جانثار اختر: یہ زندگی تو کوئی بددعا لگے ہے مجھے
جس طرح قتیل شفائی ،تنویر نقوی اور سیف الدین سیف کی شہرت صرف فلمی گیتوں کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ وہ غزل اور نظم کے بھی بہت عمدہ شاعر تھے ۔اسی طرح جانثار اختر نے بھی فلمی شاعری کے علاوہ غزل اور نظم میں اپنا ایک منفرد مقام بنایا۔انہوں نے فلمی گیت نگاری بہت بعد میں شروع کی اور اس سے پہلے ہی وہ ایک غزل گو اور نظم کی حیثیت سے اپنے نام کا ڈنکا بجا چکے تھے۔18فروری 1914کو گوالیار (بھارت) میں پیدا ہونے والے جانثار اختر کو بیسویں صدی کا ایک اہم بھارتی شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔وہ ترقی پسندتحریک کے رکن تھے۔اگر یہ کہا جائے کہ جانثار اختر کو شاعری ورثے میں میں ملی تھی،تو بے جا نہ ہو گا۔ ان کے والد مظفر خیر آبادی اور تایا بسمل خیر آبادی دونوں شاعر تھے۔میٹرک کرنے کے بعد جانثار اختر نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔وہاں سے انہوں نے بی اے آنرز اور ایم اے کی ڈگریاں لیں۔ابھی وہ پی ایچ ڈی کی تیاری کر رہے تھے کہ گھریلو حالات کی وجہ سے انہیں گوالیار واپس آنا پڑا۔اس کے بعد انہوں نے وکٹوریہ کالج گوالیار میں اردو کے لیکچرر کی حیثیت سے پڑھانا شروع کر دیا۔1943ء میں ان کی شادی معروف شاعر مجاز لکھنوی کی ہمشیرہ صفیہ سراج الحق سے ہو گئی۔ان کے دو بیٹے جاوید اختر اور سلمان اختر 1945ء اور 1946ء میں پیدا ہوئے ۔آزادی کے بعد گوالیار میں فسادات پھوٹ پڑے تو جانثار اختر بھوپال منتقل ہو گئے ۔بھوپال میں انہوں نے حمیدیہ کالج میں اردو اور فارسی کے شعبے سنبھال لیے۔بعد میں ان کی اہلیہ صفیہ بھی حمیدیہ کالج سے وابستہ ہو گئیں۔جلد ہی دونوں میاں بیوی تحریک ترقی پسند مصنفین میں شامل ہو گئے۔ جانثار اختر کو اس تحریک کا صدر بنا دیا گیا۔ 1949ء میں انہوں نے نوکری سے استعفیٰ دے دیا اور ممبئی چلے گئے ۔ممبئی آنے کے ان کے دو مقاصد تھے ایک فلمی گیت لکھنا اور دوسرا اپنے شعری مجموعوں کی اشاعت۔ممبئی میں ان کی ملاقات ملک راج آنند کرشن چندر ،راجندر سنگھ بیدی اور عصمت چغتائی جیسے ترقی پسند ادیبوں سے ہوئی۔1953ء میں ان کی اہلیہ صفیہ انتقال کر گئیں۔صفیہ کے جانثار اختر کے نام خطوط کے مجموعے سب سے پہلے 1955میں شائع ہوئے۔ ہندی میں ان خطوط کا ترجمہ پروفیسر اصغر وجاہت نے کیا۔خطوط کے یہ مجموعے ’’حرف آشنا‘‘اور ’’زیر لب‘‘ کے نام سے شائع کئے گئے۔ستمبر 1956ء میں جانثار اختر نے خدیجہ طلعت سے شادی کر لی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جانثار اختر کی شاعری میں بائیں بازو کے نظریات ملتے ہیں۔ان کی شاعری میں جہاں معروضی صداقتوں کا برملا اظہار ملتا ہے،وہاں ان کے اشعار میں رومانیت بھی بڑے منفرد انداز میں ملتی ہے۔ کہیں کہیں مایوسی اور ناامیدی کی پرچھائیاں بھی ملتی ہیں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی غزلوں میں جو رومانیت ہے وہ ان کی گھریلو زندگی کے حوالوں سے بھری پڑی ہے۔ان کی غزلوں میں جو مختلف رنگ ملتے ہیں وہ ان کے مندرجہ ذیل اشعار میں بآسانی ڈھونڈے جا سکتے ہیں:ہر ایک روح میں اک غم چھپا لگا ہے مجھےیہ زندگی تو کوئی بددعا لگے ہے مجھےمیں جب بھی اس کے خیالوں میں کھو سا جاتا ہوںوہ خود بھی بات کرے تو برا لگے ہے مجھےجب لگے زخم تو قاتل کو دعا دی جائےہے یہی رسم تو یہ رسم اٹھا دی جائےہم سے بھاگا نہ کرو دور غزالوں کی طرحہم نے چاہا ہے تمہیں چاہنے والوں کی طرح خود بخود نیند سی آنکھوں میں گھلی جاتی ہےمہکی مہکی ہے شب غم ترے بالوں کی طرح رہی ہیں داد طلب ان کی شوخیاں ہم سےادا شناس بہت ہیں مگر کہاں ہم سےاشعار میرے یوں تو زمانے کے لیے ہیںکچھ شعر فقط ان کو سنانے کے لیے ہیںجانثار اختر کے شعری مجموعوں میں ’’نظرتباں‘‘، ’’سلاسل‘‘،’’جاوداں‘‘،’’پچھلی پہر‘‘،’’گھر آنگن‘‘،اور ’’خاک دل‘‘ شامل ہیں۔’’خاک دل‘‘پر انہیں 1976میں ساہتیا اکیڈمی ایوارڈ ملا۔جانثار اختر نے مجموعی طور پر 151فلمی گیت لکھے۔ انہوں نے زیادہ تر سی رام چندر،اوپی نیر اور خیام جسے سنگیت کاروں کے ساتھ کام کیا۔اے آر کاردار کی فلم ’’یاسمین‘‘ کے نغمات سے انہیں شہرت ملی۔گورودت کی فلم ’’سی آئی ڈی‘‘کے نغمات بہت مقبول ہوئے اور یہ جانثار اختر کا کمال تھا۔اس کے علاوہ ان کی مشہور فلموں میں ’’رستم سہراب‘‘،’’پریم پربت‘‘،’’شنکر حسین ‘‘اور رضیہ سلطان شامل ہیں۔ انہوں نے 1967میں بہو بیگم کے نام سے فلم بنائی اس فلم کا سکرپٹ بھی انہوں نے خود لکھا تھا۔ان کے چند اعلیٰ فلمی نغمات کا ذکر ذیل میں کیا جا رہا ہے۔1۔آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ ہو گیا(سی آئی ڈی)2۔آ جا رہے میرے دلبر آ جا(نوری)3۔چوری چوری کوئی آئے(نوری)4۔کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی(شنکر حسین)5۔غریب جان کے ہم کو نہ تم دغا دینا(چھومنتر)6۔پیا پیا(باپ رے باپ)7۔آپ یوں فاصلوں سے(شنکر حسین)8۔اے دل ناداں(رضیہ سلطان)1976ء میں وہ رضیہ سلطان کے نغمات لکھ رہے تھے کہ فرشتہ اجل آن پہنچا۔یوں رضیہ سلطان ان کی آخری فلم ثابت ہوئی۔جانثار اختر کے بڑے بیٹے جاوید اختر نے بھی شعرو ادب کے میدان میں بڑا نام کمایا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے بھارت کی کئی مشہور فلموں کے سکرپٹ اور مکالمے بھی لکھے جانثار اختر کی ادبی خدمات کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اردو ادب کی تاریخ میں ان کا نام جگمگاتا رہے گا۔٭…٭…٭