یادرفتگاں: میرا جی وسیع افق کے شاعر
میرا جی کا اصلی نام محمد ثناء اللہ ڈار تھا۔وہ 1912ء میں پیدا ہوئے اور75 سال قبل 3 نومبر1949کوجواں عمری میں محض 37 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کے والد منشی مہتاب الدین ریلوے میں اسسٹنٹ انجینئر تھے۔ میرا جی کے آبائواجداد ڈوگرہ راج میں کشمیر کے ایک گائوں کاروٹ سے ہجرت کرکے پنجاب کے گائوں اٹاوہ ضلع گوجرانوالہ میں آباد ہوئے تھے۔ منشی محمد مہتاب الدین پہلے ریلوے کے ٹھیکیدار تھے۔ ایک بار ایک ٹھیکے میں سخت نقصان ہو گیا اور وہ کوڑی کوڑی کے محتاج ہو گئے۔ ٹھیکے ختم ہو گئے۔ انگریز انجینئر نے از راہ ہمدردی منشی مہتاب الدین کو ریلوے میں اسسٹنٹ انجینئر بھرتی کر لیا۔ منشی مہتاب الدین مستقل طور پر لاہور آ گئے۔
میرا جی کی فکری اور ادبی پہچان حلقہ ارباب ذوق کے حوالہ سے ہوتی ہے، تحریک کی سطح پر میرا جی ترقی پسندوں کے مخالف تھے، انہیں ترقی پسندوں پر سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ انہوں نے شعر و ادب کے موضوعات کو محدود کردیا ہے اور زندگی کی وسعتوں کو صرف پیٹ کے مسائل تک سمیٹ دیا ہے۔ خود میرا جی کا شعری افق بہت وسیع تھا، خصوصاً ان کے مطالعے کی وسعت نے انہیں اردو کے علاوہ دوسری زبانوں کے جس شعری سرمائے سے روشناس کرایا تھا اس نے ان کے شعری ذوق اور شعری دنیا کی سرحدوں کو بہت پھیلا دیا تھا۔ اس لئے وہ سمجھتے تھے کہ اس نئے سماجی پس منظر میں جس کا ظہور پوری دنیا میں ہو رہا ہے اردو شاعری خصوصاً اردو نظم کو بھی اپنے موضوع اور فنی ڈھانچوں کو تبدیل کرنا چاہئے۔ اس تبدیلی کا احساس انہوں نے اپنے دوستوں کو بھی کرایا چنانچہ نظم کی نئی فکری اور فنی جہتوں کو دریافت کرنے کی کوشش کی۔ ان کی ان کوششوں میں اپنے اپنے طور پر کئی لوگ شامل تھے۔ ایک طرف فیض، جوش، فراق اور حفیظ وغیرہ اپنی اپنی سطح اور اپنے اپنے فکری رویوں کے حوالے سے نظم اور غزل دونوں میدانوں میں اپنے جھنڈے گارڈ رہے تھے اور دوسری طرف ن م راشد اور میراجی کے ہم خیال اور ہم عصر یوسف ظفر، قیوم نظر وغیرہ تھے۔ مجید امجد کی شعری پہچان بہت بعد میں جا کر ہوئی لیکن ن م راشد، میرا جی کے عہد ہی میں ایک بڑے اور منفرد شاعر کی حیثیت سے سامنے آ گئے تھے ۔
میرا جی کی سیاسی دلچسپی صرف برصغیر تک ہی محدود نہ تھی، ان کے مضامین کے تنوع موضوعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی نظر پورے گلوب کے سیاسی و سماجی مدوجزر پر تھی۔ اس کے علاوہ ان کو علم فلکیات سے بھی دلچسپی تھی۔ یہ سارے تنوع موضوعات میرا جی کی شخصیت کو ہمہ جہت بناتے ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے بہت سے ہم عصر شاعروں کی طرح صرف شاعری نہ تھے اس سے بڑھ کر بہت کچھ اور بھی تھے۔
میرا جی کے مجموعی شعور کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر ایک بڑی معاشرتی تبدیلی کا خواب دیکھنے والے شخص تھے لیکن یہ خواب ایک لیبل یافتہ ترقی پسند کا خواب نہ تھا، نہ میرا جی اسے پسند کرتے تھے ۔ ان کے خیال میں کسی بھی طرح کا نعرہ یا منشور فنکار کی ذاتی آزادی کو ختم کر دیتا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ اپنے سماج اور سماج کے مظلوموں سے ایک وابستگی رکھتے تھے۔ ان کی نجی زندگی میں ایسے بے شمار واقعات ملتے ہیں کہ انہوں نے دوسروں کی اور خصوصاً چھوٹے طبقوں کی مدد کیلئے اپنی عزت کوبھی خطرے میں ڈال دیا اور دوسروں کی مدد کیلئے قرض لینے سے بھی گریز نہیں کیا۔ بنیادی طور پر وہ خود بھی ایک مظلوم شخص تھے جس نے خواب بہت بڑے بڑے دیکھ لئے تھے لیکن تعبیر کی صورت موجود نہ تھی۔مظفر علی سید کے لفظوں میں '' ان کا فلسفہ ایسے مظلوم آدمی کا فلسفہ تھا جس نے جینے کا سکھ کبھی دیکھا ہی نہیں‘‘ لیکن ان کے یہاں دوسروں کو یہ سکھ پہنچانے کا جذبہ ضرور موجود تھا۔ میرا جی کے سماجی شعور کا اظہار ان کی کئی نظموں میں ہوا ہے جہاں چھوٹے طبقوں سے ان کی واضح وابستگی کا اندازہ ہوتا ہے۔
میرا جی ان معنوں میں تو نظریاتی شاعر نہیں تھے جن معنوں میں ترقی پسند شاعر اپنی پہچان کراتے تھے لیکن میرا جی کے یہاں زندگی کا ایک نظریہ موجود ہے اور یہ نظریہ موجود سے غیر مطمئن ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عمل مسلسل کی خواہش ہے۔وہ موجود کو بدلنا چاہتے تھے لیکن کسی نعرے یا منشور کے تحت نہیں۔ فن کے بارے میں ان کا نقطہ نظریہ تھا کہ اسے زندگی کے کل کا احاطہ کرنا چاہئے۔ کسی ایک یا کسی مخصوص موضوع تک محدود نہیں ہونا چاہئے۔ اس لئے میرا جی کے یہاں زندگی کا تنوع ملتا ہے، جنس ان کے یہاں صرف ایک استعارہ ہے جس کے حوالے سے وہ زندگی کے کل کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں ہندوستانی معاشرہ اپنے بہت سے رنگوں کے ساتھ سانس لیتا محسوس ہوتا ہے اور وہ اسے '' اسی حالت میں‘‘ قبول کرنے کی بجائے اسے اپنے خوابوں اور آدرشوں کے رنگوں میں سجا کر مختلف صورتوں اور زاویوں میں منعکس ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ خواہش، یہ خواب انہیں زندگی کی توانائی عطا کرتے ہیں۔ وہ ذہنی اور باطنی طور پر ایک متحرک شخصیت کے مالک تھے۔ تحریک کو پسند کرتے تھے اور اس کا اظہار ان کی شاعری میں جگہ جگہ ہوا ہے۔
میرا جی ایک غزل
نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستا بھول گیا
کیا ہے تیرا کیا ہے میرا ،اپنا پرایا بھول گیا
کیا بھولا، کیسے بھولا، کیوں پوچھتے ہو؟ بس یوں سمجھو
کارن دوش نہیں ہے کوئی، بھولا بھالا بھول گیا
کیسے دن تھے، کیسی راتیں، کیسی باتیں گھاتیں تھیں
من بالک ہے، پہلے پیار کا سُندرسپنا بھول گیا
یاد کے پھیر میں آ کر دل پر ایسی کاری چوٹ لگی
دکھ میں سکھ ہے، سکھ میں دکھ ہے، بھید یہ نیارا بھول گیا
ہنسی ہنسی میں، کھیل کھیل میں، بات کی بات میں رنگ مٹا
دل بھی ہوتے ہوتے آخر گھاؤ کا رِسنا بھول گیا
کوئی کہے یہ کس نے کہا تھا، کہہ دو جو کچھ جی میں ہے
میرا جی کہہ کر پچھتایا اور پھر کہنا بھول گیا
منتخب اشعار
زندگی ایک اذیت ہے مجھے
تجھ سے ملنے کی ضرورت ہے مجھے
دل میں ہر لحظہ ہے صرف ایک خیال
تجھ سے کس درجہ محبت ہے مجھے
٭٭٭٭
جیسے ہوتی آئی ہے ویسے بسر ہو جائے گی
زندگی اب مختصر سے مختصر ہو جائے گی
٭٭٭٭
اب اپنا یہ حال ہو گیا ہے
جینا بھی محال ہو گیا ہے
٭٭٭٭
دید اشک بار ہے اپنا
اور دل بے قرار ہے اپنا
رشک صحرا ہے گھر کی ویرانی
یہی رنگ بہار ہے اپنا
٭٭٭٭
چاہت میں ہمارا جینا مرنا
آپ اپنی مثال ہو گیا ہے