"ABA" (space) message & send to 7575

خبرستان

کیوں نہیں! اطلاعات تک رسائی اچھی بات ہے‘ہونی چاہیے۔ دنیا کے کئی براعظموں میں واٹس ایپ‘لائن اوروائبر وغیرہ ایسی سوشل میڈیا سائٹس ہیں جن کے ذریعے سے ساری جگہ مفت کالیں کی جاسکتی ہیں‘ لیکن بہت سے ملکوں میں اس طرح کی کالوں پر پابندی بھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مشرق اور مغرب کے کئی ملکوں میں قتل سمیت سنگین جرائم کی خبریں چلانے کی اجازت نہیں ہے۔اس کی دو بڑی مثالیں ‘دو ترقی یافتہ ملکوں اور کامیاب معیشتوں سے دی جاسکتی ہیں جن میں سے ایک مسلم ہے جبکہ دوسرا غیر مسلم ملک۔ ایک ہمارے اپنے براعظم ایشیا میں واقع ملک متحدہ عرب امارات ہے ‘ اور دوسراملک ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہے۔ یہاں صرف مجرم کو ملنے والی سزا کی خبر چلتی ہے۔ باقی خبر نہ چلانے کی وجہ ریاستی پالیسی ہے‘ جس کا بنیادی تصور یہ رکھا گیا ہے کہ کرائم کو کسی صورت‘ کسی بھی درجے پر گلیمرائز کرنا سوسائٹی کے فیبرک کو تباہ کرنے کے برابر ہے۔ 
ہاں البتہ سوسائٹی کے خلاف اجتماعی جرائم کو پوری طرح بے نقاب اور نشر کیا جاتا ہے تاکہ عام لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ ان کے ملک کو لوٹنے یا بر باد کرنے والا کون ہے۔ ایسی ہی ایک جرم کہانی کا آغاز 3 اپریل 2016 ء سے ہوتا ہے جب دنیا بھر کے معاشی ہِٹ مین بے نقاب ہوئے۔ اس روز پانامہ کی ایک لاء فرم موزیک فانسیکا نے ایک کروڑ 15 لاکھ کاغذوں کا ڈھیر دنیا کے لیے لیک کر دیا جس میں کرہ ارض کے ٹیکس چور‘ منی لانڈرَر اور چھوٹے ملکوں کے قومی اثاثے لوٹ کر آف شور کمپنیوں کے ذریعے انہیں مغرب کے امیر ملکوں میں چھپائے جانے کی تفصیلات کُھل کر سامنے لائی گئیں۔ یہ کئی طریقے سے ایک انوکھی خبر تھی جس کے سامنے آنے کی وجہ سے ''گلیمرائز شدہ لیڈرز‘‘ دنیا بھر میں مُنہ دکھانے کے قابل نہیں رہے‘سوائے ناجائز دولت سے خریدے گئے چند لوکل جتھوں کے‘ وہ اور ان کے خاندان جہاں بھی جائیں چور چور کا شور ان کا پیچھا کرتا ہے۔
سرد جنگ کے زمانے کی دو بڑی طاقتوں امریکہ اور روس کی کھینچا تانی نے اپنے غریب حامی ملکوں اور معاشروں کو مزید غریب کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس بے رحم کولڈ وارکے نتیجے میں جس براعظم کے جس ملک میں بھی ان دو سُپر طاقتوں کی پراکسی جنگ لڑی گئی وہ بربادی کی چلتی پھرتی تصویر بن گیا۔ اگر ہم صرف مسلم ملکوں کی بات کریں تو افریقہ ‘مڈل ایسٹ‘فار ایسٹ اور برّصغیر سے اس کی لرزا دینے والی مثالیں ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں‘ جیسا کہ ہمارے مغربی بارڈر کا پڑوسی مسلم ملک افغانستان جہاں سے مصیبتیں اور پریشانیاں اکثر پاکستان کی طرف بھی ایکسپورٹ کی جاتی ہیں۔ اس طرح کی پراکسی جنگوں میں ملکوں کو ملوث کرنے والے ڈالر پرست لیڈر یا تو غیر قدرتی موت مارے گئے یا پھر بے وطن ہو کر مرے۔افغان جہاد کے نام پر پاکستان کے سینے پر گہرے زخم لگے‘ جن کا علاج ابھی تک جاری ہے۔ اس کے جنگی پہلو تو ہم سب جانتے ہی ہیں اس لیے ان سیاہ کرتوتوں پر مزید کاغذ کالا کرنے کی ضرورت نہیں ۔
اگلے روز کراچی کے ایک کلاس فیلو نے بربادیوں کی ایک چھوٹی سی تصویر بھجوائی جس میں پاکستان کی معیشت لُٹ جانے کے بڑے بڑے دو ثبوت موجود ہیں۔ شایدآپ کو یقین نہ آئے مگر یہ 100فیصد سچ ہے۔ بات سمجھنے کے لیے آپ کو میرے ساتھ ایک اور بر اعظم تک چلنا پڑے گا ۔ یہ ہے ایک ملک اور ایک پورا براعظم آسٹریلیا‘ جس کے مقابلے میں پاکستان بہت چھوٹی سی اکائی ہے۔ آپ یقین کریں کہ پورے براعظم آسٹریلیا میں صرف 13شوگر ملز موجود ہیں۔ اس کے مقابلے میں اپنے ہاں شوگر ملز کی تعداد78 ہے۔ پھر ہمارا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ہماری کھیوڑہ والی نمک کی کان دنیا کی سب سے بڑی سالٹ مائن ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ کھیوڑہ سے لاکھوں کروڑوں میٹرک ٹن کے حساب سے ''پِنک سالٹ‘‘ نکالا جاتا ہے۔ یہ دنیا کا مہنگا ترین نمک ہے۔ ہمارے گائوں میں اگر کسی کے خریدے ہوئے نمک میں سے پِنک نمک کا کوئی روڑا نکل آئے تو ہم اسے گائے اور بھینس کے باڑے میں رکھ دیتے ہیں۔اسے انسانی استعمال کے قابل نہیں سمجھا جاتاجبکہ عالمی کنزیومر مارکیٹس میں یہ مہنگا ترین نمک ہے۔ اب آیئے ‘ تین سر والے سانپ کی طرف جس نے پاکستان کو COVID-19 سے زیادہ زہریلے ڈنک مارے ہیں۔
پہلا ڈنک:کیا آپ جانتے ہیں کہ ہماری نیشنل فلیگ کیریئر ایئر لائن اور دوسری پرائیویٹ ایئر لائینز میں لنچ باکس کے ساتھ جو نمک کا ایک اِنچ والا ساشے ملتا ہے وہ پاکستان میں پَیک نہیں ہوتابلکہ اس کی امپورٹ کا بہت مہنگا ٹھیکہ فار ایسٹ کے ایک ملک کو دیا گیا ہے جو پی آئی اے کے لیے نمک کے ساشے بنا کر بھیجتی ہے۔
دوسرا ڈنک شوگر کے حوالے سے ہے۔ ہماری قومی ایئر لائن میں چینی کا جو چھوٹا سا ساشے پیش کیا جاتا ہے وہ بھی نمک کے ساشے کی طرح ویت نام میں پیک ہوتا ہے۔ پانچ سال میں 11ارب کا ٹیکس دے کر 29ارب روپے کی سبسڈی لینے والی شوگر انڈسٹری کی 78 ملوں کو ساشے بنانے کا ٹھیکا نہیں ملا۔
تیسرا ڈنک گھر کے بھیدی نے مارا ۔وہ ایک ایسے سلیکٹڈ وزیر اعظم تھے جنہیں مری کی پہاڑیوں پر موٹر سائیکل دوڑاتے ہوئے ایئر لائن بنانے کا خیال آگیا۔ صاحبِ موصوف پہلے پی آئی اے کے چیئر مین بنے تاکہ قومی ایئر لائن کو مضبوط کیا جا سکے اور پھر ایک دن اچانک ایک آسمانی ایئر لائن ان کی جھولی میں آگری۔ ان کے 8 مہینے کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں ساشے والا ٹھیکہ ویت نام کے نام چلا گیا۔جس طرح کے کمالات دبئی کی بیوِرلے ہلز ‘لندن کے مے فیئر‘اور نیویارک کی پارک لین سے بر آمد ہوئے ہیں‘ ہو سکتا ہے کسی دن ویت نام سے ہماری کوئی جائز محنت کی کمائی سے بنائی ہوئی شوگر مل بھی بر آمد ہوجائے۔
ان دنوں ہر کوئی وزیر اعظم عمران خان کو مفت مشورے دے رہا ہے ۔کہیں سے لکھ کر اور کہیں سے بول کر۔ بہت سی جگہوں سے چیخ چیخ کر اور دھاڑ دھاڑ کر بھی یہ مفت مشورے برسائے جا رہے ہیں۔ گورننس کے ہر موضوع پر اور کامیاب معیشت کے ہر محاذ پر ۔ ان میں سب سے بڑا مشورہ یہ ہے کہ آپ ماضی کی حکومتوں کا ذکر مت کریں اور نہ ہی منی لانڈرنگ والی وارداتوں کا کھوج لگائیں اور ساتھ ہی وزیر اعظم صاحب سے پونے دو سال میں کار کردگی نہ دکھانے پر استعفیٰ دینے کا شور مچایا جا رہا ہے۔
ویسے بات تو دل کو لگتی ہے۔ اُن معصوم حکمرانوں کا بالکل ذکر نہیں کرنا چاہیے ‘جن میں سے ایک پارٹی کا سربراہ صرف 6دفعہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ رہا۔ بڑے بھائی صاحب ‘پنجاب کے سلیکٹڈ وزیر خزانہ‘پھر سلیکٹڈ وزیر اعلیٰ بننے کے بعد صرف اور صرف تین مرتبہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم مقرر ہوئے۔جناب عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ کے پونے دو سال کے مقابلے میں اس خاندان کا عر صہ اقتدار اتنا کم ہے کہ اس کے مفرور رہبر حکومت کر تے کرتے پڑ نانا بن گئے۔ دوسری پارٹی کے لیڈر صاحب کے نانا دو دفعہ وزیر اعظم بنے۔ والدہ محترمہ بھی دو دفعہ پاکستان کی وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔ ان کے ابّا جی صدر ِپاکستان بن گئے۔ ان کے خاندان کو صوبہ سندھ میں ملنے والے اقتدار کی ساتویں ٹَرم چل رہی ہے۔ اس دوران اتنی ترقی ہوئی کہ قُلفہ بیچنے والے بھی ارب پتی ہو گئے۔اقتدار کے خبرستان کے اس کٹہرے میں عمران خان صاحب کو بھی کھڑا رکھنا ضروری ہے کیونکہ 22ماہ کالمبا اقتدار عمران خان صاحب کے پاس رہا ہے‘ اس لیے ہر بات کا جواب اُن سے ہی مانگنا عین شرافت ہے ۔
ہے عجب چیز یہ شرافت بھی
اس میں شر بھی ہے اور آفت بھی 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں