علم طب اور عہد نبویؐ
اسپیشل فیچر
عہد نبوی ؐ میں علوم و فنون زیادہ نہیں تھے۔ لیکن جو فنون تھے۔ ترقی پذیر تھے اور ان کی ضرورت بھی تھی، ان میں سے ایک چیز طبابت ہے۔ اس کے متعلق ہمیں بہت سی معلومات ملتی ہیں۔ عہد نبوی میں طبیبوں کی حالت اور جراحی کرنے والے سرجنوں کے حالات پر بھی کچھ روشنی پڑتی ہے، اسی طرح ایک حدیث میں ذکر ہے کہ ایک مرتبہ ایک صحابی بیمار ہوئے، رسول اللہ ﷺ ان کی عیادت کو جاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تمہارے محلے یا قبیلے میں کوئی طبیب ہے؟ جواب میں دو نام بتائے جاتے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ان میں سے جو ماہر تر ہو اسے بلائو، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اس بات کا بھی خیال رکھا کہ علم میں تخصیص پیدا کریں اور ماہروں سے علاج کرائیں، اس سے لوگوں کو ماہر بننے کی ترغیب بھی ملتی ہے۔ اس طرح اس کا بھی پتہ چلتا ہے کہ آنحضرتﷺ طبابت سے ناواقف شخص کو اس کی اجازت دینا نہیں چاہتے کہ وہ طبیب بن جائے۔
ایک حدیث کے الفاظ ہیں کہ جس شخص کو علم طب سے کوئی واقفیت نہیں، اگر وہ علاج کرے تو اسے سزا دی جائے، کیونکہ اس کے اناڑی پن سے لوگوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس طرح کی اور مثالیں بھی ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد نبوی ؐمیں علم طب کی کافی اہمیت سمجھی جاتی تھی۔ رسول اکرم ﷺ کی طرف بے شمار نسخے منسوب ہیں لوگ آکر آپؐ سے کہتے یا رسول اللہﷺ مجھے یہ تکلیف ہے تو آپ ؐاس کیلئے تجویز فرماتے کہ فلاں چیز استعمال کرو وغیرہ، اب طب نبویؐ کا پورے کا پورا نظام اس طرح کی احادیث پر مشتمل ہو کر بن چکا ہے۔
دوسرا علم جس کی بڑی اہمیت سمجھی جاتی تھی اور جس کا ذکر قرآن مجید میں بھی تفصیل سے ہے، وہ علم ہیئت ہے۔ اس کے فوائد خود قرآن حکیم میں بھی بتائے گئے ہیں ۔اس علم کے ذریعے رات کے وقت مسافر اپنا راستہ معلوم کر سکتا ہے۔ اس کے ذریعے سے اوقات کار اور حج کے زمانے کا تعین ہوگا۔ علم ہیئت کی طرف بڑی توجہ کی جاتی تھی اور خود آنحضرت ﷺ کو اس سے بڑی اچھی واقفیت تھی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد جب مسجد نبوی کی تعمیر ہوئی یا مسجد قباء تعمیر کی گئی تو قبلہ کے رخ کے تعین کا سوال تھا۔ محض اندازے کی بناء پر قبلے کا تعین نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس سلسلے میں رسول اکرم ﷺ کی علم ہیئت سے واقفیت کی بناء پر کوئی دشواری پیدا نہیں ہوئی۔ آپ ﷺ بیت المقدس کی طرف جانے والوں کو ستارے کو کس ستارے کی مدد سے آگے بڑھانا چاہئے اور اسی طرح آپ کو یہ بھی معلوم تھا کہ کس ستارے کی مدد سے رات کے وقت بیت المقدس سے مکے اور مدینے جانے والوں کو اپنا سفر کرنا پڑتا ہے۔ اس علم کی بناء پر آپ نے بغیر کسی خاص دشواری کے قبلہ کے رخ کا تعین فرما لیا، اس طرح کی اور چیزیں بھی ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کو علم ہیئت سیکھنے کی ترغیب دی جاتی تھی ، اس کا احادیث میں بھی ذکر ملتا ہے۔
ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی کتاب ''خطبات بہاولپور‘‘ سے اقتباس