پاکستان میں جن فنکاروں کے فلمی کریئر انتہائی قابل رشک رہے، ان میں ایک بہت بڑا نام اداکار علاؤالدین کا تھا۔ایک ایکسٹرا اور معاون اداکار سے چوٹی کے ولن شمار ہوئے۔ پھر مرکزی کرداروں سے ہوتے ہوئے ہیرو بننے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ تاریخی ، سماجی اور اصلاحی فلموں میں بھاری بھر کم سے ہلکے پھلکے کامیڈی رول تک کئے۔ بیک وقت ہیرو، ولن، کیریکٹرایکٹر اور کامیڈین کے روپ میں نظر آنے والے پہلے فنکار تھے۔ ساٹھ کا عشرہ تو علاؤالدین کے نام تھا وہ جس فلم میں ہوتے ، اس میں باقی اداکاروں کی حیثیت ثانوی ہوتی تھی۔ لیجنڈ کی حیثیت رکھنے والے علائوالدین 2فروری 1920ء کو راولپنڈی کے ایک کشمیری گھرانے میں پیدا ہوئے، ان کا پورا نام علائوالدین بٹ تھا۔ ان کے والد فیروز الدین بٹ راولپنڈی کی ایک معزز شخصیت تھے۔ علائوالدین نے ابتدائی تعلیم راولپنڈی کے گورنمنٹ سکول سے حاصل کی۔ 1940ء میں وہ راولپنڈی سے گلوکار بننے کیلئے ممبئی پہنچے۔ ان کی گلوکار بننے کی کوششیں تو کامیاب نہ ہو سکیں لیکن اس دوران اس کی ملاقات نامور ہدایتکار اے آر کاردار سے ہوئی جن کا تعلق لاہور سے تھا۔انہوں نے انہیں اداکار بننے کا مشورہ دیا۔ انہیں 1940ء میں سب سے پہلے فلم پریم نگر‘‘ میں کاسٹ کیا گیا۔ پھر 1941ء میں پنجابی فلم کزماتی‘‘ میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ 1942ء میں نئی دنیا‘‘ اور 1943ء میں سنجوگ ‘‘ میں کام کیا۔ اس کے بعد انہوں نے 1948ء میں دلیپ کمار اور نرگس کی مشہور زمانہ فلم ''میلہ‘‘ میں اداکاری کی۔اس فلم میں وہ صرف 28 برس کی عمر میں نرگس کے باپ کے کردار میں جلوہ گر ہوئے تھے۔ان کی اداکاری کو بہت پسند کیا گیا۔ پھر وہ پاکستان آ گئے اور یہاں کئی عشروں تک اپنے آپ کو ایک ورسٹائل اداکار کے طور پر منوایا۔ انہیں فلمی صنعت میں ''پا جی‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔انہوں نے اردو اور پنجابی، دونوں زبانوں کی فلموں میں صلاحیتوں کو منوایا۔ ان کی مقبولیت کی وجہ سے انہیں عوامی اداکار‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ پاکستان میں سب سے پہلے علاؤالدین نے نذیر کی پنجابی فلم ''پھیرے‘‘ میں ولن کے طور پر کام کیا۔ یہ پاکستان کی نہ صرف پہلی پنجابی فلم تھی بلکہ کامیاب ترین فلم تھی۔سورن لتا اور نذیر نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ سورن لتا اور نذیر کی دوسری پنجابی فلم ''لارے‘‘ میں بھی علاؤالدین نے ولن کا کردار ادا کیا۔ ولن کے طور پر انہوں نے محبوبہ، محفل، انوکھی، وعدہ، مجرم، مکھڑا، چھومنتر، پینگاں، پلکاں، دربار اور آخری نشان میں بھی کام کیا۔''باغی‘‘ فلم کا تذکرہ بہت ضروری ہے۔ یہ فلم خالصتاً ویسٹرن سٹائل میں بنائی گئی اور اس میں سدھیر، مسرت نذیر اور یاسمین نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ یہ سلطان راہی کی بھی پہلی فلم تھی جس میں وہ ایکسٹرا کے طور پر سامنے آئے تھے۔ بعد میں پھر یہی سلطان راہی عروج کے آسمان تک جا پہنچے۔'' پتن‘‘ ان کی بڑی فلم تھی جس میں انہوں نے ولن کا نیم مزاحیہ کردار انتہائی مہارت سے نبھایا اس میں وہ استاد روح کھچ بنے تھے جو بے تکی شاعری کرتا ہے۔ ان پر فلمائے گئے ایک گیت کو بے بدل موسیقار بابا جی اے چشتی نے مختلف دھنوں میں پیش کیا۔ ''پتن‘‘ وہ فلم ہے جس پر پاکستانی پنجابی سینما ہمیشہ ناز کرتا رہے گا۔ 1953میں ''شہری بابو‘‘ ریلیز ہوئی یہ بھی نذیر کی فلم تھی زبیدہ خانم کو اسی فلم سے بریک ملا۔ یہ فلم سپرہٹ ثابت ہوئی اور اس میں بھی علائوالدین نے خوبصورت اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ عنایت حسین بھٹی کا گایا ہوا یہ گیت ''بھاگاں والیو نام جپو مولانا نام نام‘‘انتہائی مقبول ہوا۔ اس کے بعد علائوالدین نے پاٹے خان، دلا بھٹی اور حمیدہ میں بھی بہت شاندار اداکاری کی۔ حمیدہ میں انہوں نے ایک افیمی کا مزاحیہ اور منفی کردار نہایت خوبصورتی سے نبھایا۔یہ فلم اپنی کمزور موسیقی کے باوجود کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔1959میں ''کرتار سنگھ‘‘ ریلیز ہوئی جس نے ہر طرف دھوم مچا دی۔ ''کرتار سنگھ ‘‘کو پنجابی فلموں کی سرتاج فلم قرار دیا جاتا ہے۔ سیف الدین سیف کی اس فلم میں علائوالدین نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا کردار ادا کیا ۔کہا جاتا ہے کہ بھارتی پنجاب میں یہ فلم تین سال تک نمائش پذیر رہی۔فلم ''سلمیٰ ‘‘ میں بھی ان کی اداکاری بہت پسند کی گئی۔ریاض شاہد کی فلم ''سسرال‘‘ علائوالدین کی ناقابل فراموش فلم ہے۔ انہوں نے اس فلم میں لازوال اداکاری کی۔'' سسرال‘‘ کو پاکستان کی بہترین آرٹ فلم بھی قرار دیا جاتا ہے۔اس فلم کے ایک گیت ''جس نے میرے دل کو درد دیا‘‘ کی پکچرائزیشن علائوالدین نے اتنی خوبصورتی سے کرائی کہ لوگ عش عش کر اٹھے۔ پھر ''شہید ‘‘نے بھی علائوالدین کے قد میں اضافہ کیا۔1963ء میں شباب کیرانوی کی مشہور زمانہ فلم ''تیس مار خان‘‘ ریلیزہوئی۔ اس فلم کے بارے میں شباب صاحب کو خدشات لاحق تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس فلم کا باکس آفس پر کامیاب ہونا مشکل تھا علائوالدین کے ساتھ ایک نئی ہیروئن تھی جس کا نام شیریں تھا۔سب فلمیں توقعات کے برعکس سپرہٹ ثابت ہوئی۔ علائوالدین کی اداکاری کو بہت پذیرائی ملی۔ولن سے ہیرو بننا پھر کامیڈی ہیرو اور پھر کریکٹر ایکٹر کی حیثیت سے کام کرنا ایک بالکل انوکھی بات تھی۔علاؤالدین نے تاریخی کرداروں میں بھی بڑا متاثر کیا۔ فلم ''شہید ‘‘(1962ء) میں ایک عرب شیخ ، فلم ''فرنگی‘‘ (1964ء) میں ایک باغی درویش ، فلم ''نظام لوہار‘‘ (1966ء) میں ایک ڈاکو ، فلم ''زرقا‘‘ (1969ء) میں ایک فلسطینی مجاہد لیڈر اور فلم ''یہ امن‘‘ (1971ء) میں ایک کشمیری حریت پسند کے روپ میں زبردست کردارنگاری کی۔ علائوالدین کی دیگر مشہور فلموں میں ''یتیم، جگری یار، بائوجی ،لاڈو ،مہندی، گناہگار، ایک سی چور ،غیرت تے قانون، بدنام ، خلش، انمول ،تلاش ،امرائو جان ادا اوربے مثال‘‘ شامل ہیں۔''پھنے خان، لاڈو، زرقا، بے مثال اور بدنام‘‘ میں بھی ان کی اداکاری قابل دید تھی۔ اردو فلموں میں اگر کسی فلم کے مکالمے عوامی سطح پر مقبول ہوئے تھے تو وہ اس فلم کے تھے جنھیں ریاض شاہد نے لکھا تھا ۔''بدنام‘‘ کا ان کا یہ مکالمہ تو ابھی تک لوگوں کو یاد ہے ''کہاں سے آئے ہیں یہ جھمکے ،کون لایا ہے یہ جھمکے‘‘۔ اس فلم میںعلاؤالدین پر مسعودرانا کا سب سے یادگار ترین گیت ''کوئی ساتھ دے کہ نہ ساتھ دے ‘‘ فلمایا گیا تھا۔اس فلم میں علاؤالدین کی کردارنگاری ضرب المثل بن گئی تھی جس نے انھیں ایک لیجنڈ کا مقام دے دیا تھا۔ یاد رہے کہ فلم ''بدنام ‘‘ کو روس کی 17 مختلف زبانوں میں ڈب کر کے نمائش کیلئے پیش کیا گیا تھا اور وہاں یہ فلم بے حد پسند کی گئی تھی۔چالیس سالہ فلمی کریئر میں انہوں نے مجموعی طور پر 319فلموں میں کام کیا جن میں 194فلمیں اردو زبان میں تھیں جبکہ 125 فلمیں پنجابی تھیں۔ فی الحقیقت علائوالدین ایک بڑے ہی باکمال اداکار تھے جنہوں نے اردو اور پنجابی دونوں زبان کی فلموں میں اپنے بے مثال فن کا ڈنکابجایا۔13مئی 1983ء کو یہ عدیم النظیر اداکار عالم جاودواں کو سدھار گیا ان کی موت کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کا نوجوان بیٹا ایک حادثے میں جاں بحق ہو گیا تھا۔جوان بیٹے کی موت کا صدمہ علائوالدین کیلئے جان لیوا ثابت ہوا برصغیر پاک و ہند کی فلمی تاریخ کے آسمان پر وہ ہمیشہ ایک روشن ستارے کی طرح جگمگاتے رہیں گے۔