حمید اختر کا پریت نگر

اسپیشل فیچر
ان برسوں میں حمید اختر کا ’پریت نگر‘ سے تعلق بھی قائم ہوا، جس طرح مہاکوی ٹیگور نے شانتی نکیتن میں ایک تعلیمی بستی آباد کی، اسی طرح پیشے کے اعتبار سے ایک کامیاب انجینئر لیکن پنجابی کے ترقی پسند ادیب سردار گوربخش سنگھ نے امرتسر سے چند میل کے فاصلے پر ’پریت نگر‘ نامی بستی بسائی۔ وہاں سے انہوں نے پنجابی اور اُردو زبان میں ماہنامہ ’پریت لڑی‘ بھی جاری کیا جو نو تیج سنگھ کے بیٹے اور اُن کے پوتے سُمیت سنگھ کی بیوہ ابھی تک نکال رہی ہیں۔سردار گوربخش سنگھ کے بیٹے نوتج سنگھ بھی پنجابی کے ترقی پسند ادیب تھے۔ ’پریت نگر‘ کو پورے شمالی ہندوستان کے ترقی پسند ادیبوں اور سماجی انقلاب کے لیے جدوجہد کرنے والے سیاسی کارکنوں کے مرکز کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ پریت نگر ابھی تک پرانی روایات کے امین کے طور پر قائم دائم ہے لیکن سردار گوربخش سنگھ اور نوتیج سنگھ کے بعد اپنی آب و تاب کھوچکا ہے۔حمید اختر نے 1943 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1944میں وہ اور ساحر پریت نگر کے ایک اجتماع میں شریک ہونے کے لیے پریت نگر گئے۔ سردار گوربخش سنگھ ہر سال ادیبوں‘ شاعروں اور انسان دوست دانشوروں کا اجتماع منعقد کرتے جس میں ہندوستان کے کونے کونے سے ادیب‘ شاعر اور انسان دوست دانشور شریک ہوتے۔ حمید اختر نے ’’بیتے دِنوں کی یادیں‘‘ میں اس اجتماع کا سرسری ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ وہاں انہوںنے ’’پہلی بار امرتا پریتم کو دیکھا‘ وہ سترہ اٹھارہ برس کی ایک خوبصورت بھرپور سکھ خاتون تھی اور جب رات کو مشاعرے میں اس نے اپنی پنجابی نظم سنائی تو مشاعرہ لوٹ لیا۔ ساحر حسب ِ معمول اس پر فوراً عاشق ہوگیا لیکن ایک سرسری اور رسمی ملاقات سے زیادہ بات چیت نہ ہوسکی۔۔۔البتہ 1945میں جب حمید اختر اور ساحر لاہور میں اکٹھے تھے تو امرتا کی شادی ہوچکی تھی لیکن اس کی امرتا سے چند ملاقاتیں ہوئیں جو زندگی بھر کے رومانس پر پھیل گئیں۔ شاید پریت نگر کی اس ملاقات نے دونوں کے جذباتی اور تخلیقی ارتقاء میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ امرتا کے لفظ ہیں:’’ساحر کی محبت میں‘ میں نے اپنے من کا وہ عالم دیکھا ہے جب مجنوں لیلیٰ لیلیٰ پکارتا خود لیلیٰ بن جاتا ہے جب آدمی خود سے خدا ہوجاتا ہے۔۔۔‘‘(’’سوانح عمری حمید اختر‘‘ ناشر: بُک ہوم،لاہور)٭…٭…٭