دولے شاہ کے چوہے!
آج کل کی نسل تو شاید ''دولے شاہ کے چوہوں‘‘ کے نام سے بھی لا علم ہو گی لیکن دو اڑھائی عشرے قبل تک پاکستان کے بیشتر شہروں میں مخصوص وضع قطع کے سروں والے، سبز رنگ کا لمبا سا چولا پہنے، گلے میں رنگ برنگے منکوں (موتیوں ) کا بڑا سا ہار لٹکائے ، طرح طرح کے نعرے لگاتے ہاتھ میں کشکول تھامے ، بھیک مانگتے یہ معصوم اور قابل رحم بچے اکثر نظر آجایا کرتے تھے۔ان بچوں کی اکثریت چند مخصوص الفاظ سے بڑھ کر بولنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوا کرتی تھی۔حیران کن حد تک ان مظلوموں کے چہروں پر کبھی ناگواری یا اکتاہٹ کی جھلک تک نظر نہ آتی تھی۔ شاید یہ سب ان کی ''تربیت‘‘ کا شاخسانہ ہو۔ اس معصوم اور مظلوم مخلوق کو ہی ''دولے شاہ کے چوہے‘‘ کہا جاتا تھا۔ ان کو دیکھ کر اکثر ذہن میں خیال آتا ہے کہ یہ ایک جیسی ہئیت اور وضع قطع کے لوگ کون ہیں ، کہاں سے آتے ہیں، ان کی وضع قطع مخصوص کیوں ہے، سب بڑھ کر یہ سوال کہ انہیں دولے شاہ کے ''چوہے‘‘ کا غیر مہذب لقب کس نے اور کیوں دیا ؟۔
بدقسمتی سے پاکستان یا برصغیر کے محققین یا مورخین نے اس معصوم مخلوق بارے نہ تو جاننے کی کوشش کی اور نہ ہی کوئی تحقیق کی ہے۔ ان بارے زیادہ تر معلومات کا دارومدار قدیم روایات تک ہی محدود ہے ۔ اس سے پہلے کہ اس مخلوق کی زندگی پر تفصیل سے روشنی ڈالیں پہلے ان کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں۔
دولے شاہ کے چوہے کون ہیں؟
پنجاب کے شہر گجرات کے قریب 16ویں صدی کے آخری عشروں میں سید کبیر الدین دولے شاہ نامی ایک بزرگ آن بسے جن کی نسبت سہروردی سلسلے سے بتائی جاتی ہے ۔یہ مغل بادشاہ اکبر کا دور تھا۔ان کے یہاں منتقل ہونے کا مقصد یہاں کے لوگوں کو دینی تعلیم سے روشناس کرانا تھا۔ رفتہ رفتہ لوگ اپنی من مرادوں کیلئے ان کے پاس آکر دعا کراتے جن میں کثیر تعداد دوردراز سے آئی بانجھ عورتوں کی ہوتی ۔
روایات میں آیا ہے کہ بیشتر بانجھ عورتوں کی دعائیں قبول ہوئیں،جس کے پیش نظر بیشتر والدین اپنا پہلا بچہ دولے شاہ کے نام وقف کر کے آستانے پر چھوڑ جاتے تھے۔کچھ حکایات یہ بھی ہیں کہ اگر کوئی والدین اپنے پہلے بچے کو اس آستانے کیلئے وقف کرنے سے گریز کرتے تو ان کی باقی اولاد چھوٹے سروں والی ہی پیدا ہوتی تھی۔کچھ روایات تو یہ بھی ہیں کہ جو والدین اپنے پہلے بچے کو اس آستانے کے حوالے نہیں کرتے تھے، بڑے ہوتے ہی ان کے بچے خود بخود اس آستانے جا پہنچتے تھے۔کچھ عرصہ بعد دولے شاہ کا انتقال ہوا تو عقیدت مندوں نے اس آستانے کو ایک مزار میں بدل دیااور عقیدت مندوں اور دعا کے طالبوں کی آمد کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔
ان کے مخصوص چھوٹے سروں کی ساخت کے بارے میں طرح طرح کی زیرگردش کہانیاں کئی سالوں سے سننے کو ملتی رہی ہیں۔کہا تو یہ جاتا ہے کہ یہاں لائے گئے بچوں کو سب سے پہلے مخصوص شکل میں ڈھالنے کیلئے ان کے سروں پر لوہے کے کنٹوپ چڑھا دئیے جاتے ہیں ، جس کے باعث ان کے سر معمول سے چھوٹے رہ جاتے ہیں، پھر ان سے بھیک منگوائی جاتی ہے۔
یہ غیر اخلاقی نام کیسے شہرت پا گیا ؟
تاریخی حوالوں سے پتہ چلا ہے کہ 1839ء میں پشاور کے کرنل کلاڈ مارٹن کے مشن سیکرٹری شہامت علی، شاہ دولہ کے مزار دورے پر آئے ، کہتے ہیں یہ اس منفرد مخلوق کو دیکھ کر بہت حیران ہوئے اور بے اختیار ان کے منہ سے نکلا '' یہ تو دولے شاہ کے چوہے ہیں‘‘۔ روایتوں میں ہے اس کے بعد اس معصوم اور بے ضرر مخلوق کی شناخت اسی نام سے کی جانے لگی۔
محققین اور مورخین کیاکہتے ہیں
ڈاکٹر جانسٹن وہ پہلے سائنسدان تھے جو 1866ء میں یہاں آئے۔ان کی ملاقات مزار میں موجود نو بچوں سے ہوئی۔جانسٹن کا دعویٰ تھا کہ ان بچوں کے سروں کو مکینیکل طریقے سے چھوٹا کیا گیا ہے ۔
1879ء میں ایک برطانوی محقق اور مصنف ، ہیری ریوٹ نے یہاں کا دورہ کیا ان کا کہنا تھا کہ ان کی تحقیق کے مطابق ان بچوں کے سروں کو مٹی کی ہنڈیا یا دھات کے کسی برتن کو سر پر چڑھا کر چھوٹا کر کے '' چوہوں‘‘ میں تبدیل کیا جاتا ہے۔
کیپٹن ایونز بھی ایک محقق گزرے ہیں، نے 1902ء میں ان بچوں بارے بہت تحقیق کی۔ ان کا کہنا تھا کی یہاں مجھے 600 کے لگ بھگ بچے نظر آئے جن میں بیشتر چھوٹے سروں والے تھے۔ میں اس سوچ کو یکسر مسترد کرتا ہوں کہ ان کے سروں کو مصنوعی طریقے سے چھوٹا کیا جاتا ہے۔میری تحقیق کے مطابق یہ کسی بیماری کا نتیجہ ہے کیونکہ میں نے برطانیہ میں بھی ایسے ہی بچے دیکھے ہیں۔ آگے چل کر مصنف لکھتے ہیں کہ 1902ء میں ان بچوں کو یومیہ کرائے پر دینے کی روائت عام تھی جن سے بھیک منگوانے کا کام لیا جاتا تھا۔
کیپٹن ایونز کے بقول دولے شاہ کا مزار اس مہلک اور عجیب و غریب بیماری سے متاثرہ بچوں کی ایک سماجی پناہ گاہ کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔
1969ء میں پاکستان کے محکمہ اوقاف نے اس مزار کو اپنی تحویل میں لے کر بچوں کے سر چھوٹے کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی لیکن کسی نہ کسی حد تک یہ دھندہ آج بھی جاری ہے۔
جدید تحقیق کیا کہتی ہے
ان بچوں بارے جدید تحقیق، قدیم روایات اور افواہوں کو یکسر مسترد کرتی ہے۔اس بارے سب سے پہلے 1884ء میں '' برٹش میڈیکل جرنل‘‘ اور ''انڈین میڈیکل گزٹ‘‘ میں شائع ایک تحقیق کا ذکر ملتا ہے جس کے مطابق اس قسم کے بچوں کی ہئیت کو ایک بیماری قرار دیا گیا تھا۔ 1928ء میں ہندوستان کے شعبہ صحت نے 1868ء ے لے کر 1903ء تک کی میڈیکل رپورٹوں کا جائزہ لیا اور اس نتیجے تک پہنچے کہ یہ ''مائیکرو سیفلی‘‘ نامی ایک بیماری ہے جو پوری دنیا میں پائی جاتی ہے۔ماہرین نے بھی مائیکرو سیفلی کی تصدیق کی ہے جس میں بچوں کا سر اس کی عمر کے تناسب سے چھوٹا ہوتا ہے۔