کیا طالبان مخالف نقطہ نظر (Anti Taliban Narrative) کی سیاسی قیادت پیپلزپارٹی کو منتقل ہو رہی ہے؟
اس وقت نظری اور عملی اعتبار سے ہمارا کوئی قومی موقف نہیں ہے۔ فکری اور سماجی پراگندگی اپنے عروج پر ہے۔ طالبان کے باب میں قومی سطح پرایک سے زیادہ آراء مو جود ہیں۔ تفہیم کلام کے لیے انہیں دو بڑے گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ جو اگر مگر، چونکہ چنانچہ کے بعد بالآخرطالبان کاحامی قرار پاتا ہے۔ دوسرا وہ جو طالبان مخالف ہے اور اس حوالے سے اس کی فکری یک سوئی واضح ہے۔ پہلے گروہ میں تحریکِ انصاف اور سیاسی مذہبی جماعتیں نمایاں ہیں ۔ مسلم لیگ ابھی تک واضح نہیں لیکن آخری تجزیے میں اسے طالبان مخالف قرار دینا مشکل ہے۔ حکومت بالخصوص وزیر داخلہ کے خیالات کی بنیاد پراگرکوئی رائے قائم کی جائے تو مسلم لیگ کوکم ازکم طالبان مخالف کہنا آسان نہیں ۔ اِن دنوں اقتدارکی مجبوریاں اُن سے کچھ اور کہلوا رہی ہیں ، لیکن اُن کا اپنا موقف کیا ہے، وہ بار ہا بیان کر چکے۔ اس جماعت سے وابستہ اراکینِ پارلیمنٹ کی اکثریت نے اگر چہ طالبان کے خلاف آپریشن کے حق میں رائے دی لیکن وہ حکومت اور پارٹی موقف کو متاثر نہیں کر سکے۔ مسلم لیگ اپنی ساخت کے اعتبار سے اعیانی مزاج رکھتی ہے ۔ اِس میں فیصلہ سازی کا اختیار چند افراد کے ہاتھوں میں مرتکز ہے۔ یہ اگرچہ طالبان کے پُر تشدد رویے سے نالاں ہیں لیکن ان کے نقطہ نظرکو درست سمجھتے ہیں۔ آج پاکستان کے نظری تشخص پر جاری بحث کی اساس بھی در اصل اسی تاریخی ابہام میں ہے۔
آج طالبان کے باب میں پیپلزپارٹی کا نقطہ نظر ہر ابہام سے پاک ہے۔ وہ واضح اور دوٹوک لفظوں میں طالبان مخالف ہے۔ بلاول بھٹو نے جس طرح بلند آہنگ ہوکر یہ موقف پیش کیا ہے، قومی سیاست میں اس کی کوئی دوسری مثال مو جود نہیں۔ پیپلز پارٹی کے طرزِ سیاست پراس حوالے سے تنقید کی جاسکتی ہے اور وہ غلط نہیں ہے۔ یہ سوال جواب طلب ہے کہ آج بلاول جس طرح بلند آواز ہوکر مذاکرات اور طالبان کے مخالف ہیں، اس کا عملی اظہار اس وقت کیوں نہیں ہوا جب حکومت ان کے پاس تھی؟ میرے نزدیک اس کا سبب پیپلز پارٹی کا نظری ابہام نہیں، سیاست اور مفاد کی مجبوری ہے۔ پیپلزپارٹی نے یہ طے کر لیا تھا کہ اسے ہر حال میں پانچ سال پورے کرنے ہیں۔ پارٹی کا منشور کیا ہے، اس کی تاریخ کیا ہے، اس کا نظریہ کیا ہے ؟ یہ سوالات اس کے لیے غیر اہم رہے۔ اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ چند افراد کی معاشی خوش حالی مطلوب تھی اورپارٹی یہ مقصد حاصل کرنے میں پوری طرح کامیاب رہی۔ اگر اس نے اپنے عہدِ اقتدار میں طالبان کے مقابلے میں کمزوری دکھائی تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی وہ طالبان کے بارے میں نرم گوشہ رکھتی تھی ، اس کا سبب پارٹی کے سیاسی مفادات تھے۔اس باب میں پیپلزپارٹی کے خیالات کو بے نظیر بھٹو صاحبہ نے اپنی آ خری کتاب Reconciliation میں بیان کر دیا تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ ان کی جان کو بھی اسی گروہ سے خطرہ ہے۔ پیپلز پارٹی کی نظریاتی تاریخ سامنے ہو تو یہ بات کچھ ایسی خلافِ توقع نہیں ، یہ مزاجاً ایک سیکولر جماعت ہے اوراس قضیے میں اس کا موقف یہی ہو سکتا ہے۔
یہ حالات مجھے 1970ء کی نظری تقسیم کی یاد دلاتے ہیں۔ 1977ء تک یہ فکری تصادم پورے جوبن پر رہا جب اس کا پھل جنرل ضیاء الحق کی جھولی میں آ گرا ۔ اس وقت اس تقسیم کا عنوان اسلام اور سوشلزم تھا۔ مذہبی جماعتوں نے سوشلزم کو کفر قرار دیا ۔ بھٹوصاحب مزاجاً سیکولر ہونے کے باوجود مسلم قومیت پر یقین رکھتے تھے۔ یہ وہی مسلم قومیت ہے، مسلم لیگ تحریکِ پاکستان میں جس کی علم بردار تھی۔اس عہد میں فوج کی نگرانی میں،ایک مذہبی شناخت کے تحت بھٹو مخالف اتحاد وجود میں آیا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں اے این پی جیسی اعلانیہ سیکولر جماعت بھی تھی جو نظامِ مصطفیٰ کا علم اٹھائے ہوئے تھی۔اس مذہبی نقطہ نظر (Narrative) کو ایک سیاسی طاقت بنا دیا گیا ۔ یہ اجتماع ظاہر ہے کہ ممکن نہیں تھا اگر پس منظر میں مجتمع کرنے والی کوئی قوت (Unifying Force) موجود نہ ہوتی۔ یہ اندازِ سیاست اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل تک باقی رہا۔
اِس وقت پھر قومی سیاست کے دوفکری دھارے نمودار ہورہے ہیں۔ باندازِ دگر،کم و بیش یہ وہی تقسیم ہے جو 1970ء کی دہائی میں تھی ؛ تاہم کل اور آج کے حالات میں دو بنیادی فرق ہیں۔ 1970ء کی دہائی میں مذہبی طبقہ جارحانہ رویہ رکھتا تھا اور پیپلزپارٹی کا رویہ معذرت خواہانہ تھا۔'سوشلزم اسلام کا مخالف نہیں ہے‘ ، 'اسلام ہمارا دین ہے‘ ، جیسے جملوں سے پیپلزپارٹی کو اپنا دفاع کرنا پڑا یا اپنے مزاج کے بر خلاف جمعے کی چھٹی اور شراب پر پابندی لگا کر خود کو اسلام دوست ثابت کر نا پڑا۔ مزید یہ کہ 1977ء تک پہنچتے پہنچتے، پیپلزپارٹی کے کندھوں پر پانچ سال کے اقتدارکا بوجھ بھی تھا۔ آج مذہبی طبقے کے کندھوں پر طالبان کا بوجھ ہے ، ان گنت پاکستانیوں کی لاشوں کا بوجھ ہے جو طالبان کے ہاتھوں مارے گئے۔ آج طالبان کی حمایت کا مطلب اس بوجھ کو اٹھا نا ہے۔ اس وجہ سے اب تحریکِ انصاف اورمذہبی جماعتوں کا رویہ معذرت خواہانہ ہے۔ اس کے برخلاف پیپلزپارٹی جارحانہ سیاست کر رہی ہے جس کا اظہار بلاول کے لب و لہجے سے ہو رہا ہے۔ آج بھی پانچ سال ناکام عہد ِاقتدار کا بوجھ اس کے سر ہے لیکن وہ طالبانِ مخالف نقطہ نظرکو بلند آہنگ کرتے ہوئے،اس کمزوری کو پس منظر میں دھکیلنا چاہتی ہے۔اس کو فائدہ یہ ہے کہ سیاسی افق پر کوئی طالبان مخالف نقطہ نظر سرِدست موجود نہیں ہے۔اس کی سابقہ کارکردگی سے غیر مطمئن لیکن طالبان مخالف نقطہ نظر رکھنے والے سوچتے ہیں کہ آخر یہی جماعت تو ہے جو آج کی اس تقسیم میں سیاسی محاذ پر اس کا مقدمہ پیش کر رہی ہے۔
پیپلزپارٹی کو ایک دوسرا فائدہ یہ ہے کہ آج فوج کا کردار وہ نہیں ہے جو 1977ء میں تھا۔ وہ اقتدار کی سیاست سے لاتعلق ہے۔ یوں اب کوئی ایسی قوت مو جود نہیں جوطالبان حامی نقطہ نظر کو ایک سیاسی محاذ پر جمع کر دے۔کیا پیپلزپارٹی مستقبل میں ان فوائد کو اپنے لیے سیاسی امکانات میں بدل سکے گی؟اس وقت اس سوال کا جواب دینا مشکل ہے ؛ تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سے پیپلزپارٹی کو قومی سیاست کی صفِ اول میں جگہ مل گئی ہے۔ پسِ انتخابات (Post Election) جنم لینے والایہ مفروضہ اب دم توڑنے لگا ہے کہ پیپلزپارٹی کی طبعی عمر تمام ہو چکی۔ میں تو پہلے بھی اس کا قائل تھا کہ اپنی مایوس کن کارکردگی کے با وصف، پیپلزپارٹی قومی افق پر اس لیے مو جود رہے گی کہ وہ نظری طور پر جس طبقے کی نمائندگی کرتی ہے،اس کے لیے کوئی سیاسی متبادل مو جود نہیں ہے۔گزشتہ انتخابات میںپیپلزپارٹی سے متعلق افراد نے جس بڑی تعداد میںتحریکِ انصاف کی طرف رجوع کیا تھا، انہیں شدید مایوسی ہوئی ہے۔ اگر بلاول جناب آصف زرداری کے سیاسی ورثے سے باہر آ سکیں تو وہ اس طبقے کو واپس پیپلزپارٹی کی صفوں میں سمیٹ سکتے ہیں۔ اگر مستقبل کے انتخابات میں طالبان حامی جماعتیں اسی طرح بکھری رہیں یا انہوں نے اپنے بارے میںیہ تاثر برقرار رکھا تو پھر پیپلزپارٹی ایک مضبوط سیاسی قوت کے طور پر ابھر سکتی ہے۔
بلاول بھٹو نے ایک مشکل راستہ چنا ہے۔اس میں جان کا خطرہ بھی ہے، لیکن شاید آج ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور راستہ ہے بھی نہیں ۔ سیاسی کامیابی ہمیشہ خطرات میں گھری رہی ہے۔ دیکھیے مستقبل کے پردے سے کیا نمودار ہو تا ہے۔