11ممالک میں بہنے والا ’’دریائے نیل‘‘

  11ممالک میں بہنے والا ’’دریائے نیل‘‘

اسپیشل فیچر

تحریر : خاور نیازی



براعظم افریقہ میں واقع 6695کلو میٹر کی لمبائی کے باعث دریائے نیل دنیا کا طویل ترین دریا ہے ۔ بنیادی طور پر دریائے نیل دو دریاؤں (نیل ابیض اور نیل ازرق ) کے ملاپ سے مزید گہرا ہو جاتا ہے ۔ دریائے ابیض جنوبی روانڈا سے نکل کر شمال کی جانب تنزانیہ ، یوگنڈا اور جنوبی سوڈان کو چھوتا ہوا آگے رواں دواں رہتا ہے ۔جبکہ دریائے ازرق ایتھوپیا میں جھیل ٹانا سے نکلتا ہے، جنوب مشرق میں سوڈانی شہر خرطوم میں دونوں کا ملاپ ہوتا ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں ایک نیا دریا ''دریائے نیل ‘‘ بنتا ہوا نظر آتا ہے۔ سوڈان پہنچ کر اسکی رفتار میں خاطر خواہ کمی آ جاتی ہے کیونکہ یہاں اس کا گزر ایک بہت بڑی دلدل سے ہوتا ہے ۔ دنیا کی اس سب سے بڑی دلدل کی لمبائی سات سو کلو میٹر ہے ۔
خرطوم کے بعد اس کا ملاپ اتبارا کے مقام پر دریائے اتبارا سے ہوتا ہے جو دراصل حبشہ کے پہاڑوں سے نکلنے والی جھیل ٹانا کا ایک دریا ہے یہ دریائے اتبارا کے نام سے شہرت رکھتا ہے۔جہاں یہ مصری سرحد پر واقع دنیا کی سب سے بڑی مصنوعی جھیل ''جھیل ناصر‘‘ میں شامل ہو جاتا ہے ۔یہاں اسوان کے مقام پر ایک بند باندھنے کی وجہ سے بہت بڑی جھیل وجود میں آئی ۔ اس جھیل سے چھوٹی چھوٹی نہروں اور سرنگوں کی مدد سے ایک طرف پانی سے بجلی پیدا کی جانے لگی ہے جبکہ دوسری طرف آبپاشی سے زمینوں کو سر سبز کھیتوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے ۔ شاید اسی وجہ سے زمانہء قدیم میں مصر کی بنجر زمینوں کو نیل کی بدولت سر سبز و شاداب دیکھ کر یونانی مورخ ودویش نے مصر کو ''نیل کا عطیہ ‘‘کہا تھا۔قاہرہ پہنچ کر دریائے نیل مختلف شاخوں میں تقسیم ہو کر اسکندریہ کے قریب بحیرہ روم میں گر جاتا ہے ۔
دریا کی رفتار اور پانی کی مقدار جانچنے کے لئے زمانہء قدیم میں اہل مصر نے ایک پیمانہ ایجاد کر رکھا تھا جسے انہوں نے ''نیلو میٹر‘‘کا نام دے رکھا تھا۔بنیادی طور پر دریا کے کنارے ایک کمرے پر مشتمل جس میں ایک سوراخ کے ذریعے پانی آتا رہتا تھا جس کے ذریعے پانی کا درجہء حرارت، پانی کا رنگ اور رفتار معلوم ہوتی رہتی تھی۔اس کا باقاعدہ تحریری ریکارڈ رکھا جاتا تھا جس کے ذریعے سیلاب کی آمد کی قبل از وقت پیش گوئی کر کے فصلوں کے لئے احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کیا جا سکتا تھا۔
دریائے نیل کا منبع:دریائے نیل کے آغاز کا مقام تحقیق کا باعث ضرور تھا لیکن یہ ایک مشکل ترین کام تھااس لئے کسی نے کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی ۔ ایک تو اس دریا کی لمبائی بہت زیادہ ہے، یہ گیارہ ملکوں کو عبور کرتااوردوسرے ا کثر مقامات پر پانی کا بہائو اس قدر تیز ہوتاہے کہ پہاڑوں اور چٹانوں کو کاٹتا ہوا ایسے نوکیلے کناروں میں تبدیل کر دیتا ہے جسے عبور کرنا اتنا آسان نہیں رہتا۔ اٹھارویں صدی میں کچھ یورپی سیاحوں نے افریقہ کے اندرونی علاقوں کو دریافت کرنے کا سوچا۔ چنانچہ 1857ء میں دو سیاح رچرڈ برٹن اور جان ہیننگ ٹن اسپیک افریقہ کے مشرقی ساحل سے عازم سفر ہوئے۔ دشوار گزار راستوں سے گزرتے ہوئے برٹن شدید بیمار ہوگیا۔ جبکہ اسپیک نے ہمت نہ ہاری اور یوگنڈا کے شہر کمپالا میں واقع جھیل وکٹوریہ تک جا پہنچا ۔ اس نے کہا کہ دراصل اسی مقام سے دریائے نیل شروع ہوتا ہے ۔
دلچسپ انکشافات: دریائے نیل یوگنڈا سے شروع ہو کر 11ممالک سے ہوتا ہوا بحیرہ روم میں جا گرتا ہے ۔ ان ممالک میں یوگنڈا، تنزانیہ، وانڈا، برونڈی ، کونگو،کینیا، ایتھوپیا، کینشاسا، ایری ٹیریا، سوڈان اور مصر شامل ہیں ۔
دریا کے کنارے پر کئی تاریخی اور گنجان آباد شہر آباد ہیں جن میں قاہرہ، الیگزینڈریا، خرطوم، اساوان اور لکسور شامل ہیں ۔ مشہور مصری تہذیب بھی اسی دریا کے کنارے پر آباد ہے ۔
اس دریا کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ قرآن پاک میں بھی اس کا ذکر موجود ہے ۔
یہ دنیا کا واحد دریا ہے جو جنوب سے شمال کی سمت بہتا ہے جبکہ باقی سب دریا شمال سے جنوب کی طرف بہتے ہیں ۔
''نیل ‘‘کے لفظی معنی دریا کے ہیں ۔جبکہ لفظ ''نیل‘‘یونانی لفظ Nelios سے نکلا ہے ۔
اسکندریہ شہر دریائے نیل ہی کے کنارے آباد ہے۔ یہ وہی شہر ہے جس کا نام سکندر اعظم کے نام پر رکھا گیا تھا۔ یہیں پر زمانہء قدیم میں ''لائٹ ہاؤس ‘‘بنایا گیا تھا جسے عرف عام میں ''روشن مینار‘‘ بھی کہتے ہیں ،لائٹ ہاؤس بھی عجائبات عالم میں شامل ہے ۔
یہ دریا دنیا کے گیارہ ممالک کے چالیس سے پچاس کروڑ افراد کی پانی کی مختلف ضروریات پوری کرتا ہے ۔یہ صدیوں سے حبشہ کے میدانوں سے اپنے ساتھ زرخیز مٹی لا کر مصر کی زمینوں کو زرخیز کرتا آ رہا ہے جس سے مصر کی زمینیں سونا اگلتی آ رہی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اس خطے میں شاید ہی کوئی اور زمین اس قدر زرخیز ہو۔
حیرت انگیز قدیم روایات:یہ عظیم دریا زمانہء قدیم میں مصریوں کو بہت پر اسرار معلوم ہوتا تھا ۔وہ تعجب کرتے کہ ہر سال باقاعدگی سے اپنے مخصوص وقت پر اس میں تغیانی کہاں سے آ جا تی ہے ۔ پرانی روایات کے مطابق اس بارے میں طرح طرح کے افسانے گھڑ لئے گئے تھے ۔
چونکہ زمانہء قدیم میں نیل آمدورفت کا سب سے موثر ذریعہ تھا اس لئے مصری دریائے نیل کی پوجا کرتے ۔ یہ دریا ہر سال 17جون کی رات کو چڑھنا شروع ہو جاتا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی اس قدیم تصور کے چند پجاری موجود ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
بھڑیں کھانے والوں کا گائوں

بھڑیں کھانے والوں کا گائوں

دنیا کے بیشتر ممالک میں بھڑیں ایک زہریلا اور خطرناک کیڑا تصور ہوتی ہیں لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ جاپان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں بھڑوں کو نہ صرف گھر گھر پالا جاتا ہے بلکہ انہیں بڑی رغبت سے کھایا بھی جاتا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم آپ کو جاپان کے ایک منفرد گاؤں کی سیر کرائیں پہلے آپ کو بھڑوں کی زندگی بارے کچھ بنیادی معلومات بتائے دیتے ہیں۔ دنیا بھر میں بھڑوں کی تین ہزار سے زیادہ اقسام ہیں۔ اگرچہ برصغیر میں بھی بھڑوں کی متعدد اقسام ہیں لیکن سب سے زیادہ نمایاں اور زیادہ پائی جانے والی بھڑوں میں پیلے رنگ والیبھڑ اور دوسری کالے رنگ کی جو سائز میں اس سے بڑی ہوتی ہے عرف عام میں اسے بھونڈ( Hornest) کہتے ہیں۔یہ دونوں اقسام پاکستان میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ان کی لاتعداد اقسام ہیں لیکن ان کے رنگ جدا جدا ہوتے ہیں۔ ماہرین نے پاکستان میں پائی جانے والی بھڑوں کو دو گروپوں میں تقسیم کر رکھا ہے، ایک کو انہوں نے سوشل یا سماجی بھڑوں کا نام دے رکھا ہے جبکہ دوسری قسم کو تنہائی پسند بھڑوں کے نام کی شناخت دے رکھی ہے۔سوشل بھڑیں آپس میں مل کر چھتے بنا کر گروہ کی شکل میں رہتی ہیں۔ یہ بھڑیں پیلے اور کالے رنگ پر مشتمل ہوتی ہیں۔یہ اپنے چھتوں میں اپنی خوراک اکٹھا کرکے اپنے بچوں کو پالنے میں مگن رہتی ہیں۔اگر انہیں تنگ نہ کیا جائے تو یہ عام طور پر حملہ آور نہیں ہوتیں لیکن ذرہ سا بھی خطرہ محسوس کرنے پر یہ اپنے مخالف پر حملہ آور ہو کر ڈنگ مارنے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔ دوسری قسم تنہائی پسند بھڑوں پر مشتمل ہوتی ہے۔یہ اپنے چھتوں میں صرف اپنے بچوں کے ساتھ تنہا رہتی ہیں۔ چنانچہ ایک چھتے میں صرف ایک مادہ بھڑ کا ہی راج ہوتا ہے جو اپنے بچوں کو جوان کرنے تک اسی چھتے میں رہتی ہیں۔ یہ قسم ڈنگ مارنے سے گریز کرتی ہے۔اس کی ساخت عام بھڑوں کے مقابلے میں لمبی اور پتلی ہوتی ہے اور عام طور پر اڑتے ہوئے تنہا نظر آتی ہے۔ عام طور پر بھڑوں کی لمبائی ایک سے دو انچ کے درمیان ہوتی ہے جبکہ سب سے چھوٹی بھڑ جسے ''چیلسڈ‘‘ (Chalcid)کہا جاتا ہے، اس کی لمبائی بمشکل اعشاریہ 0055 انچ ہوتی ہے۔ چیلسڈ بھڑ کو دنیا کے سب سے چھوٹے کیڑے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ بھڑوں کی یہ دونوں اقسام گوشت خور ہیں۔ یہ کیڑے مکوڑوں کا شکار کر کے انہیں اپنے چھتوں میں لے جا کر خود بھی کھاتی ہیں اور اپنے بچوں کو بھی کھلاتی ہیں۔ بھڑوں کی زیادہ سے زیادہ عمر ایک سال سے کچھ کم ہی ہوتی ہے جبکہ بعض انواع کی زندگی چند ماہ پر محیط ہوتی ہے۔کشی ہارا:جاپان کا ایک منفرد گاوں جاپان میں صدیوں سے بھڑوں کو بطور خاص غذا استعمال کیا جاتا رہا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اب یہ روایت جاپانی علاقے گیفو پری فیکچر تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ بھڑوں کو بطور خوراک استعمال کرنا کب سے ہو رہا ہے، اس بارے جاپان کی نوناکارکو یونیورسٹی کے ہسٹری آف کلچر کے ایک پروفیسر کنیچی گزشتہ تیس سالوں سے جاپان کی قدیم روایات بالخصوص دم توڑتی روایات پر تحقیق کر رہے ہیں۔پروفیسر کنیچی کا کہنا ہے کہ اگرچہ جاپان کے طول وارض میں بھڑوں کو کھانے کے واضح شواہد دستیاب ہیں۔ یہ بھی طے ہے کہ ایسا ایک عرصے سے ہو رہا ہے لیکن بدقسمتی سے سردست ان کے استعمال کے صحیح عرصے کا تعین نہیں ہو سکا ہے۔ پروفیسر کنیچی کہتے ہیں اس روایت میں کوئی سچائی نظر نہیں آتی کہ لوگوں نے محض اپنی پروٹین کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے بھڑوں کو خوراک کا حصہ بنایا ہو گا۔ اس دلیل کے دفاع میں کنیچی کہتے ہیں کہ اگرچہ سو گرام بھڑوں میں یقیناً کافی پروٹین کی مقدار ہوتی ہو گی لیکن اصل مسئلہ اتنی مقدار میں بھڑوں کا وسیع پیمانے پر دستیاب ہونا ہے۔پروفیسر موصوف کہتے ہیں کہ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ لوگوں نے ان حشرات کو تب تب کھایا ہو گا جب کبھی اتفاق سے انہیں معقول مقدار میں بھڑیں ملتی رہی ہوں گی۔البتہ یہ کبھی ان کی مکمل خوراک نہیں ہوتی ہو گی بلکہ جب مل گیا اسے اضافی ڈش کے طور پر یا خوشی کے بعض تہواروں پر استعمال کیا جاتا رہا ہو گا۔ چونکہ بھڑوں کے شکار کا حصول ایک روائتی طریق کار کے گرد گھومتا ہے جو نئی نسل کے مزاج سے مطابقت نہ رکھنے کے سبب رفتہ رفتہ سکڑ کر بہت حد تک جاپان کے ایک ضلع اینا کے شہر ''کشی ہارا ‘‘ اور چند دوسرے شہروں تک محدود ہو گیا ہے۔چنانچہ یہی چیز یہاں کے قدیم شہر کشی ہارا کو جاپان کے دوسرے شہروں سے ممتاز کرتی ہے۔یہاں کے باسی گزشتہ 31 سالوں سے اپنے کلچر کو زندہ رکھنے کیلئے ہر سال ماہ نومبر کے پہلے اتوار کو ایک خوبصورت میلے کا انعقاد کرتے ہیں جس کی تیاریاں یہاں کے مقامی لوگ کئی ماہ پہلے سے شروع کر دیتے ہیں۔ مقامی لوگ اس میلے کو ''کشی ہارا ہیبو مایٹسوری‘‘ کہتے ہیں۔ واضح رہے مقامی زبان میں کالی بھڑوں کو ''ہیبو‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ہیبو نسل کی بھڑیں غیر جارحانہ طبیعت کی مالک ہوتی ہیں جس کے سبب انہیں پکڑنا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ دراصل بنیادی طور پر یہی ہیبو بھڑیں ہی اس میلے کا مرکزی کردار ہوتی ہیں۔ایک ماہ پہلے سے منعقد اس میلے کا اختتام ماہ نومبر کی پہلی اتوار کو ہوتا ہے اور اسی دن ہیبو کا سب سے بڑا اور بھاری چھتہ لانے والے کو ٹرافی دی جاتی ہے جو مقامی روایات کے مطابق جیتنے والے کیلئے بہت بڑا اعزاز تصور ہوتی ہے۔بھڑوں کے شکارکیلئے یہاں کے باسی صدیوں سے رائج یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں جس کے تحت یہ مچھلی کی کھال سے اترنے والے چمکدار چھلکوں کو ایک بڑے سفید کاغذ پر چپکا کر رکھ دیتے ہیں۔جیسے ہی کسی بھڑ کی اس پر نظر پڑتی ہے وہ ان میں سے ایک سفید چمکتا چھلکا اٹھا کر چلتی بنتی ہے ، موقع کی تاڑ میں شکاری اس کے پیچھے پیچھے چل پڑتے ہیں یہ ان بھڑوں کے چھتوں تک پہنچنے کی کارگر تکنیک ہے۔ یہاں انہیں حسب منشا چھتے مل جاتے ہیں۔ اس میلے نے دراصل یہاں کے باسیوں کو سکھا دیا ہے کہ بھڑوں کا شکار کس طرح کرتے ہیں۔احوال ایک منفرد میلے کا کشی ہارا ہیبو میلے کے میدان کے باہر علی الصبح شائقین کی ایک لمبی قطار لگ جاتی ہے جبکہ اندر ایک سٹیج پر چار بزرگ جو اس میلے کے مقابلوں کے جج ہیں ، اپنی میز سجا کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ان کے گرد و نواح میں چاروں طرف لگے سٹالوں پر بھڑوں سے تیار شدہ ڈشیں جن میں زرد بھڑوں سے تلی ''ہیبو جاکلیٹ‘‘، ''ہیبو گوئی موچی‘‘ اور زرد اور کالی بھڑوں کی بہت ساری ڈشیں سجی رکھی ہوتی ہیں، جنہیں لوگ مزے لے لے کر کھا رہے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف مقابلے کے شرکاء ہاتھوں میں بھڑوں کے چھتے لئے انتظامیہ کے حوالے کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ سلسلہ شام تک جاری رہتا ہے۔ چنانچہ سورج ڈھلنے سے پہلے جج صاحبان ایک لمبے جائزے کے بعد سب سے بڑے اور سب سے وزنی چھتے کا انتخاب کر کے جیتنے والے امیدوار کو ٹرافی سے نوازتے ہیں، جس کے ساتھ یہ رنگا رنگ میلہ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔

پاکستان کی دس بلند ترین عمارتیں

پاکستان کی دس بلند ترین عمارتیں

پاکستان ترقی کے مراحل میں ہے۔ پیشرفت تھوڑی سست ہے لیکن آج ہم نے دوسرے ممالک کے ساتھ آگے بڑھنے کیلئے مختلف شعبوں میں کئی سنگ میل حاصل کیے ہیں۔ دیگر ممالک کی طرح پاکستان کے شہر بھی ترقی کر رہے ہیں۔ اگرچہ اتنی ترقی نہیں ہوئی جتنی آپ دنیا کے دوسرے حصوں میں دیکھ سکتے ہیں، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم کافی حد تک ترقی کر چکے ہیں۔ ''اسکائی لائنز‘‘ یا فلک بوس عمارتیں کسی بھی ملک کی ترقی کو ظاہر کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے کئی شہروں نے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کیلئے کئی اونچی عمارتیں تعمیر کی ہیں۔ انفراسٹرکچر اور فلک بوس عمارتیں متوازی چل رہی ہیں۔ پاکستان کے معروف شہروں جیسے کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں زیادہ تر اونچی عمارتیں ہیں۔ یہاں ان کی اونچائی کے مطابق ٹاپ 10 بلند ترین عمارتوں کا ذکر کیا جا رہاہے۔ بحریہ آئیکون ٹاوربحریہ آئیکون ٹاور پاکستان کی بلند ترین عمارت ہے جس کی 62 منزلیں ہیں۔ یہ کراچی میں واقع ہے۔ اس اسکائی لائن کو مکمل کرنے میں 10 سال لگے۔ یہ عمارت شاپنگ مال اور رہائشی اپارٹمنٹس کیلئے وقف ہے۔ چپل اسکائی مارکچپل اسکائی مارک پاکستان کا سب سے اونچا رہائشی ٹاور ہے۔ یہ 50 منزلہ عالیشان عمارت ہے جو کراچی میں واقع ہے۔ اس عمارت کی تعمیر جاری ہے۔ اس فلک بوس عمارت کی تعمیر کا بنیادی مقصد رہائشی ٹاورز کو ایک نیا طرز زندگی فراہم کرنا ہے۔ بخت ٹاوربخت ٹاور ہمارے پاس پاکستان کی تیسری بلند ترین عمارت ہے جو آپریشنل ہے۔ اس کی 34 منزلیں اور 476 فٹ اونچی ہے۔ یہ بھی کراچی میں واقع ہے اور 2015ء میں مکمل ہوا۔ اوقیانوس ٹاورزاس عمارت کا پرانا نام دی مال یا سوفیٹل ہوٹل پلازہ تھا۔ یہ شاید پاکستان کی سب سے بڑی عمارت ہے۔ یہ کراچی میں سی ویو کلفٹن کے قریب واقع ہے جس کی 30 منزلیں ہیں۔ اس اسکائی سکریپر کو مکمل کرنے میں تقریباً سات سال لگے۔ یہ 2014ء میں مکمل ہوا۔ میگا جی 4 ٹاوریہ میگا جی 4 ٹاور بلاک کراچی کلفٹن کے علاقے میں واقع ہے۔ یہ2016 ء میں مکمل ہوا اور اس کی 30 منزلیں ہیں جن کی اونچائی 387 فٹ ہے۔ یہ عمارت خریداروں کیلئے جنت ہے جسے خریداری، فوڈ کورٹ اور کچھ دیگر سرکاری مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ڈولمین ٹاورزڈولمین ٹاورز رہائشی اور کارپوریٹ سیکٹر دونوں کیلئے ایک پروجیکٹ ہے۔ یہ پاکستان کی بلند ترین عمارتوں کی فہرست میں بھی شامل ہے جن کی 45 منزلیں اور 656 فٹ بلند ہیں۔ اس اسکائی لائن کی تعمیر 2019ء میں مکمل ہوئی ۔کانسٹی ٹیوشن ایونیو ٹاور 1 اور 2آئینی ٹاورز اسلام آباد میں واقع ہیں جس کی 26 منزلیں ہیں۔ اس کی اونچائی 344 فٹ ہے۔ یہ سال 2014 ء میں مکمل ہوئے۔ سینٹورس مالسینٹورس اسلام آباد پاکستان کی بلند ترین عمارتوں میں سے ایک ہے۔ اس کی 26 منزلیں ہیں اور تقریباً 110 میٹر اونچی ہے۔ یہ منصوبہ 2013 ء میں مکمل اور آپریشنل ہوا۔یوفون ٹاور اسلام آبادیہ ٹیلی کام ٹاور اسلام آباد جناح ایونیو میں واقع ہے۔ یوفون ٹاور اسلام آباد زیادہ تر کارپوریٹ دفاتر کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ یہ فلک بوس عمارت 2010 ء میں مکمل ہوئی تھی۔ یوفون ٹاور کی 28 منزلیں ہیں اور اس کی اونچائی 371 فٹ ہے۔جے ایس سینٹرکراچیجے ایس سینٹر کراچی میں ایک اور فلک بوس عمارت ہے۔ یہ 31 منزلہ عمارت ہے جس کی اونچائی 100 میٹر ہے۔ اس کی تعمیر 2011 ء میں شروع ہوئی اور 2013 ء میں مکمل ہوا۔آنے والے وقت میں بلند ترین عمارتیں انسانی ضرورت کا حصہ بن چکی ہوں گی۔ کیونکہ ان بلند عمارتوں کی تعمیر سے زمین کو کم اسے کم استعمال میں لا کر زیادہ لوگوں کو رہائشی سہولیات مہیا کرنا ہے جس سے آنے والے وقت میں زمین کی کمی جیسے مسائل کوحل کرنا ہے۔

آج کا دن

آج کا دن

مراکش کی تاریخ کا تباہ کن زلزلہ8ستمبر 2023ء میں مراکش میں آنے والے 7 شدت کے زلزلے سے متعدد شہر لرز اٹھے، تاریخی فصیلوں کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ مراکش کے نیشنل جیو فزیکل انسٹی ٹیوٹ کے مطابق 8 کلومیٹر کی گہرائی میں آنے والے زلزلے کا مرکز ملک کے شمال میں واقع مراکش کا الحوز علاقہ تھا۔ زلزلے کے جھٹکے ملک کے کئی شہروں میں محسوس کیے گئے۔ رات 11 بجکر کر 10 منٹ پر آنے والے زلزلے سے جن شہروں میں اموات ہوئیں ان میں مراکش، ازیلال، اگادیر، ورزازات اور چیچاؤ شامل ہیں۔ اس زلزلے سے 2800افراد ہلاک ہوئے جبکہ 25لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے۔برطانوی ملکہ الزبتھ دومبرطانیہ میں طویل ترین عرصے تک ملکہ رہنے والی الزبتھ دوم 96 برس کی عمر میں 8ستمبر 2022ء میں فوت ہوئیں۔ الزبتھ دوم 70 سال تک برطانیہ کی ملکہ رہیں۔ وہ 1952ء میں تخت نشین ہوئیں اور اس دوران انہوں نے کئی اتار چڑھائو دیکھے۔ ملکہ الزبتھ کے دور اقتدار کا دورانیہ جنگ عظیم دوم کے بعد کفایت شعاری کی مہم، بادشاہت سے دولت مشترکہ میں منتقلی، سرد جنگ کے خاتمے اور برطانیہ کی یورپی یونین میں شمولیت اور پھر علیحدگی پر مشتمل تھا۔ اس دوران ونسٹن چرچل سے لزٹرس تک 15 وزرائے اعظم آئے۔ان 70 برسوں میں دنیا کی سیاست اور سماج میں کئی انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں لیکن وہ نہ صرف اپنے منصب پر برقرار رہیں بلکہ انہیں برطانیہ میں استحکام کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ناسا کے خلائی مشن ''جینیسس‘‘ کی تباہی 2004ء میں آج کے روز ناسا کی خلائی گاڑی ''جینیسس‘‘ مشن سے واپسی پر گر کر تباہ ہو گئی۔ ناسا نے اس مشن کے دوران خلاء مین موجود شمسی ذرات کو اکٹھا کر کے تجربات کیلئے زمین پر لانا تھا۔ جینیسس کو 8 اگست 2001ء کو لانچ کیا گیا تھا، اور نمونے اکٹھے کرنے کے بعد 8 ستمبر 2004ء کو کیپسول یوٹاہ میں گر کر تباہ ہو گیا۔ حادثہ پیرا شوٹ کے نہ کھلنے کے باعث پیش آیا۔یہ اپالو پروگرام کے بعد خلائی مواد اکٹھا کر کے زمین پر لانے کا پہلا مشن تھا اور اس دوران چاند کے مدار سے باہر مواد کو بھی اکٹھا کیا گیا تھا۔

حجاب مسلمان عورت کی پہچان بھی ، وقار بھی

حجاب مسلمان عورت کی پہچان بھی ، وقار بھی

''حجاب‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ہیں آڑ، وہ پردہ جس کے پیچھے کوئی شے چھپی ہوئی ہو۔ عام طور پر حجاب سے مراد خواتین کا سر، چہرہ یا جسم کا ڈھکنا یا چھپانا لیا جاتا ہے۔ اسلام میں حجاب کا تعلق پردہ سے ہے جس کو شرم و حیا اور اخلاقی اقدار کے تحفظ کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔ یہ مسلمان عورت کی پہچان بھی ہے اور وقار بھی۔ چار ستمبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں ''حجاب کا عالمی دن‘‘ منایا جاتا ہے۔ اس دن کی بنیاد فرانس کی جانب سے پردے کے خلاف پابندیاں بنیں، عالمی یوم حجاب کے موقع پر مختلف تقریبات منعقد کی جاتی ہیں جن میں حجاب کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی جاتی ہے جبکہ تمام بڑے شہروں میں خصوصی سیمینارز، کانفرنسز اور اجلاس کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ ہر سال 4 ستمبر کو حجاب کا عالمی دن ان لاکھوں مسلمان خواتین کی نمائندگی کرتا ہے جو حجاب پہننے کا انتخاب کرتی ہیں۔ یہ دن تمام مذاہب کی خواتین کو حجاب پہننے اس کا تجربہ کرنے کی ترغیب دینے کا بھی دن ہے۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ مسلمان عورتیں رسول اللہﷺ کے ساتھ صبح کی نماز میں شریک ہوتیں۔ اس حال میں کہ انہوں نے اپنے جسم کو چادروں میں لپیٹا ہوتا، پھر وہ نماز ادا کرنے کے بعد اپنے گھروں کو واپس چلی جاتیں اور اندھیرے کی وجہ سے ان کو کوئی پہچان بھی نہ پاتا تھا(صحیح بخاری) لہٰذا، اگر کوئی پوچھے کہ حجاب یا پردہ کیوں ضروری ہے، تو صرف ایک ہی مناسب جواب ہو گا کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے یہی فیصلہ فرمایا ہے۔ موجودہ دور میں حجاب کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ حجاب اور پردہ ایسی چیز ہے جو عورت کو مکمل طور پر ڈھانپ لیتا ہے اور معاشرے میں بے حیائی کی ساری جڑیں کاٹ دیتا ہے۔ اکثر خواتین حجاب کو خوبصورتی کیلئے پہنتی ہیں۔ اب تو حجاب اور عبایا کو شادی شدہ خواتین اور گھریلو خواتین ہی نہیں بلکہ لڑکیاں بھی شوق سے پہن رہی ہیں۔ حجاب اور عبایا کو عورت کا حسن بھی کہہ سکتے ہیں۔ خواتین کی ان ہی دلچسپیوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے مارکیٹ میں حِجاب اور عبایا کے نِت نئے ڈیزائنز متعارف کرائے جا رہے ہیں، جو کہ خواتین کی توجہ اپنی طرف مبذول کرتے ہیں۔جس طرح حجاب پردے کیلئے مفید ہے اسی طرح اس کے اور بھی بہت سے فائدہ دینے والے پہلو ہیں۔ جیسا کہ اس وقت ہر کوئی حجاب کے فیشن میں ملبوس ہے۔ اس میں نت نیا روپ بنایا جا رہا ہے۔ یہ ہر عمر کی خواتین میں فیشن کے رجحانات کے طور پر پھیل چکا ہے۔ جب کوئی باہر جاتا ہے تو اس کی جلد اور بالوں کا سب سے بڑا دشمن دھول اور سورج کی شعاعیں ہیں لہٰذا حجاب جلد اور بالوں کی حفاظت کا ایک اچھا طریقہ ہو سکتا ہے۔حجاب دنیا کے بیشتر خطوں میں مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔خواتین اسے پردہ اور فیشن دونوں حوالوں سے استعمال کرتی ہیں۔ حجاب کی مختلف اقسام پر نظر ڈالی جائے تو عربی حجاب خواتین میں بہت مقبول ہیں اور یہ نہایت باوقار تاثر پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح سلک حجاب ، ترکش حجاب اور پلینڈ حجاب بھی شخصیت کی خوبصورتی میں بے پناہ اضافہ کرتے ہیں۔بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں حجاب پہننے پر پابندی ہے اور خواتین کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مثلاً سوئٹزرلینڈ ان پانچ ممالک میں سے ایک ہے جہاں چہرہ ڈھانپنے پر پابندی ہے۔ فرانس نے 2011ء میں عوام میں پورے چہرے کے نقاب پہننے پر پابندی لگا دی تھی۔ ڈنمارک، آسٹریا، نیدرلینڈز اور بلغاریہ میں بھی عوامی مقامات پر چہرے کے نقاب پر مکمل پابندی ہے۔اس کے علاوہ بہت سے ممالک ایسے بھی ہیں جہاں حجاب لازمی ہے۔ ایران، افغانستان اور انڈونیشیا کے صوبہ آچے میں خواتین کیلئے حجاب لازمی ہے۔ 2018ء کے بعد سے، سعودی عرب میں قانون کے مطابق اب اس کی ضرورت نہیں ہے۔ دیگر ممالک، یورپ اور مسلم دنیا دونوں میں، حجاب پر پابندی کے قوانین منظور کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی دنیا کے بہت سے ممالک میں خواتین کے حجاب کو ترجیح دی جاتی ہے۔اکیسویں صدی میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں۔ہر شعبے میں خواتین مردوں کا مقابلہ کرتی ہیں اور بہت سے میدان ایسے ہیں جہاں خواتین نے مردوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے اور دنیا بھر میں مسلمان خواتین نے اپنی منفرد پہچان بنائی ہے۔خواتین حجاب کے ساتھ کام کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتیں بلکہ حجاب والی لڑکیاں خود اعتمادی سے ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں۔  

