حکایت سعدیؒ: درددل کے واسطے
حضرت سعدیؒ بیان فرماتے ہیں، ایک بار دمشق میں بہت سخت قحط پڑا۔ حالت یہ ہو گئی کہ ٹڈیوں نے سبزے کو اور انسان نے ٹڈیوں کو کھانا شروع کر دیا۔ مخلوق خدا بھوک سے ہلاک ہونے لگی۔
ایک دن میری ملاقات ایک ایسے دوست سے ہوئی جو بہت مالدار تھا لیکن میں نے دیکھا وہ ویسا ہی پریشان حال اور کمزور نظر آ رہا تھا جیسے شہر کے غریب غرباء۔ میں اس کی یہ حالت دیکھ کر بہت حیران ہوا۔
اس سے پوچھا کہ بھائی! یہ میں تمہیں کس حالت میں دیکھ رہا ہوں؟
وہ بولا، اے سعدی! کیا تم اس بات سے بے خبر ہو کہ قحط کے باعث مخلوقِ خدا تباہ ہو گئی ہے؟ میں نے کہا میں جانتا ہوں لیکن قحط کا تم پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔ خدا کے فضل سے غنی ہو۔ بے شمار مال و متاع تمہارے پاس موجود ہے۔
میری یہ بات سن کر میرے دوست نے آہ بھری اور کہا اے سعدی! کسی حساس آدمی کیلئے یہ بات کس طرح ممکن ہے کہ وہ ارد گرد کے لوگوں کو بھول جائے اور صرف اپنی ذات پر نظر رکھے۔ کوئی شریف آدمی کسی کو دریا میں ڈوبتے ہوئے دیکھ کر اطمینان سے کھڑا نہیں رہ سکتا۔ بے شک میں بھوک پیاس سے محفوظ ہوں لیکن دوسروں کے غم نے مجھے ہلاک کر دیا ہے۔ اگر کسی کے عزیز قید کر دیئے گئے ہوں تو وہ باغ و بہار میں مصروف نہیں رہ سکتا۔
حضرت سعدیؒ نے اس میں ایک بہت ہی اہم اصول بیان فرمایا ہے اور وہ ہے دوسروں کے دکھ درد کو محسوس کرنا اور دور کرنے کی کوششوں میں بھرپور حصہ لینا۔
غور کیا جائے تو روئے زمین کا سب سے بڑا فساد خود غرضی اور نفس پرستی ہے۔ انسانوں میں ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو دوسروں کے نفع نقصان سے بے خبر ہو کر زندگی گزارتے ہیں اور یہاں تک دلیر ہو جاتے ہیں کہ اپنے ادنیٰ سے فائدے کیلئے دوسروں کا بڑے سے بڑا نقصان کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ اگر ہر شخص حضرت سعدیؒ کے اس حساس دوست جیسا بن جائے تو دنیا جنت کا نمونہ بن جائے۔