31 دسمبر 1879:عظیم ایجاد بلب سے پنسلوانیا جگمگا اٹھا
اسپیشل فیچر
تھامس ایلوا ایڈیسن کے متعلق کئی کہانیاں سنائی جاتی ہیں۔ اسے آج تک کی انسانی تاریخ کا عظیم ترین موجد قرار دیا جاتا ہے۔ اس نے Incandescentلائٹ بلب ایجاد کیا تھا۔ ایڈیسن سے پہلے بھی کئی لوگ یہ ایجاد کر چکے تھے( کچھ تو 30برس پہلے بھی) لیکن کوئی بھی کار آمد نہ ہوئی۔ اس کا کارنامہ ایک ''کار آمد اور حقیقی بلب‘‘ ایجاد کرنا تھا۔ 31 دسمبر 1879ء کا دن اس حوالے سے روشن ہے کہ امریکی موجد ایڈیسن نے پہلی دفعہ بجلی کا بلب عوام سے متعارف کروایا اور پنسلوانیا کی گلیاں بجلی کے بلبوں سے روشن ہو گئیں۔
'' انکینڈیسنٹ لائٹنگ‘‘ میں ایڈیسن کی دلچسپی کا آغاز1878ء کے موسم بہار میں ہوا جب 31برس کی عمر میں وہ ایک ساتھی پروفیسر جارج بار کرکے ہمراہ چھٹی پر گیا۔ سیاحت کے دوران ہار کرنے ایڈیسن کو (جوفونو گراف ایجاد کرنے کی وجہ سے پہلے ہی مشہور ہو چکا تھا) دیگر متعدد چیزوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی تجویز دی کہ اب اسے امریکہ کے گھروں میں بجلی کی روشنی پھیلانے کا مقصد اختیار کرنا چاہئے۔ یہ بات ایڈیسن کے دل کو لگی، وہ نیویارک میں تعمیرکردہ اپنی ''ایجادات کی فیکٹریٔ‘‘ میں واپس آیا تو ماہرین کی ایک ٹیم جمع کی اور دنیا کے سامنے اعلان کیا کہ وہ چھ ہفتوں کے اندر اندر امریکہ کے گھروں میں روشنی کر دے گا۔ یہ پیشگوئی بہت رجائیت پسندانہ ثابت ہوئی۔ ابتداً سے ہی ایڈیسن کے ذہن میں ایک ایسا بلب تخلیق کرنے کا منصوبہ تھا جو بہت کم کرنٹ سے بھی جل سکتا ہو، پائیدار ہو اور دوسرے بلبوں کے ساتھ ساتھ مربوط نہ ہو۔ اگر ایک بلب خراب ہو جائے تو دوسروں پر کوئی اثر نہ پڑے اور ہر ایک بلب کو ایک سوئچ کی مدد سے آن آف بھی کیا جا سکے۔ ایڈیسن اور اس کی ٹیم نے بلب بنانے کے ساتھ ساتھ ایک پورا نظام بھی وضع کرنے کی کوشش کی۔
'' انکینڈیسنٹ بلب‘‘ ایک سادہ سا آلہ ہے اور اس کی تہہ میں کار فرما سائنس برقی مدافعت کے مظہر پر مبنی ہے۔ برقی کرنٹ کو ایک میٹریل میں داخل کیا جاتا ہے جو مختلف ڈگریوں پر اس کی مدافعت کرتا ہے۔ نتیجتاً وہ گرم ہو کر جلتا اور روشنی دیتا ہے۔ قبل ازیں بنائے گئے بلبوں میں بہت سے مسائل تھے ۔ برقی کرنٹ گزارنے کیلئے استعمال کئے گئے فلامنٹس حرارت کو برداشت نہ کر پاتے اور جل یا پگھل جاتے۔ کھلی فضا میں تویہ عمل چند سیکنڈوں یا منٹوں کے اندر اندر ہو جاتا۔ چنانچہ موجدوں نے فلامنٹ کو شیشے کے ایک گلوب میں ڈالا، اسے سیل کیا اور اس میں سے آکسیجن کو کھینچ لیا تاکہ خلا میں فلامنٹ حرارت کو زیادہ بہتر طور پر برداشت کر سکے۔ ایڈیسن جانتا تھا کہ اسے ایک اعلیٰ فلامنٹ تخلیق کرنا ہے۔ ایڈیسن اور اس کی ٹیم نے کامل فلامنٹ کی تلاش میں متعدد دھاتوں اور دیگر چیزوں کو آزمایا اور بالآخر پلاٹینیم سے کام لینے کا فیصلہ کیا کیونکہ اس کا نقطہ پگھلائو کافی زیادہ تھا، تقریباً 3191ڈگری فارن ہائیٹ۔ ایڈیسن کی ٹیم کے دوسرے افراد نے شیشے کے گلوب میں سے آکسیجن نکالنے کے کچھ بہتر طریقے بھی وضع کئے۔ پلاٹینم فلامنٹ والا بلب موزوں ثابت ہوا، لیکن صرف 10منٹ کیلئے اتنا وقت جلنے کے بعد وہ بھی پگھل گیا۔ نیز پلاٹینم ایک کمیاب اور مہنگی دھات تھی۔ ایڈیسن اور اس کی ٹیم نے تقریباً1600میٹریلز کو آزمایا اور گلوب کے اندر سے آکسیجن خارج کرنے کے طریقوں کو بھی بہتر بناتے رہے مگر کوئی ایسی چیز نہ ملی جو ان کا مقصد پورا کر سکے۔
