دھرنا: کیا کھویا, کیا پایا ؟

دھرنا: کیا کھویا, کیا پایا ؟

اسپیشل فیچر

تحریر : محمد عامر خاکوانی کا تجزیہ


جمعہ کی شام اسلام آبادمیں جاری دھرنے کے خوشگوار اختتام نے جہاں ملک بھر کے عوام کی بے چینی اور اضطراب کو دور کر دیا ، وہاںاس غیرمعمولی اہم واقعے نے ہمارے سیاسی اور جمہوری نظام کو بھی کئی نئے سبق دیے ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتیں لانگ مارچ اور دھرنے کے ہفتہ بھر کے تجربے سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہیں۔پاکستان کے عوام، سیاسی اشرافیہ اور مقتدر قوتوں نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ ان میں کم عمر ہونے کے باوجود پختگی اور شعور موجود ہے، مشرق وسطیٰ میں عرب سپرنگ یا عرب بہار کے برعکس یہاں پرزیادہ سمجھداری اور ہوشمندی کے ساتھ معاملات سلجھائے گئے۔ حالات بظاہر بندگلی میں چلے جانے کی نشاندہی دے رہے تھے ، مگر اچانک ہی فریقین نے ہوشمندی کا مظاہرہ کیا اورخوبصورتی سے اس پورے قضیے کو نمٹا دیا۔ اس ایک ہفتے کے دوران مختلف سیاسی قوتوں، انٹیلی جنشیا، میڈیا اورمقتدر قوتوں نے کیا کیا کردار ادا کیا،اس کے نتیجے میں انہیں کیا ملا…، اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں: علامہ طاہرالقادری کا کردار آغاز تحریک منہاج القرآن کے سربراہ علامہ طاہرالقادری سے کرتے ہیں۔ علامہ صاحب ایک معروف دینی سکالر اور خطیب ہونے کی شہرت رکھتے ہیں۔وہ اپنے بعض بیانات اور ماضی میں چند ایشوز پرموقف بدلتے رہنے کے باعث متنازع رہے ہیں۔ 80ء کی دہائی میں ان کی بشارتوں کے حوالے سے بیان کئے گئے بعض خواب اوراپنے اوپر قاتلانہ حملے کے دعوے کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کے ٹریبونل کی رپورٹ ہمیشہ ان کے خلاف استعمال کی جاتی ہے۔پولیٹیکل سائنس کی اصطلاح میں وہ اچھے خاصے بوجھ(Baggage)کے ساتھ سیاست کی وادی خارزار میںسفر کر رہے تھے۔ چند برس قبل وہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں اسمبلی کی رکنیت سے استعفا دے کر کینیڈا چلے گئے تھے، اس وقت کہا گیا کہ وہ اپنا زیادہ وقت علمی وتدریسی مشاغل کو دینا چاہتے ہیں۔ تین چار سال پہلے انہیں وہاں کی نیشنلٹی بھی مل گئی۔اس دوران علامہ صاحب سیاست سے قدرے دور رہے ،مگر ان کے پاکستان میں رابطے مسلسل قائم رہے، منہاج القرآن کا بڑا تعلیمی نیٹ ورک پچھلے چند برسوں میں بہت زیادہ بڑھا، یہ سب علامہ صاحب کی نگرانی میں ہوا۔ اس دوران ان کی تحریر کردہ کئی کتب بھی شائع ہوئیں، جن میں ترجمہ قرآن ’’عرفان القرآن‘‘، احادیث کا مجموعہ اور خودکش حملوں کے خلاف کئی سو صفحوں پر محیط ایک مبسوط فتویٰ قابل ذکر ہے۔ پاکستانی میڈیا لانگ مارچ کے دنوں میںقادری صاحب سے بار بار یہ کہتا رہا کہ آپ اچانک کیسے آ گئے؟ دراصل یہ ہمارے تجزیہ کاروں اور نیوز اینکرز کی روایتی لاعلمی اوربے خبری تھی۔ سیاست کو باریک بینی سے مانیٹر کرنے والے جانتے تھے کہ طاہرالقادری صاحب بتدریج سیاسی اعتبار سے فعال ہو رہے ہیں۔ سال ڈیڑھ پہلے سے لاہور کے بعض موٹر رکشوں کے پیچھے قادری صاحب کا یہ نعرہ نمودار ہوا،چہرے نہیں، نظام بدلو۔ نظام بدلو کے نام سے ایک ویب سائیٹ بھی بنا دی گئی تھی۔اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر قادری صاحب کے حامی اچانک ہی بہت متحرک ہوگئے تھے۔ نظام بدلنے اور قومی سیاست میں جوہری تبدیلیاں لانے کے حوالے سے قادری صاحب کی تقاریر کے ویڈیو کلپس اور تحریریں فیس بک پیجز پر لگائی جانے لگیں۔ رفتہ رفتہ یہ عمل بڑا تیز ہوگیا ۔ اس وقت بھی سوشل میڈیا پر دو تین سب سے متحرک گروپوں میں سے ایک تحریک منہاج القرآن ہے۔ تئیس دسمبر کے جلسے سے چار پانچ ماہ پہلے قادری صاحب نے لاہور کے تھنک ٹینک کونسل آف نیشنل افئیرز کے صحافیوں اور دانشوروں کو منہاج مرکز میں دعوت دی اور ویڈیو کانفرنس کے ذریعے انہیں بریفنگ دی، سوال جواب کا سیشن بھی ہوا۔ اس میں قادری صاحب نے بتایا کہ وہ پاکستان واپس آ رہے ہیں اور ایک بڑا جلسہ کریں گے۔ تاہم اخبار نویسوں نے قادری صاحب کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا۔پھر تئیس دسمبر کے جلسے کے لئے کمپین شروع ہوگئی، دسمبر کے اوائل میں میڈیا کو احساس ہوا کہ قادری صاحب کے حامی جس محنت سے مہم چلا رہے ہیں، وہ بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ قادری صاحب نے پہلے اپنے جلسے ، لانگ مارچ اور پھر چار پانچ دن کے دھرنے کے بعد اپنا امیج تبدیل کر لیا۔ ایک غیر اہم، مبالغہ آمیز تقاریر کرنے والے خطیب کے بجائے اب انہیں ایک اہم ، عوامی مقبولیت رکھنے والا طاقتور سیاستدان تصور کیا جائے گا۔ آئندہ میڈیا یا کوئی سیاسی جماعت انہیں Easy نہیں لے گی۔ ان کے کسی دعوے یا اعلان کو نظرانداز کرنا اب ممکن نہیں۔ بڑی مہارت اور دانشمندی سے انہوں نے اپنے پتے کھیلے اور اسلام آباد کے قلب میں پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔انہوں نے اپنے سیاسی حریفوں کو ایک طرح سے آئوٹ کلاس کر دیا۔ان کا اعتماد بھی دیدنی تھا، چودھری برادران کے پیچھے ہٹنے اور عین وقت پر ایم کیو ایم کے دغا دے جانے کے باوجود وہ اپنے پروگرام سے پیچھے نہیں ہٹے اور کامیابی حاصل کر لی۔ وہ ایک ایسے سیاستدان کے طور پر ابھرے ہیں، جن کی اب ہمارے سیاسی منظرنامے میں ایک خاص جگہ اور مستقبل ہے۔انہوں نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ وہ لاکھوں افراد کے لئے ایک روحانی رہنما کی حیثیت بھی رکھتے ہیں، ایسا لیڈر جس کے کہنے پر لوگ اپنے معصوم شیر خوار بچے ساتھ لے کر میدان میں کود سکتے ہیں۔ایک زمانے میں پیر پگارا کے حروں کو یہ حیثیت حاصل تھی۔ تحریک منہاج القرآن کا تاثر ایک خالصتاً علمی اور دعوتی تحریک کا تھا، اب اس نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ ان کے پاس انتہائی منظم اور مشکل ترین حالات میں ڈسپلن قائم رکھنے والے کارکن موجود ہیں۔ ایسے کارکن جن پر کسی قسم کے پروپیگنڈہ کا کوئی اثر نہیںاور وہ رہنمائی کے لئے اپنے قائد کی جانب ہی دیکھتے ہیں۔ دھرنے کے سبق قادری صاحب کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خطابت اپنی جگہ ،مگر مطالبے وہی مانے جاتے ہیں جو حقیقت پسندانہ ہوں اور جن کی وسیع پیمانے پر پزیرائی ہوسکے۔انہوں نے اسلام آباد پہنچنے کے بعد شروع میںغیر حقیقی مطالبے کئے، حکومت اور وزرا کو سابق اور پارلیمنٹ کی تحلیل اورالیکشن کمیشن کی فوری تشکیل نو کا کہا۔ یہ مطالبے مانے جانے والے نہیں تھے ، شائد وہ دبائو بڑھانے کے لئے ایسا کر رہے تھے ، مگر ان کا زیادہ مثبت اثر نہیں ہوا۔ بعد میںانہوں نے دانشمندی سے اپنے پرانے اور حقیقی نکات پر توجہ دی اور کم وبیش تمام مطالبے منوا لئے۔ اگلے روز اگرچہ میڈیا کے ایک حصے نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ قادری صاحب کے مطالبے نہ مانے گئے ، مگرحقیقت اس کے برعکس تھی۔ علامہ طاہرالقادری کا اصل مطالبہ آئین کے آرٹیکل باسٹھ ، تریسٹھ کے امیدواروں پر اطلاق، سکروٹنی کی مدت میں توسیع اور عوامی نمائندگی ایکٹ کی شق 77تا 82 میں تبدیلی لانا تھا۔ الیکشن کمیشن کے اختیارات میں اضافہ کامطالبہ بھی اس وجہ سے تھا۔ یہ تمام باتیں مانی گئی ہیں، نگران وزیراعظم کے لئے بھی انہیں ایک سٹیک ہولڈر کے طور پر مان لیا گیا ہے۔ اگر اس معاہدے پر عمل درآمد ہوا تو بڑی حد تک بدنام اور کرپٹ امیدواروں کا صفایا ہوجائے گا۔اس لحاظ سے بڑی کامیابی کہی جا سکتی ہے۔تحریک منہاج القرآن کو یقیناً یہ اندازہ ہو گیا ہو گا کہ دھرنے کے آخری روز بارش کے باعث ان کے لئے آپشنز محدود ہوگئی تھیں، اس سے پہلے بعض اپوزیشن جماعتوں نے میاں نواز شریف کی قیادت میں مشترکہ اعلامیہ جا ری کر کے قادری صاحب اور ان کے حامیوں کو سیاسی طور پر تنہا کر دیا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ وہ بند گلی میں چلے گئے ہیں، اگر حکومت دانشمندی سے کام نہ لیتی ، مذاکرات نہ کرتی اور محفوظ راستہ نہ دیتی توصورتحال خاصی مشکل ہو گئی تھی۔ سیاست میں واپسی کے راستے کھلے رکھنے چاہیں، قادری صاحب نے ایسا نہیں کیا، وہ انتہا پر چلے گئے تھے۔ تیونس، مصر اور یمن وغیر ہ میں عرب سپرنگ کی کامیابی کی ایک وجہ ان ممالک کے دارالحکومت کی خاص پوزیشن تھی۔ مصر میں تحریر اسکوائر پر جمع ہونے والے لاکھوں افراد قاہرہ کے رہائشی تھے، اگرچہ دوسرے شہروں سے بھی لوگ آئے ،مگر بنیادی طور پر وہ مظاہرے ان شہروں کے اپنی آبادی نے کئے تھے۔ یہی تیونس اور یمن میں ہوا۔ لیبیا اور شام میں صورتحال مختلف تھی، وہاں دارالحکومت میں اپوزیشن کی گرفت مضبوط نہیں تھی، اس لئے ان مظاہروں کا اس طرح اثر نہ ہوسکا۔ کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کا دھرنا بھی وہاں کے مقامی آبادی کا اجتماع تھا، جن کے لئے گھروں سے ساز وسامان لانا بھی آسان تھا اور لوگ اپنی پوزیشنیں بھی بدل سکتے تھے۔ ایک دو راتوں کے بعد ضرورت پڑنے پر چند گھنٹوں کے لئے اپنے گھروں میں سستایا جا سکتا تھا۔ قادری صاحب کے لانگ مارچ میں ایسی کوئی سہولت موجود نہیں تھی۔ اس کا تمام تر دارومدار شرکا کے عزم وایثار پر تھا۔ اگر چہ قادری صاحب خوش قسمتی سے اس بار کامیاب ہوئے ،مگر شرکا کا اس قدر سخت امتحان لینا رسک ہوتا ہے، اگر ایسی بارش دو دن پہلے ہوجاتی ، تب کیا ہوتا؟اس وقت تک تو دھرنے کا ٹیمپو بھی نہیں بنا تھا۔ حکومتی اتحادکی سیاسی کامیابی پیپلز پارٹی کی حکومت پر بہت سے حوالوں سے سخت تنقید کی جاتی ہے، جو یکسر بے وزن بھی نہیں، ایک بات مگر اس نے یہ ثابت کر دی ہے کہ وہ ایک سیاسی جماعت ہے اور سیاسی انداز سے سوچتی ہے۔ ایک وقت میں وفاقی حکومت سخت مشکلات کا شکار تھی، پنجاب حکومت لانگ مارچ کو پنڈی پہنچا کر سکون سے تماشا دیکھ رہی تھی،تمام تر دبائو مرکز پر تھا۔ اس مشکل وقت میں پیپلز پارٹی نے اپنے اتحادیوں کو ساتھ ملایا اوراعلیٰ سطحی وفد کے ذریعے مذاکرات کئے ،یوں ڈیڈلاک بھی ختم کیا اوراس معاہدے پر عمل درآمد کرا کر وہ الیکشن کے عمل کا شفاف بنانے کا کریڈٹ بھی لے سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے سخت گیر سوچ رکھنے والوں کو سائیڈ پر کیا اور اس کے ثمرات بھی انہیں مل گئے۔ اگر خدانخواستہ تصادم ہوجاتا تو اس کے خوفناک نتائج نکلتے۔ لال مسجد کے سانحے کے اثرات سے ہم ابھی تک نہیں نکل سکے، ملک کسی اور ہولناک واقعہ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔پیپلز پارٹی کا اصل امتحان لانگ مارچ ڈیکلئریشن پر عمل کرانا ہے۔ انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ صرف منہاج القرآن ہی نہیں بلکہ ملک بھر میں انتخابی اصلاحات کی خواہش موجود ہے۔ یہ اچھا موقعہ ہے کہ ہمارے سیاستدان جمہوری نظام کی تطہیر کریں، اس سے جمہوریت دشمن قوتوں کو شدید حوصلہ شکنی ہوگی۔ میڈیا اور تجزیہ کار اب یہ مان لینا چاہیے کہ میڈیا اور ہمارے تجزیہ کاروں نے علامہ طاہرالقادری کو انڈر اسٹیمیٹ کیا۔ وہ علامہ صاحب کے شخصی اثر اور قوت کا اندازہ نہ لگا سکے۔ میڈیا کے بیشتر حصے کو یقین تھا کہ لانگ مارچ ہو ہی نہیں سکے گا۔دھرنے کے دوران بھی کوریج کرتے ہوئے انہیں شرکا ء کے موڈکا اندازہ نہیں ہوسکا۔ کئی اینکر خواتین چیختی رہیں کہ آپ لوگوں کو سردی کیوں نہیں لگ رہی، بچے بیمار ہوجائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ انہیںسمجھنا چاہیے تھا کہ لوگ کسی جذبے اور کمٹمنٹ کے ساتھ ہی یہاں تک آئے ہیں اور یہ یوں واپس نہیں جائیں گے۔ ہمارے اہل دانش اور تجزیہ کاروں نے سب سے اہم غلطی یہ کی کہ انہوں نے طاہرالقادری کی شخصیت کو بے رحمی سے نشانہ بنایا ،مگر ان کے ایجنڈے کو نظر انداز کر گئے۔ انہیں یہ ادراک نہ ہوسکا کہ انتخابی اصلاحات کرنا اور تبدیلی لانے کے ایجنڈے کی عوام میں زبردست کشش موجود ہے۔ قادری صاحب نے اس خلا میں قدم رکھا ،جو ہماری دوسری سیاسی جماعتیں پر کرنے میں ناکام رہیں۔ جیسا کہ شرکا کے انٹرویوز سے ظاہر بھی ہوا کہ ان میں تمام لوگ منہاج القرآن کے نہیں تھے، بہت سے لوگوں نے بتایا کہ وہ عمران خان کے ووٹر ہیں، بعض دوسری جماعتوں کے حامی بھی تھے۔ ایجنڈے پر زیادہ بات ہونا چاہیے تھی، وہ نہ ہوسکی اور تمسخر،پیروڈی،طنز وتشنیع ہمارے میڈیا پر حاوی رہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمعہ کو دھرنے کی کامیابی کے بعد بہت سے اینکروں اور تجزیہ کاروں کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا ردعمل دیں۔ جن باتوں کا وہ مذاق اڑاتے رہے، وہ تقریباً سب مان لی گئیں۔ جہاں تک اسمبلیوں کی تحلیل اور الیکشن کمیشن کی فوری تشکیل کی بات تھی، یہ دبائو بڑھانے کا حربہ تھا، حقیقی مطالبہ نہیں تھا۔میڈیا اور انٹیلی جنشیا کو آنے والے دنوں میں زیادہ محتاط اور باریک بین ہونا پڑے گا۔ الیکشن میں اصلاحات کے عمل پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت پڑے گی۔ مسلم لیگ ن مسلم لیگ ن نے بظاہر بڑی عقل مندی اور ہوشیاری سے چالیں چلیں۔ انہوں نے لانگ مارچ کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی کہ اس کا رخ اسلام آباد کی جانب تھا۔ جب انہوں نے محسوس کیا کہ دھرنے میں خاصے لو گ آگئے ہیں اور یہ اجتماع خطرناک ثابت ہوسکتا ہے تووہ متحرک ہوئے۔ میاں صاحب نے کمال مہارت سے کئی اہم جماعتوںسے رابطے کئے۔ بلوچستان سے اچکزئی صاحب اور حاصل بزنجو کے ساتھ ساتھ مولانا فضل الرحمن اورجماعت اسلامی کو ساتھ ملا لینا ان کی بڑی کامیابی تھی۔ انہوں نے اپنے مشترکہ اعلامیہ سے علامہ طاہرالقادری کو بالکل تنہا کر دیا۔ یہ جمہوریت کے لئے اچھا شگون تھا کہ ہماری سیاسی جماعتیں ہر قسم کی تبدیلی کے لئے انتخابات کی جانب ہی دیکھنے لگی ہیں۔ میاں صاحب نے دانستہ یا نا دانستہ ایک بڑی غلطی یہ کی کہ انہوں نے قادری صاحب کو محفوظ راستہ نہیں دیا۔اے پی سی کے شرکا میں سے کسی نے یہ نہیں سوچا کہ اسلام آباد میںکئی روز سے ہزاروں افراد کا دھرنا جاری ہے۔دھرنے کے شرکا اور ان کے لیڈر قادری صاحب اتنا آگے جا چکے ہیں کہ ان کے لئے کچھ حاصل کئے بغیر واپس لوٹنا شرمندگی کے مترادف ہے۔ انہیں محفوظ راستہ دینا (Face saving)دینا ضروری تھا۔ دوسری صورت میں شرکاء فرسٹریٹ ہو کر تصادم کی طرف جا سکتے تھے، ایسا ہو جاتا تو پھر کچھ بھی نہ بچ پاتا۔ جس طرح کا اعلیٰ سطحی وفد حکومت نے مذاکرات کے لئے بھیجا، ویسا کام پہلے نواز شریف صاحب بھی کر سکتے تھے۔ اگر ایسا کرتے تو وہ محاورے کے مطابق میلہ لوٹ لیتے۔ انہوں نے ایسا نہیں کیا، شائد وہ اپنی مخالف وفاقی حکومت کو ٹف ٹائم دینا چاہتے تھے، مگر اختتام میں اس کا تمام تر نقصان انہیں ہی ہوا۔ ٹی وی چینلز پر ن لیگ کے رہنمائوں کی تلخی دیکھ کر انہیں پہنچنے والے دھچکے کی شدت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ؟ ہمارے اہل دانش اور تجزیہ کاروں کو ہر ایشو میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار دیکھنے کا رویہ بھی بدلنا ہوگا۔ یوں لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا آسیب ان کی دانش کے گرد لپٹ گیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے ویسے بھی دو تین باتیں سمجھنی چاہیں۔ دنیا بھر میں اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ پر و’’ سٹیٹس کو‘‘ ہوتی ہے۔ نظام بدلنے یا تبدیلی لانے کا نعرہ کبھی انہیں راس نہیں ہوتا۔ ایسا نعرہ لگانے والوں کو ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قادری صاحب والے معاملے کو زیادہ غور سے دیکھنا چاہیے تھا۔ اگر اس میں اسٹیبلشمنٹ شامل ہوتی تو معروف اسٹیبلشمنٹ نواز جماعتیں اس سے دور نہ رہتیں اور وعدہ کر کے واپس نہ چلی جاتیں۔ جو مارچ یا دھرنا اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر کیا جاتا ہے ، اس کے تیور ہی الگ ہوتے ہیں، اس کے شرکا شروع ہی سے ڈنڈے لے کر چلتے ہیں اور تباہی ان کا مشن ہوتی ہے۔ ایسے جلوسوں میں لوگ خود اپنی خوشی سے اپنی بیویوں، بہنوں اور شیر خوار بچوں کو نہیں لاتے۔ پیسے خواہ جتنے ملیں، اولاد آدمی کو اپنی جان سے بھی زیادہ پیاری ہوتی ہے۔ اس دھرنے کے پرامن اختتام نے یہ ثابت کر دیا کہ اسٹیبلشمنٹ کی رٹ لگانے والے تجزیہ کاروں نے ٹھوکر کھائی، اصولاً تو انہیں اپنے قارئین اور ناظرین سے معذرت کرنی چاہیے، مگرافسوس کہ ہمارے ہاں ایسی اچھی روایتیں موجود نہیں۔ ویسے اس حوالے سے فورسز کا رویہ مثبت رہا۔ کورکمانڈرز کانفرنس کو بعض حلقوں نے معنی خیز نظروں سے دیکھا ،مگر آئی ایس پی آر نے بروقت وضاحت کر دی۔ ہماری مقتدرہ قوتوں کو یہ یاد رکھناچاہیے کہ سیاست صرف سیاستدانوں کے کھیلنے کا میدان ہے۔ عسکری قوتوںکو اپنے پروفیشنل فرائض ہی انجام دینے چاہیں۔ ایسا کرنا ہی ان کے وقاراور عزت میں اضافہ کرے گا۔ اس دھرنے کا پرامن انجام یہ ثابت کرتا ہے کہ ملک میں جمہوریت پنپ رہی ہے اورہمارا بظاہر کمزور جمہوری سسٹم اس قسم کے بڑے دھچکوں کو برداشت کرنے کی سکت اور قوت رکھتا ہے۔اس سے ہمارے سیاستدانوں اور جمہوری قوتوں نے خاصا کچھ سیکھا ہوگا۔ تحریک انصاف عمران خان اور ان کے بعض حامیوں کو ممکن ہے اب اندازہ ہو رہا ہو کہ انہوں نے ملنے والے ایک بڑے موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ تحریک انصاف میں لانگ مارچ کے حمایت میں ایک مضبوط لابی موجود تھی،ان کے کئی اہم سیاسی لیڈروں کا خیال تھا کہ ہمیں قادری صاحب کے ساتھ شامل ہونا چاہیے، ان کی جماعت کا سیاسی نیٹ ورک موجود نہیں ،ا س لئے سیاسی کامیابی کے تمام تر ثمرات تحریک انصاف کو پہنچیں گے۔ اس لابی کی بات نہیں مانی گئی، عمران خان اور ان کے بعض غیر سیاسی مگر پارٹی کے لئے تھنک ٹینک کا درجہ رکھنے والے لوگوں کی بات مانی گئی۔ تاہم عمران خان نے لانگ مارچ اور دھرنے پر تنقید بالکل نہیں کی، وہ اسے بڑی احیتاط سے دیکھتے رہے، جائزہ لیتے رہے ،مگر شامل نہیں ہوئے۔ ممکن ہے انہیں خطرہ ہو کہ یہ دھرنا کسی اور جانب جا سکتا ہے۔ انہوں نے اپنی تمام تر توجہ انتخابات کی جانب مبذول کی اور اس حوالے سے دبائو بڑھانے کی کوشش کی ،مگر تحریک انصاف کے بہت سے نوجوان کارکنوں کو اب یقیناً مایوسی ہو رہی ہوگی۔پی ٹی آئی نے اس معاملے میں اگرچہ کھویا بھی زیادہ نہیں۔ ان کے لئے انتخابات کے حوالے سے قادری صاحب کے ساتھ ہاتھ ملانے کی آپشن موجود ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف آنے والے دنوں میں کیسے پتے چلتی ہے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
3 دسمبر:خصوصی افراد  کا عالمی دن: حقوق،رکاوٹیں اور ہماری ذمہ داریاں

3 دسمبر:خصوصی افراد کا عالمی دن: حقوق،رکاوٹیں اور ہماری ذمہ داریاں

3 دسمبر کو خصوصی افراد کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کا بنیادی مقصد معاشرے کے ان افراد کے حقوق، ضروریات، صلاحیتوں اور مسائل کو اجاگر کرنا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق دنیا کی تقریباً 16 فیصد آبادی کسی نہ کسی معذوری کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے۔ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں خصوصی افراد کی ایک بڑی تعداد موجود ہے لیکن حکومتی سطح پر ان کی ضروریات کے مطابق سہولتوں کی فراہمی اب بھی ناکافی ہے۔ پاکستان میں خصوصی افراد کی اصل تعداد پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ 2017 کی مردم شماری میں ان کی شرح صرف 0.48 فیصد بتائی گئی تاہم ماہرینِ سماجیات اسے درست قرار نہیں دیتے۔ عالمی اداروں کے مطابق پاکستان جیسے ممالک میں معذور افراد کی شرح 10 سے 15 فیصد کے درمیان ہوتی ہے۔اس حساب سے پاکستان میں تقریباً دو کروڑ سے زائد افراد کسی نہ کسی جسمانی، ذہنی یا سماعت و بصارت کی معذوری کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔پاکستان نے گزشتہ دو دہائیوں میں خصوصی افراد کے حقوق سے متعلق متعدد قوانین منظور کیے ہیں۔ 2011ء میں پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے کنونشن برائے حقوقِ معذوراں (UNCRPD) کی توثیق کی۔ اس کے بعد مختلف صوبوں نے خصوصی افراد کے حقوق سے متعلق قوانین بھی بنائے جیسے سندھ میں 2018 کا سندھ معذور افراد تحفظ ایکٹ،پنجاب کا سپیشل پرسنز ایکٹ 2020،خیبرپختونخوا کا معذور افراد کا ایکٹ 2022۔ ان قوانین میں تعلیم، روزگار، رسائی، مالی معاونت، علاج، سماجی تحفظ اور سیاسی شمولیت جیسے نکات شامل ہیں،لیکن مسئلہ ہمیشہ کی طرح نفاذ کا ہے۔ عملاً نہ عمارتیں قابلِ رسائی ہیں نہ دفاتر میں ریمپس ہیں نہ بڑی تعداد میں ملازمتوں کا کوٹہ پورا کیا جاتا ہے نہ ہی خصوصی افراد کے لیے تعلیم اور صحت کے نظام کو مؤثر بنایا گیا ہے۔ قانون موجود ہو تو بھی رویے، نگرانی، بجٹ اور ترجیح نہ ہو تو وہ کاغذی کارروائی بن جاتا ہے۔خصوصی افراد کو صحت کے نظام میں بھی رکاوٹوں کا سامنا ہوتا ہے۔ ہسپتالوں میں وہیل چیئر کی رسائی،بریل یا سائن لینگویج کے ذریعے معلومات کی فراہمی اورذہنی صحت کے لیے معاون سہولتیں بہت کم ہیں۔ سب سے اہم مسئلہ نفسیاتی دباؤ ہے جو خصوصی افراد مسلسل معاشرتی رویوں کی وجہ سے سہتے ہیں۔ ذہنی اور جسمانی دونوں طرح کی معذوری کے لیے پاکستان میں ماہرین اور علاج کے وسائل بہت کم ہیں۔تعلیم تک رسائی، سب سے بڑا چیلنجپاکستان میں خصوصی بچوں کی تعلیم سب سے بڑا مسئلہ ہے۔اقوامِ متحدہ کے مطابق پاکستان میں 90 فیصد خصوصی بچے سکولوں سے باہر ہیں۔عام سکولوں میں ریمپس، سائن لینگویج، بریل سسٹم یا خصوصی اساتذہ نہیں ہیں ۔خصوصی بچوں کو تعلیمی نظام سے باہر رکھ کر ہم ان کی زندگی، کیریئر اور سماجی کردار کو محدود کر دیتے ہیں۔ دنیا کے زیادہ ترقی یافتہ ممالک میں انکلوسیو ایجوکیشن یعنی سب کے لیے مشترکہ نظام تعلیم ترجیح ہے جبکہ ہمارے ہاں ابھی یہ تصور ابتدائی مراحل میں ہے۔روزگار اور معاشی مشکلات معذور افراد کے لیے سرکاری ملازمتوں میں دو فیصد کوٹہ مختص ہے لیکن اکثر محکمے یہ کوٹہ پورا نہیں کرتے۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان افراد کی ایک بڑی تعداد بے روزگار ہے۔یوں مالی انحصار خاندانوں پر بڑھ جاتا ہے،عزتِ نفس مجروح ہوتی ہے،سماجی سطح پر الگ تھلگ ہونے کا احساس بڑھتا ہے۔اصل مسئلہ معذوری نہیں بلکہ معاشرتی نظام کی وہ ناکامی ہے جو اِن کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں ناکام رہتی ہے۔دنیا بھر میں ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے خصوصی افراد کے لیے ہزاروں مواقع پیدا کیے ہیں مگر ہمارے ملک میں اس سمت میں ترقی ابھی بہت سست ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ میڈیا، نصاب،مساجد، تعلیمی ادارے اور حکومتی بیانیہ مل کر آگاہی پیدا کریں کہ معذوری ایک جسمانی یا ذہنی کیفیت ہے کمزوری نہیں۔آگے بڑھنے کا راستہخصوصی افراد کے حوالے سے حقیقی تبدیلی کے لیے کئی اقدامات ناگزیر ہیں مثال کے طور پر درست اعداد و شمار کی تدوین، خصوصی افراد کے حقوق سے متعلق قوانین کا نفاذ یقینی بنایا جائے۔سکولوں کو قابلِ رسائی بنایا جائے اور خصوصی تربیت یافتہ اساتذہ بھرتی کیے جائیں۔ دو فیصد کوٹہ بھرنے پر سختی کی جائے اور نجی شعبے کو مراعات دی جائیں۔ میڈیا اور نصاب میں خصوصی افراد کی نمائندگی بڑھائی جائے۔ جدید ایڈاپٹو ٹیکنالوجیز کو سبسڈی دے کر عام کیا جائے۔ ریاست، معاشرہ اور خاندان خصوصی افراد کو وہ مواقع فراہم کریں جن کے وہ برابر کے حق دار ہیں۔پاکستان تبھی مضبوط ہو گا جب اس کے تمام شہری،چاہے وہ جسمانی، ذہنی، بصارت یا سماعت کی کسی بھی معذوری کے حامل ہوں،برابر کے شہری تسلیم کیے جائیں۔

مہرگڑھ:برصغیر کے تمدنی سفر کی پہلی منزل

مہرگڑھ:برصغیر کے تمدنی سفر کی پہلی منزل

بولان کے سنگلاخ پہاڑوں کے دامن میں ایک ایسی بستی آباد تھی جو آج بھی انسانی تاریخ کی پہلی دھڑکنوں کی یاد دلاتی ہے۔ یہ ہے مہر گڑھ،جنوبی ایشیا کی وہ تہذیب جس نے انسان کو خانہ بدوشی سے نکال کر منظم زندگی، آباد بستیوں اور زرعی تمدن کی طرف دھکیلا۔ اس کہانی کا آغاز تقریباً نو ہزار سال پہلے ہوا جب دنیا کے کئی خطے ابھی پتھر کے دور میں گم تھے۔یہ 1974ء کی ایک دوپہر تھی جب فرانسیسی ماہرینِ آثار قدیمہ ژاں فرانسوا جارج (Jean-François Jarrige) اور کیتھرین جارج( Catherine Jarrige) نے بلوچستان کے ضلع کچّھی میں مٹی کے نیچے چھپی ایک ایسی دنیا دریافت کی جو تاریخ کو نئی ترتیب دینے والی تھی۔ شب و روز کی کھدائی سے سامنے آیا کہ یہ جگہ کوئی عام بستی نہیں بلکہ برصغیر کی سب سے قدیم زرعی معاشرت کا گہوارہ تھی۔مہر گڑھ کا مقام کچھ ایسا تھا کہ یہاں سے گزرنے والے راستے سندھ، افغانستان اور ایران تک پہنچتے تھے۔ شاید یہی وہ سنگم تھا جہاں انسان نے پہلی بار تجارت، تبادلے اور میل جول کی اہمیت محسوس کی۔ کھدائی میں ملنے والی اینٹیں، چکی کے پتھر اور اناج کے ذخائر بتاتے ہیں کہ یہاں کے لوگ شکار پر انحصار چھوڑ چکے تھے۔ انہوں نے اپنے لیے کچی اینٹوں کے گھر بنائے،اناج کے گوداموں میں غلہ محفوظ کیا اور ایک جگہ مستقل رہائش اختیار کی۔ یہ تمام باتیں اس بستی کے ارتقا کی بنیاد تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب دنیا کے چند ہی خطوں میں زراعت کا آغاز ہوا تھا، مہر گڑھ ان میں سرفہرست ہے۔ قدیم مہر گڑھ کا طرزِ زندگیمہر گڑھ کے رہنے والوں نے گندم اور جو کی باقاعدہ کاشت کی۔ دریا کے قریب لہلہاتے کھیت، پانی کھینچ کر لانے کے طریقے، اور غلے کی حفاظت کے انتظامات سے وہ ایک مکمل زرعی معاشرے میں تبدیل ہو گئے۔ مویشی بانی بھی یہاں کی معاشی ریڑھ کی ہڈی تھی۔مہر گڑھ کی دستکاری آج بھی ماہرین کو حیران کرتی ہے۔ یہاں سے ملنے والی اشیا سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قدیم بستی کے لوگ صرف کسان نہیں، فنکار بھی تھے۔ ان کی بنائی ہوئی چیزوں میں خوبصورت ڈیزائنوں والے مٹی کے برتن، فیروزے اور سیپیوں سے بنے زیورات،تانبے کے اوزار،ہڈی سے کندہ کاری کے نمونے اورانسانی اور حیوانی پیکرخاص طور پر مٹی کی گڑیائیں انتہائی دلچسپ ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ گڑیاں زرخیزی، ممتا اور مذہبی عقائد کا آئینہ تھیں۔مہر گڑھ کی سب سے حیران کن دریافت انسانی جبڑوں پر کیے گئے سوراخ ہیں جو کسی قدیم ڈینٹل ڈرل سے بنائے گئے تھے۔ یعنی 7000 سال پہلے اس بستی کے لوگ دانتوں کا علاج کر رہے تھے! یہ دنیا کی قدیم ترین دندان سازی میں شمار ہوتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مہر گڑھ صرف ایک زرعی بستی نہیں بلکہ سائنسی سوجھ بوجھ کی حامل ایک جدید آبادی تھی۔موت کی وادی میں زندگی کا یقینماہرین یہ بھی بتاتے ہیں کہ مہر گڑھ کی قبروں میں ملنے والی چیزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ مرنے کے بعد کی زندگی پر ایمان رکھتے تھے۔ دفن کیے گئے افراد کے ساتھ رکھا جانے والا سامان ان کے عقائد اور رسوم کا پتہ دیتا ہے۔ مٹی کے برتن، زیورات، کھانے پینے کی اشیا،بعض جگہ جانوروں کی قربانی کے آثار،یہ رواج اس تہذیب کے روحانی شعور اور سماجی تنظیم کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔لوبان اور فیروزے کی تجارت مہر گڑھ کے باشندے اپنی حدود سے بہت آگے تک سفر کرتے تھے۔ یہاں پایا جانے والا لیپس لازولی اور فیروزہ افغانستان سے آتا تھا جبکہ بعض مصنوعات ایران تک جاتی تھیں۔ یہ شواہد بتاتے ہیں کہ لمبے فاصلے کی تجارت کا راج تھا،دستکار قیمتی مصنوعات تیار کرتے تھے اورمہر گڑھ علاقائی سطح پر معاشی مرکز بن چکا تھا،یہی تجارتی روایت بعد میں وادی سندھ کے بڑے شہروں میں بھرپور طور پر نظر آتی ہے۔یہ تہذیب ختم نہیں ہوئی، آگے بڑھ گئیتاریخ کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ مہر گڑھ ہی وہ ابتدائی بنیاد ہے جس نے بعد میں موئن جو دڑو، ہڑپہ اوروادی سندھ کے دیگر شہروں کو جنم دیا۔ شہری منصوبہ بندی، تجارت، دستکاری، زرعی نظام،یہ سب عناصر سب سے پہلے مہر گڑھ میں پروان چڑھے۔یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مہر گڑھ نے انسان کو راستہ دکھایا اور وادی سندھ نے اس راستے پر ایک عظیم تہذیب پروان چڑھی۔سمندر بہا دیا۔2600 قبل مسیح کے بعد مہر گڑھ کی آبادی کم ہونے لگتی ہے۔ ماہرین اس کے مختلف اسباب بیان کرتے ہیں مثال کے طور پر موسمی تبدیلیاں، دریاؤں کے رخ میں تبدیلی یا بہتر مواقع کی تلاش۔ جو بھی ہو، حقیقت یہ ہے کہ مہر گڑھ کے لوگ کہیں گم نہیں ہوئے،وہ آگے جا کر وادی سندھ کے بڑے مراکز میں جذب ہو گئے۔آج جب ہم بلوچستان کی اس تہذیب کا مطالعہ کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وقت جیسے تھم گیا ہو۔ کہیں دور مٹی کے نیچے وہ لوگ اب بھی چکی پیس رہے ہیں، مٹی کی گڑیاں بنا رہے ہیں، کھیتوں میں اگتی گندم سے امید کا رشتہ جوڑ رہے ہیں۔ مہر گڑھ ہمیں بتاتا ہے کہ برصغیر کی کہانی کسی جنگ، کسی فاتح یا کسی سلطنت سے نہیں شروع ہوئی بلکہ ایک چھوٹی سی بستی سے، جہاں انسان نے پہلی بار زمین کو کاٹ کر اپنا مستقبل بویا۔ اسی لیے مہر گڑھ ایک تہذیب نہیں، ہمارے تمدنی سفر کی پہلی دھڑکن ہے۔  

آج کا دن

آج کا دن

جارج پنجم کی دہلی دربار میں آمد3 دسمبر 1910ء کو برطانوی بادشاہ جارج پنجم نے دہلی دربار میں بطور بادشاہ پہلی مرتبہ شرکت کی۔ اس دربار کو خاص طور پر ہندوستان کیئیے سیاسی کنٹرول، طاقت کے اظہار اور عوامی جذبات کو اپنے حق میں لانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ جارج پنجم کی آمد کے موقع پر پورے دہلی کو شاہی طرز پر سجایا گیا اور لاکھوں لوگ اس تاریخی موقع پر جمع ہوئے۔ اس تقریب میں آنے والے برسوں میں ہونے والی انتظامی تبدیلیوں، سیاسی فیصلوں اور نوآبادیاتی حکمتِ عملی کی جھلک بھی نظر آئی۔ یہ وہی دور تھا جب انگریزوں نے دارالحکومت کو کلکتہ سے دہلی منتقل کرنے کا فیصلہ کیا جس نے ہندوستان کی سیاسی نقشہ بندی بدل دی۔ دہلی دربار کی یہ تقریب نوآبادیاتی نظام کے عروج کا نشان سمجھی جاتی ہے۔پہلا کامیاب دل کا ٹرانسپلانٹ3 دسمبر 1967ء کو طب کی تاریخ میں ایک عظیم سنگِ میل اس وقت عبور ہوا جب جنوبی افریقی سرجن ڈاکٹر کرسچین برنارڈ نے انسانی دل کا پہلا کامیاب ٹرانسپلانٹ کیا۔ یہ آپریشن 25 سالہ خاتون کے دل کو 55 سالہ مریض لوئس واشکانسکی کے جسم میں منتقل کرنے کے ذریعے کیا گیا۔ اگرچہ مریض صرف 18 دن تک زندہ رہا لیکن اس سرجری نے طب کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔ اس واقعے نے دل کے امراض کے علاج کے حوالے سے نئی راہیں کھولیں، اعضاکی پیوند کاری کے عالمی رجحان کو بڑھایا اور سرجری کو جدید سائنس کے نئے دور میں داخل کیا۔ اس کامیابی پر دنیا بھر کے طبی اداروں نے تحقیق کا نیا سلسلہ شروع کیا جس کے نتیجے میں دل کے ٹرانسپلانٹ آج معمول کا طریقہ بن چکا ہے۔ پیراگوئے میں شدید زلزلہ3 دسمبر 1973ء کو پیراگوئے کے کئی علاقوں میں تباہ کن زلزلہ آیا جس نے ملک کے اقتصادی و سماجی ڈھانچے پر گہرے اثرات چھوڑے۔ اگرچہ لاطینی امریکہ کے دیگر ممالک کی طرح پیراگوئے میں زلزلے عام نہیں تھے لیکن اس زلزلے کی شدت اور نوعیت نے حکومتی و انتظامی اداروں کو سخت امتحان میں ڈال دیا۔ کئی دیہات مکمل طور پر متاثر ہوئے، بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا اور ہزاروں لوگ بے گھر ہوگئے۔ اس واقعے نے پیراگوئے میں قدرتی آفات کے انتظام، حفاظتی تعمیرات اور امدادی نظام کی کمزوریوں کو نمایاں کیا۔ زلزلے کے بعد بین الاقوامی اداروں نے بھی امدادی کارروائیوں میں حصہ لیا۔ یہ زلزلہ آج بھی پیراگوئے کی تاریخ کا اہم ترین قدرتی حادثہ سمجھا جاتا ہے۔ یونین کاربائیڈ حادثہ 3 دسمبر 1984ء کو بھارت کے شہر بھوپال میں بدترین صنعتی حادثہ پیش آیا جب یونین کاربائیڈ فیکٹری سے زہریلی گیس لیک ہو گئی اورچند گھنٹوں میں ہزاروں افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔اس سانحہ کی وجہ حفاظتی نظام میں شدید غفلت، ناقص مینجمنٹ اور حکومتی نگرانی کی کمی تھی۔ اس حادثے نے نہ صرف بھارتی صنعتکاری پر سوال اٹھائے بلکہ پوری دنیا میں صنعتی حفاظتی قوانین میں انقلابی تبدیلیاں لائیں۔ آج بھی بھوپال میں ہزاروں افراد اس گیس کے اثرات سے متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ سانحہ صنعتی تاریخ کا بدترین واقعہ قرار دیا جاتا ہے جو انسانی جانوں، ماحول اور انتظامی ذمہ داریوں کی سنگینی کا ہمیشہ کے لیے سبق بن گیا۔ سرب فورسز کے حملے کی ابتدا3 دسمبر 1992ء کو بوسنیا کی خانہ جنگی کے دوران سرب فورسز نے سربرنیٹسیا کے علاقے پر بڑے حملے کا آغاز کیا جو بعد میں 1995ء کے بدنامِ زمانہ قتلِ عام کی بنیاد بنا۔ اس دن ہونے والی جارحیت نے مقامی بوسنیائی مسلمانوں کو شدید خوف میں مبتلا کر دیا اور ہزاروں افراد پناہ گزینی کے لیے دیگر علاقوں کی طرف منتقل ہونے لگے۔ اس حملے کا مقصد سٹریٹجک علاقوں پر قبضہ، آبادیاتی تبدیلی اور مسلم آبادی کو بے دخل کرنا تھا۔ 3 دسمبر کا یہ حملہ بوسنیا کی تاریخ میں وہ موڑ تھا جس نے جنگ کے ظلم اور انسانیت سوز مظالم کی راہ ہموار کی۔ آج یہ واقعہ نسل کشی کے مقدمات میں تاریخی حوالہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔   

