سرن نئی دریافتوں کی تیاریوں میں

سرن نئی دریافتوں کی تیاریوں میں

اسپیشل فیچر

تحریر :


سوئٹزرلینڈ کا یورپی جوہری ریسرچ سنٹر سرن ہگس بوسن کی دریافت کے بعد ،نئی دریافتوں کی تیاریوں میں مصروف ہے۔سوئٹزرلینڈ کا یورپی جوہری ریسرچ سینٹر \'CERN \'، مادوں کو ٹھوس بنانے اور گاڈ پارٹیکل کے نام سے پہچانے جانے والے ہگس بوسن کی دریافت کے بعد ،نئی دریافتوں کی تیاریوں میں ہے اور اس طرح گرینڈ کولائڈر کا ماڈل تیار کر کے اندھیرے کی توانائی پر پڑے راز کے پردے کو اٹھانے کی کوشش کی جائے گی۔یہ تجربہ تین سال تک جاری رہے گا اور اس پر 14 ٹریلین مصارف اٹھیں گے۔امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ اس نئی تحقیق سے ایٹم کے چھ پارٹیکل دریافت ہوں گے۔واضح رہے کہ سوئٹزر لینڈ میں 100 کلو میٹر زیر زمین موجود ہائڈرون کولائڈر 27 کلومیٹر طویل ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
بلوچستان کے خوبصورت ساحل

بلوچستان کے خوبصورت ساحل

پاکستان کے جنوبی ساحلی پٹی سندھ اور بلوچستان کے صوبوں کے ساتھ گزرتے ہوئے بحرہ عرب سے ملتی ہے کسی بھی ملک کی معیشت کا زیادہ تر انحصار اس کے بندر گاہوں پر ہوتا ہے۔ صوبہ سندھ کا شہرکراچی ساحل پر واقع ہے اور یہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور تجارتی مرکز ہے۔ ساحلی علاقہ ہونے کی وجہ سے کراچی کی بندر گاہ بہت اہمیت کی حامل ہے۔ پاکستان کا زیادہ تر ساحلی علاقہ صوبہ بلوچستان میں ہے ۔ یہ صوبہ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور یہاں کی زمین معدنیات کے خزانوں سے بھی مالا مال ہے۔ جب بھی ہم پاکستان کے ساحلوں کا ذکر کرتے ہیں تو زیادہ تر کراچی کے ساحل کی بات ہوتی ہے اور ہم صوبہ بلوچستان میں موجود سب سے مشہور ساحلوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بلوچستان کے مقامی حکام نے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے قدرتی مقامات کے تحفظ کیلئے زیادہ توجہ نہیں دی۔ بلوچستان میں سی پیک منصوبے کے بعد بہت سے غیر ملکی سیاحوں نے بھی قدرتی طور پر محفوظ ہونے والے شاندار مقامات کی سیر کرنے میں دلچسپی پیدا کی ہے۔ یہاں پر حکومت پاکستا ن نے 90 ء کی دہائی میں ایک انٹرنیشنل جیب ریلی کا انعقاد کروایا جس سے غیر ملکی سیاحوں کا ان خوبصورت علاقوں کی طرف توجہ حاصل کرنا ایک فطری عمل تھا۔بلوچستان کے ساحلی علاقے پرکشش قدرتی مقامات ہیںاسی لئے ان علاقوں نے مقامی اور غیر ملکی سیاحوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی ہے۔ آج ہم بلوچستان کے ساحلوں کے بارے میں ذکر کریں گے۔کنڈ ملیر کنڈ ملیر بلوچستان ، کو دنیا کے 50 بہترین ساحلوں کی فہرست میںپیشہ ور افراد نے شامل کیا ہے۔ حالیہ برسوں میں یہ ساحل پاکستان میں سیاحوں کیلئے سب سے پرکشش مقام بن گئے ہیں۔ اس لیے زائرین کی سہولت کیلئے بہت سے ہوٹل، گیسٹ ہاؤسز اور ریستوران جدید ٹچ کے ساتھ دستیاب ہیں۔ مزید یہ کہ یہ ساحل ہنگول نیشنل پارک کا حصہ ہے جو اپنی تاریخ کیلئے مشہور ہے۔اورماڑہ بیچاورماڑہ کا ساحلی علاقہ سیاحوں کو راغب کرنے کیلئے بنایا گیا تھا۔ یہ شاندار ساحل مکران کوسٹل ہائی وے پر واقع ہے۔ یہ سب سے پرکشش ساحلوں میں سے ایک ہے کیونکہ اس علاقے کی طر ف جاتے ہوئے ساحل کے کنارے کنارے سڑک پر سفر کرتے ہوئے آپ بحر عرب کے دلکش نظارے دیکھ سکتے ہیں۔گوادر بیچ گوادر کا ساحل پاکستان کے لوگوں کیلئے ایک خوشگوار جگہ ہے اور اس وقت پاکستان کے سب سے نمایاں ساحلوں میں سے ایک ہے۔ لوگ شام کو اپنے اہل خانہ کے ساتھ تفریحی مقاصد کیلئے یہاں آتے تھے اور صاف سرخ ریت پر خوبصورت شام گزارتے ہیں۔ پاکستان کی سب سے بڑی بندر گاہ اورسی پیک منصوبے کا مرکز بھی گوادر کے ساحل ہی ہیں۔پسنی بیچپسنی گوادر ضلع میں واقع کوئی معروف ساحل نہیں ہے۔ اس میں سنہری ٹیلوں کا قدرتی حسن ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہاں آبادی بڑھ رہی ہے، لیکن حکام نے اس جگہ پر سیاحوں کی سہولت کیلئے زیادہ سرمایہ کاری نہیں کی۔ آبادی میں اس اضافے کی وجہ سے اس خوبصورت ساحل کو نقصان پہنچ رہا ہے۔استولا جزیرہاستولا جزیرہ اب پاکستان کا ایک حیران کن ساحل ہے جس نے بہت سے سیاحوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی ہے۔ جزیرے کی کچھ دلکش تصاویر شیئر کرنے کے بعد، بہت سے مسافر یہاں کیمپنگ اور سکوبا ڈائیونگ کیلئے آئے۔ اسے پاکستان کا پہلا سمندری محفوظ علاقہ بھی قرار دیا گیا ہے۔پڑی زر پڑی زر جسے گوادر ویسٹ بے بھی کہا جاتا ہے پاکستان کا ایک اور خوبصورت ساحل ہے۔ یہ ساحل چھوٹے ماہی گیروں اور بحری جہازوں کا میزبان ہے۔ یہ جگہ پاکستان کے آس پاس کے سیاحوں کیلئے سب سے پرکشش ساحل ثابت ہو سکتی ہے۔دران بیچ دران بیچ جیوانی میں واقع ہے اور بلوچستان آنے والے سیاحوں کیلئے پرکشش جگہ ہے۔ اس جگہ کا دورہ کرنے والے مسافروں کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔ اس کی دلکش خوبصورتی کے پیچھے یہی وجہ ہے اور یہ بلوچستان کا ایک آلودگی سے پاک ساحل ہے۔جیوانی بیچ جیوانی ساحل برطانوی افواج کی اپنی تاریخ کی وجہ سے مشہور ہے، جنہوں نے دوسری جنگ عظیم میں ایک وکٹوریہ ہٹ اور ایک ہوائی اڈہ برطانوی فوج کے زیر استعمال بنایا تھا۔ جیوانی کے ساحلوں کے دلکش نظارے ہیں جو پاکستان کے مسافروں اور فوٹوگرافروں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔پشوکان بیچ اگرچہ پشوکون ساحل ایک دلکش جگہ ہے، لیکن بدقسمتی سے، یہ مقامی اور غیر ملکی سیاحوں میں نمایاں ہونے میں ناکام رہا ہے۔ آس پاس کے مقامی لوگ اس جگہ کا دورہ کرتے ہیں لیکن یہ سیاحوں کے لیے ایک بہتر مقام نہیں بن سکا۔لسبیلہ بیچ لسبیلہ کا ساحل پاکستان کے مشہور سیاحتی مقامات میں سے ایک مثالی بن گیا ہے۔ اس ساحل پر نرم سنہری ریت اور چٹان کی تشکیل ہے جس کی وجہ سے یہ لوگوں کی آنکھوں کیلئے اسے دلکش بنا دیتا ہے۔ بہت سے لوگ یہاں کیمپنگ کیلئے آئے۔ یہ جگہ سمندر کے کنارے پر امن وقت گزارنے کیلئے ایک بہترین جگہ ہو سکتی ہے۔ 

بکنگھم پیلس شاہی خاندان کی خوبصورت علامت

بکنگھم پیلس شاہی خاندان کی خوبصورت علامت

جن ممالک میں بادشاہت ہو وہاں محل بھی ہوتے ہیں، ویسے بھی اس دور میں دنیا میں چند ممالک ہی رہ گئے ہیں اور وہ بھی انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں، جہاں بادشاہت ابھی تک قائم ہے۔ بادشاہوں کو محل کے بغیر چین نصیب نہیں ہوتا، غریب اور گدڑی پوش لوگوں کیلئے ایک کٹیا بھی محل سے کم نہیں ہوتی لیکن بادشاہوں کے مقبرے بھی محل ہی ہوتے ہیں جیسے تاج محل۔برطانیہ کا نظام سلطنت بھی بادشاہت ہی ہے جو کئی صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ آج کل برطانیہ کا بادشاہ چارلس سوم ہے جو لندن کے شاہی محل بکنگھم پیلس میں مقیم ہے۔ یہ محل لندن کے وسطی علاقہ میں پانچ منزلوں پر مشتمل ہے۔ اس میں کل 775کمرے ہیں۔ بکنگھم پیلس کے فرش کا رقبہ8لاکھ،30ہزارمربع فٹ ہے۔ یہ محل سامنے سے 355فٹ لمبا 390فٹ چوڑا اور 80فٹ اونچا ہے۔ اس میں 52کمرے شاہی خاندان کیلئے مخصوص ہیں۔188سٹاف ملازمین کیلئے، 240 بیڈ روم، 92کمرے دفاتر کے زیر استعمال ہیں،19سٹیٹ روم اور 78باتھ روم ہیں۔ ایک بہت وسیع پکچر گیلری بھی اس محل میں موجود ہے۔شاہی فیملی کے پرائیویٹ روزمز محل کے شمالی جانب واقع ہیں۔ بکنگھم پیلس کے اندر ہی پوسٹ آفس، سوئمنگ پول، سینما، ڈاکٹر روم، سرجری اور جیولری روم بھی موجود ہیں۔ مختلف سرکاری اور شاہی تقریبات کیلئے بھی الگ الگ کمرے اور بڑے ہالز ہیں۔ سب سے بڑا کمرہ ہال روم ہے جو 120فٹ لمبا،60فٹ چوڑا اور 45فٹ اونچا ہے، یہ کمرہ 1854ء میں تعمیر ہوا۔محل کے عقب میں ایک بہت بڑا باغ ہے جس کے ایک طرف تین ایکڑ رقبہ پر پھیلی ہوئی جھیل ہے۔ ٹینس کورٹ بھی اسی باغ میں بنایا گیا ہے۔ ہیلی کاپٹر کے اترنے کیلئے ہیلی پیڈ ہے۔ یہ لندن کا سب سے بڑا پرائیویٹ باغ ہے۔ شاہ برطانیہ کی طرف سے ہر سال معزز مہمانوں کیلئے گارڈن پارٹیاں اور ضیافتیں اسی باغ میں دی جاتی ہیں۔ اس باغ کا رقبہ 40ایکڑ ہے۔بکنگھم پیلس1703ء میں تعمیر کیا گیا۔ شاہ جارج سوم نے 1761ء میں اسے 21ہزار پائونڈ میں خریدا۔ ملکہ وکٹوریہ نے تخت نشینی کے وقت1837ء میں اسے شاہی رہائش گاہ بنایا۔ پرنس البرٹ نے ملکہ وکٹوریہ سے 1840ء میں شادی کے بعد بکنگھم پیلس کو نئے انداز سے ترتیب دیا اور اس میں کچھ توسیع بھی کروائی۔ پرنس البرٹ کا 1861ء میں اور ملکہ وکٹوریہ کا 1901ء میں انتقال ہوا۔جنگ عظیم اوّل (1918ء۔1914ء) کے دوران بکنگھم پیلس جنگی حملوں اور اس کے اثرات سے بالکل محفوظ رہا۔ حالانکہ جنگ کے دوران شاہی فیملی اسی محل میں مقیم رہی لیکن جنگ عظیم دوم (1945،1939ء)کے دوران نو دفعہ بکنگھم پیلس جرمن بمباری کی زد میں آیا۔ پیلس کو بہت نقصان پہنچا۔ جنگ کے خاتمہ کے بعد محل کی مرمت کرکے اس کی تزئین و آرائش بحال کر دی گئی۔بکنگھم پیلس متحدہ برطانیہ کے شاہی خاندان کی ایک یادگار اور خوبصورت علامت ہے۔ دنیا کے سیاح اسے بڑے شوق سے دیکھنے آتے ہیں۔ ہر سال بادشاہ وقت کی دعوت پر 50ہزار مہمان مختلف ضیافتوں میں شرکت کیلئے بلائے جاتے ہیں۔ موسم گرما میں تقریبات محل کے عقبی گارڈن میں منعقد ہوتی ہیں۔بکنگھم پیلس کے سامنے مال روڈ پر گارڈز کی تبدیلی کا منظر بہت پرلطف اور قابل دید ہوتا ہے۔ جسے دیکھنے کیلئے لوگ گھنٹوں انتظار کرتے ہیں۔ گارڈز کی تبدیلی کی پریڈ گرمیوں میں اپریل سے جولائی تک ہر دوسرے دن باقاعدگی سے منعقد ہوتی ہے۔ یہ تقریب45منٹ تک رہتی ہے۔برطانیہ کے شاہی حکمران کا ایک ذاتی جھنڈا ہوتا ہے جو بکنگھم پیلس کے اوپر برطانیہ کے سرکاری جھنڈے کے ساتھ لہرایا جاتا ہے۔ یہ شاہی جھنڈا رائل سٹینڈرڈ کہلایا جاتا ہے۔ اگر بادشاہ بکنگھم کے اندر موجود نہیں ہے تو یہ رائل سٹینڈرڈ نہیں لہرایا جاتا بلکہ صرف سرکاری جھنڈا یونین جیک ہی لہرایا جاتا ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ بادشاہ محل کے اندر موجود ہے یا نہیں۔بکنگھم پیلس10ڈائوننگ سٹریٹ، ہائیڈ پارک، پارلیمنٹ ہائوس اور ویسٹ منسٹر ایبے کے پاس واقع ہے۔پیلس میں 350کلاک نصب ہیں، جن کی دیکھ بھال کیلئے ملازم موجود ہیں۔محل میں40ہزار روشنی کے بلب لگے ہوئے ہیں۔بکنگھم پیلس کے گارڈز کی تبدیلی کی پروقار تقریبشاہ برطانیہ کی سرکاری رہائش گاہ بکنگھم پیلس کی حفاظت کیلئے فوجی جوانوں کا جو دستہ مامور ہوتا ہے عرف عام میں وہ گارڈز کہلاتے ہیں۔ ان کی خوبصورت وردی میں سرخ رنگ کی قمیض، ریچھ کی کھال والی سیاہ ٹوپی، ہاتھوں میں رائفل اور اوپر سے ان کا 6فٹ دو انچ دراز قد ان کی شان اور رعب میں اضافہ کرتے ہیں۔گارڈز کی تبدیلی ایک خاص تقریب ہے جس میں پہلے سے ڈیوٹی دینے والے گارڈز نئے تازہ دم گارڈز کو بکنگھم پیلس کی اعزازی حفاظت کی ذمہ داری سونپتے ہیں۔ گارڈز کی تبدیلی کی تقریب روزرانہ منعقد نہیں ہوتی بلکہ ایک دن چھوڑ کر(پیر، بدھ، جمعہ اور اتوارکو) منعقد کی جاتی ہے۔ یہ تقریب دن گیارہ بجے شروع ہوتی ہے اور 11:45بجے اختتام پذیر ہو جاتی ہے۔ اس پر شکوہ تقریب میں ڈرمز اور پائپس کی مسحور کن دھنوں میں تمام گارڈز کے ایک ساتھ اٹھتے قدم ارد گرد کے ماحول کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔ یہ لندن شہر کی ایک خاص تقریب ہے جو بکنگھم پیلس کے عین سامنے منعقد ہوتی ہے۔ پہلے سے ڈیوٹی پر کھڑے گارڈز ہر دو گھنٹہ بعد تبدیل ہو جاتے ہیں اور ان کی جگہ تازہ دم گارڈز بکنگھم پیلس کی حفاظتی ڈیوٹی کی ذمہ داری سنبھال لیتے ہیں۔ ایک وقت میں گارڈز کی رجمنٹ میں تین آفیسر اور چالیس سپاہی ہوتے ہیں۔ ان میں ایک کمیشنڈ آفیسر، ایک کارپورل، ایک نان کمیشنڈ آفیسر اور باقی سپاہی ہوتے ہیں۔ اگر بادشاہ سلامت محل میں موجود نہ ہو تو اس وقت گارڈز کے دستہ سے دس سپاہی کم کر دیئے جاتے ہیں۔ بکنگھم پیلس میں ڈیوٹی دینے والے گارڈز کی تنخواہ دو لاکھ چار ہزار(204000)پائونڈ مقرر ہے۔جب یہ گارڈز ڈیوٹی پر کھڑے ہوں تو آپ ان کی فوٹو اتار سکتے ہیں لیکن ان سے بات کرنے کی اجازت نہیں۔ وہ مسکراتے بھی نہیں، اس فوٹو اتارنے کے بعد آپ شکریہ کے الفاظ کہہ سکتے ہیں، اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ وہ جب ڈیوٹی پر کھڑے ہوں تو مجال ہے کہ کہیں ان کے سرو پا میں ہلنے کا شائبہ ہو۔ اگر پرندہ بھی ان کے سر پر آکر بیٹھ جائے تو پرندہ خود ہی اڑے گا ان گارڈز نے اشارے سے بھی اسے اڑانا نہیں۔اس پر وقار تقریب کا نظارہ کرنے کیلئے وکٹوریہ میموریل کے سامنے والی جگہ بہترین مقام ہے۔ بہتر ہے تقریب شروع ہونے سے ایک گھنٹہ قبل پہنچا جائے۔ اس عظیم الشان اور یادگار تقریب کو دیکھنے کیلئے ٹکٹ خریدنے یا بکنگ وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہاں جانے کیلئے ٹیوب سٹیشن موجود ہیں۔   

آج کا دن

آج کا دن

سردارآباد کی جنگسردارآباد کی جنگ پہلی جنگ عظیم کی ایک مہم تھی جو 21 مئی کو شروع ہوئی اور 29 مئی 1918ء کو آرمینیا کے سردار آباد کے قریب ختم ہوئی۔ ایک طرف آرمینیائی فوج تھی اور دوسری جانب اپنی بقاء کی جنگ لڑنے والی عثمانی فوج۔ جنگ کا محاذآرمینیائی دارالحکومت سے 40کلومیٹر دور تھا اس لئے آرمینیا کی افواج عثمانی دستوں کی پیش قدمی روکنے میں کامیاب رہیں اور آرمینیا کو قبضے سے بھی بچا لیا گیا۔ ہانگ کانگ چیمبر آف کامر س کا قیامہانگ کانگ جنرل چیمبر آف کامرس کی بنیاد 29 مئی 1861ء کو رکھی گئی اور یہ ہانگ کانگ کی سب سے قدیم اور سب سے بڑی کاروباری تنظیم ہے۔یہ ایک سیلف فنڈنگ، غیر منافع بخش تنظیم ہے جو ہانگ کانگ کی کاروباری برادری کے مفادات کو فروغ دیتی ہے اور ان کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس کا ایک بنیادی مقصد کاروباری ماحول کو بہتر بنانے کیلئے سفارشات مرتب کرنا اور سرکاری حکام اور پالیسی سازوں تک ان کو پہنچانا ہے۔اٹلی میں زلزلہمئی 2012ء میں، شمالی اٹلی میں دو بڑے زلزلے آئے، جس کے نتیجے میں 27 افراد ہلاک اور بڑے پیمانے پر نقصان ہوا۔ ان واقعات کو اٹلی میں 2012ء کے ''ایمیلیا کے زلزلوں‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، کیونکہ انہوں نے بنیادی طور پر ایمیلیا کا علاقہ متاثر کیا۔20 مئی کو آنے والے پہلے زلزلے کی شدت 6.1 تھی۔ اسی علاقے میں 29 مئی کو 5.8 شدت کا زلزلہ آیا، جس سے مزید 20 اموات ہوئیں ۔بحری جہاز حادثہآر ایم ایس ایمپریس آف آئرلینڈ ایک برطانوی ساختہ سمندری جہاز تھا جو 29 مئی 1914ء کوگھنے دھند میں تصادم کے بعد کینیڈا میں دریائے سینٹ لارنس کے قریب ڈوب گیا۔جہاز میں سوار 1477 افراد میں سے 1012 کی موت ہوگئی، اس حادثے کو کینیڈا کی تاریخ میں امن کے وقت کی بدترین سمندری آفت قرار دیا جاتا ہے ۔لو تھ میں سیلابمئی 1920ء کے آخری ہفتے میں برطانیہ کے علاقے لوتھ میں شدید بارشیں ہوئیں جس سے کھیتوں میں پانی بھر گیا۔ 29 مئی کو لوتھ میں طوفان آیا ۔ لوتھ کے مغرب میں ولڈز کے کافی علاقے میں 100 ملی میٹر سے زیادہ بارش ہوئی۔ لوتھ میں 36 ملی میٹر بارش ہوئی۔ مسلسل بارش کی وجہ سے پانی جمع ہوتا گیا اور کئی جگہ پر بند ٹوٹ جانے کی وجہ سے سیلاب آگیا۔ اس سیلاب کی وجہ سے تیار فصلیں تباہ ہو گئیں۔ 

یوم تکبیر پاکستان کی جوہری صلاحیتوں کا سفر

یوم تکبیر پاکستان کی جوہری صلاحیتوں کا سفر

پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی میں اہم پیشرفت جولائی 1976ء میں ڈاکٹر عبد القدیر کی وطن آمد کے بعد ہوئی1998ء میں پاکستان پانچ ایٹمی دھماکے کرکے مسلم دنیا کی واحد جوہری طاقت بن گیا ''یوم تکبیر‘‘پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم دن ہے، جب 28مئی 1998ء کو صوبہ بلوچستان کے ضلع چاغی کے مقام پر پاکستان نے پانچ کامیاب ایٹمی دھماکے کیے، اور پاکستان مسلم دنیا کی واحد جوہری طاقت بن گیا، الحمد للہ۔یہ 11 اور 13 مئی 1998ء کو بھارت کے جوہری تجربوں کا سٹریٹجک جواب تھا۔یہ جوہری تجربات بلوچستان کے ضلع چاغی کے راس کوہ پہاڑیوں میں کئے گئے۔ ایٹمی دھماکوں کی کل تعداد چھ تھی۔ پاکستان کے جوہری پروگرام کے معمار ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایک موقع پر اس کے حوالے سے کہا تھا کہ ''28مئی کو جو جوہری ہتھیار ٹیسٹ کیا گیا اس میںایک Boosted Fission ڈیوائس تھی اور باقی چارsub-kiloton ایٹمی آلات تھے۔ اس کے بعد 30 مئی 1998ء کو پاکستان نے 12 کلوٹن کی پیداوار کے ساتھ ایک اور جوہری تجربہ کیا۔محکمہ موسمیات کے مطابق 28 مئی کو پاکستان کے جوہری ٹیسٹوں سے ریکٹر سکیل پر زلزلے کے 5.0 سگنل پیدا ہوئے۔ جوہری ہتھیار ناگزیر تھاپاکستان کو جوہری ہتھیاروں کے بیش قیمت اور پیچیدہ آپشن کی طرف کیوں جانا پڑا، اس کو سمجھنے کیلئے تاریخ کو 70 ء کی دہائی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔دراصل 1974ء میں بھارت اپنے پہلے ایٹمی تجربے کے ذریعے اس خطے کے غیرمستحکم سکیورٹی ماحول میں نیوکلیئر معاملات کو شامل کر چکا تھا، جسے مغرب کے کچھ لوگوں نے ''مسکراتا بدھا‘‘ کا نام دیا۔ یہ'' نیوکلیئر عدم پھیلائو ‘‘کے معاہدے کے تحت قائم نظام کو پہنچنے والا حقیقتاً پہلا بڑا دھچکا تھا۔دنیا نے بھارت کے دعوؤں میں چھپے اس فریب کو بھی جلد ہی دریافت کر لیاکہ نہرو کے دور میں اس کا جوہری پروگرام پُرامن استعمال کیلئے نہیں تھا اور یہ کہ 1964ء میں چین کے پہلے ایٹمی تجربے کے بعد بھارت کی شاستری حکومت نے جوہری ہتھیاروں کا پروگرام شروع کر دیا تھا۔ مجبوراً پاکستان کو بھی اپنے دفاع کیلئے اس دوڑ میں شامل ہونا پڑا۔ بھارت ایٹمی قوت بننے سے قبل ہی پاکستان پر جارحیت کرکے اس کو دولخت کر چکا تھا۔تاہم بھارت کے ایٹمی قوت بن جانے کے بعد خطے میں طاقت کا توازن شدیدطور پر بگڑ گیا، چنانچہ 1974ء کے بھارتی ایٹمی تجربات کے بعد پاکستان کے اُس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ عالم اسلام کی ایٹمی قوت بنانے کا عزم کیا۔ پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی میں اہم پیشرفت جولائی 1976ء میں ڈاکٹر عبد القدیر خان کی وطن آمد کے بعد ہوئی۔ 1977ء میں ضیاالحق کی حکومت آنے کے بعد پاکستان نے جرمنی، فرانس اور کینیڈا سے جوہری ٹیکنالوجی خریدنے کیلئے اہم اقدام کئے۔ حساس ترین آلات خریدنا اور ان کو پاکستان منتقل کرنا اہم ترین مسئلہ تھا۔ پاکستان کو اس مقصد کیلئے یورپ، مشرق وسطیٰ، سنگاپور وغیرہ میںخصوصی انتظامات کرنا جس کے تحت حساس آلات مختلف ملکوں سے خریدے جاتے اور انہیں مختلف ممالک کے راستے منتقل کیا جاتا۔ امریکہ کو جب اس بات کا علم ہوا کہ پاکستان ایٹم بم بنانے کے راستے پر گامزن ہے۔ تو امریکہ نے فرانس،جرمنی اور کینیڈا پر پابندیاں عائد کر دیں کہ وہ پاکستان کو ایسی کوئی ٹیکنالوجی فراہم نہ کریں جو پاکستان ایٹمی پروگرام میں پیشرفت کا باعث بنیں۔جرمنی نے امریکی پابندی کے باوجود پاکستان کو کچھ ٹیکنالوجی فراہم کی، اس کا ذکر پاکستان کے سابقہ سفارتکار جمشید مار نے بھی کیا ہے کہ پاکستان کو یورنیم افزودگی کا معیار پرکھنے والے آلے سمیت بہت سے حساس آلات فروخت کرنے والا ملک جرمنی تھا۔ ان حساس آلات کو خریدنے کے بعد مختلف راستوں سے پاکستان منتقل کیا گیا۔ پاکستان کو اپنا ایٹمی پروگرام دنیا کے سامنے لائے بغیر پایا تکمیل تک پہنچانا تھا۔ ایک چھوٹی سی غلطی بھی سارے پروگرام کیلئے خطرے کا باعث بن سکتی تھی۔ 1974 میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان ایٹمی پروگرام میں شمولیت اختیار کی اور انتہائی افزودہ یورینیم کے بطور انشقاق مواد کی فزیبلٹی پر زور دیا۔ PAEC کی طرف سے 1967ء میں گیسی سینٹری فیوج پر ابتدائی کام کیا گیا تھا لیکن ڈاکٹر عبد القدیرخان نے نیدرلینڈز میں یورینکو گروپ سے حاصل کردہ مہارت سے یورینیم کی افزودگی کے کام کو آگے بڑھایا۔ اُن کی نگرانی میں کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز (KRL) کا قیام عمل میں لایا گیا اور اس کی یورینیم افزودگی کی صلاحیتوں کیلئے ضروری مواد ٹیکنالوجی اور آلات حاصل کرنے کی کوششیںشروع کر دی گئیں۔11 مارچ 1983ء کو ڈاکٹر منیر احمد خان کی سربراہی میں PAEC نے پہلی نیوکلیئر ڈیوائس کی ذیلی جانچ کی، جسے کولڈ ٹیسٹ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا کوڈ نام-1 Kirana تھا۔ 1983ء سے 1994 ء تک مزید 24 کولڈ ٹیسٹ کئے گئے۔بالآخر 28مئی 1998ء کا وہ دن بھی آ گیا جب پاکستان حقیقی طور پر جوہری ہتھیاروں کے تجربات کرنے والا تھا۔ اُس روز پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے سہ پہر کو سوا تین بجے چاغی ٹیسٹ سائٹ پر پانچ زیر زمین ایٹمی تجربات کئے۔ اس عمل کے مشاہدے کیلئے پوسٹ ٹیسٹ سائٹ سے تقریباً 10کلومیٹرکے فاصلے پر قائم کی گئی تھی جس میں ڈاکٹر مسعود احمد اور اصغر قادر کی سربراہی میں ''میتھا میٹکس گروپ‘‘ اور ''تھیوریٹیکل فزکس گروپ‘‘ کے ارکان کو جوہری ہتھیاروں کی کیلکلو لیشن کا حساب لگانے کا چارج دیا گیا تھا۔ اس طرح پاکستان مسلم دنیا کی پہلی اور دنیا کی نویں جوہری صلاحیت کی حامل ریاست کے طور پر اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ٹھہرا۔  

یادرفتگاں: نیاز احمد سدا بہار گیتوں کے تخلیق کار

یادرفتگاں: نیاز احمد سدا بہار گیتوں کے تخلیق کار

دنیائے موسیقی میں اپنا نام بنانے والے نیاز احمد 3 دسمبر 1946ء کو بھارتی ریاست یوپی میںپیدا ہوئے، ہوش سنبھالا تو خود کو شفقت پدری سے محروم پایا۔ ان کے والد فیاض احمد تقسیم ہند کے وقت ہجرت کرتے ہوئے جہان فانی سے کوچ کر گئے تھے۔ ان کے خاندان نے پاکستان آنے کے بعد کراچی کو اپنا مسکن بنایااور ان کے چچا ریاض احمد نے ان کی کفالت کی۔ نیاز احمد چار بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ کبھی پڑھائی میں دل نہیں لگا، جس کی وجہ سے میٹرک بھی نہ کر سکے۔ اپنے ماموں سے موسیقی اور آلات موسیقی کی سوجھ بوجھ لینے کے بعد فنی دنیا میں قدم رکھا تو ابتداء میں بہت ٹھوکریں کھائیں۔ چھوٹی چھوٹی تقریبات میں ہارمونیم بجا کر گزر بسر کرتے۔ نہال عبداللہ کی توسط سے ریڈیو پاکستان میں بطور اکارڈین پلیئر کام ملا۔ پانچ سال تک اس ساز سے جڑے رہنے کے بعد انہوں نے بطور موسیقار موسیقی کی دنیا میں قسمت آزمائی کرنے کا فیصلہ کیا۔ کریئر کی پہلی دھن گیت ''یہ کیسا بندھن ہے ساجن‘‘ کے لئے تیار کی جو گلوکارہ مہناز بیگم کی خوبصورت آواز میں ریکارڈ کیا گیا اور جب یہ گیت ریڈیو سے نشر ہوا تو سننے والوں کے دلوں میں گھر کر گیا۔ موسیقار نیاز احمد نے اِس کامیاب تجربے کے بعد گلوکارہ تاج ملتانی، عشرت جہاں، نگہت سیما کو بھی اپنی دھنوں پر گوایا۔ اس دور کے سبھی بڑے گلوکاروں نے اُن کی دھنوں کے ساتھ آواز ملائی۔ شہنشاہ غزل مہدی حسن کے ساتھ بھی ان ہی دنوں میں کام کرنے کا موقع ملا۔ چھ برس ریڈیو سے وابستہ رہنے کے بعد سرکاری ٹی وی کا رخ کیا جہاں کئی سدا بہار دھنیں ترتیب دیں۔اپنے دور کے مقبول ترین گلوکاروں محمد علی شہکی اور عالمگیر کو موسیقی کی دنیا میں متعارف کرانے کا سہرا بھی ان ہی کے سر ہے۔موسیقار نیاز احمد کی مقبول ترین دھنوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ انہوں نے استاد نصرت فتح علی خان کیلئے ملی نغمہ ''میرا انعام پاکستان‘‘ تخلیق کیا۔ ملکہ ترنم نورجہاں کیلئے ''نیناں تم چپ رہنا‘‘ جیسا گیت کمپوز کیا۔ جب مہدی حسن کی آواز اور نیاز احمد کے سنگیت کا ملن ہوا تو ناقابل فراموش گیتوں نے جنم لیا۔ عابدہ پروین کیلئے بھی دھنیں بنائیں۔ ''اتنے بڑے جیون ساگر میں‘‘ جیسا ملی نغمہ کمپوز کیا، جسے علن فقیر نے اپنی آواز دی۔ دیگر مقبول ملی نغموں میں گلوکار خالد وحید کا گایا ہوا ''ہر گھڑی تیار کامران ہیں ہم‘‘،گلوکارہ لبنیٰ ندیم کا ''خوشبو بن کر مہک رہا ہے میرا پاکستان‘‘ اورگلوکار ناہید اخترکا شہرہ آفاق ملی نغمہ ''ہم مائیں، ہم بہنیں‘‘ شامل ہیں۔محمد علی شہکی کے گائے ہوئے مقبول گیت ''میری آنکھوں سے اِس دنیا کو دیکھو‘‘، ''نظارے ہمیں دیکھیں‘‘ اور ''تم سے بچھڑ کر زندہ ہیں‘‘ نیاز صاحب ہی کے کمپوزکردہ تھے۔ ''دیکھ تیرا کیا رنگ کر دیا‘‘، ''یہ شام اور تیرا نام‘‘ اور ''پاس آکر کوئی دیکھے‘‘ جیسے مشہور نغموں کی دھنیں بھی اْن ہی کی تخلیق ہیں، جنھیں عالمگیر کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا۔ مختلف گلوکاروں کے سولو البم بھی تیار کیے۔ کئی ڈراموں کے ٹائٹل سونگ تخلیق کیے۔ فلمی موسیقی بھی دی۔ فن، گیتوں ہی تک محدود نہیں رہا۔ ''نیلام گھر‘‘ اور سرکاری ٹی وی کے ''خبر نامہ‘‘ کی پس منظر موسیقی بھی ترتیب دی۔ نیاز احمد کو 2004ء میں ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں صدارتی ایوارڈ ''تمغہ برائے حسن کارکردگی‘‘ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ انہیں تین بار پی ٹی وی نیشنل ایوارڈ ملا، ریڈیو پاکستان نے بھی اُنہیں بہترین موسیقار ٹھہرایا۔نیاز احمد کو بھلا کون بھلا سکتا ہے، موسیقی سے لگائو رکھنے والے ہر شخص کے دل میں وہ بستے ہیں۔ گیت ہو، غزل ہو، ملی نغمہ ہو یا کسی ٹی وی پروگرام کا میوزک ہر جگہ ان کے سُر بکھرے پڑے ہیں۔ گلوکار محمد علی شہکی اور عالمگیر سمیت درجنوں نامور گلوکاروں کو ان کی موسیقی کی بدولت شہرت نصیب ہوئی۔ نیاز احمد کی زندگی کا سفر 28 مئی2019ء کو اپنے اختتام کو پہنچا مگر وہ اپنے گیتوں اور دھنوں کی بدولت ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ مقبول گیت٭...''نیناں تم چپ رہنا‘‘ ٭... ''میری آنکھوں سے اِس دنیا کو دیکھو‘‘٭...''نظارے ہمیں دیکھیں‘‘ ٭... ''تم سے بچھڑ کر زندہ ہیں‘‘٭... ''دیکھ تیرا کیا رنگ کر دیا‘‘٭... ''یہ شام اور تیرا نام‘‘٭... ''پاس آکر کوئی دیکھے‘‘شہرہ آفاق ملی نغمے٭... ''میرا انعام پاکستان‘‘(نصرت فتح علی خان)٭...''اتنے بڑے جیون ساگر میں‘‘( علن فقیر) ٭... ''ہر گھڑی تیار کامران ہیں ہم‘‘(خالد وحید) ٭... ''خوشبو بن کر مہک رہا ہے میرا پاکستان‘‘ ( لبنیٰ ندیم)٭... ''ہم مائیں، ہم بہنیں‘‘ ( ناہید اختر) 

آج کا دن

آج کا دن

بخارسٹ معاہدہ 28 مئی 1812ء کو دولت عثمانیہ اور روس کے درمیان بخارسٹ معاہدہ طے ہوا جس کے نتیجے میں عثمانی روس جنگ ختم ہوئی۔ معاہدے پر بخارسٹ کے مانوک ان میں دستخط کیے گئے اور 5 جولائی 1812 کو روس ترک جنگ کے خاتمے کے بعد اس کی توثیق ہوئی۔ عثمانیوں نے جنگ میں بری کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔بولٹن کا قتل عامبولٹن قتل عام پہلی برطانوی خانہ جنگی کا ایک واقعہ تھا جو 28 مئی 1644ء کو پیش آیا۔ پرنس روپرٹ کے ماتحت شاہی فوجوں نے پارلیمانی شہر پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا۔قابض افواج پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ لڑائی کے دوران اور بعد میں بولٹن کے ایک ہزار600 محافظوں اور باشندوں کو ذبح کر دیا گیا تھا۔ اس قتل عام کو دنیا کے بدترین مظالم میں شمار کیا جاتا ہے۔دنیا کی پہلی ٹی ٹی ریس 28 مئی 1907ء کو دنیا کی پہلی ٹی ٹی ریس منعقد کی گئی اور اسے بین الاقوامی آٹو سائیکل ٹورسٹ ٹرافی کہا گیا۔ ایونٹ کا انعقاد 15 میل کے 10ٹریکس پر کیا گیا جس میں ایگزاسٹ سائلنسر، سیڈلز، پیڈل اور مڈ گارڈز والی وہ موٹر سائیکلیں شامل تھیں ۔1911ء میں ٹی ٹی کے ٹریک کو تبدل کر کے اسے 37.40میل طویل کر دیا گیا۔ 1911ء میں 350سی سی جونیئر ٹی ٹی موٹر سائیکلوں اور 500سی سی سینئر ٹی ٹی کے تحت ریس کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔سخالین کا زلزلہ1995ء میں آج کے روز روسی شمالی جزیرے سخالین پر شدیدزلزلہ آیا۔ یہ روس کے موجودہ علاقے میں جانا جانے والا سب سے تباہ کن زلزلہ تھا جس نے پورے شہر کو تباہ کر دیا ۔ اس زلزلے کی وجہ سے ایک ہزار989افراد ہلاک جبکہ750زخمی ہوئے90 فیصد افراد 17 پانچ منزلہ رہائشی عمارتوں کے گرنے سے ہلاک ہوئے۔ فوکس ویگن کا قیام1937ء میں آج کے دن گاڑیاں بنانے والی جرمن کمپنی فوکس ویگن کا قیام عمل میں آیا۔ اس کمپنی کو جرمن لیبر فرنٹ کے ذریعہ قائم کیا گیا تھا، جو ان کے مشہور بیٹل کیلئے جانا جاتا ہے۔یہ فوکس ویگن گروپ کا ہی ایک اور برانڈ ہے،جو 2016ء اور 2017ء میں دنیا بھر میں فروخت کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی کار سازکمپنی رہی۔