"ABA" (space) message & send to 7575

تم ہوتے کون ہو؟

کوروناوائرس ڈرامے بھی کرتا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین کے شہر میں ایک طرح سے حملہ آور ہوا اور مغربی دنیا میں دوسری طرح سے‘جبکہ ایشیا اور افریقہ کے برا عظموں میں ایک علیحدہ انداز سے ۔ہاں ‘مگر اس وبا کا نتیجہ ساری دنیا میں تباہی کے سوا کچھ نہیں نکلا۔
9/11کے واقعات کے بعد کہا جانے لگا تھاکہ ہماری دنیا بدل گئی ہے۔ دنیا بدلنے کے دو بڑے ٹوئسٹ بیان کئے گئے‘ ان میں سے پہلا یہ کہ نیو ورلڈ آرڈر کے نام سے ایک نیا عالمی استعمار سامنے آیا ہے‘ جبکہ دوسرا یہ کہ ہمارا پَلینٹ اب ایک عالمی گائوں یا گلوبل وِیلج میں تبدیل ہوگیا ہے۔یوں ہر واقعے اور ہر سانحے سے لوگ ایک ہی طرح سے متاثر ہوتے ہیں‘لیکن کورونا وائرس نے ایسی ہر تھیوری کو پلٹ کر رکھ دیا ہے۔یہ کوئی چھوٹا کام نہیں ہے‘اس لیے ہم اسے انٹرنیشنل پالیٹکس میں ''کوروناسیاست‘‘ کے طور پر ہمیشہ یاد رکھیں گے۔
COVID-19کے حملہ آور ہونے کے بعد کی دنیا اور9/11کے بعد کا زمانہ بہت سے طریقوں سے مختلف ہے۔مثال کے طور پر 9/11نئی صدی میں ہزاروں میل دور بیٹھ کر دوسرے ملکوں کو ''کالونی‘‘کے طور پر چلانے کا ٹرینڈ سامنے آیا‘جبکہ اس سے پچھلی کئی صدیوں میں '' بُوٹ آن گرائونڈ‘‘ یعنی کسی ملک میں فوجیں اتار کر اسے کالونی بنایا جا سکتا تھا ۔9/11کے بعد یہی کام دنیا کی بڑی طاقتوں کے لیے مقامی طور پر مسلح کئے ہوئے دستے کرنے لگے‘یعنی کرائے کے گوریلے۔لیگ آف نیشنز سے شروع کرکے یونائیٹڈ نیشنز تک سب سُپر پاورز کی جیب کی گھڑیاں ثابت ہوئیں۔جدید ترین بارود رکھنے والے ملکوں نے جس جگہ چاہا حملہ کردیا۔نہ کوئی پوچھنے والا‘ نہ کوئی روکنے والا بلکہ فریاد سُننے والا بھی کوئی نہیں تھا۔9/11کے بعد کی دنیامیں تبدیلی زور زبردستی سے آئی۔قابض فوج باوردی تھی اور ان کے مقامی حامی کرائے کے لشکری۔دونوں کو شناخت کیا جا سکتا تھا اور وہ اپنی پہچان نہیں چھپاتے تھے۔کوروناوائرس کا فوجی مگر دوسرا ہے۔ساری دنیا کے میڈیکل ایکسپرٹ‘وائرس کے ماہرین اور وبا پر کنٹرول کرنے کے لیے اربوں ڈالر سے چلنے والی لیبا رٹریاں‘ابھی تک اس حملہ آوروائرس کو شناخت کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔کوروناکے اس طریقۂ واردات کا ایک پہلو اور بھی ہے۔وہ ہے نئی انٹرنیشنل پالیٹکس کا نیا فیز۔یہ فیز کوروناکے پیٹ سے نکلنے والی سازشی تھیوری کا سو پ سیریل بن کر سامنے آیا ۔اس کی پہلی قسط میں ایک نوجوان کی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس کا ہیئر کٹ فوجیوں والا تھا اور رنگ گورا۔وہ نوجوان ایک پبلک ٹرانسپورٹ بس میں کھڑا تھا۔اس نے مُنہ پر لگا ہوا فیس ماسک ہٹایا اور اپنے مُنہ سے انگلی پر تُھوک لگایا اور اسے بس کے اندر لگے ہوئے مسافر سٹینڈ کے پِلر پر مل دیا۔یہ مسافروں سے بھری ہوئی پبلک ٹرانسپورٹ کی بس تھی جس کے بارے میں تصور یہ پھیلایا گیا کہ بس چین کی ہے اور اس میں سوار شخص گورا فوجی آن ڈیوٹی ہے۔آپ سمجھ ہی گئے ہیں کوروناوائرس پھیلانے کی ڈیوٹی پر ۔اس کے بعد کی کوروناوائرس سازشی تھیوریاں اور زیادہ دلچسپ ہوتی گئیں۔سب سے پہلا کام تو یہ ہوا کہ چین پوری توجہ اور وسائل کے ساتھ اس نئی آفت پر جوابی طور سے حملہ آور ہو گیا ۔ووہان کے قاتل وائرس کو پہلے قابو کیا اور پھر اس کا خاتمہ کر ڈالا ۔ عالمی اداروں نے شروع میں چین کے لیے بُری خبروں کی پوری سیریز چلا دی۔مغرب کے کارپوریٹ میڈیا پر اس مہم کامر کزی نقطہ مسلسل ایک ہی رہا ۔اور وہ نقطہ تھا چائنا کی معاشی ترقی کا خاتمہ اور چائنا کی اکانومی جسے ''رائزنگ جائنٹ‘‘ کہا جاتا تھا‘اس کا بھی خاتمہ‘ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا؛چنانچہ اس امتحان میں پاس ہو کر چین صحیح معنوں میں سُوپر پاور بن کر سامنے آیا۔ایک ایسی سُوپر پاور جس کو اپنی طاقت منوانے کے لیے کسی دوسرے ملک پر فوجی مہم جوئی کی ضرورت نہ پڑی۔جدید دور کی زور آزمائی کرنے والی برادری میں یہ ایک انوکھا تجربہ ثابت ہوا ۔جس کا سب سے پہلا نتیجہ یہ نکلاکہ پبلک ہیلتھ ‘پینڈیمک اور قدرتی ڈیزاسٹر کی مینجمنٹ میں چین عالمی لیڈر بن گیا۔چین کے شہر ووہان کے وبائی ایکسپرٹس آن لائن سیمیناروں میں شرکت کرنے لگے۔ایسے ہی ایک سیمینار میں 40ملکوں کے سپیشلسٹ ڈاکٹرز شریک تھے۔چائنا نے غیر ملکی طلبہ و طالبات کو اپنی سرزمین سے دھکے دے کر باہر نکالنے کی پالیسی بھی نہ اپنائی۔ایسی پالیسیوں کا سب سے بڑا فائدہ خود چین کو ہی ہوا۔اور وہ اس طرح کہ اس کی اپنی آبادی میں خوف اور دہشت کا کوئی مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا ؛چنانچہ پبلک ہیلتھ اور سیفٹی کے ادارے دن رات اپنے کام میں لگے رہے ۔
اس کا دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ چین کو معاشی طور پر پہنچنے والے نقصان کے سارے اندازے غلط ثابت ہوگئے۔یہ وبا کے پہلے چند ہفتوں کی بات ہے ‘ جب امریکہ کی انتظامیہ کے بڑے بھی چین کے تازہ تجربے سے سیکھنے کے دعویدار تھے۔دوسری جانب امریکہ کے اندر کوروناوائرس کی وبا بڑی شدت سے آگے بڑھتی گئی۔شاید اسی دبائو کی وجہ سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا لہجہ اور مؤقف دونوں ہی بدلنے پڑگئے۔دو روز پہلے ایک پریس ٹاک کے دوران صدر ٹرمپ صاحب نے سفارت کاری سے آگے نکل کر بیان داغ دیا ۔امریکی صدر سے سوال کیا گیا تھا کہ کوروناوائرس کے پھیلائو پر آپ کا لہجہ تبدیل ہونے کی وجہ کیا ہے؟اس پر صدر ٹرمپ بولے'' وَیری سِمپل۔ اس کی وجہ ووہان میں چین کی وبائی امراض پر تحقیق کرنے والی لیبارٹری سے نکلنے والا COVID-19وائرس ہے۔اس خطرناک وائرس کو امریکہ میں پھیلا دیا گیا ہے۔جس کا مقصد مجھے الیکشن میں شکست دلوانا ہے‘‘۔صدر ٹرمپ نے چین پر اگلا الزام یہ لگادیا کہ مجھے الیکشن ہروانے کے لیے چین کسی بھی حد تک جا سکتاہے۔صدرِ امریکہ کے اس بیان پر امریکن سکیورٹی کے ذمہ دار ادارے ابھی تک خاموش ہیں۔ امریکی تجزیہ کار بھی اپنے صدر صاحب کے بیان کو ا لیکشن سیاست کی ضرورت ہی کہہ رہے ہیں۔
اب ‘ذراوطنِ عزیز میں کورونابازی دیکھ لیتے ہیں‘ جس سے لڑنے کے لیے دو ٹیمیں میدان میں آئیں۔پہلی ٹی ٹی ٹیم اور دوسری اومنی ٹیم۔دونوں میں بظاہر فاصلہ لاہور سے نواب شاہ جتنا ہے۔اگر تھوڑا سا غور سے دیکھیں تو ان کا ''سکور کارڈ‘‘ بہت ملتا جلتا ہے۔بالکل اسی طرح سے جیسے شوگر اور فالودے کا ذائقہ۔دونوں کا دُکھ اور درد بھی شوگرسے فالودے کے تعلق کی طرح ہے۔ آپ خود سوچئے‘ جس ملک میں کوروناوائرس شروع ہونے کے بعد ڈیلی ویجر مزدوروں کے لیے 200بلین روپے‘ بھوک کے خطرے کی زد میں آئی ہوئی فیملیز کے لیے 144بلین ‘مفت روٹی اور رہائش والی پناہ گاہوں میں اضافے کے لیے چھبلین‘پٹرولیم پرائسز ریلیف میں 70بلین ‘یوٹیلیٹی سٹورز کے سستے سودے کے لیے 50بلین‘بجلی اور گیس کے بلوں میں 110بلین‘گندم کے کاشت کاروں کے لیے280بلین‘زراعت میں چھوٹے اور درمیانے کاشت کاروں کے لیے 100 بلین‘ایکسپورٹ انڈ سٹری ر یلیف میں 100بلین ‘ڈاکٹر ‘نرسز‘میڈیکل ورکرز کے لیے 50بلین‘ہیلتھ اور فوڈ سپلائی پر ٹیکس رعایتمیں15بلین‘ایمرجنسی ریلیف اور ریسکیوکے کاموں کے لیے 100بلین اور NDMAکے لیے 25بلین کیش تقسیم ہوچکی ہو ‘اس کے باوجود شوگر اور فالودے والوں کو لطف نہ آئے تو پھر جمہوریت ہے ناں خطرے میں۔
ایسے میں یہ سوال تو بنتا ہے:''اوئے! تم ہوتے کون ہوہمارے پیٹ پر لات مارنے والے ۔اوئے! تم ہوتے کون ہو بغیر تصویر لگائے ‘اشتہار چلائے‘بائیومیٹرک کے ذریعے ہمارے حلقوں میں پیسے بانٹ کرہمارے ووٹروں کی عادتیں خراب کرنے والی ‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں