صحت حکمت اور انسانیت
انسانی صحت اللہ تعالیٰ کی سب سے عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے، اور دین اسلام نے بھی صحت کی حفاظت کو خاص اہمیت دی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے متعدد مواقع پر صحت کی قدر کرنے اور بیماری سے بچنے کیلئے تدابیر اپنانے کی ہدایت دی۔ ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے: ''دو نعمتیں ایسی ہیں، جن کی لوگ قدر نہیں کرتے، ایک صحت اور دوسری فرصت‘‘۔ صحت کی حفاظت انسان کی بنیادی ذمہ داری ہے اور انسان کو اپنی جسمانی و ذہنی حالت کی حفاظت پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
بدلتے موسم، خصوصاً موسم سرما کی آمد کے ساتھ، صحت کے حوالے سے مزید احتیاط کی ضرورت پیش آتی ہے۔ سردی کے موسم میں جسم کو گرم رکھنے کیلئے مناسب لباس، خوراک، اور حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ سنتِ نبوی ﷺ کے مطابق، موسم کے لحاظ سے خوراک میں تبدیلی کرنا اور خود کو بیماریوں سے بچانے کیلئے حفاظتی تدابیر اپنانا ضروری ہے۔ سرما کے موسم میں گرم مشروبات، یخنی اور خشک میوہ جات کھانا بھی عین اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے، جو جسم کو اندرونی طور پر طاقت بخشتے ہیں۔ جسم کی خشکی دور کرنے کیلئے زیتون کے تیل کا استعمال بھی فائدہ مند ہے۔
قدیم زمانے میں بھی لوگ صحت کی اہمیت کو سمجھتے تھے، اور یونانی حکماء نے اس موضوع پر بہت کام کیا۔ ان کی تحقیقات اور تجربات نے انسانیت کو صحت کے بارے میں نئی بصیرت فراہم کی، اور ان کی خدمات آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ یہ حکماء نہ صرف طبی علوم میں ماہر تھے بلکہ انہوں نے اپنی زندگیوں کو دوسروں کی خدمت کیلئے وقف کیا، جو کہ ایک مثالی رویہ ہے۔ یہ اقدار ہمیں سکھاتی ہیں کہ صحت کی حفاظت اور خدمت کا جذبہ انسانیت کیلئے کتنا اہم ہے، اور اسی جذبے کو اپنی زندگیوں میں اپنانا ہمارا فرض ہے۔ ان کی تحقیق اور بے لوث خدمات نے انسانیت کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے میں ایک عظیم کردار ادا کی۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں۔
بقراط: بقراط علمِ طب کے بانی کہلاتے ہیں، جنہوں نے بیماریوں کو سائنسی بنیادوں پر سمجھنے کی کوشش کی۔ انہوں نے ''بقراطی حلف‘‘ متعارف کروایا، جسے آج بھی دنیا بھر کے طبیب اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی بنیاد مانتے ہیں۔ بقراط کا نظریہ یہ تھا کہ انسانی جسم قدرتی توازن کے تحت صحت مند رہتا ہے، اور اس توازن میں بگاڑ بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ انہوں نے مریضوں کے ساتھ ہمدردی اور شفقت کے ساتھ پیش آنے کی تعلیم دی اور علاج کیلے ہمیشہ قدرتی اور سادہ طریقے اختیار کیے۔
جالینوس: جالینوس طبِ یونانی کے عظیم معالج اور محقق تھے، جنہوں نے انسانی جسم کی تشریح اور اس کے مختلف افعال کی تفصیل بیان کی۔ ان کے نظریات نے طب کی دنیا کو ایک نئی راہ دکھائی، اور ان کی کتابیں صدیوں تک طبیبوں کیلے رہنمائی کا ذریعہ رہیں۔ جالینوس نے اپنے علم کو انسانیت کی خدمت کیلئے وقف کیا اور بغیر معاوضے کے مریضوں کا علاج کیا۔
ارسطو (Aristotle): ارسطو نہ صرف فلسفی تھے بلکہ علمِ حیاتیات کے بانی بھی سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے انسانی جسم کے مختلف حصوں کا تجزیہ کیا اور اس کے افعال کا جائزہ لیا۔ ارسطو نے جسمانی صحت کو انسانی فلاح و بہبود کا بنیادی حصہ قرار دیا۔
ہیروفیلوس (Herophilus) اور ایراسیسٹریٹس (Erasistratus): یہ یونانی طبیب انسانی جسم کی تشریح کے ماہر تھے۔ ہیروفیلوس نے اعصابی نظام کا تفصیلی مطالعہ کیا، جبکہ ایراسیسٹریٹس نے دورانِ خون اور جسمانی رطوبتوں پر تحقیق کی۔ ان کے اصولوں نے طب کی بنیادیں مضبوط کیں اور علاج کو مزید موثر بنایا۔
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مندرجہ بالا یونانی حکماء انسانیت کی خدمت کے عظیم علمبردار تھے، جنہوں نے اپنی زندگیاں دوسروں کی بھلائی کیلئے وقف کیں۔ ان کا نظریہ تھا کہ صحت کی خدمت سب سے اعلیٰ خدمت ہے، اور اسی جذبے نے انہیں بے لوث علاج کے اصول اپنانے پر مجبور کیا۔
قریب ماضی میں، حکیم محمد سعید شہید نے پاکستان میں طبِ یونانی کے فروغ اور انسانیت کی خدمت کیلئے اپنی زندگی وقف کی۔ ان کا مشن اسلام کے ان اصولوں پر مبنی تھا، جن میں دوسروں کی بھلائی کو اوّلین ترجیح دی گئی ہے۔ 1948ء میں انہوں نے ہمدرد فاؤنڈیشن قائم کی، جس کا مقصد صحت، تعلیم، اور فلاح و بہبود کے میدان میں خدمات فراہم کرنا تھا۔وہ ایک عظیم طبیب، محقق، اور روحانی رہنما تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی انسانیت کی خدمت کیلئے وقف کر دی اور ہمیشہ بے لوث طریقے سے دوسروں کی مدد کی۔ ان کی خدمات نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں تسلیم کی جاتی ہیں۔ ہمدرد فاؤنڈیشن نے طبِ یونانی کی تحقیق اور تعلیم کے فروغ کیلئے اہم کردار ادا کیا۔ فاؤنڈیشن کے تحت چلنے والے ہسپتالوں میںہزاروں مریضوں کا مفت یا نہایت کم معاوضے پر علاج کیا جاتا ہے۔ حکیم محمد سعید کا نظریہ تھا کہ صحت کی خدمت سب سے بڑی خدمت ہے اور ان کا یہی فلسفہ ہمدرد فاؤنڈیشن کی بنیاد بنا۔
ہمدرد ہسپتال اور ہمدرد یونیورسٹی کے قیام نے ہزاروں طلبہ اور مریضوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کیا۔ مدرستہ الحکمت جیسے ادارے یتیم اور بے سہارا بچوں کو معیاری تعلیم اور تربیت فراہم کرتے ہیں۔ یہ ادارے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بچوں کی شخصیت سازی پر بھی زور دیتے ہیں۔ حکیم محمد سعید کی شہادت کے بعد بھی ان کی وراثت مختلف فلاحی منصوبوں کے ذریعے جاری ہے، جو بے لوث خدمت کی مثال ہے۔
یقیناً اسلامی تعلیمات ہمیں انسانیت کی خدمت کا درس دیتی ہیں، اور جدید دور کے طبی ماہرین کو اس مشن کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ میڈیکل سائنس نے بے پناہ ترقی کی ہے، لیکن اس کے باوجود، خدمت کا جذبہ آج بھی سب سے زیادہ اہم ہے۔ ڈاکٹرز اور طبیبوں کو چاہیے کہ وہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کو اسلامی اخلاقیات کے مطابق انسانیت کی خدمت کیلئے وقف کریں۔ اگر جدید تحقیق اور روایتی حکمت کو ایک ساتھ استعمال کیا جائے، تو صحت کی سہولیات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایا جا سکتا ہے۔