تھکاوٹ اسباب اور علاج

تھکاوٹ اسباب اور علاج

اسپیشل فیچر

تحریر : مشکورالرحمن


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

''تھکاوٹ کی وجہ سے جسم ٹوٹ رہا ہے، کسی کام میں بھی دل نہیں لگ رہا۔ کوئی تکلیف بھی نہیں ہے۔ پتا نہیں مجھے کیا ہو گیا ہے۔‘‘ یہ وہ جملے ہیں جو ہم اکثر و بیشتر اپنے ساتھیوں، دوستوں، عزیزوں یا گھر والوں سے سنتے رہتے ہیں۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اگر آپ نے نیند بھی پوری کر لی ہو، محنت مشقت کا کوئی کام بھی نہ کیا ہو اور کوئی بیماری بھی اس کا سبب نہ ہو تو پھر اس تھکن کا سبب کیا ہے؟
تھکاوٹ، جسم کی شکستگی اور سستی کے احساس کا نام ہے جو وقتی بھی ہو سکتا ہے اور ہمہ وقتی بھی۔ ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے کبھی کبھی مقررہ اوقات سے زائد کام نہ کرنا پڑتا ہو، اس لیے نہ صرف آرام کا وقت قربان کرنا پڑتا ہے بلکہ نیند کی بھی قربانی دینا پڑتی ہے۔ وقت گزر جانے اور مناسب نیند کر لینے سے عارضی یا وقتی نوعیت کی تھکاوٹ دور ہو جاتی ہے لیکن جو تھکاوٹ پیچھا چھوڑنے کا نام ہی نہ لے اور ہر وقت طاری رہے وہ آگے چل کر تشویش ناک شکل اختیار کر سکتی ہے۔ اس طرف سنجیدگی سے مناسب توجہ دینے اور جامع علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ 
اسباب
مستقل تھکاوٹ کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں۔ کئی لوگوں کی یہ خصوصیت بن جاتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو مصروف رکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ وہ بہت سا کام ایک ہی وقت میں نمٹانا چاہتے ہیں۔ جب تک سب کچھ نمٹ نہ جائے انہیں چین ہی نہیں آتا۔ یہ کمال پرستی ہوتی ہے، جو آپ پر ہمیشہ مصروفیت طاری کیے رکھتی ہے۔ جب تک سب کچھ ''مکمل‘‘ نہ ہو جائے یہ لوگ ذہن پر ''بوجھ‘‘ اٹھائے رکھتے ہیں خواہ کتنے ہی تھک چکے ہوں۔ 
تھکاوٹ کا سب سے بڑا سبب کھانے پینے کی غلط عادات اور اس کی وجہ سے جسم میں کمزوری اور ناتوانی کا پیدا ہو جانا ہے۔ تھکاوٹ اس امر کا اظہار ہوتی ہے کہ خوراک سے جسم کے خلیے مناسب مقدار میں معمول کی توانائی حاصل نہیں کر پا رہے۔ بعض غذائیں مثلاً سفید چینی، صاف کردہ اناج، سفید آٹے کی مصنوعات اور ڈبہ بند غذائیں کھانا لوگوں کی عادت بن چکی ہے۔ اس طرح کی غذائیں جسمانی نظام کو عموماً سست اور کمزور بنا دیتی ہیں۔ غذاؤں کو ان کی فطری خصوصیت سے محروم کرنے سے ان کے اندر موجود بیش بہا وٹامنز اور منرلز بڑی حد تک ضائع ہو جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں تھکاوٹ، موٹاپا، اعصاب کی کمزوری اور متعدد دیگر شکایات پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ آج کل یہ شکایات نہایت عام ہیں۔ 
بعض جسمانی کیفیات بھی تھکاوٹ کے باعث جنم لیتی ہیں۔ ان میں سے ایک خون کی قلت یعنی ''انیمیا‘‘ ہے۔ یہ لاحق ہو جائے تو جسمانی ٹشوز کو بہت کم آکسیجن پہنچتی ہے۔ چنانچہ انیمیا کے مریضوں کے جسم میں عموماً بہت کم توانائی پیدا ہوتی ہے اور وہ خود کو تھکے تھکے محسوس کرتے ہیں۔ اس صورتحال کے باعث وہ ڈپریشن میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں۔ انیمیا عام طور پر جسم میں فولاد اور وٹامن بی12 کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ بعض اوقات اس کے مریضوں کے جسم میں وٹامن بی6 اور فولک ایسڈ کی بھی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ 
نیند نہ آنا یا کم خوابی بھی تکلیف دہ تھکاوٹ کا سبب بنتی ہے۔ خواب آور گولیوں اور دیگر ادویات کے ذریعہ لائی گئی نیند، تھکاوٹ کے اسباب دور نہیں کر سکتی۔ پیٹ کے کیڑے بھی تھکاوٹ کی وجہ بن جاتے ہیں کیونکہ وہ خون کے بہترین سرخ ذرات پر پلتے ہیں اور انسانی جسم کو اچھی نشوونما کے ذخیرے سے محروم کر دیتے ہیں۔ تھکاوٹ کی دیگر وجوہات میں کم فشارِ خون، جسم میں کسی انفیکشن کا ہونا، جگر کا عارضہ، تھائی رائیڈ کی ناقص کارکردگی، خوراک کی الرجی، کسی دوا کا سائیڈ ایفیکٹ اور کھانے میں رنگ اور خوشبو کے لیے ملائے جانے والے بعض کیمیکلز کے اثرات بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ ذہنی تناؤ بھی جسمانی تھکاوٹ کے سبب میں سے ہے۔ 
علاج
تھکاوٹ کے علاج کے لیے غذا کو بہترین اور حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق بنانا اہم ترین اقدام ہے۔ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جو لوگ نسبتاً کم غذا کھاتے ہیں یا اعتدال کی حدود میں رہ کر کھاتے ہیں، وہ تھکاوٹ اور اعصابی تناؤ کا کم شکار ہوتے ہیں اور ان کا دماغ تیزی سے کام کرتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ بہت زیادہ مگر بے ترتیب کھانے کے بجائے ایسے کھانوں کا انتخاب کریں جو جسم کو قوت دے سکتے ہیں۔ 
ممتاز مصنف چارلس ڈی مارش اپنی کتاب ''پریسکرپشن فار انرجی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ''قوت کی تخلیق نو کا آغاز اچھی غذاؤں سے ہوتا ہے۔ یہ غذائیں اپنی قدرتی حالت میں ہونی چاہئیں۔ یعنی اناج کے بیجوں، گندم، مکئی، جَو، رائی اور جئی کے بیجوں کی تازہ پسائی کرائی گئی ہو۔ بغیر پکائے گئے اناج توانائی سے بھرپور ہوتے ہیں کیونکہ ان میں تمام وٹامنز اور دیگر توانائی بخش اجزا موجود ہوتے ہیں۔‘‘ مارش نے تازہ سبزیاں استعمال کرنے پر بھی بہت زیادہ زور دیا ہے جو بقول اس کے ''جسمانی قوت کا بھرپور خزانہ ہیں۔‘‘ 
اگر آپ بھی تھکاوٹ کے مریض ہیں تو پھر اپنی غذا کو متوازن بنائیں اور ان اشیا کی مدد سے اپنے لیے بہترین اشیا کا انتخاب کریں۔ 
اناج کے دانے، بیج اور بادام، اخروٹ اور مونگ پھلی، سبزیاں اور پھل، دن بھر کے تینوں کھانے، ان میں سے کسی ایک گروپ کی اشیا پر مشتمل ہونے چاہئیں اور ان میں ردوبدل کرتے رہنا چاہیے۔ مریض کو خوراک میں قدرتی غذائیت کی کمی کو پورا کرنے کے لیے قدرتی وٹامنز اور منرلز بھی کھانے چاہئیں، کیونکہ کوئی ایک غذائی جزو بھی کم ہو تو اس سے جسمانی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ پینٹوتھینک ایسڈ (وٹامن بی کا ایک عنصر) کی کمی اس لیے شدید تھکاوٹ کا سبب بنتی ہے کہ اس کمی کا ایڈرینل گلینڈز کی کمی سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ درحقیقت تمام بی کمپلیکس وٹامنز اعصاب کی حفاظت کرتے ہیں اور گلینڈز کی کارکردگی کو تیز کر کے جسمانی قوت کو بڑھاتے ہیں۔ سبزی خوروں کی غذائیں، سالم اناج، سبزپتوں والی سبزیاں، چاول، دودھ، بادام، اخروٹ، مونگ پھلی، کیلا، دال، مٹر وغیرہ ہونی چاہئیں کیونکہ یہ وٹامن بی کا بھرپور خزانہ ہوتے ہیں۔ منرلز بھی تھکاوٹ پر قابو پانے میں بڑی مدد دیتے ہیں۔ پوٹاشیم اس کے لیے خاص طور پر مفید ہے۔ پوٹاشیم، کچی سبز پتوں والی سبزیوں میں کافی مقدار میں پایا جاتا ہے۔ کچی سبزیوں اور پھلوں خصوصاً گاجر کا جوس، خواہ تنہا پیا جائے یا چقندر اور کھیرے کے جوس کے ساتھ شامل کر کے پیا جائے، تھکن پر قابو پانے کے لیے بہت مفید پایا گیا ہے۔
تھکاوٹ کے مریض کو ان غذاؤں کے ساتھ ساتھ بھرپور نیند بھی لینی چاہیے۔ تھکاوٹ سے نجات پانے کے لیے مسکن ادویات، چائے، کافی، سگریٹ وغیرہ کا بھی سہارا نہیں لینا چاہیے، کیونکہ یہ دوائیں اور اشیا عارضی طور پر مستعدی پیدا کرنے کے بعد انسان کو دوبارہ اعصاب شکن تھکاوٹ میں مبتلا کر دیتی ہیں، جس کی دقت پہلے سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
’’اسلامو فوبیا‘‘ ایک عالمی مسئلہ

’’اسلامو فوبیا‘‘ ایک عالمی مسئلہ

وزارت مذہبی امور کا 15 مارچ کو یوم تحفظِ ناموس رسالت ﷺ کے طور پر منانے کا اعلاناسلامو فوبیا ایک سماجی اور سیاسی مسئلہ ہے جو دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ یہ اصطلاح ان تعصبات، خوف اور نفرت کو بیان کرتی ہے جو بعض افراد یا گروہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف رکھتے ہیں۔ یہ مسئلہ نہ صرف مغربی دنیا میں بلکہ کئی دیگر معاشروں میں بھی موجود ہے اور وقت کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ اسلامو فوبیا کے اثرات نہ صرف مسلم کمیونٹیز بلکہ مجموعی طور پر عالمی امن اور سماجی ہم آہنگی پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔وزارت مذہبی امور نے 15 مارچ کو یوم تحفظِ ناموس رسالت ﷺ کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے۔مراسلے میں پنجاب، سندھ، اسلام آباد، خیبر پختونخوا، بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے سیکرٹریز مذہبی امور کو توہین مذہب کا مواد روکنے کے حوالے سے آگاہی مہم چلانے کی سفارشات کی گئی ہیں۔مولانا حنیف جالندھری، علامہ افضل حیدری، مفتی منیب الرحمن، پروفیسر ڈاکٹر ساجد میر اور مولانا عبدالمالک سے بھی لائحہ عمل بنا کر عوام میں آگاہی مہم چلانے کی اپیل کی گئی ہے۔ تاریخی پس منظراسلامو فوبیا سے مراد وہ غیر منطقی خوف، نفرت اور تعصب ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پایا جاتا ہے۔ یہ کوئی نیا رجحان نہیں بلکہ اس کی جڑیں صدیوں پرانی ہیں۔ صلیبی جنگوں، نوآبادیاتی نظام اور یورپی نشاۃ ثانیہ کے دوران مسلمانوں کے خلاف مختلف بیانیے پروان چڑھے جو آج بھی کئی معاشروں میں نظر آتے ہیں۔ پاکستان نے اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی سطح پر آواز بلند کی اور 15 مارچ 2022ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس سے متعلق قرارداد بھی پیش کی ، پاکستان کی پیش کردہ قرارداد میں 15 مارچ کو اسلاموفوبیا سے نمٹنے کے عالمی دن کے طور پر متعارف کروانے کی پیشکش کی گئی۔ اسلاموفوبیا سے نمٹنے کے عالمی دن کا مقصد مسلمانوں اور انسانی حقوق کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر رواداری کو فروغ دینا ہے ، پاکستان کی پیش کردہ قرارداد میں دہشت گردی کو کسی بھی مذہب اور قومیت سے منسوب نہ کرنے پر بھی زور دیا گیا۔15 مارچ 2022ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسلاموفوبیا سے نمٹنے کے عالمی دن کی قرارداد کو 55 ممالک کی حمایت کے ساتھ منظور کیا گیا تاہم اسلامو فوبیا سے نمٹنے کی قرارداد کی مخالفت کرنیوالے ممالک میں بھارت سر فہرست تھا جو مسلمانوں کیخلاف انتہاء پسندی، تشدد، ظلم و جبر میں نمایاں تاریخی کردار رکھتا ہے۔اسلامو فوبیا کی وجوہاتاسلامو فوبیا کے پھیلنے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، جن میں سب سے نمایاں درج ذیل ہیں:٭... میڈیا میں اسلام اور مسلمانوں کی منفی تصویر کشی ایک بڑی وجہ ہے۔ ٭...دہشت گردی اور انتہا پسندی کے واقعات کو اسلام سے جوڑنے کے باعث غیر مسلموں میں غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔ ٭...کئی سیاستدان اور جماعتیں اسلامو فوبیا کو اپنے سیاسی فائدے کیلئے استعمال کرتی ہیں۔ مغربی ممالک میں اسلام مخالف بیانیہ بعض سیاستدانوں کیلئے ووٹ حاصل کرنے کا ذریعہ بن چکا ہے۔٭...یورپ اور مسلم دنیا کے درمیان تاریخی تصادم، جیسے کہ صلیبی جنگیں اور سامراجی طاقتوں کے قبضے، بھی اسلامو فوبیا کے فروغ میں معاون ثابت ہوئے ہیں۔٭... بعض غیر مسلم افراد اسلامی ثقافت اور رسوم و رواج کو اپنے معاشرے کیلئے خطرہ سمجھتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ مسلمانوں کے بارے میں منفی خیالات رکھتے ہیں۔٭... بعض انتہا پسند گروہ، جو اسلام کی غلط تشریح کرتے ہیں، اسلامو فوبیا کو مزید تقویت دیتے ہیں۔ مغربی دنیا میں مسلمانوں کو اجتماعی طور پر ان گروہوں سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے۔ اثراتاسلامو فوبیا کے کئی سنگین اثرات ہوتے ہیں، جو نہ صرف مسلمانوں بلکہ مجموعی طور پر عالمی امن و استحکام پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔٭... بہت سے ممالک میں مسلمانوں کو تعصب، امتیازی سلوک اور جسمانی و زبانی حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔٭... اسلامو فوبیا مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے درمیان دوریاں پیدا کرتا ہے، جس کی وجہ سے سماجی ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے۔٭... بعض ممالک میں مسلمانوں کو نوکریوں، تعلیم اور دیگر مواقع میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس سے وہ ترقی میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔٭... اسلامو فوبیا عالمی سطح پر تنازعات کو جنم دیتا ہے اور ممالک کے درمیان تعلقات کو متاثر کرتا ہے۔٭... اسلامو فوبیا کے نتیجے میں مسلمان کمیونٹیز میں خوف اور عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے، جو ان کی روزمرہ زندگی پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ اقداماتاسلامو فوبیا کے خاتمے کیلئے درج ذیل اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔تعلیم اور آگاہیاسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں حقیقی اور مثبت معلومات فراہم کی جائیں تاکہ غلط فہمیوں کو دور کیا جا سکے۔میڈیا کی ذمہ داریمیڈیا کو چاہیے کہ وہ غیر جانبدار رپورٹنگ کرے اور مسلمانوں کے خلاف منفی پروپیگنڈے سے گریز کرے۔ میڈیا میں مسلمانوں کے مثبت کردار کو اجاگر کرنا ضروری ہے۔قانون سازیحکومتوں کو اسلامو فوبیا کے خلاف سخت قوانین بنانے چاہئیں تاکہ کسی بھی قسم کے نفرت انگیز جرائم کو روکا جا سکے۔بین المذاہب مکالمہمختلف مذاہب کے درمیان بہتر تعلقات کے لیے مکالمے اور ثقافتی تبادلوں کو فروغ دیا جائے تاکہ غلط فہمیوں کو کم کیا جا سکے۔سوشل میڈیا کا مثبت استعمال سوشل میڈیا پر اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں درست معلومات کی ترویج کی جائے تاکہ لوگوں کو حقیقت سے آگاہ کیا جا سکے۔اگرچہ اسلامو فوبیا ایک پیچیدہ اور گہرا مسئلہ ہے، لیکن اگر مناسب اقدامات کیے جائیں تو اس کا خاتمہ ممکن ہے۔ تعلیم، میڈیا، سیاسی قیادت اور بین المذاہب ہم آہنگی کے ذریعے اس مسئلے کو کم کیا جا سکتا ہے، تاکہ دنیا میں باہمی احترام اور امن کو فروغ دیا جا سکے۔اسلامو فوبیا کے خاتمے کیلئے معاشرے کے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگر ہم اپنی سوچ کو وسعت دیں، دوسروں کے نظریات اور عقائد کو سمجھنے کی کوشش کریں اور غلط فہمیوں کو دور کریں تو ایک پرامن اور ہم آہنگ دنیا کی تشکیل ممکن ہو سکتی ہے۔جینواسائیڈ رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں اسلاموفوبیا اب محض امتیازی سلوک نہیں رہا بلکہ باضابطہ ریاستی نظریہ بن چکا ہے اور بی جے پی نے 192 ملین مسلمانوں کے خلاف اسلاموفوبیا کے ذریعے پرتشدد پروگرام کا آغاز کردیا ہے۔  

رمضان کے پکوان:ڈیٹس پائی

رمضان کے پکوان:ڈیٹس پائی

اجزاء :میدہ دوپیالی ،کھجوریں 200گرا م ،نمک چٹکی بھر ،بیکنگ پائوڈردوچائے کے چمچ ،پسی ہوئی چینی دوکھانے کے چمچ ،مکھن یا مارجرین ایک کھانے کا چمچ ،تیاری کا وقت :20سے 25منٹ ، بیکنگ کا وقت :20 سے 25منٹ ، تعداد :10 سے 12 عدد ترکیب :بناسپتی گھی کو کانٹے کی مددسے ہلکا سا پھینٹ لیں اور فریج میں رکھ کر ٹھنڈا کر لیں۔ میدہ میں بیکنگ پائوڈر ڈال کر چھان لیں پھر اس میں نمک اوربناسپتی گھی ڈال کر دوکانٹوں کی مدد سے ملالیں۔ درمیان میں حسب ضرورت ٹھنڈا یخ پانی ایک ایک چمچ کر کے ڈالتے جائیں تاکہ وہ گندھے ہوئے آٹے کی شکل میں آجائے۔ خیال رہے کہ یہ سارا عمل ٹھنڈی جگہ پر کریں اور اس آٹے کو دس منٹ کیلئے فریج میں رکھ دیں۔ پھر اس کی روٹی بیل لیں اور کٹر کی مددسے گول پور یوں کی طرح کاٹ لیں ۔پین کو ہلکا سا چکنا کرکے اس میں خشک میدہ چھڑک لیں اور ہرپوری کو احتیاط سے ایک ایک سانچے میں لگالیں۔ کانٹے سے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر سوراخ کردیں تاکہ بیک ہوتے ہوئے پھولنے نہ پائے۔ اوون کو بیس منٹ پہلے گرم کرکے اس سانچے کو اس میں رکھیں اور بیس سے پچیس منٹ کیلئے بیک کرلیں۔ گولڈن برائون ہونے پر اوون سے نکال کر ٹھنڈا کرلیں۔ فلنگ بنانے کے لیے :کھجوروں کو صاف دھوکر ان کے بیج نکال لیں اور ان کو ہلکی آنچ پر پکنے رکھ دیں، پانچ سے سات منٹ پکانے کے بعد اس میں ایک کا چمچ مارجرین یا مکھن اور چینی ڈال کر چولہے سے اتارلیں ۔چمچ سے کچلتے ہوئے ٹھنڈا کرلیں اور ہرپائی شیل میں ایک ایک کھانے کا چمچ ڈال دیں۔ اس خوبصورت اور مزیدار ڈش کوآج کل مہمانوں کو بنا کر پیش کریں۔ فش شامی کباب اجزاء:مچھلی کے قتلے ایک کلو ، چنے کی دال آدھی پیالی،آلو ایک عدد، نمک حسب ذائقہ ،لہسن کے جوئے چار سے چھ عدد،پیازایک عدد درمیانی، لال مرچ پسی ہوئی ایک کھانے کا چمچ، سفید زیرہ ایک کھانے کا چمچ،دہی آدھی پیالی،ہری مرچیں دوسے تین عدد ،ہرادھنیا آدھی گٹھی ،ڈبل روٹی کا چورا حسب ضرورت ، انڈے دوعدد ،کوکنگ آئل حسب ضرورت ۔تیاری کا وقت : پندرہ سے بیس منٹ ،پکانے کا وقت :آدھا گھنٹہ ،تعداد:دس سے بارہ عدد ترکیب :چنے کی دال کو دھوکر پندرہ سے بیس منٹ بھگو کر رکھیں پھر ابلا کر گلا لیں اس کے ساتھ ہی آلو بھی چھیل کر شامل کردیں۔ مچھلی کو صاف دھوکر رکھیں اور اس پر کچلا ہوا لہسن نمک ، لیموں کارس لگالیں۔ دس منٹ رکھ کر اسے درمیانی آنچ پر اتنی دیر پکائیں کہ مچھلی کا اپنا پانی خشک ہوجائے۔ پین میں دوکھانے کے چمچ کوکنگ آئل کو گرم کرکے اس میں باریک کٹی ہوئی پیاز کو ہلکی سنہری فرائی کرلیں۔ پھر اس میں لال مرچ ، زیرہ اور دہی ڈال کر بھونیں، ساتھ ہی دا ل اور مچھلی شامل کردیں۔ اچھی طرح دہی کا پانی خشک ہونے پر اتارلیں اور ٹھنڈا ہونے پر چاپرمیں پیس لیں اس مکسچر میں نمک، باریک کٹی ہوئی ہری مرچھیں اور ہرادھنیا شامل کردیں۔ حسب پسند شیپ کے کبا ب بنالیں اور دس منٹ کیلئے فریج میں رکھ دیں۔ فرائنگ پین میں کوکنگ آئل کو درمیانی آنچ پر گرم کریں اور ان کبابوں کو پھینٹے ہوئے انڈے میں ڈبو کر ڈبل روٹی کا چورا لگالیں اور سنہرے فرائی کرلیں۔ شام کی چائے پر ان مزیدار کبابوں کا چٹنی یا کیچپ کے ساتھ لطف اٹھائیں۔    

حکایت سعدیؒ : طاقت اور بزدلی

حکایت سعدیؒ : طاقت اور بزدلی

حضرت سعدیؒ فرماتے ہیں، ایک دفعہ میں بلخ سے چند شامیوں کے ساتھ سفر پر روانہ ہوا۔ اس دنوں قزاق اکثر قافلوں کو لوٹ لیتے تھے اور ہمیں بھی راستے میں ہر لحظہ قزاقوں کے حملہ کا ڈر تھا۔ ہماری رہبری اور نگہبانی ایک قوی الجثہ نوجوان کر رہا تھا۔ وہ سر تا پا ہتھیار سجائے اوپچی بنا ہوا تھا۔ جوانی کے زور میں جو دیوار سامنے آتی اسے گرا دیتا اور بڑے بڑے تن آور درختوں کو اپنے قوت بازو سے اکھاڑ دیتا تھا۔ اس نوجوان کا جسم تو فی الواقع بہت بھاری تھا اور شہ زوری میں اس کا کوئی کلام نہ تھا لیکن اس نے اپنے گھر کے اندر نازونعمت سے پرورش پائی تھی اور زمانے کی سختی نہیں دیکھی تھی۔ اس سے پہلے اس نے نہ کبھی سفر کیا تھا، نہ اس کی آنکھوں نے شہ سواروں کی تلواروں کی چمک دیکھی تھی اور نہ اس کے کان دلاوروں کے نعروں اور جنگی نقاروں کی آواز سے آشنا ہوئے تھے۔ اثنائے سفر میں یکایک ایک چٹان کے پیچھے سے دو قزاق نمودار ہوئے۔ ایک کے ہاتھ میں لکڑی اور دوسرے کے ہاتھ میں موگری تھی۔ انہوں نے ہم سے لڑنے کا قصد کیا تو میں نے اس نوجوان سے کہا ''دیکھتا کیا ہے آگے بڑھ کر ان کا کچومر نکال دے‘‘ لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ نوجوان کے ہاتھ سے کمان گر پڑی اور اس کے بدن پر لرزہ طاری ہو گیا۔ ناچار ہم نے اپنا مال و اسباب اور ہتھیار قزاقوں کے حوالے کیے اور اپنی جان بچائی۔ اس سے سبق ملتا ہے کہ وہ شہ زور تو تھا لیکن تجربہ کار اور بہادر نہ تھا۔ وہ طاقت کس کام کی جو استعمال ہی نہ ہو پائے۔

آج کا دن

آج کا دن

  کرائسٹ چرچ حملہ    کرائسٹ چرچ نیوزی لینڈ میں 15مارچ 2019ء کو ایک خوفناک حادثہ پیش آیا جس نے نیوزی لینڈ کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی انسانیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ایک دہشت گردریکاٹن کے مضافاتی علاقے میں واقع مسجد النور میں دوپہر 1بجکر 40منٹ پر داخل ہوا اور اندھادھند فائرنگ شروع کر دی ۔ کچھ لوگ نماز پڑھ کر فارغ ہو چکے تھے جبکہ کچھ نماز پڑھ رہے تھے ۔حملہ آور مسجد سے گزرتا ہوا اسلامک سینٹر میں داخل ہوا ۔ اس نے وہاں بھی فائرنگ جاری رکھی اور یہ سلسلہ1بجکر52منٹ تک چلتا رہا۔ اس قتل عام میں 51افراد شہید جبکہ40افراد زخمی ہوئے۔ یہ واقع اسی اسلاموفوبیا کا نتیجہ تھا جو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف مغربی میڈیا کی جانب سے پھیلایا جاتا تھا۔ خواتین کی پہلی بوٹ ریسخواتین کی بوٹ ریس کا ہر سال انعقاد کیا جاتا ہے۔ پہلی مرتبہ یہ ریس آکسفورڈ یونیورسٹی وومن بوٹ کلب اور کیمبرج یونیورسٹی بوٹ کلب کے درمیان15مارچ1927ء میں ہوئی۔ 1964ء کے بعد سے اب تک اس ریس کا ہر سال انعقاد کیا جاتا ہے جس میں دونوں یونیورسٹیوں کی طالبات شریک ہوتی ہیں۔ یہ ریس لندن میں موجود دریائے تھامس میں پٹنی سے مورٹ لیک تک کھیلی جاتی ہے اور اس کا کل فاصلہ4.2میل ہے۔دنیا کا پہلا ٹیسٹ میچآسٹریلیا اور برطانیہ کے درمیان کرکٹ کی تاریخ کا پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا گیا۔1876ء میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے دورے کوفرسٹ کلاس کرکٹ کا پہلا آفیشل دورہ بھی مانا جاتا ہے۔ اس سے قبل بھی برطانیہ کی کالونیاں آپس میں کرکٹ دورے کرتی تھیں لیکن 1876ء میں ہونے والے دورے کوآفیشل ہونے کی وجہ سے زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔ اسی دورے کے دوران برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان میلبورن کرکٹ گراؤنڈ میں دنیا کا پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا گیا۔فن لینڈ میں خانہ جنگی1918ء کو فن لینڈ میں شروع ہونے والی خانہ جنگی نے شدت اختیار کر لی اور آج کے دن ٹیمپیر کے مقام پر ایک نئی جنگ کا آغاز ہوا۔ یہ جنگ فن لینڈ کے دو گروہوں کے درمیان لڑی گئی اور 6اپریل تک جاری رہی۔ٹیمپیر کے مقام پر ہونے والی اس جنگ میں بہت زیادہ خون بہایا گیا ، فن لینڈ کی تاریخ میں اسے آج بھی بطور سیاہ دن یاد کیا جاتا ہے۔اس خوفناک لڑائی میں تقریباً30ہزار افراد نے حصہ لیا۔ 

