مسعود اختر پاکستان شوبز انڈسٹری کے ایک ورسٹائل اداکار تھے۔ انہوں نے ریڈیو، تھیٹر، فلموں اور ڈراموں میں اپنی اداکاری سے پرستاروں کو متاثر کیا۔انہیں ہر فن مولااداکار کہا جائے تو غلط نہ ہو گا، کیونکہ انہیں جو کردار بھی دیا گیا اسے انہوں نے نہایت عمدگی کے ساتھ نبھایا۔ مسعود اختر 5 ستمبر 1940ء کو ساہیوال میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم مقامی سکول سے حاصل کرنے کے بعد ملٹری کالج مری میں داخل ہوئے۔ بعدازاں ایم اے او کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ گریجویشن کے بعد ایک بینک میں ملازمت کر کے اپنے کریئر کا آغاز کیا جبکہ ملازمت کے ساتھ ساتھ بیچلر آف لاز کی ڈگری حاصل کرنے کیلئے اپنا تعلیمی سلسلہ بھی جاری رکھا۔ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد پاکستان کی شوبز انڈسٹری سے وابستہ ہوئے اور اپنے فنکارانہ کریئر کا آغاز ریڈیو سے کیا، وہاں برجستہ جملوں کی ادائیگی سے تھیٹر پر اداکاری کی راہ ہموار ہوئی۔ تھیٹر پر ان کے فن کو نکھارنے میں نذیر ضیغم نے نمایاں کردار ادا کیا۔ مسعود اختر کا شمار الحمرا آرٹس کونسل میں سٹیج ڈرامہ شروع کرنے والے بانیوں میں ہوتا ہے۔ ان کے مقبول سٹیج ڈراموں میں سے ایک ''پیسہ بولتا ہے‘‘ جو 1970 کی دہائی میں الحمرا میں پیش کیا گیا تھا اور اس سے انہیں کافی مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔انہوں نے 1960ء کی دہائی میں تھیٹر پر قدم رکھا اور مرتے دم تک تھیٹر کی دنیا سے وابستہ رہے۔ لاہور کے الحمرا آرٹ سینٹر سے ان کی طویل وابستگی تھی اور وہ ہر شام الحمرا کیفے میں باقاعدہ ایک خصوصی نشست رکھتے تھے۔ مسعود اختر سٹیج ڈراموں میں ذو معنی جملوں اور نازیبا رقص سے نالاں تھے، اور اسی وجہ سے انہوں نے کمرشل تھیٹر سے ناطہ توڑ لیا تھا۔ وہ اس امر کے قائل تھے کہ صاف ستھرے تھیڑ کو پروان چڑھایا جائے اور ایسے ڈرامے پیش کئے جائیں جو ماں کے ساتھ بیٹا، باپ کے ساتھ بیٹی اور بہن کے ساتھ بھائی بیٹھ کر دیکھ سکیں۔ 1968ء میں ہدایتکار و پروڈیوسر شباب کیرانوی نے انہیں فلم انڈسٹری میں متعارف کرایا۔ شباب کیرانوی کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستانی فلمی صنعت کو بے شمار نئے چہرے دیے۔ انہوں نے جن فنکاروں کو متعارف کرایا ان میں عنایت حسین بھٹی، کمال، احمد رشدی، نغمہ، شیریں، ننھا، علی اعجاز، ندیم (مغربی پاکستان میں پہلی فلم سنگدل) ظفر شباب، صاعقہ، زرقا، مسعود اختر، نذر شباب، آسیہ ، غلام محی الدین اور انجمن شامل ہیں۔ 1970ء میں مسعود اختر کی ایک فلم ریلیز ہوئی جس کا نام تھا ''آنسو‘‘، اس کی ہدایات ایس اے بخاری نے دی تھیں اور اس کی دیگر کاسٹ میں فردوس، ندیم، زاہد خان اور سلمیٰ ممتاز کے علاوہ ایک نیا چہرہ بھی شامل تھا جس کا نام تھا شاہد۔ فلم ''سنگدل‘‘ میں بھی ان کی اداکاری کو سراہا گیا۔ انہوں نے لگ بھگ 135 فلموں میں کام کیا۔ جن میں 78 اردو، 51 پنجابی، تین ڈبل ورژن اور دو پشتو فلمیں شامل ہیں۔ نمایاں ہیں۔ انہوں نے کئی فلموں میں ولن کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ٹیلی وژن کے سیکڑوں ڈرامے ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ مسعود اختر نے اداکاری کے علاوہ ٹی وی ڈراموں اور تھیٹر پروڈکشنز میں بھی قسمت آزمائی کی۔ انہیں ان کی شاندار اداکاری پرمتعدد ایوارڈز ملے، حکومت پاکستان نے انہیں 2005ء میں ''تمغہ برائے حسن کارکردگی‘‘ سے نوازا۔ان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔ ان کے اکلوتے بیٹے علی رضا کا انتقال ان کی وفات سے چند ماہ قبل (27 ستمبر 2021ء کو) ہوا تھا۔ بیٹے کے غم نے انہیں توڑ کر رکھ دیا تھا۔ زائد العمری اور پھیپھڑوں کے کینسر سمیت مختلف طبی پیچیدگیوں کے باعث جب وہ ہسپتال میں زیر علاج تھے تو اپنی عیادت کیلئے آنے والوں سے بیٹے کی مغفرت کی دعا کی درخواست کرتے۔ 5مارچ2022ء کو وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ مقبول فلمیں ''میرا نام ہے محبت‘‘ (1975ء) ''شبانہ‘‘ (1976ء) ''وعدے کی زنجیر‘‘ (1979ء) ''چھوٹے نواب‘‘ (1980ء) ''امانت‘‘ (1981ء) ''انسانیت کے دشمن‘‘ (1990ء) ''وطن کے رکھوالے‘‘ (1991ء) ''میڈم رانی‘‘ (1995ء)، ''موسیٰ خان‘‘ (2001ء)، ''دوسری ماں‘‘، ''آنسو‘‘، ''درد‘‘، ''بھروسا‘‘ ''تیری صورت میری آنکھیں‘‘، ''انتخاب‘‘، ''جاپانی گڈی‘‘، ''گھرانہ‘‘، ''نکی جئی ہاں‘‘