"IMC" (space) message & send to 7575

کراچی میں امن کی کنجی

کراچی آپریشن کے نگران میجرجنرل رضوان اختر نے ایک انٹرویو میں بے ساختہ تبصرہ کیا : بھتے کاپیسہ بڑے گھر میں جاتاہے‘امن کیسے قائم ہوسکتاہے؟ روزنامہ دنیا کے سنڈے میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا:سرکاری اہلکاروں حتیٰ کہ ڈپٹی کمشنروں نے پیسے لے کر جعلی اسلحہ لائسنس بنائے ہیں۔کراچی پولیس کے سربراہ شاہد حیات ایک دلچسپ اور بہادر افسر ہیں ، ٹھہرے ہوئے لہجے میں لیکن کھل کر اپنا مافی الضمیر بیان کرتے ہیں۔ انہوں نے سیاسی جماعتوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے عسکری ونگ ختم کرکے ملزمان کو پولیس کے حوالے کردیں۔ خود پولیس چیف فرماتے ہیں کہ کراچی میں منشیات کا سب سے بڑا کاروبار ہوتاہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ کراچی میں دس سے پندرہ ہزارکے قریب طالبان اور لشکر جھنگوی کے شدت پسند سرگرم ہیں۔ایم کیوایم کے سربراہ جناب الطاف حسین کا دعویٰ ہے کہ شہر کے بڑے حصے پر طالبان کا کنٹرول ہے۔ وال سٹریٹ جنرل جیسے موقر روزنامہ کا کہنا ہے کہ کراچی کے ایک چوتھائی حصے پر طالبان کا کنٹرول ہے۔
منفرد محل وقوع اور بے پناہ مالی اور انسانی وسائل کی بدولت اس شہرکی بین الاقوامی اہمیت بھی ہے۔ کراچی سے افغانستان میں سرگرم موجود نیٹو ممالک کے لیے ہر ماہ تیرہ سو کنٹینر اورایک ہزار ٹینکرز پٹرول کے روانہ ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ افغانستان کے لیے درآمد کی جانے والی اشیا بھی کراچی بندرگاہ پر اتاری جاتی ہیں۔ کراچی یونیورسٹی سے القاعدہ کا نیٹ ورک پکڑا گیا۔ ممبئی حملوں میں بھی کراچی کو استعمال کیے جانے کا الزام ہے۔امریکہ کے ٹائم اسکوائر پر حملے کی منصوبہ بندی کرنے والا فیصل شہزاد بھی کراچی میں انتہاپسندگروپوں کے ساتھ رابطے میں تھا۔2011ء میں کراچی کے نیول بیس پی این ایس مہران پر حملہ ہوا جس میں دو قیمتی جہاز تباہ ہوئے۔ طالبان کی محفوظ پناہ گاہیں بھی یہاں پائی جاتی ہیں۔ طالبان کمانڈر ملا برادر گرفتاری سے قبل کراچی میں مقیم رہے ہیں۔دنیا کے 221غیر محفوظ شہروں میں کراچی کا نمبر 216ہے۔
دوسری جانب کراچی پاکستان کی علامتی ہی نہیں‘حقیقی اقتصادی شہ رگ ہے۔ جی ڈی پی کا 25 فیصدکراچی سے آتاہے۔ وفاقی حکومت کو ٹیکسوں کی مد میں ہونے والی آمدن کا54 فیصد کراچی کا مرہون منت ہے۔ پاکستان کی 30فیصد صنعتی پیداوار کا مرکز کراچی ہے۔ اگر کراچی میں ایک دن ہڑتال ہو تو قومی خزانے کوتین تاسات ارب روپے کے لگ بھگ نقصان ہوتاہے، لہٰذا پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا دارومدار کراچی کے امن اور سیاسی استحکام پر ہے۔اگر نون لیگ کی حکومت چاہتی ہے کہ پاکستان ترقی کرے اور اقتصادی مسائل حل ہوں تو اسے اپنی توانائیوں کا رخ کراچی کی طرف موڑنا ہوگا۔ 
افسوس!اس قدر امکانات کے باوجود کراچی کو بری طرح نظرانداز کیا گیا جس کے نتیجے میں آج پاکستان کو بے پناہ مشکلات کا سامنا کرناپڑ رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ شہر بارود کے ڈھیر پر آباد ہے۔اس کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک ایسی پولیس فورس قائم کی گئی ہے جس کے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے ہیں۔ دل تھام کر سنیے ! کراچی آپریشن کے دوران پولیس نے 5500 افراد کو حراست میں لیا‘ ان کے خلاف مقدمات چلانے اور عدالتوں میں شواہد پیش کرنے کے لیے کم ازکم پانچ سو وکلاء کی ضرورت ہے ، ایسے وکلاء کی جو زبردست تربیت یافتہ ہوں ، جرائم کی دنیا کا گہراادراک رکھتے ہوں اور جدید سائنس کو جرائم کی بیخ کنی کے استعمال کرنے کے ہنر سے آشنا ہوں۔ حکومت کے پاس موجود افسروں اور وکلاء کے پاس ایسی مہارت ہے اور نہ حکومت ایسے مردان کار فراہم کرنے کی خواہش مند ۔ غالب امکان یہ ہے کہ اگلے چند ماہ میں یہ لوگ ضمانت پر رہاہوکر دوبارہ زیرزمین چلے جائیں گے۔ پولیس والے اپنی ناکامیوں کا الزام وسائل کی کمی کودیتے ہیں ، سیاسی مداخلت کا رونا روتے ہیں ۔ایک سینئر افسر نے بتایاکہ ہر ایس ایچ او ایک تھانے میں اوسطاً43 دن مشکل سے گزارپاتا ہے۔ نوسو افراد کی نگرانی کے لیے ایک پولیس افسر تعینات ہے۔ چالیس فیصد بھرتیاں سیاسی بنیادوں پر کی گئی ہیں جو شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے ''سیاسی سرپرستوں ‘‘ کی چاکری کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں کراچی کے مسائل بھی متنوع نوعیت کے ہیں ۔ زمین ہتھیانے والے گروہ الگ ہیں ۔ غیر ملکیوں کے لیے جعلی دستاویزات تیار کرنے والے اپنا ٹھیہ سجائے ہوئے ہیں ۔ منشیات کے کاروبار کا اپنا جہان آباد ہے۔
مسائل گمبھیر ہیں لیکن دنیا میں کئی ایسے خطے بھی ہیں جہاں اس سے بھی زیادہ پیچیدہ حالات تھے لیکن سیاسی عزم اور حکمت عملی سے ان شہروں میں امن قائم کیا گیا۔ پولیس کے نظام میں اصلاحات کے علمبردار امتیاز گل دنیا کے ایسے کئی شہروں کا حوالے دیتے ہیں جہاں جرائم کی سطح کراچی سے زیادہ اور مافیا حکومت سے زیادہ طاقتور تھا ۔ حکومت نے طے کرلیا تو بتدریج جرائم پیشہ عناصر کو سرنگوں ہونا پڑا۔ جرمنی ،برطانیہ اور یورپ کے کئی ممالک نے شہری پولیس کو ایک خود مختار ادارہ بنایا جس کے کام میں کوئی بھی دوسرا ادارہ یا شخصیت مداخلت کرنے کی مجاز نہیں ؛ چنانچہ بتدریج پولیس نے اپنے بل بوتے پر شہروں میں پائیدار امن قائم کرلیا۔
کراچی میں پولیس کی استعداد میں اضافہ، میرٹ پر بھرتی اور سیاسی مداخلت کے خاتمے کویقینی بنایاجاسکے تو یہی پولیس معجزے کردکھانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ گزشتہ برس جولائی میں برطانیہ کے وزیر خارجہ ولیم ہیگ پاکستان آئے ، ان دنوں الطاف حسین کے لندن والے گھر اور دفتر پر پولیس نے چھاپے مارے تھے۔ ہیگ جہاں بھی جاتے ان سے اس مقدمے کے بارے میں استفسار کیا جاتا۔انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا: برطانوی پولیس اپنا کام سیاسی مداخلت کے بغیر انجام دیتی ہے۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے کہاکہ ان کے ملک میں پولیس پر سیاسی کنٹرول نہیں۔
کراچی پولیس کے سربراہ شاہد حیات ان دنوں کافی سرگرم نظر آتے ہیں ، لیکن انہیں مزید فورس اور مالی وسائل کی ضرورت ہے۔ فوج بھی کراچی کے استحکام میں گہری دلچسپی لے رہی ہے جو ایک مثبت پیش رفت ہے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی جن دنوں فوج کے سربراہ تھے کئی مرتبہ کراچی گئے اور عمائدین شہرسے ملاقاتیں کیں۔ بعدازاں رینجرز کو اختیارات دلانے اور سیاسی مداخلت نہ کرنے پر سندھ حکومت کوراضی کیا۔اس سلسلے کو جاری رہنا چاہیے لیکن یہ پیش نظر رہے کہ رینجرز مسائل کا کوئی پائیدار حل تلاش کرسکتی ہے اور نہ ہی اسے شہر کی مستقل نگرانی سونپی جاسکتی ہے۔ مستقل حل صاف ستھری اور بہترین پولیس فورس کے قیام سے ہی ممکن ہے جو اعلیٰ پیشہ ورانہ تربیت اوربہترین ہتھیاروں سے لیس ہونے کے علاوہ اپنے کاموں میں مکمل طور پر آزاد ہو۔
کراچی میں امن کا قیام راکٹ سائنس نہیں کہ سیکھی نہیں جاسکتی۔پاکستان کو دنیا کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے بالخصوص برطانیہ اور جرمنی کے کئی ادارے حکومت کو معاونت فراہم کررہے ہیں۔اس فراخدلانہ امداد کو ذمہ داری سے استعمال کیا جانا چاہیے۔کراچی میں امن کی کنجی پولیس کے پاس ہے جسے ہم نے عضو معطل بنا کر رکھا ہوا ہے۔ پاکستان کی خوشحالی کا راستہ کراچی سے گزرتا ہے ، لہٰذانون لیگ کی حکومت کو کراچی پر بھرپور توجہ دینا ہوگی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں