"ABA" (space) message & send to 7575

کمرشل کورٹس، امید اور قائد

میں یہ بالکل نہیں کہنا چاہتا کہ اسے بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا۔ جو ہوا وہ بہت اچھا ہے، اور جسٹس کے انٹرنیشنل سٹینڈرڈز کے عین مطابق۔ ویسے بھی اپنے ہاں اچھی خبر کو کم ہی خبر سمجھا جاتا ہے۔ پبلک پالیسی سازی میں سب سے سستا نعرہ یوں ہے: یہ تو میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا۔ اسی کی دوسری سائیڈ ایسے بولتی ہے، یہ 70 سال پہلے کیوں نہیں ہوا؟
آئیے یہ روایت بدل دیتے ہیں کیونکہ پنجاب کی سب سے بڑی آئینی عدالت نے کمرشل کورٹس قائم کرکے آلٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزولوشن کے ساتھ ساتھ کامرس، بزنس اور ٹریڈ کی دنیا میں حصول انصاف کے متبادل فاسٹ ٹریک نظام بنا دیا۔ اس سے آئوٹ آف باکس تقلید کے قابل راستہ کُھلا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے آنرایبل جج، مسٹر جسٹس شاہد وحید صاحب نے نظامِ انصاف کے اس اہم لینڈ مارک کے موقع پر اپنی گفتگو کو خیالات، اُمیدیں اور تجاویز کہہ کر بیان کیا‘ جن کے ذریعے کمرشل کورٹس بہتر طریقے سے انصاف کی فراہمی کر سکیں اور رول آف لاء کو مضبوط بنا سکیں۔
جناب جسٹس نے گفتگو کو بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒ سے دل نشین انداز میں منسوب کرتے ہوئے کہا کہ آج 11ستمبر ہے۔ آج کے دن قائد اعظم محمد علی جناح کا انتقال ہوا تھا‘ مجھے لگتا ہے کہ یہ اُن کے وہ الفاظ یاد کرنے کا بہترین موقع ہے، جو انہوں نے 28 دسمبر 1947 کے دن کہے تھے‘ اور جو آج بھی ہمارے لیے رہنمائی کا باعث ہیں‘ جو پاکستان کی 73 سالہ تاریخ کا روڈ میپ بھی ہے اور ایک مسلسل سچائی بھی۔
''ہم آگ سے گزر رہے ہیں، سورج کی روشنی ابھی ہم پر پڑنی ہے‘ لیکن مجھے اس بات پہ بالکل شک نہیں ہے کہ اگر ہم میں اتحاد، ایمان اور نظم و ضبط ہو تو دنیا کی کسی بھی قوم کے ساتھ ہمارا موازنہ ہو سکتا ہے۔ کیا آپ آگ سے گزرنے کے لیے تیار ہیں؟ آپ کو یہ فیصلہ ابھی کرنا ہو گا۔ ہمیں انفرادیت اور حقیر حسد کو ختم کرکے، اپنے ذہن میں یہ بات بٹھانی ہے کہ ایمانداری اور وفاداری سے لوگوں کی خدمت کرنی ہے۔ ہم ایک ایسے وقت سے گزر رہے ہیں جس میں خوف، خطرہ اور ڈر ہے۔ ہم میں ایمان، اتحاد اور نظم و ضبط ہونا ضروری ہے‘‘۔ 
بیرسٹر حضرت محمد علی جناح ؒ کے ان خیالات کی سچائیوں کو جسٹس شاہد وحید نے کمرشل کورٹس کی تشکیل سے جوڑتے ہوئے بتایا: بانیٔ پاکستان کے یہ ایسے تاریخی الفاظ ہیں جو بعد میں ہمارا قومی motto بن گئے یعنی ایمان، اتحاد اور نظم و ضبط۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ اسی کی وجہ سے ہم کمرشل کورٹس کی تشکیل کی طرف جا پائے۔ اب میں آپ کو اپنے انسٹیٹیوشن کے ایمان کے بارے میں وضاحت دینا چاہوں گا۔ عدلیہ کا نظم و ضبط اور ادارہ جاتی مقصد یہ ہے کہ کیا ہم اپنے ملک میں معاشی خوشحالی لانے کے لیے متحد ہیں؟
جسٹس صاحب نے قومی معاملات میں فیصلہ سازی، پالیسی سازی اور راج نیتی کا حوالہ بھی دیا۔ کہا: یہ ایک عام تجربے کا معاملہ ہے کہ روزانہ کی زندگی میں درپیش مشکل معاملات میں سے ایک فیصلہ سازی ہے۔ جب کوئی اس کام سے کتراتا ہے، تو معاملہ کورٹ میں جاتا ہے، جہاں بالآخر فیصلہ ہوتا ہے، اور وہ بھی پبلک کے سامنے۔ یہ بھی ایک سچائی ہے کہ جب کوئی فیصلہ تاخیر کا شکار ہوتا ہے تو انسانی سرگرمیوں میں رکاوٹ آ جاتی ہے‘ جس کا سٹیٹ کی معاشی زندگی پہ منفی اثر پڑتا ہے اور اس کا اختتام غربت سے ہوتا ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ جب غربت کی جڑیں مضبوط ہو جاتی ہیں تو خوشحالی، خوشی اور لوگوں کی فلاح و بہبود پہ گرہن لگ جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اکثر کہا جاتا ہے کہ عدلیہ، rule of law کے لیے بہت اہم ہے اور خاص طور پر معاشی ترقی کے لیے۔ ایک ایماندار، موثر اور قابل عدلیہ معاشی ڈویلپمنٹ کے لیے بہت ضروری ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک کمزور جوڈیشل سسٹم میں معاشی ڈویلپمنٹ یا تو سست ہوگی یا بالکل نہیں ہوگی۔ ہم اس سچائی سے واقف ہیں اور اس لیے میرے انسٹیٹیوشن کا ماننا ہے کہ کوئی بھی ایسا سسٹم جو substance کے بجائے form کو افیکٹ دے اور substantive rights کو پیچھے چھوڑدے، ایسا سسٹم ڈیفیکٹیو ہے۔ آئیڈیل ہمیشہ ایک ایسا سسٹم ہونا چاہئے جو ہر انسان کو اُس کا حق دلوائے۔
اسی تسلسل میں جسٹس صاحب نے ہماری تاریخ کی ایک اہم جوڈیشل نظیر بھی پیش کی۔ آپ نے امتیاز احمد کیس میں سپریم کورٹ کے ایسے فیصلے کا حوالہ دیا جو 1963 میں جاری ہوا۔ مجھے یہ فیصلہ اور کمرشل کورٹس کا قیام اس لیے بھی بہت اہم لگا کہ چند مہینے پہلے مجھے خود بھی یو کے واپس جانا پڑا تھا جہاں پہ میں نے آلٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزولوشن اور ادَر ڈسپیوٹس ریزولوشن کی گلوبل سرٹیفکیشن کو اللہ کے فضل سے مکمل کیا۔ بات ہو رہی تھی جسٹس شاہد وحید کی جانب سے امتیاز احمد کیس کے حوالے کی‘ جوتاریخی حقائق اور آنے والے عشروں میں جسٹس سسٹم کو درپیش چیلنجز کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔ جس میں تین اشاریے یہ دیئے گئے:
نمبر1: انٹرنیشنل ریگولیشن آف کامرس کی طرف توجہ میں اضافہ۔
نمبر2: لبرل گلوبل آرڈر سے رہنمائی حاصل کرنا۔
نمبر3: ڈسپیوٹ ریزولوشن کا راستہ ۔
جسٹس صاحب نے پنجاب میں کمرشل کورٹس کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ان کمرشل کورٹس کے Mechanism میں جدید فیچر کا مقصد لوگوں کو جلد از جلد انصاف دلوانا ہے تاکہ انصاف میں تاخیر کا خاتمہ ہو۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ لاہور ہائیکورٹ نے Specialized Dispute Resolution Mechanism کو کمرشل تنازعات کیلئے کمرشل کورٹس قائم کرنے کی صورت میں بہت اہم پیش رفت کہا ہے‘ جس نے ایگریمنٹ اور معاہدوں کو نافذ کرنے کے پروسیجر میں بہتری لانے کا راستہ نمایاں کر دیا ہے۔
کمرشل کورٹس قائم کرنے کے مقاصد اور نتائج بیان کرتے ہوئے جسٹس شاہد وحید نے اس سسٹم کے بارے میں بتایا کہ یہ انویسٹر کانفیڈینس بڑھانے کا راستہ کھولے گا، اور فیصلہ سازی میں تاخیر کو بھی کم کرے گا کیونکہ اس کی وجہ سے سوِل ڈسپیوٹس اور کمرشل ڈسپیوٹس علیحدہ ہوگئے ہیں؛ چنانچہ ان تنازعات کے فیصلے کا ٹائم بھی کم ہوگیا۔ 1973 کے پاکستانی آئین کے مقصد کے مطابق، یہ پاکستان کے لوگوں کی مرضی ہے کہ ایک ایسا آرڈر قائم کیا جائے، جس میں بنیادی حقوق گارنٹی شدہ ہوں۔ ان رائٹس میں قانون کے سامنے مواقع اور سٹیٹس کی برابری ہو، اور سوشل، معاشی اور سیاسی انصاف بھی ہو۔ یہ اس لیے کہ پاکستان کے لوگ خوشحالی کی طرف جا سکیں اور عزت کے ساتھ اپنی جگہ اس قوم اور دنیا میں بنا سکیں اور عالمی امن، ترقی اور خوشحالی میں بھی شریک ہو سکیں۔
پاکستانی جوڈیشل سسٹم کے بڑوں کی اس اہم نشست میں اہم ترین بات پاکستان میں ریاستی اداروں کے بارے میں ہوئی۔ جسٹس صاحب نے بہت اچھے انداز میں ریاستی اداروں میں ہم آہنگی کی ریاستی ضرورت کو بیان کیا۔ آپ نے کہا: عدلیہ نہ صرف اپنی درجہ بندی(hierarchy) کی وجہ سے جڑی ہوئی ہے، بلکہ یہ پاکستانی عوام کی مرضی کو پورا کرنے کے لیے سٹیٹ کے دوسرے آرگنز کے ساتھ ہے۔ یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ماڈرن ریگولیٹری سٹیٹ میں قانون پوری طرح سے اکانومی سے جڑا ہوا ہے۔ اس لیے بزنس ریگولیشن محض تاجروں کے درمیان تنازعات کو سیٹل کرنے کی حدتک نہیں رہا۔ تنازعوں کو سیٹل کرنا اب ایک اہم جوڈیشل فنکشن ہے۔ کمرشل تنازعات کی جلد سیٹلمنٹ پاکستان کے بزنس فرنٹ کے لیے بہت ضروری ہے۔
آیئے جسٹس صاحب کی اس خواہش کو دعا بنائیں کہ میرے اور دوسرے لوگوں کے پاکستان کو بلندیوں پہ دیکھنے کے خواب ضرور پورے ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں