چائے ،کافی مہنگی خوراک کے عالمی اخراجات پر اثرات؟
عالمی ادارہ خوراک و زراعت (FAO)کے مطابق چائے اور کافی جیسے مشروبات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث رواں سال دنیا بھر میں خوراک پر اٹھنے والے اخراجات 2ہزار ارب ڈالر تک پہنچ سکتے ہیں۔FAO کی جانب سے خوراک کی صورتحال پر جاری کردہ رپورٹ''The State of Food and Agriculture 2024‘‘ کے مطابق رواں سال کے آغاز میں کوکو کی قیمتوں میں 4 گنا اضافہ ہوا اور اس طرح کافی کی قیمتیں دوگنا ہو گئیں جبکہ چائے کی قیمتوں میںبھی 15فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا۔چائے اور کافی کے مقابلے میں اناج کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔
عالمی ادارہ خوراک و زراعت کی جانب سے 156 ممالک میں کی گئی تحقیق کے مطابق عالمی خوراک کے نظام میں اخراجات سالانہ تقریباً 12 ٹریلین ڈالر ہیں۔ اس رقم کا تقریباً 70 فیصد غیر صحت مند غذائی عادات سے پیدا ہوتا ہے اور یہ دل کی بیماری، فالج اور ذیابیطس جیسے خطرناک غیر متعدی بیماریوں کا سبب بن رہا ہے، جو کہ ماحولیاتی زوال اور سماجی عدم مساوات سے متعلق اخراجات سے کہیں زیادہ ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں غذائی اخراجات میں ہونے والے نصف سے زیادہ اضافے کا سبب چائے اور کافی کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ ہے جو کہ رواں سال کے آخر تک تقریباً 23 فیصد بڑھ جائیں گی۔رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں خوراک کی درآمد پر دو تہائی اخراجات زیادہ آمدنی والے ممالک میں ہوتے ہیں جہاں یہ اضافہ 4.4 فیصد تک ہو گا جبکہ متوسط اور کم آمدنی والے ممالک میں خوراک پر درآمدی اخراجات میں کمی آئے گی۔کم آمدنی والے ممالک کو اناج اور تیل کے بیجوں کی قیمتوں میں کمی سے فائدہ پہنچے گا تاہم وہاں گندم اور دوسرے اناج کی فی کس کھپت میں کمی متوقع ہے۔
FAO نے اس رپورٹ میں متعدد ممالک میں بہتری کے حوالے سے خوراک کی برآمدات کے اہم کردار کے بارے میں بھی بتایا ہے۔ مثال کے طور پر برونڈی اور ایتھوپیا کی غذائی برآمدات میں کافی کا حصہ تقریباً 40 فیصد رہا جبکہ آئیوری کوسٹ میں کوکو کی برآمدات کا مالی حجم اس کی تمام غذائی درآمد سے زیادہ تھا۔ اسی طرح سری لنکا نے چائے کی برآمد سے اپنی تمام غذائی برآمدات کے نصف سے زیادہ آمدنی حاصل کی ہے۔رپورٹ کے مطابق گندم اور دیگر اقسام کے اناج کی پیداوار میں کمی کی توقع ہے جبکہ 25-2024ء کے سیزن میں چاول کی ریکارڈ پیداوار کے باعث اس کے استعمال ‘ ذخیرہ کرنے اور اس کی بین الاقوامی تجارت میں اضافہ ہو سکتاہے۔گوشت اور دودھ کی مصنوعات میں قدرے اضافہ متوقع ہے جبکہ مچھلی کی پیداوار 2.2 فیصد تک بڑھ جائے گی۔سبزیوں کے تیل کا استعمال متواتر دوسرے برس اس کی پیداوار سے تجاوز کر سکتا ہے۔ جس کے باعث اس کے ذخائر میں کمی آئے گی۔ شدید موسمی واقعات، ارضی سیاسی تناؤ اور پالیسی میں آنے والی تبدیلیاں پیداوار کے نظام کو غیرمستحکم کر سکتی ہیں جس کے نتیجے میں عالمگیر غذائی تحفظ میں مزید کمی آ سکتی ہے۔
رپورٹ میں موسمیاتی عوامل کے باعث زیتون کے تیل کی پیداوار میں کمی اور اس کی قیمتوں میں اضافے کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے۔بلند درجہ حرارت کے باعث زیتون کے درخت پانی کو پھل پیدا کرنے کے بجائے اپنے دیگر افعال کیلئے محفوظ کر لیتے ہیں۔ جن علاقوں میں یہ فصل پیدا ہوتی ہے وہاں گرم حالات کے باعث دو برس سے پیداوار میں نصف حد تک کمی دیکھی جا رہی ہے۔ سپین میں زیتون کی آئندہ پیداوار گزشتہ دس سال کی اوسط سے بڑھ جانے کا امکان ہے تاہم بلند قیمتوں کے باعث اس کے استعمال میں کمی آ سکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق2022ء کے بعد کھادوں کی قیمتوں میں 50 فیصد تک کمی آئی، جس کا بڑا سبب قدرتی گیس کی قیمتوں میں کمی ہے۔FAO کے مطابق سپلائی سے متعلق خدشات کی بنا پر لاطینی امریکہ اور ایشیا میں فاسفیٹ کھادوں کی قیمتیں برقرار ہیں۔ رپورٹ میں کم کاربن والی امونیا کھادوں کے حوالے سے اہم متبادل قرار دیا گیا ہے جو نائٹروجن والی کھادوں کا اہم جزو ہوتا ہے۔
٭...عالمی خوراک کے نظام میں اخراجات سالانہ 12 ٹریلین ڈالرہے اور اس کا 70فیصد غیر صحت مند خوراک پر خرچ ہوتا ہے ۔
٭...کافی کی قیمتیں دو گنا بڑھ گئیں، چائے کی قیمتوں میںبھی 15 فیصد اضافہ
٭... گندم اور دوسرے اناج کی فی کس کھپت میں کمی متوقع۔
٭... چاول کے استعمال میں 1.5 فیصد تک اضافہ۔
٭...مچھلی کی پیداوار 2.2 فیصد تک بڑھ جائے گی۔