"ABA" (space) message & send to 7575

میں کنجوس نہیں ہوں!

دادی امّاں فوت ہوئیں تو میں برِسٹَل میں تھا۔ انٹرنیشنل فلائٹس پر بہت زیادہ دبائو تھا‘ لیکن ابھی گلوبل سٹوڈنٹس پڑھائی میں مصروف تھے۔ یونیورسٹیاں کالج وغیرہ کھلے تھے۔ ہیتھرو ایئر پورٹ لندن پہ اسلام آباد واپسی کے لیے پہنچا جہاں یہ دیکھ کر بہت حیرانی ہوئی کہ ہیتھرو پر ہر چیز روٹین کے مطابق اور نارمل ہے۔
یو کے میں مقیم پاکستانی لوگوں کی اکثریت پی آئی اے کو کافی پسند کرتی ہے۔ اس کی بہت ساری وجوہ ہیں۔ مثال کے طور پر ایئر پیسنجر کو جتنی زیادہ آزادیاں پی آئی اے کے جہاز میں ملتی ہیں وہ کسی دوسری ایئرلائن کے ایئر کرافٹ پر کوئی مسافر سوچ بھی نہیں سکتا۔ ویسے بھی دوسری ایئر لائنوں میں ہوائی مارشَلز کسی مسافر کو اپنی سیٹ سے غیر ضروری اُٹھتا ہوا دیکھ لیں تو بھی یہ اُسے فوراً دبوچ لینے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ پی آئی اے فلائٹ کی عوامی کلاس میں ''فیملی گالا‘‘ والا ماحول ہوتا ہے بلکہ اس کو محلّے داری کا منظر بھی کہا جا سکتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے کُھل کر تعارف کرواتے ہیں۔ موبائل ٹیلی فون نمبرز ایکسچینج کرتے ہیں۔ خواتین 7-8 گھنٹے کی فلائٹ میں آپس میں رشتے داری کر کے اُٹھتی ہیں۔ پی آئی اے کے جہازوں میں فریڈم آف موومنٹ کے حق کا دل کھول کر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ عوامی کلاس کے مسافر جہاز کا اگلا ٹائلٹ استعمال کرنے پر اصرار کرتے ہیں جو پائلٹس اور بزنس کلاس کے مسافروں کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔ وہ بھی اس قدر زیادہ کہ ایئر ہوسٹس کی بات نہ مانتے ہیں اور نہ ہی سننے پر تیار ہوتے ہیں۔ اکثر کیبن کے ''بزرگ پرسَر‘‘ ایسے آزاد مسافروں کو منّت ترلہ کر کے پیچھے اپنے حصّے میں بھیجتے نظر آتے ہیں۔ اس ہوائی آزادی کا مسلسل آزادانہ استعمال اب پی آئی اے کو بہت مہنگا پڑ رہا ہے کیوں کہ اب گوروں کے علاوہ بھی ہر طرح کے غیر ملکی مسافر ہمراہی پاکستانی مسافروں کے اس آزادانہ رویّے سے خوف زدہ ہو چکے اور پی آئی اے میں بیٹھنے سے کتراتے ہیں۔
بہر حال 9 مارچ کی صبح سویرے اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر پہنچ کر مزید حیران ہوا کیوں کہ یہاں پہ ہر مسافر کا ٹریولِنگ انٹرویو ہو رہا تھا۔ ایک ایک شخص کا ٹمپریچر علیحدہ علیحدہ تھرمل گن سے چیک کیا جا رہا تھا۔ بہادر پاکستانی ڈاکٹرز اور جانباز پیرا میڈیکل سٹاف‘ دونوں ہی کورونا سے لڑنے کے لیے پوری طرح تیار تھے۔ ایک بات تو میں بتانا بھول ہی گیا تھا۔ بات یہ تھی کہ ہیتھرو ایئر پورٹ پر روانگی کے وقت مجھے اٹلی، سپین، بیلجیم، فرانس، جرمنی وغیرہ سے ہر طرح کے مسافر جہاز لینڈ کرتے ہوئے نظر آئے۔ ظاہر ہے یہ سب مسافروں سے بھرے ہوئے ہوائی جہاز تھے۔ میں نے طیارے سے باہر آتے وقت فیس ماسک پہن لیا تھا۔ اسلام آباد ایئر پورٹ سے اپنے گھر جانے کے بجائے سیکٹر E-7 میں سیدھا بھائیوں جیسے دوست ہارون نصیر چودھری کے گھر چلا گیا‘ جہاں نیم گرم پانی سے شاور لے کر سارے کپڑے، جرابیں، شوز تبدیل کر لیے۔ لمبے سفر کے دوران پہنی ہوئی سب چیزوں کو ایک بیگ میں پیک کر کے لانڈری کے لیے بھجوا دیا۔ پھر اس کے بعد اپنے گھر پہنچا اور تین دن پاکستان میں گزارے۔
دادی امّاں جی کے قُل شریف کے بعد‘ اگلی صبح میں واپس ہیتھرو ایئر پورٹ کے لیے روانہ ہو گیا جہاں حیران کُن طور پر یورپ کے مختلف ملکوں سے آنے والے جہازوں کی مسلسل لینڈنگ کا سلسلہ جاری تھا۔ لندن کے سب مسافر جانتے ہیں کہ ہیتھرو پہ ہزاروں لوگ لائنوں میں لگ کر اپنی اِمیگریشن کرواتے ہیں۔ جہاز سے اتر کر اِمیگریشن کائونٹر، پھر وہاں سے بیگیج کلیم بیلٹ تک اور پھر پارکنگ میں گاڑی تک کسی اہلکار نے کورونا کے حوالے سے کوئی پروسیجر سِرے سے فالو ہی نہیں کیا۔ نہ کسی مسافر کو چیک کیا نہ ہی کسی کا ٹریولنگ انٹرویو لیا۔ شام کو لندن کے وسط میں واقع لِنکنز اِن واپسی ہو گئی۔ باہر لندن شہر میں لوگ ہیتھرو ایئر پورٹ کے مقابلے میں زیادہ محتاط نظر آ رہے تھے۔ بہت ساروں نے ماسک پہن رکھے تھے اور لیڈیز نے اسکارف یا مفلر بھی لپیٹے ہوئے تھے۔ برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن صاحب یورپی فلائٹیں یو کے میں بند نہ کرنے پر ضِد کر رہے تھے‘ جبکہ موصوف میڈیکل سٹاف سمیت لوگوں سے ہاتھ ملاتے ہوئے بھی نظر آتے رہے۔ میری لندن واپسی کے تیسرے چوتھے دن اچانک انڈر گرائونڈ میٹرو اور انٹر سٹی ٹرین سروس بند کرنے کا اعلان ہو گیا۔ اُسی دن بڑے تعلیمی اداروں نے سٹوڈنٹس کو سٹَڈی سروسز معطّل کرنے کے لیے ای میل نوٹِسز بھجوا دیئے۔ مختلف ایئر لائنوں کی فلائٹس سروسز بھی معطّل ہونی شروع ہو گئیں۔ 
بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ یو کے حکومت کا بہت بڑا اثاثہ لاکھوں انٹرنیشنل سٹوڈنٹس ہی ہیں‘ جن کے یو کے آنے جانے سے، نئے ایجوکیشن سیزَن فال میں داخلوں کے ذریعے برٹش گورنمنٹ کو سال میں 2 مرتبہ بہت بڑی آمدنی ہوتی ہے۔ پھر اس آمدن میں اس وقت مزید اضافہ ہو جاتا ہے‘ جب یہ سٹوڈنٹس بیرونِ ملک سے پائونڈ سٹرلنگ انگلینڈ اینڈ ویلز میں لے کر آتے ہیں۔ کروڑوں سے زیادہ پائوند سٹرلنگ کے خرچ سے سٹوڈنٹس اَکاموڈیشن، ہاسٹلز اور ایجوکیشن سٹی سینٹرز تقریباً 2 صدیوں سے چل رہے ہیں۔ اس لیے یو کے میں غیر ملکی طلبہ کو سرکاری طور پر بہت عزت دی جاتی ہے اور ان کے لیے خصوصی رعایت ہر جگہ موجود ہے۔ ان طالب علموں کو پاسپورٹ یا سفری کاغذات پاس رکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بس صرف ایک سٹوڈنٹ کارڈ کافی ہوتا ہے۔ ان طالب علموں کو بڑی بڑی عالمی رینکِنگ والی یونیورسٹیاں بھی پارٹ ٹائم جاب آفر کرتی ہیں۔ ان سٹوڈنٹس میں سے کئی ایک پارٹ ٹائم جابز کرتے ہیں‘ جن میں اچھے کھاتے پیتے گھرانوں کے لڑکیاں لڑکے بھی خصوصی دل چسپی لیتے ہیں۔ خاص طور سے بڑی لائبریریوں اور اکیڈمک سائیڈ پر ایسی جابز کی اُجرت بہت معقول ہے۔ یہ رقم فی گھنٹہ کے حساب سے بچوں کو مل جاتی ہے۔
چلیے میں آپ کو پاکستان کی ایسی ہی ایک ''ٹاپ جاب‘‘ کا واقعہ بتاتا ہوں۔ میں بابا کے ساتھ محترم وزیر اعظم عمران خان صاحب کو ابھی ملنے گیا۔ وزیر اعظم صاحب نے مجھے لندن میں تعلیم کے حوالے سے اپنے کئی تجربات بتائے۔ پھر عمران خان صاحب نے مجھ سے پوچھا ''عبداللہ یہ بتائو تم نے پارٹ ٹائم کوئی یونیورسٹی جاب ٹرائی کیا؟ تمہارا تجربہ کیسا رہا؟‘‘ وزیر اعظم صاحب کے اس سوال نے مجھے چونکا دیا۔ میں نے تھوڑا سا مُڑ کر بابا کی طرف دیکھا، پھر جواب دیا ''جی ہاں میں نے لائبریری ورک کیا ہے‘‘۔ عمران خان صاحب بتانے لگے ''جن دنوں میں اور میری بہن پڑھنے کے لیے یو کے گئے، اُن دنوں بینکنگ سسٹم نہ ہونے کے برابر تھا۔ پاکستان سے پیسے منگوانا بہت پیچیدہ اور مشکل پروسیجر کے ذریعے ممکن تھا۔ پیسے منگوانے کے لیے طالب علم گھر والوں کو خط لکھا کرتے تھے۔ مجھے لندن میں اپنی پہلی کرسمس سے چند ہفتے پہلے پیسوں کی شدید ضرورت پڑ گئی۔ اتنے کم وقت میں پاکستان سے پیسے آنا نا ممکن تھا۔ اس لیے میں نے آٹھ ہفتے کی پارٹ ٹائم جاب لے لی۔ ساتھ ہی کَزن سے پیسے ادھار لیے مگر پیسے اتنے تھے کہ جن سے میری ہمشیرہ کی ضرورتیں مشکل سے پوری ہو سکیں‘‘۔ پھر وزیر اعظم صاحب ہنس کر کہنے لگے ''عبداللہ میں کنجوس نہیں ہوں۔ میں نے سات سمندر پار پہلی مرتبہ جس طرح پیسے کمائے اُس سے مجھے پیسوں کی اہمیت کا احساس ہو گیا‘‘۔ پھر انہوں سے دورانِ جاب ایک لڑائی کی دلچسپ داستان سنائی جس پر خوب لافٹر آئے۔ یہ قصہ کبھی بعد میں ضرور لکھوں گا۔ اگلے روز بیرسٹر علی ظفر صاحب سے گپ شپ رہی۔ تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیرونِ ملک جانے والے طالب علموں کا ایک تجربہ مشترک ہے۔ انہیں وطن، ماں باپ کے پیسے، کچن میں کھانا پکانے والوں اور کپڑے دھو کر استری کر کے رکھ جانے والوں کی بہت قدر ہوتی ہے۔
ویسے آپس کی بات ہے... میں بھی کنجوس نہیں ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں