"ABA" (space) message & send to 7575

آر نہ پار

یہ خاندانی وراثت کی تقسیم کا جھگڑا تھا یا ریاست کی تنظیم کا فیملی فنکشن؟ آئیے اندر چل کر دیکھتے ہیں فیصلہ کیسے ہوا۔ دوسری‘ تیسری نسل کے وراثتی سیاست کے سرمایہ کاروں نے پانچ گھنٹے تک ٹی وی چینلز پر بریکنگ نیوز بنائے رکھی۔ اس عرصے میں محنت کش میڈیا رپورٹر‘ میڈیا بریفنگ کے نام پر یرغمالی بنے رہے۔ میٹنگ کے بعد تینوں پارٹی لیڈرز محمود و ایاز کی طرح ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے۔ یہ تصویر دیکھ کر کسی نے سوشل میڈیا پر کہا: ایک کے پاپا پاکستانی عدالتوں سے مفرور ہیں‘ دوسرے کے ڈیڈی اومنی گروپ کے بوجھ سے معذور ہیں اور تیسرے مولانا اپنے والد صاحب کے سیاسی گروپ کے کمیٹڈ وارث ہیں۔ پاپا‘ ڈیڈی اور مولانا کو ملائیں تو انگریزی میں پی ڈی ایم بن جاتا ہے۔ پی ڈی ایم لیڈرز پانچ گھنٹے تک میٹنگ کرتے رہے۔ اس میٹنگ کا مینیو ٹی وی سکرینز دکھا چکی ہیں‘ اس لیے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ اسلام آباد کے سورسز کہتے ہیں کہ پی ڈی ایم کے سارے لیڈروں نے پوری دیانت داری سے ایک دوسرے کی خواہشوں اور ضرورتوں کو آر پار کر کے رکھ دیا‘ اسی لیے پانچ گھنٹے کی میٹنگ کے بعد صرف پانچ منٹ کے لیے میڈیا بریفنگ کی‘ جس کے بعد صرف دو عدد میڈیا رپورٹروں کے ہلکے پھلکے سوال لے کر پی ڈی ایم والے کیمرہ سپاٹ سے آئوٹ ہو گئے۔
خواتین و حضرات! یہ تھا وہ آر یا پار‘ جس کے لیے لندن میں مفرور لیڈروں کی سیاسی وارث لیڈی صاحبہ کی گفتگو ٹی وی کیمروں پر فوگ کی طرح چھائی ہوئی تھی۔ جاننے والے جان گئے ہیں کہ اسلام آباد میں پی ڈی ایم کی میٹنگ ضیاالحق کے ریفرنڈم کا ایکشن ری پلے تھا‘ جس میں اکثر اداکار خاندانی طور پر ضیاالحق صاحب کی سیاسی نرسری کے گملے میں اُگ کر سرکاری مال پر جوان ہوئے۔ عوامی شاعر حبیب جالب کے لفظوں میں ایکشن ری پلے یوں ہے!
کچھ مایوس سے چہرے تھے 
سچائی کا ماتم تھا
مریم صاحبہ کے اعلان کردہ آر یا پار پروگرام کی چند جھلکیاں یوں سامنے آئیں۔
پہلی جھلکی: ہم قسم کھا کر کہتے ہیں کہ اس نظام کو نہیں چلنے دیں گے‘ یہ تھا پری اجلاس مؤقف جو (ن) لیگ کی ایک کارنر میٹنگ میں لیڈروں نے بیان کیا۔ آگے بڑھنے سے پہلے آئیے آئین کا آرٹیکل 52 دیکھ لیتے ہیں جس کے تین ضروری حصے یہ ہیں:
پہلا حصہ کہتا ہے کہ قومی اسمبلی کی زندگی کا عرصہ پانچ سال کی ٹرم ہے۔ دوسرا حصہ بتاتا ہے کہ قومی اسمبلی کی یہ پانچ سالہ ٹرم اسمبلی کی پہلی میٹنگ منعقد ہونے کی تاریخ سے شروع ہو جائے گی۔ تیسرا حصہ قومی اسمبلی کو تحلیل یا ختم کرنے کے دو آئینی راستوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ ان میں سے پہلا راستہ پانچ سال کی ٹرم مکمل کرنے کے بعد قومی اسمبلی کی آٹومیٹک تحلیل کا ہے جبکہ دوسر ا راستہ قومی اسمبلی کو توڑ دینے کا ہے۔
قومی اسمبلی کو توڑنے کا اختیار کسی زمانے میں صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پاس ہوا کرتا تھا‘ لیکن کانسٹی ٹیوشن میں 18ویں ترمیم کے ایکٹ نمبر 10 کے پاس ہونے کے بعد یہ اختیار اب صرف اور صرف ملک کے پرائم منسٹر کے پاس سیف ڈیپازٹ میں جا چکا ہے اس لیے نہ تو کوئی آئینی عدالت قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا حکم جاری کر سکتی ہے ‘ نہ ہی کسی اور ملکی ادارے کے پاس یہ آئینی اختیار ہے کہ وہ قومی اسمبلی کو توڑے‘ بلکہ قومی اسمبلی اگر خود اپنے آپ کو توڑنا چاہے تو وہ بھی ایسا کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ اب صرف وزیر اعظم صاحب اگر ایسا مناسب خیال کریں تو وہی قومی اسمبلی کو توڑنے کا فیصلہ کر کے اُسے توڑنے کی ایڈوائس صدر مملکت کے پاس بھجوا سکتے ہیں۔ یہاں اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ صدر پاکستان پرائم منسٹر کی ایڈوائس جاری ہونے کے بعد 48 گھنٹے میں ہر حال میں اسمبلی کو توڑنے کے پابند بنا دیئے گئے ہیں‘ اس لیے ان واضح آئینی ہدایات کی روشنی میں کسی سیاسی پارٹی یا پارٹیوں کے جتھے کی جانب سے اجتماعی استعفیٰ دینے کی وجہ سے نہ حکومت ٹوٹتی ہے اور نہ ہی اسمبلی کو تحلیل کیا جا سکتا ہے۔
دوسری جھلکی: آر یا پار کی دوسری جھلکی دو حصوں میں سامنے آئی ہے۔ پہلا یہ کہ ''قائد اعظم ثانی‘‘ صاحب کی وراثتی گھریلو مسلم لیگ‘ جسے حرفِ عام میں خود نواز شریف صاحب (ن) لیگ کہتے ہیں‘ نے لسانی و عصبی تقسیم کا نعرہ لگا دیا۔ پارٹی کی کارنر میٹنگ میں تختِ لاہور سے محروم ہونے کے بعد اس کے لیڈر لاہور میں ہی جاگ پنجابی جاگ کے نعرے لگاتے ہوئے نظر آئے۔ یہ کارنر میٹنگ لاہور کے جلسے کے لیے پبلک بھرتی مہم کے سلسلے میں منعقد کی گئی۔ بات یہیں نہیں رکی‘ یہاں تک کہہ دیا گیا کہ سندھی جاگ چکے ہیں‘ پشتون جاگ چکے ہیں‘ بلوچ جاگ چکے ہیں‘ خدا کا واسطہ ہے پنجابیو تم بھی جاگو اور پنجاب کی عزت کو بچاؤ۔ ایسے ہی نعرے 90 کے عشرے میں نواز شریف صاحب نے ''جاگ پنجابی جاگ‘ تیری پگ نُوں لگ گیا داغ‘‘ کہہ کر لگوائے تھے‘ جس کے بعد پنجاب کی عزت اور ناک دونوں کٹنے سے بچانے کے لیے پوری شریف فیملی اپنے پسندیدہ باورچی ساتھ لے کر جدّہ کے سرور پیلس میں جا پہنچی تھی۔ یہاں اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا بہت ضروری ہے کہ خطۂ پوٹھوہار سے لے کر رحیم یار خان تک کہیں بھی پنچابی نیشنل ازم کے نام پر سیاست نہیں ہوتی۔ یہی ملک کی وحدت کی سب سے بڑی نشانی ہے‘ وہ بھی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں۔ اس مہم کا دوسرا حصہ وہ تھا جب اسی طرح کی کارنر میٹنگ میں (ن) لیگی لیڈرشپ نے قسم کھا کر کہا کہ ہم یہ نظام نہیں چلنے دیں گے۔ اس طرح کے نعرے مارنے والے جنرل ضیا صاحب کی سیاسی باقیات ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان کا نظام چار اداروں پر مشتمل ہے: جوڈیشل سسٹم‘ ایگزیکٹیو اتھارٹی‘ پارلیمانی ہائوسز اور ڈیفنس آف پاکستان کے ادارے۔
ذرا خود سوچئے‘ جو اس آئینی نظام کو نہ چلنے دینے کی قسمیں کھا رہے ہیں وہ ملک میں پھر کوئی ماورائے آئین سسٹم چاہتے ہیں۔ ایسا سسٹم جس میں وہ پھر سے پنجاب کی ناک بچانے کے لیے مے فیئر کے اپارٹمنٹس بچا کر رکھ سکیں۔ تیسری جھلکی سب سے بڑا لطیفہ ہے‘ اپنے استعفے اپنی ہی جیب میں جمع کرنے والا۔ کون نہیں جانتا کہ پارلیمنٹ کی ممبر شپ سے استعفیٰ دینے کے لیے آئین میں طریقہ کار درج ہے۔ یہ ہے 1973ء کے آئین کا آرٹیکل نمبر 64‘ جس کی پہلی شق میں استعفے کا طریقہ اور فورم دونوں لکھے گئے ہیں۔ پارلیمان کا کوئی بھی رکن اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا استعفیٰ صرف اور صرف سپیکر کو دے گا۔ ما سوائے ممبر سینیٹ آف پاکستان کے جو اپنا استعفیٰ چیئر مین سینیٹ کو پاس پیش کرے گا۔ اس کی پارلیمانی مثال 2013ء کی اسمبلی سے ملتی ہے جب ملتان کے ایم این اے (اُس وقت پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی) جاوید ہاشمی صاحب نے قومی اسمبلی کے فلور پر استعفیٰ دینے کا اعلان کیا۔ وہ اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا استعفیٰ پہلے ہی سپیکر ایاز صادق کے پاس جمع کروا چکے تھے۔ جب انہوں نے استعفے کی کنفرمیشن سپیکر کے سامنے کر دی تو ان کا استعفیٰ منظور ہو گیا۔ استعفے‘ سسٹم‘ حکومت ‘ سب اپنی اپنی جگہ کھڑے ہیں‘ یعنی نہ کچھ آر ہوا نہ کچھ پار۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں