تھکاوٹ اسباب اور علاج

تھکاوٹ اسباب اور علاج

اسپیشل فیچر

تحریر : مشکورالرحمن


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

''تھکاوٹ کی وجہ سے جسم ٹوٹ رہا ہے، کسی کام میں بھی دل نہیں لگ رہا۔ کوئی تکلیف بھی نہیں ہے۔ پتا نہیں مجھے کیا ہو گیا ہے۔‘‘ یہ وہ جملے ہیں جو ہم اکثر و بیشتر اپنے ساتھیوں، دوستوں، عزیزوں یا گھر والوں سے سنتے رہتے ہیں۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اگر آپ نے نیند بھی پوری کر لی ہو، محنت مشقت کا کوئی کام بھی نہ کیا ہو اور کوئی بیماری بھی اس کا سبب نہ ہو تو پھر اس تھکن کا سبب کیا ہے؟
تھکاوٹ، جسم کی شکستگی اور سستی کے احساس کا نام ہے جو وقتی بھی ہو سکتا ہے اور ہمہ وقتی بھی۔ ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے کبھی کبھی مقررہ اوقات سے زائد کام نہ کرنا پڑتا ہو، اس لیے نہ صرف آرام کا وقت قربان کرنا پڑتا ہے بلکہ نیند کی بھی قربانی دینا پڑتی ہے۔ وقت گزر جانے اور مناسب نیند کر لینے سے عارضی یا وقتی نوعیت کی تھکاوٹ دور ہو جاتی ہے لیکن جو تھکاوٹ پیچھا چھوڑنے کا نام ہی نہ لے اور ہر وقت طاری رہے وہ آگے چل کر تشویش ناک شکل اختیار کر سکتی ہے۔ اس طرف سنجیدگی سے مناسب توجہ دینے اور جامع علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ 
اسباب
مستقل تھکاوٹ کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں۔ کئی لوگوں کی یہ خصوصیت بن جاتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو مصروف رکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ وہ بہت سا کام ایک ہی وقت میں نمٹانا چاہتے ہیں۔ جب تک سب کچھ نمٹ نہ جائے انہیں چین ہی نہیں آتا۔ یہ کمال پرستی ہوتی ہے، جو آپ پر ہمیشہ مصروفیت طاری کیے رکھتی ہے۔ جب تک سب کچھ ''مکمل‘‘ نہ ہو جائے یہ لوگ ذہن پر ''بوجھ‘‘ اٹھائے رکھتے ہیں خواہ کتنے ہی تھک چکے ہوں۔ 
تھکاوٹ کا سب سے بڑا سبب کھانے پینے کی غلط عادات اور اس کی وجہ سے جسم میں کمزوری اور ناتوانی کا پیدا ہو جانا ہے۔ تھکاوٹ اس امر کا اظہار ہوتی ہے کہ خوراک سے جسم کے خلیے مناسب مقدار میں معمول کی توانائی حاصل نہیں کر پا رہے۔ بعض غذائیں مثلاً سفید چینی، صاف کردہ اناج، سفید آٹے کی مصنوعات اور ڈبہ بند غذائیں کھانا لوگوں کی عادت بن چکی ہے۔ اس طرح کی غذائیں جسمانی نظام کو عموماً سست اور کمزور بنا دیتی ہیں۔ غذاؤں کو ان کی فطری خصوصیت سے محروم کرنے سے ان کے اندر موجود بیش بہا وٹامنز اور منرلز بڑی حد تک ضائع ہو جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں تھکاوٹ، موٹاپا، اعصاب کی کمزوری اور متعدد دیگر شکایات پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ آج کل یہ شکایات نہایت عام ہیں۔ 
بعض جسمانی کیفیات بھی تھکاوٹ کے باعث جنم لیتی ہیں۔ ان میں سے ایک خون کی قلت یعنی ''انیمیا‘‘ ہے۔ یہ لاحق ہو جائے تو جسمانی ٹشوز کو بہت کم آکسیجن پہنچتی ہے۔ چنانچہ انیمیا کے مریضوں کے جسم میں عموماً بہت کم توانائی پیدا ہوتی ہے اور وہ خود کو تھکے تھکے محسوس کرتے ہیں۔ اس صورتحال کے باعث وہ ڈپریشن میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں۔ انیمیا عام طور پر جسم میں فولاد اور وٹامن بی12 کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ بعض اوقات اس کے مریضوں کے جسم میں وٹامن بی6 اور فولک ایسڈ کی بھی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ 
نیند نہ آنا یا کم خوابی بھی تکلیف دہ تھکاوٹ کا سبب بنتی ہے۔ خواب آور گولیوں اور دیگر ادویات کے ذریعہ لائی گئی نیند، تھکاوٹ کے اسباب دور نہیں کر سکتی۔ پیٹ کے کیڑے بھی تھکاوٹ کی وجہ بن جاتے ہیں کیونکہ وہ خون کے بہترین سرخ ذرات پر پلتے ہیں اور انسانی جسم کو اچھی نشوونما کے ذخیرے سے محروم کر دیتے ہیں۔ تھکاوٹ کی دیگر وجوہات میں کم فشارِ خون، جسم میں کسی انفیکشن کا ہونا، جگر کا عارضہ، تھائی رائیڈ کی ناقص کارکردگی، خوراک کی الرجی، کسی دوا کا سائیڈ ایفیکٹ اور کھانے میں رنگ اور خوشبو کے لیے ملائے جانے والے بعض کیمیکلز کے اثرات بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ ذہنی تناؤ بھی جسمانی تھکاوٹ کے سبب میں سے ہے۔ 
علاج
تھکاوٹ کے علاج کے لیے غذا کو بہترین اور حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق بنانا اہم ترین اقدام ہے۔ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جو لوگ نسبتاً کم غذا کھاتے ہیں یا اعتدال کی حدود میں رہ کر کھاتے ہیں، وہ تھکاوٹ اور اعصابی تناؤ کا کم شکار ہوتے ہیں اور ان کا دماغ تیزی سے کام کرتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ بہت زیادہ مگر بے ترتیب کھانے کے بجائے ایسے کھانوں کا انتخاب کریں جو جسم کو قوت دے سکتے ہیں۔ 
ممتاز مصنف چارلس ڈی مارش اپنی کتاب ''پریسکرپشن فار انرجی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ''قوت کی تخلیق نو کا آغاز اچھی غذاؤں سے ہوتا ہے۔ یہ غذائیں اپنی قدرتی حالت میں ہونی چاہئیں۔ یعنی اناج کے بیجوں، گندم، مکئی، جَو، رائی اور جئی کے بیجوں کی تازہ پسائی کرائی گئی ہو۔ بغیر پکائے گئے اناج توانائی سے بھرپور ہوتے ہیں کیونکہ ان میں تمام وٹامنز اور دیگر توانائی بخش اجزا موجود ہوتے ہیں۔‘‘ مارش نے تازہ سبزیاں استعمال کرنے پر بھی بہت زیادہ زور دیا ہے جو بقول اس کے ''جسمانی قوت کا بھرپور خزانہ ہیں۔‘‘ 
اگر آپ بھی تھکاوٹ کے مریض ہیں تو پھر اپنی غذا کو متوازن بنائیں اور ان اشیا کی مدد سے اپنے لیے بہترین اشیا کا انتخاب کریں۔ 
اناج کے دانے، بیج اور بادام، اخروٹ اور مونگ پھلی، سبزیاں اور پھل، دن بھر کے تینوں کھانے، ان میں سے کسی ایک گروپ کی اشیا پر مشتمل ہونے چاہئیں اور ان میں ردوبدل کرتے رہنا چاہیے۔ مریض کو خوراک میں قدرتی غذائیت کی کمی کو پورا کرنے کے لیے قدرتی وٹامنز اور منرلز بھی کھانے چاہئیں، کیونکہ کوئی ایک غذائی جزو بھی کم ہو تو اس سے جسمانی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ پینٹوتھینک ایسڈ (وٹامن بی کا ایک عنصر) کی کمی اس لیے شدید تھکاوٹ کا سبب بنتی ہے کہ اس کمی کا ایڈرینل گلینڈز کی کمی سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ درحقیقت تمام بی کمپلیکس وٹامنز اعصاب کی حفاظت کرتے ہیں اور گلینڈز کی کارکردگی کو تیز کر کے جسمانی قوت کو بڑھاتے ہیں۔ سبزی خوروں کی غذائیں، سالم اناج، سبزپتوں والی سبزیاں، چاول، دودھ، بادام، اخروٹ، مونگ پھلی، کیلا، دال، مٹر وغیرہ ہونی چاہئیں کیونکہ یہ وٹامن بی کا بھرپور خزانہ ہوتے ہیں۔ منرلز بھی تھکاوٹ پر قابو پانے میں بڑی مدد دیتے ہیں۔ پوٹاشیم اس کے لیے خاص طور پر مفید ہے۔ پوٹاشیم، کچی سبز پتوں والی سبزیوں میں کافی مقدار میں پایا جاتا ہے۔ کچی سبزیوں اور پھلوں خصوصاً گاجر کا جوس، خواہ تنہا پیا جائے یا چقندر اور کھیرے کے جوس کے ساتھ شامل کر کے پیا جائے، تھکن پر قابو پانے کے لیے بہت مفید پایا گیا ہے۔
تھکاوٹ کے مریض کو ان غذاؤں کے ساتھ ساتھ بھرپور نیند بھی لینی چاہیے۔ تھکاوٹ سے نجات پانے کے لیے مسکن ادویات، چائے، کافی، سگریٹ وغیرہ کا بھی سہارا نہیں لینا چاہیے، کیونکہ یہ دوائیں اور اشیا عارضی طور پر مستعدی پیدا کرنے کے بعد انسان کو دوبارہ اعصاب شکن تھکاوٹ میں مبتلا کر دیتی ہیں، جس کی دقت پہلے سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
دنیا کی خوبصورت مساجد

دنیا کی خوبصورت مساجد

جامع الالفار مسجد، کولمبو(سری لنکا)یہ ایک تاریخی مسجد ہے جو کولمبو میں کراس سٹریٹ پر واقع ہے۔ کولمبو سری لنکا کا دارالحکومت ہے جو اس جزیرے کے جنوب مغربی ساحل پر واقع ہے۔ یہ مسجد اتنی خوبصورت ہے کہ شروع سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنی رہی ہے۔ اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اس کو دنیا کی بیس خوبصورت مساجد کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ مسجد کو 1909ء میں کولمبو میں رہنے والے مسلمانوں نے تعمیر کیا تاکہ وہ پانچ وقت کی نماز، نماز جمعہ اور عیدین کی نمازیں ادا کر سکیں۔ اس کے منفرد ڈیزائن میں سفید اور سرخ رنگ کے استعمال نے اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔ اس مسجد کو دیکھ کر یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ اس کے بنانے والوں کے دلوں میں دین اسلام سے کس قدر محبت تھی۔مسجد بیت المکرم، ڈھاکہ(بنگلہ دیش)یہ مسجد بنگلہ دیش کی قومی مسجد ہے، بیت المکرم بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں واقع ہے۔ اس مسجد کا افتتاح 1960ء میں ہوا اور اس وقت اس میں تیس ہزار نمازیوں کی گنجائش تھی۔ اس لحاظ سے یہ دنیا کی دس بڑی مساجد میں شمار کی جاتی ہے لیکن روز بروز مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر یہ مسجد چھوٹی پڑ رہی ہے۔ حکومت کا پروگرام ہے کہ اس مسجد کو توسیع دے کر مزید دس ہزار نمازیوں کی گنجائش پیدا کر لی جائے۔ توسیعی منصوبے کے پایہ تکمیل تک پہنچنے کے بعد اس میں نمازیوں کی گنجائش چالیس ہزار ہو جائے گی۔مسجد بیت المکرم کے ڈیزائن میں یہ انفرادیت ہے کہ وہ کسی حد تک خانہ کعبہ سے مماثلت رکھتا ہے دوسرے اس مسجد کا عام روایتی مساجد کی طرح نہ تو کوئی گنبد ہے، نہ کہیں محرابیں نظر آتی ہیں۔ اس کے باوجود یہ مسجد اپنے منفرد ڈیزائن اور خوبصورتی کی وجہ سے نہ صرف بنگلہ دیش بلکہ دنیائے اسلام میں ایک اعلیٰ مقام رکھتی ہے۔مسجد اُمُّ القریٰ، بغداد(عراق)یہ مسجد سنی مسلک کے مسلمانوں کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ اس کا ڈیزائن صدر صدام حسین کی خلیجی جنگ (17جنوری تا 28فروری 1991ء) کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا تھا۔ یہ مسجد بغداد کے مغرب میں محلہ العادل میں تعمیر کی گئی ہے۔ مسجد کا سنگ بنیاد 28اپریل 1998ء کو صدام حسین کی 65ویں سالگرہ کے دن رکھا گیا اور 28اپریل 2001ء ہی کو مکمل ہوئی۔ اس کی تعمیر پر 7.5ملین ڈالر خرچ ہوئے۔اس مسجد کے چار مینار ہیں جو کلاشنکوف رائفل کی نالی سے مشابہت رکھتے ہیں۔ان میناروں کی بلندی 43میٹر ہے، مسجد کے ارد گرد 28فوارے ہیں، مسجد میں سفید چونے کے پتھر اور نیلے رنگ کی ٹائلیں استعمال کی گئی ہیں۔ صدام حسین نے اس مسجد کے ایک پہلو میں اپنی آخری آرام گاہ کیلئے جگہ کا انتخاب سوچ رکھا تھا۔ عراق پر اتحادیوں کے حملہ کے بعد جب صدام حسین کا زوال شروع ہوا تو اس مسجد کا انتظام سنی علماء کی انجمن نے اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ آج بھی یہ مسجد بغداد کے مسلمانوں کی ایک مرکزی عبادت گاہ سمجھی جاتی ہے۔

