"ABA" (space) message & send to 7575

سیاست کے ہاؤس آف کارڈز

ہائوس آف کارڈز پہ پہلی کتاب 1989ء میں پبلش ہوئی تھی۔ اصل میں یہ ایک پولیٹیکل تھرلر ناول ہے‘ جس کا مصنف برٹش ناول نگار مائیکل ڈوبز ہے۔ دوسری کتاب معروف بھارتی صحافی برکھا دَت نے ''دی اَن کوائٹ لینڈ ‘‘کے نام سے تحریر کی ہے ۔ یہ تازہ ترین کتاب بھی پولیٹیکل تھرلر ہے‘ کوئی ناول ہر گزنہیں ۔ برکھا دَت نے وہ ساری سچی کہانیاں‘ جو صحافی ہونے کی وجہ سے اس کے علم میں آئیں‘ صاف صاف لکھ دیں۔ان میں بہت بڑی بڑی سیاسی وارداتیں بھی شامل ہیں‘بلکہ یوں کہہ لیں کہ یہ ایسے سچے واقعات ہیں جو بھارت کی اسٹیبلشمنٹ نے اپنی پسند کی وجوہات کے پیش ِنظر پردے کے پیچھے چھپائے ہوئے تھے‘ وہ سب بھی برکھا دَت نے دی اَن کوائٹ لینڈ میں کھول کر بیان کردیا۔
یو کے والے ہائوس آف کارڈز کا مرکزی کردار فرانسس آرکوہارٹ ‘ایک فِکشنل سیاستدان ہے جو برطانیہ کی کنزَرویٹو پارٹی کا چیف وہپ بتایا گیا۔ فرانسس نامی سیاستدان کی ماورائے اخلاق اور آئوٹ لاء‘ سرگرمیوں کی اس کہانی میں اُسے محلاتی سازشوں کا بادشاہ دکھایا گیا۔ ان سازشوں اور سیاسی انجینئر نگ کے ذریعے وہ پہلے حکومتی پارٹی پر قبضہ کرنے کی راہ پر چل نکلااور پھر اس کے بعد پرائم منسٹر آف یونائیٹڈ کنگڈم کی کرسی کی طرف۔یہ پولیٹیکل تھرلر کہانی در اصل انگلش آئرن لیڈی پرائم منسٹرمارگریٹ تھیچر کے اقتدار کے زمانے کی پس ِپردہ فرنگی سیاسی ہیر پھیر کی کہانی سناتی ہے۔ 
دوسری جانب برکھا دَت نے فرنگی راج کی باقیات والی سیاست کے ایشین منیجرز کو بے نقاب کیا ہے۔برکھا دَت کی انگریزی زبان میں لکھی ہوئی تہلکہ خیز کتاب واہگہ بارڈر کے دونوں جانب سیاسی ہائوس آف کارڈز کی کہانی سناتی ہے‘ جو اس کتاب کے صفحہ نمبر 224اور 225پر ان لفظوں میں بیان ہوئی۔
(ترجمہ): '' لیکن کٹھمنڈو پہنچتے ہی وزیر اعظم (نریندر مودی)نے سجن جندال کو فون کیا اور کہا کہ وہ فوراًنیپال کے لیے پہلی فلائٹ پر بیٹھ جائے۔ جندال کو احتیاط سے بارڈر کے اُس پار (پاکستان)اُن کے دوست سے رابطہ کرنے کو کہا گیا۔ اس کے بعد دونوں ملکوں کے پرائم منسٹرز نے جندال کے ہوٹل روم کی پرائیویسی میں خاموشی سے ملاقات کی‘ جہاں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ایک گھنٹہ اکیلے میں ساتھ گزارا۔ اس وقت جموں اور کشمیر کی نازک سٹیٹ کے الیکشنز صرف ایک مہینہ دور تھے اور مودی نے بتایا کہ وہ کچھ فارمل چینلز دوبارہ کھولنے کا آرزومند ہے ‘لیکن وہ ایسا فوراً نہیں کرسکتا۔ شریف (نواز شریف)نے بدلے میں اپنے اوپر لگائی گئی رکاوٹوں کے بارے میں بتایا اور یہ بھی کہا کہ ان کی مقتدرہ سے مذاکرات کرنے کی طاقت آہستہ آہستہ ختم ہوگئی ہے۔ دونوں نے اس بات پہ اتفاق کیا کہ پبلیکلی آگے بڑھنے کیلئے اُنہیں زیادہ سے زیادہ پولیٹیکل سپیس کی ضرورت ہے۔ اس ''under the radarـ‘‘سیاسی ملاقات کے دو مہینے بعد مودی نے ورلڈ کپ کے دوران بے ضرر سی گُڈ لَک ٹائپ کال کی ۔اس کال کی جڑیں مودی نواز نیپال کی سیکرٹ میٹنگ میں ٹریس کی جاسکتی ہیں جہاں دونوں نے اس کارروائی کی شروعات کی تھی۔ میرے لیے اس کہانی کا telling part نیو یارک تک جاتا ہے جس کا پتہ ایک ایسے ڈنر پر چلا جہاں بزنس کمیونٹی کے بڑے نام موجود تھے اور جندال کے اس ثالثی کردار پر معلومات کا ذخیرہ۔ پھر مودی جذباتی طور پر دہلی میں نکالی جانے والی بی جے پی کی ایک الیکشن ریلی میں اچانک پھٹ پڑا ‘جس کا اثر نواز شریف اور منموہن سنگھ کی پہلی ملاقات پر بھی ہوا‘اور مودی نواز آخری ملاقات کے نتائج پر ...ـ‘‘
ان دنوں پاکستان میں لوگوں کیلئے انٹرٹینمنٹ کا نیا سامان سات سمندر پار سے آیا ہے لیکن اس کے فنکاروں کی سربراہی خالص ''دیسی ‘‘ہے۔ آئیے پہلے انگلستان چلتے ہیں جہاں پاکستان کے تا حیات نا اہل وزیر اعظم نواز شریف صاحب نے 3اعلان کئے ہیں۔
پہلا اعلان: یہ کہ وہ پاکستان کوبچانے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس اعلان کی باقی تفصیلات میں اس وقت نہیں جاتے۔ تب بھی اس ہائبرڈ وار کے چند کمانڈوز پر نگاہ ڈالنا ضروری ہے جو اس جنگ کے وار روم میں سارے آپریشن کی نگرانی اور فنانسنگ کے ذمہ دار ہیں۔پہلا کمانڈو نواز شریف صاحب کا سمدھی اسحاق ڈارہے‘ جو پوری جرأت اور دلیری سے سرکاری جہاز میں بیٹھ کر ملک سے فرار ہوا تھا۔ سمدھی صاحب پوری ثابت قدمی سے بیمار ہیں۔ ایسے زبردست بیمار کہ ہر روز میڈیا ٹاک کرتے ہیں یا نواز شریف کی میڈیاٹاک میں نظر آتے ہیں لیکن ابھی تک پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا میں حلف اُٹھانے کیلئے واپس نہیں آئے۔بلکہ سچ یہ ہے کہ وہ پاکستان کی سرزمین کا نام سُن سن کر تھر تھر کانپتے اور چھپتے پھرتے ہیں۔ دوسرے کمانڈو صاحب امریکہ میں موجود ہیں‘جہاں وہ ابا کی طرف سے لابنگ کرتے ہوئے ڈیموکریٹ پارٹی کی کامیابی کیلئے اپنے دادا کی 100فیصد محنت والی کمائی میں سے انویسٹمنٹ کر رہے ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی اور نواز شریف صاحب کے چھوٹے بھائی ‘دونوں کے بیٹے بھی مے فیئر میں لیٹ کرپاکستان کو بچانے کیلئے دن رات مصروف ہیں۔ نواز شریف صاحب کی طرف سے پاکستان کو بچانے کیلئے یہ ہے کور ٹیم جس کے زور پر وہ قوم سے کہہ رہے ہیں کہ وہ گھر سے نکل کر فوراً سڑکوں پر آجائے۔ ملک کے سارے ادارے چونکہ ان کی نظر میں ناکام ہو چکے ہیں ‘اس لیے گلّو بٹ فورس فوری طور پر ٹریفک اور گاڑیاں دونوں سنبھال لے۔ اس کال پر مسلم لیگ (ن)پنجاب چیپٹر کی نگرانی میں 12کروڑ آبادی والے صوبے اور لاہور کے دو‘ڈھائی کروڑ شہریوں نے کتنی توجہ دی؟ اس کا ثبوت لاہور کی ٹی وی سکرینوں نے پوری قوم کو دکھادیا۔
یہ خیر سے اس عظیم الشان لشکر کشی کا نتیجہ تھا کہ (ن)لیگ کو 1988 والا جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ پھر سے لگانا پڑگیا۔ یہ نعرہ لگانے والوں کو اور پھر یہ نعرہ سننے والے لاہوریوں کو ماڈل ٹائون 1اور ماڈل ٹائون2یاد آگئے۔سنا ہے قتل عام کی دونوں وارداتوں کے شہدا‘ مرد ہوں یا خواتین اور بچے ‘ سارے کے سارے پنجاب سے ہی تھے۔پنجاب کی عزت افزائی کے بَین ڈالنے والوں نے یقینا ماڈل ٹائون کے سارے شہیدوں کو اپنی اپنی پگ میں سپرد خاک کیا ہوگا۔آخر کوئی تو ہے جو پنجاب کی پگ پر داغ نہیں لگنے دیتا۔وہ عدالتی مفرور ہوں یا پھر این آر او کے معذور ‘وہ ہمیشہ پنجاب کی پگ کو داغ لگنے سے پہلے جدّہ پہنچ جاتے ہیں یا مے فیئر۔ 
دوسرا اعلان نواز شریف صاحب کے لبرل ڈیموکریٹ باغی لیڈر ہونے کاکُھلا کُھلاثبوت ہے۔ پی ڈی ایم کی سربراہی کیلئے مولانا صاحب جیسے کھرے ڈیموکریٹ کو نامزد کرنا شرافت کے ہائوس آف کارڈز کا اہم ستون ثابت ہوا ہے۔برطانیہ کی جمہوریت پر اس تڑکے کی تائید کرنے والی دوسری بڑی پارٹی پی پی ہے۔ اب کوئی یہ نہ سمجھے کہ نواز شریف کے تاجرانہ ذہن نے رونق کیلئے ''رینٹ اے کرائوڈ‘‘ کا پتہ مارا ہے۔ تیسرا اعلان یہ تھا کہ اپنے ہاتھوں سے کہوٹہ والا ایٹم بم ‘امریکہ والا کروز میزائل اور وہ سب کچھ جو انہوں نے حب الوطنی میں بنایا انہیں سب یاد ہے‘ماسوائے مے فیئر اپارٹمنٹس اور پارک لین والی جائیدادوں کی ملکیت کے۔
ہائوس آف کارڈز سیاست کا ہو یا شرافت کے لبادے میں‘ اسے ہلکی سی آنچ بھی خاک بنادیتی ہے۔ فی الحال نہ مارشل لاء کا موسم ہے نہ ہارس ٹریڈنگ کا سیزن ‘ایسے میں نواز شریف صاحب ہلکی سی آنچ کا بھی رسک نہیں لے سکتے۔شہباز شریف پہلے ہی لاہور ہائی کورٹ سے ضمانت کی درخواست واپس لے کر حفاظتی پناہ میں جا چکے ہیں۔
ہائوس آف کارڈ زگرنہیں رہا ‘گر چکا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں