"ABA" (space) message & send to 7575

ڈِس اِنفو لیب اور مودی کا ایجنڈا …(2)

یورپی یونین نے ففتھ جنریشن سائبر کرائم جنگ میں کرائے کے گوریلوں کے خلاف ای یو ڈِس اِنفو کے نام سے تحقیقاتی ادارہ بنا رکھا ہے۔ اس ادارے کی ایک اِنویسٹی گیشن میں انکشاف ہوا کہ یورپی پارلیمان کے حوالے سے خبریں شائع کرنے کے لئے مشہور EP Today نامی جریدہ، Russia Today اور Voice of America کی خبریں اپنی بنا کر چھاپ رہا ہے۔ اس انکشاف نے ہلچل مچا دی؛ چنانچہ مزید تفتیش کار اِن خبروں کی اشاعت کے پیچھے موجود ہاتھ کو ڈھونڈنے نکل پڑے۔ مزید تحقیقات سے ظاہر ہوا کہ اس جریدے کا کنٹرول اور فنڈنگ، انڈین سٹیک ہولڈرز کے ہاتھ میں ہے۔ اینٹی پاکستان بھارتی لابی کا کُھرا ملنے کے بعد تفتیش کار مزید آگے بڑھے تو ان کو پتہ چلا کہ بھارتی سٹیک ہولڈرز کے تعلقات ''شری واستوا‘‘ نامی ایک بہت بڑے نیٹ ورک کے تحت کام کرنے والی این جی اوز، بہت سے تھنک ٹینکس اور ان سے منسلک افراد سے ہیں۔
اس طرح سے ای یو ڈِس اِنفو لیب کا کھوج آگے بڑھتا چلا گیا جس کے ذریعے شری واستوا نیٹ ورک میں شامل 250 سے زیادہ فیک ویب سائٹس سامنے آگئیں۔ یہ ویب سائٹس مرے ہوئے لوگوں کے نام پر بنے پرانے اور غیر فعال، یا فیک آئی ڈی کے نام پر چلنے والے اخبارات سے، انڈین بیانیے کی حمایت میں خبریں گھڑ رہی تھیں۔ ان خبروں کو مغربی دنیا کی انویسٹی گیٹیو رپورٹس بناکر پاکستان مخالف مواد سے بھر دیا جاتا۔ پھر ایسی فیک نیوز کو غیر جانبدارانہ ظاہر کرنے کے لئے شری واستوا سائبر کرائم سنڈیکیٹ کے تحت کام کرنے والی فیک این جی اوز کی مہم کا ٹائٹل مل جاتا۔ ان فیک نیوز ویب سائٹس میں سب سے زیادہ معروف ٹائمز آف جینوا تھی‘ جس کا سنگل پوائنٹ ایجنڈا اینٹی پاکستان فیک نیوز اور پوائنٹڈ ویڈیو انٹرویوز کے ذریعے اقوام متحدہ کے عہدیداروں کی توجہ حاصل کرنا تھا۔
مزید آگے بڑھتے ہوئے ای یو ڈِس اِنفو لیب نے 13نومبر 2020 کو شری واستوا نیٹ ورک کی مجرمانہ سرگرمیوں کو پبلک کردیا۔ اس کے بعد برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے ٹائمز آف جنیوا کی ویب سائٹ پر دیئے گئے نمبرز پر بار بار کال کرکے رابطہ کرنے کی مسلسل کوشش شروع کردی لیکن بی بی سی کے رپورٹرز کو کسی بھی کال کا جواب نہ مل سکا۔ ای یو ڈِس اِنفو لیب کا ابتدائی انکشاف سامنے آنے کے صرف 6 دن کے اندر اندر ٹائمز آف جنیوا نے خبریں شائع کرنے کا سلسلہ مکمل طور پہ بند کردیا۔ پھر ان فون کالز سے تنگ آکر اس ادارے نے اپنا یو ٹیوب چینل بھی بند کردیا‘ جس کے بعد ٹائمز آف جنیوا کا ٹویٹر اکائونٹ بھی معطل کردیا گیا۔
ہمارے ہاں کچھ مغرب پرست، مغرب سے آنے والی ہر رپورٹ کو آزادیٔ اظہارِ رائے کی آخری سچائی سمجھ کر خوب اُچھالتے ہیں۔ ایسی اینٹی پاکستان ڈِس اِنفارمیشن کی فیک نیوز ڈھونڈنے کے بجائے کریڈیبلٹی تلاش کی جاتی ہے۔ اس خطرناک کام میں شری واستوا گروپ کا پیڈ کانٹینٹ تو 100 فیصد شامل ہوتا ہی ہے‘ لیکن کچھ لوگ ٹیبل سٹوری کے شوقین ہونے کی وجہ سے اپنی ہی ریاست کے خلاف مہم میں شریک ہوجاتے ہیں۔ مزید بدقسمتی یہ کہ اسے فریڈم آف ایکسپریشن اور مغرب کی معیاری صحافت کہہ کر بلکہ بڑھا چڑھا کر اس کی پبلسٹی کی جاتی ہے۔ ایسی وارداتوں کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر فیک نیوز کے خلاف کام کرنے والے مشہور تحقیق کار، کارل مِلر نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ماضی میں بھی ایسے تجربات دیکھنے میں آئے‘ لیکن یہ فیک نیوز نیٹ ورک اس لئے بالکل مختلف ہے کہ اس میں نیٹ ورک کے کارندوں نے میڈیا پر اثر انداز ہونے کے بجائے، خود کو میڈیا بنا کر پیش کردیا۔ 
فیک نیوز کا اثر و رسوخ کس خوفناک حد تک ہو سکتا ہے، آئیے یہ بھی جان لیں۔ ای یو ڈِس اِنفو لیب کے مسٹر Alexandre Alaphilippe بھی یہ جان کر حیران رہ گئے۔ مسٹر Alaphilippe کہتے ہیں ''یورپی پارلیمان کے ممبران نے براہ راست اس نیٹ ورک سے جُڑے ہوئے لوگوں اور ویب سائٹس سے اَز خود رابطہ کیا۔ پھر ان کے بیانیے کو آگے بڑھانے کے لئے یورپی پارلیمنٹیرینز نے مظامین لکھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ فیک نیوز نیٹ ورک کی جانب سے اُن کو بیرون ملک دوروں کی دعوتیں بھی ملیں، جو انہوں نے قبول کرلیں۔ فیک نیوز کے بیانیے کو یورپی پارلیمان کے اراکین نے پارلیمان میں بھی کئی بار پیش کیا‘‘۔
فیک نیوز پر کام کرنے والے ایک اور ممتاز محقق ریمنڈ سیراٹو بھی کھل کر بولے ہیں۔ مسٹر ریمنڈ کا کہنا ہے: اس نیٹ ورک کی ایک انوکھی بات یہ تھی کہ ان لوگوں نے ان فیک نیوز ویب سائٹس کی مدد سے اپنے اثرورسوخ سے یورپی پارلیمان کے عہدیداروں کو بھی قابو کرلیا۔ فیک نیوز نیٹ ورک نے یورپی پارلیمنٹ کے بڑوں کو بڑی کامیابی سے اپنے جال میں پھنسایا اور ان کو یقین دلا دیا کہ ان کے مقاصد حقیقی ہیں۔ مسٹر ریمنڈ نے یورپی پارلیمان کے اراکین پر تنقید کرتے ہوئے کہا: وہ فیک نیوز نیٹ ورک کے جال میں ایسے پھنسے کہ انہوں نے اس نیٹ ورک کی اصلیت کو پَرکھے یا جانے بغیر ان کے جھوٹے مقاصد اور پراپیگنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے یورپ کے اہم ترین فورمز کو استعمال کر ڈالا۔
اس مرحلے پر پاکستان کے دفاعی اداروں اور سلامتی کے ذمہ داروں کو داد نہ دینا بڑی کنجوسی ہو گی۔ ہمارے آئی ایس پی آر نے بار بار ففتھ جنریشن وار کی طرف پاکستانی قوم اور عالمی برادری کی توجہ دلائی۔ وہ اپنے ٹویٹر اکائونٹ کے ذریعے ڈھکے چُھپے الفاظ میں ایسے فیک نیوز پروموٹرز کا ذکر کرتے ہیں، اور ہمیں بتاتے ہیں کہ وہ نقدی وصول کر کے پاک سرزمین کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہیں۔ ان ملک دشمن عناصر نے ڈِس اِنفارمیشن کا جو طریقہ کار شری واستوا سنڈیکیٹ کے ذریعے آگے بڑھایا، اس کا انکشاف ایک پاکستانی بلاگ نے دس سال پہلے کیا تھا۔
اس حقیقت سے کون آنکھیں چُرا سکتا ہے کہ پاکستان پر انڈیا کے صرف ایل او سی کی طرف سے حملے نہیں ہوتے۔ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے مابین بیانیہ کی جنگ عملی زندگی کے سارے فورمز پر جاری ہے‘ جن میں انٹرنیٹ بھی شامل ہے۔ فرق یہ ہے کہ پاکستان کے اقدامات دفاعی نوعیت کے ہوتے ہیں جبکہ پاکستان کے خلاف حملے کئی جگہ سے ہو رہے ہوتے ہیں۔ تازہ مثال ٹویٹر کی جانب سے پاکستان کی حمایت میں ٹویٹ کرنے والے کئی اکائونٹس کو معطل کرنا ہے۔ اس کی وجہ بالکل بھی یہ نہیں تھی کہ یہ فیک اکائونٹس ہیں بلکہ اکائونٹس بند کرنے کی وجہ لکھ کر یہ بتائی گئی کہ پاکستانی اپنے اکائونٹس سے کشمیر کی حمایت میں ٹویٹس کرتے ہیں۔
شری واستوا فیک نیوز سنڈیکیٹ کے بارے میں گورے ملکوں کے تحقیق کار وں کے مُنہ اس وقت کُھلے کے کُھلے رہ گئے جب ان کو پتہ لگا کہ فیک نیوز ویب سائٹس اور پاکستان دشمن این جی اوز کے دفتروں کے پتے اور سَروَرز ایک ہی کنٹرول میں ہیں۔ سارے نیٹ ورک کی سربراہی شری واستوا گروپ کرتا ہے۔ سیدھا مطلب یہ ہوا کہ یورپ اور مغربی دنیا کے نام پر چلنے والی نیوز ویب سائٹس اور این جی اوز کے آفس بھارت سے چلائے جا رہے ہیں۔ یہ جان کر تحقیق کاروں کی دوڑیں لگ گئیں؛ چنانچہ وہ انڈیا پہنچے جہاں بی بی سی ہندی کی نامہ نگار، ''کِرتی دوہے‘‘ اِنہیں ایک خالی عمارت میں لے گئیں۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں