ماشکی ماضی کا کردار جواب نا پید ہے
اسپیشل فیچر
لفظ ''ماشکی‘‘'مشک‘‘ سے نکلا ہے۔مشک کو عربی میں السقہ،فارسی میں خیک اور انگریزی میںWaterskin کہتے ہیں۔ اس کی تصغیر مشکیزہ یعنی پانی بھرنے کی کھال، چھاگل، جانور یا بھیڑ، بکری کی کھال سے بنی ہوئی مشک ہے۔ یہ چمڑے کا ایک ایسا بیگ ہوتا ہے جس میں دریا یا کنوئیں سے پانی بھر کر استعمال کی جگہ لے جایا جاتا تھا۔ اس طرح پرانے وقتوں میں پینے کے پانی کو گھر گھر پہنچانے والے کو ماشکی، سقہ اور بہشتی کہا جاتا تھا۔ماشکی ایک قدیم پیشہ ہے۔اگرچہ یہ پیشہ مفقود ہوچکا ہے تاہم اس کے آثار آج بھی کہیں کہیں دیکھے جاسکتے ہیں۔عربوں کے ہاں اس کا باقاعدہ محکمہ قائم تھا۔ انگریز فوج بھی ماشکی سے خدمات لیتی تھی۔ برطانوی شاعر رڈیارڈ کپلنگ نے اپنی ایک نظم کو Gunga Dinسے معنون کیا تھاجو انگریزوں کے دورِ حکومت میں ایک ماشکی کا نام تھا۔ اُس کا کام فوجی مشقوں اور لڑائی کے دوران زخمی فوجیوں کو پانی پلانا تھا۔ کپلنگ نے اپنی مذکورہ نظم میں گنگا دِن کی بہادری کی تعریف کی ہے جومیدانِ جنگ میں اپنی جان کی پروا کیے بغیر زخمی اور پیاسے سپاہیوں کو اپنے مشکیزے سے پانی پلاتا تھا۔
مغل دور میں بھی ماشکی کنوئیں سے پانی نکال کر مشکیزہ گدھے پر لاد کر گھر گھر پانی پہنچانے کا کام کیا کرتے تھے۔ نظام سقہ کو مغل فرمانروا ہمایوں نے ایک دن کی بادشاہت عنایت کی تھی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ جب ہمایوں کوشیر شاہ سوری نے شکست دی تو دہلی واپس آتے ہوئے اسے دریا عبور کرنا پڑا،اُسے تیرنا نہیں آتا تھا۔ دریا کے کنارے پر نظام نامی سقّہ اپنے مشکیزے میں پانی بھر رہا تھا۔ اس نے ہمایوں کو دریا پار کرانے میں مدد کی تھی۔ ہمایوں کو جب دوبارہ اقتدار نصیب ہوا تو اس نے سقّہ کو اپنے دربار میں بلوایا اور اس کی خواہش پر اپنا تاج اس کے سر پر رکھ کر اسے ایک دن کی بادشاہت عنایت کی تھی۔اس کی یاد میں دلی کے بہشتی جامع مسجد کی سیڑھیوں اور ہمایوں کے مزار پر چاندی کے کٹوروں میں لوگوں کو پانی پلاتے رہے ہیں۔ وہاں کی ایک گلی بھی نظام سقّہ کے نام سے منسوب ہے۔بھارت میں ماشکیوں کی ایک باقاعدہ برادری ''آل انڈیا جماعت العباسی‘‘ کے نام سے موجود ہے جبکہ دوسری برادری ''مہاراشڑا بہشتی سماج‘‘ کہلاتی ہے۔
پرانے وقتوں میں آب رسانی کا نظام آج کی طرح نہیں تھا۔ گاؤں میں باقاعدہ ماشکی کا ایک کردار ہوتا تھا۔ گاؤں میں گھروں میں پانی کیلئے مٹکے یا گھڑے ہوتے تھے۔ ماشکی ان مٹکوں یا گھڑوں کو بھرتا تھاجبکہ صحرائی علاقوں میں پانی کے ٹوبے ہوتے تھے۔ دریااور ندی کے کنارے بسنے والے لوگ ندی اور دریا سے ان مشکوں میں پانی بھرا کرتے تھے اور اپنے استعمال میں لاتے تھے۔جبکہ شہری زندگی میں پانی کی ترسیل کا یہ سستا ذریعہ عام تھا۔پشتون خانہ بدوش جب جنوبی پنجاب میں آکر اپنے خیمے لگاتے تو ان کے پاس بھی پانی بھرنے کیلئے مشکیزے ہوتے تھے۔ماشکی کی خدمات شادی بیاہ، خوشی،غمی اور تہواروں کے مواقع پر بھی حاصل کی جاتی تھی۔ ضروریات کے لیے ماشکی سے پانی کی مشک خریدی جاتی تھی۔میونسپل کمیٹیوں کے ملازم ماشکی حضرات دن میں دو بار مشک سے شہر کی اہم سڑکوں اور کمیٹی کی حدود میں آنے والے محلہ جات کی سڑکوں پر پانی کا چھڑکاؤ کیا کرتے تھے۔ لاہورمیں جب ماشکی چھڑکاؤ کرتے تھے تو ان کے آگے ایک فرد گھنٹی بجایا کرتا تھا تاکہ لوگوں کو علم ہو کہ چھڑکاؤ کرنے والا ماشکی پانی چھڑکا رہا ہے۔جب کبھی پہلوانوں کی کشتیوں کا دنگل ہوتا تو ماشکی دنگل میں لوگوں کو پانی پلاتا نظر آتا۔
بلوچستان میں آج بھی مشکیزہ بنایا اور استعمال کیا جاتا ہے۔بکری یا بکرے کو ذبح کرنے کے بعد کھال کو اتارنے میں کافی احتیاط کی جاتی ہے۔تا کہ اس میں سوراخ نہ ہوکیونکہ سوراخ ہونے کی صورت میں کھال مشکیزہ بنانے کے لئے کام نہیں آتی ہے۔کھال اتارنے کے بعد تقریبا ًچار ہفتوں تک اس تازہ چمڑے کو سورج کی تپش میں رکھ کر خشک کیا جاتا ہے۔پھر کیکر کی چھال لے کر ان کو گرم پانی میں ابالا جاتا ہے۔ دس دن تک یہ پانی کھال میں رکھا جاتا ہے۔جس سے یہ چمڑہ مضبوط ہوجاتا ہے ، پھرریشم کے دھاگوں سے غیر ضروری سوراخ بند کرکے صرف پانی ڈالنے اور نکالنے کیلئے ایک بڑا سوراخ رکھا جاتا ہے۔ پانی رکھنے کی وجہ کھال کی اصل رنگت سرخ رنگ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔کھال مضبوط اور پائیدار بن جاتی ہے۔
مہاڑ کے گاؤں کٹھہ کامقامی کمیر بابا کو جس نے دیکھا ان کے ناتواں کندھوں پر جون کی چلچلاتی دھوپ اور گرمی کی شدت میں پانی کی مشک دیکھی۔وہ میانوالی سرگودھا روڈ پر ایک بس سٹاپ سے بس میں سوار ہوتا اور پانی کا گلاس مشک کے منہ پر لگا کر بھرتا اور پیاسے ہاتھوں میں تھما دیتا۔ ایک سیٹ سے دوسری سیٹ پر ہر پیاسا مشک کے ٹھنڈے پانی سے اپنی پیاس بجھاتا۔کمیر بابا کی ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ کسی سے پانی کے پیسے نہیں لیتا تھا۔ اپنے کندھوں پر سوار مشک کا ٹھنڈا پانی وہ فرض سمجھ کر بس کے مسافروں کو پلاتاتھا۔ بابا کمیر کو دنیا سے رخصت ہوئے ایک عرصہ ہو چلا ہے مگر مہاڑ کے بزرگ آج بھی بابا کمیر کی بغیر معاوضہ پانی پلانے کی انسانیت کیلئے بے لوث خدمت کی مثال دیتے ہوئے دور خلاؤں میں گھورنے لگتے ہیں۔ معاشی خوشحالی سے بڑھنے والی قوت خرید نے پانی کے حصول کے لیے برقی موٹر پمپ کو عام کر دیاہے۔جدید دور میں پانی ٹھنڈا کرنے کیلئے برف اور ریفریجریٹر کا استعمال عام ہو چکا ہے۔زمانہ بدلا توبہت سی قدریں بھی دم توڑ گئیں۔ماشکی کا پیشہ ماضی کی یاد بن کر رہ گیا مگر آج بھی کئی جگہ دور افتادہ پہاڑی اور میدانی علاقوں میں پانی ٹھنڈا کرنے کا واحد ذریعہ مشکیزے،مٹکے یا گھڑے ہیں۔صدیوں سے پانی کی سپلائی کے متذکرہ پیشہ سے وابستہ محنت کش ماشکی حضرات کو کمتر گردانتے ہوئے جاگیردارانہ سماج میں کمّی قرار دے کر سماجی طور پر غیر اہم سمجھا جاتا تھا۔ماشکی کی طرح آج بھی معاشرے کے اہم کردارجولاہے، موچی، تیلی، کمہار، ترکھان، نائی وغیرہ جیسے''کمّّی‘‘ کے بارے میں ہماری سوچ جوں کی توں ہے حالانکہ کمی کا مطلب محنتی، کام کرنے والا یا ورکنگ کلاس کا فردہوتاہے۔ یعنی وہ جو اجرت پر کام کرکے رزق حلال کماتاہے۔