سوء ادب : ہمارے جانور (لومڑی)
بظاہرلومڑی ایک چالاک جانور ہے لیکن اُس کی چا لا کی بالعموم بیچ میں ہی رہ جاتی ہے اور اُس کے کام نہیں آتی۔ایک بار وہ بھوک سے پریشان تھی اور جنگل میں کھانے والی کسی چیز کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی تھی کہ اُسے ایک ٹُنڈ مُنڈ درخت کی شاخ پر ایک کوا بیٹھا نظر آیا، جس کی چونچ میں پنیر کا بڑا سا ٹکڑا تھا، جسے دیکھتے ہی اُس کے منہ میں پانی بھر آیا۔ سو پہلے تو اُس نے اُس پانی کا بڑا سا گھونٹ بھرا او ر پھر اِس خیال سے کہ وہ چونچ کھولے گا تو پنیر کا ٹکڑا نیچے گرے گا اور اُس کا ناشتہ ہو جائے گا۔
وہ بولی ،''پیارے کوّے ،سُنا ہے تمہاری آواز بہت سُریلی ہے ،کیا اپنی خالہ کو کوئی اچھا سا گانا نہیں سُنائو گے ؟‘‘جس پر کوّے نے پنیر کا ٹکڑا چونچ سے نکال کر پنجے میں دبایا اور بولا ،''خالہ جان !کونسا گانا سنو گی ،کوئی فلمی گانا یا پکّا راگ ؟‘‘
ایک لومڑی جنگل میں بھاگی جا رہی تھی کہ کسی نے اُس سے پوچھا ،''کیا بات ہے ،کدھر بھاگی جا رہی ہو ؟جس پر و ہ رُکے بغیر بولی '' جنگل میں فوج آئی ہوئی ہے اور وہ تین کانوں والے جانوروں کو ہلاک کر رہے ہیں ‘‘۔
لیکن تمہارے تو دو کان ہیں تم کیوں پریشان ہو ؟‘‘پوچھنے والے نے کہا ،
''کان وہ گولی مارنے کے بعد گنتے ہیں !‘‘اُس نے بھاگتے بھاگتے جواب دیا ‘‘۔
ایک لومڑی اور سارس کی دوستی ہو گئی لومڑی نے کہا کہ میں سوپ بہت اچھا بناتی ہوں کسی دن آئو تو تمہیں بھی اِس کا ذائقہ چکھوائوں، چنانچہ وقتِ مقرہ پر جب سارس وہاں پہنچا تو اُس نے دیکھا کہ لومڑی نے ایک پرات نما برتن میں سُوپ ڈال رکھا ہے ،دونوںنے کھانا شروع کیا ۔
ابھی سارس نے تین چار چونچیںہی لگائی تھیں کہ لومڑی اتنے میں سارا سُوپ چٹ کر گئی سارس پریشان تو ہُوا کہ اُس کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے لیکن اُس نے لومڑی کو بھی دعوت دے دی کہ کل میرے ہاں آنا میں بھی بہت اچھا سُوپ بناتا ہوں۔
جب وقتِ مقرہ پر لومڑی وہاں پہنچی تو اُس نے دیکھا کہ سارس نے ایک صُراحی نما برتن میں سُوپ ڈال رکھا ہے جس میں بمشکل سارس کی چونچ ہی جا سکتی ہے ۔
لومڑی سارا معاملہ سمجھ گئی اور اُس سے بولی کہ میں نمک ذرا تیز پسند کر تی ہوں تم گھر سے ذرا نمک پکڑ لائو، سارس نمک لینے گیا تو لومڑی نے قریبی کولڈ کارنر سے ایک سڑا حاصل کیا اور سارس کے آنے تک سٹرا کے ذریعے سارا سُوپ چٹ کر گئی ۔
آباد ہوئے برباد ہوئے
نوجوان ادیب اور شاعر علی اکبر ناطق نے جس قلیل عرصے میں ادبی حلقوں کے درمیان شہرت حاصل کی ہے اور اپنا مقام بنایا ہے وہ خود حیرت انگیز ہے ۔آغاز ہی میں اُس نے دو ضخیم ناول ''نولکھی کوٹھی‘‘ اور ''کاری والا‘‘ جبکہ افسانوی مجموعے ''قائم دین ، شاہ محمد کا ٹانگا‘‘ جبکہ شاعری کے مجموعے ''سبز بستیوں کے غزال، بے یقین بستیاں، یاقوت کے ورق، سُر منڈل کا راجا، مارچ کے پھول ،تصویروں کا باغ اور درِ عدالتِ علی ‘‘ اِس کے علاوہ ''فقیر بستی میں تھا‘‘ (محمد حسین آزاد کی سوانح اور شعرِاقبال )حیئت شعر کی جمالیات اور فکری نظام شامل ہیں۔
ناول ''نو لکھّی کوٹھی‘‘ جس نے شائع ہوتے ہی ادبی حلقوں میں ایک تہلکہ مچا دیا تھا انڈیا میں اِس کا انگریزی میں ترجمہ شائع کیا جا رہا ہے جبکہ اِن کے شعر ی مجموعوں نے الگ سے ایک دُھوم مچا رکھی ہے ۔نیز سفیرے لیلہ کے عنوان سے اُس کی شاعری کے کُلیات بھی شائع ہو چکے ہیں ۔
انتساب اُن گمنام مارے جانے والے شہیدوں کے نام جنہیں 1947کی تقسیم کھا گئی۔پسِ سرورق عرفان جاوید کے قلم سے ہے جن کے مطابق یہ ایک شانداراور بے مثال خود نوشت ہے جس میں کھرا سچ ہے ،ایک ایسا سچ جس کی لپیٹ میں علی اکبر ناطق کے آبا ؤ اجداد ،اُس کی اپنی ذات اور زمانہ بھی آتا ہے۔ اِس کی نثر پنجاب کی دھرتی کی طرح زرخیز اور پُر ما یا ہے ۔اِس داستانِ حیات میں فکشن اور کہانی جیسی دلفریب دلچسپی ہے۔ یہ خود نوشت رنگین قصّو ں کی من مو ہنی مالا ہے ،البتہ یہ فقط واقعہ نگاری نہیں ،واقعات کی تہہ در تہہ میں گنجینہ ٔ معانی مخفی ہے ۔اِس گنجینے تک فقط صاحبِ نظر رسائی حاصل کر سکتا ہے، یہ خود گزشت اِس دور کی کہانی ہے ،یہ رُودادِ حیات ہر ہر دور کی بے مثال حکایت ہے ،اِس کتاب کو پڑھنا روح کو سرشار کر دینے والا تجربہ ہے کہ یہ اردو ادب میں اپنی نو ع کی واحد خود نوشت ہے ،ایک امر ہو جانے والی لازوال تخلیق !
یہ اِس کی اب تک کی سرگزشت ہے جسے مختلف ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ داستان کس قدر دلچسپ ہو سکتی ہے اِس کا اندازہ آپ لگا ہی نہیں سکتے اور ہر قاری اسے اِس توقع اور اُمید کے ساتھ ختم کرے گا کہ یہ سلسلہ آئندہ بھی جار رہے گا۔ گیٹ اپ عمدہ صفحات 398 اور قیمت 1500روپے ہے ۔ اور اب آخر میں مجموعۂ کلام بے یقین بستیاں میں سے یہ نظم۔۔۔
جو طُورِ سینا سے لوٹ آئے
ہمیں نہ مارو کہ ہم تو وہ ہیں جو طُورِ سیناسے لوٹ آئے
فقط جبینوں پہ داغ سجدہ کی مُہرلے کر
بغیر آیت کے ،بِن صحیفوں کے لوٹ آئے
ہمیں نہ مارو
کہ ہم ازل سے وہ بے وطن ہیں کہ جن کی پشتیں اُٹھااُٹھا کر سفر کے
سامان تھک چُکی ہیں
فگار قدموں سے دشت گردی لپٹ گئی ہے
وہ دشت گردی کہ جس کا کوئی صلہ نہیں اور ابتدا ہے نہ انتہا ہے
عظیم صحرا میں چلتے چلتے قدیم حجت بھٹک چُکی ہے
جہاں بگولوں کے دائروں نے ہماری گردش کو تیز رکھا
اُنہی نشانوں کے گِرد جن پر قضا کے سائے پڑے ہوئے ہیں
وہیں پہ رُک کر پڑھا تھا ہم نے وہ اِسم عظیم جو رفتہ رفتہ بُھلادیا ہے
کبھی جو سینوں پہ دم کیے تھے اب اُس کا کوئی اثر نہیں ہے
حنُوط کر کے سلادیا ہے جسے ،اُٹھے گی وہ روح کیسے
زُبان تالو سے لگ گئی ہے کہ خُشک لفظوں نے چھین لی اب وہ تازگی
جو ہُنر بھی تھی او ر جو شرربھی
کسے بتائیں کہ یہ ہمارے زبان و دل کا ہی معجزہ ہے
ہمیں نہ مارو کہ اب فقط ایک شور باقی ہے جو سماعت کو کھا گیا ہے