دنیا میں پھیلی غربت!

دنیا میں پھیلی غربت!

اسپیشل فیچر

تحریر : خاورنیازی


اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کا ادارہ ''یو این ڈی پی‘‘ ہر سال دنیا کے تمام قابل ذکر ممالک سے ان کے معاشی اور سماجی شعبہ جات سے ان کے اعداد و شمار لے کر ایک مخصوص ضابطے کے مطابق ایک رپورٹ مرتب کرتا ہے۔ اس رپورٹ کا مقصد کسی بھی ملک کے بنیادی شعبہ ہائے زندگی کی یہ جانچ کرنا مقصود ہوتا ہے کہ کوئی ملک معاشی طور پر کتنا مستحکم ہے اور کن کن شعبہ ہائے زندگی میں اسے اصلاح کی ضرورت ہے۔ بنیادی طور پر یہی وہ پیمانہ ہوتا ہے جو کسی بھی ملک کے عوام کی حالت زار کا تعین کرتا ہے۔آسان الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کون سے ملک خوشحال ہیں اور کون سے ملک غربت کے زمرے میں آتے ہیں۔
خط غربت یا غربت کی لکیر کیا ہے ؟
کسی فرد کی آمدنی کی وہ حد جو اسے زندہ رہنے کیلئے درکار ہو، اس حد کے اندر رہ کر اگر اس کی ضروریات کیلئے یہ آمدن ناکافی ہو تو آمدن کی اس حد کو '' خط غربت‘‘ یا '' غربت کی لکیر ‘‘ کہا جاتا ہے۔ عالمی بنک اور اقوام متحدہ کے مالیاتی ادارے اس حد کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں کہ اگر ایک شخص کی یومیہ آمدن 2.15 امریکی ڈالر (تقریباً 600 روپے )کے برابر ہے تو وہ غربت کی صف میں شمار ہو گا۔ اگر اس کی آمدن اس سے بھی کم ہو تو وہ ''غریب ترین‘‘ یا غربت کی لکیر سے نیچے کی صف میں شمار ہو گا۔ اقتصادی ماہرین اس کی مزید وضاحت اس طرح کرتے ہیں ،'' غربت کی لکیر کے نیچے وہ افراد ہوتے ہیں جنہیں دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہوتی‘‘۔
غربت کی عالمی رپورٹ
'' یو این ڈی پی‘‘ اور''آکسفورڈ پاورٹی اینڈ ہیومن ڈویلپمنٹ انیشئٹو‘‘ (او پی ایچ آئی ) نے حال ہی میں دنیا بھر میں پھیلی غربت کی رپورٹ جاری کی ہے۔ مذکورہ بالا دونوں عالمی ادارے 2010ء سے ہر سال غربت سے متعلق اپنا مشترکہ جائزہ پیش کرتے آ رہے ہیں۔ اس سال کی رپورٹ میں 112ممالک کے 6300 ملین افراد کے مختلف شعبہ ہائے زندگی، جن میں صحت، تعلیم، نکاسی آب، صفائی، بجلی اور خوراک جیسے بنیادی عوامل شامل ہیں، کے اعداد و شمار اکٹھے کئے گئے تھے جو دسمبر 2023ء تک کے عرصے کا احاطہ کرتے ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان 6300ملین افراد میں سے 1100ملین افراد خط عربت سے نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔تشویش ناک بات یہ ہے کہ ان غریب ترین افراد میں سے 455 ملین افراد کا تعلق جنگ زدہ علاقوں سے ہے۔اس رپورٹ میں اس بات کی بھی نمایاں نشاندہی کی گئی ہے کہ دنیا بھر میں جنگ زدہ علاقوں میں غربت کی شرح تین گنا زیادہ ہے۔ مزید یہ کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے زیادہ عالمی تنازعات 2023ء میں دیکھے گئے ہیں۔ جو غربت کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس رپورٹ کے چیدہ چیدہ نکات یہ ہیں۔
دنیا میں غریب ترین افراد کی نصف سے زیادہ آبادی صرف پانچ ممالک پر مشتمل ہے ، جن میں بھارت ، پاکستان، ایتھوپیا ، نائجیریا،کانگو شامل ہیں۔ 1100 ملین غریب ترین افراد میں 600 ملین افراد کی عمریں 18 سال سے کم ہیں۔رپورٹ کے مطابق 84 فیصد غریب افراد کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے جبکہ دنیاکے 83.2 فیصد غریب ترین افراد کا تعلق ایشیاء اور افریقہ سے ہے۔
پاکستان کہاں کھڑا ہے ؟
عالمی بنک کی سالانہ ترقیاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں رواں سال غربت کی شرح سال گزشتہ کی 40.2 سے بڑھ کر 45.5 رہنے کا امکان ہے۔غربت کی اس بڑھتی شرح کی وجہ سست معاشی ترقی ، بلند مہنگائی ، بے روز گاری اور اجرتوں میں کمی کو قرار دیا گیا ہے ۔معاشی اشاریوں کے مطابق پاکستان میں قرضوں کی شرح 72.4 فیصد سے بڑھ کر 73.8 فیصد تک جانے کا خدشہ ہے جبکہ اگلے سال پاکستان کے ذمے قرضوں کی شرح مزید بڑھ کر 74.7فیصد ہونے کا امکان ہے۔
رواں سال کرنٹ خسارہ 0.6فیصد جبکہ اس سے اگلے سال 0.7 فیصد ہونے کا امکان ہے۔ مالی خسارہ اس سال 6.8 فیصد سے بڑھ کر 7.6 فیصد ہونے کا امکان ہے۔ پاکستان کے ادارہ شماریات کی طرف سے ستمبر 2024ء میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں اگست 2024ء کے مہینے میں مہنگائی کی شرح اگست 2023ء کے مقابلے میں 27.84 سے کم ہو کر 9.4 ہو گئی ہے۔عالمی معاشی علوم کے ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان میں مہنگائی کے اعداد و شمار ہمیشہ سالانہ تجزیہ پر بتائے جاتے ہیں جبکہ مجموعی طور پر گزشتہ چار سالوں کے دوران مہنگائی میں سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔
اس کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ سال اگست کے مقابلے میں رواں سال اگست تک گیس کی قیمتوں میں 319 فیصد ، ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں 23 فیصد،پیاز کی قیمتوں میں 136 فیصد ، سبزیوں کی قیمت میں 77 فیصد ، دال کی قیمتوں میں 43فیصد ، تازہ پھلوں کی قیمت میں 27 فیصد ،دودھ کی قیمتوں میں 10 فیصد جبکہ گوشت کی قیمتوں میں 20 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔ واضح رہے کہ رواں برس حکومت نے اشیاء خور ونوش پر 18فیصد سیلز ٹیکس بھی عائد کیا تھا ۔
بنیادی طور پر یہی وہ عوامل ہیں جن کے سبب پاکستان عالمی اداروں کی ''غریب ترین ممالک‘‘ کی فہرست میں نچلی سطح تک آن پہنچا ہے۔ ایتھوپیا ، نائجیریا اور کانگو کے بعد دنیا کا سب سے غریب ترین ملک ایٹمی قوت پاکستان ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
تیزی سے بدلتا دور طلباء کیلئے ضروری اسکلز

تیزی سے بدلتا دور طلباء کیلئے ضروری اسکلز

سائنس اور ٹیکنالوجی کے تیزی سے بدلتے زمانے میں طلبہ کیلئے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ طالب علمی ہی کے دور میں ایسی ''اسکلز‘‘ میں مہارت حاصل کریں جن کی مانگ آئندہ دس بیس برسوں میں بھی برقرار رہے گی۔آج کی تیز گام دنیا میں چیزیں تیز رفتاری کے ساتھ بدل رہی ہیں۔ آج سے دس سال قبل جو چیزیں بے حد اہم لگتی تھیں وہ آج اپنی اہمیت کھو بیٹھی ہیں۔ دنیا کے ساتھ ملازمت کے میدان میں بھی تبدیلیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں اور کئی صلاحیتوں کی مانگ میں بھی اضافہ ہوا ہے لیکن کچھ صلاحیتیں ایسی ہیں جو آج سے 10، 20 سال بعد بھی اہمیت کی حامل رہیں گی۔ طلبہ کو ان صلاحیتوں میں مہارت حاصل کرنی چاہئے تاکہ مستقبل میں ذریعہ معاش کی تلاش میں انہیں تکالیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ متعدد تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ یہ اسکلز آج سے50 سال پہلے جتنی اہم خیال کی جاتی تھیں، آج سے 50 سال بعد بھی اتنی ہی اہم خیال کی جائیں گی۔ ان اسکلز کیلئے آپ کو زیادہ جدوجہد کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔طلبہ خالی اوقات میں اس جانب ضرور توجہ دیں۔پریزنٹیشن: لوگوں کے ایک بڑے گروہ کے سامنے اپنی بات کہنے کے فن میں ہر کوئی مہارت نہیں رکھتا۔ لیکن یہ بہت ضروری ہے۔ آپ اپنی پریزنٹیشن اسکلز پر خاص توجہ دیں۔بزنس نالج: عملی زندگی میں قدم رکھنے سے پہلے آپ کی کاروبار اور معاشیات کی اہم اصطلاحات سے واقفیت اشد ضروری ہے۔ بدلتے دور کی مناسبت سے جو نئی اصطلاحات عام ہوتی ہیں، آپ کو چاہئے کہ انہیں بھی ذہن نشین کرلیں اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنے کاروبار کو مثبت طریقے سے پروان چڑھا سکیں۔تحقیقی صلاحیت: یہ صلاحیت آپ کو اپنے طور پر معلومات اکٹھی کرنے پر اکساتی ہے۔ کوئی مضمون پڑھ کر صرف اسی پر اکتفا کرلینا اہم نہیں بلکہ اس کیلئے آپ کو مزید مضامین پڑھنے چاہئیں تاکہ آپ کی معلومات میں اضافہ ہو۔تجسس اور مسلسل سیکھنا: تجسس اور مسلسل سیکھنے کا جذبہ ایسی صلاحیت ہے جو ہر کسی میں ہونی چاہئے۔ مسلسل سیکھنے کا جذبہ آپ کیلئے ترقی کی راہیں ہموار کرتا ہے۔ اس عادت کی بدولت آپ میں لچک پیدا ہوگی اور تبدیلی کو قبول کرنے میں پریشانی نہیں ہوگی۔ یہی نہیں آپ اپنی دیگر صلاحیتوں میں بھی نکھار لاسکتے ہیں۔ڈیجیٹل خواندگی: ڈیجیٹل دنیا میں سیکھنے اور روزمرہ کے افعال انجام دینے کی صلاحیت کو ڈیجیٹل خواندگی کہتے ہیں۔ اس کی مدد سے طلبہ میں آلات، سافٹ ویئرز اور ایپس کو محفوظ طریقے سے استعمال کرنے کی خوداعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل خواندگی میں ماہرفرد ڈیجیٹل آلات بآسانی استعمال کرسکتا ہے۔ڈیٹا سے ہم آہنگی:دور حاضر میں ڈیٹا کو کمپنیوں کا قیمتی اثاثہ مانا جاتا ہے۔ کمپنیاں ایسے افراد کو ترجیح دے رہی ہیں جو ڈیٹا کو مؤثر انداز میں استعمال کر سکیں۔ ڈیٹا سے ہم آہنگ ہو کر آپ ڈیٹا پر آنکھ بند کرکے بھروسہ کرنے کے بجائے اس کی سچائی اور موزونیت کو جانچنے کی قابلیت پیدا کرسکتے ہیں۔جذباتی ذہانت:جذبات کا اظہار اور ان پر قابو رکھنے کی صلاحیت جذباتی ذہانت کہلاتی ہے۔ جذباتی طور پر ذہین افراد جانتے ہیں کہ ان کے جذبات کا دیگر چیزوں پر کیسے اثر پڑے گا۔ دوسروں سے ہمدردی اور ان کے نقطہ نظر سے حالات کو دیکھنا اورسمجھناجذباتی ذہانت کا اہم جزو ہے۔جذبات سے لکھا گیا کوئی غلط جملہ بعد میں پچھتاوے اور بدنامی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس لیے جذبات کے ساتھ زبان کو بھی قابو میں رکھنا چاہیے۔تخلیقی صلاحیت: تصور کو حقیقت میں بدلنا ہی تخلیقی صلاحیت ہے۔ آج کے دور میں معمول کے کام کاج مشینوں کے سپرد کئے جارہے ہیں اس لئے تخلیقی صلاحیت مستقبل قریب میں مطلوبہ ترین صلاحیت بن کر ابھرے گی۔ نئے خیالات پیش کرنا، مسائل سلجھانا، نئے آئیڈیاز کے ذریعے مسائل کو حل کرنا اور چیزوں کو بہتر بنانا جیسی صلاحیتیں تخلیقی صلاحیت کے دائرے میں آتی ہیں۔ تعاون اور اشتراک: ٹیم ورک کے تصور میں تبدیلیاں آئی ہیں، کمپنیوں میں ہائبرڈ ملازمین، ریموٹ ملازمین، ٹھیکیدار اور دیگر اقسام کے ملازمین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات کے پیشِ نظرطلبہ کیلئے ضروری ہے کہ وہ مؤثر انداز میں دوسروں سے تعاون اور اشتراک کرنا سیکھیں۔لچکدار رویہ: اس صلاحیت کیلئے طلبہ کو حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے میں مہارت حاصل کرنی ہوگی۔ ایسے افراد کھلے ذہن کے مالک ہوتے ہیں اور نئی چیزیں سیکھنے کیلئے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ قائدانہ صلاحیت: اچھے قائد کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ تمام افراد کو بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کیلئے ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور ان کی صلاحیتوں کے فروغ اور ترقی کو یقینی بناتا ہے۔ اپنے آپ میں لیڈرشپ اسکل پیدا کریں۔ وقت کی پابندی: وقت کی پابندی اور وقت کا موثر استعمال نہایت ضروری ہے۔ اس کی مدد سے آپ بہتر انداز میں وقت پر اپنے کام مکمل کرسکتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ وقت کے صحیح استعمال کا مطلب ''اسمارٹ ورک‘‘ ہے۔تنقیدی سوچ: سوشل میڈیا ٹرینڈ، معلومات کی بہتات اور جھوٹی خبروں کے دور میں کامیابی پانے کیلئے تنقیدی سوچ کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔آج کل سوشل میڈیا پر فیک نیوز پھیلانے کا رواج عام ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ہر بشر ایک دم سے بہت زیادہ پریشان ہو جا تا ہے۔ تنقیدی سوچ کا مطلب ہے کہ آپ مسائل اور حالات کا ثبوتوں کی بنیاد پر تجزیہ کریں اور آپ کے مشاہدات سنی سنائی باتوں، ذاتی نظریات اور تعصب سے پاک ہوں۔ تنقیدی سوچ کا حامل شخص سچ اور جھوٹ کے درمیان فرق کرتا ہے۔ سٹوری ٹیلنگ: خاص موقعوں پر، خاص طور پر پریزینٹیشن کے دوران یہ اسکل کارآمد ثابت ہوتی ہے۔لوگوں کو کہانیاں سننے میں دلچسپی ہوتی ہے، اس لئے کہانی سناکر اپنی بات کہنے کی کوشش کیجئے۔ ائے آئی ( آرٹیفیشل انٹیلیجنس )ـ:مصنوعی ذہانت کمپیوٹر سافٹ ویئر یا مشینوں کو یہ صلاحیت دیتے ہیں کہ وہ معلومات کا تجزیہ کر کے صورت حال کے مطابق خود سے بہترین فیصلہ کر سکیں۔ مصنوعی ذہانت علم شمارندہ (کمپیوٹرسائنس) کا ایک ذیلی شعبہ ہے جس میں ذہانت (یا فہم) سیکھنے اور کسی صلاحیت کو اپنانے سے متعلق بحث کی جاتی ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس نے نہ صرف طبی بلکہ ہماری عام زندگی میں بھی بہت سی تبدیلیاں رو نما کی ہیں۔ جس سے عام آدمی کے علاج معالجے میں ماضی کی نسبت بہت سی آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں۔  

آج کا دن

آج کا دن

ابراہام لنکن امریکہ کے صدر بنے6 نومبر 1860ء کو ابراہام لنکن امریکہ کے سولہویں صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے جان سی بریکرنج، جان بل اور سٹیفن اے ڈگلس کو شکست دی جبکہ انہیں صرف 40 فیصد ووٹ ملے۔ ابراہام لنکن 1865ء میں اپنے قتل تک اس عہدے پر فائز رہے۔ لنکن نے امریکہ کو خانہ جنگی سے نکالا اور ملک میں غلامی کاخاتمہ کیا۔مراکش گرین مارچ6نومبر1975ء کو مراکش عوام کی طرف سے ایک بڑے مظاہرے کا آغاز ہوا جسے گرین مارچ کا نام دیا گیا۔اس مظاہرے میں3 لاکھ5 ہزار غیر مسلح مراکشی باشندے سرحد پار کر کے مغربی صحارا کے ہسپانوی کنٹرول والے علاقے میں داخل ہو گئے اور مراکشی صحارہ کی واپسی کا مطالبہ کرنے لگے۔خونریزی اور قتل عام سے بچنے کیلئے سرحد کی حفاظت کرنے والے ہسپانوی فوجیوں کو گولی نہ چلانے کا حکم دیا گیا تھا۔کینیکن ٹیسٹ امریکہ کے جوہری توانائی کمیشن کی جانب سے6نومبر1971ء کو الاسکا کے ایک جزیرے پر تجربہ کیاگیا۔یہ آپریشن گرومیٹ نیوکلیئر ٹیسٹ سیریز کا حصہ تھا۔ اس تجربے کے دوران اسپارٹن اینٹی بیلسٹک میزائل کیلئے منفرد وار ہیڈ ڈیزائن کیا گیا۔ یہ تقریباً 5 میگا ٹن TNT کی دھماکہ خیز پیداوار کے ساتھ کیا گیا ٹیسٹ تھا ۔اسے اب تک کا سب سے بڑا زیر زمین دھماکا بھی کہاجاتاہے۔کینیکن ٹیسٹ کو ماحولیاتی بنیادوں پر کافی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ سعودی بادشاہ اور پوپ کی ملاقات6نومبر2007ء کو سعودی عرب کے شاہ عبداللہ نے ویٹیکن میں پوپ بینڈیکٹ سے ملاقات کی۔یہ رومن کیتھولک چرچ کے سربراہ کی جانب سے سعودی بادشاہ سے پہلی ملاقات تھی۔اس ملاقات میں سعودی عرب میں رہنے والے عیسائیوں کے متعلق بھی بات چیت کی گئی۔ سعودی عرب میںتقریباً 15لاکھ عیسائی رہتے ہیں لیکن انہیں کھلے عام عبادت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ 

یادرفتگاں: میرا جی وسیع افق کے شاعر

یادرفتگاں: میرا جی وسیع افق کے شاعر

میرا جی کا اصلی نام محمد ثناء اللہ ڈار تھا۔وہ 1912ء میں پیدا ہوئے اور75 سال قبل 3 نومبر1949کوجواں عمری میں محض 37 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کے والد منشی مہتاب الدین ریلوے میں اسسٹنٹ انجینئر تھے۔ میرا جی کے آبائواجداد ڈوگرہ راج میں کشمیر کے ایک گائوں کاروٹ سے ہجرت کرکے پنجاب کے گائوں اٹاوہ ضلع گوجرانوالہ میں آباد ہوئے تھے۔ منشی محمد مہتاب الدین پہلے ریلوے کے ٹھیکیدار تھے۔ ایک بار ایک ٹھیکے میں سخت نقصان ہو گیا اور وہ کوڑی کوڑی کے محتاج ہو گئے۔ ٹھیکے ختم ہو گئے۔ انگریز انجینئر نے از راہ ہمدردی منشی مہتاب الدین کو ریلوے میں اسسٹنٹ انجینئر بھرتی کر لیا۔ منشی مہتاب الدین مستقل طور پر لاہور آ گئے۔ میرا جی کی فکری اور ادبی پہچان حلقہ ارباب ذوق کے حوالہ سے ہوتی ہے، تحریک کی سطح پر میرا جی ترقی پسندوں کے مخالف تھے، انہیں ترقی پسندوں پر سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ انہوں نے شعر و ادب کے موضوعات کو محدود کردیا ہے اور زندگی کی وسعتوں کو صرف پیٹ کے مسائل تک سمیٹ دیا ہے۔ خود میرا جی کا شعری افق بہت وسیع تھا، خصوصاً ان کے مطالعے کی وسعت نے انہیں اردو کے علاوہ دوسری زبانوں کے جس شعری سرمائے سے روشناس کرایا تھا اس نے ان کے شعری ذوق اور شعری دنیا کی سرحدوں کو بہت پھیلا دیا تھا۔ اس لئے وہ سمجھتے تھے کہ اس نئے سماجی پس منظر میں جس کا ظہور پوری دنیا میں ہو رہا ہے اردو شاعری خصوصاً اردو نظم کو بھی اپنے موضوع اور فنی ڈھانچوں کو تبدیل کرنا چاہئے۔ اس تبدیلی کا احساس انہوں نے اپنے دوستوں کو بھی کرایا چنانچہ نظم کی نئی فکری اور فنی جہتوں کو دریافت کرنے کی کوشش کی۔ ان کی ان کوششوں میں اپنے اپنے طور پر کئی لوگ شامل تھے۔ ایک طرف فیض، جوش، فراق اور حفیظ وغیرہ اپنی اپنی سطح اور اپنے اپنے فکری رویوں کے حوالے سے نظم اور غزل دونوں میدانوں میں اپنے جھنڈے گارڈ رہے تھے اور دوسری طرف ن م راشد اور میراجی کے ہم خیال اور ہم عصر یوسف ظفر، قیوم نظر وغیرہ تھے۔ مجید امجد کی شعری پہچان بہت بعد میں جا کر ہوئی لیکن ن م راشد، میرا جی کے عہد ہی میں ایک بڑے اور منفرد شاعر کی حیثیت سے سامنے آ گئے تھے ۔میرا جی کی سیاسی دلچسپی صرف برصغیر تک ہی محدود نہ تھی، ان کے مضامین کے تنوع موضوعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی نظر پورے گلوب کے سیاسی و سماجی مدوجزر پر تھی۔ اس کے علاوہ ان کو علم فلکیات سے بھی دلچسپی تھی۔ یہ سارے تنوع موضوعات میرا جی کی شخصیت کو ہمہ جہت بناتے ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے بہت سے ہم عصر شاعروں کی طرح صرف شاعری نہ تھے اس سے بڑھ کر بہت کچھ اور بھی تھے۔میرا جی کے مجموعی شعور کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر ایک بڑی معاشرتی تبدیلی کا خواب دیکھنے والے شخص تھے لیکن یہ خواب ایک لیبل یافتہ ترقی پسند کا خواب نہ تھا، نہ میرا جی اسے پسند کرتے تھے ۔ ان کے خیال میں کسی بھی طرح کا نعرہ یا منشور فنکار کی ذاتی آزادی کو ختم کر دیتا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ اپنے سماج اور سماج کے مظلوموں سے ایک وابستگی رکھتے تھے۔ ان کی نجی زندگی میں ایسے بے شمار واقعات ملتے ہیں کہ انہوں نے دوسروں کی اور خصوصاً چھوٹے طبقوں کی مدد کیلئے اپنی عزت کوبھی خطرے میں ڈال دیا اور دوسروں کی مدد کیلئے قرض لینے سے بھی گریز نہیں کیا۔ بنیادی طور پر وہ خود بھی ایک مظلوم شخص تھے جس نے خواب بہت بڑے بڑے دیکھ لئے تھے لیکن تعبیر کی صورت موجود نہ تھی۔مظفر علی سید کے لفظوں میں '' ان کا فلسفہ ایسے مظلوم آدمی کا فلسفہ تھا جس نے جینے کا سکھ کبھی دیکھا ہی نہیں‘‘ لیکن ان کے یہاں دوسروں کو یہ سکھ پہنچانے کا جذبہ ضرور موجود تھا۔ میرا جی کے سماجی شعور کا اظہار ان کی کئی نظموں میں ہوا ہے جہاں چھوٹے طبقوں سے ان کی واضح وابستگی کا اندازہ ہوتا ہے۔میرا جی ان معنوں میں تو نظریاتی شاعر نہیں تھے جن معنوں میں ترقی پسند شاعر اپنی پہچان کراتے تھے لیکن میرا جی کے یہاں زندگی کا ایک نظریہ موجود ہے اور یہ نظریہ موجود سے غیر مطمئن ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عمل مسلسل کی خواہش ہے۔وہ موجود کو بدلنا چاہتے تھے لیکن کسی نعرے یا منشور کے تحت نہیں۔ فن کے بارے میں ان کا نقطہ نظریہ تھا کہ اسے زندگی کے کل کا احاطہ کرنا چاہئے۔ کسی ایک یا کسی مخصوص موضوع تک محدود نہیں ہونا چاہئے۔ اس لئے میرا جی کے یہاں زندگی کا تنوع ملتا ہے، جنس ان کے یہاں صرف ایک استعارہ ہے جس کے حوالے سے وہ زندگی کے کل کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں ہندوستانی معاشرہ اپنے بہت سے رنگوں کے ساتھ سانس لیتا محسوس ہوتا ہے اور وہ اسے '' اسی حالت میں‘‘ قبول کرنے کی بجائے اسے اپنے خوابوں اور آدرشوں کے رنگوں میں سجا کر مختلف صورتوں اور زاویوں میں منعکس ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ خواہش، یہ خواب انہیں زندگی کی توانائی عطا کرتے ہیں۔ وہ ذہنی اور باطنی طور پر ایک متحرک شخصیت کے مالک تھے۔ تحریک کو پسند کرتے تھے اور اس کا اظہار ان کی شاعری میں جگہ جگہ ہوا ہے۔ میرا جی ایک غزل نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستا بھول گیاکیا ہے تیرا کیا ہے میرا ،اپنا پرایا بھول گیاکیا بھولا، کیسے بھولا، کیوں پوچھتے ہو؟ بس یوں سمجھوکارن دوش نہیں ہے کوئی، بھولا بھالا بھول گیاکیسے دن تھے، کیسی راتیں، کیسی باتیں گھاتیں تھیںمن بالک ہے، پہلے پیار کا سُندرسپنا بھول گیایاد کے پھیر میں آ کر دل پر ایسی کاری چوٹ لگیدکھ میں سکھ ہے، سکھ میں دکھ ہے، بھید یہ نیارا بھول گیاہنسی ہنسی میں، کھیل کھیل میں، بات کی بات میں رنگ مٹادل بھی ہوتے ہوتے آخر گھاؤ کا رِسنا بھول گیاکوئی کہے یہ کس نے کہا تھا، کہہ دو جو کچھ جی میں ہےمیرا جی کہہ کر پچھتایا اور پھر کہنا بھول گیامنتخب اشعارزندگی ایک اذیت ہے مجھےتجھ سے ملنے کی ضرورت ہے مجھےدل میں ہر لحظہ ہے صرف ایک خیالتجھ سے کس درجہ محبت ہے مجھے٭٭٭٭جیسے ہوتی آئی ہے ویسے بسر ہو جائے گیزندگی اب مختصر سے مختصر ہو جائے گی٭٭٭٭اب اپنا یہ حال ہو گیا ہےجینا بھی محال ہو گیا ہے٭٭٭٭دید اشک بار ہے اپنااور دل بے قرار ہے اپنارشک صحرا ہے گھر کی ویرانییہی رنگ بہار ہے اپنا٭٭٭٭چاہت میں ہمارا جینا مرناآپ اپنی مثال ہو گیا ہے    

سوء ادب : ہمارے جانور (لومڑی)

سوء ادب : ہمارے جانور (لومڑی)

بظاہرلومڑی ایک چالاک جانور ہے لیکن اُس کی چا لا کی بالعموم بیچ میں ہی رہ جاتی ہے اور اُس کے کام نہیں آتی۔ایک بار وہ بھوک سے پریشان تھی اور جنگل میں کھانے والی کسی چیز کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی تھی کہ اُسے ایک ٹُنڈ مُنڈ درخت کی شاخ پر ایک کوا بیٹھا نظر آیا، جس کی چونچ میں پنیر کا بڑا سا ٹکڑا تھا، جسے دیکھتے ہی اُس کے منہ میں پانی بھر آیا۔ سو پہلے تو اُس نے اُس پانی کا بڑا سا گھونٹ بھرا او ر پھر اِس خیال سے کہ وہ چونچ کھولے گا تو پنیر کا ٹکڑا نیچے گرے گا اور اُس کا ناشتہ ہو جائے گا۔وہ بولی ،''پیارے کوّے ،سُنا ہے تمہاری آواز بہت سُریلی ہے ،کیا اپنی خالہ کو کوئی اچھا سا گانا نہیں سُنائو گے ؟‘‘جس پر کوّے نے پنیر کا ٹکڑا چونچ سے نکال کر پنجے میں دبایا اور بولا ،''خالہ جان !کونسا گانا سنو گی ،کوئی فلمی گانا یا پکّا راگ ؟‘‘ ایک لومڑی جنگل میں بھاگی جا رہی تھی کہ کسی نے اُس سے پوچھا ،''کیا بات ہے ،کدھر بھاگی جا رہی ہو ؟جس پر و ہ رُکے بغیر بولی '' جنگل میں فوج آئی ہوئی ہے اور وہ تین کانوں والے جانوروں کو ہلاک کر رہے ہیں ‘‘۔لیکن تمہارے تو دو کان ہیں تم کیوں پریشان ہو ؟‘‘پوچھنے والے نے کہا ،''کان وہ گولی مارنے کے بعد گنتے ہیں !‘‘اُس نے بھاگتے بھاگتے جواب دیا ‘‘۔ایک لومڑی اور سارس کی دوستی ہو گئی لومڑی نے کہا کہ میں سوپ بہت اچھا بناتی ہوں کسی دن آئو تو تمہیں بھی اِس کا ذائقہ چکھوائوں، چنانچہ وقتِ مقرہ پر جب سارس وہاں پہنچا تو اُس نے دیکھا کہ لومڑی نے ایک پرات نما برتن میں سُوپ ڈال رکھا ہے ،دونوںنے کھانا شروع کیا ۔ابھی سارس نے تین چار چونچیںہی لگائی تھیں کہ لومڑی اتنے میں سارا سُوپ چٹ کر گئی سارس پریشان تو ہُوا کہ اُس کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے لیکن اُس نے لومڑی کو بھی دعوت دے دی کہ کل میرے ہاں آنا میں بھی بہت اچھا سُوپ بناتا ہوں۔جب وقتِ مقرہ پر لومڑی وہاں پہنچی تو اُس نے دیکھا کہ سارس نے ایک صُراحی نما برتن میں سُوپ ڈال رکھا ہے جس میں بمشکل سارس کی چونچ ہی جا سکتی ہے ۔لومڑی سارا معاملہ سمجھ گئی اور اُس سے بولی کہ میں نمک ذرا تیز پسند کر تی ہوں تم گھر سے ذرا نمک پکڑ لائو، سارس نمک لینے گیا تو لومڑی نے قریبی کولڈ کارنر سے ایک سڑا حاصل کیا اور سارس کے آنے تک سٹرا کے ذریعے سارا سُوپ چٹ کر گئی ۔آباد ہوئے برباد ہوئے نوجوان ادیب اور شاعر علی اکبر ناطق نے جس قلیل عرصے میں ادبی حلقوں کے درمیان شہرت حاصل کی ہے اور اپنا مقام بنایا ہے وہ خود حیرت انگیز ہے ۔آغاز ہی میں اُس نے دو ضخیم ناول ''نولکھی کوٹھی‘‘ اور ''کاری والا‘‘ جبکہ افسانوی مجموعے ''قائم دین ، شاہ محمد کا ٹانگا‘‘ جبکہ شاعری کے مجموعے ''سبز بستیوں کے غزال، بے یقین بستیاں، یاقوت کے ورق، سُر منڈل کا راجا، مارچ کے پھول ،تصویروں کا باغ اور درِ عدالتِ علی ‘‘ اِس کے علاوہ ''فقیر بستی میں تھا‘‘ (محمد حسین آزاد کی سوانح اور شعرِاقبال )حیئت شعر کی جمالیات اور فکری نظام شامل ہیں۔ ناول ''نو لکھّی کوٹھی‘‘ جس نے شائع ہوتے ہی ادبی حلقوں میں ایک تہلکہ مچا دیا تھا انڈیا میں اِس کا انگریزی میں ترجمہ شائع کیا جا رہا ہے جبکہ اِن کے شعر ی مجموعوں نے الگ سے ایک دُھوم مچا رکھی ہے ۔نیز سفیرے لیلہ کے عنوان سے اُس کی شاعری کے کُلیات بھی شائع ہو چکے ہیں ۔انتساب اُن گمنام مارے جانے والے شہیدوں کے نام جنہیں 1947کی تقسیم کھا گئی۔پسِ سرورق عرفان جاوید کے قلم سے ہے جن کے مطابق یہ ایک شانداراور بے مثال خود نوشت ہے جس میں کھرا سچ ہے ،ایک ایسا سچ جس کی لپیٹ میں علی اکبر ناطق کے آبا ؤ اجداد ،اُس کی اپنی ذات اور زمانہ بھی آتا ہے۔ اِس کی نثر پنجاب کی دھرتی کی طرح زرخیز اور پُر ما یا ہے ۔اِس داستانِ حیات میں فکشن اور کہانی جیسی دلفریب دلچسپی ہے۔ یہ خود نوشت رنگین قصّو ں کی من مو ہنی مالا ہے ،البتہ یہ فقط واقعہ نگاری نہیں ،واقعات کی تہہ در تہہ میں گنجینہ ٔ معانی مخفی ہے ۔اِس گنجینے تک فقط صاحبِ نظر رسائی حاصل کر سکتا ہے، یہ خود گزشت اِس دور کی کہانی ہے ،یہ رُودادِ حیات ہر ہر دور کی بے مثال حکایت ہے ،اِس کتاب کو پڑھنا روح کو سرشار کر دینے والا تجربہ ہے کہ یہ اردو ادب میں اپنی نو ع کی واحد خود نوشت ہے ،ایک امر ہو جانے والی لازوال تخلیق !یہ اِس کی اب تک کی سرگزشت ہے جسے مختلف ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ داستان کس قدر دلچسپ ہو سکتی ہے اِس کا اندازہ آپ لگا ہی نہیں سکتے اور ہر قاری اسے اِس توقع اور اُمید کے ساتھ ختم کرے گا کہ یہ سلسلہ آئندہ بھی جار رہے گا۔ گیٹ اپ عمدہ صفحات 398 اور قیمت 1500روپے ہے ۔ اور اب آخر میں مجموعۂ کلام بے یقین بستیاں میں سے یہ نظم۔۔۔جو طُورِ سینا سے لوٹ آئےہمیں نہ مارو کہ ہم تو وہ ہیں جو طُورِ سیناسے لوٹ آئےفقط جبینوں پہ داغ سجدہ کی مُہرلے کر بغیر آیت کے ،بِن صحیفوں کے لوٹ آئے ہمیں نہ ماروکہ ہم ازل سے وہ بے وطن ہیں کہ جن کی پشتیں اُٹھااُٹھا کر سفر کے سامان تھک چُکی ہیں فگار قدموں سے دشت گردی لپٹ گئی ہے وہ دشت گردی کہ جس کا کوئی صلہ نہیں اور ابتدا ہے نہ انتہا ہے عظیم صحرا میں چلتے چلتے قدیم حجت بھٹک چُکی ہے جہاں بگولوں کے دائروں نے ہماری گردش کو تیز رکھا اُنہی نشانوں کے گِرد جن پر قضا کے سائے پڑے ہوئے ہیں وہیں پہ رُک کر پڑھا تھا ہم نے وہ اِسم عظیم جو رفتہ رفتہ بُھلادیا ہے کبھی جو سینوں پہ دم کیے تھے اب اُس کا کوئی اثر نہیں ہے حنُوط کر کے سلادیا ہے جسے ،اُٹھے گی وہ روح کیسے زُبان تالو سے لگ گئی ہے کہ خُشک لفظوں نے چھین لی اب وہ تازگی جو ہُنر بھی تھی او ر جو شرربھی کسے بتائیں کہ یہ ہمارے زبان و دل کا ہی معجزہ ہے ہمیں نہ مارو کہ اب فقط ایک شور باقی ہے جو سماعت کو کھا گیا ہے  

شفاف ماحول  شہریوں کا آئینی حق

شفاف ماحول شہریوں کا آئینی حق

پاکستان کا شمار دنیا کے خوبصورت ترین ممالک میں ہوتا ہے، جسے قدرت نے چارحسین موسموں سمیت خوبصورت وادیوں، بلند و بالا پہاڑوں، سمندر، بندر گاہوں، ریگستانوں، دریاوں، نہروں اور وسیع و عریض میدانی خطّوں سے نوازا ہے۔ہماری بدقسمتی کہ اب ہمارا ملک بدترین ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تغیرات کا شکار ہوچکا ہے۔ ملک کے متنوع مزاج موسم، جغرافیہ اور وسائل اس بات کے متقاضی تھے کہ ماحولیات کے شعبہ پر ترجیحی بنیادوں پر توجہ دی جاتی۔ مگر قیام پاکستان کے بعد اس شعبہ کو بری طرح نظر انداز کیا گیا، نتیجتاً اس وقت ہم دنیا بھر میں موسمی تبدیلیوں سے متاثرہ 10 ممالک میں سرفہرست ہیں۔ دوسری طرف پاکستان (امیر ) ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے کیے گئے کاربن کے اخراج کے باعث موسمی تبدیلی کا شکار ملک بھی ہے۔ پاکستان اس وقت قدرتی وسائل کے انحطاط، بنجر ہوتی ہوئی زمین، جنگلات کی کٹائی،گرمی کی بڑھتی لہر، شدید بارشیں، خشک سالی، قحط سالی، سیلاب، گلیشیئر لیک آؤٹ برسٹ، سیلاب (گلوف) ، سطح سمندر میں اضافے، بغیر منصوبہ بندی کے شہروں میں آبادی کا پھیلاؤ (قابل کاشت زمین کا رہائش مقاصد کیلئے بڑھتا استعمال )، پانی کی آلودگی اور فضائی آلودگی جیسی آفات کے انسانی صحت اور معیشت پر پڑنے والے اثرات سے نمٹ رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان کا شمار ایشیا کے آلودہ ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ ملک کے کئی شہر دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سر فہرست ہیں۔ خاص طور پر لاہور اس وقت دنیا کا آلودہ ترین شہر بن گیا ہے، جو کہ آج کل شدید فضائی آلودگی کا شکار ہے۔ ائیر کوالٹی انڈیکس 1000کی حد عبور کر گیا ہے۔ جس کے سبب شہریوں خاص طور پر بچوں اور بوڑھوں کو شدید پریشانی درپیش ہے۔ اس لئے عوامی حلقوں کی جانب سے لاہور میں ایمرجنسی کے نفاذ کا بھی مطالبہ کیا جارہا ہے۔ دوسری طرف ماہ اکتوبر کے خاتمے اور نومبر کے آغاز کے باوجود کراچی سمیت پورے سندھ میں موسم شدید گرم ہے اور پارہ مزید ہائی ہونے کی پیشگوئی کی جارہی ہے۔ پاکستان گزشتہ کچھ سالوں سے لگاتار شدید خشک سالی، جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ، شدید گرمی کی لہر، اوسط شرح سے تین گنا زیادہ گلیشیئر پگھلنے اور مون سون کی شدید بارشوں کا سامنا کر رہا ہے۔ ورلڈ بینک نے پاکستان میں پچھلے سال سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 40 ارب امریکی ڈالر لگایا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو پانی کی شدید کمی کا سامنا ہے اور موسمیاتی تبدیلیاں فصلوں کو تباہ کر رہی ہیں۔ جس سے خوراک کا بحران پیدا ہورہا ہے اور معیشت تنزولی کا شکار ہے۔ پاکستان میں 1974ء میں پہلی بار ماحولیاتی منصوبوں کی نگرانی اور ماحولیاتی تحفظ سے متعلق کئی سرکاری ادارے، قوانین اور قومی ماحولیاتی پالیسیاں تشکیل دی گئیں اور بعد کے عرصے میں پاکستان کئی کثیر الجہتی عالمی ماحولیاتی معاہدوں کا دستخط کنندہ بھی بنا اور ماحولیاتی عوامل کی اہمیت کے پیش نظر حکومت پاکستان نے 2009 ء کو ماحولیات کا قومی سال قرار دیا۔ ماحولیات کے حوالے سے پاکستان میں 1983ء سے 1997ء تک اقدامات کیے گئے مگر عملی طور موثر اقدامات نہ ہونے پر صورتحال بد سے بدتر ہے۔ اس لئے اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ کلائمیٹ چینج کو قومی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیتے ہوئے نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی کا ازسرِ نو جائزہ لیں۔ اس سلسلے میں ایک مثبت قدم 26 ویں ترمیم میں صاف و شفاف ماحول کو شہریوں کا آئینی و بنیادی حق قرار دے کر اٹھایا گیا ہے۔ اس سے قبل آئین میں یہ حق موجود نہیں تھا۔ یاد رہے کہ آئینی بنیادی حقوق کی محافظ براہِ راست عدلیہ ہے اگر کسی ایسے حق کی تلفی ہوتی ہے تو شہریوں عدلیہ میں درخواست لگا کر اپنے حق کا تحفظ حاصل کرسکتے ہیں۔ اس ترمیم کے ساتھ ساتھ اگر ملک میں قدرتی وسائل کے تحفظ کیلئے سخت قوانین متعارف کروائے جائیں جس کے تحت پانی کے ضائع، درختوں کے کٹاؤ، ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنے والے عوامل کی پیدائش، فیکٹریوں اور صنعتوں سے نکلنے والے زہریلے مادوں اور دیگر ایسے افعال پر سخت سزائیں دی جائیں تو یہ اقدام ماحول کے تحفظ کیلئے خوش گوار ثابت ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام میں بہترین آگاہی مہم چلانے اور شجر کاری کو لازمی سماجی کام بنانے کیلئے چاروں صوبوں میں پالیسی بنانی ہوگی۔ اس کے علاؤہ عالمی سطح پر حکومت کو سفارتی کوشش تیزی کرتے ہوئے دنیا کو یہ باور کرانا ہوگا کہ ہم عالمی حدت جس میں ہمارا کردار نہ ہونے کے برابر ہے ، سے شدید متاثر ہیں۔ جس کا ہرجانہ عالمی قوانین کے تحت پاکستان کو ادا کئے جائیں۔

مزاح پارے: نلکی میں ریل

مزاح پارے: نلکی میں ریل

لندن دنیا کا سب سے بڑا شہر ہے۔ یہاں کی آبادی اس قدر گُنجان ہے اور بازاروں میں اتنی بھیڑ ہوتی ہے کہ آمد و رفت مشکل ہو جاتی ہے۔ تمام بازار اِس کنارے سے اُس کنارے تک موٹروں سے بھرے رہتے ہیں۔ صبح کے وقت جب لوگ کاروبار کیلئے گھر سے نکلتے ہیں یا شام کے وقت جب وہ اپنے گھروں کو واپس جاتے ہیں تو بازاروں میں اس قدر ہجوم ہوتا ہے کہ موٹروں کو بہت آہستہ آہستہ چلانا پڑتا ہے۔اِس مشکل کو دُور کرنے کیلئے زمین کے نیچے بھی ریل گاڑیاں چلتی ہیں۔ لندن کے بڑے بڑے بازاروں کے نیچے کئی میل لمبی سرنگیں کُھدی ہیں۔ ان میں ریل گاڑیاں بجلی کے ذریعے بہت تیز رفتار ی سے سفر کرتی ہیں۔سٹیشن زمین کے اوپر بنا ہوتا ہے۔ یہاں پہلے ٹکٹ خریدتے ہیں اور پھر ایک کمرے میں داخل ہو جاتے ہیں۔ جو تار کے رسوں سے لٹکا ہوتا ہے۔ جب سب لوگ اس کمرے میں آ جاتے ہیں تو دروازہ بند کر دیا جاتا ہے۔ پھر بجلی کے ذریعے یہ کمرہ زمین کے نیچے چلا جاتا ہے۔ اِس کمرے کو لفٹ کہتے ہیں۔ لفٹ نیچے اُترتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ آدمی اُس گہرائی تک پہنچ جاتا ہے جہاں ریل کی سُرنگیں بنی ہیں۔یہاں لفٹ کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے لوگ باہر نکل آتے ہیں۔ اب سامنے ریل کا پلیٹ فارم ہے۔ جہاں پہلے سے کئی لوگ گاڑی کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ پلیٹ فارم اور ریل کی پٹڑی سب کچھ زمین کی سطح سے کئی سو فٹ نیچا ہے۔ پھر بھی بجلی کی روشنی سے بالکل دن چڑھا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ ہوا کی آمدورفت کا انتظام اتنا اچھا ہوتا ہے کہ بعض اوقات کپڑے اُڑنے لگتے ہیں۔ریل آ کر پلیٹ فارم پر ٹھہر جاتی ہے۔ تو ہر ایک ڈبے کا دروازہ بجلی کے ذریعے خود بخود کُھل جاتا ہے۔ پہلے اُترنے والے اُتر جاتے ہیں۔ پھر نئے مسافر سوار ہو جاتے ہیں۔ دروازے پھر بند ہو جاتے ہیںاور گاڑی روانہ ہو جاتی ہے۔اس گاڑی کی رفتار اس قدر تیز ہوتی ہے کہ چلتی گاڑی میں کھڑا ہونا نا ممکن ہوتا ہے۔ بعض اوقات بھیڑ زیادہ ہوتی ہے اور سب کے بیٹھنے کو جگہ نہیں ہوتی اس لیے بعض لوگوں کو کھڑا رہنا پڑتا ہے۔ اس لیے چھت سے تسمے لٹکے رہتے ہیں تا کہ لوگ ان کو تھام لیں اور گرنے نہ پائیں۔آن کی آن میں ریل اگلے سٹیشن پر پہنچ جاتی ہے۔ وہاں لوگ ریل سے اُتر کر لِفٹ میں داخل ہو جاتے ہیں اور پھر یہ لِفٹ اوپر کو چڑھنا شروع کرتا ہے۔ تھوڑی دیر میں مسافر زمین کے اوپر آ جاتے ہیں۔یہ سُرنگیں زمین کی سطح سے اس قدر نیچی ہیںکہ اگر انسان سیڑھیوں کے ذریعے چڑھے اُترے تو بہت ہی تھک جائے۔ بعض جگہ سیڑھیاں بھی ہیں لیکن ان پر اُترنا چڑھنا نہیں پڑتا۔ سیڑھیاں خود ہی نیچے اُترتی چلی جاتی ہیں۔ مسافر سیڑھی پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور بغیر قدم اٹھائے نیچے پہنچ جاتے ہیں ۔اس ریل کو انگریزی میں ٹیوب کہتے ہیں۔ ٹیوب کے معنی نلکی کے ہیں۔ چوں کہ یہ ریل سُرنگ میں چلتی ہے جو بہت بڑی نلکی کی طرح ہوتی ہے۔ اس لیے اس کا یہ نام پڑ گیا۔