سیت پور کے حکمران
ضلع مظفرگڑھ چار تحصیلوں مظفرگڑھ ،کوٹ ادو ، جتوئی ،علی پورپر مشتمل ہے ۔ضلع مظفرگڑ ھ کی تحصیل علی پور قدیم تحصیل ہے ۔علی پور سمیت دیگر نواحی علاقوں میں ابھی تک مندر اور مقبرہ جات موجود ہیں جو کہ دور قدیم کی یادیں تازہ کرتے ہیں ۔ تحصیل علی پور کا نواحی علاقہ سیت پور ضلع مظفر گڑھ کا تاریخی شہر ہے۔ اس شہر تک ملتان اور بہاولپور سے براستہ علی پور رسائی حاصل کی جا سکتی ہے ،یہ شہر علی پور سے جنوب کی طرف17کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور یہ ایک بڑے ٹیلے پر آباد ہے۔سیت پور کے نواحی دیہاتوں کو مشرق میں بہنے والے دریائے چناب اور سرکی کے مقام پر جنوب مغرب میں بہنے والے دریائے سندھ سے ہمیشہ سیلاب کا خطرہ رہتا ہے۔ تاریخی شہر سیت پور لنگاہ خاندان کے عہد حکومت 1445ء تا 1526ء میں آباد ہوا ،ان دنوں یہ ایک خوشحال قصبہ تصور کیا جاتا تھا۔لنگاہ خاندان کے عہد حکومت میں سلطان حسین لنگاہ نے اپنے دربار کے نامور بلوچ قبائل کو سیت پور اور دھن کوٹ میں آباد ہونے کے لئے بھیجا۔یہ وہ زمانہ تھا جب دہلی میں لودھی خاندان حکمران تھا ،1445ء میں بہلول خان جو ملتان کا گورنر تھا دہلی کا حکمران بنا ۔اس نے اپنے ایک رشتہ دار کو سیت پور کی حکومت سونپ دی جس کا نام اسلام خان تھا ۔اسلام خان کے تین پوتوں میں لڑائی ہوئی اور انہوں نے قصبہ کو تین حصوں میں تقسیم کر لیا ۔موجودہ تحصیل علی پور طاہر خان نہڑ کے حصہ میں آئی۔ اس نے سیت پور دارالخلافہ بنایا ،اس کا خاندان یہاں تین صدیوں تک حکمران رہا ۔نہڑ خاندان کے آخری حکمران کا نام بخشن خان تھا ۔یہاں شروع ہی سے نہڑ خاندان خطرات سے دو چار رہا۔ڈیرہ غازی خان کے بلوچ حکمران بھی ان کے لئے ہر وقت کا خطرہ تھے ،ان کے علاوہ نہڑ خاندان کے اندرونی خلفشار اور شیخ راجو (سیت پور کا مخدوم ) جو اس خاندان کامشیر تھا ،کی ریشہ دوانیوں نے نہڑ خاندان کی حکومت کو کافی کمزور کر دیا ۔لیکن ان کی حکومت پھر بھی کسی نہ کسی شکل میں قائم رہی ۔اٹھارویں صدی عیسوی میں نواب آف بہاولپور نے مخدوم راجو کا تختہ الٹ دیا لیکن کچھ علاقے میں پھر بھی نہڑ حکومت قائم رہی۔تاریخ میں نہڑ حکومت کے زوال کے بعد سیت پور کا نام احمد شاہ درانی کے پنجاب پر حملہ کے وقت اور زاہد خان گورنر ملتان کے دور میں نمایاں رہا۔ اس کے بعد اس قصبہ کی شہرت تاریخی لحاظ سے کافی مدھم ہو جاتی ہے۔سیت پور کی اصل خوبصورتی طاہر خان نہڑ کے پُر کشش مقبر ے کی بدولت ہے۔یہ مقبرہ نفیس اینٹوں کے اونچے چبوترے پر قائم ہے ،زمین سے اپنی چوٹی تک مقبرہ کی تین واضح حد بندیاں نظر آتی ہیں ۔گنبد کے اختتام پر آسمانی بجلی کی رو کی زمین میں ترسیل کے لئے موصل کنڈکٹر لگایا گیا ہے جو اسے آسمانی بجلی کے خطرات سے محفوظ رکھتا ہے۔مقبرے کے باہر کامنظر بڑا خوبصورت اور دلکش ہے ،اس میں مختلف قسم کی نفیس ٹائلیں لگی ہوئی ہیں جو مربع ،مستطیل اور چوکور شکل کی ہیں ۔مقبرے کے پہلے حصے کے آخر میں واضح دو دھاریاں بنائی گئی ہیں جن میں نیلی اور سفید ٹائلوں کی آمیزش ہے اور یہ مزار کے حسن کو دوبالا کرتی ہیں۔دوسرا حصہ زیادہ رنگین او ر روشن ہے ،اس میں مختلف رنگوں کی خوبصورت ٹائلیں اس حصہ کو دلکش بنا رہی ہیں۔ تیسرے حصہ میں گنبد کو سفید ٹائلوں سے مزین کیا گیا ہے ،اس مقبرے کے قریب ہی ایک مسجد ہے جو شاہی مسجد کے نام سے مشہور ہے۔ اس خوبصورت مسجد کی پیشانی سفید ،زرد اور روغنی ٹائلوں سے آراستہ ہے ،ہر ایک حصہ پر ایک گنبد بنایا گیا ہے ،مسجد پر قدیم زمانے کے نفیس کام کے بہت کم آثار ملتے ہیں ،مسجد کے ہر حصہ کے لئے ایک ایک دروازہ ہے ،درمیانی دروازہ پر تین خوبصورت محرابیں بنائی گئی ہیں ،اس طرح باقی دروازوں پر بھی تین تین محرابیں بنائی گئی ہیں ،مسجد کی پیشانی رنگ برنگی اور مختلف قسم کی روغنی ٹائلوں سے مزین کی گئی ہے۔ ان قدیم عمارتوں کے علاوہ ایک اور عمارت بھی موجود تھی جسے عام لوگ ہندیرا (Hindira) کے نام سے پکارتے تھے۔کچھ عرصہ قبل ہندیرا کی ٹوٹی پھوٹی عمارت کا کچھ حصہ موجود تھالیکن آہستہ آہستہ یہ عمارت معدوم ہوتی چلی گئی اور اب اس کا نام و نشان بھی باقی نہیں ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ اس قسم کی نادر عمارتیں معدوم ہو نے لگی ہیں ،بہتر تھا کہ ان باقی ماندہ نشانیوں کو کسی صورت محفوظ کیا جاتا تاکہ آنے والے دور میں ایسی تاریخی عمارتوں کی صورت میں تاریخ کی کوئی ایک نشانی تو ہمارے پاس محفوظ رہ جاتی۔یہ تاریخی عمارتیں صرف اپنے وجود کی مٹتی ہوئی نشانیاں نہیں ہوتیں ،ان کے سینے میں ماضی کے تاریخی اسرار محفوظ ہوتے ہیں ،ان سے ایک گزر ہوئے دورکی اقدار اور تہذیبی و ثقافتی اطوار وابستہ ہوتے ہیں ۔٭…٭…٭