بین الاقوامی یومِ انسداد غلامی : ایک تجدیدِ عہد

بین الاقوامی یومِ انسداد غلامی : ایک تجدیدِ عہد

دنیا ہر سال 2 دسمبر کو غلامی کے خاتمے کا عالمی دن مناتی ہے۔ یہ دن ہمیں اس حقیقت کی یاد دہانی کرواتا ہے کہ غلامی اگرچہ ماضی کا قصہ سمجھی جاتی ہے لیکن اس کی مختلف شکلیں آج بھی انسانی معاشروں کو متاثر کر رہی ہیں۔ اقوام متحدہ نے یہ دن اس مقصد کے تحت منانا شروع کیا کہ عالمی برادری کو آگاہ کیا جائے کہ جدید دور کی غلامی،جس میں جبری مشقت،انسانی سمگلنگ، بچوں کا استحصال، قرض کے عوض غلامی، جبری شادی اور جسم فروشی شامل ہیں،اب بھی کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔غلامی انسانی تاریخ کی قدیم ترین مسائل میں سے ایک ہے۔ ماضی میں طاقتور قومیں کمزور اقوام کے لوگوں کو غلام بنا لیتی تھیں۔ منڈیوں میں انسانوں کی خرید و فروخت ہوتی تھی اور انہیں محض ایک جائیداد سمجھا جاتا تھا۔ امریکہ، یورپ، مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں غلامی کا نظام طویل عرصے تک قائم رہا۔ صنعتی انقلاب کے بعد دنیا کے مختلف ممالک نے قانون سازی کے ذریعے غلامی کے خاتمے کا اعلان کیا لیکن سماجی و عدم مساوات اور بدعنوان نظاموں نے غلامی کی نئی شکلیں پیدا کر دیں۔ آج بین الاقوامی اداروں کے مطابق دنیا میں تقریباًپانچ کروڑ سے زائد افراد کسی نہ کسی شکل میں جدید غلامی کا شکار ہیں۔ان میں اکثریت بچوں، خواتین اور مزدور طبقے کی ہے جنہیں غربت، جہالت، روزگار کی کمی، قدرتی آفات اور تنازعات کی وجہ سے استحصال کا سامنا ہے۔ غلامی کی جدید صورتیںجدید دور کی غلامی پرانی غلامی سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ اب غلاموں کی خرید و فروخت روایتی منڈیوں کے بجائے خفیہ نیٹ ورکس اور جرائم پیشہ گروہوں کے ذریعے ہوتی ہے۔جدید دور میں غلامی کی چند نمایاں صورتوں میں انسانی سمگلنگ،جبری مشقت،بچوں سے جبری مشقت اور استحصال، قرض کے عوض غلامی اور جبری شادی شامل ہیں۔ انسانی سمگلنگ کو جدید غلامی کی سب سے خطرناک صورت قرار دیا جاتا ہے۔ سمگلرز لوگوں کو بہتر روزگار، خوشحال زندگی، یا بیرونِ ملک مواقع کا لالچ دے کر دھوکے سے اپنے جال میں پھنساتے ہیں۔ بعد ازاں انہیں جبری مشقت، جسم فروشی یا دیگر مجرمانہ سرگرمیوں پر مجبور کیا جاتا ہے۔دنیا کے بہت سے ترقی پذیر ممالک میں مزدور غیر انسانی حالات میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ فیکٹریوں، کھیتوں، کانوں، تعمیراتی مقامات اور گھروں میں لاکھوں لوگ انتہائی کم اجرت پر 14 سے 18 گھنٹے تک کام کرتے ہیں۔ ان کے پاس نہ قانونی تحفظ ہوتا ہے نہ ہی کوئی سماجی سہولت۔بچوں کو ہوٹلوں، کارخانوں، ورکشاپوں، اینٹوں کے بھٹوں، کھیتوں اور گھریلو کام کاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بچوں سے بھیک منگوائی جاتی ہے اور انہیں جرائم پر بھی مجبور کیا جاتا ہے۔قرخ کے عوض غلامی کا نظام جنوبی ایشیا سمیت کئی خطوں میں موجود ہے۔ ایک خاندان معمولی قرض لیتا ہے اور پھر سود، غیر منصفانہ حساب یا طاقتور جاگیرداروں کے دباؤ کی وجہ سے نسل در نسل غلامی میں جکڑا رہتا ہے۔اکثر معاشروں میں لڑکیوں کو کم عمری میں زبردستی شادی پر مجبور کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ پوری زندگی سماجی، جسمانی اور ذہنی پابندیوں میں گزارتی ہیں۔ جبری شادی کو بھی اقوام متحدہ جدید غلامی کی ایک شکل کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔بین الاقوامی کوششیں اور اقوام متحدہاقوام متحدہ نے 1949ء میں غلامی کے کاروبار اور انسانوں کی خرید و فروخت کے خلاف کنونشن منظور کیا۔ اس کے بعد مختلف پروٹوکولز اور معاہدوں کے ذریعے عالمی کمیونٹی پر زور دیا کہ وہ جدید غلامی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ 2000ء میں ''پالرمو پروٹوکول‘‘ کی منظوری انسانی سمگلنگ کے خلاف اہم سنگِ میل ثابت ہوا۔ بین الاقوامی ادارہ محنت (ILO) مزدوروں کے حقوق کے تحفظ اور جبری مشقت کے خلاف عالمی سطح پر مسلسل مہم چلا رہا ہے۔پاکستان میں چیلنجزپاکستان میں بھی جدید غلامی کی مختلف شکلیں موجود ہیں۔ اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے اور کھیت مزدور قرض کے عوض نسل در نسل بندھے رہتے ہیں۔ بچوں سے جبری مشقت، گھریلو ملازمین کا استحصال، انسانی سمگلنگ اور غیرقانونی ہجرت (مثلاً یورپ جانے کے لیے ایجنٹوں کا استعمال) سنگین مسائل ہیں۔حکومتِ پاکستان نے متعدد قوانین بنائے ہیں جن میں Prevention of Trafficking in Persons Act, 2018 ،جبری مشقت کے خلاف قانون سازی اور چائلڈ لیبر کے خاتمے کے پروگرام شامل ہیں، لیکن زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ قانون پر عمل درآمد، اداروں کی کمزوریاں اور بدعنوانی سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔سول سوسائٹی، میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس حوالے سے اہم کردار ادا کر رہی ہیں لیکن چیلنج اب بھی بہت بڑا ہے۔معاشی مواقع اور سماجی تحفظ غربت جدید غلامی کی بنیادی وجہ ہے۔ لوگوں کو تعلیم، مہارت، روزگار اور سماجی تحفظ دیا جائے تاکہ وہ مجبوری میں استحصال کا شکار نہ ہوں۔دیہی علاقوں، کم تعلیم یافتہ طبقے اور نوجوانوں کو اس بات کی آگاہی دینا بھی ضروری ہے کہ جھوٹے وعدوں یا معاہدوں کے ذریعے انہیں کس طرح غلامی میں دھکیلا جاتا ہے۔بین الاقوامی یومِ انسدادِ غلامی ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ آزادی محض ایک لفظ یا قانون نہیں بلکہ ایک بنیادی حق ہے جسے ہر انسان کے لیے یقینی بنانا ہمارا مشترکہ فریضہ ہے۔ غلامی کی پرانی زنجیریں تو ٹوٹ چکی ہیں لیکن نئی، خاموش اور پیچیدہ زنجیریں آج بھی انسانی معاشروں کو جکڑے ہوئے ہیں۔اس دن کا مقصد یہی ہے کہ دنیا متحد ہو کر یہ عہد کرے کہ غلامی کسی بھی شکل میں ناقابلِ قبول ہے۔ ہر بچے، عورت اور مرد کا حق ہے کہ وہ آزادانہ، باعزت اور محفوظ زندگی گزارے۔اگر ہم اجتماعی کوشش کریں، قانون کو مضبوط کریں، انسانی وقار کو مقدم رکھیں اور سماجی انصاف کو فروغ دیں تو ایک دن ضرور آئے گا جب دنیا غلامی کے لفظ سے بھی ناواقف ہو جائے گی۔

چھپے ہوئے آتش فشاں:ان دیکھے خطرات جو دینا کو ہلا سکتے ہیں

چھپے ہوئے آتش فشاں:ان دیکھے خطرات جو دینا کو ہلا سکتے ہیں

زمین کی سطح کے نیچے ایک خاموش ہلچل ہمیشہ جاری رہتی ہے۔ کہیں میگما آہستہ آہستہ حرکت کرتا ہے، کہیں زمین کے دباؤ میں معمولی سی تبدیلی زیرِ زمین توازن بگاڑ دیتی ہے۔ ہم عموماً ان آتش فشاں پہاڑوں سے واقف ہیں جو مشہور ہیں، جن کی تصاویر کتابوں میں چھپی ہیں، جن کے فعال ہونے کی خبریں وقتاً فوقتاً آتی رہتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب سے بڑا خطرہ اکثر اُن آتش فشانوں سے نہیں ہوتا جو مشہور ہیں بلکہ ان سے ہوتا ہے جو نامعلوم، غیر معروف یا صدیوں سے خاموش چلے آ رہے ہیں۔حال ہی میں ایتھوپیا کے علاقے افار میں پھٹنے والےHayli Gubbi آتش فشاں نے دنیا کو خاصا متاثر کیا۔ 12 ہزار سال کی طویل خاموشی کے بعد اس کا اچانک جاگ اٹھنا جیالوجی کے سائنسدانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ماہرین کے مطابق ایسے آتش فشاں جن کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں یا جنہیں ہم ہمیشہ سے غیر فعال سمجھتے آئے ہیں اصل میں سب سے بڑا عالمی خطرہ بن سکتے ہیں۔Hayli Gubbi کی کہانی 23 نومبر کی صبح دنیا نے ایک ایسے آتش فشاں کی خبر سنی جس کا نام شاید ہی کسی نے پہلے سنا ہو۔Hayli Gubbi ایک شیلڈ آتش فشاں ہے، یعنی وہ پہاڑ جو سطح سے زیادہ بلند نہیں ہوتا اور اپنی ساخت کے باعث نسبتاً کم خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ لیکن جب اس نے دھواں اگلنا شروع کیا تو راکھ کا بادل 45 ہزار فٹ کی بلندی تک جا پہنچا۔ یہ راکھ ایتھوپیا سے نکل کر یمن، عمان، بحیرہ عرب تک پھیل گئی۔گوادر کے ساحلی علاقے کے قریب بھی اس بادل کے آثار محسوس کیے گئے اور محکمہ موسمیات نے ایوی ایشن کیلئے ایش الرٹ جاری کیا۔یہ واقعہ دنیا کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ احتیاط ان جگہوں سے ضرور کرنی چاہیے جو دکھائی نہیں دیتیں۔ چھپے ہوئے آتش فشاں اتنے خطرناک کیوں؟ سائنسدانوں کے مطابق فعال آتش فشانوں میں سے 50 فیصد سے بھی کم کی باقاعدہ نگرانی کی جاتی ہے۔ جن ممالک میں وسائل کم ہیں ، جیسے افریقی، پیسیفک یا جنوب مشرقی ایشیائی خطے، وہاں سینکڑوں آتش فشاں ایسے ہیں جن پر کوئی مانیٹرنگ نہیں ہوتی۔ ان کے اندر بڑھتے ہوئے دباؤ یا تبدیل ہوتے ہوئے میگما کے بارے میں کسی کو خبر نہیں ہوتی نتیجتاً وہ اچانک پھٹ سکتے ہیں۔Mount Etna،ییلو سٹون یا فیوجی جیسے آتش فشانوں پر بے شمار تحقیقی مقالے اور رپورٹس موجود ہیں مگر انڈونیشیا، فلپائن، چلی، پیرو اور ایتھوپیا جیسے ممالک میں موجود کئی آتش فشاں مکمل طور پر نظر انداز ہیں۔ یہ وہ خطے ہیں جہاں آبادی بھی زیادہ ہے اور معاشی و سماجی نقصان بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ آتش فشاں کا اثر صرف اسی علاقے تک محدود رہتا ہے جہاں وہ پھٹتا ہے لیکن تاریخ اس کے برخلاف شواہد پیش کرتی ہے مثلاً 1982ء میں میکسیکو کا El Chichónآتش فشاں اچانک پھٹا تھا حالانکہ اس کا بھی کوئی بڑا تاریخی ریکارڈ موجود نہیں تھا۔ اس دھماکے نے عالمی موسم کو متاثر کیا، بارشوں کے نظام میں تبدیلی آئی، زراعت متاثر ہوئی اور افریقہ سمیت کئی خطوں میں قحط اور بیماریوں کی شدت بڑھی۔یہی خطرہ آج بھی ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے کیونکہ فضامیں جانے والی راکھ اور سلفر کے ذرات سورج کی روشنی روک کر عالمی درجہ حرارت کو گرا سکتے ہیں، بارشوں کے پیٹرن تبدیل کر سکتے ہیں اور معاشی و زرعی عدم توازن پیدا کر سکتے ہیں۔ماہرینِ ارضیات نے خبردار کیا ہے کہ گلوبل وارمنگ کے باعث جیسے جیسے گلیشیئر پگھل رہے ہیں زیرِ برف چھپے ہوئے آتش فشاں آزاد ہو رہے ہیں۔برف کی تہہ ان آتش فشانوں پر ایک قسم کا دباؤ ڈالے رکھتی ہے۔ جب یہ دباؤ کم ہوتا ہے تو میگما اوپر آنے لگتا ہے اور دھماکے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ یہ عمل مستقبل میں ہماری زمین کے لیے نئے خطرات جنم دے سکتا ہے۔زمین کی گہرائیوں میں چھپا ہوا عالمی خطرہ اگرچہ ہماری دنیا کو موسمیاتی تغیرات، زلزلوں، طوفانوں اور سمندری سیلابوں جیسے مسائل کا سامنا ہے لیکن سائنسدان متنبہ کر رہے ہیں کہ ایک بڑا آتش فشانی دھماکہ ان تمام بحرانوں کو یکجا کر کے عالمی سطح پر تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔یہ دھماکے انسانوں کی پیدا کردہ مشکلات کا نتیجہ نہیں ہوتے لیکن ان کے اثرات ہمارے نظامِ زندگی، خوراک، معیشت، موسم اور فضائی سفر تک سب کچھ بدل سکتے ہیں۔دنیا میں ایسے آتش فشاں موجود ہیں جنہیں ماضی میں کبھی پھٹتے نہیں دیکھا گیا نہ ان کے بارے میں ریکارڈ موجود ہے، نہ ان پر سائنسی آلات نصب ہیں مگر یہی پہاڑ آنے والے برسوں میں سب سے بڑا خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔Hayli Gubbi کا اچانک پھٹنا ایک واضح پیغام دیتا ہے کہ خطرہ ہمیشہ وہ نہیں ہوتا جو نظر آئے بلکہ وہ بھی ہوتا ہے جو نظر انداز کر دیا گیا ہو۔زمین ایک زندہ سیارہ ہے، اس کے اندر کی حرارت، اس کے دباؤ، اس کے میگما کے چشمے ہمارے قابو میں نہیں لیکن ہم ان خطرات کو سمجھ کر، تحقیق کر کے اور بہتر منصوبہ بندی کے ذریعے تباہی کو کم ضرور کر سکتے ہیں۔ دنیا کو جھنجوڑنے والی اگلی بڑی تباہی شاید کسی ایسے آتش فشاں سے آئے جس کا نام ہم نے کبھی نہ سنا ہو۔ 

آج کا دن

آج کا دن

نپولین کی تاجپوشی2 دسمبر 1804ء کو نپولین بوناپارٹ کی پیرس کے نوٹرے ڈیم کیتھیڈرل میں فرانس کے پہلے شہنشاہ کے طور پر تاجپوشی کی گئی۔ یہ تقریب روایتی یورپی طرز کی بادشاہت سے مختلف تھی کیونکہ نپولین نے پاپائے روم کی موجودگی کے باوجود خود اپنے سر پر تاج رکھا جو اس بات کی علامت تھا کہ وہ اپنی قوت کا سرچشمہ مذہبی اقتدار کے بجائے عوامی طاقت اور انقلابی نظام کو سمجھتے ہیں۔ اس تاجپوشی نے نہ صرف فرانس بلکہ پورے یورپ میں طاقت کے توازن کو بدل کر رکھ دیا۔ نپولین کا دور جدید ریاستی نظام، عدالتی اصلاحات اور نپولینک کوڈ کی تشکیل کے حوالے سے اہم سمجھا جاتا ہے۔ نپولین کی تاجپوشی نے یورپی سیاست کو تقریباً ایک دہائی تک ہلا کر رکھ دیا۔ مونرو ڈاکٹرائن کا اعلان2 دسمبر 1823ء کو امریکی صدر جیمز مونرو نے کانگریس کے سامنے اپنا معروف ''مونرو ڈاکٹرائن‘‘ پیش کیا۔ اس کے مطابق یورپی طاقتوں کو خبردار کیا گیا کہ وہ شمالی اور جنوبی امریکہ کے امور میں مداخلت نہ کریں بصورتِ دیگر امریکہ اسے اپنی سلامتی کے خلاف سمجھ کر ردعمل دے گا۔ اس ڈاکٹرائن کا مقصد تھا کہ یورپ کی نوآبادیاتی توسیع پسندی کو روک کر زمین کے مغربی نصف کرے کو امریکی اثر و نفوذ کا خطہ بنادیا جائے۔ وقت کے ساتھ یہ پالیسی امریکی خارجہ حکمتِ عملی کا بنیادی ستون بن گئی۔ بیسویں صدی میں یہ نظریہ امریکی برتری کے تصور کا محرک بنا۔ مونرو ڈاکٹرائن نے امریکی سفارت کاری، معاشی اثرورسوخ اور خطے میں سیاسی حکمتِ عملی کو نئی سمت دی، جو آج بھی مختلف صورتوں میں برقرار ہے۔ فرنچ شمالی افریقہ پر قبضہ2 دسمبر 1942ء کو دوسری عالمی جنگ کے دوران اتحادی افواج نے شمالی افریقہ خصوصاً الجزائر اور مراکش کے کئی سٹریٹجک علاقوں پر فیصلہ کن کنٹرول حاصل کیا۔ یہ پیش قدمی آپریشن ٹارچ کا حصہ تھی جسے امریکی اور برطانوی افواج نے مشترکہ طور پر انجام دیا۔ اس آپریشن کا مقصد جرمن اور اطالوی افواج کو شمالی افریقہ سے پیچھے دھکیل کر یورپ کے جنوبی حصے پر حملوں کی راہ ہموار کرنا تھا۔ 2 دسمبر کو حاصل ہونے والی کامیابی نے رومیل کی زیرِ قیادت افریقی کور کو پسپائی پر مجبور کیا اور اتحادیوں کو بحیرہ روم میں بہتر رسائی ملی۔ اس فتح کے بعد اتحادی افواج کو اٹلی پر حملے کا راستہ ملا جس نے یورپ میں جنگ کی صورتحال بدل کر رکھ دی۔ متحدہ عرب امارات کی تشکیل 2 دسمبر 1971ء کو مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ کا ایک بڑا واقعہ رونما ہوا جب سات امارات‘ابوظہبی، دبئی، شارجہ، عجمان، ام القوین، فجیرہ اور بعد میں 1972ء میں شامل ہونے والی راس الخیمہ نے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے نام سے ایک وفاقی ریاست بنانے کا اعلان کیا۔ اس تاریخی اتحاد کی قیادت شیخ زید بن سلطان النہیان نے کی جنہیں جدید یو اے ای کا بانی کہا جاتا ہے۔ اس فیصلے نے خلیجی خطے میں معاشی ترقی، تیل کی صنعت، انفراسٹرکچر اور بین الاقوامی سفارت کاری کے نئے دور کی بنیاد رکھی۔ یو اے ای کی تشکیل نے عرب دنیا میں استحکام، علاقائی تعاون اور تیز رفتار ترقی کی راہ ہموار کی۔