دھرنا: کیا کھویا, کیا پایا ؟
جمعہ کی شام اسلام آبادمیں جاری دھرنے کے خوشگوار اختتام نے جہاں ملک بھر کے عوام کی بے چینی اور اضطراب کو دور کر دیا ، وہاںاس غیرمعمولی اہم واقعے نے ہمارے سیاسی اور جمہوری نظام کو بھی کئی نئے سبق دیے ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتیں لانگ مارچ اور دھرنے کے ہفتہ بھر کے تجربے سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہیں۔پاکستان کے عوام، سیاسی اشرافیہ اور مقتدر قوتوں نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ ان میں کم عمر ہونے کے باوجود پختگی اور شعور موجود ہے، مشرق وسطیٰ میں عرب سپرنگ یا عرب بہار کے برعکس یہاں پرزیادہ سمجھداری اور ہوشمندی کے ساتھ معاملات سلجھائے گئے۔ حالات بظاہر بندگلی میں چلے جانے کی نشاندہی دے رہے تھے ، مگر اچانک ہی فریقین نے ہوشمندی کا مظاہرہ کیا اورخوبصورتی سے اس پورے قضیے کو نمٹا دیا۔ اس ایک ہفتے کے دوران مختلف سیاسی قوتوں، انٹیلی جنشیا، میڈیا اورمقتدر قوتوں نے کیا کیا کردار ادا کیا،اس کے نتیجے میں انہیں کیا ملا…، اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں: علامہ طاہرالقادری کا کردار آغاز تحریک منہاج القرآن کے سربراہ علامہ طاہرالقادری سے کرتے ہیں۔ علامہ صاحب ایک معروف دینی سکالر اور خطیب ہونے کی شہرت رکھتے ہیں۔وہ اپنے بعض بیانات اور ماضی میں چند ایشوز پرموقف بدلتے رہنے کے باعث متنازع رہے ہیں۔ 80ء کی دہائی میں ان کی بشارتوں کے حوالے سے بیان کئے گئے بعض خواب اوراپنے اوپر قاتلانہ حملے کے دعوے کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کے ٹریبونل کی رپورٹ ہمیشہ ان کے خلاف استعمال کی جاتی ہے۔پولیٹیکل سائنس کی اصطلاح میں وہ اچھے خاصے بوجھ(Baggage)کے ساتھ سیاست کی وادی خارزار میںسفر کر رہے تھے۔ چند برس قبل وہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں اسمبلی کی رکنیت سے استعفا دے کر کینیڈا چلے گئے تھے، اس وقت کہا گیا کہ وہ اپنا زیادہ وقت علمی وتدریسی مشاغل کو دینا چاہتے ہیں۔ تین چار سال پہلے انہیں وہاں کی نیشنلٹی بھی مل گئی۔اس دوران علامہ صاحب سیاست سے قدرے دور رہے ،مگر ان کے پاکستان میں رابطے مسلسل قائم رہے، منہاج القرآن کا بڑا تعلیمی نیٹ ورک پچھلے چند برسوں میں بہت زیادہ بڑھا، یہ سب علامہ صاحب کی نگرانی میں ہوا۔ اس دوران ان کی تحریر کردہ کئی کتب بھی شائع ہوئیں، جن میں ترجمہ قرآن ’’عرفان القرآن‘‘، احادیث کا مجموعہ اور خودکش حملوں کے خلاف کئی سو صفحوں پر محیط ایک مبسوط فتویٰ قابل ذکر ہے۔ پاکستانی میڈیا لانگ مارچ کے دنوں میںقادری صاحب سے بار بار یہ کہتا رہا کہ آپ اچانک کیسے آ گئے؟ دراصل یہ ہمارے تجزیہ کاروں اور نیوز اینکرز کی روایتی لاعلمی اوربے خبری تھی۔ سیاست کو باریک بینی سے مانیٹر کرنے والے جانتے تھے کہ طاہرالقادری صاحب بتدریج سیاسی اعتبار سے فعال ہو رہے ہیں۔ سال ڈیڑھ پہلے سے لاہور کے بعض موٹر رکشوں کے پیچھے قادری صاحب کا یہ نعرہ نمودار ہوا،چہرے نہیں، نظام بدلو۔ نظام بدلو کے نام سے ایک ویب سائیٹ بھی بنا دی گئی تھی۔اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر قادری صاحب کے حامی اچانک ہی بہت متحرک ہوگئے تھے۔ نظام بدلنے اور قومی سیاست میں جوہری تبدیلیاں لانے کے حوالے سے قادری صاحب کی تقاریر کے ویڈیو کلپس اور تحریریں فیس بک پیجز پر لگائی جانے لگیں۔ رفتہ رفتہ یہ عمل بڑا تیز ہوگیا ۔ اس وقت بھی سوشل میڈیا پر دو تین سب سے متحرک گروپوں میں سے ایک تحریک منہاج القرآن ہے۔ تئیس دسمبر کے جلسے سے چار پانچ ماہ پہلے قادری صاحب نے لاہور کے تھنک ٹینک کونسل آف نیشنل افئیرز کے صحافیوں اور دانشوروں کو منہاج مرکز میں دعوت دی اور ویڈیو کانفرنس کے ذریعے انہیں بریفنگ دی، سوال جواب کا سیشن بھی ہوا۔ اس میں قادری صاحب نے بتایا کہ وہ پاکستان واپس آ رہے ہیں اور ایک بڑا جلسہ کریں گے۔ تاہم اخبار نویسوں نے قادری صاحب کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا۔پھر تئیس دسمبر کے جلسے کے لئے کمپین شروع ہوگئی، دسمبر کے اوائل میں میڈیا کو احساس ہوا کہ قادری صاحب کے حامی جس محنت سے مہم چلا رہے ہیں، وہ بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ قادری صاحب نے پہلے اپنے جلسے ، لانگ مارچ اور پھر چار پانچ دن کے دھرنے کے بعد اپنا امیج تبدیل کر لیا۔ ایک غیر اہم، مبالغہ آمیز تقاریر کرنے والے خطیب کے بجائے اب انہیں ایک اہم ، عوامی مقبولیت رکھنے والا طاقتور سیاستدان تصور کیا جائے گا۔ آئندہ میڈیا یا کوئی سیاسی جماعت انہیں Easy نہیں لے گی۔ ان کے کسی دعوے یا اعلان کو نظرانداز کرنا اب ممکن نہیں۔ بڑی مہارت اور دانشمندی سے انہوں نے اپنے پتے کھیلے اور اسلام آباد کے قلب میں پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔انہوں نے اپنے سیاسی حریفوں کو ایک طرح سے آئوٹ کلاس کر دیا۔ان کا اعتماد بھی دیدنی تھا، چودھری برادران کے پیچھے ہٹنے اور عین وقت پر ایم کیو ایم کے دغا دے جانے کے باوجود وہ اپنے پروگرام سے پیچھے نہیں ہٹے اور کامیابی حاصل کر لی۔ وہ ایک ایسے سیاستدان کے طور پر ابھرے ہیں، جن کی اب ہمارے سیاسی منظرنامے میں ایک خاص جگہ اور مستقبل ہے۔انہوں نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ وہ لاکھوں افراد کے لئے ایک روحانی رہنما کی حیثیت بھی رکھتے ہیں، ایسا لیڈر جس کے کہنے پر لوگ اپنے معصوم شیر خوار بچے ساتھ لے کر میدان میں کود سکتے ہیں۔ایک زمانے میں پیر پگارا کے حروں کو یہ حیثیت حاصل تھی۔ تحریک منہاج القرآن کا تاثر ایک خالصتاً علمی اور دعوتی تحریک کا تھا، اب اس نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ ان کے پاس انتہائی منظم اور مشکل ترین حالات میں ڈسپلن قائم رکھنے والے کارکن موجود ہیں۔ ایسے کارکن جن پر کسی قسم کے پروپیگنڈہ کا کوئی اثر نہیںاور وہ رہنمائی کے لئے اپنے قائد کی جانب ہی دیکھتے ہیں۔ دھرنے کے سبق قادری صاحب کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خطابت اپنی جگہ ،مگر مطالبے وہی مانے جاتے ہیں جو حقیقت پسندانہ ہوں اور جن کی وسیع پیمانے پر پزیرائی ہوسکے۔انہوں نے اسلام آباد پہنچنے کے بعد شروع میںغیر حقیقی مطالبے کئے، حکومت اور وزرا کو سابق اور پارلیمنٹ کی تحلیل اورالیکشن کمیشن کی فوری تشکیل نو کا کہا۔ یہ مطالبے مانے جانے والے نہیں تھے ، شائد وہ دبائو بڑھانے کے لئے ایسا کر رہے تھے ، مگر ان کا زیادہ مثبت اثر نہیں ہوا۔ بعد میںانہوں نے دانشمندی سے اپنے پرانے اور حقیقی نکات پر توجہ دی اور کم وبیش تمام مطالبے منوا لئے۔ اگلے روز اگرچہ میڈیا کے ایک حصے نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ قادری صاحب کے مطالبے نہ مانے گئے ، مگرحقیقت اس کے برعکس تھی۔ علامہ طاہرالقادری کا اصل مطالبہ آئین کے آرٹیکل باسٹھ ، تریسٹھ کے امیدواروں پر اطلاق، سکروٹنی کی مدت میں توسیع اور عوامی نمائندگی ایکٹ کی شق 77تا 82 میں تبدیلی لانا تھا۔ الیکشن کمیشن کے اختیارات میں اضافہ کامطالبہ بھی اس وجہ سے تھا۔ یہ تمام باتیں مانی گئی ہیں، نگران وزیراعظم کے لئے بھی انہیں ایک سٹیک ہولڈر کے طور پر مان لیا گیا ہے۔ اگر اس معاہدے پر عمل درآمد ہوا تو بڑی حد تک بدنام اور کرپٹ امیدواروں کا صفایا ہوجائے گا۔اس لحاظ سے بڑی کامیابی کہی جا سکتی ہے۔تحریک منہاج القرآن کو یقیناً یہ اندازہ ہو گیا ہو گا کہ دھرنے کے آخری روز بارش کے باعث ان کے لئے آپشنز محدود ہوگئی تھیں، اس سے پہلے بعض اپوزیشن جماعتوں نے میاں نواز شریف کی قیادت میں مشترکہ اعلامیہ جا ری کر کے قادری صاحب اور ان کے حامیوں کو سیاسی طور پر تنہا کر دیا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ وہ بند گلی میں چلے گئے ہیں، اگر حکومت دانشمندی سے کام نہ لیتی ، مذاکرات نہ کرتی اور محفوظ راستہ نہ دیتی توصورتحال خاصی مشکل ہو گئی تھی۔ سیاست میں واپسی کے راستے کھلے رکھنے چاہیں، قادری صاحب نے ایسا نہیں کیا، وہ انتہا پر چلے گئے تھے۔ تیونس، مصر اور یمن وغیر ہ میں عرب سپرنگ کی کامیابی کی ایک وجہ ان ممالک کے دارالحکومت کی خاص پوزیشن تھی۔ مصر میں تحریر اسکوائر پر جمع ہونے والے لاکھوں افراد قاہرہ کے رہائشی تھے، اگرچہ دوسرے شہروں سے بھی لوگ آئے ،مگر بنیادی طور پر وہ مظاہرے ان شہروں کے اپنی آبادی نے کئے تھے۔ یہی تیونس اور یمن میں ہوا۔ لیبیا اور شام میں صورتحال مختلف تھی، وہاں دارالحکومت میں اپوزیشن کی گرفت مضبوط نہیں تھی، اس لئے ان مظاہروں کا اس طرح اثر نہ ہوسکا۔ کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کا دھرنا بھی وہاں کے مقامی آبادی کا اجتماع تھا، جن کے لئے گھروں سے ساز وسامان لانا بھی آسان تھا اور لوگ اپنی پوزیشنیں بھی بدل سکتے تھے۔ ایک دو راتوں کے بعد ضرورت پڑنے پر چند گھنٹوں کے لئے اپنے گھروں میں سستایا جا سکتا تھا۔ قادری صاحب کے لانگ مارچ میں ایسی کوئی سہولت موجود نہیں تھی۔ اس کا تمام تر دارومدار شرکا کے عزم وایثار پر تھا۔ اگر چہ قادری صاحب خوش قسمتی سے اس بار کامیاب ہوئے ،مگر شرکا کا اس قدر سخت امتحان لینا رسک ہوتا ہے، اگر ایسی بارش دو دن پہلے ہوجاتی ، تب کیا ہوتا؟اس وقت تک تو دھرنے کا ٹیمپو بھی نہیں بنا تھا۔ حکومتی اتحادکی سیاسی کامیابی پیپلز پارٹی کی حکومت پر بہت سے حوالوں سے سخت تنقید کی جاتی ہے، جو یکسر بے وزن بھی نہیں، ایک بات مگر اس نے یہ ثابت کر دی ہے کہ وہ ایک سیاسی جماعت ہے اور سیاسی انداز سے سوچتی ہے۔ ایک وقت میں وفاقی حکومت سخت مشکلات کا شکار تھی، پنجاب حکومت لانگ مارچ کو پنڈی پہنچا کر سکون سے تماشا دیکھ رہی تھی،تمام تر دبائو مرکز پر تھا۔ اس مشکل وقت میں پیپلز پارٹی نے اپنے اتحادیوں کو ساتھ ملایا اوراعلیٰ سطحی وفد کے ذریعے مذاکرات کئے ،یوں ڈیڈلاک بھی ختم کیا اوراس معاہدے پر عمل درآمد کرا کر وہ الیکشن کے عمل کا شفاف بنانے کا کریڈٹ بھی لے سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے سخت گیر سوچ رکھنے والوں کو سائیڈ پر کیا اور اس کے ثمرات بھی انہیں مل گئے۔ اگر خدانخواستہ تصادم ہوجاتا تو اس کے خوفناک نتائج نکلتے۔ لال مسجد کے سانحے کے اثرات سے ہم ابھی تک نہیں نکل سکے، ملک کسی اور ہولناک واقعہ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔پیپلز پارٹی کا اصل امتحان لانگ مارچ ڈیکلئریشن پر عمل کرانا ہے۔ انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ صرف منہاج القرآن ہی نہیں بلکہ ملک بھر میں انتخابی اصلاحات کی خواہش موجود ہے۔ یہ اچھا موقعہ ہے کہ ہمارے سیاستدان جمہوری نظام کی تطہیر کریں، اس سے جمہوریت دشمن قوتوں کو شدید حوصلہ شکنی ہوگی۔ میڈیا اور تجزیہ کار اب یہ مان لینا چاہیے کہ میڈیا اور ہمارے تجزیہ کاروں نے علامہ طاہرالقادری کو انڈر اسٹیمیٹ کیا۔ وہ علامہ صاحب کے شخصی اثر اور قوت کا اندازہ نہ لگا سکے۔ میڈیا کے بیشتر حصے کو یقین تھا کہ لانگ مارچ ہو ہی نہیں سکے گا۔دھرنے کے دوران بھی کوریج کرتے ہوئے انہیں شرکا ء کے موڈکا اندازہ نہیں ہوسکا۔ کئی اینکر خواتین چیختی رہیں کہ آپ لوگوں کو سردی کیوں نہیں لگ رہی، بچے بیمار ہوجائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ انہیںسمجھنا چاہیے تھا کہ لوگ کسی جذبے اور کمٹمنٹ کے ساتھ ہی یہاں تک آئے ہیں اور یہ یوں واپس نہیں جائیں گے۔ ہمارے اہل دانش اور تجزیہ کاروں نے سب سے اہم غلطی یہ کی کہ انہوں نے طاہرالقادری کی شخصیت کو بے رحمی سے نشانہ بنایا ،مگر ان کے ایجنڈے کو نظر انداز کر گئے۔ انہیں یہ ادراک نہ ہوسکا کہ انتخابی اصلاحات کرنا اور تبدیلی لانے کے ایجنڈے کی عوام میں زبردست کشش موجود ہے۔ قادری صاحب نے اس خلا میں قدم رکھا ،جو ہماری دوسری سیاسی جماعتیں پر کرنے میں ناکام رہیں۔ جیسا کہ شرکا کے انٹرویوز سے ظاہر بھی ہوا کہ ان میں تمام لوگ منہاج القرآن کے نہیں تھے، بہت سے لوگوں نے بتایا کہ وہ عمران خان کے ووٹر ہیں، بعض دوسری جماعتوں کے حامی بھی تھے۔ ایجنڈے پر زیادہ بات ہونا چاہیے تھی، وہ نہ ہوسکی اور تمسخر،پیروڈی،طنز وتشنیع ہمارے میڈیا پر حاوی رہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمعہ کو دھرنے کی کامیابی کے بعد بہت سے اینکروں اور تجزیہ کاروں کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا ردعمل دیں۔ جن باتوں کا وہ مذاق اڑاتے رہے، وہ تقریباً سب مان لی گئیں۔ جہاں تک اسمبلیوں کی تحلیل اور الیکشن کمیشن کی فوری تشکیل کی بات تھی، یہ دبائو بڑھانے کا حربہ تھا، حقیقی مطالبہ نہیں تھا۔میڈیا اور انٹیلی جنشیا کو آنے والے دنوں میں زیادہ محتاط اور باریک بین ہونا پڑے گا۔ الیکشن میں اصلاحات کے عمل پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت پڑے گی۔ مسلم لیگ ن مسلم لیگ ن نے بظاہر بڑی عقل مندی اور ہوشیاری سے چالیں چلیں۔ انہوں نے لانگ مارچ کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی کہ اس کا رخ اسلام آباد کی جانب تھا۔ جب انہوں نے محسوس کیا کہ دھرنے میں خاصے لو گ آگئے ہیں اور یہ اجتماع خطرناک ثابت ہوسکتا ہے تووہ متحرک ہوئے۔ میاں صاحب نے کمال مہارت سے کئی اہم جماعتوںسے رابطے کئے۔ بلوچستان سے اچکزئی صاحب اور حاصل بزنجو کے ساتھ ساتھ مولانا فضل الرحمن اورجماعت اسلامی کو ساتھ ملا لینا ان کی بڑی کامیابی تھی۔ انہوں نے اپنے مشترکہ اعلامیہ سے علامہ طاہرالقادری کو بالکل تنہا کر دیا۔ یہ جمہوریت کے لئے اچھا شگون تھا کہ ہماری سیاسی جماعتیں ہر قسم کی تبدیلی کے لئے انتخابات کی جانب ہی دیکھنے لگی ہیں۔ میاں صاحب نے دانستہ یا نا دانستہ ایک بڑی غلطی یہ کی کہ انہوں نے قادری صاحب کو محفوظ راستہ نہیں دیا۔اے پی سی کے شرکا میں سے کسی نے یہ نہیں سوچا کہ اسلام آباد میںکئی روز سے ہزاروں افراد کا دھرنا جاری ہے۔دھرنے کے شرکا اور ان کے لیڈر قادری صاحب اتنا آگے جا چکے ہیں کہ ان کے لئے کچھ حاصل کئے بغیر واپس لوٹنا شرمندگی کے مترادف ہے۔ انہیں محفوظ راستہ دینا (Face saving)دینا ضروری تھا۔ دوسری صورت میں شرکاء فرسٹریٹ ہو کر تصادم کی طرف جا سکتے تھے، ایسا ہو جاتا تو پھر کچھ بھی نہ بچ پاتا۔ جس طرح کا اعلیٰ سطحی وفد حکومت نے مذاکرات کے لئے بھیجا، ویسا کام پہلے نواز شریف صاحب بھی کر سکتے تھے۔ اگر ایسا کرتے تو وہ محاورے کے مطابق میلہ لوٹ لیتے۔ انہوں نے ایسا نہیں کیا، شائد وہ اپنی مخالف وفاقی حکومت کو ٹف ٹائم دینا چاہتے تھے، مگر اختتام میں اس کا تمام تر نقصان انہیں ہی ہوا۔ ٹی وی چینلز پر ن لیگ کے رہنمائوں کی تلخی دیکھ کر انہیں پہنچنے والے دھچکے کی شدت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ؟ ہمارے اہل دانش اور تجزیہ کاروں کو ہر ایشو میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار دیکھنے کا رویہ بھی بدلنا ہوگا۔ یوں لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا آسیب ان کی دانش کے گرد لپٹ گیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے ویسے بھی دو تین باتیں سمجھنی چاہیں۔ دنیا بھر میں اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ پر و’’ سٹیٹس کو‘‘ ہوتی ہے۔ نظام بدلنے یا تبدیلی لانے کا نعرہ کبھی انہیں راس نہیں ہوتا۔ ایسا نعرہ لگانے والوں کو ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قادری صاحب والے معاملے کو زیادہ غور سے دیکھنا چاہیے تھا۔ اگر اس میں اسٹیبلشمنٹ شامل ہوتی تو معروف اسٹیبلشمنٹ نواز جماعتیں اس سے دور نہ رہتیں اور وعدہ کر کے واپس نہ چلی جاتیں۔ جو مارچ یا دھرنا اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر کیا جاتا ہے ، اس کے تیور ہی الگ ہوتے ہیں، اس کے شرکا شروع ہی سے ڈنڈے لے کر چلتے ہیں اور تباہی ان کا مشن ہوتی ہے۔ ایسے جلوسوں میں لوگ خود اپنی خوشی سے اپنی بیویوں، بہنوں اور شیر خوار بچوں کو نہیں لاتے۔ پیسے خواہ جتنے ملیں، اولاد آدمی کو اپنی جان سے بھی زیادہ پیاری ہوتی ہے۔ اس دھرنے کے پرامن اختتام نے یہ ثابت کر دیا کہ اسٹیبلشمنٹ کی رٹ لگانے والے تجزیہ کاروں نے ٹھوکر کھائی، اصولاً تو انہیں اپنے قارئین اور ناظرین سے معذرت کرنی چاہیے، مگرافسوس کہ ہمارے ہاں ایسی اچھی روایتیں موجود نہیں۔ ویسے اس حوالے سے فورسز کا رویہ مثبت رہا۔ کورکمانڈرز کانفرنس کو بعض حلقوں نے معنی خیز نظروں سے دیکھا ،مگر آئی ایس پی آر نے بروقت وضاحت کر دی۔ ہماری مقتدرہ قوتوں کو یہ یاد رکھناچاہیے کہ سیاست صرف سیاستدانوں کے کھیلنے کا میدان ہے۔ عسکری قوتوںکو اپنے پروفیشنل فرائض ہی انجام دینے چاہیں۔ ایسا کرنا ہی ان کے وقاراور عزت میں اضافہ کرے گا۔ اس دھرنے کا پرامن انجام یہ ثابت کرتا ہے کہ ملک میں جمہوریت پنپ رہی ہے اورہمارا بظاہر کمزور جمہوری سسٹم اس قسم کے بڑے دھچکوں کو برداشت کرنے کی سکت اور قوت رکھتا ہے۔اس سے ہمارے سیاستدانوں اور جمہوری قوتوں نے خاصا کچھ سیکھا ہوگا۔ تحریک انصاف عمران خان اور ان کے بعض حامیوں کو ممکن ہے اب اندازہ ہو رہا ہو کہ انہوں نے ملنے والے ایک بڑے موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ تحریک انصاف میں لانگ مارچ کے حمایت میں ایک مضبوط لابی موجود تھی،ان کے کئی اہم سیاسی لیڈروں کا خیال تھا کہ ہمیں قادری صاحب کے ساتھ شامل ہونا چاہیے، ان کی جماعت کا سیاسی نیٹ ورک موجود نہیں ،ا س لئے سیاسی کامیابی کے تمام تر ثمرات تحریک انصاف کو پہنچیں گے۔ اس لابی کی بات نہیں مانی گئی، عمران خان اور ان کے بعض غیر سیاسی مگر پارٹی کے لئے تھنک ٹینک کا درجہ رکھنے والے لوگوں کی بات مانی گئی۔ تاہم عمران خان نے لانگ مارچ اور دھرنے پر تنقید بالکل نہیں کی، وہ اسے بڑی احیتاط سے دیکھتے رہے، جائزہ لیتے رہے ،مگر شامل نہیں ہوئے۔ ممکن ہے انہیں خطرہ ہو کہ یہ دھرنا کسی اور جانب جا سکتا ہے۔ انہوں نے اپنی تمام تر توجہ انتخابات کی جانب مبذول کی اور اس حوالے سے دبائو بڑھانے کی کوشش کی ،مگر تحریک انصاف کے بہت سے نوجوان کارکنوں کو اب یقیناً مایوسی ہو رہی ہوگی۔پی ٹی آئی نے اس معاملے میں اگرچہ کھویا بھی زیادہ نہیں۔ ان کے لئے انتخابات کے حوالے سے قادری صاحب کے ساتھ ہاتھ ملانے کی آپشن موجود ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف آنے والے دنوں میں کیسے پتے چلتی ہے؟