غزوۂ اُحد
غزوۂ بدر میں عبرتناک شکست کے بعد مشرکین نے زور شور سے تیاریاں شروع کر دیں۔ انہوںنے شام سے لایا گیا سار امال مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تیاری میں خرچ کردیا۔ اس سارے مال کی مقدار ایک ہزارا ونٹ اور پچاس ہزار دینار تھی۔ قریش کی فوج کی کل تعداد تین ہزار تھی، جس میں پندرہ عورتیں بھی شامل تھیں۔ ان عورتوں میں ابو جہل کے بیٹے عکرمہ کی بیوی امِ حکیم، حضرت خالد بن ولید کی بہن فاطمہ بنت ولید اور ابو سفیان کی بیوی ،بھی شامل تھیں۔حضرت رسول اللہؐ کے چچا حضرت عباسؓ جو اسلام قبول کرنے کے بعد ابھی تک مکہ ہی میں تھے، قریش کی حربی تیاریوں پر نگاہ رکھے ہوئے تھے اور برابر حضرت رسول اللہؐ کو مطلع کر رہے تھے۔ قریش کے لشکر میں تین ہزار اونٹ اور دو سوگھوڑے بھی تھے۔ سارے لشکر کا سپہ سالار ابو سفیان تھا، رسالے کی کمان خالد بن ولید کو دی گئی اور عکرمہ بن ابوجہل کو ان کا معاون بنایا گیا۔ لشکر کفار جب مدینہ کے راستے میں ’’ابوا‘‘ کے مقام پر پہنچا تو ابو سفیان کی بیوی، جو اپنی سفاکی میں ’’شہرت‘‘ رکھتی تھی، نے یہ تجویز پیش کی کہ رسول اللہؐ کی والدہ کی قبر اکھیڑ دی جائے لیکن ایسے کرنے سے جو سنگین نتائج نکل سکتے تھے اس کے خوف سے ہی اس کے قائدین نے یہ تجویز منظور نہ کی۔ ابو سفیان مدد حاصل کرنے کے لیے دو بت بھی ساتھ لے کر آیا ہوا تھا۔ جمعہ کے دن 6 شوال 3ھ کو کفارِ مکہ کا لشکر مدینہ کے قریب وادی قناۃ پہنچ گیا۔ کچھ مسلمانوں کا خیال تھا کہ مدینہ کے اندر رہ کر کفار کا مقابلہ کیا جائے لیکن حضرت حمزہؓ جیسے صحابہ اس بات پر مُصر تھے کہ مدینہ سے باہر کھلے میدان میں کفار سے لڑائی کی جائے۔ اس مشورے کو تسلیم کرتے ہوئے آپؐ دو زرہیں پہن کر اور تلوار کمر سے باندھ کر لوگوں کے سامنے تشریف لائے۔اُحد کے میدان جنگ میں دفاعی منصوبہ کے تحت پچاس ماہر تیر اندازوں کا دستہ اُحد کی اس وادی میں مقرر کیا گیا جہاں عقب سے کفار کے حملے کا خطرہ تھا۔ آپؐ نے ان کو ہدایت کی کہ یہ جگہ خالی نہ چھوڑنا۔ دونوں طرف کے لشکر بڑی دلیری اور شجاعت سے لڑے۔ جب مسلمانوں نے دیکھا کہ کفار بھاگ رہے ہیں تو وہ صف بندی توڑ کر مالِ غنیمت لینے میں مصروف ہوگئے۔ کفار کے ایک دستے کے سردار خالد بن ولید نے موقع پاتے ہی پلٹ کر عقب سے مسلمانوں پر اچانک حملہ کر دیا۔ مسلمان دوبارہ صف بندی نہ پائے اور انفرادی طور پر لڑتے لڑتے شہید ہوتے گئے۔ آپ ﷺ کے دو دانت شہید ہوئے ۔حضرت عائشہؓ اور حضرت انسؓ کی والدہ محترمہ حضرت ام سلیمؓ اس جنگ میں زخمیوں کو پانی پلاتی رہیں۔ بالآخر مسلمانوں نے کفار کے لشکر کے چھکے چھڑا دیئے اور ان کو وہاں سے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔اس جنگ میں ستر مسلمان شہید ہوئے جن میں حضور اکرمؐ کے چچا حضرت حمزہؓ بھی شامل تھے۔ ان شہداء میں اکثریت انصار کی تھی جن میں41 خزرج، 24 اوس سے اور چار مہاجر تھے جنہوں نے جامِ شہادت نوش کیا ۔ ایک یہودی نے بھی اپنی جان دی۔ قریش کے37 آدمی واصل جہنم ہوئے۔چند اہل مدینہ اپنے شہداء کو میدانِ جنگ سے شہر لے آئے مگر حضور اکرمؐ نے حکم دیا کہ شہید کو ان کے مقام شہادت پر ہی دفن کیا جائے۔ لہٰذا حضرت حمزہؓ کی قبر کے احاطے میں حضرت مصعب بن عمیرؓ (مسلمانوں کے پہلے سفیر)، حضرت عبداللہ بن جحشؓ اور حضرت شماس بن عثمانؓ کو دفن کیا گیا۔ مہاجرین میں سے یہ چار صحابہ شہادت کے رتبے سے ہمکنار ہوئے باقی 66 شہداء کا تعلق انصار سے تھا جن کے مزار الگ ہیں۔روایت ہے کہ حضرت حمزہؓ کی قبر کی زیارت کے لیے آنحضرتؐ کبھی کبھی تشریف لے جایا کرتے اور وہاں سب شہداء کے لیے دعائے مغفرت کیا کرتے تھے۔