تھکاوٹ اسباب اور علاج
''تھکاوٹ کی وجہ سے جسم ٹوٹ رہا ہے، کسی کام میں بھی دل نہیں لگ رہا۔ کوئی تکلیف بھی نہیں ہے۔ پتا نہیں مجھے کیا ہو گیا ہے۔‘‘ یہ وہ جملے ہیں جو ہم اکثر و بیشتر اپنے ساتھیوں، دوستوں، عزیزوں یا گھر والوں سے سنتے رہتے ہیں۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اگر آپ نے نیند بھی پوری کر لی ہو، محنت مشقت کا کوئی کام بھی نہ کیا ہو اور کوئی بیماری بھی اس کا سبب نہ ہو تو پھر اس تھکن کا سبب کیا ہے؟
تھکاوٹ، جسم کی شکستگی اور سستی کے احساس کا نام ہے جو وقتی بھی ہو سکتا ہے اور ہمہ وقتی بھی۔ ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے کبھی کبھی مقررہ اوقات سے زائد کام نہ کرنا پڑتا ہو، اس لیے نہ صرف آرام کا وقت قربان کرنا پڑتا ہے بلکہ نیند کی بھی قربانی دینا پڑتی ہے۔ وقت گزر جانے اور مناسب نیند کر لینے سے عارضی یا وقتی نوعیت کی تھکاوٹ دور ہو جاتی ہے لیکن جو تھکاوٹ پیچھا چھوڑنے کا نام ہی نہ لے اور ہر وقت طاری رہے وہ آگے چل کر تشویش ناک شکل اختیار کر سکتی ہے۔ اس طرف سنجیدگی سے مناسب توجہ دینے اور جامع علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔
اسباب
مستقل تھکاوٹ کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں۔ کئی لوگوں کی یہ خصوصیت بن جاتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو مصروف رکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ وہ بہت سا کام ایک ہی وقت میں نمٹانا چاہتے ہیں۔ جب تک سب کچھ نمٹ نہ جائے انہیں چین ہی نہیں آتا۔ یہ کمال پرستی ہوتی ہے، جو آپ پر ہمیشہ مصروفیت طاری کیے رکھتی ہے۔ جب تک سب کچھ ''مکمل‘‘ نہ ہو جائے یہ لوگ ذہن پر ''بوجھ‘‘ اٹھائے رکھتے ہیں خواہ کتنے ہی تھک چکے ہوں۔
تھکاوٹ کا سب سے بڑا سبب کھانے پینے کی غلط عادات اور اس کی وجہ سے جسم میں کمزوری اور ناتوانی کا پیدا ہو جانا ہے۔ تھکاوٹ اس امر کا اظہار ہوتی ہے کہ خوراک سے جسم کے خلیے مناسب مقدار میں معمول کی توانائی حاصل نہیں کر پا رہے۔ بعض غذائیں مثلاً سفید چینی، صاف کردہ اناج، سفید آٹے کی مصنوعات اور ڈبہ بند غذائیں کھانا لوگوں کی عادت بن چکی ہے۔ اس طرح کی غذائیں جسمانی نظام کو عموماً سست اور کمزور بنا دیتی ہیں۔ غذاؤں کو ان کی فطری خصوصیت سے محروم کرنے سے ان کے اندر موجود بیش بہا وٹامنز اور منرلز بڑی حد تک ضائع ہو جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں تھکاوٹ، موٹاپا، اعصاب کی کمزوری اور متعدد دیگر شکایات پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ آج کل یہ شکایات نہایت عام ہیں۔
بعض جسمانی کیفیات بھی تھکاوٹ کے باعث جنم لیتی ہیں۔ ان میں سے ایک خون کی قلت یعنی ''انیمیا‘‘ ہے۔ یہ لاحق ہو جائے تو جسمانی ٹشوز کو بہت کم آکسیجن پہنچتی ہے۔ چنانچہ انیمیا کے مریضوں کے جسم میں عموماً بہت کم توانائی پیدا ہوتی ہے اور وہ خود کو تھکے تھکے محسوس کرتے ہیں۔ اس صورتحال کے باعث وہ ڈپریشن میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں۔ انیمیا عام طور پر جسم میں فولاد اور وٹامن بی12 کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ بعض اوقات اس کے مریضوں کے جسم میں وٹامن بی6 اور فولک ایسڈ کی بھی کمی واقع ہو جاتی ہے۔
نیند نہ آنا یا کم خوابی بھی تکلیف دہ تھکاوٹ کا سبب بنتی ہے۔ خواب آور گولیوں اور دیگر ادویات کے ذریعہ لائی گئی نیند، تھکاوٹ کے اسباب دور نہیں کر سکتی۔ پیٹ کے کیڑے بھی تھکاوٹ کی وجہ بن جاتے ہیں کیونکہ وہ خون کے بہترین سرخ ذرات پر پلتے ہیں اور انسانی جسم کو اچھی نشوونما کے ذخیرے سے محروم کر دیتے ہیں۔ تھکاوٹ کی دیگر وجوہات میں کم فشارِ خون، جسم میں کسی انفیکشن کا ہونا، جگر کا عارضہ، تھائی رائیڈ کی ناقص کارکردگی، خوراک کی الرجی، کسی دوا کا سائیڈ ایفیکٹ اور کھانے میں رنگ اور خوشبو کے لیے ملائے جانے والے بعض کیمیکلز کے اثرات بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ ذہنی تناؤ بھی جسمانی تھکاوٹ کے سبب میں سے ہے۔
علاج
تھکاوٹ کے علاج کے لیے غذا کو بہترین اور حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق بنانا اہم ترین اقدام ہے۔ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جو لوگ نسبتاً کم غذا کھاتے ہیں یا اعتدال کی حدود میں رہ کر کھاتے ہیں، وہ تھکاوٹ اور اعصابی تناؤ کا کم شکار ہوتے ہیں اور ان کا دماغ تیزی سے کام کرتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ بہت زیادہ مگر بے ترتیب کھانے کے بجائے ایسے کھانوں کا انتخاب کریں جو جسم کو قوت دے سکتے ہیں۔
ممتاز مصنف چارلس ڈی مارش اپنی کتاب ''پریسکرپشن فار انرجی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ''قوت کی تخلیق نو کا آغاز اچھی غذاؤں سے ہوتا ہے۔ یہ غذائیں اپنی قدرتی حالت میں ہونی چاہئیں۔ یعنی اناج کے بیجوں، گندم، مکئی، جَو، رائی اور جئی کے بیجوں کی تازہ پسائی کرائی گئی ہو۔ بغیر پکائے گئے اناج توانائی سے بھرپور ہوتے ہیں کیونکہ ان میں تمام وٹامنز اور دیگر توانائی بخش اجزا موجود ہوتے ہیں۔‘‘ مارش نے تازہ سبزیاں استعمال کرنے پر بھی بہت زیادہ زور دیا ہے جو بقول اس کے ''جسمانی قوت کا بھرپور خزانہ ہیں۔‘‘
اگر آپ بھی تھکاوٹ کے مریض ہیں تو پھر اپنی غذا کو متوازن بنائیں اور ان اشیا کی مدد سے اپنے لیے بہترین اشیا کا انتخاب کریں۔
اناج کے دانے، بیج اور بادام، اخروٹ اور مونگ پھلی، سبزیاں اور پھل، دن بھر کے تینوں کھانے، ان میں سے کسی ایک گروپ کی اشیا پر مشتمل ہونے چاہئیں اور ان میں ردوبدل کرتے رہنا چاہیے۔ مریض کو خوراک میں قدرتی غذائیت کی کمی کو پورا کرنے کے لیے قدرتی وٹامنز اور منرلز بھی کھانے چاہئیں، کیونکہ کوئی ایک غذائی جزو بھی کم ہو تو اس سے جسمانی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ پینٹوتھینک ایسڈ (وٹامن بی کا ایک عنصر) کی کمی اس لیے شدید تھکاوٹ کا سبب بنتی ہے کہ اس کمی کا ایڈرینل گلینڈز کی کمی سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ درحقیقت تمام بی کمپلیکس وٹامنز اعصاب کی حفاظت کرتے ہیں اور گلینڈز کی کارکردگی کو تیز کر کے جسمانی قوت کو بڑھاتے ہیں۔ سبزی خوروں کی غذائیں، سالم اناج، سبزپتوں والی سبزیاں، چاول، دودھ، بادام، اخروٹ، مونگ پھلی، کیلا، دال، مٹر وغیرہ ہونی چاہئیں کیونکہ یہ وٹامن بی کا بھرپور خزانہ ہوتے ہیں۔ منرلز بھی تھکاوٹ پر قابو پانے میں بڑی مدد دیتے ہیں۔ پوٹاشیم اس کے لیے خاص طور پر مفید ہے۔ پوٹاشیم، کچی سبز پتوں والی سبزیوں میں کافی مقدار میں پایا جاتا ہے۔ کچی سبزیوں اور پھلوں خصوصاً گاجر کا جوس، خواہ تنہا پیا جائے یا چقندر اور کھیرے کے جوس کے ساتھ شامل کر کے پیا جائے، تھکن پر قابو پانے کے لیے بہت مفید پایا گیا ہے۔
تھکاوٹ کے مریض کو ان غذاؤں کے ساتھ ساتھ بھرپور نیند بھی لینی چاہیے۔ تھکاوٹ سے نجات پانے کے لیے مسکن ادویات، چائے، کافی، سگریٹ وغیرہ کا بھی سہارا نہیں لینا چاہیے، کیونکہ یہ دوائیں اور اشیا عارضی طور پر مستعدی پیدا کرنے کے بعد انسان کو دوبارہ اعصاب شکن تھکاوٹ میں مبتلا کر دیتی ہیں، جس کی دقت پہلے سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