ایک روز ایڈیسن نے کاربن کو بطور فلامنٹ دوبارہ آزمانے کا سوچا۔ وہ ایک سال پہلے بھی ایسا کر چکا تھا، مگر بعد میں ارادہ ترک کر دیا۔ اسے معلوم تھا کہ کاربن کا نقطہ پگھلائو 6233 ڈگری فارن ہائیٹ یا 4500ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ ایڈیسن نے حساب کتاب لگایا کہ موزوں مدافعت کے ساتھ کام کرنے کیلئے فلامنٹ کو قطر میں 1/64انچ اور لمبائی میں 6انچ ہونا چاہئے۔ اس نے گیس لیمپوں کے شیشوں پر جمی ہوئی کالک کھرچی، اسے رال (Tar) کے ساتھ ملایا تاکہ فلامنٹ کی شکل دے سکے۔ اس فلامنٹ پر کئے گئے تجربات سے معلوم ہوا کہ یہ ایک یا دو گھنٹے تک جل سکتا تھا، لیکن ایڈیسن قائل ہو گیا تھا کہ اگر یہ کاربن اتنی بہتر کارکردگی دکھا سکتا ہے تو ضرور کوئی اور ایسا میٹریل بھی ہوگا جو کاربن میں تبدیل کئے جانے پر اور بھی بہتر ثابت ہو۔ یہ بات سوچ کر اس نے عام سوتی دھاگے کے ٹکڑوں کو آزمایا جنہیں بھٹی میں جلا کر کاربن میں تبدیل کیا گیا تھا۔ فلامنٹ بہت نازک تھاجسے لگانے میں بھی بہت مشکل ہوئی۔ آخر کار تمام تیاریاں مکمل کرنے کے بعد کرنٹ آن کیا گیا۔ یہ 21 اکتوبر 1879ء کی رات کا واقعہ ہے۔ یہ فلامنٹ توقعات کے برعکس ضائع نہ ہوا۔ اس کی روشنی موجودہ 100واٹ کے بلب کی روشنی کے صرف ایک فیصد جتنی تھی۔ یہ جلتی رہی اور جلتی رہی۔ انجام کار ایڈیسن آہستہ آہستہ کرنٹ میں اضافہ کرتا رہا اور روشنی بڑھتی گئی حتیٰ کہ فلامنٹ ٹوٹ گیا۔
یہ 13.5گھنٹے تک جلا تھا اور ہر کوئی جانتا تھا کہ یہ مدھم سا ننھا بلب الیکٹرک لائٹ کے دور کا نقیب ہے۔ یقیناً ایڈیسن نے اتنے پر ہی اکتفا نہ کیا۔ اس نے فلامنٹ کو خوردبین کی مدد سے دیکھا اور جانا کہ اسے درکار کاربن ایسے میٹریلز سے حاصل ہو گا جو ریشے دار ہیں۔ سن کی کوئی قسم، آخر کارایڈیسن نے جاپان سے درآمد شدہ بنس کا ریشہ استعمال کیا جو 900 گھنٹے جلتا رہا۔
ایڈیسن کو بجلی کا نظام تخلیق اور نصب کرنے میں صرف تین سال لگے جس نے روشنی کو عملی بنا دیا۔ اس کی ''ایڈیسن الیکٹرک لائٹ کمپنی‘‘ نے نیویارک سٹی کی پرل سٹریٹ میں ایک پاور سٹیشن تعمیر کیا اور ممکنہ گاہکوں کے گھروں میں جانے والے گیس پائپوں کے ذریعے تاریں پہنچائیں۔ ابتدامیں صرف 88گاہک ملے۔ اس نظام میں کافی خرابیاں تھیں، لیکن انہیں دور کئے جانے پر بلب بہتر ہوتے گئے اور گاہکوں کی تعداد بھی بڑھی۔ انیسویں صدی کے اختتام پر 10لاکھ گھروں میں برقی روشنی موجود تھی۔
آج ٹنگسٹن اور نائٹروجن کی مدد سے بلب بنائے جاتے ہیں۔ روشنی کے بلب نے رات کو ''دن‘‘ میں بدل دیا۔ لوگوں کیلئے رات کے وقت بھی پڑھنا، لکھنا، دیر تک گھر سے باہر رہنا وغیرہ ممکن ہو گیا تھا۔ اس ایجاد نے دنیا کی نئے سرے سے صورت گری کی۔