لاہور غزنویوں سے مغلوں تک ہر حکمران اس شہر سے وابستہ رہا

لاہور غزنویوں سے مغلوں تک ہر حکمران اس شہر سے وابستہ رہا

شہر لاہور کو زمانہ قدیم سے ہی خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس شہر کے بارے میں ایک محاوارہ بہت مشہور ہے کہ ''جنے لاہور نہیں ویکھیا او جمیاای نئی‘‘ یعنی کہ جس نے لاہور نہیںدیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ اس شہر کے بارے میں اور بھی بہت سی روایات مشہور ہیں۔ اس شہر کی تاریخ پر نظر د وڑائی جائے تو پہلی صدی عیسوی سے جا ملتے ہیں۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ شہر سکندر اعظم کی مہم جوئی کا بھی محور رہا ہے۔ پھر یہی خطہ ہندومت اور اسلام کی باہمی آویزشوں اور محاذ آرائی کا مرکز رہا ہے جس کی وجہ سے ہندوستان کی ابتدائی تاریخ میں اسے زبردست اہمت حاصل رہی ۔ غزنویوں سے لے کر مغلوں تک شمالی ہندوستان کا ہر مسلمان حکمران خاندان اس شہر کے ساتھ کسی نہ کسی صورت میں وابستہ رہا ہے۔ کئی مرتبہ یہ مسلمان حکمران کا پایہ تخت بھی رہا۔ غرض اس شہر کو ہمیشہ سے بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ سکھوں کی تاریخ میں اسے ارجن کی شہادت اور رنجیت سنگھ کے دارالسلطنت کی حیثیت سے نمایاں مقام حاصل رہا ہے۔ مشرق اور مغرب کے مورخ اور شاعر لاہور کی عظمت کے اعتراف میںمشترکہ طورپر یہ پڑھا''ہندوستان کے شہروں میں عظیم شہر‘‘ ابوالفضل نے سولہویں صدی میں لاہور کو تمام قوموں کا پر شکوہ مسکن قرار دیا ہے۔ یہ مقامی ضرب المثل میں کہا گیا ہے کہ اگر شیراز اور اصفہان کو اکٹھا کیا جائے تو بھی ایک لاہور نہیں بن سکتا۔تھیوناٹ نامی سیاح 1665ء عیسوی میںاس وقت لاہور میں وارد ہوا جب یہ شہر زوال پذیر تھا۔ اس نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ اس کی آمد سے تھوڑی دیر پہلے تک لاہور شہر اور اس کے نواحی علاقوں کی لمبائی تین میل کے برابر تھی۔ برنیئر نے اس شہر کے محلوں ، گلیوں کی لمبائی اور مکانوں کی بلندی کا آگرہ اور دہلی سے موازنہ کیا ہے۔ ہمارے اپنے شاعر ملٹن نے ''جنتِ گمگ شتہ‘‘ میںلاہور کو قدیم اور جدید دور کا شہرت یافتہ اور دنیا کی طاقت ور ترین سلطنتوں کا پایہ تخت قرار دیا ہے۔ لاہور شہر کے سنگ بنیاد رکھنے کی صحیح تاریخ کا آج تعین کرنا ممکن نہیں، البتہ مختلفواقعات سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس شہر کو کس دور میں عروج حاصل ہواتھا۔اس سے پہلے یہ ذکر ہوچکا ہے کہ اس شہر کی بنیاد ساتویں صدی کے آخر میں رکھی گئی اور اسے ایک عظیم سلطنت کا پہلا تخت قرار دیا گیا۔ دوسری طرف اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیاجاسکتا کہ پہلی صدی عیسوی میں اس شہر کا وجود ناپید تھا۔ یونانی مورخوں نے مشرق میں سکندراعظم کی مہم جوئی کے سلسلے میں اس شہر کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ ترنیز نے سنگلالہ نامی شہر کا ذکر کیا ہے جواس دور کا مضبوط قلعہ تھا جس نے لاہور اور اس کے گردو نواح کا علاقہ تسخیر کرلیا تھا۔ اس نے لکھا ہے کہ سنگالہ شہر راوی سے تین کوس کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سکندر اعظم نے لاہور کے قریب راوی کو پار کیا تھا اور غالب امکان یہی ہے کہ وہ جگہ جدید لاہور شہر ہی تھی تاہم اگر اس زمانے میں لاہور مشہور شہر ہوتا تو اس کا تذکرہ ضرور کیا جاتا۔ اس سے اگلے زمانے میں بھی لاہور کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ سٹریبونے بھی 66 قبل مسیح اور24 عیسوی کے درمیان تاریخ لکھی ہے، لاہور شہر کا کوئی ذکرنہیں ہے۔ پلسینی نے22ء اور79ء کے درمیان دریائے سندھ اور الہ آباد کے درمیان واقع شاہی سڑک کی جو تفصیل لکھی ہے اس میں لاہور کا کوئی تذکرہ نہیں۔ اگرچہ لاہور منادر اور سکائتھ خاندانوں کے پایہ تخت رہا ہے لیکن لاہور سے انڈو بیکٹرین یا انڈو سکائتھ دور کے کوئی سکے برآمد نہیں ہوئے۔ سو ہم پورے وثوق کے ساتھ یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیںکہ لاہور کی بنیاد پہلی سے ساتویں عیسوی کے درمیانی میں روکھی گئی ہے۔اسکندریہ میں150 عیسوی میں تیار ہونے والے جغرافیئے میں لبوکالا نامی شہر کا ذکر موجود ہے جو کیسپریا(کشمیر) کے اس علاقے میں دریائے سندھ اور پلیبو تھرا کے درمیان واقع تھا۔جس میں بداستیز (جہلم) سندا ہال (چندرا بھاگا یا چناب) اور آدریز (راوی) بہتے تھے۔ دلفورڈ نے اس جگہ کے نام اور مقام کے بارے میں تحیقیق کے بعد لکھا ہے کہ یہ شہر لاہور تھا۔ میجر جنرل کننگھم نے حال ہی میں لاہور سے25 میل دور ایک تباہ شدہ شہر امپاکپی کا سراغ لگایاہے۔ ٹاڈ کی تحقیق کے مطابق جس وقت اسکندریہ میں پٹولمی کا جغرافیہ لکھا گیا، اس وقت لاہور کو ایک اہم شہرت کی حیثیت حاصل تھی۔ ناڈ نے مزید لکھا ہے کہ شہزادہ کینکسین نے دوسری صدق عیسوی کے وسط میں لاہور سے ہجرت کی تھی۔ ان تمام روایتوں سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ لاہور کی بنیاد پہلی صدی کے آخر یا دوسری صدی کے شروع میں رکھی گئی تھی۔    

