مچھر سے پھیلنے والی بیماریاں
اسپیشل فیچر
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے حال ہی میں ڈینگی، چکن گونیا، زِکا اور زرد بخار جیسی مہلک بیماریوں کے حوالے سے ایک جامع طبی ایڈوائزری جاری کی ہے۔ یہ رہنمائی خاص طور پر اْن طبی کارکنوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو مشتبہ یا مصدقہ مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ مریضوں کو موت کے خطرے سے بچانے اور ان بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے بہتر نگہداشت فراہم کی جا سکے۔
یہ چاروں بیماریاں ایڈیس (Aedes) نسل کے مچھروں کے ذریعے پھیلتی ہیں۔ پہلے یہ صرف گرم اور نیم گرم خطوں کی بیماریاں سمجھی جاتی تھیں لیکن موسمیاتی تبدیلی، عالمی درجہ حرارت میں اضافہ، شہری آبادی میں بے تحاشا اضافہ، شہروں کی جانب ہجرت اور بین الاقوامی سفر کی بڑھتی سہولیات نے ان بیماریوں کو دنیا کے کئی نئے علاقوں تک پہنچا دیا ہے۔ اب یہ صورت حال صحت کے عالمی بحران کی شکل اختیار کر چکی ہے جس سے دنیا بھر میں لگ بھگ ساڑھے پانچ ارب افراد کو خطرہ لاحق ہے۔ڈبلیو ایچ او کی اس رہنمائی میں خاص طور پر ایسے مریضوں کی بہتر دیکھ بھال پر زور دیا گیا ہے جنہیں ہسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان ہدایات پر مقامی کلینکس، بنیادی طبی مراکز، ایمرجنسیمراکز اور ہسپتالوں میں بآسانی عمل کیا جا سکتا ہے۔ ان بیماریوں کی تشخیص ایک مشکل عمل ہے کیونکہ ان کی علامات ملی جلی ہوتی ہیں، جیسے بخار، جسم درد، خارش اور تھکن۔ بعض اوقات ان علامات کو ملیریا، ٹائیفائیڈ یا دیگر وائرل انفیکشنز سمجھا جاتا ہے جس سے بروقت اور درست علاج میں تاخیر ہو سکتی ہے۔
پاکستان کا
منظر نامہ
پاکستان میں ڈینگی وائرس گزشتہ ایک دہائی سے عوامی صحت کے لیے ایک بڑا خطرہ بنا ہوا ہے۔ ہر سال مون سون کے بعد ملک کے کئی بڑے شہروں میں ڈینگی کے کیسز میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ لاہور، کراچی، راولپنڈی، اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ جیسے شہروں میں ڈینگی سے متاثرہ افراد کی تعداد ہزاروں میں جا پہنچتی ہے۔ 2023ء میں ملک بھر میں ڈینگی کے 75,000 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے تھے، جن میں سے درجنوں افراد جان کی بازی ہار گئے۔2024ء میں پاکستان میں ڈینگی کے بیس ہزار سے زائد مریض اور 10اموات رپورٹ ہوئیں۔چکن گونیا اور زکا وائرس ابھی تک پاکستان میں بڑے پیمانے پر رپورٹ نہیں ہوئے لیکن ایڈیس مچھر کی موجودگی اور دیگر عوامل کے باعث یہ خطرہ مسلسل منڈلا رہا ہے کہ مستقبل میں یہ بیماریاں بھی پاکستان میں قدم جما سکتی ہیں۔ کراچی میں 2017ء کے دوران چکن گونیا کے درجنوں کیسز رپورٹ ہوئے تھے، جس نے شہری انتظامیہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ اسی طرح زرد بخار جو ماضی میں افریقی اور جنوبی امریکی خطوں تک محدود تھا اب ممکنہ طور پر ایشیائی ممالک میں بھی ظاہر ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں بیماریوں کی بروقت تشخیص اور مؤثر علاج میں ایک بڑی رکاوٹ طبی انفراسٹرکچر کی کمزوری، لیبارٹری سہولیات کی کمی اور عوامی آگاہی کا فقدان ہے۔ بہت سے دیہی اور پسماندہ علاقوں میں جدید تشخیصی سہولیات دستیاب نہیں جس کے باعث نہ صرف مریض کو وقت پر علاج نہیں ملتا بلکہ بیماری کا پھیلاؤ بھی جاری رہتا ہے۔
احتیاطی تدابیر اور مستقبل کا لائحہ عمل
ڈبلیو ایچ او کی جاری کردہ ایڈوائزری میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ طبی عملے کو ایسے طریقے اختیار کرنے چاہئیں جن کے ذریعے وہ سنگین اور غیر سنگین مریضوں میں فرق کر سکیں اور ان کے علاج کو اس کے مطابق ترتیب دے سکیں۔ ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ مقامی حکومتیں، بلدیاتی ادارے اور صحت کے محکمے مشترکہ حکمت عملی کے تحت ان بیماریوں کے خلاف اقدامات کریں۔پاکستان جیسے ملک میں جہاں مچھر مار ادویات کاسپرے نہ ہونا، نکاسی آب کا ناقص نظام اور شہری منصوبہ بندی کی کمزوریاں ہیں، وہاں ان بیماریوں سے بچاؤ کے لیے صرف علاج پر انحصار کافی نہیں، احتیاطی تدابیر، آگاہی، صفائی اور مچھر کی افزائش کو روکنے والے اقدامات از حد ضروری ہیں۔
ایڈیس مچھر سے پھیلنے والی بیماریوں نے یہ واضح کر دیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور شہری مسائل کا براہ راست اثر انسانی صحت پر پڑتا ہے۔ اگر ہم بروقت اور مربوط اقدامات نہ اٹھائیں تو آنے والے سالوں میں ان امراض کی شدت اور دائرہ مزید وسیع ہو سکتا ہے۔