دھرنا: کیا کھویا, کیا پایا ؟

دھرنا: کیا کھویا, کیا پایا ؟

اسپیشل فیچر

تحریر : محمد عامر خاکوانی کا تجزیہ


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

جمعہ کی شام اسلام آبادمیں جاری دھرنے کے خوشگوار اختتام نے جہاں ملک بھر کے عوام کی بے چینی اور اضطراب کو دور کر دیا ، وہاںاس غیرمعمولی اہم واقعے نے ہمارے سیاسی اور جمہوری نظام کو بھی کئی نئے سبق دیے ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتیں لانگ مارچ اور دھرنے کے ہفتہ بھر کے تجربے سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہیں۔پاکستان کے عوام، سیاسی اشرافیہ اور مقتدر قوتوں نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ ان میں کم عمر ہونے کے باوجود پختگی اور شعور موجود ہے، مشرق وسطیٰ میں عرب سپرنگ یا عرب بہار کے برعکس یہاں پرزیادہ سمجھداری اور ہوشمندی کے ساتھ معاملات سلجھائے گئے۔ حالات بظاہر بندگلی میں چلے جانے کی نشاندہی دے رہے تھے ، مگر اچانک ہی فریقین نے ہوشمندی کا مظاہرہ کیا اورخوبصورتی سے اس پورے قضیے کو نمٹا دیا۔ اس ایک ہفتے کے دوران مختلف سیاسی قوتوں، انٹیلی جنشیا، میڈیا اورمقتدر قوتوں نے کیا کیا کردار ادا کیا،اس کے نتیجے میں انہیں کیا ملا…، اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں: علامہ طاہرالقادری کا کردار آغاز تحریک منہاج القرآن کے سربراہ علامہ طاہرالقادری سے کرتے ہیں۔ علامہ صاحب ایک معروف دینی سکالر اور خطیب ہونے کی شہرت رکھتے ہیں۔وہ اپنے بعض بیانات اور ماضی میں چند ایشوز پرموقف بدلتے رہنے کے باعث متنازع رہے ہیں۔ 80ء کی دہائی میں ان کی بشارتوں کے حوالے سے بیان کئے گئے بعض خواب اوراپنے اوپر قاتلانہ حملے کے دعوے کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کے ٹریبونل کی رپورٹ ہمیشہ ان کے خلاف استعمال کی جاتی ہے۔پولیٹیکل سائنس کی اصطلاح میں وہ اچھے خاصے بوجھ(Baggage)کے ساتھ سیاست کی وادی خارزار میںسفر کر رہے تھے۔ چند برس قبل وہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں اسمبلی کی رکنیت سے استعفا دے کر کینیڈا چلے گئے تھے، اس وقت کہا گیا کہ وہ اپنا زیادہ وقت علمی وتدریسی مشاغل کو دینا چاہتے ہیں۔ تین چار سال پہلے انہیں وہاں کی نیشنلٹی بھی مل گئی۔اس دوران علامہ صاحب سیاست سے قدرے دور رہے ،مگر ان کے پاکستان میں رابطے مسلسل قائم رہے، منہاج القرآن کا بڑا تعلیمی نیٹ ورک پچھلے چند برسوں میں بہت زیادہ بڑھا، یہ سب علامہ صاحب کی نگرانی میں ہوا۔ اس دوران ان کی تحریر کردہ کئی کتب بھی شائع ہوئیں، جن میں ترجمہ قرآن ’’عرفان القرآن‘‘، احادیث کا مجموعہ اور خودکش حملوں کے خلاف کئی سو صفحوں پر محیط ایک مبسوط فتویٰ قابل ذکر ہے۔ پاکستانی میڈیا لانگ مارچ کے دنوں میںقادری صاحب سے بار بار یہ کہتا رہا کہ آپ اچانک کیسے آ گئے؟ دراصل یہ ہمارے تجزیہ کاروں اور نیوز اینکرز کی روایتی لاعلمی اوربے خبری تھی۔ سیاست کو باریک بینی سے مانیٹر کرنے والے جانتے تھے کہ طاہرالقادری صاحب بتدریج سیاسی اعتبار سے فعال ہو رہے ہیں۔ سال ڈیڑھ پہلے سے لاہور کے بعض موٹر رکشوں کے پیچھے قادری صاحب کا یہ نعرہ نمودار ہوا،چہرے نہیں، نظام بدلو۔ نظام بدلو کے نام سے ایک ویب سائیٹ بھی بنا دی گئی تھی۔اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر قادری صاحب کے حامی اچانک ہی بہت متحرک ہوگئے تھے۔ نظام بدلنے اور قومی سیاست میں جوہری تبدیلیاں لانے کے حوالے سے قادری صاحب کی تقاریر کے ویڈیو کلپس اور تحریریں فیس بک پیجز پر لگائی جانے لگیں۔ رفتہ رفتہ یہ عمل بڑا تیز ہوگیا ۔ اس وقت بھی سوشل میڈیا پر دو تین سب سے متحرک گروپوں میں سے ایک تحریک منہاج القرآن ہے۔ تئیس دسمبر کے جلسے سے چار پانچ ماہ پہلے قادری صاحب نے لاہور کے تھنک ٹینک کونسل آف نیشنل افئیرز کے صحافیوں اور دانشوروں کو منہاج مرکز میں دعوت دی اور ویڈیو کانفرنس کے ذریعے انہیں بریفنگ دی، سوال جواب کا سیشن بھی ہوا۔ اس میں قادری صاحب نے بتایا کہ وہ پاکستان واپس آ رہے ہیں اور ایک بڑا جلسہ کریں گے۔ تاہم اخبار نویسوں نے قادری صاحب کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا۔پھر تئیس دسمبر کے جلسے کے لئے کمپین شروع ہوگئی، دسمبر کے اوائل میں میڈیا کو احساس ہوا کہ قادری صاحب کے حامی جس محنت سے مہم چلا رہے ہیں، وہ بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ قادری صاحب نے پہلے اپنے جلسے ، لانگ مارچ اور پھر چار پانچ دن کے دھرنے کے بعد اپنا امیج تبدیل کر لیا۔ ایک غیر اہم، مبالغہ آمیز تقاریر کرنے والے خطیب کے بجائے اب انہیں ایک اہم ، عوامی مقبولیت رکھنے والا طاقتور سیاستدان تصور کیا جائے گا۔ آئندہ میڈیا یا کوئی سیاسی جماعت انہیں Easy نہیں لے گی۔ ان کے کسی دعوے یا اعلان کو نظرانداز کرنا اب ممکن نہیں۔ بڑی مہارت اور دانشمندی سے انہوں نے اپنے پتے کھیلے اور اسلام آباد کے قلب میں پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔انہوں نے اپنے سیاسی حریفوں کو ایک طرح سے آئوٹ کلاس کر دیا۔ان کا اعتماد بھی دیدنی تھا، چودھری برادران کے پیچھے ہٹنے اور عین وقت پر ایم کیو ایم کے دغا دے جانے کے باوجود وہ اپنے پروگرام سے پیچھے نہیں ہٹے اور کامیابی حاصل کر لی۔ وہ ایک ایسے سیاستدان کے طور پر ابھرے ہیں، جن کی اب ہمارے سیاسی منظرنامے میں ایک خاص جگہ اور مستقبل ہے۔انہوں نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ وہ لاکھوں افراد کے لئے ایک روحانی رہنما کی حیثیت بھی رکھتے ہیں، ایسا لیڈر جس کے کہنے پر لوگ اپنے معصوم شیر خوار بچے ساتھ لے کر میدان میں کود سکتے ہیں۔ایک زمانے میں پیر پگارا کے حروں کو یہ حیثیت حاصل تھی۔ تحریک منہاج القرآن کا تاثر ایک خالصتاً علمی اور دعوتی تحریک کا تھا، اب اس نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ ان کے پاس انتہائی منظم اور مشکل ترین حالات میں ڈسپلن قائم رکھنے والے کارکن موجود ہیں۔ ایسے کارکن جن پر کسی قسم کے پروپیگنڈہ کا کوئی اثر نہیںاور وہ رہنمائی کے لئے اپنے قائد کی جانب ہی دیکھتے ہیں۔ دھرنے کے سبق قادری صاحب کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خطابت اپنی جگہ ،مگر مطالبے وہی مانے جاتے ہیں جو حقیقت پسندانہ ہوں اور جن کی وسیع پیمانے پر پزیرائی ہوسکے۔انہوں نے اسلام آباد پہنچنے کے بعد شروع میںغیر حقیقی مطالبے کئے، حکومت اور وزرا کو سابق اور پارلیمنٹ کی تحلیل اورالیکشن کمیشن کی فوری تشکیل نو کا کہا۔ یہ مطالبے مانے جانے والے نہیں تھے ، شائد وہ دبائو بڑھانے کے لئے ایسا کر رہے تھے ، مگر ان کا زیادہ مثبت اثر نہیں ہوا۔ بعد میںانہوں نے دانشمندی سے اپنے پرانے اور حقیقی نکات پر توجہ دی اور کم وبیش تمام مطالبے منوا لئے۔ اگلے روز اگرچہ میڈیا کے ایک حصے نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ قادری صاحب کے مطالبے نہ مانے گئے ، مگرحقیقت اس کے برعکس تھی۔ علامہ طاہرالقادری کا اصل مطالبہ آئین کے آرٹیکل باسٹھ ، تریسٹھ کے امیدواروں پر اطلاق، سکروٹنی کی مدت میں توسیع اور عوامی نمائندگی ایکٹ کی شق 77تا 82 میں تبدیلی لانا تھا۔ الیکشن کمیشن کے اختیارات میں اضافہ کامطالبہ بھی اس وجہ سے تھا۔ یہ تمام باتیں مانی گئی ہیں، نگران وزیراعظم کے لئے بھی انہیں ایک سٹیک ہولڈر کے طور پر مان لیا گیا ہے۔ اگر اس معاہدے پر عمل درآمد ہوا تو بڑی حد تک بدنام اور کرپٹ امیدواروں کا صفایا ہوجائے گا۔اس لحاظ سے بڑی کامیابی کہی جا سکتی ہے۔تحریک منہاج القرآن کو یقیناً یہ اندازہ ہو گیا ہو گا کہ دھرنے کے آخری روز بارش کے باعث ان کے لئے آپشنز محدود ہوگئی تھیں، اس سے پہلے بعض اپوزیشن جماعتوں نے میاں نواز شریف کی قیادت میں مشترکہ اعلامیہ جا ری کر کے قادری صاحب اور ان کے حامیوں کو سیاسی طور پر تنہا کر دیا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ وہ بند گلی میں چلے گئے ہیں، اگر حکومت دانشمندی سے کام نہ لیتی ، مذاکرات نہ کرتی اور محفوظ راستہ نہ دیتی توصورتحال خاصی مشکل ہو گئی تھی۔ سیاست میں واپسی کے راستے کھلے رکھنے چاہیں، قادری صاحب نے ایسا نہیں کیا، وہ انتہا پر چلے گئے تھے۔ تیونس، مصر اور یمن وغیر ہ میں عرب سپرنگ کی کامیابی کی ایک وجہ ان ممالک کے دارالحکومت کی خاص پوزیشن تھی۔ مصر میں تحریر اسکوائر پر جمع ہونے والے لاکھوں افراد قاہرہ کے رہائشی تھے، اگرچہ دوسرے شہروں سے بھی لوگ آئے ،مگر بنیادی طور پر وہ مظاہرے ان شہروں کے اپنی آبادی نے کئے تھے۔ یہی تیونس اور یمن میں ہوا۔ لیبیا اور شام میں صورتحال مختلف تھی، وہاں دارالحکومت میں اپوزیشن کی گرفت مضبوط نہیں تھی، اس لئے ان مظاہروں کا اس طرح اثر نہ ہوسکا۔ کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کا دھرنا بھی وہاں کے مقامی آبادی کا اجتماع تھا، جن کے لئے گھروں سے ساز وسامان لانا بھی آسان تھا اور لوگ اپنی پوزیشنیں بھی بدل سکتے تھے۔ ایک دو راتوں کے بعد ضرورت پڑنے پر چند گھنٹوں کے لئے اپنے گھروں میں سستایا جا سکتا تھا۔ قادری صاحب کے لانگ مارچ میں ایسی کوئی سہولت موجود نہیں تھی۔ اس کا تمام تر دارومدار شرکا کے عزم وایثار پر تھا۔ اگر چہ قادری صاحب خوش قسمتی سے اس بار کامیاب ہوئے ،مگر شرکا کا اس قدر سخت امتحان لینا رسک ہوتا ہے، اگر ایسی بارش دو دن پہلے ہوجاتی ، تب کیا ہوتا؟اس وقت تک تو دھرنے کا ٹیمپو بھی نہیں بنا تھا۔ حکومتی اتحادکی سیاسی کامیابی پیپلز پارٹی کی حکومت پر بہت سے حوالوں سے سخت تنقید کی جاتی ہے، جو یکسر بے وزن بھی نہیں، ایک بات مگر اس نے یہ ثابت کر دی ہے کہ وہ ایک سیاسی جماعت ہے اور سیاسی انداز سے سوچتی ہے۔ ایک وقت میں وفاقی حکومت سخت مشکلات کا شکار تھی، پنجاب حکومت لانگ مارچ کو پنڈی پہنچا کر سکون سے تماشا دیکھ رہی تھی،تمام تر دبائو مرکز پر تھا۔ اس مشکل وقت میں پیپلز پارٹی نے اپنے اتحادیوں کو ساتھ ملایا اوراعلیٰ سطحی وفد کے ذریعے مذاکرات کئے ،یوں ڈیڈلاک بھی ختم کیا اوراس معاہدے پر عمل درآمد کرا کر وہ الیکشن کے عمل کا شفاف بنانے کا کریڈٹ بھی لے سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے سخت گیر سوچ رکھنے والوں کو سائیڈ پر کیا اور اس کے ثمرات بھی انہیں مل گئے۔ اگر خدانخواستہ تصادم ہوجاتا تو اس کے خوفناک نتائج نکلتے۔ لال مسجد کے سانحے کے اثرات سے ہم ابھی تک نہیں نکل سکے، ملک کسی اور ہولناک واقعہ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔پیپلز پارٹی کا اصل امتحان لانگ مارچ ڈیکلئریشن پر عمل کرانا ہے۔ انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ صرف منہاج القرآن ہی نہیں بلکہ ملک بھر میں انتخابی اصلاحات کی خواہش موجود ہے۔ یہ اچھا موقعہ ہے کہ ہمارے سیاستدان جمہوری نظام کی تطہیر کریں، اس سے جمہوریت دشمن قوتوں کو شدید حوصلہ شکنی ہوگی۔ میڈیا اور تجزیہ کار اب یہ مان لینا چاہیے کہ میڈیا اور ہمارے تجزیہ کاروں نے علامہ طاہرالقادری کو انڈر اسٹیمیٹ کیا۔ وہ علامہ صاحب کے شخصی اثر اور قوت کا اندازہ نہ لگا سکے۔ میڈیا کے بیشتر حصے کو یقین تھا کہ لانگ مارچ ہو ہی نہیں سکے گا۔دھرنے کے دوران بھی کوریج کرتے ہوئے انہیں شرکا ء کے موڈکا اندازہ نہیں ہوسکا۔ کئی اینکر خواتین چیختی رہیں کہ آپ لوگوں کو سردی کیوں نہیں لگ رہی، بچے بیمار ہوجائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ انہیںسمجھنا چاہیے تھا کہ لوگ کسی جذبے اور کمٹمنٹ کے ساتھ ہی یہاں تک آئے ہیں اور یہ یوں واپس نہیں جائیں گے۔ ہمارے اہل دانش اور تجزیہ کاروں نے سب سے اہم غلطی یہ کی کہ انہوں نے طاہرالقادری کی شخصیت کو بے رحمی سے نشانہ بنایا ،مگر ان کے ایجنڈے کو نظر انداز کر گئے۔ انہیں یہ ادراک نہ ہوسکا کہ انتخابی اصلاحات کرنا اور تبدیلی لانے کے ایجنڈے کی عوام میں زبردست کشش موجود ہے۔ قادری صاحب نے اس خلا میں قدم رکھا ،جو ہماری دوسری سیاسی جماعتیں پر کرنے میں ناکام رہیں۔ جیسا کہ شرکا کے انٹرویوز سے ظاہر بھی ہوا کہ ان میں تمام لوگ منہاج القرآن کے نہیں تھے، بہت سے لوگوں نے بتایا کہ وہ عمران خان کے ووٹر ہیں، بعض دوسری جماعتوں کے حامی بھی تھے۔ ایجنڈے پر زیادہ بات ہونا چاہیے تھی، وہ نہ ہوسکی اور تمسخر،پیروڈی،طنز وتشنیع ہمارے میڈیا پر حاوی رہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمعہ کو دھرنے کی کامیابی کے بعد بہت سے اینکروں اور تجزیہ کاروں کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا ردعمل دیں۔ جن باتوں کا وہ مذاق اڑاتے رہے، وہ تقریباً سب مان لی گئیں۔ جہاں تک اسمبلیوں کی تحلیل اور الیکشن کمیشن کی فوری تشکیل کی بات تھی، یہ دبائو بڑھانے کا حربہ تھا، حقیقی مطالبہ نہیں تھا۔میڈیا اور انٹیلی جنشیا کو آنے والے دنوں میں زیادہ محتاط اور باریک بین ہونا پڑے گا۔ الیکشن میں اصلاحات کے عمل پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت پڑے گی۔ مسلم لیگ ن مسلم لیگ ن نے بظاہر بڑی عقل مندی اور ہوشیاری سے چالیں چلیں۔ انہوں نے لانگ مارچ کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی کہ اس کا رخ اسلام آباد کی جانب تھا۔ جب انہوں نے محسوس کیا کہ دھرنے میں خاصے لو گ آگئے ہیں اور یہ اجتماع خطرناک ثابت ہوسکتا ہے تووہ متحرک ہوئے۔ میاں صاحب نے کمال مہارت سے کئی اہم جماعتوںسے رابطے کئے۔ بلوچستان سے اچکزئی صاحب اور حاصل بزنجو کے ساتھ ساتھ مولانا فضل الرحمن اورجماعت اسلامی کو ساتھ ملا لینا ان کی بڑی کامیابی تھی۔ انہوں نے اپنے مشترکہ اعلامیہ سے علامہ طاہرالقادری کو بالکل تنہا کر دیا۔ یہ جمہوریت کے لئے اچھا شگون تھا کہ ہماری سیاسی جماعتیں ہر قسم کی تبدیلی کے لئے انتخابات کی جانب ہی دیکھنے لگی ہیں۔ میاں صاحب نے دانستہ یا نا دانستہ ایک بڑی غلطی یہ کی کہ انہوں نے قادری صاحب کو محفوظ راستہ نہیں دیا۔اے پی سی کے شرکا میں سے کسی نے یہ نہیں سوچا کہ اسلام آباد میںکئی روز سے ہزاروں افراد کا دھرنا جاری ہے۔دھرنے کے شرکا اور ان کے لیڈر قادری صاحب اتنا آگے جا چکے ہیں کہ ان کے لئے کچھ حاصل کئے بغیر واپس لوٹنا شرمندگی کے مترادف ہے۔ انہیں محفوظ راستہ دینا (Face saving)دینا ضروری تھا۔ دوسری صورت میں شرکاء فرسٹریٹ ہو کر تصادم کی طرف جا سکتے تھے، ایسا ہو جاتا تو پھر کچھ بھی نہ بچ پاتا۔ جس طرح کا اعلیٰ سطحی وفد حکومت نے مذاکرات کے لئے بھیجا، ویسا کام پہلے نواز شریف صاحب بھی کر سکتے تھے۔ اگر ایسا کرتے تو وہ محاورے کے مطابق میلہ لوٹ لیتے۔ انہوں نے ایسا نہیں کیا، شائد وہ اپنی مخالف وفاقی حکومت کو ٹف ٹائم دینا چاہتے تھے، مگر اختتام میں اس کا تمام تر نقصان انہیں ہی ہوا۔ ٹی وی چینلز پر ن لیگ کے رہنمائوں کی تلخی دیکھ کر انہیں پہنچنے والے دھچکے کی شدت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ؟ ہمارے اہل دانش اور تجزیہ کاروں کو ہر ایشو میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار دیکھنے کا رویہ بھی بدلنا ہوگا۔ یوں لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا آسیب ان کی دانش کے گرد لپٹ گیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے ویسے بھی دو تین باتیں سمجھنی چاہیں۔ دنیا بھر میں اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ پر و’’ سٹیٹس کو‘‘ ہوتی ہے۔ نظام بدلنے یا تبدیلی لانے کا نعرہ کبھی انہیں راس نہیں ہوتا۔ ایسا نعرہ لگانے والوں کو ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قادری صاحب والے معاملے کو زیادہ غور سے دیکھنا چاہیے تھا۔ اگر اس میں اسٹیبلشمنٹ شامل ہوتی تو معروف اسٹیبلشمنٹ نواز جماعتیں اس سے دور نہ رہتیں اور وعدہ کر کے واپس نہ چلی جاتیں۔ جو مارچ یا دھرنا اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر کیا جاتا ہے ، اس کے تیور ہی الگ ہوتے ہیں، اس کے شرکا شروع ہی سے ڈنڈے لے کر چلتے ہیں اور تباہی ان کا مشن ہوتی ہے۔ ایسے جلوسوں میں لوگ خود اپنی خوشی سے اپنی بیویوں، بہنوں اور شیر خوار بچوں کو نہیں لاتے۔ پیسے خواہ جتنے ملیں، اولاد آدمی کو اپنی جان سے بھی زیادہ پیاری ہوتی ہے۔ اس دھرنے کے پرامن اختتام نے یہ ثابت کر دیا کہ اسٹیبلشمنٹ کی رٹ لگانے والے تجزیہ کاروں نے ٹھوکر کھائی، اصولاً تو انہیں اپنے قارئین اور ناظرین سے معذرت کرنی چاہیے، مگرافسوس کہ ہمارے ہاں ایسی اچھی روایتیں موجود نہیں۔ ویسے اس حوالے سے فورسز کا رویہ مثبت رہا۔ کورکمانڈرز کانفرنس کو بعض حلقوں نے معنی خیز نظروں سے دیکھا ،مگر آئی ایس پی آر نے بروقت وضاحت کر دی۔ ہماری مقتدرہ قوتوں کو یہ یاد رکھناچاہیے کہ سیاست صرف سیاستدانوں کے کھیلنے کا میدان ہے۔ عسکری قوتوںکو اپنے پروفیشنل فرائض ہی انجام دینے چاہیں۔ ایسا کرنا ہی ان کے وقاراور عزت میں اضافہ کرے گا۔ اس دھرنے کا پرامن انجام یہ ثابت کرتا ہے کہ ملک میں جمہوریت پنپ رہی ہے اورہمارا بظاہر کمزور جمہوری سسٹم اس قسم کے بڑے دھچکوں کو برداشت کرنے کی سکت اور قوت رکھتا ہے۔اس سے ہمارے سیاستدانوں اور جمہوری قوتوں نے خاصا کچھ سیکھا ہوگا۔ تحریک انصاف عمران خان اور ان کے بعض حامیوں کو ممکن ہے اب اندازہ ہو رہا ہو کہ انہوں نے ملنے والے ایک بڑے موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ تحریک انصاف میں لانگ مارچ کے حمایت میں ایک مضبوط لابی موجود تھی،ان کے کئی اہم سیاسی لیڈروں کا خیال تھا کہ ہمیں قادری صاحب کے ساتھ شامل ہونا چاہیے، ان کی جماعت کا سیاسی نیٹ ورک موجود نہیں ،ا س لئے سیاسی کامیابی کے تمام تر ثمرات تحریک انصاف کو پہنچیں گے۔ اس لابی کی بات نہیں مانی گئی، عمران خان اور ان کے بعض غیر سیاسی مگر پارٹی کے لئے تھنک ٹینک کا درجہ رکھنے والے لوگوں کی بات مانی گئی۔ تاہم عمران خان نے لانگ مارچ اور دھرنے پر تنقید بالکل نہیں کی، وہ اسے بڑی احیتاط سے دیکھتے رہے، جائزہ لیتے رہے ،مگر شامل نہیں ہوئے۔ ممکن ہے انہیں خطرہ ہو کہ یہ دھرنا کسی اور جانب جا سکتا ہے۔ انہوں نے اپنی تمام تر توجہ انتخابات کی جانب مبذول کی اور اس حوالے سے دبائو بڑھانے کی کوشش کی ،مگر تحریک انصاف کے بہت سے نوجوان کارکنوں کو اب یقیناً مایوسی ہو رہی ہوگی۔پی ٹی آئی نے اس معاملے میں اگرچہ کھویا بھی زیادہ نہیں۔ ان کے لئے انتخابات کے حوالے سے قادری صاحب کے ساتھ ہاتھ ملانے کی آپشن موجود ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف آنے والے دنوں میں کیسے پتے چلتی ہے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
مہندی کے بغیر عید کی خوشیاں ادھوری

