بنیادی طور پر دونوں ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ ان دونوں نسلوں کے رنگ ، جسم اور چونچ میں واضح فرق ہے ،جس کے بعد ان دونوں اقسام کو الگ الگ نسل کی پہچان دی جانے لگی۔ چھوٹا لم ڈھینگ یہ ایک چھوٹی جسامت کا لم ڈھینگ ہے اور لم ڈھینگوں کی سب سے چھوٹی نسل سمجھی جاتی ہے۔ جس کی آبادی افریقہ، پاکستان اور بھارت میں پائی جاتی ہے۔چھوٹے لم ڈھینگ دنیا میں سب سے زیادہ افریقہ میں پائے جاتے ہیں۔شمالی تنزانیہ کی جھیلیں افزائش کیلئے ان کا پسندیدہ مقام ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس کی تعداد دنیا بھر میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 20 لاکھ سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ چھوٹے لم ڈھینگ کا قد 80 اور 90 سنٹی میٹر کے درمیان ہوتا ہے جبکہ وزن اڑھائی کلو گرام تک ہوتا ہے جبکہ ان کے پروں کا پھیلائو ایک میٹر تک ہوتا ہے۔ان کا عمومی رنگ گلابی مائل سفید ہوتا ہے۔ان کی چونچ کا رنگ کالا ہوتا ہے جو انہیں بڑے لم ڈھینگوں سے ممتاز کرتا ہے۔چھوٹے لم ڈھینگ کی زیادہ تر خوراک الجی پر مشتمل ہوتی ہے۔الجی بنیادی طور پر اساسی تاثیر رکھنے والی جھیلوں میں اگتی ہے۔ ماہرین کاکہنا ہے کہ ان کی گلابی رنگت بھی اسی الجی کے کھانے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ قدرت نے ان کی چونچ کی ساخت اس طرز پر بنائی ہے جس کے ذریعے یہ پانی سے الجی کو فلٹر کر لیتے ہیں۔ بڑے لم ڈھینگوں کی نسبت چھوٹے لم ڈھینگ ہمیشہ مارابوسٹارک، ببون بندر، افریقی مچھلی مار عقاب، جنگلی بلی اور افریقی سنہری بھیڑیا نامی شکاریوں کی زد میں رہتے ہیں۔چلوی لم ڈھینگ چلوی لم ڈھینگ یہ دوسری نسل کی نسبت قدرے دراز قد ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا رنگ گلابی تو ہوتا ہی ہے لیکن اس کا رنگ دوسری نسل کے پرندوں سے ہٹ کر کم گلابی یعنی خاکستری مائل ہوتا ہے ۔یہ نسل جنوبی امریکی ممالک،ایکواڈور پیرو اورچلی میں پائے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ارجنٹینا اور برازیل کے کچھ علاقوں میں بھی پائے گئے ہیں۔فطرت اور عادات فطرتاً فلیمنگوز پانی کے دلدلی علاقوں اور کم گہرے لگونز میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ انسانی پہنچ سے دور جھیلیں ان کی اوّلین ترجیح شمار ہوتی ہیں۔یہ اپنے پنجوں سے دلدل کھود کر اس میں پانی چوستا رہتا ہے اور پانی میں موجود مخصوص قسم کی کائی کو بطور خوراک سر جھکا کر کھاتا رہتا ہے۔ فلیمنگوز فطرتاً غول بنا کر اپنی الگ کالونیاں بنا کر رہنے کے عادی ہوتے ہیں۔ تنزانیہ کا ماحول ان کیلئے انتہائی سازگار ہوتا ہے۔ اس لئے یہ سب سے زیادہ تنزانیہ کی جھیلوں میں بریڈ کرتے ہیں۔ پالتو فلیمنگوز سوئٹزر لینڈ کو جب اپنے چڑیا گھر کیلئے فلیمنگو کی ضرورت محسوس ہوئی تو اس نے افریقی ملک سے بڑا فلیمنگوز کا ایک جوڑا منگوایا تھا۔جسے سوئٹزر لینڈ کے ''باسل زو‘‘ میں رکھا گیا تھا۔ 1959ء میں پہلی مرتبہ اس چڑیا گھر میں فلیمنگو کے انڈوں سے ایک بچہ نکلا تھا۔ اس کے بعد 2000ء کے بعد ہر سال یہاں 25 سے 30 کے درمیان فلیمنگوزکے بچے نکلتے رہے اور ان کی نسل بڑھتی رہی۔ سب سے طویل العمر فلیمنگو کا اعزاز آسٹریلیا کے ایڈیلیڈ چڑیا گھر کو جاتا ہے جہاں ایک فلیمنگو 83 سال تک زندہ رہا۔چڑیا گھر انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس کی صحیح عمر اس لئے نہیں بتائی جا سکتی کیونکہ یہ اس چڑیا گھر میں 1933ء میں لایا گیا تھا ، اس وقت یہ ایک بالغ پرندہ تھا جبکہ اس کی موت 2014ء میں ہوئی تھی۔ لم ڈھینگ کی بقا کو لاحق خطراتاگرچہ پرندوں اور جانوروں میں لم ڈھینگوں کی نوع باقی انواع کی نسبت کثرت میں پائی جانے والی جنس ہے لیکن فطرت کے تحفظ پر گہری نظر رکھنے والی سوئٹزرلینڈ کی ایک تنظیم ''آئی یو سی این‘‘ نے حال ہی میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی طور پر فلیمنگو ز کی نسل کو مختلف قسم کے خطرات لاحق ہیں جس سے پرندوں کی یہ نوع تیزی سے معدومیت کی طرف جا رہی ہے۔ اس تنظیم نے اسے '' خطرے سے دوچار‘‘ پرندوں کی کیٹیگری میں شامل کیا ہوا ہے۔ آئی یو سی این نے اس کی بڑی وجہ ان کی آبادی میں کمی اور ان کے بریڈنگ کے علاقوں کی انسانی ہاتھوں تباہی کو قرار دیا ہے۔ حالیہ سالوں میں مشرقی افریقہ کی دو جھیلوں نگورو اور بوریا،جہاں ان کی بہت وسیع پیمانے پر کالونیاں ہیں ، ان کی آبادی حد درجہ متاثر ہوئی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ ان جھیلوں میں فیکٹریوں سے خارج ہونے والے پانی کی آمیزش ہے۔اس پانی میں زہریلے کیمیکل اور دھاتیں پائی جاتی ہیں۔آئی یو سی این نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ افریقہ میں موجود ان کی بریڈنگ کی تمام جگہیں خطرات سے دوچار ہیں۔پاکستان اور بھارت میں یہ قدرتی شکار کے علاوہ انسانی شکار کی زد میں بھی ہیں۔ ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں فلیمنگوز کی کل آبادی کا تین چوتھائی مشرقی افریقہ میں رہتا ہے۔اور یہاں کی جھیلیں ہر سال دس لاکھ سے زائد لم ڈھینگوں کی میزبانی کرتی آرہی ہیں۔ اب وہاں کی جھیلوں کی سطح میں اضافے کے سبب انہیں خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ جس کے سبب یہ معصوم نسل اب اپنے روایتی مسکن سے نکل کر نامعلوم علاقوں کی جانب ہجرت پر مجبور ہو گئی ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

AK-47کی پیداوار کا آغاز6جولائی 1947ء کو سوویت یونین میں معروف ہتھیار AK-47کی پروڈکشن کا آغاز کیا گیا۔اس رائفل کو روس کے معروف اسلحے کے ڈیزائنرمیخائل کلاشنیکوو کی جانب سے تیار کیا گیا تھا۔ پروڈکشن میں جانے سے پہلے اس کو کئی تجربات سے گزارا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ دنیا کے معروف ترین ہتھیاروں میں شمار ہونے لگی۔ کچھ رپورٹس کے مطابق اس رائفل سے مرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے جس کی وجہ سے اسے دنیا کا مہلک ترین ہتھیار بھی تصور بھی کیا جاتا ہے۔نائیجیریا میں سکول پر حملہ6 جولائی 2013 کو، نائیجیریا کے یوبی اسٹیٹ کے گاؤں مامودو میں مسلح افراد نے گورنمنٹ سیکنڈری سکول پر حملہ کیا، جس میں تقریباً 42 افراد ہلاک ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر طلباء تھے جبکہ عملے کے کچھ ارکان بھی مارے گئے۔ ایک مقامی عینی شاہد نے صورتحال کو بیان کیا کہ یہ ایک دلخراش نظارہ تھا، کچھ زندہ جل گئے جبکہ کچھ گولی لگنے سے مر ے۔ زندہ بچ جانے والوں کے مطابق، حملہ آوروںنے متاثرین کو ایک مرکزی مقام پر اکٹھا کیا اور پھر فائرنگ اور دھماکہ خیز مواد پھینکنا شروع کیا۔ فضائی حادثہایشیانا ایئر لائنز کی پرواز 214 ایک طے شدہ ٹرانس پیسفک مسافر پرواز تھی جس نے جنوبی کوریا کے شہر سیول کے قریب انچیون انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے اڑان بھرنی تھی ۔ 6 جولائی 2013ء کی صبح اپنی منزل کے قریب ریاستہائے متحدہ کے سان فرانسسکو بین الاقوامی ہوائی اڈے پرگر کر تباہ ہو گیا۔ جہاز میں سوار 307 افراد میں سے 3 کی موت ہو گئی۔ مزید 187 زخمی ہوئے، جن میں سے 49 کی حالت تشویشناک تھی۔شدید زخمیوں میں چار فلائٹ اٹینڈنٹ بھی شامل تھے ۔ریل حادثہ6جولائی 2013ء کو کینیڈا کے قصبے میں ایک میگنیٹک ٹرین کے ساتھ حادثہ پیش آیا۔ یہ خوفناک حادثہ اس وقت ہوا جب ایک مال بردار ٹرین خام تیل لے کر جارہی تھی وہ اپنی ٹریک سے نیچے اتر گئی جس کے نتیجے میں متعدد ٹینک کاروں میں دھماکے اور آگ لگ گئی۔ اس حادثے میں47 افراد مارے گئے،30 سے زیادہ عمارتوں کو نقصان پہنچا جبکہ شہر کے نصف علاقے میں تباہی کے اثرات دیکھے جا سکتے تھے۔ایک رپورٹ کے مطابق ایک کلومیٹر تک اس دھماکے کی آواز بھی سنی گئی۔