آج کا دن

آج کا دن

گوگل کا آغاز1996ء میں لیری پیج اور سرجی برن نامی دو طلبہ نے گوگل نام کے ایک تحقیقی منصوبے کی بنیاد رکھی جبکہ گوگل کا باقاعدہ آغاز 4 ستمبر 1998ء کو کیا گیا۔یہ دونوں کیلیفورنیا کی سٹینفرڈ یونیورسٹی میں ہی پی ایچ ڈی کے طالب علم تھے۔ اس منصوبے میں ابتدائی طور پر ان کا ایک اور ساتھی بھی شامل تھا جس کا نام اسکاٹ تھا۔یہ گوگل کے مرکزی پروگرامرز میں سے تھا جس نے گوگل کے کوڈ لکھے تھے لیکن وہ باقاعدہ آغاز سے قبل ہی ان سے الگ ہو گیاتھا۔گولڈن ڈریگن قتل عامگولڈن ڈریگن کا قتل عام در اصل ایک گینگ کا حملہ تھا جو 4ستمبر1977ء کو چائنا ٹاؤن، سان فرانسسکو، کیلیفورنیا کی واشنگٹن سٹریٹ کے گولڈن ڈریگن ریسٹورنٹ کے اندر پیش آیا۔اس حملے میں پانچ افراد ملوث تھے جو بوائز نامی ایک گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔یہ چینی باشندوں کا ایک گروہ تھا جس نے اپنے حریف گروہ پر حملہ کیا۔اس حملے میں پانچ افراد ہلاک جبکہ 11شدید زخمی ہوئے ۔سینائی معاہدہسینائی عبوری معاہدہ جسے سینائی دوئم معاہدہ بھی کہا جاتا ہے۔یہ ایک سفارتی معاہدہ تھا جس پر مصر اور اسرائیل نے 4ستمبر1975ء کو دستخط کئے۔ اس معاہدے کا مقصد علاقائی تنازعات کو پر امن طریقے سے حل کرنا تھا۔دونوں ممالک کی جانب سے اس معاہدے پر جنیوا میں دستخط کئے گئے۔معاہدے میں کہا گیا کہ ممالک کے درمیان تنازعات کو ''فوجی طاقت سے نہیں بلکہ پرامن طریقے سے حل کیا جائے گا۔الاسکا ائیر لائنزالاسکا ایئر لائنز کی پرواز 1866 ایک باقاعدہ طے شدہ مسافر پرواز تھی، یہ الاسکا سے سیٹل، واشنگٹن تک چلائی جارہی تھی۔ یہ طیارہ بوئنگ 727 تھا۔ 4 ستمبر 1971ء کو طیارہ الاسکا سے تقریباً 18 میل مغرب میں ایک پہاڑ سے ٹکرا گیا۔جہاز میں سوار تمام 111 افراد ہلاک ہو گئے ۔تحقیقات میں بتایا گیا کہ نیوی گیشن کے غلط ریڈ آؤٹ کی وجہ سے عملہ وقت سے پہلے جہاز کو نیچے اتارنے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہ الاسکا ایئر لائنز کاپہلا مہلک جیٹ طیارہ حادثہ تھا ۔