مہندی کے بغیر عید کی خوشیاں ادھوری

عیدالفطر ہو یا عیدالاضحیٰ، خواتین کیلئے عید کی خوشیاں جہاں میک اپ اور خوبصورت لباس کے بنا ادھوری لگتی ہیں۔ اسی طرح سادہ ہتھیلیاں بھی جچتی نہیں ہیں۔ عموماً خواتین مہندی لگانے سے ہچکچاتی ہیں ۔ بڑی بزرگ خواتین بہوئوں، بیٹیوں کو مہندی رچانے کی تاکید کرتی ہیں کہ یہ سنت نبوی ﷺ بھی ہے اور مشرقی روایتوں کا حسن بھی ہے۔ عید اپنے مکمل لوازمات اور رواجوں کے ساتھ ہی منائی جاتی ہے ان میں ایک رواج چاند رات کو مہندی لگانا بھی ہے۔مہندی برصغیر پاک و ہند کی قدیم ترین روایت ہے، یہ ایک ایسا فیشن ہے جو ہر عمر کی خواتین بلا جھجھک کرتی ہیں۔ پرانے وقتوں میں حنا محض شادی بیاہ کی تقریبات یا عید وغیرہ پر ہی ہاتھوں پر لگائی جاتی تھی لیکن جیسے جیسے وقت آگے بڑھ رہا ہے، اس میں بھی جدت آ رہی ہے۔مہندی کی کئی اقسام ہیں مثلاًکالی مہندی، لال مہندی۔کالی مہندی نیل کے پودے سے تیار کی جانے والی مہندی ہے۔بازار میں کیمیکل والی مہندی بھی دستیاب ہے۔ آپ صرف آئوٹ لائن بنا کر اندر لال مہندی سے بھرائی کروا سکتی ہیں۔ لال مہندی کی شیڈنگ بہت خوبصورت معلوم ہوتی ہے حساس جلد والی خواتین کالی مہندی استعمال نہ کریں۔لال مہندی ہی قدرتی مہندی ہے اس سے جلد پر عموماً کوئی الرجی نہیں ہوتی۔ عام دنوں میں بھی مہندی کے پتے پیس کر تلوئوں جسم اور ہتھیلیوں پر لگانے سے ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے۔ کون مہندی آپ گھر میں خودبھی تیار کر سکتی ہیں۔ فریز بیگ یا Poly Poilکو چوکور کاٹ کر اس کے اوپر والے حصے کو فولڈ کرتے ہوئے نیچے لائیں، جب سارا موڑ لیں تو آخری سرے کو ٹیپ کی مدد سے جوڑ لیں۔ مہندی اس میں ڈال کر کھلے حصے کو موڑ کر ٹیپ سے بند کر دیں آپ کی کون مہندی تیار ہے۔مہندی سوکھ کر جڑنے لگے تو کپڑے سے پونجھ کر سرسوں کا تیل مل لیں۔ مہندی کا رنگ تیز ہو جائے گا۔مہندی کے گہرے رنگ کیلئے چینی کے شیرے میں لیموں کے چند قطرے ملا کر روٹی کی مدد سے لگایئے اور پانچ چھ لونگ توے پر گرم کریں اوپر ڈھکن سے ڈھانپ دیں تو بھاپ بن جائے گی اس پر ہاتھ کو سینکیں آپ کی مہندی کا رنگ تیز ہو جائے گا۔ہماری دادی اور نانی کے زمانے میں مہندی لگانے کیلئے وقت اور محنت دونوں درکار ہوا کرتے تھے، مہندی کے پتوں کو سِل پر پیسا جاتا تھا اور پھر ہاتھوں پر ٹکیا یا انگلیوں کے پوروں پر لگا لیا جاتا تھا جس کے بعد گھنٹوں دلکش رنگ آنے کا انتظار کیا کرتے تھے لیکن آج کل مختلف رنگوں والی مہندی کی کونیں باآسانی دستیاب ہوتی ہیں۔اگر بات کی جائے مہندی کے ڈیزائنز کے حوالے سے تو اب کافی کچھ تبدیل ہو چکا ہے، لڑکیوں کی پسند میں بھی خاصی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔مہندی لگانااب ایک مکمل آرٹ ہے، پہلے دور کے لوگوں کو آگاہی نہیں تھی کہ باریک مہندی زیادہ دلکش اور خوبصورت دکھائی دیتی ہے، وہ لوگ موٹی مہندی یا صرف فلنگ والی مہندی کو ترجیح دیتے تھے جب کہ اب ایسا بالکل نہیں ہے۔ مہندی کا رواج ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے، لڑکیاں صرف مہندی لگوانے کی شوقین نہیں بلکہ لگانے کا بھی شوق رکھتی ہیں۔ جس طرح پرانے وقتوں کے کپڑوں کے اسٹائل آج کل دوبارہ اِن ہیں ایسا ہی کچھ مہندی کے ٹرینڈ میں بھی ہے۔ماضی میں مغلیہ طرز کی مہندی لگائی جاتی تھی کیونکہ اس وقت کے لوگوں کی ڈیمانڈ تھی جن میں مہراب، مغل آرٹ کے طرز کے چیک اور منفرد قسم کے پھول شامل تھے۔ایک وقت ایسا بھی تھا جب لوگ عربی طرز کی مہندی پسند کیا کرتے تھے جو کہ بڑے بڑے پھولوں والی ہوا کرتی تھی لیکن پھر کپڑوں اور بالوں کے اسٹائل کی طرح مہندی کے ٹرینڈ بدل گئے تاہم اب ایک بار پھر مہراب اور مغلیہ دور میں لگنے والی مہندی کا ٹرینڈ واپس لوٹ آیا ہے۔ سفید، لال، براون اور کالی مہندی میں سب سے زیادہ مانگ براون اور کالی مہندی کی ہے کیونکہ اس کا رنگ پکا اور دیر تک رہنے والا ہوتا ہے، اس کے علاوہ یہ ہاتھوں پر بھی انتہائی نفیس اور خوبصورت دکھتا ہے۔ خواتین اور لڑکیوں میں آج کل بنچز (ٹکیا والی مہندی کا ڈیزائن)، مہراب اور انگلیوں پر نفیس ڈیزائن بہت زیادہ اِن ہیں۔پہلے پانچوں انگلیوں پر ایک سا ڈیزائن بنایا جاتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے، آج کل پانچوں انگلیوں پر مختلف ڈیزائن کی مہندی لگائی جاتی ہے جو بے پناہ خوبصورت لگتی ہے اور لوگوں کو اپنی جانب متوجہ بھی کرتی ہے۔علاوہ ازیں جال والے ڈیزائنز بھی بہت زیادہ اِن ہیں جو لڑکیوں سمیت خواتین میں بھی کافی مقبول ہیں۔اس بار آ پ ہندوستانی، عربی،راجستھانی، سوڈانی جیسی چاہیں مہندی لگایئے اور اگر اسٹون اور گلیٹر والی مہندی کا شوق ہے تو ضرور لگوایئے مگر ٹھہریئے، یاد رکھئے کہ آپ کو گھرگرہستی کے کام بھی نمٹانے ہیں۔ بہرحال اگر آپ کی رنگت سانولی ہے تو مہندی کے ڈیزائن میں آئوٹ لائن گہرے رنگ کی بنوایئے ،گورے اور صاف رنگت والی جلد رکھنے والی بہنیں باریک ڈیزائن والی یعنی ہندوستانی ڈیزائن بنوائیں تو بہت بھلی لگیں گی۔

الشحوح: خطہ عرب کا انوکھا قبیلہ

الشحوح: خطہ عرب کا انوکھا قبیلہ

دبئی سے دو گھنٹے کی مسافت پرواقع پہاڑیوں میں ایک انوکھا قبیلہ آباد ہے۔ اس کی ثقافت جزیرہ نما عرب کے لوگوں سے جدا ہے۔ انہیں الشحوح یا ''پہاڑی لوگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ معلوم نہیں ہو پایا کہ یہ لوگ کہاں سے یہاں پہنچے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ الشحوح قدیم مقامی باشندے ہیں، لیکن وقت کے ساتھ حالات نے انہیں پہاڑوں تک محدود کر دیا۔ غالباً یہ خطۂ عرب کے سب سے غیرمعمولی لوگ ہیں، کیونکہ ان کی زبان اور ثقافت اہل عرب سے جدا ہے۔ جزیرہ نما عرب کے جنوبی حصے پر تاریخ میں کئی مرتبہ حملہ آور آئے اور مختلف قوموں نے اسے اپنی نوآبادی بنایا۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس کی ابتداء ڈیڑھ لاکھ برس قبل ہوئی جب انسان افریقہ سے نکل کر یہاں پہنچا۔ بہت عرصے بعد یہاں یمنی، سعودی، فارسی، پرتگالی اور برطانوی آئے۔اٹھارہویں صدی میں عمان اوربیسویں صدی میں متحدہ عرب امارات کی آزادی کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ تاریخ میں مختلف طرح کے لوگوں کے آنے جانے کی وجہ سے یہ معلوم کرنا کہ کون پہلے آیا اور کون بعد میں، جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ یہ علاقہ جو مسندم کہلاتا ہے، جزیرہ نما عرب کے جغرافیے میں ایک کسی پتلے لمبے ابھار کی طرح دکھائی دیتا ہے جس کا رخ ایران کی جانب ہے۔ باہر سے آنے والوں کو یہ لوگ پسند نہیں کرتے۔ اس لیے یہ لوگ جزیرہ نما عرب کے دیگر لوگوں سے کٹے رہے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران ایک بمبار مسندم میں غائب ہو گیا تو وہاں جا کر اسے تلاش کرنے کے عمل کو انتہائی خطرناک تصور کیا گیا۔ آج الشحوح کے لوگ آنے والوں کو قتل نہیں کرتے، لیکن انہیں خوش آمدید بھی نہیں کہتے۔یہ دو بڑے قبائل میں بٹے ہیں جن کی کئی شاخیں ہیں۔یہ علاقہ دشوار گزار ہے۔یہاں کی بلند چٹانوں میں الشحوح نے آنے اور جانے کے غیرمعمولی راستے بنا رکھے ہیں۔ الشحوح ثقافتی اور لسانی اعتبار سے متحدہ عرب امارات اور اومان کے عرب لوگوں سے مختلف ہیں جن کے جدامجد بدو تھے۔ الشحوح خانہ بدوش اور صحراؤں میں نقل مکانی کرنے والے نہیں۔ یہ کسان ہیں۔ بلندوبالا پہاڑوں میں انہوں نے پانی کے بہاؤ کے لیے حیران کن راستے بنا رکھے ہیں، جو اونچے مقامات پر واقع کھیتوں کو سیراب کرتے ہیں۔ ان کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کا بھی اہتمام ہوتا ہے۔ ان پہاڑوں میں کنوئیں نہیں۔ یہ اپنے کھیتوں سے سال میں دو فصلیں حاصل کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ موسم گرما میں یہ مچھلیاں بھی پکڑتے ہیں۔ ساحل کی طرف سال میں ایک بار ہجرت کی جاتی ہے۔ یہ مال مویشی بھی پالتے ہیں۔ ان کے گھر پتھر کے اور ایک منزلہ ہوتے ہیں۔ ساحل پر ان کے گھر درختوں اور پودوں سے بنائے جاتے ہیں جو زیادہ مضبوط نہیں ہوتے۔ یہ بات مشہور ہے کہ الشحوح کی زبان لسانی اعتبار سے کسی سے نہیں ملتی، لیکن یہ سچ نہیں۔ ساحل سمندر کے عرب اگرچہ ان کی زبان نہیں سمجھ سکتے لیکن یہ عربی سے سیکڑوں برس قبل بچھڑنے والی ایک زبان ہے جس نے اپنی لسانی راہ لی۔ ان کے طرززندگی اور زبان کو دیکھ کر انہیں غیرعرب بھی کہا گیا۔ بعض لوگوں نے انہیں پرتگالی بھی کہا۔ تاہم تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں مختلف اطراف سے لوگ داخل ہوتے رہے ہیں۔ ان کی ایک ذیلی شاخ پر ایرانی اثر نمایاں ہے اور ان کی زبان بلوچی سے ملتی جلتی ہے۔

رمضان کے پکوان:ہاٹ اینڈ کرسپی چکن

رمضان کے پکوان:ہاٹ اینڈ کرسپی چکن

اجزاء :چکن دو کلو ،نمک ایک چائے کا چمچ ،کالی مرچ ایک کھانے کا چمچ ،مسٹرڈ پائوڈر دوچائے کے چمچ ،لیموں 2عدد (رس نکال لیں ) ،میدہ 4کھانے کے چمچ ،کارن فلاور ایک کھانے کا چمچ ،بیکنگ پائوڈر آدھاچائے کا چمچ ،دودھ چوتھائی کپ ،انڈے دوعدد ،چلی ساس دوکھانے کے چمچ ۔ترکیب :سب سے پہلے مرغی کے ٹکڑوں کو اچھی طرح سے دھوکر صاف کرلیں پھر اسے ایک برتن میں رکھ کر اس میں نمک آدھا چائے کا چمچ، کالی مرچ دوچائے کے چمچ، مسٹرڈ پائوڈر، دو عدد لیموں کا رس ڈال کر اسے ملاکر دوگھنٹے کے لیے رکھ دیں۔ دوگھنٹے بعد چکن کے ٹکڑوں کو بھاپ دے کر ادھ کچا پکالیں (یادرہے کہ ٹانگ کے ٹکڑوں کو ذرا زیادہ بھاپ دینا تاکہ اندر سے کچے نہ رہیں ) پھر ایک برتن میں میدہ، کارن فلاور ایک کھانے کا چمچ، بیکنگ پائوڈر آدھا چائے کا چمچ، کالی مرچ آدھاچائے کا چمچ، کالی مرچ آدھا چائے کا چمچ ، اجینو موتو چوٹھائی کپ، دودھ چوٹھائی کپ، انڈے دوعدد، اورچلی ساس دوکھانے کے چمچ، ڈال کر اسے الیکٹرک ہیٹر کی مددسے مکس کرلیں اس کے بعد چکن کو اس میں ڈپ کریں پھر ایک گھنٹے کے لیے رکھ دیں۔ اب کارن فلیکس کو باریک پیس لیں اور میدے کے ساتھ ملا کر اسے مرغی پر کوٹ کرکے ڈیپ فرائی کرلیں اور خوبصورتی سے سجاکر گرم گرم پیش کریں۔

آج کا دن

آج کا دن

سوویت یونین کے ساتھ جھڑپ 30 مارچ 1918ء کو موجودہ آذر بائیجان کے دارالحکومت باکو کے قریب سوویت یونین کی افواج اور آرمینی انقلابی فیڈریشن کے درمیان جھڑپوں کا آغاز ہوا۔ ان جھڑپوں میں سیکڑوں عام شہری ہلاک ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب پہلی عالمی جنگ اپنے اختتامی مراحل میں داخل ہو چکی تھی۔بے ہوشی کی دوا 1842ء میں آج کے روز ڈاکٹر کرافورڈ لانگ نے سرجری کے عمل کو مزید بہتر بنانے کیلئے آپریشن سے قبل اپنے ایک طالب علم کو سرجری کی تاریخ میں پہل مرتبہ بے ہوش کرنے کیلئے ایتھر سنگھایا۔ اس تجربے کے بعد ہی اس دوا پر کام شروع ہوا اور اس کی جدید شکل میں آج کی دنیا انیستھیزیا سے متعارف ہوئی۔ اس سے قبل سرجری ایک نہایت تکلیف دہ عمل ہوا کرتا تھا۔ بلغاریہ پر بمباریبلغاریہ کے دارالحکومت صوفیہ کو دوسری جنگ عظیم کے دوران 1941 ء کے وسط سے 1944ء کے اوائل تک اتحادیوں کی جانب سے بمباری اور شدید حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بلغاریہ نے 13 دسمبر 1941ء کو برطانیہ اور امریکہ کے خلاف اعلان جنگ کیاتھا۔ 1944ء میں آج کے دن بلغاریہ پر اتحادیوں کی جانب سے شدید بمباری کی گئی۔ منشیات کے خلاف معاہدہ1961ء میں آج کے دن سنگل کنونشن برائے نارکوٹک ادویات کا معاہدہ ہو ا۔ یہ ایک بین الاقوامی معاہدہ تھا جس کے تحت مخصوص اور خطرناک نشہ آور ادویات کی پیداوار،سپلائی، تجارت اور استعمال کی روک تھام کیلئے ضابطوں کا ایک سسٹم متعارف کروایا گیا۔ایک ایسا نظام بنایا گیا جس کے تحت اس کے کاروبار کیلئے لائسنس اور علاج کیلئے استعمال کے اقدامات اٹھائے گئے۔اس کے طبی اور سائنسی استعمال کے لئے بھی ایک ضابطہ تیار کیا گیا۔

حکایت سعدیؒ:درویشوں کی خیر خواہی

حکایت سعدیؒ:درویشوں کی خیر خواہی

ملک شام کے ایک نیک دل بادشاہ کی عادت تھی کہ صبح صبح اپنے غلام کے ساتھ باہر نکلتا، عربوں کے رواج کے مطابق آدھا منہ ڈھک لیتا اور گلی کوچوں میں پھرتا، صاحب نظر بھی تھا اور فقرا سے محبت کرنے والا بھی، یہی دو صفتیں بادشاہ کو نیک بادشاہ بناتی ہیں۔ ایک رات گشت کے دوران وہ مسجد کی طرف گیا دیکھا کہ سخت سردی میں کچھ درویش بغیر بستروں کے لیٹے ہوئے صبح کا سورج نکلنے کا انتظار کر رہے ہیں جیسے گرگٹ سورج کے انتظار میں رہتا ہے۔ ایک نے کہا! دنیا نے تو ہمارے ساتھ بے انصافی کی ہے کہ ہم اس حال میں ہیں اور ظالم و متکبر لوگ کھیل کود میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر قیامت کے دن ان کو بھی ہمارے ساتھ جنت میں جانے کا حکم ہو گیا تو میں تو قبر سے ہی نہ اٹھوں گا کیونکہ جنت صرف انہی لوگوں کا حق ہے جو دنیا میں ظلم وستم سہنے والے ہیں۔ ظالموں کا جنت میں کیا کام۔ ان ظالموں سے دنیا میں ہمیں سوائے رسوائی کے کیا ملا جو جنت میں بھی ہم پر مسلط کر دیے جائیں ۔ بادشاہ نے اتنی بات سنی اور وہاں ٹھہرنا مناسب نہ سمجھا۔ سورج نکلا تو درویشوں کو بلالیا ۔ ان کی بہت عزت کی اور انعامات سے نوازا۔ بہترین لباس پہنائے، بستر دیے، الغرض بہت خوش کیا۔ ان میں سے ایک نے ڈرتے ہوئے عرض کیا! بڑے لوگ تو ان انعامات کے مستحق ہوئے ہم فقیروں میں آپ نے کون سی خوبی دیکھی، بادشاہ یہ سن کر ہنسنے لگا اور خوش ہو کر درویش سے کہا! میں متکبر اور رعب کی وجہ سے مسکینوں کو نظر انداز کرنے والا نہیں ہوں، تم لوگ بھی جنت میں ہماری مخالفت نہ کرنا، آج میں نے صلح کی ہے تو تم بھی صلح کر لینا۔ اس حکایت سے سبق ملتا ہے کہ بادشاہوں کو درویشوں کی خیرخواہی اور خبر گیری رکھنی چاہیے اور درویشوں کو ایسے بادشاہوں کے لیے دعا گو رہنا چاہیے۔ اگر دونوں میں سے کسی ایک گروہ سے کوئی غفلت یا سستی ہو جائے تو درگذر سے کام لینا چاہیے۔ خوش نصیب بندہ ہی درویشوں کو آرام پہنچاتا ہے اور ان خاک نشینوں کو خوش رکھنے والا کل جنت کے درخت کا پھل کھائے گا۔ خودی سے بھرا ہوا شخص چراغ کی طرح روشنی نہیں پھیلا سکتا کیونکہ وہ قندیل کا ایسا شیشہ ہے جو پانی سے بھرا ہوا ہے۔ جب وہ خود روشن نہیں تو دوسروں کو خاک روشن کرے گا۔

قرآنی خطاطی روحانی وجمالیاتی روایت

قرآنی خطاطی روحانی وجمالیاتی روایت

قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی وہ آخری کتاب ہے جو رہتی دنیا تک رشد و ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ امتِ مسلمہ نے اس مقدس کتاب کی حفاظت و اشاعت کے لیے بے مثال کوششیں کی ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے دور میں صحابہ کرامؓ نے قرآن مجید کو حفظ اور کتابت دونوں صورتوں میں محفوظ کیا‘ بعد ازاں خلفائے راشدین نے قرآن کریم کو ایک مرتب و مستند کتابی صورت میں امت کے لیے محفوظ کر دیا۔ہر دور کے مسلمانوں نے قرآن کریم کی انتہائی خوبصورت خطاطی کا اہتمام کیا۔ خلفائے عباسیہ، خلافتِ عثمانیہ اور مغلیہ دور میں قرآنی خطاطی اپنے عروج پر رہی۔ فنِ تذہیب اور خطاطی کی مدد سے قرآنی نسخوں کو نہایت حسین انداز میں پیش کیا جاتا تھا تاہم نوآبادیاتی دور میں اسلامی ثقافتی ورثہ انحطاط کا شکار ہوگیا اور قرآنی خطاطی کی تابندہ روایت برقرار نہ رہ سکی۔ مغلیہ دور کے بعد قرآنی خطاطی کی سرکاری سرپرستی تقریباً ختم ہو کر رہ گئی یوں برصغیر میں قرآن مجید کے خوبصورت خطاطی شدہ نسخے تیار کرنے کی روایت کمزور پڑ گئی نتیجتاً مقامی سطح پر ''نسخِ ہندی‘‘ نامی ایک سادہ خط رائج ہو گیا جو جمالیاتی اعتبار سے دیگر مسلم دنیا کے معیار سے کم تر تھا۔یہی احساس' مصحفِ پاکستان پراجیکٹ ‘کی بنیاد بنا۔ اس منفرد منصوبے کا مقصد قرآن کریم کو اعلیٰ ترین اسلامی خطاطی، تذہیب کاری اور فنونِ لطیفہ کی روایت کے مطابق تخلیق کرنا ہے۔اس کام کا آغاز نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے فارغ التحصیل فنکار نصیر احمد بلوچ کی کاوشوں سے ہوا اور معروف خطاط عرفان احمد قریشی (سلطان رقم) بھی اس کا حصہ بن گئے۔ مصحفِ پاکستان کی منفرد خصوصیات میںاعلیٰ ترین فنِ خطاطی، خطِ ثلث اور خطِ نسخ کا حسین امتزاج، نیزیاقوت مستعصمی، احمد قرہ الحصاری اور عبدالباقی حداد جیسے اساتذہ خطاط کے طرزِخطاطی سے استفادہ اور عہدِ عثمانیہ کے خطاطوں کے اندازِ کتابت کی جھلک دکھانا شامل ہے۔روایتی تذہیب اور پائیداری اس میںبرصغیر کے روایتی اسلامی فنِ تعمیر میں استعمال ہونے والے نقوش اور خطاطی کے امتزاج پر مبنی ڈیزائن اور سونے کے ورق اور قدرتی رنگوں اور نایاب جواہرات کے پاؤڈر سے تذہیب کاری شامل ہے جبکہ اس منصوبے کے تحت کاغذ کی تیاری میں شہتوت کے درخت سے حاصل کردہ مواد کا استعمال کیا جاتا ہے جو کم از کم ایک ہزار سال تک محفوظ رہ سکتا ہے نیز اخروٹ کی چھال سے کشید کردہ رنگ، انڈے کی سفیدی اور پھٹکڑی کے محلول سے تیار کردہ سطح جسے عقیق سے مہرہ کرکے ایک سال تک سیزن کیا جاتا ہے اور قدرتی سیاہی اور معدنیات سے حاصل کردہ مستند اسلامی رنگوں کا استعمال شامل ہے۔ قرآن میوزیم اور مستقبل کی راہ مصحفِ پاکستان کو محفوظ رکھنے اور آنے والی نسلوں کو اسلامی خطاطی اور تذہیب کے عظیم ورثے سے روشناس کرانے کے لیے ''قرآن میوزیم‘‘بھی قائم کیا جا رہا ہے جہاں قرآنی نسخوں کے نادر و نایاب نسخے، خطاطی کے تاریخی نمونے اور اسلامی آرٹ کے شاہکار محفوظ کیے جائیں گے۔یہ منفرد قرآنی نسخہ پاکستان کو عالمی سطح پر اسلامی فنونِ لطیفہ کے میدان میں نمایاں کرے گا۔ اس منصوبے کے ذریعے پاکستان دنیا بھر میں قرآنی خطاطی کی ایک نئی تاریخ رقم کرے گا۔ قرآنی خطاطی عہد بہ عہدقرآنی خطاطی کی تاریخ مسلسل ارتقا کی داستان ہے۔ ہر دور نے اس میں جدت، خوبصورتی اور نکھار پیدا کیا۔قرآنی خطاطی کی تاریخ مختلف ادوار میں ارتقا پذیر رہی ہے، جس میں ہر دور نے اپنے مخصوص طرز اور تکنیک کو جنم دیا۔ آج بھی قرآنی خطاطی اسلامی ثقافت کا ایک لازوال جز ہے اور اس فن کو زندہ رکھنے کے لیے دنیا بھر میں خطاط کام کر رہے ہیں۔ ابتدائی اسلامی دور (7ویں-9ویں صدی) اسلام کے ابتدائی ایام میں قرآنی خطاطی زیادہ تر حجازی اور کوفی خط میں تھی۔ حجازی خط سادہ اور قدرے ترچھا تھا جبکہ خطِ کوفی زیادہ مربع اور زاویہ دار تھا جو بعد میں مختلف شکلیں اختیار کر گیا۔ عباسی دور (8ویں-13ویں صدی) عباسی خلافت میںخطِ کوفی نے مزید ترقی کی اور اس میں مشرقی کوفی، مغربی کوفی اور مزخرف کوفی جیسے انداز متعارف ہوئے۔ اسی دور میں خطِ نسخ کی بنیاد رکھی گئی جو بعد میں قرآن مجید کی کتابت کے لیے معیاری خط قرار پایا۔ مملوک اور اندلسی دور (13 ویں - 16 ویں صدی) مملوک سلطنت میں قرآنی نسخے زیادہ تر خطِ ثلث اور خطِ نسخ میں لکھے جاتے تھے جبکہ اندلس میں مغربی خط اور مرَبَّع خط کا رجحان رہا جو آج بھی شمالی افریقہ میں مقبول ہے۔ عثمانی دور (15ویں-20ویں صدی) خلافت عثمانیہ میں قرآنی خطاطی میں بے پناہ ترقی ہوئی اور خطِ دیوانی،خطِ ریحانی،خطِ طغرا اورخطِ تعلیق جیسے خط متعارف کرائے گئے۔ حمد اللہ اماسی اور شیخ حفیظ آفندی جیسے عظیم خطاطوں نے عثمانی دور میں قرآنی خطاطی کو لازوال شہرت دی۔ مغلیہ اور صفوی دور (16ویں-18ویں صدی) مغلہ دور میں فارسی طرز پر خطِ نستعلیق کو فروغ ملا مگر قرآنی کتابت زیادہ تر خطِ نسخ اورخطِ ریحانی میں ہوتی رہی۔اُدھر ایران میں صفوی دور میں خطاطی کے لیے زیادہ نفاست اپنائی گئی اور خطِ شکستہ نستعلیق جیسے اسلوب سامنے آئے۔ جدید دور (20ویں-21ویں صدی) جدید دور میں عرب دنیا، ترکی، ایران اور پاکستان میں کمپیوٹر خطاطی کو فروغ ملا مگر روایتی خطاطی اب بھی اہمیت رکھتی ہے۔ سید محمد زکریا، شفیق الزمان اور عثمان طہٰ جیسے خطاطوں نے جدید قرآنی خطاطی میں نئی جہتیں متعارف کرائی ہیں۔