رمضان کے پکوان:عربی بریڈ پڈنک

رمضان کے پکوان:عربی بریڈ پڈنک

اجزاء : ڈبل روٹی کے توس چھ عدد ( چاروں طرف کے کنارے کاٹ لیں)، سوکھی خوبانی ایک پیالی( گھٹلی نکال کر باریک باریک کاٹ لیں)، سنگترے کے چھلکے چارعدد ( سفید والا حصہ نکال کر باریک کاٹ لیں )، کنڈینس دودھ ایک ٹن،کارن فلور ایک چائے کا چمچ،بادام دس عدد( باریک کاٹ لیں)،تلنے کے لیے کوکنگ آئل ترکیب :سب سے پہلے ایک فرائنگ پین میں ڈالڈا کوکنگ آئل گرم کریں۔ توس گولڈن برائون تل کر نکال لیں۔ ایک اخبار پر پھیلا دیں تاکہ چکنائی جذب ہوجائے۔ ایک الگ فرائنگ پین لیں۔ دودھ ڈال کر ذرا پکالیں اور کارن فلور ملاکر گاڑھا گاڑھا کرلیں۔ پھر سے ایک فرائنگ پین لے لیں اس میں چینی پگھلا کر خوبانی کے ٹکڑے ، سنگترے کے چھلکے اور بادام ڈال کر پکالیں۔ چینی جب شیرا بن جائے تو اتارلیں۔ تلے ہوئے توس کے اوپر سب سے پہلے اچھی طرح گاڑھا کیا ہوا دودھ لگالیں پھر تینوں چیزیں لگاکر ایک ڈش میں رکھتے جائیں۔ چاہیں تو ٹھنڈا پیش کریں یا گرم گرم پیش کریں۔ دونوں طرح سے مزے دار لگیں گے۔ یہ ڈش پانچ افراد کے لیے کافی ہے۔

حکایت سعدیؒ:نصیحت

حکایت سعدیؒ:نصیحت

حضرت سعدیؒ بیان فرماتے ہیں کہ حاکم شیراز تکلہ بن زنگی نے ایک دن ندیموں کی مجلس میں یہ اعلان کیا کہ میں تخت حکومت چھوڑ کر باقی عمر یادِ خدا میں بسر کروں گا۔ بادشاہ کی یہ بات سنی تو ایک روشن ضمیر بزرگ نے ناراض ہو کر کہا کہ اے بادشاہ! اس خیال کو ذہن سے نکال دے۔ دنیا ترک کر دینے کے مقابلے میں تیرے لیے یہ بات کہیں افضل ہے کہ تو عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کرے اور اپنے اچھے کاموں سے خلق خدا کو فائدہ پہنچائے۔ یاد رکھ! عبادت خلقِ خدا کی خدمت کے سِوا کچھ نہیں۔ تسبیح و سجادہ تو یہ مقصد حاصل کرنے کے ذریعے ہیں۔ صاحبِ دل بزرگوں کا یہ دستور رہا ہے کہ گو ان کے جسم پر بہترین قبا ہوتی تھی لیکن وہ قبا کے نیچے پرانا کُرتا پہنتے تھے۔ تُو بھی یہی طریق اختیار کر۔ صدق و صفا کو اپنا اور شیخی اور ظاہر داری سے بچ۔اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے دنیا سے تعلق کے بارے میں صحیح اسلامی تصور پیش کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان دنیا سے کنارہ کش نہ ہو۔

آج کا دن

آج کا دن

سٹیم بوٹ نے انگلش چینل عبور کیا1816ء میں آج کے روز بھاپ سے چلنے والی 38 ٹن وزنی ایک کشتی نے انگلش چینل کو عبور کیا۔ اس کشتی کے کپتان پیئر انڈریال تھے۔ اس کشتی کو انگلش چینل عبور کرنے والی پہلی بھاپ سے چلنے والی کشتی کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ سٹیم بوٹ سکاٹ لینڈ میں 1814ء میں تیار کی گئی۔ 1815ء میں، فرانسیسی شہری پیئر اینڈریل نے اسے خریدا، اور اس کا نام تبدیل کرکے ''ایلیز‘‘ رکھ دیا۔ اینڈریل نے عوامی رائے کو قائل کرنے کے لیے چینل کی ایک شاندار کراسنگ کو پورا کرنے کا ارادہ کیا کہ بھاپ والے جہاز سمندر کے قابل ہو سکتے ہیں۔سری لنکا کرکٹ کا چیمپئن بنا17مارچ 1996ء کو عالمی کرکٹ کپ کے فائنل میں سری لنکا نے آسٹریلیا کو شکست دی۔ قذافی سٹیڈیم میں پہلی مرتبہ ورلڈ کپ کا فائنل فلڈ لائٹ میں کھیلا گیا۔ ایک مرتبہ کی چیمپئن آسٹریلیا اور پہلی مرتبہ فائنل کھیلنے والی سری لنکا کی ٹیمیں مدمقابل تھیں۔ 30ہزار تماشائیوں کے سامنے سری لنکا نے آسٹریلیا کو 7 وکٹ سے شکست دے کر پہلی مرتبہ عالمی ورلڈ کپ کا اعزاز اپنے نام کیا۔پاکستان کی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے کپتان رانا تنگا کو ورلڈ کپ ٹرافی اور ایک لاکھ ڈالر کا چیک انعام میں دیا۔کولمبیا فضائی حادثہکولمبیئن بوئنگ 727 جیٹ لائنر کی ''فلائٹ 410‘‘ 17 مارچ 1988 کو پہاڑوں میں گر کر تباہ ہو گئی۔ جہاز کو حادثہ ٹیک آف کے فوراً بعد اس وقت پیش آیا جب وہ ایک پہاڑ کے قریب سے گزر رہی تھی۔ جہاز میں سوار تمام 143 افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ اس وقت کولمبیا میں ہونے والا سب سے مہلک ہوا بازی کا حادثہ تھا۔حادثے کی تحقیق کرنے والی ٹیم کے مطابق حادثہ کی متعدد وجوہات تھیں جن میں سے ایک کاک پٹ میں ایک غیر عملے کا پائلٹ، جس کی موجودگی نے پائلٹ کی توجہ ہٹائی اور دوسرے ٹیم کے درمیان ٹیم ورک کی کمی تھی۔ برسلز معاہدہ 17 مارچ 1948ء کو بلجیم،فرانس، ہالینڈ، برطانیہ اور لکسمبرگ کے درمیان 50 سالہ مدت کیلئے برسلز معاہدہ طے کرتے ہوئے مغربی یورپی یونین کی بنیاد رکھی گئی۔ برسلز معاہدہ 1948ء اور 1954ء کے درمیان ویسٹرن یونین کا بانی معاہدہ تھا، اس معاہدے میں رکن ممالک کے درمیان فوجی، اقتصادی، سماجی اور ثقافتی تعاون کی تنظیم کے ساتھ ساتھ باہمی دفاعی شق بھی شامل تھی۔

ہائیپر لوپ ٹیکنالوجی

ہائیپر لوپ ٹیکنالوجی

ذرائع ابلاغ انسانی ترقی میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔زمانہ قدیم میں نقل و حرکت بہت سست تھی اسی وجہ سے ترقی کی منازل بھی سستی روی کا شکار رہی۔ جوں جوں آمدورفت میں تیزی آئی گئی اور لوگ مہینوں کا سفر دنوں میں ، دنوں میں طے ہونے والا فاصلہ گھنٹوں میں اور گھنٹوں کاسفر منٹوں میں طے کرنے لگے تو فاصلے سمٹنے لگے ، دنیا ایک گلوبل ویلیج بن کر رہ گئی۔سات سمندر کی باتیں کتابوں کے و رقوں تک سمٹ گیا۔ برینڈز اور ملٹی نیشنل کمپنیوں نے دنیا کے پہنائووں کو ایک کلچر میں سمیٹ کر رکھ دیا۔ٹیکنالوجی میں جدت نے جہاںفاصلوں کوتوپہلے سمیٹ دیا مگر اب ہائپر لوپ کے ذرائع ابلاغ میں انقلاب برپا کرنے کے لئے تیار ہے۔ہائپر لوپ ٹیکنالوجی آنے والے وقتو ں میں انسانی زندگی پر حیران کن اثرات مرتب کرے گی۔2013ء میں ایلون مسک نے ہائپرلوپ ٹرانسپورٹیشن ٹیکنالوجی کا تصور پیش کیا تھا۔ یہ ایک ایسی تیز رفتار نظام ہے جو مسافروں یا سامان کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک تقریباً 1200 کلومیٹر فی گھنٹہ (تقریباً 760 میل فی گھنٹہ) کی رفتار سے منتقل کر سکتا ہے۔یہ روایتی ریل گاڑیوں، ہوائی جہازوں اور حتیٰ کہ تیز رفتار بلٹ ٹرینوں سے بھی کئی گنا تیز ہے۔ ہائپر لوپ کا بنیادی خیال یہ ہے کہ ایک کم دباؤ والی ٹیوب کے اندر کیپسول نما گاڑیوں (پوڈز) کو بجلی یا مقناطیسی قوت سے چلایا جائے، جہاں ہوا کا دباؤ اور رگڑ (friction) انتہائی کم ہو۔جہاں پر ہائپر لوپ کو دنیا کا تیز ترین سفری سہولت سمجھا جا رہا ہے اورکچھ ممالک میں اس کو عملی جامہ پہنانے کیلئے تیاریاں بھی شروع ہوچکی ہیں۔ تیز ترین سفری سہولت میں کچھ چیلجز بھی درپیش ہیں۔ہائپر لوپ ٹیکنالوجی میں چیلنجز جدید ٹرانسپورٹیشن سسٹم ''ہائپر لوپ‘‘ کو وسیع پیمانے پر قابل عمل بنانے کیلئے کئی چیلنجز اور سائنسی مسائل کا سامنا ہے۔اس ٹیکنالوجی کو درپیش چند مسائل درج ذیل ہیں۔ایک لمبی ٹیوب میں کم دباؤ کو برقرار رکھنا بہت مشکل ہے۔ اگر ٹیوب میں کوئی رساؤ (leak) ہو جائے تو پورا نظام متاثر ہو سکتا ہے۔ اس کیلئے جدید پمپنگ سسٹم اور مضبوط مواد کی ضرورت ہے۔تیز رفتار سے حرکت کرتے ہوئے کیپسول اور ٹیوب کے درمیان حرارت پیدا ہو سکتی ہے۔ اسے کنٹرول کرنے کے لیے کولنگ سسٹم ضروری ہیں۔ اگر کوئی حادثہ ہو جائے تو مسافروں کو کم دباؤ والی ٹیوب سے باہر نکالنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس کے لیے ہنگامی نظام تیار کرنا پڑے گا۔ اس ٹیکنالوجی کو بنانے کیلئے بہت زیادہ سرمایہ درکار ہے، کیونکہ اس میں جدید مواد، مقناطیس اور انفراسٹرکچر کی ضرورت ہوتی ہے۔ہائپر لوپ کے کامیاب ہونے سے دنیا بھر میں سفر کا وقت ڈرامائی طور پر کم ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، لاہور سے کراچی کا سفر جو اب 12 سے 15 گھنٹے لیتا ہے، ہائپر لوپ سے صرف ایک گھنٹے میں ممکن ہو سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف وقت بچے گا بلکہ معاشی سرگرمیاں بھی بڑھیں گی۔ سائنسی تحقیق کے اعتبار سے، ہائپر لوپ نئے مواد، مقناطیسی نظاموں اور توانائی کے استعمال کے طریقوں کو ترقی دے سکتا ہے جو دیگر شعبوں میں بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ ہائپر لوپ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو طبیعیات کے بنیادی اصولوں کو استعمال کرتے ہوئے مستقبل کی نقل و حمل کو تبدیل کر سکتی ہے۔ کم دباؤ والی ٹیوب، مقناطیسی لیویٹیشن اور لکیری انڈکشن موٹر جیسے سائنسی عناصر اسے ممکن بناتے ہیں۔ اگرچہ اس کے سامنے کئی چیلنجز ہیں، لیکن اس کی کامیابی سے انسانیت کو تیز، سستا اور ماحول دوست سفر میسر ہو سکتا ہے۔ یہ ایلون مسک کا ایک انقلابی تصور ہے جو سائنس اور ٹیکنالوجی کے امتزاج سے حقیقت بننے کی طرف بڑھ رہا ہے۔توانائی اور ماحولیاتی فوائدہائپر لوپ کو سائنسی طور پر پائیدار بنانے کیلئے اسے شمسی توانائی (Solar Power) یا دیگر قابل تجدید ذرائع سے چلانے کا منصوبہ ہے۔ ٹیوب کے اوپر شمسی پینلز لگائے جا سکتے ہیں جو دن کے وقت توانائی پیدا کریں گے اور یہ توانائی بیٹریوں میں محفوظ کی جا سکتی ہے۔ چونکہ ہائپر لوپ میں رگڑ اور ہوا کی مزاحمت کم ہوتی ہے، اسے چلانے کیلئے روایتی ٹرانسپورٹ کے مقابلے میں بہت کم توانائی درکار ہوتی ہے۔ماحولیاتی اعتبار سے یہ ٹیکنالوجی کاربن کے اخراج (Carbon Emissions)کو کم کر سکتی ہے کیونکہ یہ ایندھن جلانے کے بجائے بجلی پر چلتی ہے۔ اگر بجلی قابل تجدید ذرائع سے آئے تو یہ صفر اخراج (Zero Emission)نظام بن سکتا ہے۔اس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں ہائپرلوپ ٹیکالوجی سے استفادہ حاصل کرنے کیلئے بھارت ، سعودی عرب، متحدہ امارات، چائنہ ،اٹلی اور کنیڈاکی حکومتیں اس ہائپر لوپ ٹیکنالوجی کو اپنے ملکوں کی عوام کو سفری سہولت کیلئے شروع کرنے کیلئے مختلف کمپنیوں سے معاہدے کرچکے ہیں اور کئی جگہوں پر اس کیلئے کام کا آغاز بھی کردیا گیا ہے۔

گھوڑے اور بھی ہیں

گھوڑے اور بھی ہیں

گھوڑا اس کرۂ ارض کے قدیم ترین جانوروں میں سے ایک ہے۔ماہرین کا قیاس ہے کہ گھوڑوں کا ارتقائی عمل لگ بھگ پانچ کروڑ سال پہلے عمل میں آچکا تھا۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے سب سے پہلی نسل کے گھوڑوں کا سائز ایک عام سائز کے بکرے کے برابر ہوا کرتا تھا۔ زمانۂ قدیم میں چونکہ جانور پالنے کا رواج ابھی شروع نہیں ہوا تھا اس لئے گھوڑوں کا شمار بھی عام طور پر جنگلی جانوروں میں ہوتا تھا۔ سب سے پہلے گھوڑے گھر پر پالنے کا رواج 4000قبل مسیح کے آس پاس ہوا تھا۔گھوڑا صدیوں سے ایک اہم جانور اس لئے بھی چلا آ رہا ہے کہ یہ ایک تیز رفتار اور پر وقار سواری کے ساتھ ساتھ ایک عرصہ تک جنگوں کا اہم جزو ہوا کرتا تھا۔ بلکہ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ جنگ جیتنے کا بہت حد تک دارومدار گھوڑوں پر ہوا کرتا تھا۔ پونی گھوڑےاگرچہ اس کرۂ ارض پر گھوڑوں کی انگنت اقسام پائی جاتی ہیں لیکن جو قسم ابتدائی گھوڑوں کے قریب ترین ہے وہ ''پونی گھوڑوں‘‘ کی ہے۔انہیں عرف عام میں چھوٹا گھوڑا بھی کہا جاتا ہے۔ گھوڑوں کی پیمائش ''ہاتھوں‘‘ کے حساب سے کی جاتی ہے، اس گھوڑے کا سائز تقریباً 14.2 ہاتھ یا 58 انچ اونچا ہوتا ہے جبکہ پونی کا اوسط سائز 8 ہاتھ یعنی تقریباً 32 انچ ہوتا ہے۔پونی ، عام گھوڑوں سے سائز میں تو چھوٹے ہوتے ہیں، ان کے جسم پر بال عام گھوڑوں کی نسبت زیادہ گھنے ہوتے ہیں ، خاص طور پر گردن اور دم پر۔البتہ ان کی ٹانگیں چھوٹی، منہ چوڑے، گردن موٹی، پیشانی کشادہ ہوتی ہے۔ حیرت انگیز طور پر ان کا جسم عام گھوڑے کی نسبت زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ سب خشکی کے گھوڑے ہیں۔ خشکی کے علاوہ اس کرہ پر کچھ اور اقسام کے گھوڑے بھی پائے جاتے ہیں جن میں ایک ''دریائی گھوڑے‘‘ جبکہ دوسری قسم '' سمندری گھوڑوں‘‘ کی ہے۔ دریائی گھوڑے اس روئے زمین پر ہاتھی کے بعد بالحاظ جسامت دریائی گھوڑا سب سے بڑا اور دیو ہیکل جانور ہے۔ بھینسے سے مشابہت رکھنے والے اس جانور کو ماہرین ہاتھی اور گینڈے کے قبیل سے جوڑتے ہیں۔گھاس کھانے والا یہ ممالیہ جانور اس روئے زمین کے قدیم ترین جانوروں میں شمار ہوتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ دریائی گھوڑوں کے اجداد اس روئے زمین پر پانچ کروڑ سال پہلے بھی موجود تھے۔دریائی گھوڑے کا جسم گول مٹول،چار بڑے بڑے نوکیلے دانت ، لمبی چوڑی تھوتھنی، جسم پر چھوٹے چھوٹے بال اور ستون نما چھوٹی اور بھاری بھر کم ٹانگوں والا یہ جانور Hippopotamidae نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ جست تو نہیں لگا سکتا مگر انتہائی ڈھلوان دریائی کناروں پر یہ باآسانی چڑھ سکتا ہے۔دریائی گھوڑے کے نتھنے ، آنکھیں اور کان ، کھوپڑی کے اوپر والے حصے میں ہوتے ہیں جن کی وجہ سے پانی میں چھپنے کے باوجود بھی یہ اپنا ناک ،کان اور نتھنا پانی سے باہر نکال سکتا ہے۔دریائی گھوڑوں کی اوسط عمر 40 سے 50 سال ہوتی ہے۔ جبکہ ان کا اوسط وزن 1500 کلو گرام کے لگ بھگ ہوتا ہے۔سمندر عجیب و غریب اور حیرت انگیز جانداروں کی اتنی بڑی دنیا ہے جس کا شمار ممکن ہی نہیں۔ایسی ہی ایک سمندری مخلوق جس کی شباہت بہت حد تک گھوڑے سے ملتی ہے ،اسے ''سمندری گھوڑے‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کا سر ٹٹو ( Pong) کی شکل کا ہوتا ہے ، اس کا جسم ٹھوس پلیٹوں اور نوک دار کانٹوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ اس کی دم سانپ کی مانند ہوتی ہے ۔ بعض علاقوں میں اسے گھڑ مچھلی کا نام بھی دیا جاتا ہے ۔ماہرین اس کا تعلق مچھلی کے خاندان سے بتاتے ہیں۔اس کی 32 سے زائد اقسام دریافت ہو چکی ہیں۔اس کا عمومی قد تو ایک فٹ سے بھی چھوٹا ہوتا ہے لیکن اس کی ایک قسم کا قد ایک انچ سے بھی کم ہوتا ہے۔اس کا تعلق چونکہ مچھلی کے قبیل سے ہے اور پانی کے اندر ہی رہتا ہے اس لئے دریائی گھوڑے کے برعکس یہ خشکی پر زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس کی خوراک چھوٹے سمندری جھینگوں پر مشتمل ہوتی ہے۔