قلعہ ملوٹ

اسپیشل فیچر
کوہستان نمک اور پوٹھوہار میں لاتعداد چھوٹے اور بڑے قلعے ہیں ان قلعوں میں حکمرانوں کی قسمت کے فیصلے ہوتے رہے ہیں مقامی حکمران یہ قلعے پہاڑیوں کی چوٹیوں پر تعمیر کرکے اپنے آپ کو کسی حد تک حملہ آوروں سے محفوظ خیال کیا کرتے۔ یہ قلعے تراشے ہوئے پتھروں سے تعمیر کیے گئے ہیں۔ اس دور میں انسان کتنا جفاکش اور مضبوط جسم کامالک ہوتا تھا۔ بلند سے بلند پہاڑ پر تعمیرات کا سامان لے کر چڑھ جاتا، کوہستان نمک کے ایسے ہی قلعوں میں قلعہ ملوٹ اور اس کے مندر کسی حد تک صحیح حالت میں ہیں۔ کلرکہار سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر چواسیدن شاہ، کٹاس روڈ پر جلیبی چوک سے ایک سڑک ملوٹ گائوں کی طرف جاتی ہے۔ جلیبی چوک سے ملوٹ تقریباً چودہ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔قلعہ ملوٹ اور مندر کے لیے کوئی راستہ نہیں۔ ہر طرف قلعہ کے تراشے ہوئے پتھر بکھرے پڑے ہیں ملوٹ گائوں سے تقریباً ڈیڑھ دو کلو میٹر کے فاصلے پر پہاڑ کے عین چوٹی پر قلعہ اور مندر تعمیر کیے گئے ہیں مندر تعداد میں دو ہیں مغرب کی جانب مندر صحیح حالت میں ہے دوسرے مندر کے نقش و نگار صحیح حالت میں ہیں۔ سرخ پتھر تراش کر چاروں اطراف خوبصورتی پیدا کی گئی ہے۔ یہ مندر تقریباً چھ سات فٹ بلند چبوترے پر تعمیر کیے گئے ہیں چاروں کونوں پر پتھروں کو تراش کر مینار تعمیر کیے گئے ہیں دیواروں پر مورتیاں بنائی گئی ہیں مورتیوں کے نیچے چھوٹی مورتیاں شیر اور دوسرے جانوروں کی شکلیں بنائی گئی ہیں۔ یہ فن سنگ تراشی کا بہترین نمونہ ہیں۔ پتھروں کی تراش اور صفائی اپنی مثال آپ ہے یہ مندر جو کشمیری اسلوب تعمیر کا نمونہ ہے اس میں ریتلا پتھر استعمال ہوا ہے جو موسم کے اثرات سے متاثر ہوتا ہے چنانچہ سنگ تراشی کے نمونے ریتلا پتھر ہونے کی وجہ سے ختم ہو رہے ہیں۔ اس کے بارے میں جنرل کنگھم کا کہنا ہے کہ یہ مندر اندر کی طرف 18 مربع فٹ تھا مشرق کی طرف دروازے کے قریب ایک محرابی شکل کی عمارت تھی، باہر کی طرف چاروں کونے سجائے گئے تھے اور ایسے محراب جن پر آرائش و تزئین کی گئی تھی ہر مینارے پر دو زانوں شکل نظر آتی تھی۔ چبوترے کے ارد گرد نقوش کے آثار ملتے ہیں اس کا مجموعی تاثر شاندار اور خوبصورت ہے البتہ زمانے نے اس کے قدیم حسن کو مجروح کر دیا ہے۔ اس کی بلندی 350 فٹ تک ہے۔ مندر کا داخلی حصہ سادہ نظر آتا ہے اور اس میں کسی بت کے آثار دکھائی نہیں دیتے روایت ہے کہ اس جگہ شیولنگ نصب تھا اور غالباً یہ روایت صحیح ہے کہ یہ بدھ کا مندر نہیں تھا۔ اس کا دروازہ مندر سے 58 فٹ مشرق کی طرف تھا یہ بڑی بھاری اور مضبوط عمارت ہے 25 فٹx 22 فٹ اس میں دو کمرے8x15 کے ہیں ستون خالص کشمیری فن تعمیر کا نمونہ ہیں کشمیری مندروں کی نسبت ان پر یونانی فنی تعمیر کا زیادہ اثر ہے ستونوں کے ارد گرد نیم دائرے کی وسعت میں ابھرے ہوئے نقش بنے ہیں جو کسی زمانے میں بہت خوبصورت ہوں گے۔ کہا جاتا ہے کہ اس مندر کو پانڈیوں نے تعمیر کیا تھا اور کشمیر کے مندروں کے بارے میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے۔ جہاں تک ملوٹ کے وجہ تسمیہ کا تعلق ہے اس سلسلہ میں ایک اساطیری روایت کے مطابق جنجوعہ راجپوتوں کے ایک مورث اعلیٰ کے نام ’’ملودیویا ملو‘‘ کی نسبت سے اس کا نام ملوٹ پڑا لیکن تاریخ راجپوتاں کے مصنف کے مطابق ملوٹ ملک کوٹ کا مخفف ہے۔ اس کے مطابق مسلم سلاطین ملک کا خطاب اس راجہ کو دیتے تھے جو اس کی بالادستی کو قبول کر لیتا تھا اور خودمختار بھی ہوتا تھا اس بیان کی تائید تزک بابری سے بھی ہوتی ہے۔(پاکستان کے آثارِ قدیمہ)