مسجد مہابت خان پشاور  تاریخی عظمت اور ثقافتی ورثے کا شاہکار

مسجد مہابت خان پشاور تاریخی عظمت اور ثقافتی ورثے کا شاہکار

خیبر پختونخوا کا دارالحکومت پشاور تاریخ اور ثقافت کا ایک بڑا مرکز ہے۔ یہ شہر قدیم تہذیبوں، جنگی معرکوں اور تجارتی شاہراہوں کا چشم دید گواہ ہے۔ پشاور شہر کے قلب میں واقع مسجد مہابت خان اپنے ماضی کی داستانیں سناتی ہے۔17ویں صدی میں تعمیر کی گئی مسجد مہابت خان مغلیہ فن تعمیر کا ایک شاندار نمونہ ہے اور پشاور کی شناخت کا اہم حصہ ہے۔ مسجد مہابت خان کی بنیاد 1670ء کے لگ بھگ مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کے دور میں رکھی گئی۔ اس کا نام اس کے بانی مہابت خان کے نام پر رکھا گیا جو اُس وقت پشاور کا مغل گورنر تھا۔ مہابت خان نے شہنشاہ شاہجہاں اور اورنگزیب کے ادوار میں متعدد خدمات انجام دیں اور اپنی وفاداری اور انتظامی صلاحیتوں کی بدولت مشہور ہوا۔ اس مسجد کی تعمیر کا مقصد نہ صرف عبادت گاہ بنانا تھا بلکہ مغلیہ اقتدار کے عروج کو بھی ظاہر کرنا تھا۔ تاریخی روایات کے مطابق مسجد مہابت خان کی تعمیر میں مقامی کاریگروں کے ساتھ ساتھ وسط ایشیا سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے بھی حصہ لیا۔ یہ مسجد مغلیہ سلطنت کی مذہبی رواداری اور فن تعمیر کے ذوق کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مسجد مہابت خان مغلیہ طرزِ تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہے جس میں فارسی، ہندی، اور پختون تعمیراتی عناصر کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔ مسجد کا مرکزی دروازہ بلند اور مقرنسوں (Muqarnas) سے مزین ہے جو آنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ مسجد کے اندر ایک وسیع صحن ہے جس کے درمیان وضو کے لیے ایک حوض واقع ہے۔ مسجد کے تین گنبد ہیں جن میں مرکزی گنبد سب سے بڑا اور نمایاں ہے۔ گنبدوں پر سفید اور نیلے رنگ کی ٹائلوں سے بنے ہوئے پھولدار نقوش ہیںجو مغلیہ آرٹ کی عکاسی کرتے ہیں۔ میناروں کی بلندی اور ان پر بنے ہوئے جیومیٹریکل ڈیزائن مسجد کو شہر کے دیگر قدیم ڈھانچوں سے ممتاز بناتے ہیں۔ مسجد کا داخلی حصہ قرآنی آیات اور خطاطی سے آراستہ ہے۔ دیواروں پر پھول پتیوں اور عربی طرز کے نقوش دیکھنے والوں کو مبہوت کر دیتے ہیں۔ محراب اور ستونوں پر لکڑی کا نفیس کام اور پتھر پر کی گئی منبت کاری مغلیہ دور کی مہارت کو ظاہر کرتی ہے۔ مسجد مہابت خان نے اپنے طویل دور میں کئی تاریخی کئی اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ 19ویں صدی میں جب سکھ سلطنت نے پشاور پر قبضہ کیا تو اس مسجد کو بھی نقصان پہنچا۔ سکھ حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں مسجد کا کچھ حصہ عارضی طور پر فوجی استعمال میں آیا لیکن مقامی آبادی کی مضبوط وابستگی کی بدولت اس کی اصلیت برقرار رہی۔ انگریز دور میں بھی مسجد کو بحال کرنے کی کوششیں ہوئیںلیکن اصل بحالی کا کام 20ویں صدی میں پاکستان کی حکومت نے کیا۔ 2010ء کے عشرے میں مسجد کی مرمت کا کام دوبارہ شروع ہوا جس میں بین الاقوامی ماہرین نے بھی معاونت کی تاکہ اس کی تاریخی تفصیلات کو محفوظ کیا جا سکے۔ مسجد مہابت خان صرف ایک عبادت گاہ ہی نہیں پشاور کی ثقافتی شناخت کا درجہ بھی رکھتی ہے۔ یہاں روزانہ ہزاروں نمازی جمع ہوتے ہیںجبکہ جمعۃالمبارک اور اور رمضان المبارک کے دوران یہ تعداد کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ مسجد کے صحن میں علما کے دروس اور قرآنی محافل کا اہتمام بھی باقاعدگی سے کیا جاتا ہے۔ یہ مسجد سیاحوں کے لیے بھی ایک اہم مقام ہے۔ اس کی تاریخی عمارت سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ خاص طور پر مغلیہ دور کے فن پاروں میں دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے یہ جگہ ایک زندہ عجائب خانہ کی مانند ہے۔ وقت کے ساتھ اس مسجد کی ساخت کو قدرتی عوامل اور انسانی مداخلت سے نقصان پہنچا ہے۔ تاہم حکومت اور عالمی ورثہ کے لیے کام کرنے والے اداروں کی مشترکہ کوششوں سے اس کی بحالی کا کام جاری ہے۔ 2021ء میں خیبر پختونخوا کی حکومت نے مسجد مہابت خان کے میناروں اور گنبدوں کی مرمت کے لیے خصوصی فنڈز جاری کیے تاکہ انہیں آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ بنایا جا سکے۔ مسجد مہابت خان تاریخ، فن تعمیر اور ثقافت کا ایک خوبصورت نمونہ ہے۔ اس کی تعمیر میں پوشیدہ محنت، اس کی دیواروں میں جڑی ہوئی داستانیں اور اس کے گنبدوں سے گونجتی ہوئی اذانیں اسے شہر کی روح بناتی ہیں۔ یہ مسجد ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ تہذیبی ورثے کی حفاظت صرف عمارتوں کو بچانے کا نام نہیں بلکہ ان میں موجود جذبات‘ عقائد اور تاریخ کو زندہ رکھنا ہے۔ امید ہے کہ آنے والی نسلیں اس تاریخی شاہکار کو اسی طرح سنبھال کر رکھیں گی جس طرح ہمارے آباؤ اجداد نے اسے ہم تک پہنچایا۔ 

رمضان کے پکوان: ڈیٹ ڈئیلائٹ

رمضان کے پکوان: ڈیٹ ڈئیلائٹ

اجزا:کھجوریں دو پیالی درمیان میں سے گھٹلی نکال کر گودا بنالیں، بسکٹ ایک پیکٹ،ناریل آدھی پیالی ،چینی آدھی پیالی ،فریش کریم ایک پیالی، مارجرین چارکھانے کے چمچ،(چاہیں تو بناسپتی گھی بھی استعمال کرسکتے ہیں)۔ ترکیب :سب سے پہلے ایک دیگچی میں مارجرین کو ہلکا سا گرم کریں، پھر اس میں کھجوروں کا گودا ڈال کر ہلکا سا بھون لیں۔ تاکہ اچھاسا پیسٹ بن جائے پھر شکر اور ناریل کی گری ڈال کر پانچ سے دس منٹ تک بھونیں بسکٹ کو توڑ کر چورا کرلیں پھر سب چیزوں کے ساتھ بسکٹ بھی ڈال دیں، دوتین منٹ بھون کر ایک تھالی میں ذرا سی چکنائی لگاکر کھجور اور بسٹ کے آمیزے کو پھیلا کر رکھ دیں۔ ٹھنڈا ہونے دیں فریش کریم کو خوب پھینٹیں، جب وہ گاڑھا ہوجائے تو اس کے اوپر ڈال دیں، چوکور ٹکڑے کاٹ کر پیش کریں۔ یہ ڈش چار سے چھ افراد کے لیے کافی ہے۔ ہاٹ چکن سلاد اجزاء : مرغی 4کپ (ابلی ہوئی چھوٹے چوکور ٹکڑوں میں کٹی ہوئی)،کریم آف چکن سوپ 2کپ ،مایونیز 4کپ ،سفید بٹن مشروم 1کپ (باریک کٹے ہوئے )،دھنیا ایک گڈی (باریک کٹا ہوا)،آلو کے چپس 1کپ (کچلے ہوئے )،چیڈرچیز 1کپ (کدوکش کی ہوئی)،کوکنگ آئلمایونیز بنانے کی ترکیب10عدد انڈوں کی زردی کو اچھی طرح پھینٹ لیں اس میں دوکھانے کے چمچ فرنچ مسٹرڈ اور سرکہ ایک کھانے کا چمچ ملادیں، اس میں 250گرام کوکنگ آئل تھوڑا تھوڑا کرکے شامل کریں اور پھینٹتی جائیں جب تک یہ مایونیز مکمل نہ بن جائے۔ کریم آف چکن سوپ بنانے کی ترکیب :ایک دیگچی میں کھانے کا ایک چمچہ کوکنگ آئل ڈالیں ساتھ ہی ایک چائے کا چمچ میدہ ڈال دیں اسے ہلکی آگ پر 2منٹ پکائیں پھر چولہے سے اتار کر اس میں ایک عدد مرغی کی یخنی ملادیں اور اس وقت تک پکائیں جب تک گاڑھا نہ ہوجائے۔ اب چولہے سے اتار کر اس میں تازہ کریم دو کپ ڈال دیں اور ملالیں کریم آف چکن سوپ تیار ہے۔ سلاد بنانے کی ترکیب :ایک پیالے میں مرغی کے ٹکڑے ، کریم آف چکن سوپ، مایونیز، سفید بٹن مشروم اور دھنیا باریک کٹا ہواسب ملا کر اچھی طرح سے یک جان کرلیں، ایک بیکنگ ڈش لے کر اس کو ہلکا سا چکنا کریں، اس مکسچر کو اس ڈش میں ڈالیں۔ ڈش میں آمیزے کو پھیلا کر اوپر سے پنیر اور چھڑک دیں۔ 20منٹ تک 350ڈگری یا بہت تیز گرم اوون میں بیک کریں اس سلاد کو 20منٹ بعد گرم گرم پیش کریں۔